الدخان آية ۴۳
اِنَّ شَجَرَتَ الزَّقُّوْمِۙ
طاہر القادری:
بیشک کانٹے دار پھل کا درخت،
English Sahih:
Indeed, the tree of zaqqum
1 Abul A'ala Maududi
زقوم کا درخت
2 Ahmed Raza Khan
بیشک تھوہڑ کا پیڑ
3 Ahmed Ali
بے شک تھوہر کا درخت
4 Ahsanul Bayan
بیشک زقوم (تھوہر) کا درخت۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
بلاشبہ تھوہر کا درخت
6 Muhammad Junagarhi
بیشک زقوم (تھوہر) کا درخت
7 Muhammad Hussain Najafi
بیشک زقوم کا درخت۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
بیشک آخرت میں ایک تھوہڑ کا درخت ہے
9 Tafsir Jalalayn
بلاشبہ تھوہر کا درخت
آیت نمبر 43 تا 59
ترجمہ : بیشک زقوم (تھوہڑ) کا درخت جو کڑوا اور خبیث ترین ہے تہامہ میں پیدا ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کو دوزخ میں پیدا فرمائے گا، مجرموں کا کھانا ہے یعنی ابوجہل اور اس کے ساتھیوں کا جو بڑا گنہگار ہیں، اور وہ سیاہ تیل (تارکول) کی تلچھٹ کے مانند ہے (کالمھل) ثانی خبر ہے، وہ تیز گرم پانی کے مانند پیٹ میں کھولتا رہتا ہے (تغلی) تاء فوقانیہ کے ساتھ تیسری خبر ہے اور یاء تحتانیہ کے ساتھ المھل سے حال ہے جہنم پر مقرر فرشتوں کو حکم دیا جائے گا کہ مجرم کو پکڑ لو پھر گھسیٹتے ہوئے بیچ جہنم تک پہنچا دو (فاعتلوہ) کسرۂ اور ضمہ تاء کے ساتھ یعنی اس کو سختی اور شدت کے ساتھ کھینچو، پھر اس کے سر پر سخت گرم پانی کا عذاب بہاؤ یعنی گرم پانی کہ جس سے عذاب جدا نہ ہوگا، یہ (تعبیر) زیادہ بلیغ ہے اس (تعبیر) سے جو یُصَبُّ من فوقِ رُءُوسِھِم الحمیم میں اختیار کی گئی ہے، (اس سے کہا جائے گا) عذاب (کا مزا) چکھ تو تو اپنے گمان میں بڑی عزت اور اکرام والا تھا اپنے اس قول کی وجہ سے کہ مکہ کے دونوں پہاڑوں کے درمیان مجھ سے زیادہ با عزت اور باوقار کوئی نہیں ہے، ان سے کہا جائے گا، یہ عذاب جو تم دیکھ رہے ہو وہی ہے جس کے بارے میں تم شک کیا کرتے تھے بیشک (اللہ سے) ڈرنے والے امن چین کی مجلس میں ہوں گے جس میں وہ خوف سے محفوظ رہیں گے باغوں اور چشموں میں باریک اور دبیز ریشم کے لباس پہنے ہوئے آمنے سامنے بیٹھے ہوئے ہوں گے (متقابلین) حال ہے، ان کی مسہریوں کے گولائی میں ہونے کی وجہ سے کوئی کسی کی گدی (پشت) نہیں دیکھے گا، بات اسی طرح ہے کذٰلک سے پہلے الامرُ مقدر مانا جائے گا اور ہم گوری چٹی بڑی بڑی خوبصورت آنکھوں والی حوروں سے ان کا نکاح کردیں گے، یا ان کا جوڑا لگا دیں گے، جنتی جنت میں خدام سے جنت کے قسم قسم کے پھلوں کی فرمائش کریں گے اور ان کے ختم ہونے اور ان کی مضرت اور ہر قسم کے اندیشوں سے مامون ہوں گے (آمنین) یدعون کی ضمیر سے حال ہے، وہاں وہ موت (کا مزہ) نہیں چکھیں گے سوائے اس پہلی موت کے جس کو وہ دنیا میں حیات کے بعد چکھ چکے، بعض لوگوں نے کہا ہے کہ الاَّ بعدُ کے معنی میں ہے انہیں اللہ نے دوزخ کے عذاب سے محض تیرے رب کے فضل سے بچا دیا (فضلاً ) مصدر ہے تفضلا کے معنی میں تفضل مقدر کی وجہ سے منصوب ہے، یہی ہے بڑی کامیابی ہم نے اس قرآن کو تیری زبان میں آسان کردیا تاکہ عرب آپ سے (سن کر) سمجھیں تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں اور ایمان لے آئیں، لیکن وہ ایمان لانے والے نہیں ہیں، اب تو ان کی ہلاکت کا منتظر رہ وہ بھی تیری ہلاکت کے منتظر ہیں، یہ حکم ان کے ساتھ جہاد کا حکم نازل ہونے سے پہلے کا ہے۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : شجرت الزقُّوم، شجرت یہاں تاء مجرورہ کے ساتھ ہے قرآن میں بقیہ جگہ تاء مدوّرہ کے ساتھ ہے حالت وقف میں، ہ اور تاء دونوں پڑھا گیا ہے۔ قولہ : زقُّومٌ ایک جنگلی نبات ہے، چمیلی کے مانند اس پر پھول آتا ہے، یہ جہنمیوں کی غذا ہے، اردو میں تھوہڑ اور ہندی میں ناگ پھن کہتے ہیں، اس کا مزہ کڑوا کسیلا بدمزہ ہوتا ہے۔
مجرب نسخہ : زقوم ایک ایسے درخت کو بھی کہتے ہیں جس کا پھل کھجور کے مانند ہوتا ہے، اس کا تیل ریاح باردہ کے تحلیل میں عظیم النفع ہے امراض بلغمیہ میں عجیب التاثیر ہے، اوجاع مفاصل، عرق النساء نقرس اور کو ل ہے میں احتباس ریاح کو تحلیل کرنے میں سریع الاثر اور کثیر النفع ہے، (مقدار خوراک) بقدر سات درہم روزانہ تین روز تک استعمال کیا جاتا ہے، اس دوا سے اپاہج اور معذورین بھی بمشیئت خداوندی صحت یاب ہوجاتے ہیں، کہا گیا ہے کہ ہلیلہ کابلی اس درخت کی جڑ ہے۔ (صاوی، جمل)
قولہ : تھا مۃ مکہ معظمہ ملک حجاز کا جنوبی علاقہ ہے، نسبت کے لئے تہامہ کہتے ہیں جمع تھا میون وتھامون آتی ہے۔ (مصباح)
قولہ : کالمھل پگھلی ہوئی دھات دردیٌ تلچھت، تیل وغیرہ کی گاد، زیت الاسود، تارکول۔
قولہ : طعام الأثیم انَّ کی خبر اول ہے اور کالمھل خبر ثانی، اور تغلی تاء کے ساتھ خبر ثالث ہے اور یاء کے ساتھ المھل سے حال ہے
قولہ : صبُّوا فوقَ راسہٖ من عذاب الحمیم میں زیادہ مبالغہ ہے بہ نسبت یُصبُّ من فوق رُءُوسھم الحمیم کے پہلی آیت میں عذاب کو سر پر بہانے کا حکم ہے گویا کہ پانی اتنا گرم ہے کہ وہ خود عذاب ہوگیا لہٰذا اب حرارت اس سے جدا نہیں ہوگی اس لئے کہ حرارت اب صفت نہیں رہی، بلکہ خود موصوف ہوگئی، اس میں مبالغہ زیادہ ہے بہ نسبت یہ کہنے کے کہ ان پر گرم پانی بہاؤ، یہاں پانی موصوف اور گرم اس کی صفت ہے، اور صفت موصوف سے جدا ہوسکتا ہے۔
قولہ : او قرَّناھم یہ اس شبہ کا جواب ہے کہ زوَّجنا متعدی بنفسہٖ ہے حالانکہ یہاں اس کا صلہ بحورٍ عینٍ کی باء ہے، جواب یہ ہے کہ زَوَّجْنَا بمعنی قَرَّنَّا ہے، لہٰذا اس کا صلہ باء لانا درست ہے۔
تفسیر و تشریح
ان آیات میں آخرت کے کچھ احوال بیان کئے گئے ہیں اور قرآن نے اپنے دستور اور عادت کے مطابق یہاں بھی دوزخ اور جنت دونوں پہی کے احوال بیان فرمائے ہیں، انّ شجرۃ الزقوم الخ اس آیت سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ کفار کو زقوم دوزخ میں داخل ہونے سے پہلے کھلایا جائے گا کیونکہ یہاں زقوم کھلانے کے بعد یہ حکم مذکور ہے کہ اسے کھینچ کر دوزخ کے بیچوں بیچ لے جاؤ۔
ان المتقین۔۔۔ امینٍ ان آیات میں جنت کی سرمدی نعمتوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور نعمت کی تقریباً تمام اقسام کو جمع کردیا گیا ہے، اس لئے کہ عموماً انسانی ضرورت کی بنیادی چیز یہی ہوتی ہیں، عمدہ رہائش گاہ، عمدہ لباس، بہترین شریک حیات، بہتر ماکولات، پھر ان نعمتوں کے باقی رہنے کی ضمانت اور رنج و تکلیف سے کلی طور پر مامون رہنے کا یقین، یہاں ان چھ کی چھ باتوں کو اہل جنت کیلئے ثابت کردیا گیا ہے، جیسا کہ ان چھ آیتوں میں غور کرنے سے صاف ظاہر ہے۔
ذُق اِنَّکَ ۔۔ الکریم یعنی دنیا میں بزعم خویش بڑا معزز اور ذی وقار بنا پھرتا تھا، اور اہل ایمان کو حقارت کی نظر سے دیکھتا تھا۔
وزوجناھم۔۔۔ حورٌ، حورَاءُ کی جمع ہے یہ حورٌ سے مشتق ہے، جس کے معنی ہیں کہ آنکھ کی سفیدی نہایت سفید ہو اور سیاہی نہایت سیاہ ہو، حوراء اسلئے کہا جاتا ہے کہ نظریں اس کے حسن و جمال کو دیکھ کر حیرت زدہ رہ جائیں گی، عینٌ عیناء کی جمع ہے، کشادہ چشم، جیسے ہرن کی آنکھیں ہوتی ہیں۔
تم بحمد اللہ
10 Tafsir as-Saadi
جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے قیامت کا ذکر فرمایا، نیز یہ بھی واضح فرمایا کہ اس دن اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے درمیان فیصلہ کرے گا تو اس کے بعد فرمایا کہ بندے دو گروہوں میں تقسیم ہوں گے، ان میں سے ایک فریق جنت میں جائے گا اور ایک گروہ جہنم میں اور جہنم میں جانے والے وہ لوگ ہیں جنہوں نے کفر اور معاصی کا ارتکاب کیا اور ﴿إِنَّ﴾ ” بے شک“ ان کا کھانا ﴿ شَجَرَتَ الزَّقُّومِ﴾ ” زقوم کا درخت ہوگا۔“
11 Mufti Taqi Usmani
yaqeen jano kay zaqoom ka darkht
12 Tafsir Ibn Kathir
زقوم ابو جہل کی خوراک ہوگا
منکرین قیامت کو جو سزا وہاں دی جائے گی اس کا بیان ہو رہا ہے کہ ان مجرموں کو جو اپنے قول اور فعل کو نافرمانی سے ملوث کئے ہوئے تھے آج زقوم کا درخت کھلایا جائے گا۔ بعض کہتے ہیں اس سے مراد ابو جہل ہے۔ گو دراصل وہ بھی اس آیت کی وعید میں داخل ہے لیکن یہ نہ سمجھا جائے کہ آیت صرف اسی کے حق میں نازل ہوئی ہے۔ حضرت ابو درداء ایک شخص کو یہ آیت پڑھا رہے تھے مگر اس کی زبان سے لفظ (اثیم) ادا نہیں ہوتا تھا اور وہ بجائے اس کے یتیم کہہ دیا کرتا تھا تو آپ نے اسے (طعام الفاجر) پڑھوایا یعنی اسے اس کے سوا کھانے کو اور کچھ نہ دیا جائے گا۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ اگر زقوم کا ایک قطرہ بھی زمین میں ٹپک جائے تو تمام زمین والوں کی معاش خراب کر دے ایک مرفوع حدیث میں بھی یہ آیا ہے جو پہلے بیان ہوچکی ہے، یہ مثل تلچھٹ کے ہوگا۔ اپنی حرارت بدمزگی اور نقصان کے باعث پیٹ میں جوش مارتا رہے گا اللہ تعالیٰ جہنم کے داروغوں سے فرمائے گا کہ اس کافر کو پکڑ لو وہیں ستر ہزار فرشتے دوڑیں گے اسے اندھا کر کے منہ کے بل گھسیٹ لے جاؤ اور بیچ جہنم میں ڈال دو پھر اس کے سر پر جوش مارتا گرم پانی ڈالو۔ جیسے فرمایا آیت (يُصَبُّ مِنْ فَوْقِ رُءُوْسِهِمُ الْحَمِيْمُ 19ۚ ) 22 ۔ الحج :19) ، یعنی ان کے سروں پر جہنم کا جوش مارتا گرم پانی بہایا جائے گا جس سے ان کی کھالیں اور پیٹ کے اندر کی تمام چیزیں سوخت ہوجائیں گی اور یہ بھی ہم پہلے بیان کر آئے ہیں کہ فرشتے انہیں لوہے کے ہتھوڑے ماریں گے جن سے ان کا دماغ پاش پاش ہوجائیں گے پھر اوپر سے یہ حمیم ان پر ڈالا جائے گا یہ جہاں جہاں پہنچے گا ہڈی کو کھال سے جدا کر دے گا یہاں تک کہ اس کی آنتیں کاٹتا ہوا پنڈلیوں تک پہنچ جائے گا۔ اللہ ہمیں محفوظ رکھے پھر انہیں شرمسار کرنے کے لئے اور زیادہ پشیمان بنانے کے لئے کہا جائے گا کہ لو مزہ چکھو تم ہماری نگاہوں میں نہ عزت والے ہو نہ بزرگی والے۔ مغازی امویہ میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابو جہل ملعون سے کہا کہ مجھے اللہ کا حکم ہوا ہے کہ تجھ سے کہہ دوں تیرے لئے ویل ہے تجھ پر افسوس ہے پھر مکرر کہتا ہوں کہ تیرے لئے خرابی اور افسوس ہے۔ اس پاجی نے اپنا کپڑا آپ کے ہاتھ سے گھسیٹتے ہوئے کہا جا تو اور تیرا رب میرا کیا بگاڑ سکتے ہو ؟ اس تمام وادی میں سب سے زیادہ عزت و تکریم والا میں ہوں۔ پس اللہ تعالیٰ نے اسے بدر والے دن قتل کرایا اور اسے ذلیل کیا اور اس سے کہا جائے گا کہ لے اب اپنی عزت کا اور اپنی تکریم کا اور اپنی بزرگی اور بڑائی کا لطف اٹھا اور ان کافروں سے کہا جائے گا کہ یہ ہے جس میں ہمیشہ شک شبہ کرتے رہے۔ جیسے اور آیتوں میں ہے کہ جس دن انہیں دھکے دے کر جہنم میں پہنچایا جائے گا اور کہا جائے گا کہ یہ وہ دوزخ ہے جسے تم جھٹلاتے رہے کیا یہ جادو ہے یا تم دیکھ نہیں رہے ؟ اسی کو یہاں بھی فرمایا ہے کہ یہ جس میں تم شک کر رہے تھے۔