بھلا (یہ مشرک بہتر ہے یا) وہ (مومن) جو رات کی گھڑیوں میں سجود اور قیام کی حالت میں عبادت کرنے والا ہے، آخرت سے ڈرتا رہتا ہے اور اپنے رب کی رحمت کی امید رکھتا ہے، فرما دیجئے: کیا جو لوگ علم رکھتے ہیں اور جو لوگ علم نہیں رکھتے (سب) برابر ہوسکتے ہیں؟ بس نصیحت تو عقل مند لوگ ہی قبول کرتے ہیں،
English Sahih:
Is one who is devoutly obedient during periods of the night, prostrating and standing [in prayer], fearing the Hereafter and hoping for the mercy of his Lord, [like one who does not]? Say, "Are those who know equal to those who do not know?" Only they will remember [who are] people of understanding.
1 Abul A'ala Maududi
(کیا اِس شخص کی روش بہتر ہے یا اُس شخص کی) جو مطیع فرمان ہے، رات کی گھڑیوں میں کھڑا رہتا اور سجدے کرتا ہے، آخرت سے ڈرتا اور اپنے رب کی رحمت سے امید لگاتا ہے؟ اِن سے پوچھو، کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے دونوں کبھی یکساں ہو سکتے ہیں؟ نصیحت تو عقل رکھنے والے ہی قبول کرتے ہیں
2 Ahmed Raza Khan
کیا وہ جسے فرمانبرداری میں رات کی گھڑیاں گزریں سجود میں اور قیام میں آخرت سے ڈرتا اور اپنے رب کی رحمت کی آس لگائے کیا وہ نافرمانوں جیسا ہو جائے گا تم فرماؤ کیا برابر ہیں جاننے والے اور انجان، نصیحت تو وہی مانتے ہیں جو عقل والے ہیں،
3 Ahmed Ali
(کیا کافر بہتر ہے) یا وہ جو رات کے اوقات میں سجدہ اور قیام کی حالت میں عبادت کر رہا ہو آخرت سے ڈر رہا ہو اور اپنے رب کی رحمت کی امید کر رہا ہو کہہ دو کیا علم والے اور بے علم برابر ہو سکتے ہیں سمجھتے وہی ہیں جو عقل والے ہیں
4 Ahsanul Bayan
بھلا جو شخص راتوں کے اوقات سجدے اور قیام کی حالت میں (عبادت میں) گزراتا ہو، آخرت سے ڈرتا ہو اور اپنے رب کی رحمت کی امید رکھتا ہو (اور جو اس کے برعکس ہو برابر ہو سکتے ہیں) بتاؤ تو علم والے اور بےعلم کیا برابر ہیں؟ یقیناً نصیحت وہی حاصل کرتے ہیں جو عقلمند ہوں۔ (اپنے رب کی طرف سے) (١)
٩۔١ اور یہ اہل ایمان ہی ہیں، نہ کہ کفار۔ گو وہ اپنے آپ کو صاحب دانش و بصیرت ہی سمجھتے ہوں۔ لیکن جب وہ اپنی عقل و دانش کو استعمال کرکے غور و تدبر ہی نہیں کرتے اور عبرت و نصیحت ہی حاصل نہیں کرتے تو ایسے ہی ہے گویا وہ چوپایوں کی طرح عقل و دانش سے محروم ہیں۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
(بھلا مشرک اچھا ہے) یا وہ جو رات کے وقتوں میں زمین پر پیشانی رکھ کر اور کھڑے ہو کر عبادت کرتا اور آخرت سے ڈرتا اور اپنے پروردگار کی رحمت کی امید رکھتا ہے۔ کہو بھلا جو لوگ علم رکھتے ہیں اور جو نہیں رکھتے دونوں برابر ہوسکتے ہیں؟ (اور) نصیحت تو وہی پکڑتے ہیں جو عقلمند ہیں
6 Muhammad Junagarhi
بھلا جو شخص راتوں کے اوقات سجدے اور قیام کی حالت میں (عبادت میں) گزارتا ہو، آخرت سے ڈرتا ہو اور اپنے رب کی رحمت کی امید رکھتا ہو، (اور جو اس کے برعکس ہو برابر ہو سکتے ہیں) بتاؤ تو علم والے اور بے علم کیا برابر کے ہیں؟ یقیناً نصیحت وہی حاصل کرتے ہیں جو عقلمند ہوں۔ (اپنے رب کی طرف سے)
7 Muhammad Hussain Najafi
بھلا جو شخص رات کی گھڑیوں میں کبھی سجدہ کرکے اور کبھی قیام کرکے خدا کی عبادت کرتا ہے اور (اس کے باوجود) آخرت سے ڈرتا ہے اور اپنے پروردگار کی رحمت کا امیدوار ہے؟ (تو کیا وہ شخص جو ایسا نہیں ہے یکساں ہو سکتے ہیں؟) کہیے کیا علم والے اور جاہل برابر ہو سکتے ہیں؟ بے شک نصیحت تو صرف صاحبانِ عقل ہی حاصل کرتے ہیں۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
کیا وہ شخص جو رات کی گھڑیوں میں سجدہ اور قیام کی حالت میں خدا کی عبادت کرتا ہے اور آخرت کا خوف رکھتا ہے اور اپنے پروردگار کی رحمت کا امیدوار ہے .... کہہ دیجئے کہ کیا وہ لوگ جو جانتے ہیں ان کے برابر ہوجائیں گے جو نہیں جانتے ہیں - اس بات سے نصیحت صرف صاحبانِ عقل حاصل کرتے ہیں
9 Tafsir Jalalayn
(بھلا مشرک اچھا ہے) یا وہ جو رات کے وقتوں میں زمین پر پیشانی رکھ کر اور کھڑے ہو کر عبادت کرتا اور آخرت سے ڈرتا اور اپنے پروردگار کی رحمت کی امید رکھتا ہے کہو بھلا جو لوگ علم رکھتے ہیں اور جو نہیں رکھتے دونوں برابر ہوسکتے ہیں (اور) نصیحت تو وہی پکڑتے ہیں جو عقلمند ہیں
10 Tafsir as-Saadi
یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی اطاعت کرنے والے اور نافرمانی کرنے والے کے درمیان اور عالم اور جاہل کے مابین مقابلہ ہے، نیز اس کا شمار ایسے امور میں ہوتا ہے جن کا تضاد عقل انسانی میں راسخ اور ان کے درمیان تفاوت یقینی طور پر معلوم ہے۔ پس اپنے رب کی اطاعت سے روگرداں اور خواہشات کی پیروی کرنے والا اس شخص کے مانند نہیں ہوسکتا ہے جو افضل اوقات یعنی رات کے اوقات میں بہترین عبادت، یعنی نماز کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور فرمانبرداری کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے بہترین اعمال کو کثرت کے ساتھ بجا لانے کے وصف سے موصوف کیا، پھر اسے خوف اور امید کی صفات سے موصوف کیا، نیز ذکر فرمایا کہ خوف ان گناہوں کے بارے میں آخرت کے عذاب سے تعلق رکھتا ہے، جو اس سے سر زد ہوچکے ہیں اور امید کا تعلق اللہ تعالیٰ کی رحمت سے ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے ظاہری اور باطنی عمل سے موصوف فرمایا۔ ﴿قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ﴾ ” کہہ دیجیے کیا وہ برابر ہوسکتے ہیں جو جانتے ہیں“ جو اپنے رب، اس کے دین شرعی، دین جزائی اور دین کے اسرار اور حکمتوں کا علم رکھتے ہیں ﴿وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ﴾ اور جو ان مذکور امور کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتے؟ یہ دونوں قسم کے لوگ کبھی برابر نہیں ہوتے جس طرح رات اور دن، روشنی اور اندھیرا اور آگ اور پانی برابر نہیں ہوتے۔ ﴿إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ﴾ جب نصیحت کی جاتی ہے تو صرف وہی لوگ نصیحت پکڑتے ہیں ﴿أُولُو الْأَلْبَابِ﴾ جو صاف ستھری اور تیز عقل کے مالک ہیں۔ پس یہی لوگ اعلیٰ کو ادنیٰ پر مقدم رکھتے ہیں، چنانچہ یہ لوگ علم کو جہالت پر اور اللہ کی اطاعت کو اس کی مخالفت پر ترجیح دیتے ہیں کیونکہ ان کی عقل ان کو عواقب میں غور و فکر کرنے کی دعوت دیتی ہے۔ اس کے برعکس بے عقل شخص اپنی خواہش نفس کو اپنا معبود بنا لیتا ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
bhala ( kiya aisa shaks uss kay barabar hosakta hai ) jo raat ki gharriyon mein ibadat kerta hai , kabhi sajday mein , kabhi qayam mein , aakhirat say darta hai , aur apney perwerdigar ki rehmat ka umeedwaar hai-? kaho kay : kiya woh jo jantay hain , aur jo nahi jantay , sabb barabar hain-? ( magar ) naseehat to wohi log qubool kertay hain jo aqal walay hain .
12 Tafsir Ibn Kathir
مشرک اور موحد برابر نہیں۔ مطلب یہ ہے کہ جس کی حالت یہ ہو وہ مشرک کے برابر نہیں۔ جیسے فرمان ہے ( لَيْسُوْا سَوَاۗءً ۭ مِنْ اَھْلِ الْكِتٰبِ\011\03 ) 3 ۔ آل عمران :113) ، یعنی سب کے سب برابر کے نہیں۔ اہل کتاب میں وہ جماعت بھی ہے جو راتوں کے وقت قیام کی حالت میں آیات الہیہ کی تلاوت کرتے ہیں اور سجدوں میں پڑے رہتے ہیں۔ قنوت سے مراد یہاں پر نماز کا خشوع خضوع ہے۔ صرف قیام مراد نہیں۔ ابن مسعود (رض) سے قانت کے معنی مطیع اور فرمانبردار کے ہیں۔ ابن عباس وغیرہ سے مروی ہے کہ اناء الیل سے مراد آدھی رات سے ہے۔ منصور فرماتے ہیں مراد مغرب عشاء کے درمیان کا وقت ہے۔ قتادہ (رض) وغیرہ فرماتے ہیں۔ اول درمیانہ اور آخری شب مراد ہے۔ یہ عابد لوگ ایک طرف لرزاں و ترساں ہیں دوسری جانب امیدوار اور طمع کناں ہیں۔ نیک لوگوں پر زندگی میں تو خوف اللہ امید پر غالب رہتا ہے موت کے وقت خوف پر امید کا غلبہ ہوجاتا ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک شخص کے پاس اس کے انتقال کے وقت جاتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ تو اپنے آپ کو کس حالت میں پاتا ہے ؟ اس نے کہا خوف وامید کی حالت میں۔ آپ نے فرمایا جس شخص کے دل میں ایسے وقت یہ دونوں چیزیں جمع ہوجائیں اس کی امید اللہ تعالیٰ پوری کرتا ہے اور اس کے خوف سے اسے نجات عطا فرماتا ہے۔ ترمذی ابن ماجہ وغیرہ۔ ابن عمر (رض) نے اس آیت کی تلاوت کر کے فرمایا یہ وصف صرف حضرت عثمان (رض) میں تھا۔ فی الواقع آپ رات کے وقت بکثرت تہجد پڑھتے رہتے تھے اور اس میں قرآن کریم کی لمبی قرأت کیا کرتے تھے یہاں تک کہ کبھی کبھی ایک ہی رکعت میں قرآن ختم کردیتے تھے۔ جیسا کہ ابو عبید سے مروی ہے۔ شاعر کہتا ہے۔ صبح کے وقت ان کے منہ نورانی چمک لئے ہوئے ہوتے ہیں کیونکہ انہوں نے تسبیح و تلاوت قرآن میں رات گذاری ہے۔ نسائی وغیرہ میں حدیث ہے کہ جس نے ایک رات سو آیتیں پڑھ لیں اس کے نامہ اعمال میں ساری رات کی قنوت لکھی جاتی ہے (مسند وغیرہ) پس ایسے لوگ اور مشرک جو اللہ کے ساتھ دوسروں کو شریک ٹھہراتے ہیں کسی طرح ایک مرتبے کے نہیں ہوسکتے، عالم اور بےعلم کا درجہ ایک نہیں ہوسکتا۔ ہر عقل مند پر ان کا فرق ظاہر ہے۔