اور (اے حبیب!) اگر آپ پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو ان (دغابازوں) میں سے ایک گروہ یہ ارادہ کر چکا تھا کہ آپ کو بہکا دیں، جب کہ وہ محض اپنے آپ کو ہی گمراہ کر رہے ہیں اور آپ کا تو کچھ بگاڑ ہی نہیں سکتے، اور اللہ نے آپ پر کتاب اور حکمت نازل فرمائی ہے اور اس نے آپ کو وہ سب علم عطا کر دیا ہے جوآپ نہیں جانتے تھے، اورآپ پر اللہ کا بہت بڑا فضل ہے،
English Sahih:
And if it was not for the favor of Allah upon you, [O Muhammad], and His mercy, a group of them would have determined to mislead you. But they do not mislead except themselves, and they will not harm you at all. And Allah has revealed to you the Book and wisdom and has taught you that which you did not know. And ever has the favor of Allah upon you been great.
1 Abul A'ala Maududi
اے نبیؐ! اگر اللہ کا فضل تم پر نہ ہوتا اور اس کی رحمت تمہارے شامل حال نہ ہوتی تو ان میں سے ایک گروہ نے تو تمہیں غلط فہمی میں مبتلا کرنے کا فیصلہ کر ہی لیا تھا، حالاں کہ در حقیقت وہ خود اپنے سوا کسی کو غلط فہمی میں مبتلا نہیں کر رہے تھے اور تمہارا کوئی نقصان نہ کرسکتے تھے اللہ نے تم پر کتاب اور حکمت نازل کی ہے اور تم کو وہ کچھ بتایا ہے جو تمہیں معلوم نہ تھا اور اس کا فضل تم پر بہت ہے
2 Ahmed Raza Khan
اور اے محبوب! اگر اللہ کا فضل و رحمت تم پر نہ ہوتا تو ان میں کے کچھ لوگ یہ چاہتے کہ تمہیں دھوکا دے دیں اور وہ اپنے ہی آپ کو بہکا رہے ہیں اور تمہارا کچھ نہ بگاڑیں گے اور اللہ نے تم پر کتاب اور حکمت اتاری اور تمہیں سکھا دیا جو کچھ تم نہ جانتے تھے اور اللہ کا تم پر بڑا فضل ہے
3 Ahmed Ali
اور اگر تجھ پر الله کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو ان میں سے ایک گروہ نے تمہیں غلط فہمی میں مبتلا کرنے کا فیصلہ کرہی لیا تھا حالا نکہ وہ اپنے سوا کسی کو غلط فہمی میں مبتلانہیں کر سکتے تھے اور وہ تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے تھے اور الله نے تجھ پر کتاب اور حکمت نازل کی ہے اور تجھے وہ باتیں سکھائی ہیں جو تو نہ جانتا تھا اور الله کا تجھ پر بہت بڑا فضل ہے
4 Ahsanul Bayan
اگر اللہ تعالٰی کا فضل اور رحم تجھ پر نہ ہوتا تو ان کی ایک جماعت نے تو تجھے بہکانے کا قصد کر ہی لیا تھا (١) مگر دراصل یہ اپنے آپ کو ہی گمراہ کرتے ہیں، یہ تیرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے، اللہ تعالٰی نے تجھ پر کتاب اور حکمت اتاری ہے اور تجھے وہ سکھایا ہے جسے تو نہیں جانتا (۲) اور اللہ تعالٰی کا تجھ پر بڑا بھاری فضل ہے۔
١١٣۔١ یہ اللہ تعالٰی کی اس خاص حفاظت و نگرانی کا ذکر ہے جس کا اہتمام انبیاء علیہم السلام کے لئے فرمایا ہے جو انبیاء پر اللہ کے فضل خاص اور اس کی رحمت خاصہ کا مظہر ہے طائفہ (جماعت) سے مراد وہ لوگ ہیں جو بنو ابیرق کی حمایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ان کی صفائی پیش کر رہے تھے جس سے یہ اندیشہ پیدا ہو چلا تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس شخص کو چوری کے الزام سے بری کر دیں گے، جو فی الواقع چور تھا۔ ۱۱۳۔۲ یہ دوسرے فضل واحسان کا تذکرہ ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر کتاب وحکمت (سنت) نازل فرما کر اور ضروری باتوں کا حکم دے کر فرمایا گیا جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا (وَكَذٰلِكَ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ رُوْحًا مِّنْ اَمْرِنَا ۭ مَا كُنْتَ تَدْرِيْ مَا الْكِتٰبُ وَلَا الْاِيْمَانُ) 42۔ الشوری;52) اور اسی طرح بھیجا ہم نے تیری طرف (قرآن لے کر) ایک فرشتہ اپنے حکم سے تو نہیں جانتا تھا کہ کتاب کیا ہے اور ایمان کیا ہے؟"(وَمَا كُنْتَ تَرْجُوْٓا اَنْ يُّلْقٰٓى اِلَيْكَ الْكِتٰبُ اِلَّا رَحْمَةً مِّنْ رَّبِّكَ) 28۔ القصص;86)"اور تجھے یہ توقع نہیں تھی کہ تجھ پر کتاب اتاری جائے گی، مکر تیرے رب کی رحمت سے (یہ کتاب اتاری گئی) ان تمام آیات سے معلوم ہوا کہ اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر فضل واحسان فرمایا اور کتاب وحکمت بھی عطا فرمائی ان کے علاوہ دیگر بہت سی باتوں کا آپ کو علم دیا گیا جن سے آپ بےخبر تھے یہ بھی گویا آپ کے عالم الغیب ہونے کی نفی ہے کیونکہ جو خود عالم الغیب ہو اسے تو کسی اور سے علم حاصل کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہوتی اور جسے دوسرے سے معلومات حاصل ہوں وحی کے ذریعے سے یا کسی اور طریقے سے وہ عالم الغیب نہیں ہوتا۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور اگر تم پر خدا کا فضل اور مہربانی نہ ہوتی تو ان میں سے ایک جماعت تم کو بہکانے کا قصد کر ہی چکی تھی اور یہ اپنے سوا (کسی کو) بہکا نہیں سکتے اور نہ تمہارا کچھ بگاڑ سکتے ہیں اور خدا نے تم پر کتاب اور دانائی نازل فرمائی ہے اور تمہیں وہ باتیں سکھائی ہیں جو تم جانتے نہیں تھے اور تم پر خدا کا بڑا فضل ہے
6 Muhammad Junagarhi
اگر اللہ تعالیٰ کا فضل ورحم تجھ پر نہ ہوتا تو ان کی ایک جماعت نے تو تجھے بہکانے کا قصد کر ہی لیا تھا، مگر دراصل یہ اپنے آپ کو ہی گمراه کرتے ہیں، یہ تیرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے، اللہ تعالیٰ نے تجھ پر کتاب وحکمت اتاری ہے اور تجھے وه سکھایا ہے جسے تو نہیں جانتا تھا اور اللہ تعالیٰ کا تجھ پر بڑا بھاری فضل ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
اور اگر اللہ کا فضل و کرم اور اس کی خاص رحمت آپ(ص) کے شامل حال نہ ہوتی تو ان کے ایک گروہ نے تو یہ تہیّہ کر لیا تھا کہ آپ کو گمراہ کرکے رہے گا۔ حالانکہ وہ اپنے آپ کو ہی گمراہ کر رہے ہیں اور آپ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ اللہ نے آپ پر کتاب و حکمت نازل کی ہے اور آپ کو وہ کچھ پڑھا دیا ہے۔ جو آپ نہیں جانتے تھے اور آپ پر اللہ کا بڑا فضل و کرم ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اگر آپ پر فضل خدا اور رحمت پروردگار کا سایہ نہ ہوتا تو ان کی ایک جماعت نے آپ کوبہکانے کا ارادہ کرلیا تھا اور یہ اپنے علاوہ کسی کو گمراہ نہیں کرسکتے اور آپ کو کوئی تکلیف نہیں پہنچاسکتے اور اللہ نے آپ پر کتاب اور حکمت نازل کی ہے اور آپ کو ان تمام باتوں کا علم دے دیا ہے جن کا علم نہ تھا اور آپ پر خدا کا بہت بڑا فضل ہے
9 Tafsir Jalalayn
اور اگر تم پر خدا کا فضل اور مہربانی نہ ہوتی تو ان میں سے ایک جماعت تم کو بہکانے کا قصد کرچکی تھی۔ اور یہ اپنے سوا (کسی کو) بہکانے نہیں سکتے اور نہ تمہارا کچھ بگاڑ سکتے ہیں اور خدا نے تم پر کتاب اور دانائی نازل فرمائی ہے اور تمہیں وہ باتیں سکھائی ہیں جو تم جانتے نہیں تھے اور تم پر خدا کو بڑا فضل ہے آیت نمبر ١١٣ تا ١١٥ ترجمہ : اے محمد اگر آپ کے اوپر اللہ کا فضل اور حفاظت کی مہربانی نہ ہوتی تو (طُعْمَة ابن اُبَْیرق) کی قوم کی ایک جماعت نے آپ کے برحق فیصلہ کرنے سے اشتباہ میں ڈال کر بہکانے کا قصد کر ہی لیا تھام مگر دراصل یہ لوگ اپنے آپکو گمراہ کررہے ہیں اور یہ لوگ آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے مِن، زائدہ ہے، گمراہ کرنے کا وبال خود ان کے اوپر ہے اور اللہ تعالیٰ نے آپ پر کتاب قرآن اور حکمت کہ جس میں احکام ہیں نازل فرمایا اور اپکو وہ احکام اور مغیبات سکھائے کہ جن کو آپ نہیں جانتے تھے، اور اللہ تعالیٰ کا تیرے اوپر یہ اور اس کے علاوہ کا بڑا بھاری فضل ہے، ان لوگوں کے خفیہ مشوروں میں اکثر کوئی خیر نہیں یعنی جس میں یہ سرگوشی اور گفتگو کرتے ہیں (اس میں کوئی خیر نہیں) ہاں، اسی شخص کے مشورہ میں کہ جو صدقہ یا کار خیر کا خفیہ مشورہ کرے یا لوگوں کے درمیان اصلاح کا مشورہ کرے (خیر ہے) اور جو یہ مذکورہ کام اللہ کی رضا جوئی کے لئے کرے نہ کہ کسی اور دنیوی غرض کے لئے تو ہم اسے یقینا اجر عطا فرمائیں گے (نؤتیہ) میں یا اور نون دونوں ہیں، یعنی اللہ، اور جو شخص اس حق میں جس کو رسول لایا ہے معجزات کے ذریعہ راہ ہدایت واضح ہوجانے کے بعد (بھی) رسول کی مخالفت کرے اور جو (عام) ایمان والوں کا راستہ چھوڑ کر دوسروں کا راستہ اختیار کرے یعنی اس دین کے راستہ کو چھوڑ کر جس پر وہ ہے بایں طور کہ اس کا انکار کرے تو ہم اسے وہی کرنے دیں گے جو وہ کررہا ہے یعنی ہم اسے اسی گمراہی کا والی بنادیں گے جس کا وہ والی بنا ہے، اس طریقہ پر کہ ہم اس کو اور اس کی اختیار کردہ دنیا میں گمراہی کے درمیان آزاد چھوڑ دیں گے اور اس کو آخرت میں جہنم میں جھونک دیں گے تاکہ اس میں جلتا رہے اور وہ برا ٹھکانہ ہے۔ تحقیق و ترکیب وتسہیل وتفسیری فوائد قولہ : لَھَمَّتْ ، یہ لَو لا فضل اللہ، کا جواب ہے۔ سوال : لولا وجوداول کی وجہ سے امتناع ثانی پر دلالت کرتا ہے مطلب یہ ہوا کہ اللہ کے فضل کی وجہ سے ان لوگوں نے آپ کو بےراہ کرنے کا ارادہ نہیں کیا، حالانکہ وہ ارادہ کرچکے تھے۔ جواب : یہاں ارادہ سے مراد وہ ارادہ ہے کہ جو مع الضلال ہو اب مطلب یہ ہوا کہ اللہ کی فضل کی وجہ سے اضلال مقصود منتفی ہوگیا۔ قولہ : مِنْ زَائِدَة، اسلئے کہ یَضُرُّ متعدی بنفسہ بدومفعول ہے تقدیر عبارت یہ ہے \&\& ومَا ےَضُرُّوْکَ مِن شیَ. قولہ : مَایَتَنَا جَوْنَ فیہ، اس میں اشارہ ہے کہ نجوی مصدر بمعنی اسم مفعول ہے۔ قولہ : اِلاّ نَجْوَی، نجویٰ مضاف محذوف مان کر اشارہ کردیا کہ حذف مضاف کے بغیر مَا یَتَنَا جَوْنَ سے مَنْ اُمَرَ کا استثناء درست نہیں ہے۔ تفسیر وتشریح عصمتِ نبی کی خصوصی حفاظت : وَلَوْ لا فضل اللہ علیک ورحمتہ (الآیة) اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی حفاظت و نگرانی کا ذکر ہے جس کا اہتمام انبیاء (علیہم السلام) کے لئے کیا جاتا ہے، جو انبیاء (علیہم السلام) کیلئے اللہ کے فضل کا مظہر ہے۔ طائفة سے وہ لوگ مراد ہیں جو بنو اُبَْیرق کی حمایت میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں ان کی صفائی پیش کررہے تھے، جس سے یہ اندیشہ پیدا ہوچلا تھا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس شخص کو چوری سے بری کردیں گے جو فی الواقع چور تھا۔ وَاَنْزَل اللہ عَلَیْکَ الکتاب والحکمة الخ اس آیت میں کتاب کے ساتھ حکمت کو بھی داخل فرماکر اس طرف اشارہ کردیا کہ حکمت جو نام ہے آپ کی سنت کا یہ بھی من جانب اللہ تعلیم کردہ ہے فرق صرف یہ ہے کہ اس کے الفاظ اللہ کی طرف سے نہیں ہوتے البتہ معانی من جانب اللہ ہی ہوتے ہیں۔ یہیں سے یہ بات بھی سمجھ میں آئی کہ وحی کی دو قسمیں ہیں متلو اور غیر متلو۔ وحی متلو قرآن ہے جس کے معنی اور الفاظ دونوں اللہ کی جانب سے ہیں اور غیر متلو حدیث رسول کا نام ہے جن کے الفاظ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اور معانی من جانب اللہ۔ لاخیرَفی نجواھم الخ یہاں سرگوشی سے وہ سرگوشی مراد ہے جو منافقین آپس میں مسلمانوں کے خلاف کرتے تھے اور صدقتہ سے مراد ہر قسم کی نیکی ہے اور اصلاح بین الناس کے لئے آپس میں مشورے بھی خیر میں شامل ہیں، احادیث میں بھی ان امور کی اہمیت اور فضیلت کی گئی ہے اور ہر نیکی کے اجروثواب اور فضیلت کے مانند اس کا اجرو ثواب بھی اخلاص نیت پر موقوف ہے، رشتہ دار و دوستوں اور باہم ناراض دیگر لوگوں کے درمیان صلح کرادینا بہت عظیم عمل ہے ایک حدیث میں اسے نفلی روزوں، نفلی صدقات و خیرات سے بھی افضل بتلایا گیا ہے (ابوداؤد) حتی کہ صلح کرانے والے کے لئے جھوٹ تک بولنے کی اجازت ہے یعنی گر ایک دوسرے کو قریب لانے کے لئے دروغ مصلحت آمیز کی ضرورت پڑے تو وہ اس میں بھی تامل نہ کرے۔ (بخاری شریف کتاب الصلح، ترمذی شریف کتاب البر)
10 Tafsir as-Saadi
پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے رسول پر اس احسان کا ذکر فرمایا کہ اس نے آپ کو ان لوگوں کے ارادوں سے محفوظ رکھا جو آپ کو گمراہ کرنا چاہتے تھے۔ ﴿وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّـهِ عَلَيْكَ وَرَحْمَتُهُ لَهَمَّت طَّائِفَةٌ مِّنْهُمْ أَن يُضِلُّوكَ﴾ ” اگر اللہ کا فضل و رحم آپ پر نہ ہوتا تو ان کی ایک جماعت نے آپ کو بہکانے کا قصد کر ہی لیا تھا“ ان آیات کریمہ کے بارے میں اصحاب تفسیر ذکر کرتے ہیں کہ ان کا سبب نزول یہ ہے کہ ایک گھرانے نے مدینہ میں چوری اکا ارتکاب کیا۔ جب چوری کی اطلاع لوگوں کو ہوئی تو انہوں نے فضیحت اور رسوائی سے ڈرتے ہوئے چوری کا سامان کسی بے گناہ شخص کے گھر پھینک دیا۔ پھر چور نے اپنے قبیلہ کے لوگوں سے مدد طلب کی کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر لوگوں کے سامنے اسے بری کروائیں۔ اس کے قبیلہ والوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی کہ ان کے آدمی نے چوری نہیں کی۔ چوری تو اس شخص نے کی ہے جس کے گھر سے مسروقہ سامان برآمد ہوا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے آدمی کو بری قرار دینے کا ارادہ فرمایا تو اللہ تعالیٰ نے حقیقت حال بیان کرنے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خیانت کا روں کی حمایت کرنے سے بچانے کے لیے یہ آیات نازل فرمائیں کیونکہ باطل پسندوں کی حمایت کرنا گمراہی ہے۔ گمراہی کی دو اقسام ہیں۔ (١) علم میں گمراہی، یہ حق سے لاعلمی اور جہالت کا نام ہے۔ (٢) عمل میں گمراہی، عمل واجب کے خلاف عمل کرنا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اس نوع کی گمراہی سے اسی طرح محفوظ رکھا جس طرح اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عمل کی گمراہی سے محفوظ و مصئون رکھا ہے، نیز اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا ہے کہ ان کا مکر و فریب انہی کی طرف لوٹے گا جیسا کہ ہر فریبی کے ساتھ ہوتا ہے۔ چنانچہ فرمایا : ﴿وَمَا يُضِلُّونَ إِلَّا أَنفُسَهُمْ﴾ ” وہ اپنے آپ کو ہی گمراہ کرتے ہیں“ کیونکہ اس فریب اور حیلہ سازی سے انہیں اپنا مقصد حاصل نہ ہوسکا اور انہیں سوائے ناکامی، محرومی، گناہ اور خسارے کے کچھ ہاتھ نہ آیا۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر بہت بڑی نعمت ہے جو نعمت عمل کو متضمن ہے اور یہ اس فعل کی توفیق ہے جو اللہ تعالیٰ کو محبوب ہے اور ہر قسم کے محرمات سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی نعمت علم کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : ﴿وَأَنزَلَ اللّٰهُ عَلَيْكَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ﴾ ”اور اللہ نے آپ پر کتاب و حکمت نازل فرمائی ہے۔“ یعنی اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن عظیم اور ذکر حکیم نازل فرمایا جس میں ہر چیز کا بیان اور اولین و آخرین کا علم ہے۔ حکمت سے مراد یا تو سنت ہے جس کے بارے میں سلف میں سے کسی کا قول ہے کہ سنت بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کے ذریعے سے نازل ہوتی ہے جیسے قرآن نازل ہوتا ہے یا اس سے مراد اسرار شریعت کی معرفت ہے جو احکام شریعت کی معرفت سے زائد چیز ہے، نیز اس سے مراد تمام اشیاء کو ان کے اپنے اپنے مقام پر رکھنا اور ہر شے کو اس کے مطابق ترتیب دینا ہے۔ فرمایا : ﴿وَعَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُن تَعْلَمُ﴾ ” اور آپ کو وہ (کچھ) سکھایا جو آپ نہیں جانتے تھے“ یہ ان تمام امور کو شامل ہے جن کا علم اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا فرمایا۔ ورنہ نبوت سے قبل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جو احوال تھے ان کا وصف بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿مَا كُنتَ تَدْرِي مَا الْكِتَابُ وَلَا الْإِيمَانُ ﴾ (الشوری :42؍52) ” آپ نہ جانتے تھے کہ کتاب کیا ہے اور ایمان کیا ہے؟“ اور فرمایا : ﴿وَوَجَدَكَ ضَالًّا فَهَدَىٰ﴾ (الضحی :93؍7) ” اور اس نے آپ کو رستے سے ناواقف پایا تو سیدھا راستہ دکھایا۔“ پھر اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف وحی بھیجتا رہا، آپ کو علم سکھاتا رہا اور آپ کے علم کی تکمیل کرتا رہا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم علم کے ایسے مقام پر فائز ہوگئے کہ اولین و آخرین وہاں تک پہنچنے سے قاصر ہیں۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علی الطلاق مخلوق میں سب سے زیادہ علم رکھنے والے، صفات کمال کے سب سے زیادہ جامع اور ان صفات میں سب سے زیادہ کامل تھے بنا بریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَكَانَ فَضْلُ اللَّـهِ عَلَيْكَ عَظِيمًا﴾ ”اللہ کا آپ پر بڑا بھاری فضل ہے“ اللہ تعالیٰ کا فضل مخلوق میں سب سے زیادہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ہے اور اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم کی ہرجنس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نوازا ہے جن کی تہہ تک پہنچنانا ممکن اور ان کو شمار کرنا آسان نہیں۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur ( aey payghumber ! ) agar Allah ka fazal aur rehmat tumharay shamil-e-haal naa hoti to unn mein say aik giroh ney to tum ko seedhi raah say bhatkaney ka irada ker hi liya tha . aur ( dar-haqeeqat ) yeh apney siwa kissi ko nahi bhatka rahey hain , aur yeh tum ko zara bhi nuqsan nahi phonchayen gay . Allah ney tum per kitab aur hikmat nazil ki hai aur tum ko unn baaton ka ilm diya hai jo tum nahi jantay thay , aur tum per Allah ka fazal hamesha boht ziyada raha hai .