المؤمن آية ۱۰
اِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا يُنَادَوْنَ لَمَقْتُ اللّٰهِ اَكْبَرُ مِنْ مَّقْتِكُمْ اَنْفُسَكُمْ اِذْ تُدْعَوْنَ اِلَى الْاِيْمَانِ فَتَكْفُرُوْنَ
طاہر القادری:
بے شک جنہوں نے کفر کیا انہیں پکار کر کہا جائے گا: (آج) تم سے اللہ کی بیزاری، تمہاری جانوں سے تمہاری اپنی بیزاری سے زیادہ بڑھی ہوئی ہے، جبکہ تم ایمان کی طرف بلائے جاتے تھے مگر تم انکار کرتے تھے،
English Sahih:
Indeed, those who disbelieve will be addressed, "The hatred of Allah for you was [even] greater than your hatred of yourselves [this Day in Hell] when you were invited to faith, but you disbelieved [i.e., refused]."
1 Abul A'ala Maududi
جن لوگوں نے کفر کیا ہے، قیامت کے روز اُن کو پکار کر کہا جائے گا "آج تمہیں جتنا شدید غصہ اپنے اوپر آ رہا ہے، اللہ تم پر اُس سے زیادہ غضب ناک اُس وقت ہوتا تھا جب تمہیں ایمان کی طرف بلایا جاتا تھا اور تم کفر کرتے تھے"
2 Ahmed Raza Khan
بیشک جنہوں نے کفر کیا ان کو ندا کی جائے گی کہ ضرور تم سے اللہ کی بیزاری اس سے بہت زیادہ ہے جیسے تم آج اپنی جان سے بیزار ہو جب کہ تم ایمان کی طرف بلائے جاتے تو تم کفر کرتے،
3 Ahmed Ali
بے شک جو لوگ کافر ہیں انہیں پکار کر کہا جائے گا جیسی تمہیں (اس وقت) اپنے سے نفرت ہے اس سے بڑھ کر الله کو (تم سے) نفرت تھی جبکہ تم ایمان کی طرف بلائے جاتے تھے پھر نہیں مانا کرتے تھے
4 Ahsanul Bayan
بیشک جنہوں نے کفر کیا انہیں آواز دی جائے گی کہ یقیناً اللہ کا تم پر غصہ ہونا اس سے بہت زیادہ ہے جو تم غصہ ہوتے تھے اپنے جی سے، جب تم ایمان کی طرف بلائے جاتے تھے پھر کفر کرنے لگتے تھے (١)
١٠۔١ مقت سخت ناراضی کو کہتے ہیں اہل کفر جو اپنے کو جہنم کی آگ میں جھلستے دیکھیں گے تو اپنے آپ پر سخت ناراض ہونگے، اس وقت ان سے کہا جائے گا کہ دنیا میں جب تمہیں ایمان کی دعوت دی جاتی تھی اور تم انکار کرتے تھے، تو اللہ تعالٰی اس سے کہیں زیادہ تم پر ناراض ہوتا تھا جتنا تم آج اپنے آپ پر ہو رہے ہو۔ یہ اللہ کی اس ناراضی ہی کا نتیجہ ہے کہ آج تم جہنم میں ہو۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
جن لوگوں نے کفر کیا ان سے پکار کر کہہ دیا جائے گا کہ جب تم (دنیا میں) ایمان کی طرف بلائے جاتے تھے اور مانتے نہیں تھے تو خدا اس سے کہیں زیادہ بیزار ہوتا تھا جس قدر تم اپنے آپ سے بیزار ہو رہے ہو
6 Muhammad Junagarhi
بےشک جن لوگوں نے کفر کیا انہیں یہ آواز دی جائے گی کہ یقیناً اللہ کا تم پر غصہ ہونااس سے بہت زیاده ہے جو تم غصہ ہوتے تھے اپنے جی سے، جب تم ایمان کی طرف بلائے جاتے تھے پھر کفر کرنے لگتے تھے
7 Muhammad Hussain Najafi
بے شک جن لوگوں نے کفر اختیار کیا (قیامت کے دن) ان کو پکار کر کہا جائے گا کہ جتنا (آج) تم اپنے آپ سے بیزار ہو۔ اللہ اس سے زیادہ اس وقت تم سے بیزار (ناراض) ہوتا تھا جب تمہیں ایمان کی دعوت دی جاتی تھی اور تم کفر اختیار کرتے تھے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
بیشک جن لوگوں نے کفر اختیار کیا ان سے روزِ قیامت پکار کر کہا جائے گا کہ تم خود جس قدر اپنی جان سے بیزار ہو خدا کی ناراضگی اس سے کہیں زیادہ بڑی ہے کہ تم کو ایمان کی طرف دعوت دی جاتی تھی اور تم کفر اختیار کرلیتے تھے
9 Tafsir Jalalayn
جن لوگوں نے کفر کیا ان سے پکار کر کہہ دیا جائے گا کہ جب تم (دنیا میں) ایمان کی طرف بلائے جاتے تھے اور مانتے نہیں تھے تو خدا اس سے کہیں بیزار ہوتا تھا جس قدر تم اپنے آپ سے بیزار ہو رہے ہو
آیت نمبر 10 تا 20
ترجمہ : کافروں سے فرشتوں کیجانب سے پکار کر کہہ دیا جائے گا اور وہ جہنم میں داخل ہوتے وقت خود اپنے اوپر غصہ ہوں گے کہ یقیناً اللہ تعالیٰ کی تمہارے اوپر غضبناکی کہیں زیادہ تھی تمہارے اپنے اوپر غصہ ہونے سے جس وقت کہ تم کو دنیا میں ایمان کی طرف بلایا جاتا تھا مگر تم نہیں مانتے تھے تو وہ لوگ کہیں گے اے ہمارے پروردگار تو نے ہم کو دو مرتبہ موت دی اور دو مرتبہ زندہ کیا اس لئے کہ وہ بےجان نطفے تھے بعد ازاں ان کو زندہ کیا گیا، پھر ان کو موت دی گئی پھر ان کو بعثت کے لئے زندہ کیا گیا سو ہم اپنے گناہوں (یعنی) انکار بالبعث کا اقرار کرتے ہیں تو کیا نار دوزخ سے نکلنے اور دنیا کی طرف واپس جانے کی کوئی صورت ہے تاکہ ہم اپنے پروردگار کی اطاعت کریں، ان کو جواب دیا جائے گا، نہیں، یہ یعنی وہ عذاب جس میں تم مبتلا ہو اس سبب سے ہے کہ دنیا میں جب اکیلے اللہ کا ذکر کیا جاتا تھا تو تم اس کی توحید کا انکار کرتے تھے اور اگر اس کے ساتھ کسی کو شریک کیا جاتا تھا یعنی اس کا شریک ٹھہرایا جاتا تھا تو اس کو مان لیتے تھے (یعنی) شرک کرنے کی تصدیق کرتے تھے پس اب تم کو عذاب دینے کے بارے میں فیصلہ اس اللہ کا ہے جو اپنی مخلوق پر برتر اور عظیم ہے، وہی ہے جو تمہیں اپنی نشانیاں یعنی اپنی توحید کے دلائل دکھلاتا ہے اور تمہارے لئے آسمان سے بارش کے ذریعہ روزی اتارتا ہے، نصیحت تو وہی حاصل کرتا ہے جو شرک سے رجوع کرتا ہے تم اللہ کو پکارتے رہو (یعنی) اس کی بندگی کرتے رہو دین کو اس کے لئے شرک سے خالص کرکے گو کافر تمہارے (دین کو) شرک سے خالص کرنے کو ناپسند کریں (تم اس کی پرواہ کرو) اس لئے کہ وہ یعنی اللہ پر رفتع الدرجات ہے عظیم الصفات ہے، اور جنت میں مومنین کے درجات کو بلند کرنے والا ہے، عرش کا مالک یعنی اس کا خالق ہے اور وہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے اپنے کلام سے وحی نازل کرتا ہے، تاکہ وہ یعنی (صاحب وحی) قیامت کا دن ہے، اس میں زمین اور آسمان والوں اور عابد و معبود اور ظالم و مظلوم کے ملنے کی وجہ سے جس دن سب لوگ ظاہر ہوں گے یعنی اپنی قبروں سے نکلیں گے ان کی کوئی چیز اللہ سے پوشیدہ نہ رہے گی، اللہ تعالیٰ فرمائے گا آج کس کی بادشاہت ہے ؟ اور خود ہی جواب دے گا فقط اللہ ہی کی جو یکتا ہے اور اپنی مخلوق پر غالب ہے آج ہر شخص کو اس کی کمائی کا بدلہ دیا جائے گا آج (کسی قسم کا) ظلم نہیں اللہ تعالیٰ بہت جلد حساب لینے والا ہے تمام مخلوق کا دنیا کے دنوں میں سے نصف دن کی مقدار میں حساب کردے گا، حدیث میں اسی طرح وارد ہونے کی وجہ سے اور ان کو قریب آنے والے دن (کی مصیبت) یعنی قیامت کے دن سے آگاہ کیجئے یہ اَزِفَ الرحیل بمعنی قَرُبَ سے ماخوذ ہے جبکہ دل خوف کی وجہ سے اچھل کر حلق تک پہنچ رہے ہوں گے (یعنی کلیجے منہ کو آرہے ہوں گے) گھٹ گھٹ رہے ہوں گے، غم میں ڈوبے ہوئے ہوں گے (کاظمین) قلوب سے حال ہے (کاظمین) میں یا اور نون کے ساتھ جمع لاکر صاحب قلوب کا سا معاملہ کیا گیا (یعنی قلوب سے اصحاب القلوب مراد ہیں) ظالمون کا نہ کوئی دوست ہوگا نہ کوئی سفارشی کہ جس کی بات مانی جائے وصف (یعنی یطاع) کا مفہوم مخالف مراد نہیں ہے اس لئے کہ سرے سے ان کا کوئی شفع ہی نہ ہوگا (نہ مطاع اور نہ غیر مطاع) ان کے قول فما لنا من شافعین کے بقول (ہمارا کوئی سفارشی نہیں) یا وصف (یطاع) کا مفہوم مضالف ہے، ان کے گمان کے مطابق کہ ان کے شفارشی ہیں، یعنی بالفرض اگر شفارش کریں تو ان کی سفارش قبول نہ کی جائے، وہ یعنی اللہ آنکھوں کی خیانت یعنی حرام چیزوں کی طرف دزدیدہ نگاہی کو اور دلوں کی پوشیدہ باتوں کو خوب جانتا ہے، اور اللہ ٹھیک ٹھیک فیصلہ کرے گا، اس کے سوا جنہیں یہ لوگ پکارتے ہیں (بندگی کرتے ہیں) اور وہ بت ہیں (تِدْعونَ ) میں یا اور تا کے ساتھ، وہ کسی چیز کا بھی فیصلہ نہیں کرسکتے تو پھر وہ اللہ کے کس طرح شریک ہوسکتے ہیں، بلاشبہ اللہ ان کے اقوال کا خوب سننے والا اور ان کے افعال کا دیکھنے والا ہے۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل وتفسیری فوائد
قولہ : یُنادَونَ جمع مذکر حاضر مضارع مجہول مصدر مُنادَاۃٌ (مفاعلۃ) ان کو پکارا جائے گا۔
قولہ : یَمْقُتُوْنَ اَنْفُسَھُمْ ای یَبْغُضُوْنَ اَنْفسَھُمْ (ن) مَقْتًا کسی کو جرم کے ارتکاب کی وجہ سے ناپسند کرنا، دشمن سمجھنا۔
قولہ : تُدْعَوْنَ مضارع جمع مذکر مجہول (مصدر) دعاء۔
قولہ : اَمَتَّنَا تو نے ہم کو موت دی، مصدر اِمَاتَہٌ موت دینا، ماضی واحد مذکر حاضر ناضمیر جمع متکلم۔
قولہ : اَمَتَّنَا اثْنَتَیْنِ ، اَحْیَیْتَنَا اثنَتَیْنِ دونوں جگہ اِثنَتَیْنِ مصدر محذوف کی صفت ہے، ای اَمَتَّنَا اما تتین اثنَتَینِ وأحْیَیْتَنَا اِحیَاءَ تَیْنِ دونوں جگہ مصدر کو حذف کرکے صفت کو ان کے قائم مقام کردیا گیا ہے، مفسر علام نے اماتتین اور اِحیَائتَینِ کا اضافہ کرکے اشارہ کردیا کہ یہ دونوں مصدر محذوف ہیں اور اثنتین صفت۔
قولہ : ذٰلکم بأنَّہٗ ، ذٰلکم اسم اشارہ مبتداء، مشارٌ الیہ، عذاب، بِأنّہٗ مبتداء کی خبر۔
قولہ : ای اللہ عظیم الصات اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ رفیعٌ صفت مشبہ ہے اور مبتداء محذوف کی خبر ہے ای ھُوَ مُنَزَّہٌ فِی صِفَاتِہٖ عن کل نقصٍ ۔ قولہ : اَوْ رَافِعٌ، فعیل مبالغہ بمعنی فاعل ہے۔
قولہ : مِنْ اَمٌرِہٖ جار مجرور یُلقِیْ کے متعلق ہے مِنْ ابتداء غایت کے لئے ہے۔
قولہ : یُخَوِّفُ المُلقیٰ عَلَیْہِ النَّاسَ ، المُلقیٰ علَیہ، یخوِّفُ کا فاعل ہے النَّاسَ مفعول ہے، اور ملقیٰ علَیْہِ سے مراد، رسول یا نبی ہے۔
قولہ : تلاق ایک دوسرے سے ملاقات کرنا، باہم جمع ہونا، یہ اصل میں تَلَاقِی تھا، جو باب تفاعل کا مصدر ہے، آخر سے (ی) حرف علت حذف ہوگئی اس میں اثبات (ی) اور اسقاط (ی) دونوں جائز ہیں۔
قولہ : لِتَلاقی اھل السماء والارض الخ یہ قیامت کے دن کا یوم التلاق نام رکھنے کی علت کا بیان ہے۔
قولہ : یومَ ھم بارزون، یومَ لاتلاقِ سے بدل الکل ہے، یوم جملہ اسمیہ کی طرف مضاف ہے ھم مبتداء بارزونَ خبر اول لا یَخْفیٰ خبر ثانی لاَ یَخْفیٰ ، بارِزونَ کی ضمیر سے حال بھی ہوسکتا ہے، زمخشری نے حال کو راجح قرار دیا ہے۔
قولہ : لِمَنِ الملکُ الیومَ یہ روز قیامت واقع ہونے والے سوال و جواب کی حکایت ہے یعنی اللہ قیامت کے روز لمن الملک الیوم کہہ کر سوال فرمائیں گے اور خود ہی لِلّٰہِ الواحد القھار کہہ کر جواب دیں گے لِمَنْ خبر مقدم ہے، اور الملکُ مبتداء مؤخر ہے۔
قولہ : لِلّٰہِ مبتداء کی خبر ہے ای الْمُلْکُ لِلّٰہِ زمخشری نے کہا ہے، قیامت کے دن ایک منادی ندا دے گا، لِمَنِ المُلکُ الیومَ ؟ تو اہل
محشر جواب دیں گے لِلّٰہِ الواحدِالقَھّارِ ۔
قولہ : الیومَ تُجٌزٰی، الیومَ تجزیٰ کا ظرف مقدم ہے اور کُلُّ نفسٍ. تُجزٰی کا نائب فاعل ہے۔
قولہ : الآزِفَۃُ یہ قیامت کے ناموں میں سے ایک نام ہے، یہ اَزِفَ الرحیل سے مشتق ہے ای قَرُبَ ، قیامت چونکہ دن بدن قریب ہورہی ہے، اسی وجہ سے اس کو آزفَۃ کہا گیا ہے۔
قولہ : الحناجِر یہ حَنْجَرٌ کی جمع ہے بمعنی گلا (مختار میں ہے) الحَنْجَرَۃُ بالفتح و الحُنجُورُ بالضم الْحُلْقُوْمُ وبالفارسیۃ گلو۔
قولہ : کا ظمین یہ کاظِمٌ کی جمع مذکر عالم ہے، یہ القلوب سے حال ہے قاعدہ کے مطابق کا ظمَۃً ہونا چاہیے، اس لئے کہ قلوب غیر ذوی العقول ہیں، مگر کا ظمین جو کہ ذوی العقول کا معاملہ کیا گیا اسی مناسبت سے کا ظمۃً کے بجائے کا ظمین لائے ہیں، کظمٌ کے معنی ہیں نہایت غم و غصہ کی حالت میں دم بخود رہ جانا، ایسی صورت میں بولا جاتا ہے، خون کے گھونٹ پینا جس کو فارسی میں خشم فروخوردن کہتے ہیں۔
قولہ : یَعْلَمُ خَائِنَۃَ الْاَعْیُن یہ سابق میں مذکور ھوَالَّذِیْ یُرِیْکُمْ الخ میں ھُوَ مبتداء کی خبر ثانی ہے اَلَّذِی یرِیْکُمْ خبر اول ہے (دوسری ترکیب یہ ہوسکتی ہے) کہ یَعْلَمُ خائِنَۃَ الْا عْیُن، ھو، مبتداء محذوف کی چوتھی خبر ہے، (١) پہلی رفیع الدرجات (٢) دوسری ذوالعرش (٣) تیسری یُلقِی الروح (٤) چوتھی یَعْلَمُ خَائِنَۃَ الْاَعْیُن۔
تفسیر وتشریح
ان۔۔ ینادون . یہ کافروں کے دوزخ میں داخل ہونے کے بعد کی حالت کا بیان ہے، کفار و مشرکین جب دوزخ میں داخل ہونے کے بعد دنیا میں اپنے کفر و شرک اختیار کرنے پر حسرت و افسوس کا اظہار کریں گے اور ان کو خود اپنی ذات سے نفرت ہوگی، یہاں تک کہ مارے غصے کے اپنی انگلیاں کاٹ کاٹ کر کھاجائیں گے جیسا کہ درمنثور میں حضرت حسن سے روایت ہے، تو اس وقت کافروں سے کہا جائے گا تم کو اس وقت اپنے سے نفرت ہے اس سے بڑھ کر خدا کو تم سے نفرت تھی جبکہ تمکو ایمان کی طرف بلایا جاتا تھا تم نہیں مانا کرتے تھے، اللہ کی اس ناراضگی ہی کا نتیجہ ہے کہ آج تم جہنم میں ہو۔
دو موت اور دو زندکیوں سے کیا مراد ہے ؟ جمہور مفسرین کی تفسیر کے مطابق دو موتوں میں سے پہلی موت تو وہ نطفہ ہے جو باپ کی پشت میں ہوتا ہے، یعنی اس کے وجود سے پہلے اس کے عدم کو موت سے تعبیر کیا گیا ہے، اور دوسری موت وہ ہے، جس سے انسان اپنی زندگی گذار کر ہمکنار ہوتا ہے، اور اس کے بعد قبر میں دفن ہوجاتا ہے، اور دوزندگیوں میں سے پہلی زندگی یہ دنیوی زندگی ہے جس کا آغاز ولادت سے اختتام وفات پر ہوتا ہے، اور دوسری زندگی وہ ہے جو روز قیامت قبروں سے اٹھنے کے بعد حاصل ہوگی، ان ہی دونوں موتوں اور زندگیوں کا تذکرہ سورة بقرہ کی آیت ٢٨ میں بھی کیا گیا ہے وَکُنْتُمْ اَمْوَاتًا فاَحْیَاکُمْ ثُم یُمِیتُکُمْ ثمَّ یُحْیِیْکُمْ ۔ جہنم میں داخل ہونے کے بعد مشرکین اپنے شرک و کفر کے جرم کا اعتراف واقرار کریں گے جبکہ اعتراف کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا، اور اظہار ندامت و پشیمانی کریں گے جبکہ پشیمانی کچھ کام نہ آئے گی۔
رفیع الدرجات ” درجات “ سے بعض حضرات نے صفات مراد لی ہیں یعنی رفیع الدرجات کا مطلب ہے رفیع الصفات یعنی اس کی صفات کمال سب سے زیادہ رفیع الشان ہیں، ابن کثیر نے اس کو اپنے ظاہر پر رکھ کر یہ معنی بیان کئے ہیں کہ اس سے مراد رفعت عرش عظیم کا بیان ہے کہ وہ تمام زمینوں اور آسمانوں پر حاوی ہے، اور بعض حضرات مفسرین نے رفیع الدرجات کو رافیع الدرجات کے معنی میں لیا ہے، یعنی اللہ تعالیٰ مومنین متقین کے درجات کو بلند فرمانے والے ہیں، جیسا کہ قرآن کی آیات اس پر شاہد ہیں نَرْفَعُ درَجاتٍ مَنْ نشاءُ مذکورہ دونوں معنی کی طرف مفسر (رح) تعالیٰ نے اپنی تفسیری عبارت سے اشارہ کردیا ہے۔
یُلْقِی الرُّوْحَ امرہٖ روح سے مراد وحی ہے، جس کو اپنے بندوں میں سے کسی کو منتخب کرکے اس پر نازل کرتا ہے، وحی کو روح سے اس لئے تعبیر فرمایا ہے کہ جب طرح روح میں انسانی زندگی کی بقاء و سلامتی کا راز مضمر ہے، اسی طرح وحی سے بھی ان انسانی قلوب میں زندگی کی لہر دوڑ جاتی ہے جو پہلے کفر وشرک کی وجہ سے مردہ تھے۔
یَوْمَ ھم بارزون (الآیۃ) قیامت کے دن تمام انسان اس کے سامنے میدان حشر میں جمع ہوں گے، اللہ تعالیٰ زمین کو اپنی مٹھی میں اور آسمان کو اپنے دائیں ہاتھ میں لپیٹ لے گا، اور کہے گا میں بادشاہ ہوں، زمین کے بادشاہ کہاں ہیں ؟ (صحیح بخاری سورة زمر) ۔
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک و تعالیٰ اس فضیحت و رسوائی کا ذکر کرتا ہے جس کا کفار کو سامنا کرنا ہوگا، نیز ان کی دنیا میں دوبارہ بھیجے جانے کی درخواست کے رد ہونے اور ان پر زجر و توبیخ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے : ﴿إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا ﴾ ” بے شک جن لوگوں نے کفر کیا۔“ اللہ تعالیٰ نے اسے مطلق بیان کیا ہے تاکہ یہ کفر کی تمام انواع کو شامل ہو، مثلاً اللہ تعالیٰ، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں اور روز آخرت کا انکار وغیرہ۔ جب یہ لوگ جہنم میں داخل ہوں گے تو اقرار کریں گے کہ وہ اپنے گناہوں کے باعث جہنم کے مستحق ہیں۔ وہ اپنے آپ پر شدید غیظ و غضب کا اظہار کریں گے۔ تب اس وقت ان کو پکار کر کہا جائے گا : ﴿لَمَقْتُ اللّٰـهِ﴾ یعنی تم پر اللہ تعالیٰ کی ناراضی ﴿إِذْ تُدْعَوْنَ إِلَى الْإِيمَانِ فَتَكْفُرُونَ ﴾ یعنی جب تمہیں اللہ تعالیٰ کے رسولوں اور ان کے متبعین نے ایمان کی دعوت دی، تمہارے سامنے دلائل و براہین بیان کئے جن سے حق واضح ہوگیا، مگر تم نے کفر کو اپنائے رکھا اور ایمان سے منہ موڑ لیا، جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے تمہیں تخلیق فرمایا تھا اور تم اللہ تعالیٰ کی وسیع رحمت کے سائے سے نکل گئے تو اللہ تعالیٰ تم پر غصے اور ناراض ہوگیا تو یہ ناراضی ﴿أَكْبَرُ مِن مَّقْتِكُمْ أَنفُسَكُمْ﴾ ” تمہاری اپنی ناراضی سے کہیں زیادہ ہے۔“ یعنی اس کریم ہستی کی یہ ناراضی ہمیشہ تم پر نازل رہی حتیٰ کہ تم اس حالت کو پہنچ گئے۔ آج تم پر اللہ تعالیٰ کا غیظ و غضب اور اس کا عذاب نازل ہوگا جب کہ اہل ایمان اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کے ثواب سے سرفراز ہوں گے۔
11 Mufti Taqi Usmani
jinn logon ney kufr ikhtiyar kiya hai , unn say pukar ker kaha jaye ga kay : ( aaj ) tumhen jitni beyzari apney aap say ho rahi hai , uss say ziyada beyzari Allah ko uss waqt hoti thi jab tumhen emaan ki dawat di jati thi , aur tum inkar kertay thay .
12 Tafsir Ibn Kathir
کفار کی دوبارہ زندگی کی لاحاصل آرزو۔
قیامت کے دن جبکہ کافر آگ کے کنوؤں میں ہوں گے اور اللہ کے عذابوں کو چکھ چکے ہوں گے اور تمام ہونے والے عذاب نگاہوں کے سامنے ہوں گے اس وقت خود اپنے نفس کے دشمن بن جائیں گے اور بہت سخت دشمن ہوجائیں گے۔ کیونکہ اپنے برے اعمال کے باعث جہنم واصل ہوں گے۔ اس وقت فرشتے ان سے بہ آواز بلند کہیں گے کہ آج جس قدر تم اپنے آپ سے نالاں ہو اور جتنی دشمنی تمہیں خود اپنی ذات سے ہے اور جس قدر تم آج اپنے تئیں کہہ رہے ہو اس سے بہت زیادہ برے اللہ کے نزدیک تم دنیا میں تھے جبکہ تمہیں اسلام و ایمان کی دعوت دی جاتی تھی اور تم اسے مانتے نہ تھے، اس کے بعد کی آیت ( كَيْفَ تَكْفُرُوْنَ باللّٰهِ وَكُنْتُمْ اَمْوَاتًا فَاَحْيَاكُمْ ۚ ثُمَّ يُمِيْتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيْكُمْ ثُمَّ اِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ 28) 2 ۔ البقرة :28) کے ہے۔ سدی فرماتے ہیں یہ دنیا میں مار ڈالے گئے پھر قبروں میں زندہ کئے گئے اور جواب سوال کے بعد مار ڈالے گئے پھر قیامت کے دن زندہ کردیئے گئے۔ ابن زید فرماتے ہیں حضرت آدم (علیہ السلام) کی پیٹھ سے روز میثاق کو زندہ کئے گئے پھر ماں کے پیٹ میں روح پھونکی گئی پھر موت آئی پھر قیامت کے دن جی اٹھے۔ لیکن یہ دونوں قول ٹھیک نہیں اس لئے کہ اس طرح تین موتیں اور تین حیاتیں لازم آتی ہیں اور آیت میں دو موت اور دو زندگی کا ذکر ہے، صحیح قول حضرت ابن مسعود حضرت ابن عباس اور ان کے ساتھیوں کا ہے۔ (یعنی ماں کے پیٹ سے پیدا ہونے کی ایک زندگی اور قیامت کی دوسری زندگی، پیدائش دنیا سے پہلے کی موت اور دنیا سے رخصت ہونے کی موت یہ دو موتیں اور دو زندگیاں مراد ہیں) مقصود یہ ہے کہ اس دن کافر اللہ تعالیٰ سے قیامت کے میدان میں آرزو کریں گے کہ اب انہیں دنیا میں ایک مرتبہ اور بھیج دیا جائے جیسے فرمان ہے ( وَلَوْ تَرٰٓي اِذِ الْمُجْرِمُوْنَ نَاكِسُوْا رُءُوْسِهِمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ ۭ رَبَّنَآ اَبْصَرْنَا وَسَمِعْنَا فَارْجِعْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا اِنَّا مُوْقِنُوْنَ 12 ) 32 ۔ السجدة :12) ، تو دیکھے گا کہ گنہگار لوگ اپنے رب کے سامنے سرنگوں ہوں گے اور کہہ رہے ہوں گے کہ اللہ ہم نے دیکھ سن لیا اب تو ہمیں پھر دنیا میں بھیج دے تو نیکیاں کریں گے اور ایمان لائیں گے۔ لیکن ان کی یہ آرزو قبول نہ فرمائی جائے گی۔ پھر جب عذاب و سزا کو جہنم اور اس کی آگ کو دیکھیں گے اور جہنم کے کنارے پہنچا دئے جائیں گے تو دوبارہ یہی درخواست کریں گے اور پہلی دفعہ سے زیادہ زور دے کر کہیں گے جیسے ارشاد ہے (ولو تری اذوقفوا علی النار) یعنی کاش کے تو دیکھتا جبکہ وہ جہنم کے پاس ٹھہرا دیئے گئے ہوں گے کہیں گے کاش کے ہم دنیا کی طرف لوٹائے جاتے اور اپنے رب کی باتوں کو نہ جھٹلاتے اور باایمان ہوتے، بلکہ ان کے لئے وہ ظاہر ہوگیا جو اس سے پہلے وہ چھپا رہے تھے اور بالفرض یہ واپس لوٹائے بھی جائیں تو بھی دوبارہ یہ وہی کرنے لگیں گے جس سے منع کئے گئے ہیں۔ یہ ہیں ہی جھوٹے۔ اس کے بعد جب انہیں جہنم میں ڈال دیا جائے گا اور عذاب شروع ہوجائیں گے اس وقت اور زیادہ زور دار الفاظ میں یہی آرزو کریں گے وہاں چیختے چلاتے ہوئے کہیں گے (رَبَّنَآ اَخْرِجْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا غَيْرَ الَّذِيْ كُنَّا نَعْمَلُ 37 ) 35 ۔ فاطر :37) ، اے ہمارے پروردگار ہمیں یہاں سے نکال دے ہم نیک اعمال کرتے رہیں گے ان کے خلاف جو اب تک کرتے رہے جواب ملے گا کہ کیا ہم نے انہیں اتنی عمر اور مہلت نہ دی تھی کہ اگر یہ نصیحت حاصل کرنے والے ہوتے تو یقینا کرسکتے۔ بلکہ تمہارے پاس ہم نے آگاہ کرنے والے بھی بھیج دیئے تھے اب اپنے کرتوت کا مزہ چکھو ظالموں کا کوئی مددگار نہیں کہیں گے کہ اللہ ہمیں یہاں سے نکال دے اگر ہم پھر وہی کریں تو یقینا ہم ظالم ٹھہریں گے۔ اللہ فرمائے گا دور ہوجاؤ اسی میں پڑے رہو اور مجھ سے کلام نہ کرو۔ اس آیت میں ان لوگوں نے اپنے سوال سے پہلے ایک مقدمہ قائم کر کے سوال میں ایک گونہ لطافت کردی ہے، اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کو بیان کیا کہ باری تعالیٰ ہم مردہ تھے تو نے ہمیں زندہ کردیا پھر مار ڈالا پھر زندہ کردیا۔ پھر تو ہر اس چیز پر جسے تو چاہے قادر ہے۔ ہمیں اپنے گناہوں کا اقرار ہے یقینا ہم نے اپنی جانوں پر ظلم و زیادتی کی اب بچاؤ کی کوئی صورت بنا دے۔ یعنی ہمیں دنیا کی طرف پھر لوٹا دے جو یقینا تیرے بس میں ہے ہم وہاں جا کر اپنے پہلے اعمال کے خلاف اعمال کریں گے اب اگر ہم وہی کام کریں تو بیشک ہم ظالم ہیں۔ انہیں جواب دیا جائے گا کہ اب دوبارہ دنیا میں جانے کی کوئی راہ نہیں ہے۔ اس لئے کہ اگر دوبارہ چلے بھی جاؤ گے تو پھر بھی وہی کرو گے جس سے منع کئے گئے۔ تم نے اپنے دل ہی ٹیڑھے کر لئے ہیں تم اب بھی حق کو قبول نہ کرو گے بلکہ اس کے خلاف ہی کرو گے۔ تمہاری تو یہ حالت تھی کہ جہاں اللہ واحد کا ذکر آیا وہیں تمہارے دل میں کفر سمایا۔ ہاں اس کے ساتھ کسی کو شریک کیا جائے تو تمہیں یقین و ایمان آجاتا تھا۔ یہی حالت پھر تمہاری ہوجائے گی۔ دنیا میں اگر دوبارہ گئے تو پھر بھی یہی کرو گے۔ پس حاکم حقیقی جس کے حکم میں کوئی ظلم نہ ہو سرا سر عدل و انصاف ہی ہو وہ اللہ تعالیٰ ہی ہے جسے چاہے ہدایت دے جسے چاہے نہ دے جس پر چاہے رحم کرے جسے چاہے عذاب کرے اس کے حکم وعدل میں کوئی اس کا شریک نہیں۔ وہ اللہ اپنی قدرتیں لوگوں پر ظاہر کرتا ہے۔ زمین و آسمان میں اس کی توحید کی بیشمار نشانیاں موجود ہیں۔ جن سے صاف ظاہر ہے کہ سب کا خالق سب کا مالک سب کا پالنہار اور حفاظت کرنے والا وہی ہے۔ وہ آسمان سے روزی یعنی بارش نازل فرماتا ہے جس سے ہر قسم کے اناج کی کھیتیاں اور طرح طرح کے عجیب عجیب مزے کے مختلف رنگ روپ اور شکل وضع کے میوے اور پھل پھول پیدا ہوتے ہیں حالانکہ پانی ایک زمین ایک۔ لہذا اس سے بھی اس کی شان ظاہر ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ عبرت و نصیحت فکر و غور کی توفیق ان ہی کو ہوتی ہے جو اللہ کی طرف رغبت و رجوع کرنے والے ہوں، اب تم دعا اور عبادت خلوص کے ساتھ صرف اللہ واحد کی کیا کرو۔ مشرکین کے مذہب و مسلک سے الگ ہوجاؤ حضرت عبداللہ بن زبیر (رض) ہر فرض کے سلام کے بعد یہ پڑھتے تھے۔ (لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ لہ الملک ولہ الحمد وھو علی کل شئی قدیر)
اور فرماتے تھے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی ہر نماز کے بعد انہیں پڑھا کرتے تھے۔ (مسند احمد) یہ حدیث مسلم ابو داؤد وغیرہ میں بھی ہے ابن ابی حاتم میں ہے اللہ تبارک و تعالیٰ سے دعا کرو اور قبولیت کا یقین کامل رکھو اور یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ بےپرواہ اور دوسری طرف کے مشغول دل کی دعا نہیں سنتا۔