الصافات آية ۱
وَالصّٰٓفّٰتِ صَفًّا ۙ
طاہر القادری:
قسم ہے قطار در قطار صف بستہ جماعتوں کی،
English Sahih:
By those [angels] lined up in rows
1 Abul A'ala Maududi
قطار در قطار صف باندھنے والوں کی قسم
2 Ahmed Raza Khan
قسم ان کی کہ باقاعدہ صف باندھیں
3 Ahmed Ali
صف باندھ کر کھڑے ہونے والو ں کی قسم ہے
4 Ahsanul Bayan
قسم صف باندھنے والے (فرشتوں) کی۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
قسم ہے صف باندھنے والوں کی پرا جما کر
6 Muhammad Junagarhi
قسم ہے صف باندھنے والے (فرشتوں) کی
7 Muhammad Hussain Najafi
باقاعدہ طور پر صف باندھنے والی ہستیوں کی قسم۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
باقاعدہ طور پر صفیں باندھنے والوں کی قسم
9 Tafsir Jalalayn
قسم ہے صف باندھنے والوں کی پرا جما کر
آیت نمبر 1 تا 21
ترجمہ : شروع خدا کے نام لے کر جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے، قسم ہے صف بستہ ہو کر کھڑے ہونے والے فرشتوں کی جو خود کو عبادت میں صف بستہ کرتے ہیں پھر (قسم) ان فرشتوں کی جو بادلوں کو ڈانٹے ہیں یعنی ان کو ہانکتے ہیں، پھر ان فرشتوں کی اس جماعت کی جو قرآن کریم کی تلاوت کرنے والے ہیں اور ذکراً معنی کے اعتبار سے تالیاتٍ کا مصدر ہے، (اے اہل مکہ) بلاشبہ تمہارا معبود ایک ہی ہے، جو آسمانوں اور زمین اور جو ان کے درمیان ہے (سب کا) رب ہے اور مشارق کا رب ہے یعنی (مشارق) و مغارب کا رب ہے، سورج کے لئے روزانہ (دنیا میں) مقام طلوع و غروب ہوتا ہے، بیشک ہم ہی نے سماء دنیا کو ستاروں کی زینت سے آراستہ کیا ہے یعنی ان کی روشنی سے یا خودستاروں سے (اور یزینۃِ ن الکواکب میں) اضافت بیانیہ ہے، جیسا کہ (زینۃٍ ) کی تنوین کی قراءت کی صورت میں الکواکب، زینۃ کا بیان ہوگا اور ہم نے (آسمان) کی ہر سرکش شیطان سے حفاظت کی ہے، حفظًا فعل مقدر کی وجہ سے منصوب ہے ای حَفِظْنَاھا حِفْظًا بالشھب، من کل محذوف کے متعلق ہے مارِدٌ بمعنی عاتٍ ہے، حد طاعت سے خروج کرنے والا، وہ شیاطین عالم بالا کی طرف کان بھی نہیں لگا سکتے یعنی آسمان میں (فرشتوں) کی مجلس اعلیٰ کی طرف کان بھی نہیں لگا سکتے (وسماعُھُم ھُوَ فی المعنی المحفوظ عنہ) یعنی آسمانوں کو ان کے کان لگانے سے محفوظ کردیا گیا ہے (مطلب یہ ہے کہ آسمان محفوظ ہیں اور سماع محفوظ عنہ نہ کہ برعکس) لا یسمعون جملہ مستانفہ ہے، اور سماعٌ کے، اصغاءٌ کے معنی کو متضمن ہونے کی وجہ سے الیٰ کے ذریعہ متعدی کیا گیا ہے اور ایک قراءت میں س اور م کی تشدید کے ساتھ ہے یسَّمَّعُوْن اصل میں یتسمعون تھا، ت کوس میں ادغام کردیا گیا، اور ان شیاطین کو آسمان سے نکال دینے کے لئے ہر جانب سے انگارے مارے جاتے ہیں دحورًا دَحَرہٗ کا مصدر ہے، دحرہٗ طرَدہٗ کے معنی میں ہے اور ان کو آخرت میں دائمی عذاب ہوگا مگر جو شیطان کچھ خبر لے ہی بھاگے تو ایک دیکتا ہوا انگار اس کا تعاقب کرتا ہے جو اس کو چھید دیتا ہے، یا جلا دیتا ہے یا مخبوط الھو اس (باؤلا) کردیتا ہے تو آپ ان یعنی کفار مکہ سے اقرار کرانے یا بطور توبیخ کے دریافت فرمائیں آیا ان کا پیدا کرنا زیادہ مشکل ہے یا ہماری پیدا کی ہوئی یہ چیزیں (یعنی) فرشتے اور آسمان اور زمین اور وہ چیزیں جو ان کے درمیان میں ہیں، اور مَنْ کا استعمال ذوی العقول کو غلبہ دینے کی وجہ سے ہے ہم نے ان کو یعنی ان کی اصل آدم (علیہ السلام) کو چپکتی (چکنی) مٹی سے پیدا کیا جو ہاتھ سے چپک جائے (آیت) کے معنی یہ ہیں ان کی تخلیق ضعیف (مادہ) سے ہے، لہٰذا ان کو نبی اور قرآن کا انکار کرکے تکبر نہیں کرنا چاہیے، جو کہ بآسانی ان کی ہلاکت کی طرف مفضی ہے بلکہ آپ تو (ان کی ناسمجھی) پر تعجب کرتے ہیں اور یہ لوگ آپ کے تعجب کرنے کا مذاق اڑاتے ہیں، بَل ایک غرض سے دوسری غرض کی طرف انتقال کے لئے ہے اور وہ (غرض) آپ کی حالت اور ان کی حالت کی خبر دینا ہے (عجبت) کی ت کے فتحہ کے ساتھ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب ہے یعنی ان کے آپ کو جھٹلانے پر آپ تعجب کرتے ہیں اور جب ان کو قرآن کے ذریعہ نصیحت کی جاتی ہے تو یہ لوگ نصیحت قبول نہیں کرتے اور جب شق قمر کے مانند کوئی معجزہ دیکھتے ہیں تو اس کا مذاق اڑاتے ہیں اور اس معجزہ کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ تو صریح جادو ہے بھلا (یہ کیسے ہوسکتا ہے) کہ جب ہم مرگئے اور مٹی اور ہڈیاں ہوگئے تو کیا ہم (دوبارہ) زندہ کئے جائیں ؟ دونوں جگہوں میں ہمزۂ (اول) محقق اور ثانی کی تسہیل (نرمی) ہے اور دونوں کے درمیان الف داخل کرنا ہے دونوں صورتوں میں اور کیا ہمارے اگلے باپ دادا بھی (اَوْ ) واؤ کے سکون کے ساتھ، اَوْ کے ذریعہ عطف ہے اور (او) واؤ کے فتحہ کے ساتھ (اور) ہمزہ استفہام کے لئے ہے اور عطف واؤ کے ژریعہ ہے، اور معطوف علیہ اِنَّ اور اس کے اسم کا محل ہے یا لمبعوثون میں ضمیر ہے اور فاصل ہمزہ استفہام ہے آپ کہہ دیجئے کہ تم ضرور زندہ کئے جاؤ گے، اور تم ذلیل بھی ہوؤ گے پس وہ (قیامت) تو ایک للکار ہوگی ھِیَ ضمیر مبہم ہے، مابعد اس کی تفسیر کر رہا ہے، تو اچانک وہ یعنی مخلوق زندہ ہو کر دیکھنے لگے لگی، کہ ان کے ساتھ کیا کیا جا رہا ہے ؟ اور کفار کہیں گے ہائے ہماری کمبختی یا تنبیہ کے لئے ہے ویلنا بمعنی ھلاکنا ہے ویلٌ ایسا مصدر ہے کہ اس کا لفظی فعل نہیں ہے اور فرشتے ان سے کہیں گے یہ جزاء کا دن ہے یعنی حساب اور جزاء کا یہ مخلوق کے درمیان فیصلے کا دن ہے جس کو تم جھٹلایا کرتے تھے۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : والصافات صفًّا واؤ، حرف قسم اور جر ہے، اور والصَّافات مجرور مقسم بہ اور مابعد کا معطوف علیہ ہے۔
قولہ : ان الھٰکُم جواب قسم ہے، تقدیر عبارت یہ ہے وحَقِّ الصَّافات وَحَقِّ الزاجراتِ وحقِّ التالیات جار مجرور اقسم فعل محذوف کے متعلق ہے۔
سوال : مذکورہ تینوں صفات میں جو کہ ملائکہ کی ہیں تاء تانیث ہے جو ملائکہ کی انوثت پر دلالت کرتی ہے حالانکہ ملائکہ صفت ذکورت وانوثت سے پاک ہیں۔
جواب : ملائکہ چونکہ لفظ کے اعتبار سے مؤنث ہے لہٰذا اسی اعتبار سے ان کی مذکورہ تینوں صفات کو تانیث کے ساتھ لایا گیا ہے، جہاں تک انوثت سے ملائکہ کی تنزیہہ کا سوال ہے تو وہ تانیث معنوی ہے نہ کہ لفظی۔ (صاوی)
قولہ : تصفُّ نفوسھا اس میں اشارہ ہے کہ صافات کا مفعول بہ محذوف ہے اور وہ نفوسھا ہے یا اجنحتھا ہے اور بعض حضرات نے کہا ہے کہ صافاتٍ صافۃ کی جمع ہے، معنی میں طائفۃ یا جماعۃ کے ہے۔ (روح المعانی)
قولہ : مصدرٌ من معنی التالیات اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ذکراً تالیاتٍ کا مفعول مطلق بغیر لفظہ ہے اس لئے کہ ذکراً تلاوۃً کے معنی میں ہے، ای تالیات تلاوۃً اور بعض حضرات نے ذکراً کو قرآن کے معنی میں لیا اس صورت میں ذکراً ، التالیات کا مفعول ہوگا۔
قولہ : رب السموات والارض یہ لواحدٍ سے بدل ہے یا انّ کی خبر ثانی ہے یا مبتداء محذوف کی خبر ہے، ای ھو ربُّ السموات والارض
قولہ : ورب المشارق۔ سوال : یہاں تنہا مشارق پر اکتفاء کیوں کیا ہے یعنی رب المشارق والمغارب نہیں کہا۔
جواب : یہ سرابیل تقیکم الحر کے قبیل سے ہے یعنی جس طرح یہاں صرف حرَّ پر اکتفاء کیا ہے حالانکہ سرابیل حر اور برد دونوں سے حفاظت کرتا ہے، اب رہا یہ سوال کہ مشارق پر اکتفاء کیا، مغارب پر کیوں نہیں کیا ؟ اس کی کیا وجہ ہے ؟
جواب : جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ مشارق، مغارب کی بہ نسبت کثیر النفع ہے اس لئے مشارق پر اکتفاء کیا ہے۔
سوال : یہاں مشارق کو بصیغہ جمع لائے ہیں، اور اس کا مقابل (یعنی مغارب) حذف کردیا ہے اور سورة سأل میں دونوں کو بصیغہ جمع لائے ہیں، اور سورة رحمٰن میں دونوں کو بصیغہ تثنیہ لائے ہیں، اور سورة مزمل میں دونوں کو بصیغہ مفرد لائے ہیں، ان تمام مقامات میں تطبیق کی کیا صورت ہوگی ؟
جواب : دونوں کو جمع لانے کی یہ وجہ ہے کہ روزانہ نیا مشرق اور نیا مغرب ہوتا ہے، لہٰذا سال میں 365 مشرق اور 365 مغرب ہوتے ہیں، مفسر علام نے لھا کلُّ یومٍ مشرق و مغرب سے اسی جواب کی طرف اشارہ کیا ہے، اب رہا سورة رحمٰن میں تثنیہ لانا تو یہ مشرق شتائی اور صیفی (گرمی، سردی) کے اعتبار سے ہے، موسم شتا اور موسم صیف کے اعتبار سے پورے سال میں دو ہی مشرق و مغرب ہوتے ہیں، اور مفرد لانے کی وجہ یہ ہے کہ پورے سال کا ایک مشرق اور ایک مغرب ہوتا ہے۔ (صاوی)
قولہ : بضوئھا اس میں مضاف محذوف کی طرف اشارہ ہے، مطلب یہ ہے کہ سماء دنیا کی زینت یا تو کواکب کی روشنی کی وجہ سے ہے یا خود کواکب کی وجہ سے ہے اور اضافت بیانیہ ہے جیسا کہ بلا اضافت یعنی زینۃٍ کی تنوین کی صورت میں بھی زینۃٍ مبین اور الکواکب اس کا بیان ہے۔ قولہ : من کل حفظنا مقدر کے متعلق ہے۔
قولہ : لا یسمعون اصل میں لا یتسمعون تھا، ت، کو سین میں مدغم کردیا گیا اور سین کو مشدد کردیا گیا، یعنی وہ کان نہیں لگاتے بالفارسیہ (گوش ندازند) ایک قراءت میں لا یسمعون بھی ہے یعنی وہ نہیں سنتے، وبالفارسیۃ (نشنوند) یسمعون چونکہ اصغاء کے معنی کو شامل ہے اس لئے اس کا صلہ الیٰ لانا درست ہے۔
قولہ : ھو فی المعنی المحفوظ عنہ یعنی آسمان محفوظ اور سماع محفوظ عنہ ہے نہ کہ برعکس یہ جملہ مستانفہ ہے کیفیت حفظ کو بیان کرنے کے لئے نمونے کے طور پر لایا گیا ہے۔ قولہ : بالشھب جمع شھاب کی جیسا کہ کتب جمع ہے کتاب کی آگ جا شعلہ۔
قولہ : ماردٍ جمع مردۃٌ سرکش جو ہر خیر سے خالی ہو غُصنٌ امردُ وہ شاخ جو برگ و بار سے خالی ہوں رجل امرد وہ شخص جس کی ڈاڑھی مونچھ کچھ نہ ہو (ن، ک) مرداً ، مرادۃ سرکش ہونا۔ (لغات القرآن)
قولہ : دحورًا مصدر دحورًا کے بعد مصدر کے لفظ کا اضافہ کرکے اشارہ کردیا کہ دحورًا یقذفون کا مفعول مطلق بغیر لفظہ ہے، اس لئے کہ قذفٌ بمعنی دحرٌ ہے ای دحرہٗ دحرًا اور مفسر علام نے اپنے قول ھو مفعول لہ سے اشارہ کردیا کہ دحورًا یقذفون کا مفعول لہ بھی ہوسکتا ہے یعنی دحورًا قذفٌ کی علت ہے، یعنی شہاب سے مارنے کی علت ان کو دفع کرنا ہے، اور دحورًا، یقذفون کی ضمیر سے حال بھی ہوسکتا ہے، ای یقذفون مدحورین، دحورًا چونکہ مصدر ہے اس لئے واحد جمع سب پر اطلاق درست ہے۔
قولہ : الا من خطف الخطفۃ، الخطفۃ یہ مفعول مرۃ کے لئے ہے جیسے ضربت ضربۃً میں ہے میں نے اس کو مارا ایک بار یعنی ایک بار اچک لینا، وبالفارسیۃ مگر ربا یدیک ربودن والخطف، الاختلاسُ بسرعۃٍ (اچک لینا، جھپٹ لینا) ۔
قولہ : والإستثناء من ضمیر یسمعون یعنی من استثناء کی وجہ سے محل میں نصب کے ہے اور بدل ہونے کی وجہ سے محلاً مرفوع بھی ہوسکتا ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ من شرطیہ ہو اور اس کا جواب فاتبعہٗ ہو، یا من موصولہ مبتداء ہو اور اس کئ خبر فاتبعہٗ ہو اس صورت میں مستثنیٰ منقطع ہوگا کقولہ تعالیٰ لستَ علیھم بمصیطرٍ الا من تولیٰ وکفر۔ (جمل)
قولہ : ثاقب (ن) ثقبًا سوراخ کرنا، چھید کرنا۔ قولہ : او یحرقہ او یخبلہ، او تنویع کیلئے ہے نہ کہ تردید کیلئے خبلٌ (ن) خبلاً عقل کو تباہ کرنا، خراب کرنا۔
قولہ ؛ ھو الإخبارُ بحالہٖ او حالھم یہ ایک غرض سے دوسری غرض کی طرف انتقال کی وضاحت ہے، مطلب یہ ہے کہ سابقہ آیت میں مشرکین کی حالت کا بیان تھا، اور بل عجبت سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حالت کا بیان ہے۔
قولہ : أإذا متنا وکنا تراباً (الآیۃ) ہمزۂ استفہام انکاری ہے جو فعل محذوف پر داخل ہے، ای أنبعث اذا متنا، اذا ظرفیہ کا عامل محذوف ہے، یعنی نبعث جس پر لمبعوثون دلالت کر رہا ہے، خود لمبعوْثُوْنَ اِذا میں عامل نہیں ہے اس لئے کہ عامل و معمول کے درمیان ہمزۂ استفہام جو کہ صدارت کو چاہتا ہے مانع موجود ہے۔
قولہ : او آباؤنا الاولون او میں دو قراءتیں ہیں، جمہور کے نزدیک واؤ کے فتحہ کے ساتھ ہے یعنی اَوَ اور ابن عامر اور قالون نے سکون واؤ کے ساتھ پڑھا ہے، یعنی َوْ اس صورت میں او حرف عطف ہوگا اس پر ہمزہ استفہام کا نہیں ہوگا اَوْ آباؤنا الاولونَ میں ایک ترکیب یہ ہے کہ او آباءنا الاولون مبتداء ہو، مبعوثون اس کی خبر محذوف اور بعض حضرات نے کہا ہے کہ اسم انَّ کے محل پر عطف ہے، اور بعض نے کہا ہے لمبعوثون کی ضمیر مستتر پر عطف ہے مگر اس صورت میں یہ اعتراض ہوگا کہ ضمیر مرفوع پر جب عطف ہوتا ہے تو اس کی تاکید ضمیر منفصل سے لانی ضروری ہوتی ہے، وہ یہاں نہیں ہے۔
جواب : فصل بھی قائم مقام ضمیر کے ہوتا ہے اور یہاں ہمزۂ استفہام کا فصل موجود ہے، مگر اس صورت میں یہ اعتراض ہوگا کہ ہمزۂ استفہام کی صدارت باطل ہوجائے گی، تو اس کا جواب یہ ہے کہ دوسرا ہمزہ پہلے ہمزہ ہی کی تاکید ہے تو گویا کہ دوسرا ہمزہ بعینہٖ پہلا ہمزہ ہے، لہٰذا دوسرا ہمزہ منوی طور پر مقدم ہوگا جس کی وجہ سے اس کی صدارت باطل نہ ہوگی۔ (اعراب القرآن وفتح القدیر
تفسیر و تشریح
یہ سورت مکی ہے، دیگر مکی سورتوں کی طرح اس سورت کے مرکزی مضامین بھی عقائد و ایمانیات ہیں، ان میں توحید، رسالت اور آخرت سرفہرست ہیں، مذکورہ مضامین کو مختلف طریقوں سے مدلل کیا گیا ہے، اس کے بعد مشرکین کے شبہات و اعتراضات کو دفع کرنے کے بعد یہ بیان کیا گیا ہے کہ ماضی میں جن لوگوں نے ان عقائد کو تسلیم کیا، اللہ تعالیٰ کا ان کے ساتھ کیا معاملہ رہا ؟ اور جنہوں نے کفر و سرکشی اختیار کی ان کا کیا انجام ہوا ؟ اسی مضمون کے ضمن میں حضرت نوح (علیہ السلام) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کے صاحبزادگان حضرت موسیٰ و ہارون، حضرت الیاس، حضرت یونس (علیہم السلام) کے واقعات اجمال و تفصیل کے ساتھ ذکر کئے گئے ہیں، مشرکین مکہ کا ایک خاص قسم کا شرک یہ تھا کہ وہ فرشتوں کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں کہا کرتے تھے، آخر میں اس عقیدے کی تفصیل کے ساتھ تردید کی گئی ہے، سورت کے مجموعی مضامین سے معلوم ہوتا ہے کہ اس صورت میں شرک کے اس خاص قسم کی تردید بطور خاص پیش نظر ہے۔
پہلا مضمون توحید : سورت کو عقیدۂ توحید کے بیان سے شروع کیا گیا ہے، پہلی چار آیتوں کا اصل مقصد یہ بیان کرنا ہے اِنَّ الھٰکم لواحدٌ (بلاشبہ تمہارا معبود ایک ہی ہے) اس بات کو مؤکد کرنے کے لئے تین قسمیں کھائی گئی ہیں، اور قسموں میں صفات کا ذکر کیا گیا ہے مگر موصوف محذوف ہے، قسموں کا ترجمہ یہ ہے ” قسم ہے صف بستہ کھڑے ہونے والوں کی، قسم ہے ڈانٹ ڈپٹ کرنے والوں کی قسم ہے ذکر کی تلاوت کرنے والوں کی “ ، یہ صفت بستہ کھڑے ہونے والے، ڈانٹ ڈپٹ کرنے والے، ذکر کی تلاوت کرنے والے کون ہیں ؟ قرآن کریم کے الفاظ میں اس کی صراحت نہیں ہے، اس لئے ان کی تفسیروں میں مختلف باتیں کہی گئی ہیں، بعض حضرات نے کہا ہے کہ ان سے مراد اللہ کے راستہ میں جہاد کرنے والے مجاہدین ہیں، جو میدان میں صف باندھ کر کھڑے ہوتے ہیں، اور دشمن کو ڈانٹ ڈپٹ کرتے ہیں، اور صف آراء ہوتے وقت ذکر تلاوت میں مشغول رہتے ہیں۔
بعض حضرات نے کہا ہے کہ ان سے مراد وہ نمازی ہیں جو کہ مسجد میں صف بستہ ہو کر شیطانی افکار و اعمال پر بندش عائد کرتے ہیں اور اپنا پورا دھیان ذکر و تلاوت پر مرکوز کرتے ہیں (تفسیر کبیر، معارف) مذکورہ صفات کے موصوف کے بارے میں راجح قول یہ ہے کہ وہ فرشتے ہیں۔ (واللہ اعلم بالصواب)
فرشتوں کی قسم کھانے کی کیا وجہ ہے ؟ اس سورت میں خاص طور فرشتوں کی قسم کھانے کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ اس سورت کا مرکزی مضمون شرک کی اس خاص قسم کی تردید ہے جس کے تحت مشرکین مکہ فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں کہا کرتے تھے، چناچہ سورت کے شروع میں فرشتوں کے وہ اوصاف بیان کئے گئے ہیں جن سے ان کی مکمل بندگی کا اظہار ہوتا ہے، جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ فرشتوں کے ان اوصاف بندگی پر غور کرو گے تو یہ بات بالکل واضح ہوجائے گی کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ان کا رشتہ باپ بیٹی کا نہیں بلکہ بندہ اور آقا کا ہے۔
غیر اللہ کی قسم کھانے کا حکم : قرآن مجید میں حق تعالیٰ نے ایمان و عقائد کے بہت سے اصولی مسائل کی تاکید کے لئے مختلف طرح کی قسم کھائی ہے، کبھی اپنی ذات کی، کبھی اپنی مخلوقات میں سے خاص خاص اشیاء کی، اللہ تعالیٰ کے قسم کھانے میں فطری طور پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ حق تعالیٰ غنی الاغنیاء ہیں اس کو کیا ضرورت کہ کسی کو یقین دلانے کے لئے قسم کھائیں، دوسری بات یہ کہ جو مومن ہیں ان کو یقین دلانے کے لئے قسم کھانے کی ضرورت ہی نہیں، اس لئے وہ تو بغیر قسم ہی یقین کرتے ہیں، اور جو کافر ہیں وہ قسم سے بھی یقین نہیں کرتے تو پھر قسم کھانے سے کیا فائدہ ؟
اتقان میں ابو القاسم قشیری سے اس سوال کا جواب یہ مذکور ہے کہ حق تعالیٰ کو قسم کھانے کی کوئی ضرورت نہیں تھی، مگر
اس کو جو شفقت و رحمت اپنی مخلوق پر ہے وہ اس کی داعی ہوئی کہ کس طرح یہ لوگ حق کو قبول کرلیں اور عذاب سے بچ جائیں، علاوہ ازیں عرف میں قسم کا مقصد تاکید اور شک دور کرنا ہوتا ہے، اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہاں قسم اس شک کو دور کرنے کے لئے کھائی ہے جو مشرکین اس کی وحدانیت والوہیت کے بارے میں پھیلاتے تھے، اس کے علاوہ ہر چیز اللہ کی مخلوق و مملوک ہے اس لئے وہ جس چیز کو بھی گواہ بنا کر اس کی قسم کھائے اس کے لئے جائز ہے لیکن انسان کے لئے غیر اللہ کی قسم کھانا بالکل جائز نہیں ہے، حضرت حسن بصری فرماتے ہیں، ان اللہ یقسمُ بما شاء من خلقہٖ لیسَ لاحدٍ ان یقسم الاَّ باللہِ رواہ ابن ابی حاتم (مظھری) اللہ تعالیٰ کو اختیار ہے کہ وہ اپنی مخلوق میں سے جس کی چاہے قسم کھائے مگر کسی دوسرے کے لئے اللہ کے سوا کسی کی قسم کھانا جائز نہیں۔
مخلوقات میں جن چیزوں کی قسم کھائی گئی ہے، کہیں تو اس چیز کی عظمت و فضیلت کا بیان مقصود ہوتا ہے، جیسا کہ قرآن کریم میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عمر کی قسم کھائی گئی ہے، لعمرکَ اِنَّھُم لفی سکرتھم یعمھونَ ابن مردویہ نے حضرت ابن عباس (رض) کا یہ قول نقل کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کوئی مخلوق اور کوئی چیز دنیا میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات گرامی سے زیادہ معزز و مکرم نہیں پیدا کی، یہی وجہ ہے کہ پورے قرآن میں سوائے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کسی نبی اور رسول کی ذات کی قسم نہیں کھائی گئی۔
فاستفتِھِمْ اس استفہام کا مقصد توبیخ و تقریر ہے، اور بعث بعد الموت کے منکرین پر رد کرنا ہے اس لئے کہ وہ بعث بعد الموت کو محال سمجھتے تھے، حاصل رد یہ ہے کہ اگر استحالہ اس وجہ سے ہے کہ انسان کے مرنے گلنے اور سڑنے کے بعد مادہ معدوم ہوجاتا ہے تو یہ مردود اور غیر مسلم ہے اس لئے کہ زیادہ سے زیادہ یہ ہوسکتا ہے کہ انسانی اجزاء مٹی ہوجائیں، اللہ تعالیٰ ان اجزاء پر اپنی قدرت سے بارش برسائیں تو وہ مٹی طین ہوجائے اور آدم (علیہ السلام) کو طین سے پیدا کیا تھا انا خلقنا ھم (ای اصلھم) من طینٍ لازبٍ یا استحالہ کی یہ وجہ ہوسکتی ہے کہ حق تعالیٰ کو اس پر قدرت حاصل نہ ہو یہ بھی مردود اور غیر مسلم ہے، اسلئے کہ جو ذات آسمان و زمین، شمس و قمر جیسی عظیم مخلوق کے پیدا کرنے پر قادر ہے وہ انسان جیسی صغیر و حقیر چیز کے پیدا کرنے پر کیوں قادر نہیں ہے ؟
بل عجبت ویسخرون (الآیۃ) یعنی آپ کو تو منکرین آخرت کے انکار پر تعجب ہو رہا ہے کہ اس کے امکان بلکہ وجوب کے اتنے سارے واضح عقلی دلائل کے باوجود وہ اسے مان کر نہیں دے رہے ہیں، اور مزید براں آپ کے دعوائے قیامت کا مذاق اڑا رہے ہیں، کہ یہ کیونکر ممکن ہے ؟ رہے نقلی دلائل تو ان کے بارے میں ان کا شیوہ یہ ہے واِذَا رأوا آیۃً یستسخرونَ یعنی جب کوئی معجزہ دیکھتے ہیں جو آپ کی نبوت اور عقیدہ آخرت پر دلالت کرتا ہے تو یہ اسے بھی تمسخر میں اڑا کر یہ کہہ دیتے ہیں کہ یہ تو کھلا ہوا جادو ہے، اور اس استہزاء اور تمسخر کی ان کے پاس ایک ہی دلیل ہے اور وہ أإذا متنا وکنا تراباً وعظاماً (الآیۃ) ہے یعنی یہ بات ہمارے تصور میں نہیں آتی کہ ہم یا ہمارے آباء و اجداد ختم ہوجانے اور ہڈیاں رہ جانے کے بعد دوبارہ کیسے زندہ کر دئیے جائیں گے ؟ اس لئے ہم نہ کوئی عقلی دلیل مانتے ہیں اور نہ کسی معجزے وغیرہ کو تسلیم کرتے ہیں، حق تعالیٰ نے اس کے جواب میں آخر میں صرف ایک جملہ فرمایا قُل نعم وانتم داخرونَ یعنی آپ کہہ دیجئے کہ ہاں تم ضرور زندہ کئے جاؤ گے اور ذلیل و خوار ہو کر زندہ ہوؤ گے۔
فانماھی زجرۃٌ واحدۃٌ اس سے نفخۂ ثانیہ مراد ہے، جس کے پھونکنے کے بعد تمام مخلوق زندہ ہوجائے گی (قرطبی) اگرچہ باری
تعالیٰ کو اس پر قدرت ہے کہ صور پھونکے بغیر ہی مردوں کو زندہ کر دے، لیکن یہ صور حشر و نشر کے منظر کو پر ہیبت بنانے کے لئے پھونکا جائے گا۔ (تفسیر کبیر، معارف)
10 Tafsir as-Saadi
یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے اپنی الوہیت وربوبیت پر مکرم فرشتوں کی قسم ہے، اس حال میں کہ وہ اس کی عبادت میں مشغول اور اس کے حکم سے کائنات کی تدبیر میں مصروف ہیں، چنانچہ فرمایا : ﴿وَالصَّافَّاتِ صَفًّا ﴾ ” قسم ہے صف باندھنے والوں کی“ یعنی اپنے رب کی خدمت میں اور اس سے مراد فرشتے ہیں چونکہ یہ فرشتے اپنے رب کی الوہیت کا اظہار کرتے ہیں، اس کی عبودیت میں مشغول رہتے ہیں اور ایک لمحے کے لئے اس کی نافرمانی نہیں کرتے اس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنی الوہیت پر ان کی قسم کھائی ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
qasam unn ki jo paray baandh ker saff banatay hain ,
12 Tafsir Ibn Kathir
فرشتوں کا تذکرہ۔
حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) فرماتے ہیں ان تینوں قسموں سے مراد فرشتے ہیں۔ اور بھی اکثر حضرات کا یہی قول ہے۔ حضرت قتادہ (رض) فرماتے ہیں فرشتوں کی صفیں آسمانوں پر ہیں۔ مسلم میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں ہمیں سب لوگوں پر تین باتوں میں فضیلت دی گئی ہے۔ ہماری صفیں فرشتوں کی صفوں جیسی کی گئی ہیں۔ ہمارے لیے ساری زمین مسجد بنادی گئی ہے۔ اور پانی کے نہ ملنے کے وقت زمین کی مٹی ہمارے لیے وضو کے قائم مقام کی گئی ہے۔ مسلم وغیرہ میں ہے کہ ایک مرتبہ آپ نے ہم سے فرمایا تم اس طرح صفیں نہیں باندھتے جس طرح فرشتے اپنے رب کے سامنے صف بستہ کھڑے ہوتے ہیں۔ ہم نے کہا وہ کس طرح ؟ آپ نے فرمایا اگلی صفوں کو وہ پورا کرتے جاتے ہیں اور صفیں بالکل ملا لیا کرتے ہیں۔ ڈانٹنے والوں سے مراد سدی (رح) وغیرہ کے نزدیک ابر اور بادل کو ڈانٹ کر احکام دے کر ادھر سے ادھر لے جانے والے فرشتے ہیں۔ ربیع بن انس وغیرہ فرماتے ہیں قرآن جس چیز سے روکتا ہے وہ اسی سے بندش کرتے ہیں۔ ذکر اللہ کی تلاوت کرنے والے فرشتے وہ ہیں جو اللہ کا پیغام بندوں کے پاس لاتے ہیں جیسے فرمان ہے ( فَالْمُلْقِيٰتِ ذِكْرًا ۙ ) 77 ۔ المرسلات :5) یعنی وحی اتارنے والے فرشتوں کی قسم جو عذر کو ٹالنے یا آگاہ کرنے کے لیے ہوتی ہے۔ ان قسموں کے بعد جس چیز پر یہ قسمیں کھائی گئی ہیں اس کا ذکر ہو رہا ہے کہ تم سب کا معبود برحق ایک اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ وہی آسمان و زمین کا اور ان کے درمیان کی تمام چیزوں کا مالک و متصرف ہے۔ اسی نے آسمان میں ستارے اور چاند سورج کو مسخر کر رکھا ہے، جو مشرق سے ظاہر ہوتے ہیں مغرب میں غروب ہوتے ہیں۔ مشرقوں کا ذکر کرکے مغربوں کا ذکر اس کی دلالت موجود ہونے کی وجہ سے چھوڑ دیا۔ دوسری آیت میں ذکر کر بھی دیا ہے فرمان ہے ( رَبُّ الْمَشْرِقَيْنِ وَرَبُّ الْمَغْرِبَيْنِ 17ۚ ) 55 ۔ الرحمن :17) یعنی جاڑے گرمیوں کی طلوع و غروب کی جگہ کا رب وہی ہے۔