Skip to main content

فَاٰتِ ذَا الْقُرْبٰى حَقَّهٗ وَ الْمِسْكِيْنَ وَابْنَ السَّبِيْلِۗ ذٰلِكَ خَيْرٌ لِّلَّذِيْنَ يُرِيْدُوْنَ وَجْهَ اللّٰهِۖ وَاُولٰۤٮِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ

So give
فَـَٔاتِ
تو دو
the relative
ذَا
قرابت دار کو
the relative
ٱلْقُرْبَىٰ
قرابت دار کو
his right
حَقَّهُۥ
حق اس کا
and the poor
وَٱلْمِسْكِينَ
اور مسکین کو
and the wayfarer
وَٱبْنَ
اور مسافر کو
and the wayfarer
ٱلسَّبِيلِۚ
مسافر کو
That
ذَٰلِكَ
یہ
(is) best
خَيْرٌ
بات بہتر ہے
for those who
لِّلَّذِينَ
ان لوگوں کے لیے
desire
يُرِيدُونَ
جو چاہتے ہیں
(the) Countenance
وَجْهَ
خوشنودی
(of) Allah
ٱللَّهِۖ
اللہ کی
And those
وَأُو۟لَٰٓئِكَ
اور یہی لوگ ہیں
they
هُمُ
وہ
(are) the successful ones
ٱلْمُفْلِحُونَ
جو فلاح پانے والے ہیں

تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:

پس (اے مومن) رشتہ دار کو اس کا حق دے اور مسکین و مسافر کو (اُس کا حق) یہ طریقہ بہتر ہے اُن لوگوں کے لیے جو اللہ کی خوشنودی چاہتے ہوں، اور وہی فلاح پانے والے ہیں

English Sahih:

So give the relative his right, as well as the needy and the traveler. That is best for those who desire the face [i.e., approval] of Allah, and it is they who will be the successful.

ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi

پس (اے مومن) رشتہ دار کو اس کا حق دے اور مسکین و مسافر کو (اُس کا حق) یہ طریقہ بہتر ہے اُن لوگوں کے لیے جو اللہ کی خوشنودی چاہتے ہوں، اور وہی فلاح پانے والے ہیں

احمد رضا خان Ahmed Raza Khan

تو رشتہ دار کو اس کا حق دو اور مسکین اور مسافر کو یہ بہتر ہے ان کے لیے جو اللہ کی رضا چاہتے ہیں اور انہیں کا کام بنا،

احمد علی Ahmed Ali

پھر رشتہ دار اور محتاج اور مسافر کو اس کا حق دے یہ بہتر ہے ان کے لیے جو الله کی رضا چاہتے ہیں اور وہی نجات پانے والے ہیں

أحسن البيان Ahsanul Bayan

پس قرابت دار کو مسکین کو مسافر کو ہر ایک کو اس کا حق دیجئے (١) یہ ان کے لئے بہتر ہے جو اللہ تعالٰی کا منہ دیکھنا چاہتے ہوں (٢) ایسے لوگ نجات پانے والے ہیں۔

٣٨۔١ جب وسائل رزق تمام تر اللہ ہی کے اختیار میں ہیں اور وہ جس پر چاہے اس کے دروازے کھول دیتا ہے تو اصحاب ثروت کو چاہیے کہ وہ اللہ کے دیئے ہوئے مال میں سے ان کا حق ادا کرتے رہیں جو ان کے مال میں مستحق رشتے داروں، مسکین اور مسافروں کا رکھا گیا ہے۔ رشتہ دار کا حق اس لئے مقدم کیا کہ اس کی فضیلت زیادہ ہے حدیث میں آتا ہے کہ غریب رشتہ دار کے ساتھ احسان کرنا دوہرے اجر کا باعث ہے۔ ایک صدقے کا اجر اور دوسرا صلہ رحمی کا۔ علاوہ ازیں اسے حق سے تعبیر کر کے اس طرف بھی اشارہ فرمایا کہ امداد کر کے ان پر احسان نہیں کرو گے بلکہ ایک حق کی ہی ادائیگی کرو گے۔
٣٨۔٢ یعنی جنت میں اس کے دیدار سے مشرف ہونا۔

جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry

تو اہلِ قرابت اور محتاجوں اور مسافروں کو ان کا حق دیتے رہو۔ جو لوگ رضائے خدا کے طالب ہیں یہ اُن کے حق میں بہتر ہے۔ اور یہی لوگ نجات حاصل کرنے والے ہیں

محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi

پس قرابت دار کو مسکین کو مسافر کو ہر ایک کو اس کا حق دیجئے، یہ ان کے لئے بہتر ہے جو اللہ تعالیٰ کا منھ دیکھنا چاہتے ہوں، ایسے ہی لوگ نجات پانے والے ہیں

محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi

پس (اے رسول(ص)) آپ (اپنے) قرابتدار مسکین اور مسافر کو ان کا حق دے دیں۔ یہ ان لوگوں کیلئے بہتر ہے جو رضائے خدا کے طلبگار ہیں اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔

علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi

اور تم قرابتدار مسکین اور غربت زدہ مسافر کو اس کا حق دے دو کہ یہ ان لوگوں کے حق میں خیر ہے جو رضائے الہٰی کے طلب گار ہیں اور وہی حقیقتا نجات حاصل کرنے والے ہیں

طاہر القادری Tahir ul Qadri

پس آپ قرابت دار کو اس کا حق ادا کرتے رہیں اور محتاج اور مسافر کو (ان کا حق)، یہ ان لوگوں کے لئے بہتر ہے جو اﷲ کی رضامندی کے طالب ہیں، اور وہی لوگ مراد پانے والے ہیں،

تفسير ابن كثير Ibn Kathir

صلہ رحمی کی تاکید
قرابتداروں کے ساتھ نیکی سلوک اور صلہ رحمی کرنے کا حکم ہو رہا ہے مسکین اسے کہتے ہیں جس کے پاس کچھ نہ ہو یا کچھ ہو لیکن بقدر کفایت نہ ہو۔ اس کے ساتھ بھی سلوک واحسان کرنے کا حکم ہو رہا ہے مسافر جس کا خرچ کم پڑگیا ہو اور سفر خرچ پاس نہ رہا ہو اس کے ساتھ بھی بھلائی کرنے کا ارشاد ہوتا ہے۔ یہ ان کے لیے بہتر ہے جو چاہتے ہیں کہ قیامت کے دن دیدار اللہ کریں حقیقت میں انسان کے لئے اس سے بڑی نعمت کوئی نہیں۔ دنیا اور آخرت میں نجات ایسے ہی لوگوں کو ملے گی۔ اس دوسری آیت کی تفسیر تو ابن عباس مجاہد ضحاک قتادۃ عکرمہ محمد بن کعب اور شعبی سے یہ مروی ہے کہ جو شخص کوئی عطیہ اس ارادے سے دے کہ لوگ اسے اس سے زیادہ دیں۔ تو گو اس ارادے سے ہدیہ دینا ہے تو مباح لیکن ثواب سے خالی ہے۔ اللہ کے ہاں اس کا بدلہ کچھ نہیں۔ مگر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس سے بھی روک دیا اس معنی میں یہ حکم آپ کے لئے مخصوص ہوگا۔ اسی کی مشابہ آیت ( وَلَا تَمْنُنْ تَسْتَكْثِرُ ۝۽) 74 ۔ المدثر ;6) ہے یعنی زیادتی معاوضہ کی نیت سے کسی کے ساتھ احسان نہ کیا کرو۔ ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ سود یعنی نفع کی دو صورتیں ہیں ایک تو بیوپار تجارت میں سود یہ تو حرام محض ہے۔ دوسرا سود یعنی زیادتی جس میں کوئی حرج نہیں وہ کسی کو اس ارادہ سے ہدیہ تحفہ دینا ہے کہ یہ مجھے اس سے زیادہ دے۔ پھر آپ نے یہ آیت پڑھ کر فرمایا کہ اللہ کے پاس ثواب تو زکوٰۃ کے ادا کرنے کا ہے۔ زکوٰۃ دینے والوں کو بہت برکتیں ہوتی ہیں صحیح حدیث میں ہے کہ جو شخص ایک کجھور بھی صدقے میں دے لیکن حلال طور سے حاصل کی ہوئی ہو تو اسے اللہ تعالیٰ رحمن ورحیم اپنے دائیں ہاتھ میں لیتا ہے اور اسطرح پالتا اور بڑھاتا ہے جس طرح تم میں سے کوئی اپنے گھوڑے یا اونٹ کے بچے کی پرورش کرتا ہے۔ یہاں تک کہ وہی ایک کھجور احد پہاڑ سے بھی بڑی ہوجاتی ہے۔ اللہ ہی خالق ورازق ہے۔ انسان اپنی ماں کے پیٹ سے ننگا بےعلم بےکان بےآنکھ بےطاقت نکلتا ہے پھر اللہ تعالیٰ اسے سب چیزیں عطا فرماتا ہے۔ مال ملکیت کمائی تجارت غرض بیشمار نعمتیں عطا فرماتا ہے۔ دو صحابیوں کا بیان ہے کہ ہم حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے اس وقت آپ کسی کام میں مشغول تھے ہم نے بھی آپ کا ہاتھ بٹایا۔ آپ نے فرمایا کہ دیکھو سرہلنے لگے تب تک بھی روزی سے کوئی محروم نہیں رہتا۔ انسان ننگا بھوکا دنیا میں آتا ہے ایک چھلکا بھی اس کے بدن پر نہیں ہوتا پھر رب ہی اسے روزیاں دیتا ہے۔ اس حیات کے بعد تمہیں مار ڈالے گا پھر قیامت کے دن زندہ کرے گا۔ اللہ کے سوا تم جن جن کی عبادت کررہے ہو ان میں سے ایک بھی ان باتوں میں سے کسی ایک پر قابو نہیں رکھتا۔ ان کاموں میں سے ایک بھی کوئی نہیں کرسکتا۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہی تنہا خالق رازق اور موت زندگی کا مالک ہے وہی قیامت کے دن تمام مخلوق کو جلا دے گا۔ اس کی مقدس منزہ معظم اور عزت وجلال والی ذات اس سے پاک ہے کہ کوئی اس کا شریک ہو یا اس جیسا ہو یا اس کے برابر ہو یا اس کی اولاد ہو یا ماں باپ ہوں وہ احد ہے صمد ہے فرد ہے ماں باپ اولاد سے پاک ہے اس کا کف کوئی نہیں۔