الزخرف آية ۱
حٰمٓ ۚ
طاہر القادری:
حا، میم (حقیقی معنی اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں)،
English Sahih:
Ha, Meem.
1 Abul A'ala Maududi
ح م
2 Ahmed Raza Khan
حٰمٓ
3 Ahmed Ali
حمۤ
4 Ahsanul Bayan
حم
5 Fateh Muhammad Jalandhry
حٰم
6 Muhammad Junagarhi
حٰم
7 Muhammad Hussain Najafi
حا۔ میم۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
حمۤ
9 Tafsir Jalalayn
حٰم۔
آیت نمبر ١ تا ١٥
ترجمہ : شروع کرتا ہوں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے حٰمٓ اس سے اپنی مراد کو اللہ ہی بہتر جانتا ہے قسم ہے اس کتاب کی جو ہدایت کے راستہ کو اور ضروری (قوانین) شریعت کو واضح کرنے والی ہے، اور ہم نے اس کتاب کو عربی زبان کا قرآن بنایا ہے تاکہ تم اے مکہ والو ! اس کے معانی کو سمجھ لو اور وہ اصل کتاب یعنی لوح محفوظ میں موجود ہے ہمارے نزدیک سابقہ کتابوں کے مقابلہ میں عالی مرتبت بڑی حکمت والی (کتاب) ہے، لَدَیْنَا (فی ام الکتاب) سے بدل ہے (لَدَیْنَا) معنی میں عندنا کے ہے (صاوی) کیا ہم اس نصیحت نامہ (یعنی) قرآن کو تم سے روک لیں کہ تم کو نہ حکم کیا جائے اور نہ منع کیا جائے اس بناء پر کہ تم حد سے تجاوز کرنے والے لوگ ہو اور ہم نے اگلے لوگوں میں بھی کتنے ہی نبی بھیجے، ان کے پاس کوئی نبی ایسا نہیں آیا کہ اس کا انہوں نے مذاق نہ اڑایا ہو جیسا کہ تیری قوم نے تیر امذاق اڑایا، یہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تسلی ہے پس ہم نے ان سے یعنی تیری قوم سے زیادہ زور آوروں کو ہلاک کر ڈالا اور آیات میں اگلوں کی مثالیں گذر چکی ہیں (یعنی) ہلاکت میں ان کی کیفیت (گذر چکی ہے) تیری قوم کا انجام بھی ایسا ہی ہوگا اور اگر آپ ان سے دریافت کریں کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا ؟ تو وہ یقیناً یہی جواب دیں گے، کہ ان کو غالب ودانا (اللہ) نے پیدا کیا (لَیَقُولُنَّ ) میں نون رفع متعد نونوں کے جمع ہونے کی وجہ سے حذف کردیا گیا، اور واو ضمیر التقاء ساکنین کی وجہ سے حذف ہوگیا، اور ذوا لعزۃ والعلم (یعنی) العزیز العلیم پر مشرکین کا کلام (جواب) پورا ہوگیا (اس کلام پر) اللہ تعالیٰ نے الّذی جَعَلَ لکم (سے) وَاِنَّا اِلیٰ رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُونَ تک زیادہ فرمایا، جس نے تمہارے لئے زمین کو فرش بنایا، جیسا کہ بچہ کے لئے گہوارہ اور اس میں تمہارے لئے راستے بنائے تاکہ تم اپنے سفر میں اپنے مقاصد تک رسائی حاصل کرو اور اسی نے ایک اندازہ کے مطابق پانی نازل فرمایا یعنی تمہاری ضرورت کے مطابق اور اس کو طوفان کی شکل میں نازل نہیں کیا پس ہم نے اس کے ذریعہ مردہ شہر (خشک زمین) کو زندہ کردیا، اسی طرح یعنی اس احیاء کے مانند تم کو قبروں سے زندہ کر کے نکالا جائے گا، جس پر ہر چیز کے جوڑے بنائے اور تمہارے لئے کشتیاں بنائیں، اور جانوروں مثلاً اونٹ پیدا کئے جن پر تم سوار ہوتے ہو (ضمیر) عائد کو اختصار اً حذف کردیا گیا اور وہ عائد اول (یعنی مِنَ الْفُلْکِ میں) مجرور ہے، یعنی ترکبون فیہِ اور ثانی یعنی والانعام میں منصوب ہے (یعنی ترکبونَہٗ ) تاکہ تم ان کی پیٹھوں پر جم کر سواری کرسکو (ظھورہٖ ) میں ہٖ ضمیر کو مذکر (مفرد) لائے اور ظُھُور کو جمع مَا کے لفظ اور معنی کی رعایت کرتے ہوئے پھر تم اپنے رب کی نعمت کو یاد کرو جب تم اس پر ٹھیک ٹھاک بیٹھ جاؤ اور کہو پاک ذات ہے اس کی جس نے اسے ہمارے بس میں کردیا حالانکہ ہمارے اندرا سے قابو میں کرنے کی طاقت نہ تھی اور یقیناً ہم اپنے رب کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں، اور انہوں نے اللہ کے بعض بندوں کو اس کا جز ٹھہرادیا، جبکہ انہوں نے کہا ملائکہ اللہ کی بیٹیاں ہیں، اس لئے کہ ولد، والد کا جزء ہوتا ہے، حالانکہ فرشتے اللہ کے بندے ہیں یقیناً اس بات کا قائل انسان کھلم کھلا کفر کرنے والا ہے۔
تحقیق و ترکیب وتسہیل وتفسیری فوائد
سُورۃُ الزُخرُفِ : زخْرُف ملمع، زرین، آراستہ، زینت، زخرف کا استعمال جب قول کے ساتھ ہوتا ہے، تو جھوٹ، فریب وغیرہ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے، ارشاد ہے زُخْرُفَ القَوْلِ غُرُوْرًا ملمع کی ہوئی فریب کی باتیں۔ (لغات القرآن ملخصاً )
قولہ : والکتابِ المبین واو قسمیہ جارہ ہے، الکتابُ المبینُ موصوف باصفت مجرور ہے، جار یا مجرور متعلق اقسِمُ فعل محذوف کے، فعل اپنے فاعل و متعلق سے مل کر قسم اور اِنَّا جَعَلْنَاہُ جواب قسم۔
قولہ : اَوْ جَدْنَا الکِتَابَ مفسر علام نے جَعَلْنَاہ کی تفسیر اَوْ جَدْنَا الکتابَ سے کر کے ایک اعتراض کا جواب دیا ہے۔
اعتراض : جَعَلَ قرآن کے مجعول ہونے پر دلالت کرتا ہے اور مجعول مخلوق ہوتا ہے، لہٰذا اس سے قرآن کا مخلوق ہونا لازم آتا ہے، جو کہ عقیدہ اور نظریہ ہے معتزلہ کا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا وَجَعَلَ الظلمات والنورَ اللہ تعالیٰ نے نورو ظلمت کو پیدا فرمایا، حالانکہ یہ اہل سنت والجماعت کے عقیدہ کے خلاف ہے، اہل سنت والجماعت کے نزدیک کلام نفسی صفت خداوندی ہونے کی وجہ سے غیر مخلوق وقدیم ہے۔
جواب : جواب کا ماحصل یہ ہے کہ جَعَلَ خلق کے ساتھ خاص نہیں ہے، بلکہ قرآن کریم میں بھی دیگر معانی کے لئے استعمال ہوا ہے، مثلاً بَعَثَ کے معنی میں استعمال ہوا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے قول وَجَعَلْنَا مَعَہٗ اَخاہُ ھارونَ وزیرًا اور جَعَلَ بمعنی قَالَ بھی مستعمل ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے قول وَجَعَلُوا لَہٗ مِن عبَادِہٖ جُزْءًا یعنی مشرکوں نے اس کے بندوں میں سے بعض کو اس کا جزء کہا، یا جز ہونے کا عقیدہ رکھا، اور جَعَل بمعنی صَیَّرَ بھی مستعمل ہے، کقولہٖ تعالیٰ وَجَعَلْنَا عَلیٰ قُلوبِھِمْ اَکِنَّۃ ً ہم نے ان کے دلوں پر پردے ڈال دئیے، جَعَلْنَاہُ کی تفسیر صَیَّرْنَاہ کے بجائے اَوْ جَدْنَاہ سے کر کے اشارہ کردیا کہ جَعَلَ متعدی بیک مفعول ہے، اور وہ جعلناہ کی مفعولی ضمیر ہے، جس کا مرجع کتاب ہے، اور کتاباً عربیاً موصوف صفت سے مل کر جَعَلْنَاہ کی مفعولی ضمیر سے حال ہے، بعض مفسرین نے جَعَلَ کو صَیَّرَ کے معنی میں لے کر ہٗ ضمیر کو مفعول بہ اول اور قرآناً عربیاً کو موصوف صفت سے مل کر مفعول بہ ثانی قرار دیا ہے۔
البتہ زمخشری نے جَعَلَ بمعنی خَلَقَ جائز قرار دیا ہے، اور یہ قرآن کے مخلوق ہونے کے معتزلہ کے عقیدہ کے مطابق ہے۔ (اعراب القرآن) مسئلہ کی مزید وضاحت انشاء اللہ تفسیر و توضیح کے زیر عنوان تحریر کی جائے گی۔
قولہ : وَاِنَّہٗ فی اُمّ الکتابِ اس کا عطف جواب قسم پر ہے، اس طرح یہ دوسرا جواب قسم ہے، علامہ محلی نے مُثْبتٌ محذوف مان کر اشارہ کردیا کہ فی اُمِّ الکتاب جار مجرور سے مل کر اِنّ کی خبر ہے، اور لَدَیْنَا فی ام الکتاب سے بدل ہے اور معنی میں عندنا کے ہے، اور لَعَلِیٌّ حکِیمٌ اِنّ کی خبر ثانی ہے، اور اُمُّ الکتاب بمعنی اصل کتاب، یعنی لوح محفوظ ہے۔
قولہ : اَفَنَضْرِبُ ہمزہ محذوف پر داخل ہے اور فاء عاطفہ ہے، تقدیر عبارت یہ ہے اَنُھْلِکُمْ فَنَضْرِبُ الخ استفہام انکاری ہے، جس کی طرف مفسر علام نے کلام کے آخر میں، لا محذوف مان کر اشارہ کردیا ہے یعنی قرآن سے تمہارے اعراض کرنے کی وجہ سے قرآن کے نزول کے سلسلہ کو موقوف نہیں کریں گے، بلکہ نزول کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے قرآن کا نزول مکمل کریں گے، تاکہ تمہارے اوپر حجت تام ہوجائے۔
قولہ : نُمْسِکُ مفسر علام نے نضرب کی تفسیر یُمسِکَ سے کر کے اشارہ کردیا کہ صَفْحاً ، نَضْربُ کا مفعول مطلق ہے۔ اور صفْحاً ، اِمْسَاکاً کے معنی میں ہیں ای یُمْسِکُ اِمْسَاکاً ۔
قولہ : اِنْ کُنْتُمْ قوماً مسرفین نافع (رح) تعالیٰ نے اِنْ کو شرطیہ قرار دے کر ہمزہ کے کسرہ کے ساتھ پڑھا ہے۔
سوال : اِنْ شرطیہ غیر محقق پر داخل ہوتا ہے، حالانکہ مشرکین کا شرک محقق تھا، تو یہاں اِنْ شرطیہ کیسے درست ہوگا ؟
جواب : اِنْ شرطیہ کبھی امر محقق پر بھی داخل ہوجاتا ہے، مخاطب کو یہ تاثر دینے کے لئے کہ متکلم کو وقوع شرط کا یقین نہیں ہے بلکہ وہ وقوع شرط کے بارے میں تردد اور شک میں ہے، یہ ظاہر کرنے کے لئے کہ اس قسم کے فعل کا صدور صاحب عقل وفہم سے مستبعد ہے۔
اور باقی قراء نے أن کُنْتُمْ ہمزہ کے فتحہ کے ساتھ پڑھا ہے، اور لام تعلیلیہ کو مقدر مانا ہے، تقدیر عبارت یہ ہے اَیْ لِأنْ کُنْتُمْ قوماً مسرفین یعنی کیا ہم اس وجہ سے کہ تم سے حد سے تجاوز کرنے والی قوم ہو قرآن کے نزول کو روک لیں گے، یعنی ہم ایسا نہیں کریں گے۔
قولہ : کَمْ اَرْسَلْنَا، کَمْ خبریہ اَرْسَلنا کا مفعول مقدم ہے۔
قولہ : اَتاھُمْ یاتِیْھِمْ کی تفسیر اتٰاھم سے کر کے اشارہ کردیا کہ مضارع بمعنی ماضی ہے، صورت عجیبہ کے استحضار پر دلالت کرنے کے لئے ماضی کو مضارع سے تعبیر کردیا ہے۔
قولہ : اَشَدَّ مِنْھُمْ یہ موصوف محذوف کی صفت ہے اور موصوف اَھْلکنا کا مفعول ہے اور بطئًا تمیز ہے، تقدیر عبارت یہ ہے اھلنا قوماً اَشَدَّ مِنْ قومِکَ من جھۃِ البطشِ ۔
قولہ : ولَئِنْ سَاَلْتَھُمْ میں واو عافہ اور قسمیہ ہے اور اِنْ شرطیہ ہے لَیَقُولُنَّ جواب قسم ہے اور جواب شرط محذوف ہے، جواب قسم جواب شرط پر دلالت کررہا ہے، قسم اور شرط جب جمع ہوجائیں تو اول کا جواب مذکور ہوتا ہے، اسی معروف قاعدہ کی بناء پر یہاں جواب قسم مذکور اور جواب شرط محذوف ہے، جواب شرط کے محذوف ہونے کا دوسرا قرینہ یہاں یہ بھی ہے کہ مفسر علام نے لَیَقُولُنَّ میں نون رفع کے حذف کی علت اجتماع نونات کو قرار دیا ہے، اگر لیَقُولُنَّ جواب شرط ہوتا تو مفسر علام حذفتِ النون للجازم فرماتے۔
قولہ : زاد تعالیٰ اَلَّذِیْ جَعَلَ لَکُمُ الْا َرْضَ (الآیۃ) مفسر علام کے زاد تعالیٰ کے اضافہ کا مقصد یہ بتانا ہے کہ مشرکین کا کلام العزیز العلیم پر ختم ہوگیا، اَلَّذِیْ جَعَلَ لکُمْ سے باری تعالیٰ کا کلام شروع ہوا ہے، اس لئے کہ اگر یہ کلام بھی مشرکوں کا ہوتا تو وہ جَعَلَ لَنَا الْا َرْضَ مَھْدًا الخ کہتے۔
قولہ : اَلاصناف اس لفظ کے اضافہ کا مقصد اَلْا زْواج کے معنی کی تعیین ہے، اس لئے کہ ازواج یہاں اپنے مشہور معنی (جوڑا) میں مستعمل نہیں ہے بلکہ مطلقا اقسام و انواع کے معنی میں ہے۔
قولہ : فَاَنْشَرْنَا اس میں التفات عن الغیبت الی التکلم ہے۔
قولہ : حُذِفَ العائد الخ مَا تَرْکَبُوْنَ ، ما موصول ترکبون جملہ ہو کر صلہ، قاعدہ یہ ہے کہ جب صلہ جملہ ہو تو اس میں ایک ضمیر ضروری ہوتی ہے، جو موصول کی طرف راجع ہوتی ہے، یہاں اس کو اختصار ًا حذف کردیا گیا ہے ماترکبون کا تعلق چونکہ فُلک اور انعام دونوں سے ہے، اس لئے کہ جب مَا تَرْکَبُوْنَ کا تعلق اَلفُکلک سے ہوگا تو عائد فِیْہ محذوف ہوگا، اس لئے رکبت فی الفلک بولتے ہیں نہ کہ رکبت الفُلک بولتے ہیں نہ کہ رکبت الفُلْکَ اور جب اس کا تعلق انعام سے ہوگا تو عائد منصوب ہوگا، اس لئے رکبتُ الابل مستعمل ہے نہ کہ رکبت علی الابل۔
قولہ : ذُکِّرَ الضمیر مفسر علام ظھورہٖ کے بارے میں بتانا چاہتے ہیں، کہ طٰھورہٖ میں ہٖ ضمیر مذکر اور ظہور جمع لائے ہیں، ظھورٌ ظھرٌ کی جمع ہے بمعنی پشت، انعام کی پشت مراد ہے، اور ہٖ ضمیر سے بھی انعام ہی مراد ہیں، دونوں میں مطابقت نہیں ہے جبکہ مراد دونوں سے ایک ہی ہے، اس کا جواب مفسر علام نے یہ دیا ہے کہ یہ فرق لفظ ما کے اور معنی کے فرق کی وجہ سے ہے، لفظ مَا جو کہ لفظاً مفرد ہے، ضمیر کو مفرد مذکر لایا گیا اور معناً چونکہ جمع ہے اس لئے ظہور کو جمع لایا گیا۔
تنبیہ : مفسر علام اگر ذُکِّرَ الضمیر کے بجائے اُفْرِدَ الضمیر فرماتے تو زیادہ بہتر ہوتا، اس لئے کہ جمع کے مقابلہ میں مفرد آتا ہے نہ کہ مذکر، اگر دونوں میں ما کے معنی کی رعایت ہوتی تو علیٰ ظھورھا ہوتا، اور اگر دونوں جگہ لفظ کی رعایت ہوتی تو ظھرہٖ ہوتا۔
قولہ : مُقْرِنِینَ ای مُطِیْقِیْنَ ماخوذ مِنْ اَقْرَنَ السّیء اذا اَطَا قَہٗ ۔
تفسیر وتشریح
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم حٰمٓ والکتاب المبین انا جعلنٰہُ قرآناً عربِیاً ۔ حٰمٓ حروف مقطعات میں سے ہے، واجب الاعتقاد مابہ المراد، اور سکوت عن التاویل ہے، یہی طریقہ احوط اور افضل ہے، ام الکتاب سے اصل کتاب جو کہ لوح محفوظ ہے مراد ہے، یعنی کتاب ظاہر البیان ہے کہ ہم نے اس کو عربی کا قرآن بنایا تاکہ تم آسانی سے سمجھ لو، بیشک وہ لوح محفوظ میں ہمارے پاس ہے، مراتب و مقاصد ومعانی میں اعلی ہے، حکمتوں سے پُر ہے، وہ بنفسہٖ بھی افضل ہے اور دیگر آسمانی کتابوں پر بھی اس کی فضیلت مسلم ہے۔
قرآن مخلوق ہے یا غیر مخلوق : اہل سنت والجماعت کے نزدیک قرآن قدیم غیر مخلوق ہے، معتزلہ حادث مخلوق مانتے ہیں، اور جعلناہ قرآناً عربیاً سے قرآن کے مخلوق ہونے پر استدلال کرتے ہیں۔
بحث : اب جبکہ قرآن کے مخلوق وغیر مخلوق ہونے کا ذکر آہی گیا تو مسئلہ کی تنقیح و توضیح نیز معتزلہ کی تاریخ کا قدرے تفصیلی ذکر فائدے سے خالی نہ ہوگا، معتزلہ نے انا جَعَلْنَاہ قرآناً عربیاً سے قرآن کو مجعول و مخلوق ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا لفظ جعلنا قرآن کے مجعول ہونے پر دلالت کرتا ہے، اور مجعول مخلوق ہوتا ہے اور ہر مخلوق حادث ہوتا ہے، لہٰذا ثابت ہوگیا کہ قرآن مخلوق وحادث ہے۔
جواب : جَعَلَ کو خَلَقَ کے ساتھ خاص کرنا اور اس کے دوسرے معانی سے صرف نظر کرنا زبردستی اور دھاندلی کی بات ہے جبکہ خود قرآن میں دیگر متعدد معانی، مثلاً بَعَثَ ، قَال، صَیَّرَ کے معنی میں استعمال ہوا ہے، جس کی تفصیل مع امثلہ تحقیق و ترکیب کے زیر عنوان گذر چکی ہے۔
قرآن کے مخلوق ہونے پر معتزلہ کا طریق استدلال : (١) لفظ جَعَلَ سے استدلال کرتے ہیں کہ قرآن مجعول ہے اور جو مجعول ہوتا ہے وہ مخلوق و مصنوع ہوتا ہے۔
(٢) کتاب کی صفت قرآن لائی گئی ہے، جس کے معنی ہیں بعض کا بعض کے ساتھ مقرون ومتصل ہونا یہ بھی مخلوق ومصنوع کی صفت ہے۔
(٣) قرآن کو عربیاً کی صفت کے ساتھ متصف کیا ہے، اور عربی کو عربی اس لئے کہتے ہیں کہ عرب نے اپنی اصطلاح میں الفاظ کی وضع کے ساتھ خاص کیا ہے، یہ بھی قرآن کے مخلوق ہونے پر دلالت کرتا ہے۔ (جمل)
دراصل بات یہ ہے کہ قرآن کی دو نسبتیں ہیں، اول معنوی اور دوسری تعبیری، جس کو متکلمین کی اصطلاح میں کلام نفسی اور کلام لفظی سے تعبیر کرتے ہیں، نسبت معنوی یا کلام نفسی یہ باری تعالیٰ کی صفت قدیم غیر حادث ہے، عوارض و حوادث سے پاک، صوت، حروف، لغت وغیرہ سے منزہ ہے، البتہ تعبیری نسبت جس کو کلام لفظی بھی کہتے ہیں، یعنی وہ نسبت و تعبیر جو ہمارے سمجھانے اور ادراک کے لئے ہے، اس میں صوت، حروف و کلمات ونقوش سب شامل ہیں، یہ ہداہۃً حادث ہیں، آیت مذکورہ میں اسی کلام نفسی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔
امام رازی (رح) تعالیٰ کی طرف سے معتزلہ کو جواب : خلق قرآن کے قائلین نے قرآن کے مخلوق ہونے پر جو مذکورہ آیت سے تین طریقہ سے استدلال کیا ہے یہ استدلال کلام لفظی پر صادق آتا ہے نہ کہ کلام نفسی پر اور کلام لفظی کے مخلوق وحادث ہونے میں کسی کا اختلاف نہیں ہے، اختلاف کلام نفسی کے بارے میں ہے، جو کہ باری تعالیٰ کی صفت قدیم ہے۔
صاحب روح المعانی علامہ آلوسی کی تحقیق : علامہ فرماتے ہیں اِنّا جعلناہُ جواب قسم ہے اور جَعَلَ بمعنی صَیَّرَ متعدی بدو مفعول ہے نہ کہ بمعنی خَلَقَ متعدی بیک مفعول آگے چل کر علامہ فرماتے ہیں کہ میں یہ اس لئے نہیں کہہ رہا ہوں کہ یہ تعظیم قرآن کے خلاف ہے بلکہ بات یہ ہے کہ ذوق مقام اس کا اباء کرتا ہے اس لئے کہ اِنَّا جَعَلْنَاہ کو اِنّ کے ذریعہ تاکید کے ساتھ لایا گیا ہے، حالانکہ ما قبل میں کہیں خلق قرآن کا ذکر نہیں ہے اور نہ ماسبق میں منکرین خلق قرآن کا ذکر ہے کہ ان کی تردید کے لئے کلام کو مؤکد لایا گیا ہو، بلکہ مذکورہ آیت کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کو واضح اور فصیح عربی میں نازل کیا گیا ہے، جو کہ عرب کے اسلوب اور طرز پر وارد ہوا ہے تاکہ عرب کے لئے اس کا سمجھنا دشوار نہ ہو اور آسانی سے قرآن کے معجزہ ہونے کا ادراک کرسکیں، اسی مفہوم کی تائید اللہ تعالیٰ کے قول لعلکم تعلقون سے ہوتی ہے، گویا کہ لعلکم تعقلون قرآن کو عربی میں نازل کرنے کی علت ہے۔
حضرت ابن عباس (رض) اور خلق قرآن : ابن مردویہ نے طاؤس سے روایت کیا ہے، حضرت موت سے ایک شخص حضرت ابن عباس (رض) کی خدمت میں حاضر ہوا، عرض کیا، اے ابن عباس (رض) ! آپ مجھے بتائیں کہ قرآن اللہ کے کلام میں سے ایک کلام ہے یا مخلوق خدا میں سے ایک مخلوق ہے، آپ (رض) نے فرمایا : کلام من کلام اللہ تعالیٰ ، اور کیا تو نے نہیں سنا اللہ سبحانہ تعالیٰ نے فرمایا وَاِنْ أحَدٌ مِنَ المُشرِکِیْنَ استجارکَ فَاَجِرْہ حتی یَسْمَع کلامَ اللہ حضرموتی شخص نے کہا : کیا آپ نے اللہ تعالیٰ کے قول انا جَعلناہُ قرآناً عربیاً میں غور نہیں کیا ؟ حضرت ابن عباس (رض) نے جواب دیا کَتَبَہُ اللہ تعالیٰ فی اللوح المحفوظ بالعربیۃ یعنی جَعلناَ کا مطلب ہے لوح محفوظ میں عربی میں لکھنا۔ (روح المعانی)
معتزلہ کی تاریخ ولادت کا پس منظر : قرقہ معتزلہ کا بانی واصل بن عطاء ہے، جس کی پیدائش ٨٠ ھ اور وفات ١٣١ ھ میں ہے، جلیل القدر مشہور تابعی حضرت حسن بصری (رح) تعالیٰ کے شاگردوں میں سے ہے، جن کی پیدائش ٢١ ھ اور وفات ١١٠ ھ میں ہے۔
معتزلہ کی وجہ تسمیہ : حسن بصری (رح) تعالیٰ کی مجلس میں ایک شخص نے سوال کیا کہ ہمارے زمانہ میں کچھ لوگ کہتے ہیں کہ مرتکب کبیرہ مومن نہیں، اور کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ایمان کے ہوتے ہوئے کسی بھی گناہ سے کچھ نہیں بگڑتا، اب آپ بتائیے کہ ہم کس کی بات کو حق سمجھیں تو حسن بصری (رح) تعالیٰ سوچنے لگے، اتنے میں واصل بن عطا جو حسن بصری کے درس میں شریک ہوا کرتا تھا، بول پڑا کہ مرتکب کبیرہ نہ مومن ہے اور نہ کافر، اس طرح گویا کہ اس نے ایمان وکفر کے درمیان واسطہ ثابت کیا ہے، جس پر حسن بصری (رح) تعالیٰ نے فرمایا اعتزلَ عناّ یہ ہماری جماعت سے خارج ہوگیا، اسی روز سے واصل بن عطا اور اس کے متبعین کی جماعت کو معتزلہ کہا جانے لگا، اگرچہ یہ لوگ اپنی جماعت کو اصحاب العدل والتوحید کہتے ہیں۔ (بیان الفوائد ملخصاً ) عباسی خلیفہ ہارون رشید کے زمانہ میں خلق قرآن کے مسئلہ نے شدت اختیار نہیں کی تھی نہ کوئی خاص قسم کا نزاع تھا، البتہ جب ١٣٧ ھ میں مامون تخت خلافت پر متمکن ہوا تو اس مسئلہ میں شدت آگئی، اس لئے کہ مامون نہ صرف یہ کہ خود خلق قرآن کا قائل تھا بلکہ اعتزال اور فرقہ معتزلہ کا زبردست حامی بھی تھا، اس طرح معتزلہ کو حکومت وقت کی سرپرستی حاصل ہوگئی، مامون نے محدثین کو جو معتزلہ کے مخالف تھے خلق قرآن کے مسئلہ میں طاقت کے بل بوتے پر معتزلہ کا ہم نوا بنانے کی ٹھان لی، اور بعض محدثین کو خلق قرآن کا قائل نہ ہونے کی وجہ سے قتل کرا دیا، مامون کے بعد معتصم باللہ اور واثق باللہ نے بھی مامون کی وصیت کے مطابق اعتزال کا مسلک اختیار کیا، اور محدثین بالخصوص امام احمد بن حنبل (رح) تعالیٰ کو قرآن کو مخلوق نہ ماننے کی وجہ سے ظلم وستم کا نشانہ بنایا گیا، ایک روز معتصم نے امام احمد بن حنبل کو اپنے دربار میں بلایا اور ایک مجلس مناظرہ منعقد کی، جس میں عبد الرحمٰن بن اسحٰق، قاضی احمد بن داؤد وغیرہ تھے، تین روز تک ان حضرات کا مناظرہ ہوتا رہا، چوتھے روز بھی جب کوئی فیصلہ نہ ہوسکا تو معتصم باللہ نے امام بن حنبل کو کوڑے مارنے کا حکم دیا، مگر امام احمد بن حنبل اپنی رائے سے ٹس سے مس نہ ہوئے، حتی کہ آپ کو ڑوں کی ضرب سے بےہوش ہوگئے، اس کے بعد بھی امام صاحب کو تلوار کی نوک سے کچوکے دئیے گئے، اور ایک ٹاٹ میں لپیٹ کر آپ کو پیروں سے روندا گیا، اڑتیس کوڑوں کو ضرب لگانے کے بعد آپ کو ان کے گھر لائے، امام صاحب کو اٹھائیس ماہ جیل میں رکھا گیا۔ (اعراب القرآن) متوکل چونکہ اعتزال سے متنفر اور امام احمد بن حنبل کا معتقد تھا اس نے معتزلہ کا اثرورسوخ ختم کر کے حکومت سے بےدخل کردیا، جس سے ان کا زور ٹوٹ گیا۔
وَاِنَّہٗ فی ام الکتاب لَدَینَا لعلیٌّ حکیم اس آیت میں قرآن کریم کی اس عظمت وشرف کا بیان ہے جو ملاء اعلیٰ میں اسے حاصل ہے، تاکہ اہل زمین بھی اس کے شرف و عظمت کو ملحوظ رکھتے ہوئے، اس کو قرار واقعی اہمیت دیں اور سے ہدایت کا وہ مقصد حاصل کریں جس کے لئے اسے دنیا میں اتارا گیا ہے۔
اَفَنَضْرِبُ عَنْکُمُ الذِّکْرَ الخ اس آیت کے مختلف معنی کئے گئے ہیں مثلاً تم چونکہ گناہوں میں بہت منہمک اور ان پر مصر ہو اس لئے کیا تم یہ گمان کرتے ہو کہ ہم تمہیں وعظ و نصیحت کرنا چھوڑ دیں گے ؟ یا تمہارے کفر اور اسراف پر ہم تمہیں کچھ نہ کہیں گے اور تم سے درگذر کریں گے۔
وجَعَلوا لہ من عبادہ جُذءًا ولد کو جزء سے تعبیر کر کے مشرکین کے اس دعوائے باطل کی تردید کی طرف اشارہ کردیا، کہ اللہ کے اگر کوئی اولاد ہو تو وہ اس کی جزء ہوگی، اس لئے کہ بیٹا باپ کا جزء ہوتا ہے، اور یہ عقلی قاعدہ ہے کہ ہر کل وجود میں اپنے جزء کا محتاج ہوتا ہے تو اس سے لازم آئے گا کہ اللہ تعالیٰ بھی اپنی اولاد کا محتاج ہے، اور یہ شان خداوندی کے خلاف ہے۔
10 Tafsir as-Saadi
حٰم
11 Mufti Taqi Usmani
Haa-Meem .