Skip to main content

اَمْ حَسِبَ الَّذِيْنَ فِىْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ اَنْ لَّنْ يُّخْرِجَ اللّٰهُ اَضْغَانَهُمْ

Or do
أَمْ
یا
think
حَسِبَ
سمجھتے ہیں
those who
ٱلَّذِينَ
وہ لوگ
in
فِى
میں
their hearts
قُلُوبِهِم
جن کے دلوں میں
(is) a disease
مَّرَضٌ
کوئی بیماری ہے
that
أَن
کہ
never
لَّن
ہرگز نہیں
will Allah bring forth
يُخْرِجَ
نکالے گا
will Allah bring forth
ٱللَّهُ
اللہ
their hatred?
أَضْغَٰنَهُمْ
ان کے کینے۔ حسد۔ بغض

تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:

کیا وہ لوگ جن کے دلوں میں بیماری ہے یہ سمجھے بیٹھے ہیں کہ اللہ ان کے دلوں کے کھوٹ ظاہر نہیں کرے گا؟

English Sahih:

Or do those in whose hearts is disease think that Allah would never expose their [feelings of] hatred?

ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi

کیا وہ لوگ جن کے دلوں میں بیماری ہے یہ سمجھے بیٹھے ہیں کہ اللہ ان کے دلوں کے کھوٹ ظاہر نہیں کرے گا؟

احمد رضا خان Ahmed Raza Khan

کیا جن کے دلوں میں بیماری ہے اس گھمنڈ میں ہیں کہ اللہ ان کے چھپے بَیر ظاہر نہ فرمائے گا

احمد علی Ahmed Ali

کیا وہ لوگ کہ جن کے دلوں میں مرض (نفاق) ہے یہ سمجھے ہوئے ہیں کہ الله ان کی دبی دشمنی ظاہر نہ کرے گا

أحسن البيان Ahsanul Bayan

کیا ان لوگوں نے جن کے دلوں میں بیماری ہے یہ سمجھ رکھا ہے کہ اللہ ان کے حسد اور کینوں کو ظاہر ہی نہ کر دے (١)،

٢٩۔١ منافقین کے دلوں میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف بغض و عناد تھا، اس کے حوالے سے کہا جا رہا ہے کہ کیا یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالٰی اسے ظاہر کرنے پر قادر نہیں ہے؟

جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry

کیا وہ لوگ جن کے دلوں میں بیماری ہے یہ خیال کئے ہوئے ہیں کہ خدا ان کے کینوں کو ظاہر نہیں کرے گا؟

محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi

کیا ان لوگوں نے جن کے دلوں میں بیماری ہے یہ سمجھ رکھا ہے کہ اللہ ان کے کینوں کو ﻇاہر نہ کرے گا

محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi

کیا وہ لوگ جن کے دلوں میں بیماری ہے یہ خیال کرتے ہیں کہ اللہ کبھی ان کے (سینوں کے) کینوں کو ظاہر نہیں کرے گا۔

علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi

کیا جن لوگوں کے دلوں میں بیماری پائی جاتی ہے ان کا خیال یہ ہے کہ خدا ان کے دلوں کے کینوں کو باہر نہیں لائے گا

طاہر القادری Tahir ul Qadri

کیا وہ لوگ جن کے دلوں میں (نفاق کی) بیماری ہے یہ گمان کرتے ہیں کہ اﷲ ان کے کینوں اور عداوتوں کو ہرگز ظاہر نہ فرمائے گا،

تفسير ابن كثير Ibn Kathir

منافق کو اس کے چہرے کی زبان سے پہچانو
یعنی کیا منافقوں کا خیال ہے کہ ان کی مکاری اور عیاری کا اظہار اللہ مسلمانوں پر کرے گا ہی نہیں ؟ یہ بالکل غلط خیال ہے اللہ تعالیٰ ان کا مکر اس طرح واضح کر دے گا کہ ہر عقلمند انہیں پہچان لے اور ان کی بد باطنی سے بچ سکے۔ ان کے بہت سے احوال سورة براۃ میں بیان کئے گئے اور ان کے نفاق کی بہت سی خصلتوں کا ذکر وہاں کیا گیا۔ یہاں تک کہ اس سورت کا دوسرا نام ہی فاضحہ رکھ دیا گیا یعنی منافقوں کو فضیحت کرنے والی۔ (اضغان) جمے ہے (ضغن) کی ضغن کہتے ہیں دلی حسد و بغض کو۔ اس کے بعد اللہ عزوجل فرماتا ہے کہ اے نبی اگر ہم چاہیں تو ان کے وجود تمہیں دکھا دیں پس تم انہیں کھلم کھلا جان جاؤ۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ایسا نہیں کیا ان تمام منافقوں کو بتا نہیں دیا تاکہ اس کی مخلوق پر پردہ پڑا رہے ان کے عیوب پوشیدہ رہیں، اور باطنی حساب اسی ظاہر و باطن جاننے والے کے ہاتھ رہے لیکن ہاں تم ان کی بات چیت کے طرز اور کلام کے ڈھنگ سے ہی انہیں پہچان لو گے۔ امیر المومنین حضرت عثمان بن عفان فرماتے ہیں جو شخص کسی پوشیدگی کو چھپاتا ہے اللہ تعالیٰ اسے اس کے چہرے پر اور اس کی زبان پر ظاہر کردیتا ہے۔ حدیث شریف میں ہے جو شخص کسی راز کو پردہ میں رکھتا ہے اللہ تعالیٰ اسے اس پر عیاں کردیتا ہے وہ بہتر ہے تو اور بدتر ہے تو۔ ہم نے شرح صحیح بخاری کے شروع میں عملی اور اعتقادی نفاق کا بیان پوری طرح کردیا ہے جس کے دوہرانے کی یہاں ضرورت نہیں۔ حدیث میں منافقوں کی ایک جماعت کی (تعیین) آچکی ہے۔ مسند احمد میں ہے " رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے ایک خطبے میں اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا تم میں بعض لوگ منافق ہیں پس جس کا میں نام لوں وہ کھڑا ہوجائے۔ اے فلاں کھڑا ہوجا، یہاں تک کہ چھتیس اشخاص کے نام لئے۔ پھر فرمایا " تم میں " یا " تم میں سے " منافق ہیں، پس اللہ سے ڈرو۔ اس کے بعد ان لوگوں میں سے ایک کے سامنے حضرت عمر گذرے وہ اس وقت کپڑے میں اپنا منہ لپیٹے ہوا تھا۔ آپ اسے خوب جانتے تھے پوچھا کہ کیا ہے ؟ اس نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اوپر والی حدیث بیان کی تو آپ نے فرمایا اللہ تجھے غارت کرے۔ پھر فرمایا ہے ہم حکم احکام دے کر روک ٹوک کر کے تمہیں خود آزما کر معلوم کرلیں گے کہ تم میں سے مجاہد کون ہیں ؟ اور صبر کرنیوالے کون ہیں ؟ اور ہم تمہارے احوال آزمائیں گے۔ یہ تو ہر مسلمان جانتا ہے کہ ظاہر ہونے سے پہلے ہی اس علام الغیوب کو ہر چیز، ہر شخص اور اس کے اعمال معلوم ہیں تو یہاں مطلب یہ ہے کہ دنیا کے سامنے کھول دے اور اس حال کو دیکھ لے اور دکھا دے اسی لئے حضرت ابن عباس اس جیسے مواقع پر (لنعلم) کے معنی کرتے تھے (لنری) یعنی تاکہ ہم دیکھ لیں۔