سبا آية ۱
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِىْ لَهٗ مَا فِى السَّمٰوٰتِ وَمَا فِى الْاَرْضِ وَلَـهُ الْحَمْدُ فِى الْاٰخِرَةِ ۗ وَهُوَ الْحَكِيْمُ الْخَبِيْرُ
طاہر القادری:
تمام تعریفیں اﷲ ہی کے لئے ہیں، جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے (سب) اسی کا ہے اور آخرت میں بھی تعریف اسی کے لئے ہے، اور وہ بڑی حکمت والا، خبردار ہے،
English Sahih:
[All] praise is [due] to Allah, to whom belongs whatever is in the heavens and whatever is in the earth, and to Him belongs [all] praise in the Hereafter. And He is the Wise, the Aware.
1 Abul A'ala Maududi
حمد اُس خدا کے لیے ہے جو آسمانوں اور زمین کی ہر چیز کا مالک ہے اور آخرت میں بھی اسی کے لیے حمد ہے وہ دانا اور باخبر ہے
2 Ahmed Raza Khan
سب خوبیاں اللہ کو کہ اسی کا مال ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں اور آخرت میں اسی کی تعریف ہے اور وہی ہے حکمت والا خبردار،
3 Ahmed Ali
سب تعریف الله ہی کے لیے ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے سب اسی کا ہے اور آخرت میں بھی اسی کے لیے سب تعریف ہے اور وہ حکمت والا خبردار ہے
4 Ahsanul Bayan
تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے سزاوار ہیں جس کی ملکیت میں وہ سب کچھ ہے جو آسمان اور زمین میں ہے (١) آخرت میں بھی تعریف اسی کے لئے ہے (۲) وہ (بڑی) حکمتوں والا اور پورا خبردار ہے
۱۔۱یعنی اسی کی ملکیت اور تصرف میں ہے اسی کا ارادہ اور فیصلہ اس میں نافذ ہوتا ہے انسان کو جو نعمت بھی ملتی ہے وہ اسی کی پیدا کردہ ہے اور اسی کا احسان ہے اسی لیے آسمان و زمین کی ہرچیز کی تعریف دراصل ان نعمتوں پر اللہ ہی کی حمد و تعریف ہے جن سے اس نے اپنی مخلوق کو نوازا ہے۔
۱۔۲ یہ تعریف قیامت والے دن اہل ایمان کریں گے مثلا (الحمد للہ الذی صدقنا وعدہ) (الحمدللہ الذی ھدٰنا لھذا) (الحمدللہ الذی اذھب عنا الحزن) تاہم دنیا میں اللہ کی حمد و تعریف عبادت ہے جس کا مکلف انسان کو بنایا گیا ہے اور آخرت میں یہ اہل ایمان کی روحانی خوراک ہوگی جس سے انہیں لذت وفرحت محسوس ہوا کرے گی۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
سب تعریف خدا ہی کو (سزاوار) ہے (جو سب چیزوں کا مالک ہے یعنی) وہ کہ جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے سب اسی کا ہے اور آخرت میں بھی اسی کی تعریف ہے۔ اور وہ حکمت والا خبردار ہے
6 Muhammad Junagarhi
تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے سزاوار ہیں جس کی ملکیت میں وه سب کچھ ہے جو آسمانوں اور زمین میں ہے آخرت میں بھی تعریف اسی کے لئے ہے، وه (بڑی) حکمتوں واﻻ اور (پورا) خبردار ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
ہر قِسم کی تعریف اس خدا کیلئے ہے جو آسمانوں اور زمین کی ہر چیز کا مالک ہے اور آخرت میں بھی ہر قسم کی تعریف اسی کیلئے ہے اور وہ بڑا حکمت والا، بڑا باخبر ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
ساری تعریف اس اللہ کے لئے ہے جس کے اختیار میں آسمان اور زمین کی تمام چیزیں ہیں اور اسی کے لئے آخرت میں بھی حمد ہے اور وہی صاحبِ حکمت اور ہر بات کی خبر رکھنے والا ہے
9 Tafsir Jalalayn
سب تعریف خدا ہی کو (سزاوار) ہے (جو سب چیزوں کا مالک ہے یعنی) وہ کہ جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے سب اسی کا ہے اور آخرت میں بھی اسی کی تعریف ہے اور وہ حکمت والا اور خبردار ہے
آیت نمبر 1 تا 9
ترجمہ : شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے، تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے سزاوار ہیں جس کی ملکیت میں وہ سب کچھ ہے جو آسمانوں اور زمین میں ہے، اللہ تبارک و تعالیٰ نے (اس کلام) کے ذریعہ اپنی تعریف فرمائی ہے، اور مراد اس کلام سے، اس کلام کے مضمون کے ذریعہ، کہ وہ ثبوت حمد ہے تعریف کرنا ہے، اور حمد اللہ تعالیٰ کے لئے صفات کمالیہ کا بیان کرنا ہے ملک کے اعتبار سے اور تخلیق کے اعتبار سے اور غلام ہونے کے اعتبار سے اور دنیا کے مانند آخرت میں بھی اسی کی حمد ہے، اس کے اولیاء جب جنت میں داخل ہوں گے تو اس کی حمد بیان کریں گے وہ اپنے فعل میں بڑی حکمتوں والا ہے اور اپنی مخلوق سے باخبر ہے اور وہ ہر اس شئ سے واقف ہے جو زمین میں داخل ہوتی ہے جیسا کہ پانی وغیرہ اور اس شئ سے (بھی) جو زمین سے نکلتی ہے مثلاً گھاس وغیرہ اور اس سے (بھی) جو آسمان سے نازل ہوتی ہے جیسا کہ رزق وغیرہ اور اس سے بھی جو آسمان کی طرف چڑھتی ہے (مثلاً ) اعمال وغیرہ وہ اپنے اولیاء پر رحم کرنے والا ہے (اور) ان کو معاف کرنے والا ہے اور کافر کہتے ہیں کہ ہم پر قیامت نہیں آئے گی آپ ان سے کہہ دیجئے قسم ہے میرے رب کی جو عالم الغیب ہے کہ وہ تم پر یقیناً آئے گی (عالم) کے جر کی صورت میں (رَبِّی) کی صفت ہے اور رفع کی صورت میں مبتداء کی خبر ہے اور ایک قراءت میں علاّمٍ جر کے ساتھ ہے اس سے ایک ذرہ برابر کوئی چیز پوشیدہ نہیں نہ آسمانوں میں اور نہ زمین میں، ذرہ، صغیر ترین چیونٹی کو کہتے ہیں، بلکہ اس سے چھوٹی اور بڑی چیز کھلی کتاب میں موجود ہے اور وہ لوح محفوظ ہے تاکہ روز قیامت وہ ایمان والوں کو اور نیکوکاروں کو اچھا صلہ عطا کرے، یہی لوگ ہیں جن کے لئے مغفرت اور جنت میں عزت کی روزی ہے اور جن لوگوں نے ہماری آیتوں قرآن کو باطل کرکے (رسول) کو نیچا دکھانے کی کوشش کی اور ایک قراءت میں یہاں اور بعد میں معاجِزینَ ہے یعنی ہم کو عاجز فرج کرتے ہوئے یا ہم کو مغلوب گمان کرتے ہوئے، کہ ہم سے بچ کر نکل جائیں گے، ان کے یہ گمان کرنے کی وجہ سے کہ نہ بعث ہے اور نہ عقاب، ایسے لوگوں کے لئے بدترین عذاب ہے اَلِیْمٌٍ بمعنی مؤلم جر اور رفع کے ساتھ رجزٍ کی یا عذابٌ کی صفت ہے اور جن لوگوں کو علم دیا گیا ہے (یعنی) اہل کتاب میں سے (آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر) ایمان لانے والے جیسا کہ عبداللہ بن سلام اور ان کے اصحاب اس قرآن کو جو آپ پر آپ کے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے سمجھتے ہیں کہ وہ حق ہے (ھو) یَرَیٰ کے دو مفعولوں کے درمیان فصل ہے اور وہ عزت والے مستحق ستائش خدا کے راستہ کی طرف رہنمائی کرتا ہے، اور یہ کافر کہتے ہیں یعنی آپس میں تعجب کے طور پر کہتے ہیں کیا ہم تم کو ایک ایسا شخص بتائیں ؟ وہ محمد ہے جو تم کو اس کی خبر دیتا ہے کہ جب تم پوری طرح ریزہ ریزہ ہوجاؤ گے (ممزق) بمعنی تمزیق ہے تب تم کو ازسرنو پیدا کیا جائیگا نہ معلوم اس شخص
نے اللہ پر بہتان لگایا ہے ؟ (اَفْتَریٰ ) ہمزہ کے فتحہ کے ساتھ، استفہام کے لئے ہے اس ہمزۂ استفہام کی وجہ سے ہمزہ وصل سے
مستغنی ہوگیا یا اس کو جنون ہے ؟ جس کی وجہ سے یہ ایسی خیالی باتیں کرتا ہے، اللہ نے فرمایا بلکہ (حقیقت یہ ہے) جو لوگ آخرت پر یقین نہیں رکھتے جو کہ بعث و حساب پر مشتمل ہے وہ آخرت میں عذاب میں اور دنیا میں حق سے دوری کی گمراہی میں ہیں کیا یہ لوگ اپنے آگے پیچھے اپنے اوپر اور نیچے آسمان اور زمین کو نہیں دیکھتے ؟ اگر ہم چاہیں تو انہیں زمین میں دھنسا دیں یا ان پر آسمان کے ٹکڑے گرادیں (کِسَفًا) میں سین کے سکون اور فتحہ کے ساتھ اور ایک قراءت میں تینوں افعال میں ی کے ساتھ ہے یقیناً اس نظر آنے والی چیز میں رجوع کرنے والے بندے کے لئے دلیل ہے یعنی اپنے رب کی جانب رجوع کرنے والے بندے کے لئے (ایسی) دلیل کہ جو اللہ تعالیٰ کے بعث اور ہر مشیئت پر قادر ہونے پر دلالت کرتی ہے۔
تحقیق و ترکیب وتسہیل وتفسیری فوائد
قولہ : وَمَا یَعْرُجُ فِیْھَا . یَعْرُجُ کا صلہ الیٰ آتا ہے نہ کہ فِی مگر چونکہ یَعرُجُ اِسْتِقْرَار کے معنی کو متضمن ہے، اس لئے اس کا تعدیہ فِی کے ذریعہ درست ہے۔
قولہ : قُلْ لَھُمْ بَلیٰ ، بَلیٰ نفی کو رد کرنے اور منفی کو ثابت کرنے کے لئے آتا ہے، مشرکین نے کہا تھا لاَ تَاْتِیْنَا السَّاعَۃُ ان کے اس قول کو رد کرتے ہوئے فرمایا بَلیٰ کیوں نہیں ؟ ضرور آنے والی ہے ای لیس الامر الا اتیانھا .
قولہ : ورَبِّی لتا تِیَنَّکُمْ میں واؤ قسمیہ جارہ ہے، یہ اثبات نفی کی تاکید کے لئے ہے لام جواب قسم کے لئے ہے، تأتِیَنَّکُمْ فعل مضارع مبنی برفتحہ بانون تاکید ثقیلہ ہے، یہ تیسری تاکید ہے، اور کُمْ مفعول بہ ہے۔
قولہ : عالِمِ الْغَیْبِ جر کی صورت میں رب کی صفت یا بدل ہے عالِمٌ مبتداء محذوف کی خبر ہونے کی وجہ سے مرفوع بھی ہوسکتا ہے، ای ھُوَ عَالِمُ الْغَیْبِ ، عَالِمُ الْغَیْبِ مبتداء لا یَعْزُبُ اس کی خبر یَعْزُبُ جمہور کی قراءت میں زا کے ضمہ کے ساتھ ہے، اور کسائی کے نزدیک زا کے کسرہ کے ساتھ ہے (ن، ض) غُزُوْبًا مخفی ہونا، دور ہونا۔
قولہ : کااَصْغَرُ مبتداء مِنْ ذٰلِکَ اس کی خبر، یہ جملہ لا یَغْزُبُ کی تاکید کے لئے ہے۔
قولہ : لِیَجْزِیَ الَّذِیْنَ آمَنُوْا . لَتَا تِیَنَّکُمْ کی علت ہے یعنی قیامت ضرور آئے گی تاکہ اللہ تم کو صلہ دے۔
قولہ : اُولٰٓئِکَ مبتداء لَھُم خبر مقدم ومَغْفِرَۃٌ مبتداء مؤخر جملہ اسمیہ ہو کر اُولٰٓئِکَ مبتداء کی خبر، اور رزقٌ کریمٌ کا موصوف صفت سے مل کر مَغْفِرَۃٌ پر عطف ہے۔
قولہ : وَالَّذِیْنَ سَعَوْ موصول صلہ سے مل کر مبتداء اُولٰئِکَ اور اس کا مابعد خبر دوسری ترکیب یہ بھی ہوسکتی ہے کہ وَالَّذِیْنَ سَعَوْ کا عطف ماقبل الَّذِیْنَ آمَنُوْا پر ہوا ای وَیَجْزِی الَّذِیْنَ سَعَوْ اس صورت میں بعد والا اولٰئِکَ جملہ مستانفہ ہوگا، اور ماقبل والا اولٰئکَ اور اس کا ماتحت معطوفتین کے درمیان جملہ معترضہ ہوگا۔
قولہ : فیمایاتی ای فی آخر السورۃِ.
قولہ : مقدِّرینَ عِجْزَنَا اَوْمُسَابِقِیْنَ لَنَا اس میں لف و نشر مرتب ہے، مقدرین پہلی قراءت کی تشریح ہے اور مُسَابِقِیْنَ لَنَا دوسری قراءت کی تشریح ہے اور مُقَدِّرِیْنَ کا مطلب ہے مُعْتَقِدِیْنَ ۔
قولہ : مُعَاجِزِیْنَ سے مراد مُسَابقینَ ہے مسَابقۃ پر معَاجزۃ کا اطلاق اس لئے کردیا ہے مسابقت کرنے والے آپس میں ایک دوسرے کو عاجز کرنے کی کوشش کرتے ہیں، مگر یہاں باب مفاعلہ اپنے معنی میں نہیں ہے، اس لئے کہ اللہ کو عاجز کرنا متصور نہیں ہے، لہٰذا یہ عاجز کرنا ان کے اپنے گمان فاسد کے اعتبار سے ہے نہ کہ حقیقت میں۔
قولہ : وَیَرَی الَّذِیْنَ یہ یا تو یَجْزِیَ پر عطف ہونے کی وجہ سے منصوب ہے یا جملہ مستانفہ ہونے کی وجہ سے مرفوع، یَریٰ یَعْلَمَ کے معنی میں ہے اور اَلَّذِیْنَ اُوْتُوا العِلْمَ یَریٰ کا فاعل ہے اور اَلَّذِیْ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مفعول اول ہے الحق مفعول ثانی اور ھُوَ دو مفعولوں کے
درمیان فصل ہے اور یَھْدِیْ کا عطف الحَقَّ پر ہے ای یَرَوْنَہٗ حَقًّا وھَادِیًا .
سوال : اس صورت میں فعل کا اسم پر عطف لازم آتا ہے درست نہیں ہے۔
جواب : فعل جب اسم کی تاویل میں ہو تو عطف درست ہوتا ہے یہاں یَھْدِیْ ، ھَادِیًا کے معنی میں ہے تقدیر عبارت یہ ہے وَیَرَی الَّذِیْنَ اُوْتوا العِلْمَ الَّذِی اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ الحَقَّ وھَادِیًا، یَریٰ کا یجْزِیَ پر عطف ہونے کی صورت میں یہ اعتراض ہوتا ہے کہ یَرَی الَّذِیْنَ اُوْتوا العِلْمَ سے مراد ان کے لئے دنیا میں علم ثابت کرنا ہے اور یَجْزِیَ پر عطف کا تقاضہ یہ ہے کہ علم آخرت میں ثابت ہو جو کہ مراد نہیں ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ استیناف والی ترکیب صحیح ہے۔
قولہ : بمعنی تَمْزِیْقٍ اس سے اشارہ کردیا کہ اسم فاعل مصدر کے معنی میں ہے۔
قولہ : فی الافعال الثلٰث بالیاء ای نشأ، نخسِفُ ، نُسْقِطُ.
البلاغۃ
قولہ : اَلحمدلِلّٰہِ جملہ سدے تعبیر استمرار اور ثبوت کا فائدہ دیتا ہے الحمد لغۃً الوصف بالجمیل الإختیاری علیٰ قصد التعظیم والوصف لا یکون الاَّ باللسان فیکونُ موردہ خاصًا، وھٰذا الوصف یجوزُ ان یکون بِاِزاءِ نعمۃٍ وغیر ھَا فیکونُ متعلقہٗ عامًا، والشکر اللغوی علی العکس لکونہٖ فِعْلاً یُنْبِئ عن تعظیم المنعم مِن حیثُ أنَّہٗ علَی الشکر فیکون موردہ اللسان والجنان والا رکان ومتعلقہ النعمۃ الواصلۃ الی الشاکر فکل مِنْھُمَا اعمُّ واخصُّ من الآخر بوجہ ففی الفضائل حمدٌ فقط وفی افعال القلب والجوارح شکر فقط وفعل اللسان بازاء الانعام حمدٌ وشکرٌ۔
تفسیر وتشریح
ابن عباس اور قتادہ (رض) سے مروی ہے کہ پوری سورة سبا مکی ہے، اور ابن عطیہ نے کہا ہے ویری الذین اوتوا العلم کے علاوہ مکی ہے، اس سورت میں چون آیتیں ہیں، بعض حضرات نے پچپن کہا ہے مگر صاحب روح المعانی نے اس کو کاتب کا سہو قرار دیا ہے۔
الحمد۔۔۔ الارض (الآیۃ) سب خوبیاں اور تعریفیں اس خدا کے لئے ہیں جو اکیلا بلا شرکت غیرے تمام آسمانی اور زمینی
چیزوں کا مالک و خالق ہے اور نہایت حکمت اور خبرداری سے ان کی تدبیر کرتا ہے، اسی کا ارادہ اور فیصلہ ان میں نافذ ہوتا ہے، انسان کو جو نعمت بھی ملتی ہے وہ اسی کی پیدا کردہ ہے، اور اسی کا احسان ہے، آخرت میں بھی صرف اسی کی تعریف ہوگی بلکہ دنیا میں تو بظاہر کسی اور کی تعریف بھی ہوجاتی ہے، اس لئے کہ مخلوق کا فعل کا پردہ اور انسانی کمال، خالق کے کمال حقیقی کا پرتو ہے، لیکن آخرت میں سب پردے اور وسائط اٹھ جائیں گے وہاں جو کچھ ہوگا سب دیکھیں گے کہ اسی کی طرف سے ہورہا ہے اس لئے صورۃً و حقیقۃً تنہا اسی محمود مطلق کی تعریف ہوگی، زمین و آسمان کی کوئی چھوٹی بڑی چیز اس کے علم سے خارج نہیں، جو چیزیں زمین کے اندر چلی جاتی ہیں مثلاً بارش، خزینہ، دفینہ، مردے نیز کیڑے مکوڑے اور نباتات کا بیج وغیرہ اور جو چیزیں اندر سے نکلتی ہیں مثلاً کھیتی سبزہ، معدنیات وغیرہ اور آسمان کی طرف سے اترتی ہیں مثلاً بارش، وحی، تقدیر، فرشتے وغیرہ ان سب جزئیات پر اللہ کا علم محیط ہے۔
قل۔۔ وربی (الآیۃ) وہ معصوم و مقدس انسان جسکے صدق و امانت کا اقرارسب کو پہلے سے تھا اور اب براہین ساطعہ سے اسکی صداقت پوری روشن ہوچکی ہے، تاکیدی قسم کھا کر خبر دیتا ہے کہ قیامت ضرور آئیگی، جب زمین و آسمانکا کوئی ذرہ اس سے مخفی اور پوشیدہ نہیں تو پھر تمہارے اجزائے منتشرہ کو جو مٹی سے مل گئے ہونگے جمع کرکے دوبارہ تمہیں زندہ کرنا کیوں ناممکن ہوگا ؟
لیجزی۔۔ آمنوا یہ وقوع قیامت کی علت ہے یعنی قیامت اس لئے آئے گی اور تمام انسانوں کو اللہ تعالیٰ اس لئے زندہ فرمائے گا کہ وہ نیکوں کو ان کی نیکیوں کا صلہ عطا فرمائے، کیونکہ صلہ ہی کے لئے اس نے یہ دن رکھا ہے، اگر یہ یوم جزاء ہو تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ نیک وبد دونوں یکساں ہیں اور یہ بات عدل و انصاف کے قطعاً منافی ہے اور بندوں بالخصوص نیکیوں پر ظلم ہوگا، وَمَا ربُّکَ بِظَلاَّمٍ لِّلْعَبِیْدِ ۔
والذین سعو (الآیۃ) یعنی ہماری ان آیتوں کے بطلان اور تکذیب کی جو ہم نے اپنے پیغمبروں پر نازل کیں کوشش کی اور ان کی کوشش اس لئے تھی کہ وہ عاجز کرکے ہماری گرفت سے بچ کر نکل جائیں گے، اس طرح وہ روز قیامت کی حاضری سے چھوٹ جائیں گے، ایسے لوگوں کے لئے دردناک عذاب ہے۔
ویری۔۔۔ العلم یہاں رویت سے رویت قلبی مراد ہے اور اہل علم سے مراد صحابہ کرام یا مومنین اہل کتاب یا تمام مومنین ہیں یعنی اہل ایمان اس بات کو جانتے اور یقین رکھتے ہیں، اور وہ یہ بھی اپنی مخلوق میں محمود ہے اور وہ راستہ توحید کا راستہ ہے جس کی طرف تمام انبیاء (علیہم السلام) اپنی اپنی قوموں کو دعوت دیتے رہے۔
وقال۔۔ کفروا (الآیۃ) یہ منکرین قیامت کافروں کا قول نقل کیا گیا ہے، جو بطور تحقیر و استہزا کے یوں کہا کرتے تھے، آؤ ہم تمہیں ایک ایسا عجیب شخص بتائیں جو یوں کہتا ہے کہ تم پوری طرح ریزہ ریزہ ہوجاؤ گے اس کے بعد پھر تمہیں از سرنو پیدا کیا جائے گا اور تم کو سابقہ شکل و صورت میں تیار کرکے زندہ کردیا جائے گا، ظاہر ہے کہ اس شخص سے مراد نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی ہیں اسلئے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونے کی خبر دیتے تھے اور لوگوں کو اس پر ایمان لانے کی تاکید فرماتے تھے اور یہ سب لوگ آپ کو اچھی طرح جانتے بھی تھے یعرفونہٗ کما یعرفون ابناء ھم مگر تمسخر اور استہزاء کے طور پر ذکر کیا کہ گویا یہ آپ کے متعلق
اور کچھ نہیں جانتے بجز اس کے کہ آپ قیامت میں مردوں کے زندہ ہونے کی خبر دیتے ہیں۔
افتریٰ ۔۔۔ کذبًا یعنی دو باتوں میں سے ایک بات تو ضرور ہے کہ یہ جھوٹ بول رہا ہے اور اللہ کی طرف سے وحی اور رسالت کا دعویٰ یہ اس کا اللہ پر افتراء ہے یا اس کا دماغ چل گیا ہے اور دیوانگی میں ایسی باتیں کررہا ہے، جو نا معقول ہیں بل الَّذینَ لا یُؤمنُوْنَ بالآخرۃ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، بات اس طرح نہیں ہے جس طرح یہ گمان کررہے ہیں بلکہ واقعہ یہ ہے کہ عقل و فہم اور ادراک حقائق سے یہی لوگ قاصر ہیں، جس کی وجہ سے یہ آخرت پر ایمان لانے کے بجائے اس کا انکار کررہے ہیں، جس کا نتیجہ آخرت کا دائمی عذاب ہے، اور یہ آج ایسی گمراہی میں مبتلا ہیں جو حق سے غایت درجہ دور ہے۔ اگے اللہ تعالیٰ کافروں اور منکرین بعث کو زجرو توبیخ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ آخرت کا یہ انکار آسمان و زمین کی پیدائش میں غور وفکر نہ کرنے کا نتیجہ ہے، ورنہ آسمان جیسی بلندی اور وسعت ناقابل بیان ہے اور زمین جیسی چیز جس کا طول وعرض بھی ناقابل فہم ہے، پیدا کرسکتا ہے، اس کے لئے اپنی پیدا کردہ چیزوں کا دوبارہ پیدا کرنا اور اسے دوبارہ اسی حالت پر لے آنا جس پر وہ پہلے تھی کیوں کرنا ممکن ہے ؟
10 Tafsir as-Saadi
حمد سے مراد، صفات حمیدہ اور افعال حسنہ کے ذریعہ سے، ثنا بیان کرنا ہے، لہٰذا ہر قسم کی حمد اللہ تعالیٰ ہی کے لئے ہے کیونکہ وہ اپنے اوصاف کی بنا پر مستحق حمد ہے، اس کے تمام اوصاف، اوصاف کمال ہیں۔ وہ اپنے افعال پر مستحق حمد ہے کیونکہ اس کے افعال، اس کے فضل پر مبنی ہیں جس پر اس کی حمد اور اس کا شکر کیا جاتا ہے اور اس کے عدل پر مبنی ہیں جس کی بنا پر اس کی تعریف کی جاتی ہے اور اسمیں اس کی حکمت کا اعتراف کیا جاتا ہے۔
یہاں اللہ تعالیٰ نے خود اپنی حمد اس بنا پر بیان کی ہے کہ ﴿ لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ﴾ ” زمین اور آسمانوں میں جو کچھ بھی ہے اسی کا ہے“ یعنی ہر چیز اسی کی ملکیت اور اسی کی غلام ہے وہ اپنی حمد و ثنا کی بنا پر ان میں تصرف کرتا ہے۔ ﴿وَلَهُ الْحَمْدُ فِي الْآخِرَةِ ﴾ ” اور آخرت میں بھی اسی کی تعریف ہے“ اس لئے کہ آخرت میں اس اور تمام مخلوق اس کے فیصلے، اس کے کامل عدل و انصاف اور اس میں اس کی حکمت کو دیکھیں گے تو وہ سب اس پر اس کی حمد و ثنا بیان کریں گے حتی کہ ان جہنمیوں کے دل بھی، جن کو عذاب دیا جائے گا، اللہ تعالیٰ کی حمد سے لبریز ہوں گے، نیز ان کو اعتراف ہوگا کہ یہ عذب ان کے اعمال کی جزا ہے اور اللہ تعالیٰ ان کو عذاب دینے کے فیصلے میں عادل ہے۔
رہا جنت میں اللہ تعالیٰ کی حمد کا ظہور، تو اس بارے میں نہایت تواتر سے اخبار وارد ہوئی ہیں، دلائل سمعی اور دلائل عقلی ان کی موافقت کرتے ہیں کیونکہ جنتی لوگ جنت میں، اللہ تعالیٰ کی لگاتار نعمتوں، بے شمار خیر و برکت اور اس کی بے پایاں نوازشات کا مشاہدہ کریں گے۔اہل جنت کے دل میں کوئی آرزو اور کوئی ارادہ باقی نہیں رہے گا جسے اللہ تعالیٰ نے پورا نہ کردیا ہو اور ان کی خواہش اور آرزو سے بڑھ کر عطا نہ کیا ہو، بلکہ انہیں اتنی زیادہ بھلائی عطا ہوگی کہ ان کی خواہش اور آرزوئیں وہاں پہنچ ہی نہیں سکتیں اور ان کے دل میں ان کا تصور تک نہیں آسکتا۔ اس حال میں ان کی حمد و ثنا کیسی ہوگی، درآنحالیکہ جنت میں وہ تمام عوارض و قواطع مضمحل ہوجائیں گے جو اللہ تعالیٰ کی معرفت، اس کی محبت اور اس کی حمد و ثنا کو منقطع کرتے ہیں۔ اہل ایمان کے لئے یہ حال ہر نعمت سے بڑھ کر محبوب اور ہر لذت سے بڑھ کر لذیذ ہوگا، اس لئے جب وہ اللہ تعالیٰ کا دیدار کریں گے اور اس کے خطاب کے وقت اس کے کلام سے محظوظ ہوں گے تو وہ ہر نعمت کو بھلا دیں گے وہ جنت میں ذکر الٰہی میں مشغول رہیں گے اور جنت میں ان کے لئے ذکر کی وہ حیثیت ہوگی جیسے زندگی کے لئے ہر وقت سانس کی حیثیت ہے۔ جب آپ اس کے ساتھ اس چیز کو شامل کر دیکھیں کہ اہل جنت، ہر وقت جنت کے اندر اپنے رب کی عظمت، اس کے جلال و جمال اور اس کے لامحدود کمال کا نظارہ کریں گے، تو یہ چیز اللہ تعالیٰ کامل حمد و ثنا کی موجب ہے۔ ﴿وَهُوَ الْحَكِيمُ﴾ وہ اپنے اقتدار و تدبیر اور اپنے امرونہی میں حکمت والا ہے۔ ﴿الْخَبِيرُ ﴾ وہ تمام امور کے اسرار نہاں کی خبر رکھتا ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
tamam tarr tareef uss Allah ki hai jiss ki sift yeh hai kay aasmano aur zameen mein jo kuch hai , sabb ussi ka hai , aur aakhirat mein bhi tareef ussi ki hai , aur wohi hai jo hikmat ka malik hai , mukammal tor per ba-khabar !
12 Tafsir Ibn Kathir
اوصاف الٰہی۔
چونکہ دنیا اور آخرت کی سب نعمتیں رحمتیں اللہ ہی کی طرف سے ہیں۔ ساری حکومتوں کا حاکم وہی ایک ہے۔ اس لئے ہر قسم کی تعریف وثناء کا مستحق بھی وہی ہے۔ وہی معبود ہے جس کے سوا کوئی لائق عبادت نہیں۔ اسی کیلئے دنیا اور آخرت کی حمد وثناء سزاوار ہے۔ اسی کی حکومت ہے اور اسی کی طرف سب کے سب لوٹائے جاتے ہیں۔ زمین و آسمان میں جو کچھ ہے سب اس کے ماتحت ہے۔ جتنے بھی ہیں سب اس کے غلام ہیں۔ اس کے قبضے میں ہیں سب پر تصرف اسی کا ہے۔ آخرت میں اسی کی تعریفیں ہوں گی۔ وہ اپنے اقوال، افعال، تقدیر، شریعت سب میں حکومت والا ہے اور ایسا خبردار ہے جس پر کوئی چیز مخفی نہیں، جس سے کوئی ذرہ پوشیدہ نہیں، جو اپنے احکام میں حکیم، جو اپنی مخلوق سے باخبر، جتنے قطرے بارش کے زمین میں جاتے ہیں، جتنے دانے اس میں بوئے جاتے ہیں، اس کے علم سے باہر نہیں۔ جو زمین سے نکلتا ہے، اگتا ہے، اسے بھی وہ جانتا ہے۔ اس کے محیط، وسیع اور بےپایاں علم سے کوئی چیز دور نہیں۔ ہر چیز کی گنتی، کیفیت اور صفت اسے معلوم ہے۔ آسمان سے جو بارش برستی ہے، اس کے قطروں کی گنتی بھی اس کے علم میں محفوظ ہے جو رزق وہاں سے اترتا ہے وہ بھی اس کے علم میں ہے اس کے علم سے نیک اعمال وغیرہ جو آسمان پر چڑھتے ہیں وہ بھی اس کے علم میں ہیں۔ وہ اپنے بندوں پر خود ان سے بھی زیادہ مہربان ہے۔ اسی وجہ سے انکے گناہوں پر اطلاع رکھتے ہوئے انہیں جلدی سے سزا نہیں دیتا بلکہ مہلت دیتا ہے کہ وہ توبہ کرلیں۔ برائیاں چھوڑ دیں رب کی طرف رجوع کریں۔ پھر غفور ہے۔ ادھر بندہ جھکا رویا پیٹا ادھر اس نے بخش دیا یا معاف فرما دیا درگزر کرلیا۔ توبہ کرنے والا دھتکارا نہیں جاتا توکل کرنے والا نقصان نہیں اٹھاتا۔