الاحزاب آية ۳۵
اِنَّ الْمُسْلِمِيْنَ وَالْمُسْلِمٰتِ وَالْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ وَالْقٰنِتِيْنَ وَالْقٰنِتٰتِ وَالصّٰدِقِيْنَ وَالصّٰدِقٰتِ وَالصّٰبِرِيْنَ وَالصّٰبِرٰتِ وَالْخٰشِعِيْنَ وَالْخٰشِعٰتِ وَالْمُتَصَدِّقِيْنَ وَ الْمُتَصَدِّقٰتِ وَالصَّاۤٮِٕمِيْنَ وَالصّٰۤٮِٕمٰتِ وَالْحٰفِظِيْنَ فُرُوْجَهُمْ وَالْحٰـفِظٰتِ وَالذّٰكِرِيْنَ اللّٰهَ كَثِيْرًا وَّ الذّٰكِرٰتِ ۙ اَعَدَّ اللّٰهُ لَهُمْ مَّغْفِرَةً وَّاَجْرًا عَظِيْمًا
طاہر القادری:
بیشک مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں، اور مومن مَرد اور مومن عورتیں، اور فرمانبردار مرد اور فرمانبردار عورتیں، اور صدق والے مرد اور صدق والی عورتیں، اور صبر والے مرد اور صبر والی عورتیں، اور عاجزی والے مرد اور عاجزی والی عورتیں، اور صدقہ و خیرات کرنے والے مرد اور صدقہ و خیرات کرنے والی عورتیں اور روزہ دار مرد اور روزہ دار عورتیں، اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے مرد اور حفاظت کرنے والی عورتیں، اور کثرت سے اللہ کا ذکر کرنے والے مرد اور ذکر کرنے والی عورتیں، اللہ نے اِن سب کے لئے بخشِش اور عظیم اجر تیار فرما رکھا ہے،
English Sahih:
Indeed, the Muslim men and Muslim women, the believing men and believing women, the obedient men and obedient women, the truthful men and truthful women, the patient men and patient women, the humble men and humble women, the charitable men and charitable women, the fasting men and fasting women, the men who guard their private parts and the women who do so, and the men who remember Allah often and the women who do so – for them Allah has prepared forgiveness and a great reward.
1 Abul A'ala Maududi
بالیقین جو مرد اور جو عورتیں مسلم ہیں، مومن ہیں، مطیع فرمان ہیں، راست باز ہیں، صابر ہیں، اللہ کے آگے جھکنے والے ہیں، صدقہ دینے والے ہیں، روزہ رکھنے والے ہیں، اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں، اور اللہ کو کثرت سے یاد کرنے والے ہیں، اللہ نے ان کے لیے مغفرت اور بڑا اجر مہیا کر رکھا ہے
2 Ahmed Raza Khan
بیشک مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں اور ایمان والے اور ایمان والیاں اور فرمانبردار اور فرمانبرداریں اور سچے اور سچیاں اور صبر والے اور صبر والیاں اور عاجزی کرنے والے اور عاجزی کرنے والیاں اور خیرات کرنے والے اور خیرات کرنے والیاں اور روزے والے اورروزے والیاں اور اپنی پارسائی نگاہ رکھنے والے اور نگاہ رکھنے والیاں اور اللہ کو بہت یاد کرنے والے اور یاد کرنے والیاں ان سب کے لیے اس نے بخشش اور بڑا ثواب تیار کر رکھا ہے،
3 Ahmed Ali
بیشک الله نے مسلمان مردوں اور مسلمان عورتوں اور ایمان دار مردوں اور ایماندار عورتوں اور فرمانبردار مردوں اور فرمانبردارعورتوں اور سچے مردوں اور سچی عورتوں اور صبر کرنے والے مردوں اور صبر کرنے والی عورتوں اور عاجزی کرنے والے مردوں اور عاجزی کرنے والی عورتوں اور خیرات کرنے والے مردوں اور خیرات کرنے والی عورتوں اور روزہ دار مردوں اور روزدار عورتوں اور پاک دامن مردوں اور پاک دامن عورتوں اور الله کو بہت یاد کرنے والے مردوں اور بہت یاد کرنے والی عورتوں کے لیے بخشش اور بڑا اجر تیار کیا ہے
4 Ahsanul Bayan
بیشک مسلمان مرد اور عورتیں مومن مرد اور مومن عورتیں فرماں برداری کرنے والے مرد اور فرماں بردار عورتیں اور راست باز مرد اور راست باز عورتیں صبر کرنے والے مرد اور صبر کرنے والی عورتیں، عاجزی کرنے والے مرد اور عاجزی کرنے والی عورتیں، خیرات کرنے والے مرد اور خیرات کرنے والی عورتیں، روزے رکھنے والے مرد اور روزے رکھنی والی عورتیں، اپنی شرم گاہ کی حفاظت کرنے والے مرد اور حفاظت کرنے والیاں، بکثرت اللہ کا ذکر کرنے والے اور ذکر کرنے والیاں (ان سب کے) لئے اللہ تعالٰی نے (وسیع مغفرت) اور بڑا ثواب تیار کر رکھا ہے۔
۳۵۔۱حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالٰی عنہ اور بعض دیگر صحابیات نے کہا کہ کیا بات ہے اللہ تعالٰی ہر جگہ مردوں سے ہی خطاب فرماتا ہے عورتوں سے نہیں جس پر یہ آیت نازل ہوئی (مسندا٦ /۳۰۱ترمذی نمبر ۳۲۱۱) اس میں عورتوں کی دل داری کا اہتمام کردیا گیا ہے ورنہ تمام احکام میں مردوں کے ساتھ عورتیں بھی شامل ہیں سوائے ان مخصوص احکام کے جو صرف عورتوں کے لیے ہیں۔ اس آیت اور دیگر آیات سے واضح ہے کہ عبادت واطاعت الہٰی اور اخروی درجات وفضائل میں مرد اور عورت کے درمیان کوئی تفریق نہیں ہے دونوں کے لیے یکساں طور پر یہ میدان کھلا ہے اور دونوں زیادہ سے زیادہ نیکیاں اور اجر و ثواب کماسکتے ہیں جنس کی بنیاد پر اس میں کمی پیشی نہیں کی جائے گے علاوہ ازیں مسلمان اور مومن کا الگ الگ ذکر کرنے سے واضح ہے کہ ان دونوں میں فرق ہے ایمان کا درجہ اسلام سے بڑھ کر ہے جیسا کہ قرآن وحدیث کے دیگر دلائل بھی اس پر دلالت کرتے ہیں۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
(جو لوگ خدا کے آگے سر اطاعت خم کرنے والے ہیں یعنی) مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں اور مومن مرد اور مومن عورتیں اور فرماں بردار مرد اور فرماں بردار عورتیں اور راست باز مرد اور راست باز عورتیں اور صبر کرنے والے مرد اور صبر کرنے والی عورتیں اور فروتنی کرنے والے مرد اور فروتنی کرنے والی عورتیں اور خیرات کرنے والے مرد اور اور خیرات کرنے والی عورتیں اور روزے رکھنے والے مرد اور روزے رکھنے والی عورتیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے مرد اور حفاظت کرنے والی عورتیں اور خدا کو کثرت سے یاد کرنے والے مرد اور کثرت سے یاد کرنے والی عورتیں۔ کچھ شک نہیں کہ ان کے لئے خدا نے بخشش اور اجر عظیم تیار کر رکھا ہے
6 Muhammad Junagarhi
بےشک مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں مومن مرد اور مومن عورتیں فرماں برداری کرنے والے مرد اور فرمانبردار عورتیں راست باز مرد اور راست باز عورتیں صبر کرنے والے مرد اور صبر کرنے والی عورتیں، عاجزی کرنے والے مرد اور عاجزی کرنے والی عورتیں، خیرات کرنے والے مرد اور خیرات کرنے والی عورتیں، روزے رکھنے والے مرد اور روزے رکھنے والی عورتیں اپنی شرمگاه کی حفاﻇت کرنے والے مرد اور حفاﻇت کرنے والیاں بکثرت اللہ کا ذکر کرنے والے اور ذکر کرنے والیاں ان (سب کے) لئے اللہ تعالیٰ نے (وسیع) مغفرت اور بڑا ﺛواب تیار کر رکھا ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
بے شک مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں، مؤمن مرد اور مؤمن عورتیں، اطاعت گزار مرد اور اطاعت گزار عورتیں، سچے مرد اور سچی عورتیں، صابر مرد اور صابر عورتیں، عاجزی کرنے والے مرد اور عاجزی کرنے والی عورتیں، صدقہ دینے والے مرد اور صدقہ دینے والی عورتیں، روزہ دار مرد اور روزہ دار عورتیں، اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے مرد اور حفاظت کرنے والی عورتیں اور اللہ کو بکثرت یاد کرنے والے مرد اور یاد کرنے والی عورتیں اللہ نے ان کیلئے مغفرت اور بڑا اجر و ثواب مہیا کر رکھا ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
بیشک مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں اور مومن مرد اور مومن عورتیں اور اطاعت گزار مرد اور اطاعت گزار عورتیں اور سچے مرد اور سچی عورتیں اور صابر مرد اور صابر عورتیں اور فروتنی کرنے والے مرد اور فروتنی کرنے والی عورتیں اور صدقہ دینے والے مرد اور صدقہ دینے والی عورتیں روزہ رکھنے والے مرد اور روزہ رکھنے والی عورتیں اور اپنی عفّت کی حفاظت کرنے والے مرد اور عورتیں اور خدا کا بکثرت ذکر کرنے والے مرد اور عورتیں.اللہ نے ان سب کے لئے مغفرت اور عظیم اجر مہّیاکررکھا ہے
9 Tafsir Jalalayn
(جو لوگ خدا کے آگے سر اطاعت خم کرنے والے ہیں یعنی) مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں اور مومن مرد اور مومن عورتیں اور فرمانبردار مرد اور فرمانبردار عورتیں اور راست باز مرد اور راست باز عورتیں اور صبر کرنے والے مرد اور صبر کرنے والی عورتیں اور فروتنی کرنے والے مرد اور فروتنی کرنے والی عورتیں اور خیرات کرنے والے مرد اور خیرات کرنے والی عورتیں اور روزے رکھنے والے مرد اور روزے رکھنے والی عورتیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے مرد اور حفاظت کرنے والی عورتیں اور خدا کو کثرت سے یاد کرنے والے مرد اور کثرت سے یاد کرنے والی عورتیں کچھ شک نہیں کہ انکے لئے خدا نے بخشش اور اجر عظیم تیار کر رکھا ہے
آیت نمبر 35 تا 40
ترجمہ : یقیناً مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں اور مومن مرد اور مومن اور فرمانبردار مرد اور فرمانبرادر عورتیں اور ایمان میں مخلص مرد اور مخلص عورتیں صبر کرنے والے مرد اور صبر کرنے والی عورتیں اور خشوع کرنے والے مرد اور خشوع کرنے اولی عورتیں اور خیرات کرنے والے مرد اور خیرات کرنے والی عورتیں اور روزہ رکھنے والے مرد اور زندہ رکھنے والی عورتیں اور حرام سے اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے مرد اور حفاظت کرنے والی عورتیں اور بکثرت ذکر کرنے والے اور ذکر کرنے والیاں ان سب کے لئے اللہ تعالیٰ نے معاصی سے مغفرت اور اطاعت پر اجر عظیم تیار کر رکھا ہے، اور (دیکھو) کسی مومن مرد اور مومن عورت کو اللہ اور اس کے رسول کے فیصلے کے بعد اپنے معاملہ میں اللہ اور اس کے رسول کی خلاف ورزی کرنے کا اختیار باقی نہیں رہتا، یکونُ میں ی اور ت دونوں ہیں یہ آیت عبداللہ بن حجش اور ان کی ہمشیرہ زینب (بنت حجش) کے بارے میں نازل ہوئی ہے، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے زینب کو زید بن حارثہ کے لئے نکاح کا پیغام دیا تھا، جب دونوں بھائی بہن کو اس کی (حقیقت حال) معلوم ہوئی تو پیغام کو ناپسند کیا اس لئے کہ ان دونوں نے اولاً یہ سمجھا تھا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خود اپنے لئے زینب کے نکاح کا پیغام دیا ہے، بعد ازاں آیت مذکورہ کے نازل ہونے کی وجہ سے یہ دونوں راضی ہوگئے (یادرکھو) اللہ اور اس کے رسول کی جو بھی نافرمانی کرے گا وہ صریح گمراہی میں پڑے گا، چناچہ انہوں نے زینب (رض) کا نکاح حضرت زید سے کردیا، پھر کچھ مدت کے بعد آپ کی نظر زینب پر پڑی، تو آپ کے دل میں زینب کی محبت جاگزیں ہوگئی اور زید کے دل میں زینب کی نفرت (پیدا ہوگئی) پھر زید نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ میں زینب کو طلاق دینا چاہتا ہوں، آپ نے فرمایا اپنی بیوی کو (نکاح میں) رہنے دے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا جب آپ اس شخص سے کہہ رہے تھے جس پر اللہ نے اسلام کے ذریعہ انعام فرمایا اور آزاد کرکے آپ نے بھی اس پر احسان فرمایا وہ زید بن حارثہ ہیں، یہ زمانہ جاہلیت کے قیدیوں میں سے تھے، جن کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بعثت سے پہلے خریدا تھا، اور آزاد کرکے متبّٰنی بنالیا تھا، اپنی بیوی (زینب) کو اپنی زوجیت میں رہنے دے اور اس کی طلاق کے معاملہ میں خدا سے ڈر، اور آپ اپنے دل میں (وہ بات) چھپائے ہوئے تھے جس کو اللہ ظاہر کرنے والا تھا، اور وہ زینب کی محبت تھی اور یہ کہ اگر زید اس کو طلاق دیدیں تو میں اس سے نکاح کرلوں، اور آپ لوگوں کی اس بات سے ڈرتے تھے کہ لوگ کہیں گے کہ محمد نے اپنے بیٹے کی بیوی سے نکاح کرلیا، اور ڈرنا تو آپ کے لئے ہر چیز میں خدا ہی سے سزاوار ہے اور وہ آپ کا اس سے نکاح کرے گا، اور آپ کو لوگوں کی بات کا کچھ اندیشہ نہ کرنا چایئے، بعد ازاں زید نے زینب کو طلاق دیدی اور اس کی عدت بھی گذر گئی، اور اللہ نے فرمایا پس جب زید نے اس سے اپنی حاجت پوری کرلی اور ہم نے آپ کا اس سے نکاح کردیا تو آپ زینب کے پاس بلا اجازت تشریف لے گئے اور مسلمانوں کو (ولیمہ) میں گوشت اور روٹی پیٹ بھر کر کھلائی تاکہ مومنین کے لئے ان متبناؤں سے نکاح کے بارے میں تنگی نہ ہو جب ان سے اپنی حاجت پوری کرلیں اور اللہ کا امر فیصل کردہ حکم تو ہونے ہی والا تھا جو چیز اللہ نے نبی کے لئے فرض یعنی حلال کردی اس (کے کرنے) میں نبی پر کوئی حرج نہیں انبیاء سابقین کے حق میں بھی اللہ تعالیٰ نے ایسا ہی طریقہ رکھا تھا یہ کہ ان کے لئے اس میں کوئی حرج نہیں ہے ان کے لئے نکاح میں سہولت پیدا کرنے کے لئے سنَّۃً پر نزع خافض کی وجہ سے نصب دیا گیا ہے اللہ کا حکم یعنی اس کا فعل مقرر کیا ہوا ہوتا ہے الَّذینَ سابق اَلَّذِیْنَ کی صفت ہے، یہ سب ایسے تھے کہ جو اللہ تعالیٰ کے احکام پہنچایا کرتے تھے اور اللہ ہی سے ڈرتے تھے یہی وجہ ہے کہ وہ ان کاموں میں کہ جو اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے حلال کردیئے لوگوں کی باتوں (طعنوں) کی پرواہ نہیں کرتے تھے اور اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کے اعمال کی محافظت اور محاسبت کے اعتبار سے کافی ہے (لوگو) محمد تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں لہٰذا زید کے باپ یعنی اس کے والد (بھی) نہیں اس لئے ان کے لئے زید کی بیوی زینب سے نکاح حرام نہیں لیکن آپ اللہ کے رسول ہیں اور تمام نبیوں کے سلسلے کے ختم کرنے والے ہیں لہٰذا آپ کا کوئی بیٹا بالغ نہیں کہ آپ کے بعد نبی ہو اور ایک قراءت میں تا کے فتحہ کے ساتھ ہے یعنی مہر، مطلب یہ کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذریعہ انبیاء کا سلسلہ سر بمہر کردیا اور اللہ تعالیٰ ہر شئ سے بخوبی واقف ہے اور ان ہی میں سے یہ بات بھی ہے کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں، اور جب سیدنا عیسیٰ
(علیہ السلام) نزول فرمائیں گے، تو آپ کی شریعت کے مطابق فیصلہ فرمائیں گے۔
تحقیق و ترکیب وتسہیل وتفسیری فوائد
سوال : المؤمنین والمؤمنات کا عطف المسلمین والمسلمات پر کیا گیا ہے حالانکہ شرعاً دونوں ایک ہی ہیں اور عطف کے لئے مغایرت ضروری ہے۔
جواب : مفہوم کے اعتبار سے دونوں مختلف ہیں، اس لئے کہ اسلام بما جاء بہ النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تصدیق قلبی کے ساتھ شہادتین کے تلفظ کا نام ہے، اور ایمان اذعان قلبی کا نام ہے، نطق باللسان کی شرط کیساتھ، اور عطف کیلئے ادنیٰ مغایرت کافی ہے۔
قولہ : والحافظات کے مفعول ماقبل کی دلالت کی وجہ سے حذف کردیا گیا ہے، تقدیر عبارت یہ ہے والحافظَاتِ فَرُوْجَھُنَّ ۔
قولہ : اِذَاقضَی اللہ ورسولُہ اللہ کا نام تعظیماً اور اس بات کی طرف اشارہ کرنے کے لئے ذکر کیا گیا ہے کہ رسول کا فیصلہ اللہ ہی کا فیصلہ ہے اس لئے کہ رسول اپنی طرف سے کوئی فیصلہ نہیں کرتے۔
قولہ : لمؤمنٍ ، کانَ کی خبر مقدم ہے اور ولا مؤمنۃٍ اس پر معطوف ہے اذَا ظرفیہ متضمن بمعنی شرط ہے، جواب شرط محذوف ہے جس پر نفی مقدم دلالت کررہی ہے اذا ظرفیۃ محضہ کے لئے بھی ہوسکتا ہے اس صورت میں استقر محذوف کا معمول ہوگا جس سے کان کی خبر متعلق ہے، تقدیر عبارت یہ ہوگی ومَا کان مستقرًّا لمؤمنٍ ولا مُؤْمنۃٍ وقت قضاء اللہ کون خیرۃ لہٗ فی امرہ۔ (جمل)
قولہ : الاخیتار، سے کرکے اشارہ کردیا کہ الخیرۃُ مصدر غیر قیاسی ہے۔
قولہ : خلافَ امر اللہ یہ الخیرۃ کا مفعول کی وجہ ہونے کی وجہ سے منصوب ہے۔
قولہ : مِن امرھم یہ الخیرۃَ سے حال ہے۔ قولہ : مِن محبتھا یہ ما ابداہُ کا بیان ہے۔
قولہ : سُنَّۃَ اللہ مصدر کی وجہ سے بھی منصوب ہوسکتا ہے۔ قولہ : قدرًا مقدورً ، مقدورًا، قدرًا کی تاکید ہے، جیسے ظِلاًّ ظَلیلاً ولیلٌ اَلْیَلُ.
قولہ : ولکن رسول اللہ جمہور کی قراءت لکِنْ تخفیف کے ساتھ ہے اور رَسُوْلَ کا نصب کان محذوف کی خبر ہونے کی وجہ سے ہے۔
تفسیر وتشریح
شان نزول : اِنَّ الْمُسْلِمینَ وَالْمُسْلِماتِ. (الآیۃ) حضرت ام سلمہ (رض) اور دیگر بعض صحابیات نے کہا کہ کیا بات ہے کہ اللہ ہر جگہ مردوں ہی سے خطاب فرماتا ہے، عورتوں سے نہیں اس پر ان المسلمین والمسلماتِ (الآیۃ) نازل ہوئی (مسند احمد ٦/٣٠١، ترمذی شریف ٣٢١١) اس میں عورتوں کی دل داری کا اہتمام ہے ورنہ تمام احکام میں مردوں کے ساتھ عورتیں بھی شامل ہیں، سوائے ان مخصوص احکام کے جو صرف عورتوں کے لئے ہیں اس آیت اور دیگر آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ عبادت اور اطاعت الہٰی اور اخروی درجات و فضائل میں مردوں اور عورتوں کے درمیان کوئی تفریق نہیں ہے، دونوں کے لئے یکساں طور پر میدان کھلا ہوا ہے، جنس کی بنیاد پر اسمیں کمی بیشی نہیں کی جائیگی، علاوہ ازیں مسلمان اور مومن کا الگ الگ ذکر کرنے سے واضح ہے کہ ان دونوں میں فرق ہے، ایمان کا درجہ اسلام سے بڑھکر ہے جیسا کہ قرآن و حدیث کے دیکر دلائل بھی اس پر دلالت کرتے ہیں
شان نزول : وما۔۔۔ مؤمنۃٍ (الآیۃ) یہ آیت حضرت زینب (رض) کے نکاح کے بارے میں نازل ہوئی تھی، حضرت زید بن حارثہ (رض) اگرچہ اصلاً عرب تھے، لیکن غارت گروں نے انہیں بچپن میں زبردستی پکڑ کر بطور غلام بیچ دیا تھا، حضرت خدیجہ (رض) سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نکاح سے پہلے حضرت خدیجہ کے بھتیجے حکیم بن حزام نے حضرت خدیجہ کے لئے زید حارثہ کو خریدا تھا، اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نکاح کے بعد حضرت خدیجہ نے آپ کو ہبہ کردیا تھا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے زید بن حارثہ پر یہ احسان کیا کہ ان کو آزاد کردیا اور آزاد کرنے کے بعد ان کو یہ شرف بخشا کہ عرب کے عام رواج کے مطابق ان کو اپنا متبّٰنی بنا لیا اور ان کی پرورش و تربیت فرمائی، لوگ ان کو زید بن محمد کے نام سے پکارتے تھے، قرآن کریم نے اس کو جاہلیت کی رسم قرار دے کر ممانعت کردی، اور حکم فرمادیا کہ اس کے اصل باپ کی طرف نسبت کرکے پکارا جائے، اُدْعُوْ ھم لآبائھم اس حکم کے نازل ہونے کے بعد صحابہ نے ان کو زید بن محمد کے بجائے زید بن ضارثہ کہنا شروع کردیا، زید بن حارثہ جب جوان ہوئے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے نکاح کے لئے اپنی پھوپھی زاد بہن زینب بنت حجش کا انتخاب فرما کر پیغام نکاح دیا، حضرت زید کے دامن پر چونکہ غلامی کا دھبہ لگا ہوا تھا اسلئے کہ آزاد کردہ غلام تھے، حضرت زینب اور انکے بھائی عبداللہ بن حجش نے اس رشتہ سے انکار کردیا، کہ ہم باعتبار خاندان اور نسب کے ان سے افضل ہیں، اس واقعہ پر مذکورہ آیت نازل ہوئی۔ اس آیت کو جب حضرت زینب (رض) اور انکے بھائی نے سنا تو نکاح پر راضی ہوگئے، چناچہ نکاح کردیا گیا، مہر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے پاس سے ادا کیا جو دس دینار سرخ (تقریباً چار تولہ سونا ہوتا ہے) اور ساٹھ درہم (جس کی تقریباً اٹھارہ تولہ چاندی ہوتی ہے) اور ایک بار برداری کا جانور اور مکمل ایک زنانہ جوڑا، اور پچاس مد آٹا (یعنی تقریباً پچیس سیر) اور دس مد (یعنی پانچ سیر) کھجور تھا۔ (ابن کثیر، معارف القرآن)
طلاق کی نوبت : نکاح تو ہوگیا مگر چونکہ دونوں کے مزاج میں فرق تھا، بیوی کے مزاج میں خاندانی نسب و شرف رچا ہوا تھا، جبکہ زید (رض) کے دامن پر غلامی کا داغ تھا، ان کی آپس میں ان بن رہتی تھی، جس کا تذکرہ حضرت زید نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھی کرتے رہتے تھے، اور طلاق کا عندیہ بھی ظاہر کرتے رہتے تھے، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو وحی کے ذریعہ بتلا دیا گیا تھا کہ زید (رض) زینب (رض) کو طلاق دیدیں گے اس کے بعد زینب (رض) آپ کے نکاح میں آئیں گی تاکہ جاہلیت کی اس رسم تبنیت پر ایک کاری ضرب لگا کر واضح کردیا جائے کہ متبّٰنی احکام مصالح کی وجہ سے روکتے اور نباہ کی تلقین فرماتے، حضرت زید پر اللہ کا یہ انعام تھا کہ انہیں قبول اسلام کی توفیق دی، اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا احسان یہ تھا کہ آپ نے ان کی دینی تربیت فرمائی اور ان کو آزاد کرکے اپنا بیٹا قرار دیا، اور اپنی پھوپھی زاد بہن زینب بنت حجش سے نکاح کرادیا، دل میں چھپانے والی بات یہی تھی جو آپ کو حضرت زینب (رض) سے نکاح کی بابت بذریعہ وحی بتائی گئی تھی، آپ اس بات سے ڈرتے تھے کہ لوگ کہیں گے اپنی بہو سے نکاح کرلیا، حالانکہ جب اللہ کو آپ کے ذریعہ سے اس رسم جاہلیت کا خاتمہ کرانا تھا تو پھر لوگوں سے ڈرنے کی ضرورت نہیں تھی، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ خوف اگرچہ فطری و طبعی تھا اس کے باوجود آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تنبیہ فرمائی گئی، ظاہر کرنے سے مراد ہے کہ یہ نکاح ہو کر رہے گا جس سے یہ بات سب کے علم میں آجائے گی۔ آخر کار پیشین گوئی کے مطابق حضرت زید (رض) نے طلاق دیدی اور عدت سے فارغ ہونے کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نکاح حضرت زینب (رض) سے معروف طریقہ کے برخلاف صرف اللہ کے حکم سے قرار پا گیا۔
لکی۔۔۔ ھم یہ حضرت زینب سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نکاح کی علت ہے کہ آئندہ کوئی مسلمان اس بارے میں تنگی محسوس نہ کرے اور حسب ضرورت اپنے متبنیٰ کی مطلقہ بیوی سے نکاح کیا جاسکے، اور چونکہ یہ پورا واقعہ اولاً حضرت زید (رض) کا نکاح اور پھر طلاق بعد ازاں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حضرت زینب سے نکاح تقدیر خداوندی میں تھا، جو بہر صورت ہو کر رہنا تھا، آئندہ آیت میں اسی واقعہ کی طرف اشارہ ہے، چونکہ یہ نکاح آپ کے لئے حلال تھا اس میں کوئی گناہ اور تنگی والی بات نہیں ہے، اور انبیاء سابقین بھی ایسے کاموں کے کرنے میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتے تھے جو اللہ کی طرف سے ان پر فرض قرار دیئے جاتے تھے چاہے قومی اور عوامی رسم و رواج کے خلاف ہی کیوں نہ ہوں۔
ما۔۔۔ لکم (لوگو) تمہارے مردوں میں سے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی کے باپ نہیں، البتہ آپ اللہ کے رسول ہیں (جو امت کا روحانی باپ ہوتا ہے) اور تمام نبیوں کے سلسلہ کو ختم کرنے والے ہیں، اور جب محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں تو زید بن حارثہ کے بھی باپ نہیں ہیں، جس پر آپ کو موردطعن بنایا جاسکے کہ انہوں نے اپنی بہو سے نکاح کیوں کرلیا ؟ بلکہ ایک زید (رض) ہی کیا وہ تو کسی بھی مرد کے باپ نہیں ہیں، کیونکہ زید تو حارثہ کے بیٹے تھے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تو انہیں متبنیٰ بنایا تھا، اور جاہلی دستور کے مطابق انہیں زید بن محمد کہا جاتا تھا، حقیقۃً وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صلبی بیٹے نہیں تھے، اسی لئے ادعوھم لِآ بائھم کے نزول کے بعد انہیں زید بن حارثہ ہی کہا جاتا تھا، علاوہ ازیں حضرت خدیجہ (رض) سے آپکے تین صاحبزادے قاسم، طاہر، طیب ہوئے اور ایک بچہ ابراہیم ماریہ قبطیہ (رض) کے بطن سے پیدا ہوا، لیکن یہ سب کے سب بچپن ہی میں فوت ہوگئے، ان میں سے کوئی بھی رجولیت کی عمر کو نہ پہنچا، بنابریں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صلبی اولاد میں بھی کوئی مرد نہیں بنا کہ جسکے آپ باپ ہوں، خاتَم مہر کو کہتے ہیں اور مہر آخری عمل کو کہا جاتا ہے یعنی آپ پر نبوت و رسالت کا خاتمہ کردیا گیا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد بھی نبوت کا دعویٰ کرے گا، وہ نبی نہیں کذاب ودجال ہوگا، احادیث میں اس مضمون کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے، اور اس پر پوری امت کا اجماع اور اتفاق ہے اور قیامت کے قریب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا نزول ہوگا، جو صحیح اور متواتر روایات سے ثابت ہے تو وہ نبی کی حیثیت سے نہیں آئیگے، بلکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے امتی بنکر آئیں گے، اسلئے ان کا نزول عقیدۂ ختم نبوت کے منافی نہیں ہے
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک و تعالیٰ نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج مطہرات کے لئے ثواب اور (بفرض محال عدم اطاعت کی صورت میں) عذاب کا ذکر کیا اور یہ بھی واضح کیا کہ ان جیسی کوئی عورت نہیں تو اس کے بعد، ان کے علاوہ دیگر عورتوں کا ذکر کیا۔ چونکہ عورتوں اور مردوں کا ایک ہی حکم ہے اس لئے دونوں کے لئے مشترک بیان کیا، چنانچہ فرمایا : ﴿ إِنَّ الْمُسْلِمِينَ وَالْمُسْلِمَاتِ ﴾ ” بلاشبہ مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں“ یہ شریعت کے ظاہری احکام کے بارے میں ہے جبکہ وہ اسے قائم کریں۔ ﴿ وَالْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ ﴾ ” اور ایمان لانے والے مرد اور ایمان لانے والی عورتیں۔“ یہ باطنی امور کے بارے میں ہے مثلاً عقائد اور اعمال قلوب وغیرہ ﴿ وَالْقَانِتِينَ ﴾ یعنی اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرنے والے مرد ﴿ وَالْقَانِتَاتِ ﴾ ” اور اطاعت کرنے والی عورتیں“ ﴿ وَالصَّادِقِينَ ﴾ اور سچ بولنے والے مرد“ اپنے قول و فعل میں ﴿ وَالصَّادِقَاتِ ﴾ ” اور سچ بولنے والی عورتیں“ ﴿ وَالصَّابِرِينَ ﴾ ” اور صبر کرنے والے مرد“ مصائب و آلام پر ﴿وَالصَّابِرَاتِ ﴾ اور صبر کرنے والی عورتیں“ ﴿ وَالْخَاشِعِينَ ﴾ ” اور وہ مرد جو عاجزی کرتے ہیں“ اپنے تمام احوال میں، خاص طور پر عبادات میں اور عبادات میں سے خاص طور پر نمازوں میں ﴿ وَالْخَاشِعَاتِ ﴾ ” اور عاجزی کرنے والی عورتیں۔“ ﴿ وَالْمُتَصَدِّقِينَ ﴾ ” اور وہ مرد جو صدقہ دیتے ہیں“ خواہ یہ صدقہ فرض ہو یا نقل ﴿ وَالْمُتَصَدِّقَاتِ ﴾ ” اور صدقہ دینے والی عورتیں“ ﴿ وَالصَّائِمِينَ ﴾ اور روزہ رکھنے والے مرد“ ﴿ وَالصَّائِمَاتِ ﴾ ” اور روزہ رکھنے والی عورتیں۔“ یہ فرض اور نفل تمام روزوں کو شامل ہے۔ ﴿ وَالْحَافِظِينَ فُرُوجَهُمْ ﴾ زنا اور مقدمات زنا سے اپنی شرم گاہ کی حفاظت کرنے والے مرد ﴿ وَالْحَافِظَاتِ ﴾ ” اور حفاظت کرنے والی عورتیں“ ﴿ وَالذَّاكِرِينَ اللّٰـهَ كَثِيرًا ﴾ اور اپنے اکثر اوقات میں خصوصاً مقررہ اذکار کے اوقات میں مثلاً صبح و شام یا فرض نمازوں کے بعد اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے والے مرد ﴿وَالذَّاكِرَاتِ ﴾ ” اور ذکر کرنے والی عورتیں۔ “
﴿ أَعَدَّ اللّٰـهُ لَهُم ﴾ ” اللہ نے ان کے لئے تیار کر رکھا ہے۔“ یعنی ان لوگوں کے لئے جو ان صفات جمیلہ اور مناقب جلیلہ سے متصف ہیں۔ یہ امور اعتقادات، اعمال قلوب، اعمال جوارح، اقوال لسان، دوسروں کو نفع پہنچانے، بھلائی کے کام کرنے اور شر کو ترک کرنے پر مشتمل ہیں۔ جو کوئی متذکرہ صدر امور پر عمل پیرا ہوتا ہے وہ ظاہری اور باطنی طور پر تمام دین کو قائم کرتا ہے یعنی وہ اسلام، ایمان اور احسان پر عمل کرتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان کے عمل کی یہ جزا دی کہ ان کے گناہوں کو بخش دیا، کیونکہ نیکیاں برائیوں کو ختم کردیتی ہیں ﴿ وَأَجْرًا عَظِيمًا ﴾ اور ان کے لئے بہت بڑا اجر تیار کر رکھا ہے جس کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا۔ اس کا اندازہ صرف وہی کرسکے گا جس کو اللہ تعالیٰ عطا کرے گا۔ وہ ایسی نعمتیں ہوں گی جن کو کسی آنکھ نے دیکھا ہے نہ کسی کان نے سنا ہے اور نہ کسی انسان کے دل میں ان کے خیال کا گزر ہوا ہے۔ ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں بھی ان لوگوں میں شامل کرے۔
11 Mufti Taqi Usmani
beyshak farmanbardaar mard hon ya farmanbardaar aurten , momin mard hon ya momin aurten , ibadat guzaar mard hon ya ibadat guzaar aurten , sachay mard hon ya sachi aurten , sabir mard hon ya sabir aurten , dil say jhukney walay mard hon ya dil say jhukney wali aurten , sadqa kernay walay mard hon ya sadqa kernay wali aurten , roza daar mard hon ya roza daar aurten , apni sharmgahon ki hifazat kernay walay mard hon ya hifazat kernay wali aurten , aur Allah ka kasrat say ziker kernay walay mard hon ya ziker kernay wali aurten , inn sabb kay liye Allah ney maghfirat aur shandaar ajar tayyar ker rakha hai .
12 Tafsir Ibn Kathir
اسلام اور ایمان میں فرق اور ذکر الٰہی۔
ام المومنین حضرت ام سلمہ (رض) نے ایک مرتبہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں عرض کیا کہ آخر اس کی کیا وجہ ہے کہ مردوں کا ذکر تو قرآن میں آتا رہتا ہے لیکن عورتوں کا تو ذکر ہی نہیں کیا جاتا۔ ایک دن میں اپنے گھر میں بیٹھی اپنے سر کے بال سلجھا رہی تھی جب میں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آواز منبر پر سنی میں نے بالوں کو تو یونہی لپیٹ لیا اور حجرے میں آ کر آپ کی باتیں سننے لگی تو آپ اس وقت یہی آیت تلاوت فرما رہے تھے۔ نسائی وغیرہ۔ اور بہت سی روایتیں آپ سے مختصراً مروی ہیں۔ ایک روایت میں ہے کہ چند عورتوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ کہا تھا اور روایت میں ہے کہ عورتوں نے ازواج مطہرات سے یہ کہا تھا۔ اسلام و ایمان کو الگ الگ بیان کرنا دلیل ہے اس بات کی کہ ایمان اسلام کا غیر ہے اور ایمان اسلام سے مخصوص و ممتاز ہے ( قَالَتِ الْاَعْرَابُ اٰمَنَّا 14) 49 ۔ الحجرات :14) والی آیت اور بخاری و مسلم کی حدیث کہ زانی زنا کے وقت مومن نہیں ہوتا پھر اس پر اجماع کہ زنا سے کفر لازم نہیں آتا۔ یہ اس پر دلیل ہے اور ہم شرح بخاری کی ابتداء میں اسے ثابت کرچکے ہیں۔ (یہ یاد رہے کہ ان میں فرق اس وقت ہے جب اسلام حقیقی نہ ہو جیسے کہ امام المحدثین حضرت امام بخاری (رح) نے صحیح بخاری کتاب الایمان میں بدلائل کثیرہ ثابت کیا ہے، واللہ اعلم، مترجم) قنوت سے مراد سکون کے ساتھ کی اطاعت گذاری ہے جیسے ( اَمَّنْ هُوَ قَانِتٌ اٰنَاۗءَ الَّيْلِ سَاجِدًا وَّقَاۗىِٕمًا يَّحْذَرُ الْاٰخِرَةَ وَيَرْجُوْا رَحْمَةَ رَبِّهٖ ۭ قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِيْنَ يَعْلَمُوْنَ وَالَّذِيْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ ۭ اِنَّمَا يَتَذَكَّرُ اُولُوا الْاَلْبَابِ ۧ) 39 ۔ الزمر :9) ، میں ہے اور فرمان ہے ( وَلَهٗ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ كُلٌّ لَّهٗ قٰنِتُوْنَ 26) 30 ۔ الروم :26) یعنی آسمان و زمین کی ہر چیز اللہ کی فرماں بردار ہے اور فرماتا ہے ( يٰمَرْيَمُ اقْنُتِىْ لِرَبِّكِ وَاسْجُدِيْ وَارْكَعِيْ مَعَ الرّٰكِعِيْنَ 43 ) 3 ۔ آل عمران :43) ، اور فرماتا ہے (وَقُوْمُوْا لِلّٰهِ قٰنِتِيْنَ\023\08 ) 2 ۔ البقرة :238) یعنی اللہ کے سامنے با ادب فرماں برداری کی صورت میں کھڑے ہوا کرو۔ پس اسلام کے اوپر کا مرتبہ ایمان ہے اور ان کے اجتماع سے انسان میں فرماں برداری اور اطاعت گذاری پیدا ہوجاتی ہے۔ باتوں کی سچائی اللہ کو بہت ہی محبوب ہے اور یہ عادت ہر طرح محمود ہے۔ صحابہ کبار میں تو وہ بزرگ بھی تھے جنہوں نے جاہلیت کے زمانے میں بھی کوئی جھوٹ نہیں بولا تھا، سچائی ایمان کی نشانی ہے اور جھوٹ نفاق کی علامت ہے۔ سچا نجات پاتا ہے۔ سچ ہی بولا کرو۔ سچائی نیکی کی طرف رہبری کرتی ہے اور نیکی جنت کی طرف۔ جھوٹ سے بچو۔ جھوٹ بدکاری کی طرف رہبری کرتا ہے اور فسق و فجور انسان کو جہنم کی طرف لے جاتا ہے۔ انسان سچ بولتے بولتے اور سچائی کا قصد کرتے کرتے اللہ کے ہاں صدیق لکھ لیا جاتا ہے اور جھوٹ بولتے ہوئے اور جھوٹ کا قصد کرتے ہوئے اللہ کے نزدیک جھوٹا لکھ لیا جاتا ہے اور بھی اس بارے کی بہت سی حدیثیں ہیں۔ صبر ثابت قدمی کا نتیجہ ہے۔ مصیبتوں پر صبر ہوتا ہے اس علم پر کہ تقدیر کا لکھا ٹلتا نہیں۔ سب سے زیادہ سخت صبر صدمے کے ابتدائی وقت پر ہے اور اسی کا اجر زیادہ ہے۔ پھر تو جوں جوں زمانہ گذرتا ہے خواہ مخواہ ہی صبر آجاتا ہے۔ خشوع سے مراد تسکین دلجمعی تواضح فروتنی اور عاجزی ہے۔ یہ انسان میں اس وقت آتی ہے جبکہ دل میں اللہ کا خوف اور رب کو ہر وقت حاضر ناظر جانتا ہو اور اس طرح اللہ کی عبادت کرتا ہو جیسے کہ وہ اللہ کو دیکھ رہا ہے اور یہ نہیں تو کم از کم اس درجے پر وہ ضرور ہو کہ اللہ اسے دیکھ رہا ہے۔ صدقے سے مراد محتاج ضعیفوں کو جن کی کوئی کمائی نہ ہو نہ جن کا کوئی کمانے والا ہو انہیں اپنا فالتو مال دینا اس نیت سے کہ اللہ کی اطاعت ہو اور اس کی مخلوق کا کام بنے۔ بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے سات قسم کے لوگوں کو اللہ تعالیٰ اپنے عرش تلے سایہ دے گا جس دن اس کے سائے کے سوا کوئی سایہ نہ ہوگا ان میں ایک وہ بھی ہے جو صدقہ دیتا ہے لیکن اسطرح پوشیدہ طور پر کہ داہنے ہاتھ کے خرچ کی بائیں ہاتھ کو خبر نہیں لگتی اور حدیث میں ہے صدقہ خطاؤں کو اسطرح مٹا دیتا ہے جس طرح پانی آگ کو بجھا دیتا ہے اور بھی اس بارے کی بہت سی حدیثیں ہیں جو اپنی اپنی جگہ موجود ہیں۔ روزے کی بابت حدیث میں ہے کہ یہ بدن کی زکوٰۃ ہے یعنی اسے پاک صاف کردیتا ہے اور طبی طور پر بھی ردی اخلاط کو مٹا دیتا ہے۔ حضرت سعید بن جبیر (رض) فرماتے ہیں رمضان کے روزے رکھ کر جس نے ہر مہینے میں تین روزے رکھ لئے وہ (وَالصَّاۗىِٕـمِيْنَ وَالـﮩـىِٕمٰتِ وَالْحٰفِظِيْنَ فُرُوْجَهُمْ وَالْحٰفِظٰتِ وَالذّٰكِرِيْنَ اللّٰهَ كَثِيْرًا وَّالذّٰكِرٰتِ ۙ اَعَدَّ اللّٰهُ لَهُمْ مَّغْفِرَةً وَّاَجْرًا عَظِيْمًا 35) 33 ۔ الأحزاب :35) ، میں داخل ہوگیا۔ روزہ شہوت کو بھی جھکا دینے والا ہے۔ حدیث میں ہے اے نوجوانو تم میں سے جسے طاقت ہو وہ تو اپنا نکاح کرلے تاکہ اس سے نگاہیں نیچی رہیں اور پاک دامنی حاصل ہوجائے اور جسے اپنے نکاح کی طاقت نہ ہو وہ روزے رکھے، یہی اس کے لئے گویا خصی ہونا ہے۔ اسی لئے روزوں کے ذکر کے بعد ہی بدکاری سے بچنے کا ذکر کیا اور فرمایا کہ ایسے مسلمان مرد و عورت حرام سے اور گناہ کے کاموں سے بچتے رہتے ہیں۔ اپنی اس خاص قوت کو جائز جگہ صرف کرتے ہیں۔ جیسے اور آیت میں ہے کہ یہ لوگ اپنے بدن کو روکے رہتے ہیں۔ مگر اپنی بیویوں سے اور لونڈیوں سے ان پر کوئی ملامت نہیں۔ ہاں اس کے سوا جو اور کچھ طلب کرے وہ حد سے گذر جانے والا ہے۔ ذکر اللہ کی نسبت ایک حدیث میں ہے کہ جب میاں اپنی بیوی کو رات کے وقت جگا کردو رکعت نماز دونوں پڑھ لیں تو وہ اللہ کا ذکر کرنے والوں میں لکھ لئے جاتے ہیں (ملاحظہ ہو ابو داؤد وغیرہ) حضرت ابو سعید خدری (رض) نے پوچھا کہ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سب سے بڑے درجے والا بندہ قیامت کے دن اللہ کے نزدیک کون ہے ؟ آپ نے فرمایا کثرت سے اللہ کا ذکر کرنے والا۔ میں نے کہا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کی راہ کے مجاہد سے بھی ؟ آپ نے فرمایا اگرچہ وہ کافروں پر تلوار چلائے یہاں تک کہ تلوار ٹوٹ جائے اور وہ خون میں رنگ جائے تب بھی اللہ تعالیٰ کا بکثرت ذکر کرنے والا اس سے افضل ہی رہے گا۔ (مسند احمد) مسند ہی میں ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ کے راستے میں جا رہے تھے جمدان پر پہنچ کر فرمایا یہ جمدان ہے مفرد بن کر چلو۔ آگے بڑھنے والوں نے پوچھا مفرد سے کیا مراد ہے ؟ فرمایا اللہ تعالیٰ کا بہت زیادہ ذکر کرنے والے۔ پھر فرمایا اے اللہ حج و عمرے میں اپنا سر منڈوانے والوں پر رحم فرما ! لوگوں نے کہا بال کتروانے والوں کے لئے بھی دعا کیجئے آپ نے فرمایا یا اللہ سر منڈوانے والوں کو بخش۔ لوگوں نے پھر کتروانے الوں کے لئے درخواست کی تو آپ نے فرمایا کتروانے والے بھی۔ آپ کا فرمان ہے کہ اللہ کے عذابوں سے نجات دینے والا کوئی عمل اللہ کے ذکر سے بڑا نہیں۔ ایک مرتبہ آپ نے فرمایا میں تمہیں سب سے بہتر سب سے پاک اور سب سے بلند درجے کا عمل نہ بتاؤں جو تمہارے حق میں سونا چاندی اللہ کی راہ میں لٹانے سے بھی بہتر ہو اور اس سے بھی افضل ہو جب تم کل دشمن سے ملو گے اور ان کی گردنیں مارو گے اور وہ تمہاری گردنیں ماریں گے۔ لوگوں نے کہا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ضرور بتلائے فرمایا اللہ عزوجل کا ذکر۔ مسند احمد کی ایک حدیث میں ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا کہ کون سا مجاہد افضل ہے ؟ آپ نے فرمایا سب سے زیادہ اللہ کا ذکر کرنے والا۔ اس نے پھر روزے دار کی نسبت پوچھا یہی جواب ملا پھر نماز، زکوٰۃ، حج صدقہ، سب کی بابت پوچھا اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سب کا یہی جواب دیا تو حضرت ابوبکر (رض) نے حضرت عمر (رض) سے کہا پھر اللہ کا ذکر کرنے والے تو بہت ہی بڑھ گئے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہاں۔ کثرت ذکر اللہ کی فضیلت میں اور بھی بہت سی حدیثیں آئی ہیں۔ اسی سورت کی آیت ( يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اذْكُرُوا اللّٰهَ ذِكْرًا كَثِيْرًا 41ۙ ) 33 ۔ الأحزاب :41) کی تفسیر میں ہم ان احادیث کو بیان کریں گے انشاء اللہ تعالیٰ ۔ پھر فرمایا یہ نیک صفتیں جن میں ہوں ہم نے ان کے لئے مغفرت تیار کر رکھی ہے اور اجر عظیم یعنی جنت