اور جو شخص کسی مسلمان کو قصداً قتل کرے تو اس کی سزا دوزخ ہے کہ مدتوں اس میں رہے گا اور اس پر اللہ غضبناک ہوگا اور اس پر لعنت کرے گا اور اس نے اس کے لئے زبردست عذاب تیار کر رکھا ہے،
English Sahih:
But whoever kills a believer intentionally – his recompense is Hell, wherein he will abide eternally, and Allah has become angry with him and has cursed him and has prepared for him a great punishment.
1 Abul A'ala Maududi
رہا وہ شخص جو کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اُس کی جزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اس پر اللہ کا غضب اور اُس کی لعنت ہے اور اللہ نے اس کے لیے سخت عذاب مہیا کر رکھا ہے
2 Ahmed Raza Khan
اور جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے کہ مدتوں اس میں رہے اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لئے تیار رکھا بڑا عذاب،
3 Ahmed Ali
اور جو کوئی کسی مسلمان کو جان کر قتل کرے اس کی سزا دوزخ ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اس پر الله کا غضب اور اس کی لعنت ہے اور الله نے اس کےلیے بڑا عذاب تیا رکیا ہے
4 Ahsanul Bayan
اور جو کوئی کسی مومن کو قصداً قتل کر ڈالے، اس کی سزا دوزخ ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا۔ اس پر اللہ تعالٰی کا غضب ہے (١) اسے اللہ تعالٰی نے لعنت کی ہے اور اس کے لئے بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے۔
۹۳۔۱ یہ قتل عمد کی سزا ہے۔ قتل کی تین قسمیں ہیں۔ (۱) قتل خطا (جس کا ذکر ماقبل کی آیت میں ہے) (۲) قتل شبہ عمد جو حدیث سے ثابت ہے۔ (۳) قتل عمد جس کا مطلب ہے ارادہ اور نیت سے کسی کو قتل کرنا اور اس کے لیے وہ آلہ استعمال کرنا جس سے فی الواقع عادتاً قتل کیا جا رہا ہے جیسے تلوار، خنجر وغیرہ۔ آیت میں مومن کے قتل پر نہایت سخت وعید بیان کی گئی ہے مثلا اس کی سزا جہنم ہے جس میں ہمیشہ رہنا ہوگا نیز اللہ کا غضب اور اس کی لعنت اور عذاب عظیم بھی ہوگا۔ اتنی سخت سزائیں بیک وقت کسی بھی گناہ کی بیان نہیں کی گئیں۔ جس سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ ایک مومن کو قتل کرنا اللہ کے ہاں کتنا بڑا جرم ہے احادیث میں بھی اس کی سخت مذمت اور اس پر سخت وعیدیں بیان کی گئی ہیں۔ (۳) مومن کے قاتل کی توبہ قبول ہے یا نہیں؟ بعض علما مزکورہ سخت وعیدوں کے پیش نظر قبول توبہ کے قائل نہیں۔ لیکن قرآن وحدیث کی نصوص سے واضح ہے کہ خالص توبہ سے ہر گناہ معاف ہو سکتا ہے (الا من تاب واٰمن وعمل عملا صالحا) (الفرقان۔۷۰) اور دیگر آیات توبہ عام ہیں۔ ہر گناہ چاہے چھوٹا ہو یا بڑا یا بہت بڑا توبۃ النصوح سے اس کی معافی ممکن ہے یہاں اس کی سزا جہنم جو بیان کی گئی ہے اس کا مطلب ہے کہ اگر اس نے توبہ نہیں کی تو اس کی یہ سزا ہے جو اللہ تعالٰی اس جرم پر اسے دے سکتا ہے اسی طرح توبہ نہ کرنے کی صورت میں خلود (ہمیشہ جہنم میں رہنے) کا مطلب بھی مکث طویل (لمبی مدت) ہے۔ کیونکہ جہنم میں خلود کافروں اور مشرکوں کے لیے ہی ہے علاوہ ازیں قتل کا تعلق اگرچہ حقوق العباد سے ہے جو توبہ سے بھی ساقط نہیں ہوتے لیکن اللہ تعالٰی اپنے فضل وکرم سے بھی اس کی تلافی اور ازالہ فرما سکتا ہے اس طرح مقتول کو بھی بدلہ مل جائے گا اور قاتل کی بھی معافی ہو جائے گی۔ (فتح القدیر و ابن کثیر)
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور جو شخص مسلمان کو قصداً مار ڈالے گا تو اس کی سزا دوزخ ہے جس میں وہ ہمیشہ (جلتا) رہے گا اور خدا اس پر غضبناک ہوگا اور اس پر لعنت کرے گا اور ایسے شخص کے لئے اس نے بڑا (سخت) عذاب تیار کر رکھا ہے
6 Muhammad Junagarhi
اور جو کوئی کسی مومن کو قصداً قتل کر ڈالے، اس کی سزا دوزخ ہے جس میں وه ہمیشہ رہے گا، اس پر اللہ تعالیٰ کا غضب ہے، اسے اللہ تعالیٰ نے لعنت کی ہے اور اس کے لئے بڑا عذاب تیار رکھا ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
اور جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے، اس کی سزا دوزخ ہے۔ جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس پر اللہ کا غضب ہوگا۔ اور اللہ اس پر لعنت کرے گا اور اس نے اس کے لیے عذاب عظیم تیار کر رکھا ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور جو بھی کسی مومن کو قصدا قتل کردے گا اس کی جزا جہّنم ہے- اسی میں ہمیشہ رہنا ہے اور اس پر خدا کا غضب بھی ہے اور خدا لعنت بھی کرتا ہے اور اس نے اس کے لئے عذابِ عظیم بھی مہیاّ کررکھا ہے
9 Tafsir Jalalayn
اور جو شخص مسلمان کو قصدا مار ڈالے گا تو اس کی سزا دوزخ ہے جس میں وہ ہمیشہ (جلتا) رہے گا اور خدا اس پر غضبناک ہوگا اور اس پر لعنت کرے گا اور ایسے شخص کے لیے اس نے بڑا (سخت) عذاب تیار کر رکھا ہے وَمَنْ یقتل مؤ مناً متعمدًافجزائہ جھنم خالدًافیھا (الآیة) اس آیت میں مومن کے قتل عمد کی سزا بیان فرمائی گئی ہے جو فی الواقع بڑی سخت سزا ہے مثلاً اس کی سزا جہنم ہے جس میں ہمیشہ رہنا ہوگا، نیز اللہ کا غضب اور اس کی لعنت اور عذاب عظیم بھی ہوگا، اتنی سخت سزائیں بیک وقت کسی بھی گناہ کی بیان نہیں کی گئی، جس سے واضح ہوتا ہے کہ ایک مومن کو قتل کرنا اللہ کے نزدیک کتنا بڑا جرم ہے، احادیث میں اس کی سخت مذمت اور وعیدیں بیان کی گئی ہیں۔ مؤمن کے قاتل کی توبہ : مومن کے قاتل کی توبہ قبول ہے یا نہیں، بعض علماء مذکورہ سخت وعیدوں کے پیش نظر قبول توبہ کے قائل نہیں، لیکن قرآن و حدیث کی نصوص سے واضح ہے کہ خالص توبہ سے ہر گناہ معاف ہوسکتا ہے \&\& اِلّا مَنْ تابَ واٰمَنَ وعَمِلَ عَمَلاً صالِحاً \&\& (الفرقان) اور دیگر آیات توبہ عام ہیں لہٰذا ہر قسم کے گناہ کو شامل ہوگی، یہاں جو جہنم میں دائمی خلود کی سزا بیان کی گئی ہے اس کا مطلب ہے کہ اگر توبہ نہ کی تو اس کی سزا ہے جو اللہ تعالیٰ اس کے جرم پردے سکتا ہے اسی طرح توبہ نہ کرنے کی صورت میں خلود سے مراد مکث طویل ہے اسلئے کہ جہنم میں خلود کافروں اور مشرکوں ہی کیلئے ہے، قتل کا تعلق اگرچہ حقوق العباد سے ہے جو توبہ سے بھی ساقط نہیں ہوتے لیکن اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے بھی اس کی تلافی فرماسکتا ہے اس میں مقتول کو بھی بدلہ مل جائیگا اور قاتل کی بھی معافی ہوجائیگی۔ (فتح القدیر، ابن کثیر)
10 Tafsir as-Saadi
گزشتہ صفحات میں گزر چکا ہے کہ مومن سے مومن کا قتل صادر نہیں ہوسکتا نیز یہ کہ قتل کفریہ عمل ہے۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے جان بوجھ کر قتل کرنے والے کے لیے وعید کا ذکر فرمایا ہے جس سے دل کانپ جاتے ہیں، کلیجے پھٹ جاتے ہیں اور عقلمند لوگ گھبرا جاتے ہیں۔ کبیرہ گناہوں میں سے کسی اور گناہ کے لیے اس سے بڑی بلکہ اس جیسی وعید بھی وارد نہیں ہوئی۔ آگاہ رہو ! کہ یہ اس امر کی خبر دینا ہے کہ مومن کے قتل کے مرتکب کے لیے جہنم ہے۔ یعنی یہ گناہ عظیم اکیلا ہی کافی ہے کہ اپنے مرتکب کو جہنم، عذاب عظیم، رسوائی، اللہ جبار کی ناراضی، فوز و فلاح سے محرومی و ناکامی اور خسارے جیسی سزا کا مستحق بنائے۔ ہم ہر اس سبب سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دور کرے۔ اس وعید کا حکم، کبیرہ گناہوں کے بارے میں وارد اس جیسی دیگر نصوص وعید کی مانند ہے جن میں جہنم میں خلود اور جنت سے محرومی کا ذکر کیا گیا ہے۔ ائمہ کرام خوارج اور معتزلہ کے اس قول کے بطلان پر متفق ہونے کے باوجود کہ موحد گناہ گار ہمیشہ جہنم میں رہیں گے اس آیت کریمہ کی تاویل میں اختلاف رکھتے ہیں۔ اس آیت کریمہ کی تاویل و تفسیر میں حق و صواب وہ ہے جو امام محقق شمس الدین ابن القیم رحمہ اللہ نے اپنی مشہور کتاب ” مدارج السالکین“ میں ذکر فرمایا ہے۔ انہوں نے ائمہ کی تاویلات ذکر کرنے کے بعد نقد کرتے ہوئے فرمایا : ” کچھ دیگر لوگوں کی رائے ہے کہ یہ نصوص اور اس قسم کی دیگر نصوص، جن میں سزا کی اقتضا کا ذکر آتا ہے مقتضائے حکم کے وجود سے اس کا وجود لازم نہیں آتا کیونکہ حکم اپنے مقتضی کے وجود اور انتفائے مانع سے پورا ہوتا ہے اور ان نصوص کی غرض وغایت محض اس امر کی اطلاع دینا ہے کہ اس قسم کے جرائم عقوبت کا سبب ہیں اور اس کا تقاضا کرتے ہیں اور موانع کے ذکر پر دلیل قائم ہوچکی ہے کچھ تو اجماع کی بنا پر اور کچھ نصوص کی بنا پر، چنانچہ توبہ بالا جماع عقوبت اور سزا کو مانع ہے اور نصوص متواترہ دلالت کرتی ہیں کہ توحید بھی مانع عقوبت ہے اسی طرح برائیوں کو مٹانے والی نیکیاں بھی مانع عقاب ہیں۔ بڑے بڑے مصائب جو گناہوں کا کفارہ بن جاتے ہیں مانع عقاب ہیں۔ دنیا میں ان جرائم پر حد قائم ہونا بھی مانع عقوبت ہے ان امور پر نصوص دلالت کرتی ہیں اور ان نصوص کو معطل کرنے کی کوئی وجہ نہیں لہٰذا جانبین کی طرف سے نصوص کے عمل کو تسلیم کئے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ یہ ہے وہ مقام جہاں اقتضائے عقاب اور اس کے مانع کے لیے، نیکیوں اور برائیوں کے درمیان موازنہ کیا جاتا ہے تاکہ دونوں میں سے جو راجح ہو، اس کے مطابق عمل کیا جائے (اقتضائے عذاب راجح ہو تو عذاب کا اور مانع راجح ہو تو عدم عذاب کا فیصلہ ہوگا) و وہ کہتے ہیں کہ اسی اصول پر دنیا و آخرت کے مصالح اور مفاسد کی بنا ہے اور یہی اصول احکام شرعیہ اور احکام قدریہ کی بنیاد ہیں اور یہی اس حکمت کا تقاضا ہے جو وجود کائنات میں جاری و ساری ہے۔ خلق و امر کے لحاظ سے اسی اصول کے ذریعے سے اسباب اور مسببات ایک دوسرے سے مرتب ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہر شے کی ضد پیدا کی ہے تاکہ یہ ضد اس شے کو دفع کرے اور ضدین میں سے اغلب کے مطابق حکم لگایا جائے گا۔ قوت صحت و عافیت کا تقاضا کرتی ہے اور اخلاط فاسدہ کا غلبہ، عمل طبعی اور فعل قوت کو مانع ہے، ان دونوں میں سے اغلب کے مطابق حکم لگایا جائے گا۔ یہی اصول ادویہ اور امراض کے قویٰ میں عمل کرتا ہے انسان کے اندر ایسی چیزیں بھی ہیں جو اس کی صحت کی متقاضی ہیں اور کچھ ایسی چیزیں بھی ہیں جو اس کی ہلاکت کا تقاضا کرتی ہیں۔ (ان کے درمیان کشمکش رہتی ہے) اور ایک چیز دوسری چیز کے کمال تاثیر کو روکتی اور اس کا مقابلہ کرتی ہے پس اگر وہ اس پر غالب آجاتی ہے تو اس کی تاثیر اس میں کار فرما ہوتی ہے۔ یہاں پہنچ کر انسانوں کی تقسیم کا علم ہوتا ہے۔ کوئی سیدھا جنت میں جائے گا کسی کو جہنم میں جھونک دیا جائے گا۔ کچھ لوگوں کو جہنم میں داخل کر کے پھر نکال لیا جائے گا اور وہ لوگ جہنم میں بس اس قدر ٹھہریں گے جس قدر ان کے اعمال ان کے ٹھہرنے کا تقاضا کریں گے۔ جس شخص کی چشم بصیرت روشن ہے اس اصول کے مطابق اس معاد کے متعلق وہ تمام امور جن کی قرآن خبر دیتا ہے یوں نظر آتے ہیں گویا کہ وہ انہیں اپنی ظاہری آنکھوں سے دیکھ رہا ہے۔ اسے معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی الوہیت، ربوبیت اور عزت و حکمت کا تقاضا ہے اور اس کی خلاف ورزی اللہ تعالیٰ سے محال ہے۔ اس کی خلاف ورزی کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرنا ایک ایسے امر کی نسبت ہے جو اللہ تعالیٰ کی شان کے لائق نہیں۔ ان امور کو وہ اپنی چشم بصیرت سے یوں دیکھتا ہے جیسے وہ اپنی آنکھ سے سورج اور ستاروں کو دیکھتا ہے اور یہ ایمان کا یقین ہے اور یہ وہ یقین ہے جو برائیوں کو اس طرح جلا دیتا ہے جیسے خشک ایندھن کو آگ جلا دیتی ہے۔ وہ شخص جو ایمان کے اس مقام پر فائز ہوجاتا ہے اس کے لیے برائیوں پر مصر رہنا محال ہے۔ برائیاں اگرچہ اس سے بکثرت واقع ہوجاتی ہیں مگر اس کا نور ایمان اسے ہر وقت تجدید توبہ کا حکم دیتا رہتا ہے اور ہر سانس کے ساتھ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتا ہے ایسا شخص اللہ تعالیٰ کو اپنی مخلوق میں سب سے زیادہ محبوب ہے۔“ ابن القیم قدس اللہ روحہ کا کلام ختم ہوا، اللہ تعالیٰ انہیں اسلام اور مسلمانوں کی طرف سے جزائے خیر عطا کرے۔ (اس موضوع پر مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ کیجئے مدارج السالکین 1؍ 396۔ مترجم)
11 Mufti Taqi Usmani
aur jo shaks kissi musalman ko jaan bojh ker qatal keray to uss ki saza jahannum hai jiss mein woh hamesha rahey ga aur Allah uss per ghazab nazil keray ga aur lanat bhejay ga , aur Allah ney uss kay liye zabardast azab tayyar ker rakha hai .