السجدہ آية ۲۳
وَلَقَدْ اٰتَيْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ فَلَا تَكُنْ فِىْ مِرْيَةٍ مِّنْ لِّقَاۤٮِٕهٖ وَجَعَلْنٰهُ هُدًى لِّبَنِىْۤ اِسْرَاۤءِيْلَۚ
طاہر القادری:
اور بیشک ہم نے موسٰی (علیہ السلام) کو کتاب (تورات) عطا فرمائی تو آپ ان کی ملاقات کی نسبت شک میں نہ رہیں (وہ ملاقات آپ سے عنقریب شبِ معراج ہونے والی ہے) اور ہم نے اسے بنی اسرائیل کے لئے ہدایت بنایا،
English Sahih:
And We certainly gave Moses the Scripture, so do not be in doubt over his meeting. And We made it [i.e., the Torah] guidance for the Children of Israel.
1 Abul A'ala Maududi
اِس سے پہلے ہم موسیٰؑ کو کتاب دے چکے ہیں، لہٰذا اُسی چیز کے ملنے پر تمہیں کوئی شک نہ ہونا چاہیے اُس کتاب کو ہم نے بنی اسرائیل کے لیے ہدایت بنایا تھا
2 Ahmed Raza Khan
اور بیشک ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا فرمائی تو تم اس کے ملنے میں شک نہ کرو اور ہم نے اسے بنی اسرائیل کے لیے ہدایت کیا،
3 Ahmed Ali
اور البتہ ہم نے موسیٰ کو کتاب دی تھی پھر آپ اس کے ملنے میں شک نہ کریں اور ہم نے ہی اسے بنی اسرائیل کے لیے راہ نما بنایا تھا
4 Ahsanul Bayan
بیشک ہم نے موسیٰ کو کتاب دی، پس آپ کو ہرگز اس کی ملاقات میں شک نہ کرنا (١) چاہیے اور ہم نے اسے (٢) بنی اسرائیل کی ہدایت کا ذریعہ بنایا۔
٢٣۔١ کہا جاتا ہے کہ اشارہ ہے اس ملاقات کی طرف جو معراج کی رات نبی اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے درمیان ہوئی، جس میں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے نمازوں میں تخفیف کرانے کا مشورہ دیا تھاـ
٢٣۔٢ ' اس ' سے مراد کتاب (تورات) ہے یا خود حضرت موسیٰ علیہ السلام۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور ہم نے موسٰی کو کتاب دی تو تم اُن کے ملنے سے شک میں نہ ہونا اور ہم نے اس (کتاب) کو (یا موسٰی کو) بنی اسرائیل کے لئے (ذریعہ) ہدایت بنایا
6 Muhammad Junagarhi
بیشک ہم نے موسیٰ کو کتاب دی، پس آپ کو ہرگز اس کی ملاقات میں شک نہ کرنا چاہئے اور ہم نے اسے بنی اسرائیل کی ہدایت کا ذریعہ بنایا
7 Muhammad Hussain Najafi
اور بیشک ہم نے موسیٰ (ع)کو کتاب (توراۃ) عطا کی تھی۔ تو آپ کو ایسی کتاب کے ملنے پر شک میں نہیں پڑنا چاہیے اور ہم نے اسے بنی اسرائیل کے لئے ذریعۂ ہدایت بنایا تھا۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور ہم نے موسٰی علیھ السّلام کو بھی کتاب عطا کی ہے لہذا آپ کو اپنے قرآن کے منجانب اللہ ہونے میں شک نہیں ہونا چاہئے اور ہم نے کتاب هموسٰی علیھ السّلام کو بنی اسرائیل کے لئے ہدایت قرار دیا ہے
9 Tafsir Jalalayn
اور ہم نے موسیٰ کو کتاب دی تو تم اس کے ملنے سے شک میں نہ ہونا اور ہم نے اس (کتاب) کو (یا موسیٰ کو) بنی اسرائیل کے لئے (ذریعہ) ہدایت بنایا
آیت نمبر 23 تا 30
ترجمہ : اور بلاشبہ ہم نے موسیٰ کو کتاب تورات عطا کی سو آپ کو ان کی ملاقات کے بارے میں ہرگز شک نہ کرنا چاہیے اور ان
دونوں حضرات کی ملاقات لیلۃ الاسراء میں ہوئی اور ہم نے ان کو یعنی موسیٰ یا کتاب کو بنی اسرائیل کے لئے رہنما بنایا اور جب ان لوگوں نے اپنے دین پر (قائم رہنے) اور اپنے دشمنوں کی جانب سے ایذاؤں پر صبر کیا تو ہم نے ان میں سے ایسے پیشوا بنائے جو ہمارے حکم سے لوگوں کی رہنمائی کرتے تھے (ائمۃ) میں دونوں ہمزوں کی تحقیق کے ساتھ اور ثانی ہمزہ کو ی سے بدل کر بمعنی پیشوا اور ان آیات پر ایمان رکھتے تھے جو ہماری قدرت اور ہماری وحدانیت پر دلالت کرتی ہیں، اور (لَمَّا) ایک قراءت میں لام کے کسرہ اور میم کی تخفیف کے ساتھ ہے (یعنی لِمَا) یقیناً آپ کا رب ان کے درمیان قیامت کے دن ان باتوں (یعنی) امور دین کا فیصلہ کردے گا جن میں وہ اختلاف کررہے ہیں کیا اس بات نے بھی ان کو ہدایت نہیں دی کہ ان سے پہلے ہم نے کتنی ہی امتوں کو ان کے کفر کے سبب سے ہلاک کردیا، حالانکہ یہ لوگ اپنے شام وغیرہ کے سفر میں ان کے مکانوں سے گذرتے ہیں کہ عبرت حاصل کریں، بلاشبہ اس میں ہماری قدرت کے دلائل ہیں کیا یہ تدبر وتذ کر کے طور پر سنتے نہیں ہیں کیا یہ نہیں دیکھتے ہیں کہ ہم پانی کو خشک زمین کی طرف جس میں گھاس نہیں ہوتی پہنچاتے ہیں پھر اس پانی سے ہم کھیتی اگاتے ہیں جس سے وہ اور ان کے جانور کھاتے ہیں کیا پھر بھی یہ اس کو نہیں دیکھتے کہ سمجھ جائیں کہ ہم دوبارہ زندہ کرنے پر قادر ہیں، اور مومنین سے کہتے ہیں کہ ہمارے اور تمہارے درمیان فیصلہ کب ہوگا ؟ اگر تم سچے ہو (توبتاؤ) آپ کہہ دیجئے ان پر عذاب نازل کرکے فیصلے کے دن ان کافروں کو ان کا ایمان کچھ فائدہ نہ دے گا اور نہ ان کو تو بہ یا عذر خواہی کیلئے مہلت دی جائے گی اب آپ ان کا خیال چھوڑ دیجئے اور ان پر نزول عذاب کا انتظار کیجئے وہ بھی آپ پر حادثۂ موت یا قتل کا انتظار کررہے ہیں تاکہ وہ آپ سے راحت پاجائیں، اور یہ حکم جہاد کے حکم سے پہلے کا ہے۔
تحقیق و ترکیب وتسہیل وتفسیری فوائد
قولہ : مِرْیَۃ اسم مصدر بمعنی تردد، شک لِقائِہٖ ضمیر کے مرجع میں چند اقوال ہیں (١) موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف راجع ہے اور لقاء مصدر اپنے مفعول کی طرف مضاف ہے، تقدیر عبارت یہ ہے مِنْ لِقائکَ موسیٰ لیلۃَ الإسراءِ (٢) کتاب کی طرف راجع ہے، اس صورت میں مصدر کی اضافت فاعل اور مفعول دونوں کی طرف درست ہوگی، فاعل کی طرف اضافت کی صورت میں تقدیر عبارت یہ ہوگی مِنْ لقاءِ الکتابِ لمُوسیٰ اور مفعول کی طرف بھی درست ہے، تقدیر عبارت یہ ہوگی لقاء موسیٰ الکتاب یہ بھی احتمال ہے کہ لقائِہٖ کی ضمیر اللہ کی طرف راجع ہو، ای من لقاء موسیٰ اللہ اس صورت میں مصدر کی اضافت مفعول کی طرف ہوگی، اور یہ بھی احتمال ہے کہ لقائہٖ کی ضمیر موسیٰ کی طرف راجع ہو اس صورت میں اضافت فاعل کی طرف ہوگی، یعنی اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ موسیٰ کی اللہ سے ملاقات کے بارے میں شک نہ کیجئے یا اللہ کی موسیٰ (علیہ السلام) سے ملاقات کے بارے میں شک نہ کیجئے (اعراب القرآن لابی البقاء) ان اقوال کے علاوہ بھی اقوال ہیں مگر وہ ضعف سے خالی نہیں۔
قولہ : أئمۃ اس میں ایک قراءت ہمزہ کو ی سے بدل کر بھی ہے یعنی أیِمَّۃً اور یہ قراءت عربیت کے اعتبار سے ہے نہ کہ قراءت سبعہ کے اعتبار سے اور شرح عقائد میں ہے کہ أئمّۃ کی اصل أَأمِمَۃ تھی اسلئے کہ یہ امام کی جمع ہے دو میم جمع ہوئے، اول کا ثانی میں ادغام کردیا، نیز حرکت نقل کرکے ہمزہ کو دیدی أئمۃ ہوا دو ہمزوں کے اجتماع کی کراہت کی وجہ سے ہمزہ مک سورة کو ی سے بدل
دیا أیِمَّۃً ہوگیا۔ قولہ : قادۃ یہ قائد کی جمع ہے بمعنی رہبر، کشندہ، جیسا کہ سادۃٌ سید کی جمع ہے۔
قولہ : لَمَّا صَبَرُوْا جمہور کی قراءت میں لام کے فتحہ اور میم کی تشدید کے ساتھ ہے لَمَّا، حِیْنَ کے معنی میں ہے اور جملہ جزائیہ ہے ای جَعَلْنَا ھم أئِمَّۃً حِیْنَ صَبَرُوْا، صَبَرُوْا کی ضمیر أئِمَّۃ کی طرف راجع ہے اور لَمَّا کا جواب محذوف ہے جس پر جَعَلْنَا مِنْھُمْ دلالت کررہا ہے، تقدیر عبارت یہ ہے لَمَّا صَبَرُوْ ا جَعَلْنا مِنْھُمْ أئِمَّۃً حمزہ اور کسائی کی قراءت میں لِمَا لام کے کسرہ اور میم کی تخفیف کے ساتھ ہے اس صورت میں لام تعلیلیہ ہوگا اور مصدریہ ای بسبب صبرھم علیٰ دینِھِمْ وعلیَ البَلَاءِ مِنْ عدُوِّھم . (جمل)
قولہ : بَیْنَھُمْ سے یا تو انبیاء (علیہم السلام) اور ان کی امتیں مراد ہیں، یا مومنین و مشرکین مراد ہیں۔
قولہ : اَوَلَمْ یَھْدِلھم کا عطف محذوف پر ہے ای أَغفلُوْا ولَمْ یتبیَّن لَھُمْ یا ألمْ یَتَّعِظُوْا .
قولہ : یَھْدِلَھُمْ کا فاعل مضمون جملہ ہے جیسا کہ مفسر علام نے ھَلَا کُنَا کہہ کر اشارہ کردیا ہے، اگر حذف فاعل پر قرینہ موجود ہو تو فاعل کو حذف کرنا جائز ہے۔ قولہ : فی ذٰلِکَ ای فی کَثْرَۃِ اِھْلاَکِ الْاُمَمِ الماضِیَۃِ.
قولہ : الْجُرُزُ اس زمین کو کہتے ہیں جس کی گھاس وغیرہ کاٹ کر سپاٹ میدان کردیا گیا ہو یا بِسَۃً اس کے لازم معنی ہیں۔
تفسیر وتشریح
وَلَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسی الْکِتَابَ.
سوال : اس آیت میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اعطاء کتاب کا ذکر کس مناسبت سے کیا گیا ہے ؟ حالانکہ زمانہ کے اعتبار سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) قریب ہیں۔
جواب : پہلی بات تو یہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے بہت سے احوال میں قریبی مشابہت ہے، جس کی وجہ سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا ذکر فرمایا، دوسری وجہ یہ ہے کہ جن لوگوں پر حجت قائم کرنی مقصود تھی وہ یہود و نصاریٰ ہیں یہود چونکہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے قائل نہیں تھے اس لئے اگر عیسیٰ (علیہ السلام) کا ذکر کیا جاتا تو یہود کے لئے قابل نہ ہوتا اور حضرت موسیٰعلیہ الصلاۃ والسلام چونکہ یہود و نصاریٰ کے لئے متفق علیہ نبی ہیں دونوں ان کو مانتے ہیں قابل قبول تھے، اس سے بھی حضرت موسیٰ کے ذکر کو اختیار فرمایا۔ (صاوی مع الاضافۃ)
وَلَقَدْ اٰتَیْنَا (الآیۃ) یہ درمیان میں جملہ معترضہ ہے یعنی بلا شبہ موسیٰ کو کتاب دی گئی اور آپ کو بھی اسی طرح کتاب ملی ہے اس میں بھی شک وشبہ نہیں ہے، یا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ذکر پر فرمایا کہ آپ کی ملاقات شب معراج میں جو موسیٰ (علیہ السلام) سے ہوئی تھی وہ حقیقت ہے کوئی دھوکا یا نظر بندی نہیں ہے۔ (فوائدعثمانی)
فلا۔۔ لقائہٖ واجدی نے فرمایا کہ مفسرین نے کہا ہے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے وعدہ فرمایا گیا کہ آپ کی ملاقات دینوی زندگی ہی میں موسیٰعلیہ الصلاۃ والسلام سے ہوگی، لہٰذا آپ کی ملاقات بیت المقدس میں لیلیۃ الاسراء میں اور آسمانوں پر معراج میں ہوئی۔
لِقاء کے معنی ملاقات کے ہیں، اس آیت میں کس کی ملاقات کس سے مراد ہے اس میں مفسرین کے اقوال مختلف ہیں ان
میں ایک یہ ہے کہ لقائہٖ کی ضمیر کتاب یعنی قرآن کی طرف راجع ہے، مطلب یہ ہے کہ جس طرح موسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے کتاب دی تھی آپ بھی اس کتاب کے آنے میں کوئی شک نہ کریں جیسا کہ ایک دوسری آیت میں قرآن کے متعلق ایسے الفاظ آئے ہیں وانَّکَ لتلقی القرآن اور حضرت ابن عباس (رض) اور قتادہ (رض) سے اس کی تفسیر اس طرح منقول ہے کہ لقائہٖ کی ضمیر حضرت موسیٰ کی طرف راجع ہے اور اس آیت میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ملاقات موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ ہونے کی خبر دی گئی ہے، اور فرمایا کہ آپ اس میں شک نہ کریں کہ آپ کی ملاقات موسیٰ (علیہ السلام) سے ہوگی، چناچہ ایک ملاقات کا تو شب معراج میں ہونا احادیث صحیحہ سے ثابت ہے پھر قیامت میں ملاقات ہونا بھی ثابت ہے۔ اور حسن بصری (رح) تعالیٰ نے اس کی یہ تفسیر فرمائی ہے کہ جس طرح موسیٰ (علیہ السلام) کو ایک کتاب دی گئ اور لوگوں نے ان کی تکذیب کی اور ان کو ستایا، آپ بھی یقین رکھیں کہ یہ سب چیزیں آپ کو بھی پیش آئیں گی اس لئے آپ کفار کی ایذاؤں سے رنجیدہ نہ ہوں بلکہ اس کو سنت انبیاء سمجھ کر برداشت کریں۔
وجعلنا۔۔ أئمۃ (الآیۃ) اس آیت سے صبر کی فضیلت واضح ہے، صبر کا مطلب ہے اللہ تعالیٰ کے اوامر کے بجالانے اور ترک زواجر میں، اور اللہ کے رسولوں کی تصدیق اور ان کے اتباع میں جو تکلیفیں آئیں انہیں خندہ پیشانی سے برداشت کرنا، اللہ تعالیٰ نے فرمایا ان کے صبر کرنے اور آیات الہٰیہ پر یقین رکھنے کی وجہ سے ہم نے ان کو دینی امامت اور پیشوائی کے منصب پر جائز کیا، لیکن جب انہوں نے اس کے برعکس تبدیل و تحریف کا ارتکاب کیا تو ان سے یہ مقام سلب کرلیا گیا چناچہ اس کے بعد ان کے دل سخت ہوگئے، پھر نہ ان کا عمل صالح رہا اور نہ ان کا اعتقاد صحیح۔
خلاصہ یہ ہے کہ امامت اور پیشوائی کے لائق اللہ تعالیٰ کے نزدیک صرف وہ لوگ ہیں جو عمل میں کافی کامل ہوں اور علم میں بھی اور یہاں عملی کمال پر مقدم بیان فرمایا ہے حالانکہ طبعی ترتیب کے اعتبار سے علم عمل سے مقدم ہوتا ہے، اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ علم قابل اعتبار ہی نہیں جس کے ساتھ عمل نہ ہو۔ (معارف)
شان نزول : کفار مکہ کی جانب سے رات دن کی ایذاؤں سے تنگ آکر مسلمان مشرکین سے کہا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ عنقریب مسلمانوں کو مشرکین پر فتح عطا فرمائیں گے اور ہمارے اور ان کے درمیان ایک روز عملی فیصلہ فرمائیں گے۔ جب مشرکین مسلمانوں کی یہ بات سنتے تھے تو استہزاء واستعجال و تکذیب کے طور پر کہا کرتے تھے کہ یہ فتح و نصرت کا دن کب آئے گا تو اس وقت متیٰ ھٰذا لفتح إن کنتم صادقین نازل ہوئی، اس کے جواب میں حق تعالیٰ نے فرمایا قُلْ یوم الفتحِ لا ینفعُ الذین کفروْا یمَانُھم یعنی آپ ان کے جواب میں یہ کہہ دیجئے کہ تم ہماری فتح کا دن ہم سے کیا پوچھتے ہو وہ دن تو تمہاری مصیبت کا ہوگا کیونکہ جس دن ہماری فتح ہوگی تو اس دن تم عذاب میں گرفتار ہوچکے ہوگے، خواہ دنیا میں جیسے غزوۂ بدر میں ہوا، یا آخرت میں، اور جب اللہ کا عذاب کسی کو پکڑ لیتا ہے پھر اس کا ایمان قبول نہیں کرتا (کذاذکرہ ابن کثیر) اور بعض حضرات نے اس جگہ متیٰ ھٰذا الفتح کے معنی روز قیامت کے کئے ہیں۔
سوال : مشرکین مکہ کے قول ویقولون متیٰ ھٰذا الفتحُ میں وقت فتح کا سوال ہے اور وہ مومنین و کافرین کے درمیان یوم قضا یعنی یوم قیامت ہے تو اس صورت میں مابعد کے جواب کی سوال کے ساتھ کیسے مطابقت ہوگی ؟
جواب : مشرکین مکہ کا سوال چونکہ قیامت کے بارے میں بطور تکذیب و استہزاء کے تھا نہ کہ سوال استفہام، لہٰذا جواب بھی تکذیب و استہزاء کے مطابق تہدید سے دیا جو کہ عین مطابق ہے۔
سوال : جن حضرات نے یوم الفتح کی تفسیر فتح مکہ یا یوم بدر سے کی ہے تو پھر جواب کی تطبیق، یوم الفتح لا ینفعُ الذین کفروا سے کسطرح ہوگی، حالانکہ بعض کفار کو ان دونوں دنوں میں انکے ایمان نے فائدہ پہنچایا، اس لئے کہ جو لوگ ایمان کا ئے وہ طلقاء قرار دیئے گئے
جواب : مراد مشرکین کے مقتولین ہیں ان کے ایمان نے حالت قتل میں ان کو کوئی فائدہ نہیں دیا، جیسا کہ غرق کے یقین کے وقت فرعون کو اس کے ایمان نے کوئی فائدہ نہیں پہنچایا (انموذج جلیل فی بیان اسئلۃ واجو بۃ من غرائب التنزیل، لعلامۃ محمد بن ابی بکر القادر الرازی (رح) تعالیٰ ) ۔ تم بحمداللہ
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک و تعالیٰ نے جب اپنی ان آیات کا ذکر فرمایا جن کے ذریعے سے اس نے اپنے بندوں کو نصیحت کی، اور وہ قرآن مجید ہے جو اس نے نبی مصطفی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل فرمایا، تو اس بات کا تذکرہ فرمایا کہ یہ قرآن کوئی انوکھی کتاب ہے نہ اس کتاب کو لانے والا رسول کوئی انوکھا رسول ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو کتاب دی تھی جو کہ تورات ہے وہ قرآن کی تصدیق کرتی ہے اور قرآن نے اس کی تصدیق کی ہے، دونوں کا حق ایک دوسرے کے مطابق اور موافق ہے اور دونوں کی دلیل ثابت ہے ﴿ فَلَا تَكُن فِي مِرْيَةٍ مِّن لِّقَائِهِ﴾ ” پس آپ اس کے ملنے سے شک میں نہ پڑنا“ کیونکہ حق کے دلائل و براہین ثابت ہوچکے ہیں اس لیے شک و شب ہے کا کوئی مقام نہیں۔ ﴿ وَجَعَلْنَاهُ﴾ ” اور ہم نے اس کو بنایا“ یعنی اس کتاب کو جو ہم نے موسیٰ علیہ السلام کو عطا کی ﴿ هُدًى لِّبَنِي إِسْرَائِيلَ﴾ ” بنی اسرائیل کے لیے ہدایت۔“ یعنی وہ اپنے دین کے اصولوں و فروع میں اس کتاب سے رہنمائی حاصل کرتے تھے۔ اس کی شریعت اور قوانین صرف اسرائیلیوں کے لیے اور اس زمانے کے مطابق تھے۔۔۔ رہا یہ قرآن کریم تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے اسے تمام انسانوں کے لیے ہدایت بنایا ہے کیونکہ یہ اپنے کامل اور عالی شان ہونے کی بنا پر قیامت تک کے لیے تمام مخلوق اور ان کے دینی اور دنیاوی امور میں رہنمائی عطا کرتا ہے۔ ﴿ وَإِنَّهُ فِي أُمِّ الْكِتَابِ لَدَيْنَا لَعَلِيٌّ حَكِيمٌ﴾ )الزخرف : 43؍4) ” اور بے شک یہ لوح محفوظ میں درج ہے جو ہمارے ہاں بہت عالی مرتبہ، حکمت والی کتاب ہے۔ “
11 Mufti Taqi Usmani
aur haqeeqat yeh hai kay hum ney musa ko kitab di thi , lehaza ( aey payghumber ! ) tum uss kay milney kay baaray mein kissi shak mein naa raho , aur hum ney uss kitab ko bano Israel kay liye hidayat banaya tha ,
12 Tafsir Ibn Kathir
شب معراج اور نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)
فرماتا ہے ہم نے موسیٰ کو کتاب تورات دی تو اس کی ملاقات کے بارے میں شک وشبہ میں نہ رہ۔ قتادۃ فرماتے ہیں یعنی معراج والی رات میں۔ حدیث میں ہے میں نے معراج والی رات حضرت موسیٰ بن عمران (علیہ السلام) کو دیکھا کہ وہ گندم گوں رنگ کے لانبے قد کے گھونگریالے بالوں والے تھے ایسے جیسے قبیلہ شنواہ کے آدمی ہوتے ہیں۔ اسی رات میں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو بھی دیکھا وہ درمیانہ قد کے سرخ وسفید تھے سیدھے بال تھے۔ میں نے اسی رات حضرت مالک کو دیکھا جو جہنم کے داروغہ ہیں اور دجال کو دیکھا یہ سب ان نشانیوں میں سے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو دکھائیں پس اس کی ملاقات میں شک وشبہ نہ کر۔ آپ نے یقینا حضرت موسیٰ کو دیکھا اور ان سے ملے جس رات آپ کو معراج کرائی گئی۔ حضرت موسیٰ کو ہم نے بنی اسرائیل کا ہادی بنادیا۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس کتاب کے ذریعہ ہم نے اسرائیلیوں کو ہدایت دی۔ جیسے سورة بنی اسرائیل میں ہے آیت ( وَاٰتَيْنَا مُوْسَي الْكِتٰبَ وَجَعَلْنٰهُ هُدًى لِّبَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ اَلَّا تَتَّخِذُوْا مِنْ دُوْنِيْ وَكِيْلًا ۭ ) 17 ۔ الإسراء :2) یعنی ہم نے موسیٰ کو کتاب دی اور بنی اسرائیل کے لیے ہادی بنادیا کہ تم میرے سوا کسی کو کار ساز نہ سمجھو۔ پھر فرماتا ہے کہ چونکہ اللہ تعالیٰ کے احکام کی بجا آوری اس کی نافرمانیوں کے ترک اس کی باتوں کی تصدیق اور اس کے رسولوں کی اتباع وصبر میں جمے رہے ہم نے ان میں سے بعض کو ہدایت کے پیشوا بنادیا جو اللہ کے احکام لوگوں کو پہنچاتے ہیں بھلائی کی طرف بلاتے ہیں برائیوں سے روکتے ہیں۔ لیکن جب ان کی حالت بدل گئی انہوں نے کلام اللہ میں تبدیلی تحریف تاویل شروع کردی تو اللہ تعالیٰ نے بھی ان سے یہ منصب چھین لیا ان کے دل سخت کردئیے عمل صالح اور اعتقاد صحیح ان سے دور ہوگیا۔ پہلے تو یہ دنیا سے بچے ہوئے تھے حضرت سفیان فرماتے ہیں یہ لوگ پہلے ایسے ہی تھے لہذا انسان کے لئے ضروری ہے کہ اس کا کوئی پیشوا ہو جس کی یہ اقتدا کرکے دنیا سے بچا ہوا رہے آپ فرماتے ہیں دین کے لئے علم ضروری ہے جیسے جسم کے لئے غذا ضروری ہے۔ حضرت سفیان سے حضرت علی (رض) کے اس قول کے بارے میں سوال ہوا کہ صبر کی وجہ سے ان کو ایسا پیشوا بنادیا کہ وہ ہمارے حکم کی ہدایت کرتے تھے۔ آپ نے فرمایا مطلب یہ ہے کہ چونکہ انہوں نے تمام کاموں کو اپنے ذمہ لے لیا اللہ نے بھی انہیں پیشوا بنادیا۔ چناچہ فرمان ہے ہم نے بنی اسرائیل کو کتاب حکمت اور نبوت دی اور پاکیزہ روزیاں عنایت فرمائیں اور جہاں والوں پر فضلیت دی۔ یہاں بھی آیت کے آخر میں فرمایا کہ جن عقائد واعمال میں ان کا اختلاف ہے ان کا فیصلہ قیامت کے دن خود اللہ کرے گا۔