محمد آية ۲۰
وَيَقُوْلُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَوْلَا نُزِّلَتْ سُوْرَةٌ ۚ فَاِذَاۤ اُنْزِلَتْ سُوْرَةٌ مُّحْكَمَةٌ وَّذُكِرَ فِيْهَا الْقِتَالُۙ رَاَيْتَ الَّذِيْنَ فِىْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ يَّنْظُرُوْنَ اِلَيْكَ نَظَرَ الْمَغْشِىِّ عَلَيْهِ مِنَ الْمَوْتِۗ فَاَوْلٰى لَهُمْۚ
طاہر القادری:
اور ایمان والے کہتے ہیں کہ (حکمِ جہاد سے متعلق) کوئی سورت کیوں نہیں اتاری جاتی؟ پھر جب کوئی واضح سورت نازل کی جاتی ہے اور اس میں (صریحاً) جہاد کا ذکر کیا جاتا ہے تو آپ ایسے لوگوں کو جن کے دلوں میں (نفاق کی) بیماری ہے ملاحظہ فرماتے ہیں کہ وہ آپ کی طرف (اس طرح) دیکھتے ہیں جیسے وہ شخص دیکھتا ہے جس پر موت کی غشی طاری ہو رہی ہو۔ سو ان کے لئے خرابی ہے،
English Sahih:
Those who believe say, "Why has a Surah not been sent down?" But when a precise Surah is revealed and battle is mentioned therein, you see those in whose hearts is disease [i.e., hypocrisy] looking at you with a look of one overcome by death. And more appropriate for them [would have been]
1 Abul A'ala Maududi
جو لوگ ایمان لائے ہیں وہ کہہ رہے تھے کہ کوئی سورت کیوں نہیں نازل کی جاتی (جس میں جنگ کا حکم دیا جائے) مگر جب ایک محکم سورت نازل کر دی گئی جس میں جنگ کا ذکر تھا تو تم نے دیکھا کہ جن کے دلوں میں بیماری تھی وہ تمہاری طرف اس طرح دیکھ رہے ہیں جیسے کسی پر موت چھا گئی ہو افسوس اُن کے حال پر
2 Ahmed Raza Khan
اور مسلمان کہتے ہیں کوئی سورت کیوں نہ اتاری گئی پھر جب کوئی پختہ سورت اتاری گئی اور اس میں جہاد کا حکم فرمایا گیا تو تم دیکھو گے انہیں جن کے دلوں میں بیماری ہے کہ تمہاری طرف اس کا دیکھنا دیکھتے ہیں جس پر مُرونی چھائی ہو، تو ان کے حق میں بہتر یہ تھا کہ فرمانبرداری کرتے
3 Ahmed Ali
اور کہتے ہیں وہ لوگ جو ایمان لائے کوئی سورت کیوں نہیں نازل ہوئی سو جس وقت کوئی صاف (مضمون) کی سورت نازل ہوتی ہے اور اس میں جہاد کا بھی ذکر ہوتا ہے تو جن لوگو ں کے دلوں میں بیماری (نفاق) ہے آپ ان لوگو ں کو دیکھتے ہیں کہ وہ آپ کی طرف اس طرح دیکھتے ہیں جیسے کسی پر موت کی بیہوشی طاری ہو پس ایسے لوگوں کے لیے تباہی ہے
4 Ahsanul Bayan
اور جو لوگ ایمان لائے اور کہتے ہیں کوئی سورت کیوں نازل نہیں کی گئی؟ (۱) پھر جب کوئی صاف مطلب والی سورت (۲) نازل کی جاتی ہے اور اس میں قتال کا ذکر کیا جاتا ہے تو آپ دیکھتے ہیں کہ جن لوگوں کے دلوں میں بیماری ہے وہ آپ کی طرف اس طرح دیکھتے ہیں جیسے اس شخص کی نظر ہوتی ہے جس پر موت کی بیہوشی طاری ہو (۳) پس بہت بہتر تھا ان کے لئے۔
۲۰ ۔۱ جب جہاد کا حکم نازل نہیں ہوا تھا تو مومنین جو جذبہ جہاد سے سرشار تھے جہاد کی اجازت کے خواہش مند تھے اور کہتے تھے کہ اس بارے میں کوئی سورت نازل کیوں نہیں کی جاتی یعنی جس میں جہاد کا حکم ہو۔
۲۰۔۲ یعنی ایسی سورت جو غیر منسوح ہو ۔
٢٠۔۳ یہ ان منافقین کا ذکر ہے جن پر جہاد کا حکم نہایت گراں گزرتا تھا، ان میں بعض کمزور ایمان والے بھی بعض دفعہ شامل ہو جاتے تھے سورہ نساء آیت ٧٧ میں بھی یہ مضمون بیان کیا گیا ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور مومن لوگ کہتے ہیں کہ (جہاد کی) کوئی سورت کیوں نازل نہیں ہوتی؟ لیکن جب کوئی صاف معنوں کی سورت نازل ہو اور اس میں جہاد کا بیان ہو تو جن لوگوں کے دلوں میں (نفاق کا) مرض ہے تم ان کو دیکھو کہ تمہاری طرف اس طرح دیکھنے لگیں جس طرح کسی پر موت کی بےہوشی (طاری) ہو رہی ہو۔ سو ان کے لئے خرابی ہے
6 Muhammad Junagarhi
اور جو لوگ ایمان ﻻئے وه کہتے ہیں کوئی سورت کیوں نازل نہیں کی گئی؟ پھر جب کوئی صاف مطلب والی سورت نازل کی جاتی ہے اور اس میں قتال کا ذکر کیا جاتا ہے تو آپ دیکھتے ہیں کہ جن لوگوں کے دلوں میں بیماری ہے وه آپ کی طرف اس طرح دیکھتے ہیں جیسے اس شخص کی نظر ہوتی ہے جس پر موت کی بیہوشی طاری ہو، پس بہت بہتر تھا ان کے لئے
7 Muhammad Hussain Najafi
اور جو لوگ ایمان لائے ہیں وہ کہتے ہیں کہ (جہاد کے بارے میں) کوئی سورہ کیوں نازل نہیں کی جاتی؟ پس جب ایک محکم سورہ نازل کی جاتی ہے اور اس میں قتل و قتال کا ذکر ہوتا ہے تو آپ(ص) ان لوگوں کو دیکھئے گا کہ جن کے دلوں میں (نفاق کی) بیماری ہے وہ آپ(ص) کی طرف اس طرح دیکھتے ہیں جس طرح وہ شخص دیکھتا ہے جس پر موت کی غشی طاری ہو۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور جو لوگ ایمان لے آئے ہیں وہ یہ کہتے ہیں کہ آخر جہاد کے بارے میں سورہ کیوں نہیں نازل ہوتا اور جب سورہ نازل ہوگیا اور اس میں جہاد کا ذکر کردیا گیا تو آپ نے دیکھا کہ جن کے دلوں میں مرض تھا وہ آپ کی طرف اس طرح دیکھتے رہ گئے جیسے موت کی سی غشی طاری ہوگئی ہو تو ان کے واسطے ویل اور افسوس ہے
9 Tafsir Jalalayn
اور مومن لوگ کہتے ہیں کہ (جہاد کی) کوئی سورت کیوں نازل نہیں ہوتی لیکن جب کوئی صاف معنوں کی سورت نازل ہو اور اس میں جہاد کا بیان ہو تو جن لوگوں کے دلوں میں (نفاق کا) مرض ہے تم ان کو دیکھو کہ تمہاری طرف اس طرح دیکھنے لگیں جس طرح کسی پر موت کی بیہوشی (طاری) ہو رہی ہو تو ان کے لئے خرابی ہے
ترجمہ : اور جو لوگ ایمان لائے وہ جہاد کا مطالبہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کس لئے کوئی ایسی سورت نازل نہیں کی گئی جس میں جہاد (کی اجازت) کا ذکر ہو جب کوئی محکم غیر منسوخ سورت نازل کی جاتی ہے کہ جس میں جہاد (کی اجازت) مذکور ہوتی ہے یعنی جہاد کا مطالبہ مذکور ہوتا ہے تو آپ ان لوگوں کو کہ جن کے دلوں میں مرض یعنی شک ہوتا ہے اور وہ منافق ہیں کہ وہ آپ کی طرف اس طرح دیکھتے ہیں جیسے کسی پر موت کی غشی طاری ہوگئی ہو موت سے خوف کھانے کی وجہ سے اور اس کو ناپسند کرنے کی وجہ سے یعنی وہ جہاد سے ڈرتے ہیں اور اس کو ناپسند کرتے ہیں سو بہتر تھا ان کے لئے آپ کا فرمان بجا لانا اور آپ سے اچھی بات کہنا (اولی لھم) مبتداء ہے اور (طاعۃ وقول معروف) خبر، یعنی ان کے لئے آپ کی اطاعت اور آپ کے ساتھ اچھی بات بہتر ہے اور جب بات پختہ ہوگئی یعنی جہاد فرض کردیا گیا سو اگر اللہ کے ساتھ ایمان اور طاعت میں سچے رہیں تو ان کے لئے بہتر ہے اور جملہ لوصدقوا جواب اذا ہے اگر تم ایمان سے روگردانی کرو تو تم سے بعید نہیں کہ تم ملک میں فساد برپا کرو اور قطع رحمی کرو اور تم امر جاہلیت یعنی بغاوت اور قتل کی طرف لوٹ آئو (عسیتم) میں سین کا کسرہ اور فتحہ دونوں ہیں اور اس میں غیبت سے خطاب کی طرف التفات ہے اور عسیتم بمعنی (لعلکم) ہے، یہی وہ مفسدہ پرداز لوگ ہیں جن پر اللہ کی پھٹکار ہے جن کو حق بات سننے سے بہرا کردیا گیا ہے اور راہ ہدایت دیکھنے سے ان کی آنکھوں کو اندھا کردیا گیا ہے کیا یہ لوگ قرآن میں غور و فکر نہیں کرتے ؟ کہ حق کو پہچان سکیں، بلکہ ان کے قلوب پر قلوب کے (مناسب) تالے لگے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے وہ قرآن کو سمجھتے نہیں ہیں یقینا وہ لوگ جو نفاق کی وجہ سے ان پر ہدایت ظاہر ہونے کے بعد پیٹھ پھیر کر پلٹ گئے یقینا شیطان نے ان کے لئے (ان کے عمل کو) مزین کردیا ہے اور شیطان نے ان کو دور کی سمجھائی ہے اول (یعنی ہمزہ) ضمہ اور فتحہ کے ساتھ اور لام کے فتحہ کے ساتھ ہے اور دور کی سمجھانے والا بارادہ خداوندی شیطان ہے لہٰذا وہ (شیطان) ان کو گمراہ کرنے والا ہے اور یہ یعنی ان کو گمراہ کرنا اس وجہ سے ہوا کہ ان (منافقوں) نے ان لوگوں سے جو اللہ کی نازل کردہ (قرآن) کو ناپسند کرتے ہیں یعنی مشرکین سے کہا کہ ہم بعض باتیں تمہاری مانیں گے یعنی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت میں معاونت کے سلسلہ میں اور لوگوں کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ جہاد سے روکنے کے سلسلہ میں (معاونت کریں گے) منافقوں نے یہ بات راز دارانہ طور پر کہی تھی مگر اللہ نے اس کو ظاہر فرما دیا اور اللہ ان کی راز دارانہ گفتگو کرنے کو جانتا ہے (یا) ان کے رازوں کو جانتا ہے (اسرار) ہمزہ کے فتحہ کے ساتھ سر کی جمع ہے اور ہمزہ کے کسرہ کے ساتھ مصدر ہے تو ان کا یال حال ہوگا ؟ جب فرشتے ان کی روح قبض کرتے ہوں گے، حال یہ کہ وہ فرشتے ان کے چہروں پر اور ان کے سرینوں پر یعنی پشتوں پر لوہے کے ہتھوڑوں سے مارتے ہوں گے اور یہ یعنی مذکورہ صورت میں روح قبض کرنا، اس سبب سے (ہو گا) کہ جو طریقہ خدا کی ناراضگی کا موجب تھا یہ اسی پر چلے اور اس کی رضا نفرت کیا یعنی اس عمل سے جو اس کو راضی کرنے والا ہے اس لئے اللہ نے ان کے اعمال کالعدم کردیئے۔
تحقیق و ترکیب تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : فاولی لھم لام بمعنی باء ای ان کان الاولی بھم طاعۃ اللہ وطاعۃ رسولہ یعنی ضعیف الایمان اور منافقوں کے لئے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت ہی بہتر تھی، یہ مطلب حضرت ابن عباس (رض) سے عطاء، (رح) تعالیٰ نے روایت کیا ہے اور بعض حضرات نے اولی کو ویل سے مشتق مانا ہے اس کے معنی ہلاکت اور بربادی کے ہیں اس صورت میں یہ کلمہ ضعیف الایمان اور منافقوں کے لئے بد دعا اور کلمہ وعید ہوگا اور اولی لھم پر وقف ہوگا، اس کے بعد کلام مستانف ہوگا۔
قولہ : فاولی تھم میں تین ترکیبیں ہوسکتی ہیں (١) اولی مبتداء لھم اس کا متعلق لام بمعنی باء، طاعۃ وقول معروف اس کی خبر مفسر علامہ نے یہی ترکیب اختیار کی ہے (٢) اولی لھم مبتداء محذوف کی خبر ہو تقدیر عبارت یہ ہے الھلاک اولی لھم ای اقرب لھم واحق لھم (٣) اولی مبتداء اور لھم اس کی خبر تقدیر عبارت یہ ہے فالھلاک لھم، ابوالبقاء نے اسی کو اختیار کیا ہے۔ (اعراب القرآن)
قولہ : فاذا عزم الامر جب امر (جہاد) نے پختہ ارادہ کرلیا، اس میں اسناد مجازی ہے اس لئے کہ عزم، صاحب عزم کا کام ہے نہ کہ امر کا۔
قولہ : فلوصدقوا اللہ بعض حضرات نے کہا ہے کہ لو صدقوا اللہ مع اپنے جواب کے اذا کا جواب ہے اور بعض حضرات نے اذا کا جواب کرھوا محذوف مانا ہے اور فلو صدقوا اللہ کو شرط اور لکان خیراً لھم کو اس کی جزاء قرار دیا ہے۔
قولہ : فھل عسیتھم ان تولیتم عسیتم افعال رجاء (مقاربہ) میں سے فعل ماضی ہے یعنی ” تم سے بعید نہیں کہ تم “ اس میں مزید توبیخ و تقریع کے لئے غیبت سے خطاب کی طرف التفات ہے، حضرت قتادہ (رض) تعلیٰ عنہ نے تولیتم کے معنی اعراض عن الطاعۃ کے کئے ہیں مفسر علام نے یہی معنی مراد لئے ہیں اور کلبی نے تولیتم کے معنی ان تولیتم امر الامۃ کے لئے ہیں، یعنی اگر تم کو امت کے امور کا والی اور ذمہ دار بنادیا گیا تو تم ملک میں ظلم کے ذریعہ فساد برپا کرو گے۔
قولہ : اقفالھا، اقفال قفل کی جمع ہے بمعنی تالا، اقفال کی اضافت قلوب کی طرف کر کے اشارہ کردیا کہ یہاں قفل سے عرفی تالامراد نہیں ہے بلکہ خاص قسم کا غیبی تالامراد ہے جو قلوب کے مناسب ہو، مثلاً توفیق کا سلب ہونا، غور و فکر کی صلاحیت کا ختم ہوجانا وغیرہ وغیرہ، مفسر علام نے فلایفھمونہ سے اسی غیبی تالے یعنی سلب صلاحیت فہم کی طرف اشارہ کیا ہے۔
قولہ : املی اس میں دو قراتیں ہیں (١) ہمزہ کا ضمہ اور لام کا کسرہ مع یاء کے فتحہ کے ای املی ماضی مجہول ان کو ڈھیل دی گئی اور (٢) قرأت میں سکون یاء کے ساتھ مضارع معروف بھی ہے، یعنی ان کو مہلت دوں گا، املی تھم ان کو دور کی سکھائی، لمبی لمبی امیدیں دلائیں، اس وقت اس کا فاعل شیطان ہوگا اور ان کو مہلت دی، ڈھیل دی، اس صورت میں فاعل اللہ ہوگا۔
قولہ : المملی الشیطان بارادتہ تعالیٰ اس عبارت کا مقصد ایک سوال مقدر کا جواب ہے۔
سوال : مہلت دینا یہ خدا کا کام ہے لہٰذا شیطان کی طرف اس کی نسبت درست نہیں ہے۔
جواب : ڈھیل اور مہلت دینے والا درحقیت اللہ ہی ہے مگر اسناد مجازی کے طور پر شیطان کی طرف نسبت کردی ہے اس لئے کہ یہ اسی کے وسوسے کے ذریعہ ہوتی ہے۔
قولہ : ذلک مبتداء بانھم قالوا اس کی خبر، باء سیبیہ ہے۔
قولہ : قالوا، قالوا کا فاعل منافقین ہیں اور کرھوا کا فاعل یہود ہیں، گویا کہ یہ کہنا سننا اور گفتگو منافقین اور یہود کے درمیان ہے نہ کہ منافقین اور مشرکین کے درمیان جیسا کہ علامہ محلی نے اختیار کیا ہے، غالباً یہ سبقت قلم ہے۔ (حاشیہ جلالین)
تفسیر و تشریح
شان نزول :
ویقول الذین امنوا (الآیۃ) یہاں سے آخر تک تمام آیات مدنی ہیں اس لئے جہاد کی مشروعیت مدینہ ہی میں ہوئی ہے اور اس لئے بھی کہ نفاق بھی مدینہ ہی میں پیدا ہوا، مکہ میں نفاق کی کوئی ضرورت ہی نہیں تھی کیونکہ مکہ میں اسلام کمزور اور دشمن طاقتور تھا مکی زندگی کا پورا زمانہ اور مدنی زندگی کا ابتدائی زمانہ بڑا پر آشوب اور اضطراب و بےچینی کا زمانہ تھا ہر آن اور ہر وقت خطرہ لاحق رہتا تھا راتوں کو مسلمان ہتھیار بند سوتے تھے، ذرا بھی کوئی شور و غل ہوتا تھا تو مسلمان سمجھتے تھے کہ دشمن چڑھ آیا، مشرکین مکہ کی ریشہ دوانیاں نہ صرف یہ کہ جاری تھیں بلکہ شباب پر تھیں، مسلمان جس اضطرابی دور سے گزر رہے تھے اس سے تنگ آ کر ” تنگ آمد بجنگ آمد “ کے مطابق مسلمانوں نے بھی من بنا لیا تھا کہ اب آر پار کی ہوجانی چاہیے مگر ابھی تک جہاد کا حکم نازل نہیں ہوا تھا مخلصین مومنین جذبہ جہاد سے سرشار تھے اور اس بات کے خواہمشند تھے کہ جہاد کی اجازت ہوجائے، اور بےچینی کے ساتھ اللہ کے فرمان کا انتظار بھی کر رہے تھے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بار بار دریافت کرتے تھے کہ ہمیں ان ظالموں سے لڑنے کا حکم کیوں نہیں دیا جاتا اور اس بارے میں کوئی محکم غیر منسوخ سورت کیوں نازل نہیں کی جاتی ؟
مگر جو منافقین مسلمانوں کی جماعت میں شامل ہوگئے تھے ان کا حال مومنین مخلصین کے حال سے مختلف تھا وہ اپنے جان و مال کو خد اور اس کے دین سے عزیز سمجھتے تھے اسی لئے وہ کوئی خطرہ مول لینے کے لئے تیار نہیں تھے ان ہی میں بعض ضعیف الایمان بھی شامل ہوگئے تھے۔ اس موقع پر یہ آیات نازل ہوئیں۔
فاذا انزلت سورة محکمۃ یہ ان ہی منافقین کا ذکر ہے جن پر جہاد کا حکم نہایت گراں گذرتا تھا، اس جہاد کے حکم نے منافقوں کو سچے مسلمانوں سے چھانٹ کر بالکل الگ کردیا آیت جہاد نازل ہونے سے پہلے منافقین بھی جہاد میں بہادری دکھانے کے بڑی شد و مد سے دعوے کرتے تھے، مگر جب اسلام کے لئے جان کی بازی لگانے کا وقت آیا تو ان کے نفاق کا حال کھل گیا اور نمائشی ایمان کا لبادہ اتر گیا اب جب جہاد کا حکم نازل ہوگیا ہے تو ان منافقوں کی بدحالی کا یہ عالم ہے گویا کہ ان پر موت کی سی بیہوشی چھا گئی اور جس طرح مرتے وقت مرنے والے کی آنکھیں پتھرا کر ایک جگہ ٹھہر جاتی ہیں، یہ آپ کی طرف اسی طرح مبہوت اور متحیر ہو کر ٹکٹکی باندھ کر دیکھ رہے ہیں، ان کے لئے جہاد اور موت سے گھبرانے کے بجائے بہتر تھا کہ وہ سمع وطاعت کا مظاہرہ کرتے اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بابت گستاخانہ کلمے کہنے کے بجاء اچھی بات کہتے یہ مطلب اس صورت میں ہوگا جب اولی بمعنی اجدر (بہتر) لیا جائے، ابن کثیر نے اسی کو اختیار کیا ہے بعض حضرات نے اولی ویل سے کلمہ تہدید مراد لیا ہے، اس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ نفاق کی وجہ سے ان کی ہلاکت قریب ہے اولی لھم کے معنی اصمعی رحمتہ اللہ تعالیٰ کے قول کے مطابق یہ ہیں قاربہ مایھل کہ یعنی اس کی ہلاکت کے اسباب قریب آچکے (قرطبی) اور طاعۃ وقول معروف جملہ مستانفہ ہوگا اور اس کی خبر محذوف ہوگی اور وہ خیر لکم ہے۔
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿ وَيَقُولُ الَّذِينَ آمَنُوا ﴾ وہ لوگ جو ایمان لائے مشکل کاموں کے لئے جلدی مچاتے ہوئے کہتے ہیں : ﴿ لَوْلَا نُزِّلَتْ سُورَةٌ ﴾ ” کوئی سورت کیوں نازل نہیں ہوتی۔“ یعنی جس میں قتال کا حکم دیا گیا ہو ﴿ فَإِذَا أُنزِلَتْ سُورَةٌ مُّحْكَمَةٌ ﴾ ” پس جب کوئی محکم سورت نازل ہوتی ہے۔“ یعنی اس کے عمل کا لازم ٹھہرایا گیا ہو ﴿ وَذُكِرَ فِيهَا الْقِتَالُ ﴾ ” اور اس میں جہاد کا ذکر ہو۔“ جو کہ نفس پر سب سے زیادہ گراں ہوتا ہے۔ تو جن کا ایمان کمزور تھا وہ اس پر ثابت قدم نہ رہے، اس لئے فرمایا : ﴿ رَأَيْتَ الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ يَنظُرُونَ إِلَيْكَ نَظَرَ الْمَغْشِيِّ عَلَيْهِ مِنَ الْمَوْتِ ﴾ ” جن لوگوں کے دلوں میں مرض ہے، تم نے ان کو دیکھا کہ وہ تمہاری طرف اس طرح دیکھتے ہیں، جس طرح کسی پر موت کی بے ہوشی طاری ہو رہی ہے۔“ ان کے قتال کو ناپسند کرنے اور اس کی شدت کے باعث۔ یہ آیت کریمہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی مانند ہے : ﴿ أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ قِيلَ لَهُمْ كُفُّوا أَيْدِيَكُمْ وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ فَلَمَّا كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقِتَالُ إِذَا فَرِيقٌ مِّنْهُمْ يَخْشَوْنَ النَّاسَ كَخَشْيَةِ اللّٰـهِ أَوْ أَشَدَّ خَشْيَةً ﴾ (النساء : 4؍77)’’کیا آپ نے ان لوگوں کو دیکھا، جن سے کہا گیا، اپنے ہاتھوں کو روک لو، نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو، پس جب ان پر قتال فرض کیا گیا تو ان میں سے ایک گروہ کا یہ حال ہے کہ لوگوں سے اس طرح ڈر رہے ہیں جس طرح اللہ سے ڈرنا چاہیے یا اس سے بھی زیادہ۔“ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس چیز کی طرف بلایا جو ان کے حال کے زیادہ لائق ہے۔
﴿ فَأَوْلَىٰ لَهُمْ طَاعَةٌ وَقَوْلٌ مَّعْرُوفٌ ﴾ یعنی ان کے لئے بہتر ہے کہ وہ موجودہ حکم ہی کی تعمیل کریں جو ان پر واجب کیا گیا ہے، اسی پر اپنے ارادوں کو جمع رکھیں اور یہ مطالبہ نہ کریں کہ ان کے لئے ایسا حکم مشروع کیا جائے جس کی تعمیل ان پر شاق گزرے اور انہیں اللہ تعالیٰ کی عنایت کردہ عفو و عافیت پر خوش ہونا چاہیے۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur jo log emaan laye hain , woh kehtay hain kay : kiya acha ho kay koi ( naee ) surat nazil hojaye-? phir jab koi jachi tuli surat nazil hojaye , aur uss mein larraee ka ziker ho to jinn logon kay dilon mein rog hai , tum unhen dekho gay kay woh tumhari taraf iss tarah nazren uthaye huye hain jaisay kissi per moat ki ghashi taari ho . bari kharabi hai aesay logon ki .
12 Tafsir Ibn Kathir
ایمان کی دلیل حکم جہاد کی تعمیل ہے
اللہ تعالیٰ خبر دیتا ہے کہ مومن تو جہاد کے حکم کی تمنا کرتے ہیں پھر جب اللہ تعالیٰ جہاد کو فرض کردیتا ہے اور اس کا حکم نازل فرما دیتا ہے تو اس سے اکثر لوگ ہٹ جاتے ہیں، جیسے اور آیت میں ہے آیت ( اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ قِيْلَ لَھُمْ كُفُّوْٓا اَيْدِيَكُمْ وَاَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتُوا الزَّكٰوةَ 77) 4 ۔ النسآء :77) یعنی کیا تو نے انہیں نہیں دیکھا جن لوگوں سے کہا گیا کہ تم اپنے ہاتھوں کو روک لو اور نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ ادا کرتے رہو پھر جب ان پر جہاد فرض کیا گیا تو ان میں سے ایک فریق لوگوں سے اس طرح ڈرنے لگا جیسے اللہ کا ڈر ہو بلکہ اس سے بھی زیادہ۔ اور کہنے لگے اے ہمارے رب ہم پر تو نے جہاد کیوں فرض کردیا تو نے ہم کو قریب کی مدت تک ڈھیل کیوں نہ دی ؟ تو کہہ کہ دنیا کی متاع بہت ہی کم ہے اور پرہیزگاروں کے لئے آخرت بہت ہی بہتر ہے اور تم پر بالکل ذرا سا بھی ظلم نہ کیا جائے گا۔ پس یہاں بھی فرماتا ہے کہ ایمان والے تو جہاد کے حکموں کی آیتوں کے نازل ہونے کی تمنا کرتے ہیں لیکن منافق لوگ جب آن آیتوں کو سنتے ہیں تو بوجہ اپنی گبھراہٹ بوکھلاہٹ اور نامردی کے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اس طرح تجھے دیکھنے لگتے ہیں جیسے موت کی غشی والا۔ پھر انہیں مرد میدان بننے کی رغبت دلاتے ہوئے فرماتا ہے کہ ان کے حق میں بہتر تو یہ ہوتا کہ یہ سنتے مانتے اور جب موقعہ آجاتا معرکہ کارزار گرم ہوتا تو نیک نیتی کے ساتھ جہاد کر کے اپنے خلوص کا ثبوت دیتے پھر فرمایا قریب ہے کہ تم جہاد سے رک جاؤ اور اس سے بچنے لگو تو زمین میں فساد کرنے لگو اور صلہ رحمی توڑنے لگو یعنی زمانہ جاہلیت میں جو حالت تمہاری تھی وہی تم میں لوٹ آئے پس فرمایا ایسے لوگوں پر اللہ کی پھٹکار ہے اور یہ رب کی طرف سے بہرے اندھے ہیں۔ اس میں زمین میں فساد کرنے کی عموما اور قطع رحمی کی خصوصا ممانعت ہے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے زمین میں اصلاح اور صلہ رحمی کرنے کی ہدایت کی ہے اور ان کا حکم فرمایا ہے، صلہ رحمی کے معنی ہیں قرابت داروں سے بات چیت میں کام کاج میں، سلوک و احسان کرنا اور ان کی مالی مشکلات میں ان کے کام آنا۔ اس بارے میں بہت سی صحیح اور حسن حدیثیں مروی ہیں۔ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ جب اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کو پیدا کرچکا تو رحم کھڑا ہوا اور رحمن سے چمٹ گیا اس سے پوچھا گیا کیا بات ہے ؟ اس نے کہا یہ مقام ہے ٹوٹنے سے تیری پناہ میں آنے کا اس پر اللہ عزوجل نے فرمایا کیا تو اس سے راضی نہیں ؟ کہ تیرے ملانے والے کو میں ملاؤں اور تیرے کاٹنے والے کو میں کاٹ دوں ؟ اس نے کہا ہاں اس پر میں بہت خوش ہوں اس حدیث کو بیان فرما کر پھر راوی حدیث حضرت ابوہریرہ نے فرمایا اگر تم چاہو تو یہ آیت پڑھ لو ( فَهَلْ عَسَيْتُمْ اِنْ تَوَلَّيْتُمْ اَنْ تُفْسِدُوْا فِي الْاَرْضِ وَتُـقَطِّعُوْٓا اَرْحَامَكُمْ 22) 47 ۔ محمد :22) ، اور سند سے ہے کہ خود حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ ابو داؤد ترمذی ابن ماجہ وغیرہ میں ہے کوئی گناہ اتنا بڑا اور اتنا برا نہیں جس کی بہت جلدی سزا دنیا میں اور پھر اس کی برائی آخرت میں بہت بری پہنچتی ہو بہ نسبت سرکشی بغاوت اور قطع رحمی کے۔ مسند احمد میں ہے جو شخص چاہے کہ اس کی عمر بڑی ہو اور روزی کشادہ وہ وہ صلہ رحمی کرے۔ اور حدیث میں ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا میرے نزدیکی قرابت دار مجھ سے تعلق توڑتے رہتے ہیں اور میں انہیں معاف کرتا رہتا ہوں وہ مجھ پر ظلم کرتے ہیں اور میں ان کے ساتھ احسان کرتا ہوں اور وہ میرے ساتھ برائیاں کرتے رہتے ہیں تو کیا میں ان سے بدلہ نہ لوں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا نہیں اگر ایسا کرو گے تو تم سب کے سب چھوڑ دئیے جاؤ گے، تو صلہ رحمی پر ہی رہ اور یاد رکھ کہ جب تک تو اس پر باقی رہے گا اللہ کی طرف سے تیرے ساتھ ہر وقت معاونت کرنے والا رہے گا۔ بخاری وغیرہ میں ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا صلہ رحمی عرش کے ساتھ لٹکی ہوئی ہے حقیقتًا صلہ رحمی کرنے والا وہ نہیں جو کسی احسان کے بدلے احسان کرے بلکہ صحیح معنی میں رشتے ناطے ملانے والا وہ ہے کہ گو تو اسے کاٹتا جائے وہ تجھ سے جوڑتا جائے۔ مسند احمد میں ہے کہ صلہ رحمی قیامت کے دن رکھی جائے گی اس کی رانیں ہوں مثل ہرن کی رانوں کے وہ بہت صاف اور تیز زبان سے بولے گی پس وہ کاٹ دیا جائے گا جو اسے کاٹتا تھا اور وہ ملایا جائے گا جو اسے ملاتا تھا۔ مسند کی ایک اور حدیث میں ہے رحم کرنے والوں پر رحمن بھی رحم کرتا ہے۔ تم زمین والوں پر رحم کرو آسمانوں والا تم پر رحم کرے گا۔ رحم رحمان کی طرف سے ہے اس کے ملانے والے کو اللہ ملاتا ہے اور اس کے توڑنے والے کو اللہ تعالیٰ خود توڑ دیتا ہے۔ یہ حدیث ترمذی میں بھی ہے اور امام ترمذی اسے حسن صحیح کہتے ہیں۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف کی بیمار پرسی کے لئے لوگ گئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرمانے لگے تم نے صلہ رحمی کی ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں اللہ عزوجل نے فرمایا ہے میں رحمن ہوں اور رحم کا نام میں نے اپنے نام پر رکھا ہے اسے جوڑنے والے کو میں جوڑوں گا اور اس کے توڑنے والے کو میں توڑ دوں گا اور حدیث میں ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں روحیں ملی جلی ہیں جو روز ازل میں میل کرچکی ہیں وہ یہاں یگانگت برتتی ہیں اور جن میں وہاں نفرت رہی ہے یہاں بھی دوری رہتی ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں جب زبانی دعوے بڑھ جائیں عملی کام گھٹ جائیں، زبانی میل جول ہو، دلی بغض و عداوت ہو، رشتے دار رشتے دار سے بدسلوکی کرے اس وقت ایسے لوگوں پر لعنت اللہ نازل ہوتی ہے اور ان کے کان بہرے اور آنکھیں اندھی کردی جاتی ہیں۔ اس بارے میں اور بھی بہت سی حدیثیں ہیں۔ واللہ اعلم۔