الزخرف آية ۶۸
يٰعِبَادِ لَا خَوْفٌ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ وَلَاۤ اَنْتُمْ تَحْزَنُوْنَۚ
طاہر القادری:
(اُن سے فرمایا جائے گا): اے میرے (مقرّب) بندو! آج کے دن تم پر نہ کوئی خوف ہے اور نہ ہی تم غم زدہ ہو گے،
English Sahih:
[To whom Allah will say], "O My servants, no fear will there be concerning you this Day, nor will you grieve,
1 Abul A'ala Maududi
اُس روز اُن لوگوں سے جو ہماری آیات پر ایمان لائے تھے اور مطیع فرمان بن کر رہے تھے
2 Ahmed Raza Khan
ان سے فرمایا جائے گا اے میرے بندو آج نہ تم پر خوف نہ تم کو غم ہو،
3 Ahmed Ali
(کہا جائے گا) اے میرے بندو تم پر آج نہ کوئی خوف ہے اور نہ تم غمگین ہو گے
4 Ahsanul Bayan
میرے بندو! آج تم پر کوئی خوف (و ہراس) ہے اور نہ تم (بد دل اور) غمزدہ ہوگے (١)۔
٦٨۔٢ یہ قیامت والے دن ان متقین کو کہا جائے گا جو دنیا میں صرف اللہ کی رضا کے لئے ایک دوسرے سے محبت رکھتے تھے۔ جیسا کہ حدیث میں بھی اس کی فضیلت ہے۔ بلکہ اللہ کے لئے بغض اور اللہ کے لئے محبت کو کمال ایمان کی بنیاد بتلایا گیا ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
میرے بندو آج تمہیں نہ کچھ خوف ہے اور نہ تم غمناک ہوگے
6 Muhammad Junagarhi
میرے بندو! آج تو تم پر کوئی خوف (و ہراس) ہے اور نہ تم (بد دل اور) غمزده ہوگے
7 Muhammad Hussain Najafi
(خدا ان سے فرمائے گا) اے میرے بندو! آج نہ تم پر کوئی خوف ہے اور نہ ہی تم غمگین ہو گے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
میرے بندو آج تمہارے لئے نہ خوف ہے اور نہ تم پر حزن و ملال طاری ہوگا
9 Tafsir Jalalayn
(کہ باہم دوست ہی رہیں گے) میرے بندو ! آج تمہیں نہ تو کچھ خوف ہے اور نہ تم غمناک ہو گے
آیت نمبر ٦٨ تا ٨٩
ترجمہ : ان سے کہا جائے گا اے میرے بندو ! آج تم پر کوئی خوف نہیں اور نہ تم غم زدہ ہوگے، جو ہماری آیتوں قرآن پر ایمان لائے (الذین آمنوا) عبادی کی صفت ہے اور تھے بھی وہ فرمانبردار تم اور تمہاری بیویاں خوشی خوشی اور اکرام کے ساتھ جنت میں داخل ہوجاؤ (أنتم) مبتداء ہے (تُحْبَرُوْنَ ) اس کی خبر ہے ان کے پاس سونے کی رکابیاں اور گلاس لائے جائیں گے اکواب، کو بٌ کی جمع ہے، اس برتن کو کہتے ہیں جس میں ٹونٹی نہ ہو (مثلاً کٹورا اور گلاس) تاکہ پینے والا جدھر سے چاہے پیے، اور وہاں وہ چیزیں ملیں گی جن کو ان کا دل چاہے گا اور جن کو دیکھ کر آنکھیں لذت اندوز ہوں گی اور تم اس میں ہمیشہ رہو گے اور یہ وہی جنت ہے جس کے تم اعمال کے بدلے وارث بنائے گئے ہو یہاں تمہارے لئے بکثرت میوے ہیں جن میں سے تم ہمیشہ کھاتے رہو گے اور جو کھایا جائے گا (فوراً ) اس کا بدل موجود ہوجائے گا بیشک مجرم لوگ جہنم کے عذاب میں ہمیشہ رہیں گے (یہ عذاب) کبھی ان سے ہلکا نہیں کیا جائے گا ؟ اور وہ اسی میں مایوسی کے ساتھ خاموش پڑے رہیں گے اور ہم نے ان پر ظلم نہیں کیا بلکہ وہ خود ہی ظالم تھے اور وہ پکار پکار کر کہیں گے، اے مالک ! تیرا رب ہمارا کام ہی تمام کردے تاکہ ہم مرجائیں، ہزار سال کے بعد وہ جواب دے گا تم کو تو (ہمیشہ) عذاب میں رہنا ہے اے اہل مکہ ! ہم تو تمہارے پاس رسولوں کی زبانی حق لے آئے لیکن تم میں سے اکثر لوگ حق سے نفرت رکھنے والے تھے کیا کفار مکہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نقصان پہنچانے کے لئے کوئی پختہ تدبیر کر رکھی ہے ؟ تو یقین مانو ہم بھی ان کی ہلاکت کے بارے میں پختہ تدبیر کرنے والے ہیں کیا ان کا یہ خیال ہے کہ ہم ان کی پوشیدہ باتوں کو اور ان کی سرگوشیوں کو نہیں سنتے ؟ (یعنی) جن باتوں کو وہ رازدارانہ طور پر کرتے ہیں اور جن باتوں کو وہ آپس میں علی الاعلان کرتے ہیں (کیا ہم نہیں سنتے ؟ ) ہاں کیوں نہیں ؟ اس کو (ضرور) سنتے ہیں (علاوہ ازیں) ہمارے نگراں فرستادے ان کے پاس اس کو لکھ لیتے ہیں، آپ کہہ دیجئے اگر بالفرض رحمٰن کے اولاد ہوتی تو میں سب سے پہلے ولد کی عبادت کرنے والا ہوتا، لیکن یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اولاد نہیں ہے، لہٰذا اس کی عبادت بھی منتفی ہوگئی آسمانوں کا اور زمین کا مالک جو کہ عرش کرسی کا بھی مالک ہے اس کی جانب ولد کی نسبت کر کے جو جھوٹ بک رہے ہیں وہ ان سے پاک ہے اب آپ انہیں اسی باطل بحث و مباحثہ اور دنیوی کھیل کود میں چھوڑ دیجئے، یہاں تک کہ انہیں اس دن سے سابقہ پڑجائے جس دن میں ان سے عذاب کا وعدہ کیا جاتا ہے اور وہ قیامت کا دن ہے وہی آسمانوں میں معبود ہے دونوں ہمزوں کی تحقیق اور اولیٰ کو ساقط کر کے اور اس کی یاء کے مانند تسہیل کر کے اور زمین میں بھی وہی قبل عبادت ہے اور دونوں ظرفوں میں سے ہر ایک اپنے مابعد (اِلہٌ) سے متعلق ہے وہ اپنی مخلوق کی تدبیر کے بارے میں بڑی حکمت والا ہے اور ان کی مصلحتوں کے بارے میں بڑے علم والا ہے اور وہ بڑی عظمت والا ہے، جس کے پاس آسمانوں اور زمین اور ان کے درمیان کی ہر چیز کی بادشاہت ہے، اور قیامت کا علم بھی اسی کے پاس ہے کہ کب واقع ہوگی، اور اسی کی طرف تم سب لوٹائے جاؤ گے تاء اور یاء کے ساتھ، اور جن غیر اللہ کو کافر پوجتے ہیں وہ کسی کی شفاعت کرنے کا حق نہیں رکھتے، ہاں جو حق بات کا اقرار کریں، یعنی لا الٰہ الا اللہ کہیں اور جس بات کا زبان سے اقرار کر رہے ہیں اس کا دل سے یقین بھی کریں اور وہ عیسیٰ اور عزیر اور ملائکہ (علیہم السلام) ہیں، یہ مومنین کی شفاعت کریں گے اور اگر آپ ان سے دریافت فرمائیں کہ ان کو کس نے پیدا کیا ہے تو وہ یقیناً یہی کہیں کہ اللہ نے (لَئِن) میں لام قسمیہ ہے (لَیَقُوْلُنّ ) میں نون رفع اور واو ضمیر حذف کر دئیے گئے ہیں، تو پھر یہ کہاں الٹے چلے جا رہے ہیں ؟ اور اس کو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس قول کی بھی خبر ہے کہ اے میرے رب یہ ایسے لوگ ہیں کہ ایمان نہیں لاتے اور (قیلَہٗ ) پر نصب فعل مقدر کا مصدر ہونے کی وجہ سے ہے ای قال قیلہ آپ ان سے منہ پھیر لیں اور کہہ دیں (اچھا بھائی) میں تم کو سلام کرتا ہوں سو ان کو عنقریب (خود ہی) معلوم ہوجائے گا یاء اور تاء کے ساتھ، یہ ان کے لئے دھمکی ہے۔
تحقیق و ترکیب وتسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : یا عباد اصل میں یا عبادی تھا، اے میرے بندو ! عباد یاء متکلم محذوفہ کی طرف مضاف ہے اور یہ حذف، مصحف امام کی رعایت کی وجہ سے ہے، یہ اضافت برائے تشریف ہے، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کا کسی کو اپنا کہہ دینا بہت بڑا اکرام اور اعزاز ہے نیز اس میں بندوں کی دلجوئی بھی ہے۔
قولہ : یا عبَادی کی یاء میں تین قراءتیں ہیں : حذف یاء فتحہ یاء، سکون یاء، اس آیت میں ندا چار امور پر مشتمل ہے۔ (١) نفی خوف (٢) نفی حزن (٣) جنت میں داخل ہونے کا حکم (٤) خوشی کی بشارت تُحْبَرُون میں۔
قولہ : لا خوفٌ علیکم رفع اور تنوین جمہور کی قراءت ہے، خوفٌ مبتداء ہے خوفٌ کا نکرہ تحت النفی داخل ہونے کی وجہ سے مبتداء بننا درست ہے، علیکم مبتداء کی خبر، یومٌ ظرف ہے محذوف کے متعلق ہے۔
قولہ : تُحْبَرُوْنَ ای تُسَرُّونَ حِبْرٌ (ن) سے مضارع جمع مذکر حاضر مجہول، تمہاری عزت کرائی جائے گی، تم کو خوش کیا جائے گا، ایسی خوشی کہ جس کا اثر چہرے پر ظاہر ہو، زجاج نے کہا ہے کہ تحبرون کے معنی تُکرَمُونَ اِکْرَاماً یُبَالَغُ فیِہِ کے ہیں۔ (لغات القرآن)
قولہ : بِصِحَافٍ ، صَحْفَۃٌ کی جمع ہے، رکابیاں، اتنی بڑی رکابی کہ جس میں بیک وقت پانچ آدمی کھا سکیں، کسائی نے کہا ہے کہ اَعْظَمُ القصَاعِ جَفْنَۃٌ پھر اَلْقَصْعَۃ ٌ جس میں دس آدمی سیر ہو سکیں، پھر الصَحْفَۃ جس میں پانچ آدمی سیر ہو سکیں، پھر المکیلۃ جس میں دو یا تین آدمی سیر ہو سکیں۔ (لغات القرآن للدرویش)
قولہ : اکواب کو بٌ کی جمع ہے، اس لوٹے کو کہتے ہیں کہ جس میں نہ دستہ ہو اور نہ ٹونٹی۔
قولہ : تِلکَ الجنۃُ الَّتی اُوْرِثتُمُوھا تلک مبتداء الجنۃ موصوف الّتی موصول اُوْرِتْتُمُوْھَا صلہ، موصول صلہ سے مل کر جملہ ہو کر الجنۃ کی صفت، موصوف باصفت مبتداء کی خبر۔
نکتہ۔ سوال : اُوْرثْتُمُوْھَا کی مطابقت کا تقاضہ تھا کہ تِلْکُمُوا الجنۃَ فرماتے یعنی تلک کو جمع لاتے۔
جواب : تلکَ کو جمع لانے کی بجائے مفرد لانے میں یہ حکمت ہے کہ تِلْکُمُوا جمع لانے میں خطاب اہل جنت کو مجموعی طور پر ہوتا، اور مفرد لانے میں ہر جنتی کو مستقل خطاب ہوگیا جو کہ بڑے عزوشرف کی بات ہے۔ (صاوی)
قولہ : لا یُفْتَّفُ تَفْتِیْرٌ (تفعیل) سے واحد مذکر غائب مجہول منفی، کم نہیں کیا جائے گا، ہلکا نہیں کیا جائے گا۔
قولہ : نَادَوْا یا مالک متحقق الوقوع ہونے کی وجہ سے ماضی سے تعبیر کیا ہے۔
قولہ : لَقَدْ جِئْنَاکُمْ بالحق یہ باری تعالیٰ کا کلام بھی ہوسکتا ہے اس میں مشرکین مکہ سے خطاب ہے اور مشرکین کے جہنم میں قیام کی علت ہے، علامہ محلی کے نزدیک یہی راجح ہے، اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جہنم کے نگران مالک کا کلام ہو، اس صورت میں خطاب عام اہل نار کو ہوگا، اور قائم مقام علت کے ہوگا۔
قولہ : اَبْرَمُوا، اِبرامٌ سے ماضی جمع مذکر غائب، انہوں نے مضبوط ارادہ کیا۔
قولہ : العرش، الکرسی مناسب تھا کہ مفسر علام عرش کی تفسیر کرسی سے نہ فرماتے، اس لئے کہ یہ بات معلوم و متعین ہے کہ عرش اور کرسی دونوں الگ الگ چیزیں ہیں۔
قولہ : یَوْمَھُمُ الذی یُوْعَدُونَ کی تفسیر یوم القیامۃِ کے بجائے یوم الموت سے کرتے تو زیادہ مناسب ہوتا اس لئے کہ مشرکین کے خوض فی الباطل اور لعب فی الدنیا کی انتہا موت پر ہوجاتی ہے، نہ کہ یوم قیامت میں۔
قولہ : مِن الظرفین متعلق بما بعدہٗ ، ظرفَین سے مراد فی السماء اور فی الارض ہے اور مابعد سے مراد دونوں جگہ الہٌ ہے جو کہ مألُوہٌ (مَعْبُوْدٌ) کے معنی میں ہے۔
قولہ : الذین یَدْعُوْن ای یَدْعُوْنَھُمْ ، ھُمْ مفعول محذوف ہے۔
قولہ : وَلاَ یَمْلِکُ الذین الخ الَّذِیْنَ یَمْلِکُ کا فاعل ہے، اگر الَّذِیْنَ سے مطلقا معبودانِ غیر اللہ مراد ہوں تو اس صورت میں اِلاَّ مَنْ شَھِدَ بِالْحَقِّ مستثنیٰ متصل ہوگا، جیسا کہ مفسر علام کی عبارت کا مقتضیٰ ہے یا اَلَّذِیْنَ سے مخصوص طور پر اصنام مراد ہیں تو اس صورت میں مستثنیٰ منقطع ہوگا۔
قولہ : ای الکفار، الکفار یَدْعُونَ کے واؤ کی تفسیر ہے۔
قولہ : لِاَحَدٍ یہ اشارہ ہے کہ الشفاعۃُ کا مفعول محذوف ہے۔
قولہ : وھُمْ یعلمونَ ، ھُمْ ضمیر باعتبار معنی کے مَنْ کی طرف راجع ہے۔
قولہ : لَئِنْ سَأَلْتَھُمْ لام قسم ہے لَیَقُوْلُنَّ جواب قسم ہے اور حسب قاعدہ جواب شرط محذوف ہے، اس لئے کہ قسم اور شرط جب جمع ہوجائیں تو اول کا جواب مذکور اور ثانی کا محذوف ہوتا ہے۔
قولہ : وَقِیْلِہٖ ای قول محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ مضاف اور مضاف الیہ دونوں کی تفسیر ہے، یعنی قیل بمعنی قول ہے اور ضمیر مضاف الیہ سے مراد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں۔
قولہ : نصبُہٌ علی المصدر بفعلِہٖ ، قِیْلٌ قال کے مصادر میں سے ایک ہے یعنی قِیْلَہٗ قال فعل محذوف کا مصدر ہونے کی وجہ سے منصوب ہے۔
قولہ : وقَالَ یا ربِّ زیادہ واضح یہ تھا کہ مفسر علام قال یا ربِّ کے بجائے قال قیلَہٗ یا ربِّ فرماتے۔ (حاشیہ جلالین)
قولہ : سلامٌ یہ سلام متارکت (پیچھا چھڑانے کا سلام) ہے جیسا کہ متکلم نے اشارہ کردیا ورنہ علیکم ہوتا نہ کہ سلام تحیۃ اور سلام مبتداء محذوف کی خبر ہے، تقدیر عبارت یہ ہے اَمْرِی سلامٌ۔
تفسیر وتشریح
یٰعِبَادِ لاَ خَوْفٌ عَلَیْکُمُ الیَوْمَ وَلاَ اَنْتُمْ تَحْذَنُوْنَ ، یٰعِبَادِ سے پہلے یُقَالُ لھُمْ محذوف ہے، یہ بات قیامت کے دن ان متقیوں سے کہی جائے گی جو دنیا میں صرف اللہ کے لئے ایک دوسرے سے محبت رکھتے تھے، جیسا کہ احادیث میں اس کی فضیلت وارد ہے، بلکہ اللہ کے لئے محبت اور اللہ کے لئے عداوت کو کمال ایمان کی بنیاد بتلایا گیا ہے۔
اَزْوَاجُکُمْ سے بعض حضرات نے مومن بیویاں مراد لی ہیں، اور بعض نے مومن دوست احباب اور بعض نے جنت میں ملنے والی بیویاں اور حوریں مراد لی ہیں، یہ تمام مفہوم درست ہیں، اس لئے کہ جنت میں یہ سب کچھ ملے گا تُحْبَرُونَ ، حَبْرٌ سے ماخوذ ہے یعنی وہ فرحت و سرور جو انہیں جنت کی نعمت وعزت کی وجہ سے ملے گا۔
وتلک الجنۃُ الَّتِی اَوْرِثتموھا بِمَا کنتم تعملونَ ، بِما کُنْتُم تعملون میں باء سببیہ ہے، یعنی تم کو اس جنت کا وارث تمہارے اعمال کے سبب بنایا گیا ہے۔
سوال : یہ حدیث کے معارض ہے، حدیث شریف میں وارد ہے لَنْ یدخل احدکم الجنۃ بعملہٖ بل برحمۃ اللہ۔
جواب : حدیث کا مطلب یہ ہے کہ عمل دخول جنت کا سبب مستقل نہیں ہے۔
دوسرا جواب : بمَا کُنتم تعملون میں یاء سببیہ نہیں ہے، بلکہ ملابستہ کے لئے ہے یا حدیث و آیت کا مطلب ہے دخول بالفضل و درجات بالعمل یعنی نفس دخول تو رحمت خداوندی ہی کے ذریعہ ہوگا، البتہ درجات کی بلندی اعمال صالحہ کے ذریعہ ہوگی۔ (صاوی و حاشیہ جلالین)
وَھُمْ فِیْہِ مُبْلِسُوْنَ مشرکین و کفار جہنم میں خاموش مایوس پڑے ہوں گے، اس پر سوال یہ ہوتا ہے کہ یہ آئندہ آنے والی آیت نادوا یا مالک (الآیۃ) کے معارض ہے، اس لئے کہ اس آیت کا مطلب ہے کہ وہ فریاد کریں گے، اور کلام کریں گے یعنی خاموش نہیں رہیں گے۔
جواب : حالات اور مقامات مختلف ہوں گے، کہیں فریاد وتکلم کریں گے اور کہیں خاموش رہیں گے، تعارض کے لئے اتحاد زمان ومکان ضروری ہے۔
اَمْ اَبْرَمُوْا اَمْرًا فاِنَّا مُبْرِمُوْنَ اِبرام کے معنی پختہ اور مضبوط کرنے کے ہیں اَمْ اضراب کے لئے بل کے معنی میں ہے یعنی ان جہنمیوں نے حق کو صرف ناپسند ہی نہیں کیا بلکہ اس کے خلاف منظم سازشیں اور تدبیریں بھی کرتے رہے جس کے مقابلہ میں پھر ہم نے بھی تدبیر کی، اور ظاہر ہے کہ ہم سے زیادہ مضبوط تدبیر کس کی ہوسکتی ہے۔
اِنْ کانَ للرحمٰنِ وَلَدٌ فانَا اَوَّلُ العَابِدِینَ اگر خدائے رحمٰن کی کوئی اولاد ہوتی تو سب سے پہلے میں اس کی تعظیم و توقیر کرتا، اس کا مطلب یہ نہیں کہ خدا کی اولاد ہونے کا نعوذ باللہ کسی بھی درجہ میں امکان ہے، بلکہ مقصد یہ ہے کہ میں تمہارے عقائد کا انکار، کسی عناد یا ہٹ دھرمی کی وجہ سے نہیں کر رہا ہوں، بلکہ دلائل کی روشنی میں کر رہا ہوں، اگر صحیح دلائل سے خدا کی اولاد کا وجود ثابت ہوجاتا تو میں اسے ضرور مان لیتا، لیکن نقل وعقل کی ہر دلیل اس کی نفی کرتی ہے، اس لئے ماننے کا کوئی سوال ہی نہیں، اس سے معلوم ہوا کہ اہل باطل کے ساتھ مباحثہ کے وقت اپنی حق پسندی جتلانے کے لئے یہ کہنا جائز اور مناسب ہے، کہ اگر تمہارا دعویٰ صحیح دلائل سے ثابت ہوتا تو میں اسے تسلیم کرلیتا کیونکہ بعض اوقات اس اندازِ کلام سے مخالف کے دل میں ایسی نرمی پیدا ہوسکتی ہے جو اسے قبول حق پر آمادہ کردے، اصطلاحی زبان میں اسے ارخاء العنان کہتے ہیں یعنی تھوڑی دیر کے لئے مخالف کی بات بڑی کرنا، تاکہ وہ عناد اور ضد چھوڑ کر معقول پسندی کا طریقہ اختیار کرے۔
وقیلِہٖ یا رَبِّ اِنَّ ھٰؤلاءِ قومٌ لا یُؤْ مِنُوْنَ یہ جملہ اس بات کو واضح کرنے کے لئے لایا گیا ہے کہ ان کافروں پر غضب خداوندی نازل ہونے کے کتنے شدید اسباب موجود ہیں، ایک طرف تو ان کے جرائم فی نفسہٖ بڑے سخت ہیں، دوسری طرف وہ رسول جو رحمۃ للعالمین اور شفیع المذنبین بنا کر بھیجے گئے، جب خود ان لوگوں کی شکایت کریں اور فرمائیں کہ یہ لوگ بار بار فہمائش کے باوجود ایمان نہیں لاتے تو اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کس قدر اذیت پہنچائی ہوگی، ورنہ معمولی شکایت پر رحمۃ للعالمین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ تعالیٰ سے ایسی پُر درد شکایت نہ فرماتے، اس تفسیر کے مطابق وقِیْلِہٖ ایک آیت پہلے کے لفظ السَّاعَۃَ پر معطوف ہے، اس آیت کی اور بھی تفسیریں منقول ہیں، روح المعانی کی طرف رجوع فرمائیں۔ (معارف)
10 Tafsir as-Saadi
...
11 Mufti Taqi Usmani
. ( jinn say kaha jaye ga kay : ) aey meray bando ! aaj tum per naa koi khof taari hoga , aur naa tum ghumgeen hogay .