اور کیا یہ لوگ زمین میں چلے پھرے نہیں کہ دیکھ لیتے ان لوگوں کا انجام کیسا ہوا جو ان سے پہلے تھے، وہ لوگ قوّت میں (بھی) اِن سے بہت زیادہ تھے اور اُن آثار و نشانات میں (بھی) جو زمین میں (چھوڑ گئے) تھے۔ پھر اللہ نے ان کے گناہوں کی وجہ سے انہیں پکڑ لیا، اور ان کے لئے اللہ (کے عذاب) سے بچانے والا کوئی نہ تھا،
English Sahih:
Have they not traveled through the land and observed how was the end of those who were before them? They were greater than them in strength and in impression on the land, but Allah seized them for their sins. And they had not from Allah any protector.
1 Abul A'ala Maududi
کیا یہ لوگ کبھی زمین میں چلے پھرے نہیں ہیں کہ انہیں اُن لوگوں کا انجام نظر آتا جو اِن سے پہلے گزر چکے ہیں؟ وہ اِن زیادہ طاقت ور تھے اور ان سے زیادہ زبردست آثار زمین میں چھوڑ گئے ہیں مگر اللہ نے ان کے گناہوں پر انہیں پکڑ لیا اور اُن کو اللہ سے بچانے والا کوئی نہ تھا
2 Ahmed Raza Khan
تو کیا انہوں نے زمین میں سفر نہ کیا کہ دیکھتے کیسا انجام ہوا ان سے اگلوں کا ان کی قوت اور زمین میں جو نشانیاں چھوڑ گئے ان سے زائد تو اللہ نے انہیں ان کے گناہوں پر پکڑا، اور اللہ سے ان کا کوئی بچانے والا نہ ہوا
3 Ahmed Ali
کیا انہوں نے زمین میں سیر نہیں کی کہ وہ دیکھتے ان لوگو ں کا انجام کیسا تھا جو ان سے پہلے ہو گزرے ہیں وہ قوت میں ان سے بڑھ کر تھے اور زمین میں آثار کے اعتبار سے بھی پھر الله نے انہیں ان کے گناہوں کے سبب سے پکڑ لیا اوران کے لیے الله سے کوئی بچانے والا نہ تھا
4 Ahsanul Bayan
کیا یہ لوگ زمین میں چلے پھرے نہیں کہ دیکھتے کہ جو لوگ ان سے پہلے تھے ان کا نتیجہ کیسا ہوا؟ وہ قوت و طاقت کے اور باعتبار زمین میں اپنی یادگاروں کے ان سے بہت زیادہ تھے، پس اللہ نے انہیں ان گناہوں پر پکڑ لیا اور کوئی نہ ہوا جو انہیں اللہ کے عذاب سے بچا لیتا۔
۲۱۔۱ گزشنہ آیات میں احوال آخرت کا بیان تھا اب دنیا کے احوال سے انہیں ڈرایا جا رہا ہے کہ یہ لوگ ذرا زمین میں چل پھر کر ان قوموں کا انجام دیکھیں جو ان سے پہلے اس جرم تکذیب میں ہلاک کی گئیں جس کا ارتکاب یہ کر رہے ہیں دراں حالیکہ گزشتہ قومیں قوت و آثار میں ان سے کہیں بڑھ کر تھیں لیکن جب ان پر اللہ کا عذاب آیا تو انہیں کوئی نہیں بجا سکا اسی طرح تم پر بھی عذاب آ سکتا ہے اور اگر آ گیا تو پھر کوئی تمہارا پشت پناہ نہ ہوگا۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
کیا انہوں نے زمین میں سیر نہیں کی تاکہ دیکھ لیتے کہ جو لوگ ان سے پہلے تھے ان کا انجام کیسا ہوا۔ وہ ان سے زور اور زمین میں نشانات (بنانے) کے لحاظ سے کہیں بڑھ کر تھے تو خدا نے ان کو ان کے گناہوں کے سبب پکڑ لیا۔ اور ان کو خدا (کے عذاب) سے کوئی بھی بچانے والا نہ تھا
6 Muhammad Junagarhi
کیا یہ لوگ زمین میں چلے پھرے نہیں کہ دیکھتے کہ جو لوگ ان سے پہلے تھے ان کا نتیجہ کیسا کچھ ہوا؟ وه باعتبار قوت و طاقت کے اور باعتبار زمین میں اپنی یادگاروں کے ان سے بہت زیاده تھے، پس اللہ نے انہیں ان کے گناہوں پر پکڑ لیا اور کوئی نہ ہوا جو انہیں اللہ کے عذاب سے بچا لیتا
7 Muhammad Hussain Najafi
کیا یہ لوگ زمین پر چلتے پھرتے نہیں ہیں کہ دیکھیں کہ ان لوگوں کا انجام کیا ہوا جو ان سے پہلے تھے؟ قوت کے لحاظ سے اور زمین میں چھوڑے ہوئے آثار کے اعتبار سے ان سے زیادہ طاقتور تھے تو اللہ نے ان کے گناہوں کی پاداش میں ان کو پکڑا تو ان کو اللہ (کی گرفت) سے بچانے والا کوئی نہ تھا۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
کیا ان لوگوں نے زمین میں سیر نہیں کی کہ دیکھتے کہ ان سے پہلے والوں کا انجام کیا ہوا ہے جو ان سے زیادہ زبردست قوت رکھنے والے تھے اور زمین میں آثار کے مالک تھے پھر خدا نے انہیں ان کے گناہوں کی گرفت میں لے لیا اور اللہ کے مقابلہ میں ان کا کوئی بچانے والا نہیں تھا
9 Tafsir Jalalayn
کیا انہوں نے زمین میں سیر نہیں کی تاکہ دیکھ لیتے کہ جو لوگ اس نے پہلے تھے ان کا انجام کیسا ہوا، وہ ان سے زور اور زمین میں نشانات (بنانے) کے لحاظ سے کہیں بڑھ کر تھے تو خدا نے ان کو ان کے گناہوں کے سبب پکڑ لیا اور ان کو خدا (کے عذاب) سے کوئی بھی بچانے والا نہ تھا آیت نمبر 21 تا 27 ترجمہ : کیا یہ لوگ زمین پر چلتے پھرتے نہیں ؟ کہ دیکھتے کہ جو لوگ ان سے پہلے تھے ان کا کیسا کچھ انجام ہوا وہ باعتبار قوت و طاقت کے اور باعتبار زمین میں اپنی یادگاروں کے، ان سے بہت بڑھے ہوئے تھے اور وہ یادگاریں پانی کے بڑے بڑے حوض اور محلات تھے، اور ایک قرآءت میں مِنْھُمْ کی بجائے مِنْکُمْ ہے، پس اللہ نے انہیں ان کے گناہوں پر پکڑ لیا (ہلاک کردیا) اور کوئی نہ ہوا جو انہیں اللہ کے عذاب سے بچالیتا، یہ اس وجہ سے کہ ان کے پاس ان کے پیغمبر کھلے معجزے لیکر آتے تھے تو وہ انکار کردیتے تھے سو اللہ نے ان کو گرفت میں لے لیا، یقیناً وہ طاقتور اور سخت عذاب والا ہے اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو اپنی آیتوں اور واضح دلیلوں کے ساتھ فرعون، ہامان اور قارون کی طرف بھیجا تو انہوں نے کہا (یہ تو) جادوگر (اور) جھوٹا ہے، پس جب (موسیٰ (علیہ السلام) ) ہماری طرف سے حق لے کر آئے تو انہوں نے کہا کہ ان پر جو ایمان لانے والے ہیں ان کے لڑکوں کو قتل کردو اور ان کی لڑکیوں کو زندہ رکھو اور کافروں کی تدبیر محض بےاثر رہی، اور فرعون نے کہا مجھے چھوڑ دو کہ میں موسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کردوں، اس لئے کہ وہ اس کو موسیٰ (علیہ السلام) کے قتل سے منع کرتے تھے اور اسے چاہیے کہ اپنے رب کو بلالے تاکہ وہ اس کو مجھ سے بچا سکے، مجھے تو اندیشہ ہے کہ کہیں تمہارا دین نہ بدل ڈالے یعنی تمہارے میری عبادت کرنے کو، کہ تم اسی کی اتباع کرنے لگو، اور ملک میں کوئی (بہت بڑا) فساد برپا نہ کردے (مثلاً ) قتل وغیرہ ایک قراءت میں (واؤ کے بجائے) اَوْ ہے، اور دوسری میں یُظْھِرُ کی بجائے یَظْھَرُ (ی اور ہا) کے فتحہ اور (دال) کے ضمہ کے ساتھ ہے اور موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے کہا حال یہ کہ موسیٰ اس بات کو یعنی اپنے قتل کی بات کو سن چکے تھے، میں اپنے اور تمہارے رب کی پناہ میں آتا ہوں ہر تکبر کرنے والے شخص (کی بڑائی) سے جو روز حساب پر ایمان نہیں رکھتا۔ تحقیق و ترکیب وتسہیل وتفسیری فوائد قولہ : فینظروا کَیْفَ کَانَ عاقِبۃُ الَّذینَ کانُوْا مِن قبْلِھِم کا نُوْاھُمْ اَشَدَّ مِنْھُمْ ، کیفَ ، کانَ کی خبر مقدم ہے، عاقِبَۃُ ، کانَ کا اسم جملہ ہو کر ینظر کا مفعول ہونے کی وجہ سے محلاً مفعول ہونے کی وجہ سے محلاً منصوب ہے کانوا ھُمْ اَشَدَّ مِنْھُمْ قوۃً وَّاٰثارًا فِی الارضِ ، کانُوْا فعل ناقص اس کے اندر ضمیر اس کا اسم اَسَدَّ خبر ھُمْ ضمیر فصل قُوَّۃً تمیز معطوف علیہ اٰثارًا معطوف۔ سوال : ضمیر فصل دو معرفوں کے درمیان واقع ہوتی ہے نہ کہ دونکروں یا ایک معرفہ اور ایک نکرہ کے درمیان، یہاں ھُمْ معرفہ اور اَشَدَّ نکرہ کے درمیان واقع ہے۔ جواب : نکرہ اگر مشابہ بالمعرفہ ہو تو ضمیر فصل کا نکرہ اور معرفہ کے درمیان میں واقع ہونا درست ہوتا ہے، یہاں اَشَدَّ جو کہ نکرہ ہے مشابہ بالمعرفہ ہے، اس لئے کہ اس پر الف لام کا داخل ہونا منع ہے، اس لئے کہ اسم تفصیل جب مقرون بمِن ہو تو اس پر الف لام داخل نہیں ہوا کرتا، اور یہ مشابہ بالمعرفہ ہونے کی علامت ہے، لہٰذا اب کوئی اعتراض نہیں۔ قولہ : مصَانِعُ یہ مضنع کی جمع ہے، مصنع متعدد معانی میں مستعمل ہے، بڑا حوص جس میں بارش کا پانی جمع ہو، نیز قلعے اور محلات کو بھی کہتے ہیں مفسر علام نے اٰثارًا کی تفسیر مصانع اور قصور سے کی ہے، قصور قصر کی جمع ہے محلات کو کہتے ہیں، مصانع سے قلعے اور بڑے تالاب یعنی ڈیم مراد ہوسکتے ہیں۔ قولہ : عذابہٖ اس سے حذف مضاف کی طرف اشارہ ہے مِن اللہ ای مِنْ عذاب اللہ۔ تفسیر وتشریح ربط آیات : گذشتہ آیات میں آخرت کے احوال اور ان کی ہولناکیوں کا بیان تھا، اب دنیا کے احوال سے انہیں ڈرایا جارہا ہے، کہ یہ لوگ ذرازمین میں چل پھر کر ان قوموں کا انجام دیکھیں جو ان سے پہلے اس جرم تکذیب میں ہلاک ہوچکی ہیں، جس کا ارتکاب یہ کررہے ہیں، درآنحالیکہ گذشتہ قومیں قوت و آثار میں ان سے کہیں بڑھ کر تھیں، لیکن جب ان پر اللہ کا قہر نازل ہوا تو ان کو کوئی نہ بچا سکا۔ اسی طرح تم پر بھی عذاب آسکتا ہے، اگر آگیا تو پھر تمہارا پشت پناہ نہ ہوگا۔ ذلک۔۔ تاتیھم (الآیہ) یہ ان کی ہلاکت کی علت کا بیان ہے، اور وہ ہے اللہ کی آیتوں کا انکار اور اس کے رسولوں کی تکذیب، اب سلسلۂ نبوت و رسالت تو بند ہے، تاہم آفاق وانفس میں بیشمار آیات الہٰی بکھری اور پھیلی ہوئی ہیں، علاوہ ازیں وعظ و تذکیر اور دعوت و تبلیغ کے ذریعہ علماء اور داعیان حق ان کی وضاحت اور نشاندہی کے لئے موجود ہیں، اس لئے آج بھی جو آیات الہٰی سے اعراض اور دین و شریعت سے غفلت کرے گا، اس کا انجام مکذبین اور متکبرین رسالت سے مختلف نہیں ہوگا۔ ولقد۔۔۔ یٰاتنا (الآیۃ) آیات سے مراد وہ نو نشانیاں بھی ہوسکتی ہیں جن کا تذکرہ متعدد بار آچکا ہے، یا ان میں سے دو بڑے معجزے عصا اور ید بیضاء مراد ہوسکتے ہیں، سلطانٌ مبینٌ سے مراد قوی دلیل اور حجت واضحہ ہیں، جس کا ان کے پاس کوئی جواب نہ ہو بجز ڈھٹائی اور بےشرمی کے۔ الیٰ ۔۔۔ قارون فرعون مصر میں قبطیوں کا بادشاہ تھا بڑا ظالم و جابر، اور رب اعلیٰ ہونے کا دعویٰ کرتا تھا، اس نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم کو غلام بنارکھا تھا، اور ان پر قسم قسم کی سختیاں کرتا تھا، جسیا کہ قرآن میں متعدد مقامات پر اس کی تفصیل موجود ہے، ہامان فرعون کا وزیر ومشیر خاص تھا، اور قارون اپنے وقت کا مالدار ترین شخص تھا، ان سب نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی تکذیب کی اور انہیں جادوگر اور کذاب کہا۔ قالو۔۔۔ معہٗ (الآیۃ) فرعون لڑکوں کے قتل کا کام پہلے سے بھی کررہا تھا تاکہ وہ بچہ پیدا نہ ہو جو نجومیوں کی پیش گوئی کے مطابق اس کی بادشاہت کے خطرے کا باعث تھا، موسیٰ کی بعثت اور ان کے معجزات دیکھنے کے بعد دوبارہ بنی اسرائیل کے لڑکوں کو قتل کرنے کا حکم دیا اس کا ایک مقصد موسیٰ (علیہ السلام) کی تذلیل و توہین بھی نیز یہ کہ بنی اسرائیل حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے وجود کو اپنے لئے نحوست و مصیبت سمجھیں، جیسا کہ نبی اسرائیل نے ایک موقع پر کہا تھا اُوْذِیْنَا مِنْ قبل أن تَاتِیَنَا وَمِن بعد مَا جِئْتَنَا (اعراف) اے موسیٰ ! ( (علیہ السلام) ) تیرے آنے سے قبل بھی ہم اذیتوں سے دو چار تھے اور تیرے آنے کے بعد بھی ہمارا یہی حال ہے۔ قال قتادۃ : ھٰذا قتلٌ غیرَ الْاَوَّل قتل کا یہ دوسرا حکم اول حکم کے علاوہ ہے۔ (فتح القدیر شو کانی۔ ایسر التفاسیر، تائب، معارف) وقال۔۔۔ موسیٰ . فرعون نے کہا مجھے چھوڑ دو تاکہ موسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کردوں، فرعون نے یہ بات یا تو اس وجہ سے کہی کہ اہل دربار میں سے کچھ لوگوں نے موسیٰ (علیہ السلام) کے قتل کو مصلحتِ ملکی کے خلاف سمجھا ہو، کہ عام چرچا ہوجائے گا، کہ ایک بےسروسامان شخص سے ڈر گئے، یا لوگوں کو یہ تاثر اور مغالطہ دینا تھا کہ اب تک موسیٰ کو صرف اس لئے قتل نہیں کیا کہ درباریوں کی رائے نہیں تھی ورنہ موسیٰ کو قتل سے کوئی چیز مانع نہیں ہے، حالانکہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات دیکھنے کے بعد خود فرعون کا حوصلہ نہیں تھا، کہ ان کو قتل کردے، مبادا کسی آسمانی عذاب میں مبتلا ہوجائے، اس لئے کہ فرعون کو دل میں موسیٰ (علیہ السلام) کے سچا رسول ہونے کا یقین تھا، مگر لوگوں کو بیوقوف بنانے اور اپنی ریاست باقی رکھنے کے لئے ایسی حرکتیں کرتا تھا، اسرائیلی لڑکوں کو قتل کرانے کے دو مقصد تھے، اول یہ کہ بنی اسرائیل کی عددی قوت میں اضافہ نہ ہو، دوسرے یہ کہ اس کی عزت میں کمی نہ ہو، فرعون کو یہ دونوں مقصد حاصل نہیں ہوئے، بلکہ اللہ تعالیٰ نے فرعون اور اس کی قوم ہی کو غرق دریا کردیا، اور بنی اسرائیل کو بابرکت زمین کا مالک بنادیا۔ وقال۔۔۔ بربی (الآیۃ) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے علم میں جب یہ بات آئی کہ فرعون مجھے قتل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اس کے شر سے بچنے کے لئے دعاء مانگی، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جب کسی دشمن کا خطرہ ہوتا تھا تو یہ دعاء مانگا کرتے تھے اللّٰھُمَّ اِنَّا نَجْعَلُلَ فِی نحورِ ھم ونعوذُبک من شرورھم (مسند احمد) اے اللہ ہم تجھ کو ان کے مقابلہ میں کرتے ہیں اور ان کی شرارتوں سے تیری پناہ طلب کرتے ہیں۔
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿أَوَلَمْ يَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ﴾ ” کیا یہ لوگ زمین میں چلے پھرے نہیں؟“ یعنی انہوں نے اپنے قلوب و ابدان کے ساتھ، گزشتہ قوموں کے آثار میں غور و فکر کرنے اور ان سے عبرت حاصل کرنے کے لئے چل پھر کر نہیں دیکھا؟ ﴿فَيَنظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِينَ كَانُوا مِن قَبْلِهِمْ﴾ ” تاکہ وہ دیکھتے کہ جو لوگ ان سے پہلے تھے ان کا انجام کیا ہوا؟“ یعنی جو ان سے پہلے انبیاء و رسل کی تکذیب کرنے والے تھے۔ وہ دیکھیں گے کہ ان کا بدترین انجام ہو اور وہ تباہ و برباد کردیئے گئے اور انہیں فضیحت اور رسوائی کاسامنا کرناپڑا، حالانکہ ﴿ كَانُوا ﴾ وہ ان لوگوں سے زیادہ طاقتور تھے، یعنی وہ تعداد، ساز و سامان اور جسمانی طور پر بہت طاقتور تھے۔ ﴿ وَ﴾ ” اور“ بہت زیادہ تھے﴿آثَارًا فِي الْأَرْضِ﴾ ” زمین میں )چھوڑے ہوئے) آثار کے لحاظ سے“ یعنی عمارات اور باغات وغیرہ کے لحاظ سے انہوں نے بہت زبردست آثار زمین میں چھوڑے۔ آثار کی قوت آثار چھوڑنے والے کی قوت اور اس کی شان و شوکت پر دلالت کرتی ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur kiya inn logon ney zameen mein chal phir ker yeh nahi dekha kay jo log inn say pehlay thay , unn ka kaisa anjam hochuka hai . woh taqat mein bhi inn say ziyada mazboot thay , aur zameen mein chorri hoi yaadgaaron kay aetbar say bhi . phir Allah ney unn kay gunahon ki wajeh say unhen pakar mein ley liya , aur koi nahi tha jo unhen Allah say bachaye .
12 Tafsir Ibn Kathir
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا تیری رسالت کے جھٹلانے والے کفار نے اپنے سے پہلے کے رسولوں کو جھٹلانے والے کفار کی حالتوں کا معائنہ ادھر ادھر چل پھر کر نہیں کیا جو ان سے زیادہ قوی طاقتور اور جثہ دار تھے۔ جن کے مکانات اور عالیشان عمارتوں کے کھنڈرات اب تک موجود ہیں۔ جو ان سے زیادہ باتمکنت تھے۔ ان سے بڑی عمروں والے تھے، جب ان کے کفر اور گناہوں کی وجہ سے عذاب الٰہی ان پر آیا۔ تو نہ تو کوئی اسے ہٹا سکا نہ کسی میں مقابلہ کی طاقت پائی گئی نہ اس سے بچنے کی کوئی صورت نکلی، اللہ کا غضب ان پر برس پڑنے کی وجہ یہ ہوئی کہ ان کے پاس بھی ان کے رسول واضح دلیلیں اور صاف روشن حجتیں لے کر آئے باوجود اس کے انہوں نے کفر کیا جس پر اللہ نے انہیں ہلا کردیا اور کفار کے لئے انہیں باعث عبرت بنادیا۔ اللہ تعالیٰ پوری قوت والا، سخت پکڑ والا، شدید عذاب والا ہے۔ ہماری دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنے تمام عذابوں سے نجات دے۔