الاحقاف آية ۱
حٰمٓ ۚ
طاہر القادری:
حا، میم (حقیقی معنی اﷲ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں)،
English Sahih:
Ha, Meem.
1 Abul A'ala Maududi
ح م
2 Ahmed Raza Khan
حٰمٓ
3 Ahmed Ali
حمۤ
4 Ahsanul Bayan
حم
5 Fateh Muhammad Jalandhry
حٰم
6 Muhammad Junagarhi
حٰم
7 Muhammad Hussain Najafi
حا۔ میم۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
حمۤ
9 Tafsir Jalalayn
حٰم۔
ترجمہ :۔ شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے، حم اس سے اپنی مراد کو اللہ ہی بہتر جانتا ہے، کتاب یعنی قرآن کا نازل کرنا اپنی ملک میں غالب اپنی صنعت میں حکمت والے (خدا) کی طرف سے ہے (الکتاب) مبتداء اور من اللہ اس کی خبر ہے، ہم نے آسمانوں اور زمین اور اس کے درمیان کی تمام چیزوں کو حکمت کے ساتھ اور ایک مقررہ مدت (تک) کے لئے پیدا کیا ہے یعنی قیامت کے دن ان کے فنا ہونے تک کے لئے تاکہ ہمار قدرت اور ہماری وحدانیت پر دلالت کرے اور کافر لوگ جس چیز سے ڈرائے جاتے ہیں (یعنی) جس عذاب سے خوف دلائے جاتے ہیں اس سے منہ موڑ لیتے ہیں، آپ کہئے، بھلا دیکھو تو جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو بندگی کرتے ہو، یعنی بتوں کی، مجھے بتائو کہ انہوں نے زمین کا کونسا حصہ پیدا کیا ہے ما، تدعون کا مفعول اول ہے ارونی بمعنی اخبرونی (ارایتم) کی تاکید ہے (ماذا خلفوا) مفعول ثانی ہے (من الارض) ماکان بیان ہے، یا آسمانوں کی پیدائش میں ان کو اللہ کے ساتھ مشارکت ہے ما استفہام انکاری کے معنی میں ہے میرے پاس کوئی کتاب جو اس قرآن سے پہلے نازل کی گئی ہو لائو یا کوئی اور منقول مضمون جو تمہاری بت پرستی کے دعویٰ کی صحت میں اسلاف سے منقول چلا آیا ہو کہ یہ بت تم کو اللہ کا مقرب بنادیں گے اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہوا اور اس سے بڑھ کر گمراہ اور کون ہوگا ؟ استفہام بمعنی نفی ہے یعنی کوئی نہیں جو اللہ کے سوا ایسوں کو پکارے یعنی بندگی کرے جو تاقیامت اس کی دعاء قبول نہ کرسکیں اور وہ بہت ہیں، اپنی عبادت کرنے والوں کے کسی سوال کا کبھی بھی جواب نہیں دے سکتے، بلکہ وہ تو ان کی پکار بندگی سے بیخبر محض ہیں، اس لئے کہ وہ تو جماد لایعقل ہیں اور جب لوگوں کو جمع کیا جائے گا تو یہ بات ان کے یعنی اپنی بندگی کرنے والوں کے دشمن ہوں گے اور ان کی یعنی اپنی عبادت کرنے والوں کی عبادت ہی کا انکار کر بیٹھیں گے اور جب انہیں یعنی اہل مکہ کو ہماری واضح آیتیں یعنی قرآن پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو ان میں کے منکرین حق منکرین قرآن سچی بات کو جبکہ ان کے پاس آچکی کہہ دیتے ہیں کہ یہ تو کھلا جادو ہے کہ وہ یہ کہتے ہیں کہ اس قرآن کو تو اس (رسول) نے خود گھڑ لیا ہے ؟ ام بمعنی بل ہے اور ہمزہ انکار کا ہے، آپ ان سے کہہ دیجیے کہ اگر بالفرض میں نے اس کو گھڑ لیا ہے تو تم مجھے خدا کے عذاب سے ذرا بھی نہیں بچا سکتے، یعنی جب اللہ مجھے عذاب دینے پر آئے تو تم اس عذاب کو مجھ سے دفع نہیں کرسکتے، قرآن کے بارے میں جو باتیں تم بناتے ہو وہ اسے خوب جانتا ہے، میرے اور تمہارے درمیان گواہی کے لئے وہی کافی ہے جس نے توبہ کی وہ اسے بڑا معاف کرنے والا ہے وہ اس پر بڑا رحم کرنے والا ہے اسی وجہ سے وہ تمہاری سزا میں جلدی نہیں کرتا آپ کہئے کہ میں کوئی نرالا رسول تو ہوں نہیں یعنی پہلا (رسول تو ہوں نہیں) مجھ سے پہلے میرے جیسے بہت سے رسول گذر چکے ہیں تو تم میری تکذیب کس بنیاد پر کرتے ہو ؟ اور میں نہیں جانتا کہ (کل) میرے ساتھ اور تمہارے ساتھ دنیا میں کیا معاملہ کیا جائے گا آیا میں اپنے شہر سے نکالا جائوں گا یا قتل کیا جائوں گا ؟ جیسا کہ مجھ سے پہلے انبیائے کے ساتھ کیا گیا یا تم پر پتھر برسائے جائیں گے یا تم سے پہلے مکذبین کے مانند تم زمین دو ذکر دیئے جائو گے میں تو صرف اسی کی پیروی کرتا ہوں جو میری طرف وحی بھیجی جاتی ہے اور میں تو ایک صاف صاف ڈرانے (خبردار) کرنے والے کے سوا کچھ نہیں ہوں آپ کہہ دیجیے کہ تم مجھ کو یہ بتلا دو کہ اگر یہ قرآن منجانب اللہ ہو اور تم نے اس کا انکار کردیا، تو تمہارا کیا انجام ہوگا ؟ (وکفرتم بہ) جملہ حالیہ ہے، اور اس جیسے کلام پر تو ایک بنی اسرائیل کا گواہ اور وہ عبداللہ بن سلام ہے شہادت بھی دے چکا ہے یعنی اس بات پر کہ یہ (قرآن) منجانب اللہ ہے اور وہ شاہد ایمان لے آیا اور تم گھمنڈ میں پڑے رہے یعنی ایمان کے مقابلہ میں تکبر کرتے رہے اور شرط کا مع اس پر معطوف کے جواب الستم ظالمین ہے، جس پر ان اللہ لایھدی القوم الظلمین دلالت کر رہا ہے۔
تحقیق و ترکیب تسھیل و تفسیری فوائد
قولہ : احقاق، حقف کی جمع ہے، حقف ریت کے اس ٹیلے کو کہتے ہیں جو مستطیل اور مرتفع اور قدرے منحفی ہو اور احقاق یمن میں ایک وادی کا نام بھی ہے، قوم عاد کا مرکزی مقام احقاف تھا، یہ حضرموت کے شمال میں اس طرح واقع ہے کہ اس کے مشرق میں عمان اور شمال میں ربع خالی واقع ہے جسے صحرائے اعظم الدنیا بھی کہا جاتا ہے قدیم زمانہ میں حضرت موت اور نجران کے درمیانی حصہ میں عاد ارم یعنی عاد اولیٰ کا مشہور قبیلہ آباد تھا، جس کو اللہ تعالیٰ نے اس کی نافرمانی کی پاداش میں آندھی کا عذاب بھیج کرنیست و نابود کردیا تھا، عبدالوہاب نجار نے قصص الانبیاء میں ص ٧١ پر تصریح کی ہے کہ مجھ سے سید عبداللہ بن احمد بن عمر بن یحییٰ علوی نے جو حضرموت کے باشندے ہیں بیان کیا کہ وہ ایک جماعت کے ساتھ ان ہلاک شدہ قوموں کے قدیم مساکن کی کھوج میں حضرموت کے شمالی میدان میں قیام پذیر رہے کافی تلاش و کوشش کے بعد ٹیلوں کی کھدائی میں سنگ مرمر کے کچھ برتن دستیاب ہوئے جن پر خط مسماری میں کچھ کندہ تھا لیکن افسوس کہ سرمایہ کی کمی کے باعث اس مہم سے دست بردار ہونا پڑا۔
(لغات القرآن)
قولہ : الابالحق بالحق سے پہلے خلقاً محذوف مان کر مفسر علام نے اس بات کی طرف اشارہ کردیا کہ بالحق متلبساً کے متعلق ہو کر خلقاً مصدر مجذوف کی صفت ہے، تقدیر عبارت یہ ہے الاخلقاً متلبساً بالحق
قولہ : واجل مسمی وائوعاطفہ ہے، اجل کا عطف الحق پر ہے ای بحق و باجل مسمی یعنی ہم نے آسمانوں اور زمین کو برحق اور تعیین مدت کے ساتھ پیدا کیا ہے یعنی ان کی فنا کا ایک دن متعین ہے اور وہ قیامت کا دن ہے، کلام میں مضاف محذوف ہے ای والابتعیین اجل مسمی
قولہ : والذین کفروا موصول صلہ سے مل کر مبتداء اور معرضون اس کی خبر ہے اور عما انذروا، معرضون کے متعلق ہے، ما اسم موصول ہے معرضون جملہ ہو کر صلہ ہے، عائد محذوف ہے جس کی طرف مفسر علامہ نے بہ مقدر مان کر اشارہ کردیا ہے۔
قولہ : عما انذروا میں ما موصولہ اور مصدریہ دونوں ہوسکتا ہے، موصولہ ہونے کی صورت میں تقدیر عبارت یہ ہوگی عن عذاب الذی انذروہ معرضون
قولہ : قل ارایتم ماتدعون میں ڈون اللہ بقول شارح (رح) ارء یتم، بمعنی اخبرونی اور تدعون، بمعنی تعبدون ہے ای خبرونی ماتعبدون من دون اللہ من الاصنام ماتدعون، ارء یتم مکا مفعول اول ہے اور ما ذا خلقوا جملہ ہو کر قائم مقام مفعول ثانی کے ہے، یہ بھی احتمال ہے کہ ارونی، ارء یتم کی تاکید ہو اور معنی میں اخبرونی کے ہو، اس صورت میں یہ باب تنازع فعلان سے ہوگا، اس لئے کہ ارء یتم اور ارونی دونوں مفعول ثانی کے طالب ہیں مفعول اول دونوں کے پاس موجود ہے ماتعبدون ارء یتم کا مفعول اول ہے اور ارونی میں یا ارونی کا مفعول اول ہے او ماذا خلقوا متنازع فیہ ہے، دونوں افعال اس کو اپنا مفعول ثانی بنانا چاہتے ہیں، بصریین کے مذہب کے مطابق فعل ثانی کو عمل دیکر فعل اول کا مفعول ثانی محذوف مانا جائے گا۔
قولہ : مشارک فی الخلق، مشارک بمعنی مشارکت ہے اگر مفسر علام (رح) تعالیٰ مشارک کے بجائے مشارکتہ فرماتے تو زیادہ واضح ہوتا موجودہ نسخہ میں مشارکتہ ہے۔
قولہ : ایتونی یہ جملہ بھی منجملہ قل کے مقولہ میں سے ہے اور ایتونی امر تعجیز و تبکیت کے لئے ہے ارونی سے دلیل عقلی کے فقدان کی طرف اشارہ کرنے کے بعد ایتونی بکتب الخ سے دلیل نقلی کے فقدان کی طرف اشارہ ہے۔
قولہ : من قبل ھذا یہ بکتاب کی صفت ہے جو مطلق ہے منزل ہو یا غیر منزل، ای ایتونی بکتاب کائن من قبل مگر مفسر علامہ نے ابوالبقاء کی اتباع میں من قبل کا متعلق خاص یعنی منزل محذوف مانا ہے مگر مطلق رکھنا زیادہ بہتر ہے۔ ای کائن من قبل ھذا (جمل)
قولہ : اثارۃ بقیۃ، بقیۃ کا اضافہ بیان معنی کے لئے ہے اثارۃ غوایۃ وضلالۃ کے وزن پر مصدر ہے اور یہ عرب قول سمنت الناقۃ علی اثارۃ من لحم، ای علی بقیۃ منہ سے مشتق ہے اور بعض حضرات نے اثارۃ کے معنی روایۃ اور علامۃ کے بھی بیان کئے، خلاصہ یہ کہ اہل لغت کے اثارۃ میں تین قول ہیں (١) الاثارۃ بمعنی بقیۃ یہ اثرت الشیء اثارۃ سے مشتق ہے، کانھا بقیۃ تخرج فتستشار (٢) الاثارۃ من الاثر، ای الروایۃ والنقل (٣) میں الاثر، بمعنی العلامۃ (اعراب القرآن) مراد وہ علوم ہیں جو اسلاف سے سینہ بسینہ منقول چلے آتے ہوں۔
قولہ : من قبل ھذا، کائن محذوف کے متعلق ہو کر بکتاب کی صفت ہے اور بکتاب ایتونی کے متعلق ہے اور اثارۃ کتاب پر معطوف ہے۔
قولہ : ان کنتم صادقین شرط ہے اس کی جزاء فاتونی محذوف ہے اور صادقین کنتم کی خبر ہے۔
قولہ : من لایستجیب الخ من نکرہ موصوفہ بھی ہوسکتا ہے مابعد کا جملہ اس کی صفت ہوگا، تقدیر عبارت ہوگی من اضل من شخص یعبد شیا لایجیبہ : اور موصولہ بھی ہوسکتا ہے اس صورت میں مابعد کا جملہ اس کا صلہ ہوگا، تقدیر عبارت یہ ہوگی من اضل من شخص یعبد الشی الذی لایجیبہ ولا ینفعہ فی الدین ولا فی الآخرۃ
قولہ : من لا یستجیب لہ جملہ ہو کر یدعوا کا مفعول بہ ہے۔
قولہ : الی یوم القیامۃ یہ لایستجیب کی غایت ہے، جس سے بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ قیامت کے بعد استجابۃ ہوگی، بایں طور کہ غایت میغا میں داخل نہ ہو، حالانکہ ایسا نہیں ہے بلکہ یہاں بیان غایت سے تابید مراد ہے اور غایت مغیا میں داخل ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے قول وان علیک لعنتی الی یوم الدین
قولہ : لانھم جماد لایعقلون، غافلون کی تفسیر لانھم جماد الخ سے کر کے اشارہ کردیا کہ غفلت سے عدم فہم مراد ہے نہ کہ بےتوجہی (وھم عن دعائھم غافلون) میں اول ھم ضمیر اصنام کی طرف اور ثانی ھم عابدین اصنام کی طرف راجع ہے، دونوں ضمیروں کو جمع لانا معنی من کی رعایت کی وجہ ہے اصنام کے لئے ذوی العقول کی جمع اس لئے لائے ہیں کہ مشرکین کا یہ اعتقاد تھا کہ اصنام سمجھتے ہیں۔
قولہ : قال الذین کفروا یہ وضع الاسم الظاہر موضع الضمیر کے قبیل سے ہے، اس لئے کہ قالوا کہنا کافی تھا مگر اہل مکہ کی صفت کفر کو بیان کرنے کے لئے اسم ظاہر کو اسم ضمیر کی جگہ رکھ دیا۔
قولہ : لما جاء ھم، قال کا ظرف ہے اور ھذا سحر مبین مقولہ ہے۔
قولہ : تفیضون، افاضۃ سے جمع مذکر کا صیغہ ہے تم گھستے ہو اس کا استعمال جب پانی، آنسو، وغیرہ کے لئے ہوتا ہے، تو بہنے، جاری ہونے کے معنی ہوتے ہیں، لیکن جب کلام کے متعلق استعمال ہوتا ہے تو باتوں میں غور و خوض کرنے اور کہنے سننے اور نکتہ چینی کرنے کے معنی میں آتا ہے، یہاں اسی معنی میں استعمال ہوا ہے۔
قولہ : بدعا بدیعاً بدعا مصدر بھی ہوسکتا ہے مگر اس صورت میں مضاف محذوف ہوگا ای ذابدع اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بدعا بدیعا کے معنی میں صیغہ صفت ہو جیسے خف بمعنی خفیف بدع بمعنی بدیع انوکھا، نرالا
قولہ : وما ادری مایفعل بی ولابکم پہلا مانافیہ ہے، ثانی ما استفہامیہ مبتداء اور مابعد اس کی خبر، یہ ما، ادری کو عمل سے مانع ہے اس کا مابعد قائم مقام دو مفعولوں کے ہے۔
قولہ : مانا الا نذیر مبین یہ حصر حقیقی نہیں ہے کہ اعتراض ہو کہ آپ بشیر بھی ہیں پھر یہ نذیر میں حصر کیسا ؟ جواب یہ ہے کہ یہ حصر اضافی ہے یعنی میرا ڈرانا اور آگاہ کرنا، اللہ ہی کی طرف سے ہے خود میری طرف سے کچھ نہیں ہے جیسا کہ آپ لوگوں کا خیال ہے۔
قولہ : ارایتم ان کان من عند اللہ و کفر تم بہ جملہ ارایتم الخ قول کا مقولہ ہے ارایتم کے دونوں مفعول محذوف ہیں، تقدیر عبارت یہ ہے اخبرونی ماذا حالکم ان کان من عند اللہ و کفرتم بہ شرط اور اس پر معطوف کا جواب محذوف ہے، جس کی طرف عالمہ محلی رحمتہ اللہ تعالیٰ نے الستم ظالمین مقدر مان کر اشارہ کردیا ہے، جواب شرط کی مذکورہ تقدیر زمخشری کے قول کے مطابق ہے مگر اس پر ابوحیان نے رد کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ اگر زمخشری کی بیان کردہ تقدیر مان لی جائے تو پھر فاء کا لانا ضروری ہے اس لئے کہ جملہ استفہامیہ جب جواب شرط واقع ہوتا ہے تو اس پر فاء لازم ہوتی ہے، یہی وجہ ہے کہ دیگر حضرات نے فقد ظلمتم جواب شرط محذوف مانا ہے۔ (اعراب القرآن)
تفسیر و تشریع
اس سورت کا نام احقاف ہے، احقاف حقف کی جمع ہے، ریت کے بلند مستطیل خمدار ٹیلے کو کہتے ہیں، یہ نام آیت ٢١ اذا انذرقومہ بالاحقاف سے ماخوذ ہے یہ قوم عاد کا مرکزی مقام تھا، یہ حضرموت کے شما میں اس طرح واقع ہے کہ اس کے مشرق میں عمان اور شمال میں ربع خالی ہے جسے صحراء اعظم الدنیا بھی کہا جاتا ہے، ربع خالی گو آبادی کے لائق نہیں تاہم اس کے اطراف میں کہیں کہیں آبادی کے قابل کچھ زمین ہے، خصوصاً اس حصہ میں جو حضرموت سے نجران تک پھیلا ہوا ہے، قدیم زمانہ میں اسی حضرموت اور نجران کے درمیانی حصہ میں عاد ارم کا مشہور قبیلہ آباد تھا، جس کو خدا نے ان کی نافرمانیوں کی پاداش میں آندھی کا عذاب بھیج کر نیست و نابود کردیا تھا۔ (لغات القرآن)
نوٹ :۔ حال ہی میں ١٩٩٢ ء میں کھدائی کے دوران قوم عاد وثمود کے مکانوں کے کھنڈرات اور بنیادیں ظاہر ہوئی ہیں جو کہ تصویر میں صاف نظر آرہی ہیں۔ (قوم عاد وثمود کے خرابات کا نقشہ اگلے صفحہ پر ملاحظہ فرمائیں۔ )
حم حروف متشا بہات میں سے واجب الاعتقاد قابل السکوت ہے، اس کتاب کا نزول اللہ زبردست اور دانا کی طرف سے ہے اور واقعی حقیقت یہ ہے کہ یہ نظام کائنات بےمقصد کھلونا نہیں، بلکہ با مقصد ایک حکیمانہ نظام ہے، نیز کائنات کا موجودہ نظام دائمی اور ابدی نہیں ہے بلکہ اس کی ایک خاص عمر مقرر ہے جس کے خاتمے پر اس کو لازماً درہم برہم ہوجانا ہے اسی کو آخرت کہتے ہیں اور خدا کی عدالت کے لئے بھی ایک طے شدہ وقت ہے جس کے آنے پر وہ ضرور قائم ہونی ہے، لیکن یہ کافر لوگ اس حقیقت سے منہ موڑے ہوئے ہیں، انہیں اس بات کی کوئی فکر نہیں ہے کہ ایک وقت ایسا آنے والا ہے جب انہیں اپنے اعمال کی جواب دہی کرنی ہوگی۔
10 Tafsir as-Saadi
حٰم
11 Mufti Taqi Usmani
Haa-Meem .