الحجرات آية ۱
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَيْنَ يَدَىِ اللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ وَ اتَّقُوا اللّٰهَۗ اِنَّ اللّٰهَ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ
طاہر القادری:
اے ایمان والو! (کسی بھی معاملے میں) اﷲ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے آگے نہ بڑھا کرو اور اﷲ سے ڈرتے رہو (کہ کہیں رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بے ادبی نہ ہوجائے)، بیشک اﷲ (سب کچھ) سننے والا خوب جاننے والا ہے،
English Sahih:
O you who have believed, do not put [yourselves] before Allah and His Messenger but fear Allah. Indeed, Allah is Hearing and Knowing.
1 Abul A'ala Maududi
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ اور اس کے رسول کے آگے پیش قدمی نہ کرو اور اللہ سے ڈرو، اللہ سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے
2 Ahmed Raza Khan
اے ایمان والو اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو اور اللہ سے ڈرو بیشک اللہ سنتا جانتا ہے،
3 Ahmed Ali
اے ایمان والو الله اور اس کے رسول کے سامنے پہل نہ کرو الله سے ڈرتے رہو بے شک الله سب کچھ سننے والا جاننے والا ہے
4 Ahsanul Bayan
اے ایمان والے لوگو! اللہ اور اس کے رسول کے آگے نہ بڑھو (١) اور اللہ سے ڈرتے رہا کرو یقیناً اللہ تعالٰی سننے والا، جاننے والا ہے۔
١۔١ اس کا مطلب ہے کہ دین کے معاملے میں اپنے طور پر کوئی فیصلہ نہ کرو نہ اپنی سمجھ اور رائے کو ترجیح دو، بلکہ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرو۔ اپنی طرف سے دین میں اضافہ یا بد عات کی ایجاد، اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے آگے بڑھنے کی ناپاک جسارت ہے جو کسی بھی صاحب ایمان کے لائق نہیں۔ اسی طرح کوئی فتوٰی قرآن و حدیث میں غور و فکر کے بغیر نہ دیا جائے۔ مومن کی شان تو اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کے سامنے سر تسلیم خم کر دینا ہے نہ کہ ان کے مقابلے میں اپنی بات پر یا کسی امام کی رائے پر اڑے رہنا۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
مومنو! (کسی بات کے جواب میں) خدا اور اس کے رسول سے پہلے نہ بول اٹھا کرو اور خدا سے ڈرتے رہو۔ بےشک خدا سنتا جانتا ہے
6 Muhammad Junagarhi
اے ایمان والے لوگو! اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو اور اللہ سے ڈرتے رہا کرو۔ یقیناً اللہ تعالیٰ سننے واﻻ، جاننے واﻻ ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
اے ایمان والو! تم (کسی کام میں) خدا اور رسول(ص) سے آگے نہ بڑھو (سبقت نہ کرو) اور اللہ (کی نافرمانی) سے ڈرو۔ بےشک اللہ بڑا سننے والا، بڑا جاننے والا ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
ایمان والو خبردار خدا و ر رسول کے سامنے اپنی بات کو آگے نہ بڑھاؤ اور اللہ سے ڈرو بیشک اللہ ہر بات کا سننے والا اور جاننے والا ہے
9 Tafsir Jalalayn
مومنو ! (کسی بات کے جواب میں) خدا اور اسکے رسول سے پہلے نہ بول اٹھا کرو اور خدا سے ڈرتے رہو بیشک خدا سنتا جانتا ہے
ترجمہ :۔ شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے، اب اے وہ لوگو ! جو ایمان لائے ہو قدم بمعنی تقدم سے مشتق ہے یعنی قول و فعل میں اللہ اور اس کے رسول پر جو اس کا پیغامبر ہے پیش قدمی نہ کرو یعنی ان دونوں کی اجازت کے بغیر اور اللہ سے ڈرت رہو بلاشبہ اللہ تعالیٰ تمہاری باتوں کو سننے والا تمہارے کاموں کو جاننے والا ہے، یہ آیت آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حضور ابوبکر و عمر (رض) کے اقرع ابن حابس یا قعقاع بن معبد کو امیر بنانے میں نزاع کے بارے میں نازل ہوئی اور (آئندہ آیت) اس شخص کے بارے میں نازل ہوئی کہ جس نے اپنی آواز کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حضور بلند کیا، اے ایمان والو ! جب تم گفتگو کیا کرو تو نبی کی آواز پر اپنی آواز بلند نہ کیا کرو جب وہ کلام کیر اور نہ اس کے سامنے اونچی آواز میں باتیں کرو جب تم اس سے سرگوشی کرو جیسا کہ تم آپس میں اونچی آواز سے باتیں کرتے ہو بلکہ اس کی آواز سے پست ہی رکھو، آپ کی جلالت شان کا خیال کرتے ہوئے تمہارے اعمال اکارت ہوجائیں اور تم کو اس کا احساس بھی نہ ہو، مذکورہ بلند اور اونچی آواز کی وجہ سے تمہارے اعمال کے ضائع ہونے کے پیش نظر (آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بلند آواز سے کلام نہ کرو) اور (آئندہ آیت) اس شخص کے بارے میں نازل ہوئی جو اپنی آواز کو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حضور پست کرتا تھا، جیسا کہ ابوبکر و عمر (رض) وغیرہ، بیشک وہ لول جو رسول اللہ کے حضور میں اپنی آوازوں کو پشت رکھتے ہیں یہی ہیں وہ لوگ جن کے قلوب کو اللہ نے تقویٰ کے لئے آزما لیا ہے تاکہ ان کا تقویٰ ظاہر ہوجائے ان کے لئے مغفرت اور اجر عظیم ہے (یعنی) جنت اور نازل ہوئی ان لوگوں کے بارے میں جو دوپہر کے وقت آئے اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے مکان میں تھے، سو انہوں نے آپ کو پکارنا شروع کردیا بلاشبہ وہ لوگ جو آپ کو حجروں کے باہر سے پکارت یہیں یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں یہ نہیں جانتے تھے کہ آپ کس حجرے میں ہیں ؟ کرختگی اور شدت کے ساتھ دیہاتیوں کے مانند پکارنا تھا ان میں کے اکثر آپ کے مقام بلند اور آپ کی مناسب تعظیم سے ناواقف تھے اس سلسلہ میں جو انہوں نے کیا اور اگر یہ لوگ صبر کرتے تاآنکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خود ہی ان کی طرف نکلتے تو یہ ان کے لئے بہتر ہوتا انھم ابتداء کی وجہ سے محل رفع میں ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ فعل مقدر کا فاعل ہے یعنی ثبت کا اللہ اس شخص کے لئے غفور اور رحیم ہے جس نے ان میں سے توبہ کی اور (آئندہ آیت) ولید بن عقبہ کے بارے میں نازل ہوئی اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو بنی مصطلق کی جانب محضل بنا کر بھیجا تھا، چناچہ انہوں نے اس عداوت کی وجہ سے جو ان کے اور بنی مطلق کے درمیان زمانہ جاہلیت میں تھی ان سے اندیشہ کیا، جس کی وجہ سے وہ واپس چلے آئے اور (آکر) کہہ دیا کہ انہوں نے صدقہ دینے سے انکار کردیا اور انہوں نے میرے قتل کا ارادہ کیا، چناچہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے جنگ کرنے کا ارادہ فرما لیا، چناچہ اہل بنی مصطلق (آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں) حاضر ہوئے اور ان کی طرف منسوب کر کے جو بات عقبہ (رض) نے آپ سے کہی اس کا انکار کیا، اے ایمان والو ! اگر تمہیں کوئی فاسق خبر دیا کرے تو اس کے سچ اور جھوٹ کی اچھی طرح تحقیق کرلیا کرو اور ایک قرأت تثبتوا ہے ثبات سے، (یعنی توقف کرو، جلدی نہ کرو) ایسا نہ ہو کہ کہیں نادانی میں کسی قوم کو تکلیف پہنچا دو (ان تصیبوا) مفعول لہ ہے، یعنی اس اندیشہ کی وجہ سے بجھالۃ (تصیبوا) کے فاعل سے حال ہے اس حال میں کہ تم جاہل ہو پھر غلطی سے قوم کے ساتھ تم نے جو کچھ کر ڈالا اس پر شرمندہ ہوناپ ڑے ان حضرات کے اپنے شہروں کو واپس جانے کے بعد ان کے پاس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خالد (رض) کو روانہ فرمایا، تو انہوں نے ان سے سوائے اطاعت اور خیر کے کچھ نہ دیکھا تو خالد (رض) نے اس امر کی خبر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو روانہ فرمایا، تو انہوں نے ان سے سوائے اطاعت اور خیر کے کچھ نہ دیکھا تو خالد (رض) نے اس امر کی خبر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دی اور جان رکھو کہ تمہارے درمیان اللہ کے رسول موجود ہیں، لہٰذا کوئی غلط بات نہ کہو اللہ تعالیٰ اس کو حقیقت حال کی خبر دیدیے گا اگر وہ بہت سے معاملات میں جن کی تم خلاف واقعہ خبر دیتے ہو تمہاری بات مان لیا کرے پھر اس پر اس کا مقتضیٰ بھی مرتب ہوجائے تو تم گنہگار ہو گے نہ کہ وہ (آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مرتب کا سبب بنے کی وجہ سے (نہ کہ اس کے ارتکارب کی وجہ سے) لیکن اللہ نے تم کو ایمان کی محبت دی اور اسے تمہارے دلوں میں زینت بخشی (یعنی پسندیدہ بنادیا) کفر کو اور گناہ کو اور نافرمانی کو تمہاری نگاہوں میں ناپسندیدہ بنادیا (لکن سے) استدراک ہے معنی کی حیثیت سے نہ کہ لفظ کی حیثیت سے اس لئے کہ من حبب الیہ الایمان الخ کی صفت متغایر ہے، ان کی صفت سے جن کا ذکر ماقبل میں ہوا ہے، یہی لوگ اس میں خطاب سے غیبت کی طرف التفات ہے، راہ یافتہ ہیں یعنی اپنے دین پر ثابت قدم رہنے والے ہیں اللہ کے فضل و احسان سے (فضلا) مصدر منصوب ہے اپنے فعل مقدر افضل کی وجہ سے، اور اللہ ان کے حالات سے واقف ہے اور ان پر انعام فرمانے کے بارے میں باحکمت ہے اور اگر مومنین کی دو جماعتیں لڑ پڑیں تو ان کے درمیان صلح کرا دیا کرو، یہ آیت ایک واقعہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے، واقعہ یہ ہے کہ ایک روز آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حمار پر سوار ہوئے اور آپ کا گذر عبد اللہ بن ابی کے پاس سے ہوا تو حمار نے پیشاب کردیا جس کی وجہ سے عبداللہ بن ابی نے اپنی ناک دبائی، تو ابن رواحہ (رض) بولے، واللہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حمار کا پیشاب تیرم مشک سے زیادہ خوشبودار ہے سو ان دونوں کی قوموں کے درمیان ہا تھا پائی ہوگئی اور جوتے اور ڈنڈے چلنے لگے (طائفۃ) کی طرف نظر کرتے ہوئے، اقتتلوا کو جمع لائے ہیں، اس لئے کہ ہر طائفہ ایک جماعت ہوتی ہے اور اقتتلتا بھی پڑھا گیا ہے اور بینھما کو لفظ کی رعایت کرتے ہوئے، تثنیہ لایاگ یا ہے، پھر اگر ان دونوں میں سے ایک جماعت دوسری جماعت پر زیادتی کرے تو سب اس جماعت سے جو زیادتی کرتی ہے لڑو یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف لوٹ آئے پس اگر لوٹ آئے تو انصاف کے ساتھ صلح کرا دو اور عدل کرو بیشک اللہ تعالیٰ عدل کرنے والوں سے محبت کرتا ہے (یاد رکھو) سارے مسلمان دینی بھائی بھائی ہیں پس اپنے دو بھائیوں میں جب وہ جھگڑا کریں صلح کرا دیا کرو (اخویکم) کو تائے فوقانیہ کے ساتھ بھی پڑھا گیا ہے اور اصلاح کرنے میں اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم پر حم کیا جائے۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : لاتقدموا اس میں دو صورتیں ہیں اول یہ کہ یہ متعدی ہے، تعمیم کے قصد سے اس کے مفعول کو حذف کردیا گیا ہے یا نفس فعل کا قصد کرنے کی وجہ سے مفعول کو تکر کردیا گیا ہے، جیسا کہ عرب کہتے ہیں فلان یمنع و یعطی دوسری صورت یہ کہ یہ لازم ہے جیسے وجہ و توجہ وہ متوجہ ہوا اور اسی کی تائید ابن عباس (رض) اور ضحاک اور یعقوب کی قرأت تقدموا کرتی ہے اور واحدی نے کہا ہے کہ قدم یہاں تقدم کے معنی میں ہے یعنی تم آگے نہ بڑھو (فتح القدیر) مفسر علام نے قدم بمعنی تقدم کہہ کر اشارہ کردیا کہ قدم لازم کے معنی میں ہے لہٰذا اس کا مفعول محذوف ماننے کی ضرورت نہیں۔
قولہ : المبلغ عنہ یہ رسولہ کی صفت ہے اور اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھنے کا مطلب یہ ہے کہ ان کے حکم و اجازت کے بغیر نہ قول میں سبقت کرو اور نہ فعل میں بعض حضرات نے کہا ہے کہ تقدموا کا مفعول محذوف ہے ای لاتقدموا امراً
قولہ : اذا نا جبتموہ اس جملہ کے اضافہ کا مقصد ایک سوال مقدر کا جواب ہے۔
سوال : اول جملہ یعنی لاترفعوا اصواتکم اور دوسرا جملہ ولاتجھروا لہ بالقول دونوں کا مفہوم ایک ہی ہے جبکہ عطف مغایرت کا تقاضہ کرتا ہے تو پھر اس تکرار کا کیا مقصد ہے ؟
جواب :۔ دونوں جملوں کا مفہوم اور مصداق الگ الگ ہے، اول جملہ کا مفہوم یہ ہے کہ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے گفتگو ہو رہی ہو یعنی سوال و جواب ہو رہے ہوں تو اس طریقہ سے نہ بولو کہ تمہاری آواز آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آواز سے بلند ہوجائے اور دوسرے جملہ کا مطلب یہ کہ جب تم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کر رہے ہو اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خاموش سن رہے ہوں تو بھی زور زور سے نہ بولو جس طرح تم آپس میں بولتے ہو، لہٰذا تکرار کا شبہ ختم ہوگیا۔
قولہ : بل دون ذلک کا مطلب ہے کہ ہرحال میں اپنی آواز آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آواز سے پست رکھو، خواہ آپ سے گفتگو ہو رہی ہو یا تم بول رے ہو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خاموش سن رہے ہوں۔
قولہ : اجلالاً یہ لاترفعوا ولاتجھروا کی علت ہے، مطلب یہ ہے کہ ہرحال میں آپ کی جلالت شان کا خیال رہنا چاہیے۔
قولہ : خشیۃ ذلک اس عبارت کے اضافہ کا مقصد یہ بتانا ہے کہ ان تحبط حذف مضاف کے ساتھ مفعول لہ ہونے کی وجہ سے منصوب المحل ہے، تقدیر عبارت یہ ہے انتھوا عما نھیتم لخشیۃ حبوط اعمالکم
فائدہ : لاترفعوا اور لاتجھروا دونوں نے خشیۃ میں تنازع کیا ہے ہر ایک خشیۃ کو اپنا مفعول لہ بنانا چاہتا ہے، بصریین کے مذہب کے مطابق ثانی کو عمل دیا اور اول کے لئے مفعول لہ محذوف مان لیا (گویا کہ یہ باب تنازع فعلان سے ہے)
قولہ : اولئک الذین الخ اولئک مبتداء ہے الذین امتحن اللہ موصول صلہ سے مل کر جملہ ہو کر ان کی خبر ہے۔
قولہ : لتظھر منھم اس عبارت کے اضافہ کا مقصد ایک سوال مقدر کا جواب ہے۔
سوال : امتحان تقویٰ کا سبب نہیں ہوتا ہے حالانکہ امتحن اللہ قلوبھم اللتقویٰ میں متحان کو تقویٰ کا سبب بیان کیا گیا ہے۔
جواب : اختبار تقویٰ کا سبب نہیں ہے مگر ظہور تقویٰ کا سبب ضرور ہے یہ اطلاق السبب علی المسب کے قبیل سے ہے، اس لئے کہ امتحان دل کے اندر پوشیدہ تقویٰ کو ظاہر کردیتا ہے، اسی شبہ کو رفع کرنے کے لئے لتظھر منھم کا اضافہ کا یہ ہے۔
قولہ : ترۃ تاء کے کسرہ اور راء کی تخفیف کے ساتھ، بمعنی حسد، عداوت، شک
قولہ : فتبتوا یہ تثبت سے امر کا جمع مذکر حاضر ہے تم توقف کرو جلدی نہ کرو۔
قولہ : خشیۃ ذلک یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ان تصیبوا قوما، فتبینوا کا مفعول لہ ہے، ان تصیبوا سے پہلے مضاف محذوف ہے ای خشیۃ اصابۃ قوم
قولہ : عنتم عنت سے ماضی جمع مذکر جمع مذکر حاضر، تم گنہگار ہوگئے تم مشکل میں پڑے گء۔
قولہ : دونہ یعنی دروغ گوئی اور غلط بیانی کی وجہ سے جو کچھ نتیجہ برآمد ہوگا اس کے ذمہ دار غلط بیانی کرنے والے ہوں گے نہ کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس لئے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو تم لوگوں کی گواہی پر فیصلہ کرنے پر مجبور ہیں۔
قولہ : اثم التسب الی المرتب یعنی لوگ مرتب شدہ نتیجہ کا ذریعہ اور سبب بننے کی وجہ سے گنہگار ہو گے نہ کہ ارتکاب فعل کی وجہ سے۔
قولہ : استدراک من حیث المعنی دون اللفظ اس عبارت کے اضافہ کا مقصد ایک سوال کا جواب ہے۔
سوال : سوال یہ ہے کہ لکن استدراک کے لئے ہے، اور استدراک کے لئے ضروری ہے کہ مابعد ماقبل کا نفیاً و اثباتاً مخالف ہو اور یہاں ایسا نہیں ہے لہٰذا یہ استدراک صحیح نہیں ہے۔
جواب :۔ لکن مابعد ماقبل سے اگرچہ نفیاً و اثباتاً ، لفظاً متغائر نہیں ہے مگر معناء متغائر ہے، لہٰذا استدراک صحیح ہے اور معنوی اختلاف یہ ہے کہ من حبب الیہ الایمان کی صفت ان لوگوں سے مختلف ہے جن کا ذکر سابق میں گذر چکا ہے اس طریقہ سے مستدرک مستدرک منہ سے مختلف ہے، لہٰذا استدراک بھی درست ہے۔
قولہ :۔ مصدر منصوب بفعلہ المقدر یعنی فضلاً اپنے فعل کا مفعول مطلق ہونے کی وجہ سے منصوب ہے (مگر یہ صحیح نہیں ہے) اس میں تسامح ہے اس لئے کہ فضلاً اسم مصدر ہے مصدر اس کا افضالاً ہے، البتہ مفعول لہ درست ہے اور عامل اس میں حبب ہے عامل اور معمول کے درمیان اولئک ھم الراشدون جملہ معترضہ ہے۔
قولہ : اقتتلا جمع نظراً الی المعنی یہ ایک شواب کا جواب ہے۔
شبہ : اقتتلوا جمع کا صیغہ ہے حالانکہ اس کی ضمیر طائفتان تثنیہ کی طرف لوٹ رہی ہے، لہٰذا ضمیر و مرجع کے درمیان مطابقت نہیں ہے۔
دفع : طائفتان کے معنی کی طرف نظر کرتے ہوئے جمع کا صیغہ لایا گیا ہے، اس لئے کہ ہر طائفہ بہت سے افراد پر مشتمل ہوتا ہے، بینھما میں تثنیہ لایا گیا ہے، طائتان کے لفظ کی رعایت کرتے ہوئے۔
تفسیر و تشریح
یہ سورت طوال مفعل میں سیپ ہلی سورت ہے، سورة حجرات سے سورة نازعات تک کی سورتیں طوال مفعل کہلاتی ہیں بعض نے سورة ق کو پہلی مفصل سورت قرار دیا ہے (ابن کثیر، فتح القدیر) ان سورتوں کا فجر کی نماز میں پڑھنا مسنون و مستحب ہے اور عبس سے سورة والشمس تک اوساطت مفصل اور سورة ضحی سے والناس تک قصار مفصل ہیں، ظہر و عشاء میں اوساطت اور مغرب میں قصار پڑھنی مسنون و مستحب ہیں۔ (ایسر التفاسیر)
شان نزول :
یایھا الذین آمنوا لاتقدموا (الٓایۃ) ان آیات کے نزول روایات حدیث میں بقول قرطبی چھ واقعات منقول ہیں اور قاضی ابوبکر بن عربی نے فرمایا کہ سب واقعات صحیح ہیں، کیونکہ وہ سب واقعات ان آیات کے مفہوم میں داخل ہیں، ان میں سے ایک واقعہ یہ ہے جس کو امام بخاری نے روایت کیا ہے، واقعہ یہ ہے :
ایک مرتبہ قبیلہ بنو تمیم کے کچھ لوگ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے، یہ بات زیر غور تھی کہ اس قبیلہ کا حاکم (امیر) کس کو بنایا جائے، حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے قعقاع بن معبد کے بارے میں رائے دی اور حضرت عمر (رض) نے اقرع بنحابس (رض) کے بارے میں رائے دی، اس معاملہ میں حضرت ابوبکر و عمر (رض) کے مابین آپ کی مجلس میں کچھ تیز گفتگو ہوگئی اور بات بڑھ گئی جس کی وجہ سے دونوں کی آوازیں بلند ہوگئیں اس پر یہ آیات نازل ہوئیں۔
زمانہ نزول :
یہ بات روایات سے بھی معلوم ہوتی ہے اور سورت کے مضامین بھی اسی کی تائید کرتے ہیں کہ یہ سورت مختلف مواقع پر نازل شدہ احکام و ہدایات کا مجمعہ ہے، جنہیں مضون کی مناسبت سے ایک جگہ جمع کردیا گیا ہے، اس کے علاوہ روایات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ان میں سے اکثر احکام مدینہ طیبہ کے آخری دور میں نازل ہوئے ہیں مثلاً آیت ٤ کے متعلق مفسرین کا بیان ہے کہ یہ بنو تمیم کے وفد کے بارے میں نازل ہوئی تھی، جس وفد نے آ کر ازواج مطہرات کے حجروں کے باہر سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پکارنا شروع کردیا تھا اور تمام کتب سیرت میں اس وفد کی آمد کا زمانہ ٩ ھ بیان کیا گیا ہے، اسی طرح آیت ٦ کے متعلق حدیث کی اکثر روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ولید بن عقبر (رض) کے بارے میں نازل ہوئی تھی جنہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بنی مصطلق سے زکوۃ وصول کرنے کے لانے کے لئے بھیجا تھا اور یہ بات معلوم ہی ہے کہ ولید بن عقبہ فتح مکہ کے بعد مسلمان ہوئے تھے۔
لاتقدموا یعنی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے پیش قدمی اور سبقت نہ کرو، کس چیز میں پیشقدمی کو منع کیا گیا ہے ؟ اسکا ذکر قرآن میں نہیں ہے، اس میں عموم کی طرف اشارہ ہے، یعنی کسی بھی قول وفعل میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پیش قدمی نہ کرو بلکہ انتظار کرو کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا جواب دیتے ہیں ؟ البتہ اگر آپ ہی کسی کو جواب کے لئے مامور فرما دیں تو جواب دے سکتا ہے، اسی طرح چلنے میں بھی کوئی آپ سے سبقت نہ کرے، اگر مثلاً کھانے کی مجلس ہے تو آپ سے پہلے کھانا شروع نہ کرے مگر قرائن یا صراحت سے اجازت معلمو ہوجائے تو کوئی حرج نہیں ہے۔
علماء دین اور دینی مقتدائوں کے ساتھ بھی یہی ادب ملحوظ رکھنا چاہیے :
بعض مشائخ نے فرمایا ہے کہ علماء و مشائخ دین کا بھی یہی حکم ہے کیونکہ وہ وارث انبیاء ہیں اور دلیل اس کی یہ واقعہ ہے ایک روز حضرت ابولدرداء (رض) کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دیکھا کہ حضرت ابوبکر (رض) کے آگے چل رہے ہیں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تنبیہ فرمائی اور فرمایا کہ کیا تم ایسے شخص کے آگے چل رہے ہو جو دنیا و آخرت میں تم سے بہتر ہے اور فرمایا کہ دنیا میں آفتاب کا طلوع و غروب کسی ایسے شخص پر نہیں ہوا کہ جو انبیاء (علیہم السلام) کے بعد ابوبکر سے افضل ہو۔ (روح البیان معارف)
لاتقدموا بین یدی اللہ و رسولہ کا یہ مطلب بھی ہے کہ دین کے معاملہ میں اپنے طور پر کوئی فیصلہ نہ کرو بلکہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو، اپنی طرز سے دین میں اضافہ یا بدعات کی ایجاد اللہ اور اس کے رسول سے آگے بڑھنے کی بےجا جسارت ہے۔
لاترفعوا اصواتکم فوق صوت النبی اس آیت میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مجلس کا ادب بیان کیا گیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آواز سے زیادہ آواز بلند سے اس طرح گفتگو کرنا جیسے آپس میں ایک دوسرے سے بےمحابا کیا کرتے ہیں، ایک قسم کی بےادبی اور گستاخی ہے، چناچہ آیت کے نزول کے بعد صحابہ کرام کا یہ حال ہوگیا تھا کہ حضرت ابوبکر صدیق نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ قسم ہے کہ اب مرتے دم تک آپ سے اس طرح بولوں گا جیسے کوئی کسی سے سرگوشی کرتا ہو۔ (درمنشور، ازبیھقی)
10 Tafsir as-Saadi
یہ آیت کریمہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ادب، نیز آپ کی تعظیم، احترام اور اکرام و تکریم کو متضمن ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں کو ان امور کا حکم دیا ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول پر ایمان کے متقاضی ہیں، مثلاً اللہ تعالیٰ کے اوامر کی تعمیل اور اس کے نواہی سے اجتناب۔ نیزیہ کہ وہ اپنے تمام معاملات میں اللہ تعالیٰ کے اوامر کے مطابق چلیں اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کی اتباع کریں، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے آگے نہ بڑھیں، اس وقت تک کوئی بات نہ کریں جب تک کہ اللہ کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بات نہ کرے، وہ کسی کام کا حکم نہ دیں جب تک کہ اللہ کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حکم نہ دے۔ پس اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہی حقیقی ادب ہے جو فرض ہے۔ یہی ادب بندے کی سعادت اور فلاح کا عنوان ہے، چنانچہ اس کے حصول میں ناکامی، سعادت ابدی اور نعیم سرمدی کے حصول میں ناکامی ہے۔
اس آیت کریمہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قول پر کسی اور کے قول کو مقدم رکھنے کی ممانعت ہے کیونکہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت مبارکہ واضح ہو کر سامنے آجائے تو اس کی اتباع کرنا اور اس کو کسی اور قول اور رائے پر، خواہ وہ کوئی بھی ہو، مقدم رکھنا واجب ہے۔ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے تقویٰ کا عمومی حکم دیا ہے۔ اور تقویٰ کا معنی طلق بن حبیب کے قول کے مطابق، یہ ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کے ثواب کے عطا ہونے کی امید رکھتے ہوئے اس کے نور کی روشنی میں اس کی اطاعت کریں اور اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرتے ہوئے اس کے نور کی روشنی میں اس کی معصیت کو ترک کردیں۔
﴿ إِنَّ اللّٰـهَ سَمِيعٌ ﴾ بے شک اللہ تعالیٰ تمام اوقات اور تمام مخفی مقامات وجہات میں تمام آوازوں کو سنتا ہے ﴿ عَلِيمٌ ﴾ بے شک اللہ تعالیٰ تمام ظواہر اور بواطن، گزرے ہوئے اور آنے والے امور، تمام واجبات مستحیلات اور ممکنات کا علم رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول سے آگے بڑھنے کی ممانعت اور تقویٰ کا حکم دینے کے بعد، ان دو اسمائے کریمہ کا ذکر کرنے میں، ان مذکورہ اوامر حسنہ اور آداب مستحسنہ کی تعمیل کی ترغیب اور ان کی عدم تعمیل کی صورت میں ترہیب ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
aey emaan walo ! Allah aur uss kay Rasool kay aagay naa barha kero , aur Allah say dartay raho . Allah yaqeenan sabb kuch sunta , sabb kuch janta hai .
12 Tafsir Ibn Kathir
ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ امت مسلمہ کو اپنے نبی کے آداب سکھاتا ہے کہ تمہیں اپنے نبی کی توقیر و احترام عزت و عظمت کا خیال کرنا چاہیے تمام کاموں میں اللہ اور رسول کے پیچھے رہنا چاہیے، اتباع اور تابعداری کی خو ڈالنی چاہیے حضرت معاذ کو جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یمن کی طرف بھیجا تو دریافت فرمایا اپنے احکامات کے نفاذ کی بنیاد کسے بناؤ گے جواب دیا اللہ کی کتاب کو فرمایا اگر نہ پاؤ ؟ جواب دیا سنت کو فرمایا اگر نہ پاؤ ؟ جواب دیا اجتہاد کروں گا تو آپ نے ان کے سینے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا اللہ کا شکر ہے جس نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قاصد کو ایسی توفیق دی جس سے اللہ کا رسول خوش ہو (ابو داؤد و ترمذی ابن ماجہ) یہاں اس حدیث کے وارد کرنے سے ہمارا مقصد یہ ہے کہ حضرت معاذ نے اپنی رائے نظر اور اجتہاد کو کتاب و سنت سے مؤخر رکھا پس کتاب و سنت پر رائے کو مقدم کرنا اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے آگے بڑھنا ہے۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ کتاب و سنت کے خلاف نہ کہو۔ حضرت عوفی فرماتے ہیں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کلام کے سامنے بولنے سے منع کردیا گیا مجاہد فرماتے ہیں کہ جب تک کسی امر کی بابت اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کچھ نہ فرمائیں تم خاموش رہو حضرت ضحاک فرماتے ہیں امر دین احکام شرعی میں سوائے اللہ کے کلام اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حدیث کے تم کسی اور چیز سے فیصلہ نہ کرو، حضرت سفیان ثوری کا ارشاد ہے کسی قول و فعل میں اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر پہل نہ کرو امام حسن بصری فرماتے ہیں مراد یہ ہے کہ امام سے پہلے دعا نہ کرو۔ حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ لوگ کہتے ہیں اگر فلاں فلاں میں حکم اترے تو اس طرح رکھنا چاہیے اسے اللہ نے ناپسند فرمایا۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ حکم اللہ کی بجاآوری میں اللہ کا لحاظ رکھو اللہ تمہاری باتیں سن رہا ہے اور تمہارے ارادے جان رہا ہے پھر دوسرا ادب سکھاتا ہے کہ وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آواز پر اپنی آواز بلند کریں۔ یہ آیت حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کے بارے میں نازل ہوئی۔ صحیح بخاری شریف میں حضرت ابن ابی ملیکہ سے مروی ہے کہ قریب تھا کہ وہ بہترین ہستیاں ہلاک ہوجائیں یعنی حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق ان دونوں کی آوازیں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے بلند ہوگئیں جبکہ بنو تمیم کا وفد حاضر ہوا تھا ایک تو اقرع بن حابس کو کہتے تھے جو بنی مجاشع میں تھے اور دوسرے شخص کی بابت کہتے تھے۔ اس پر حضرت صدیق نے فرمایا کہ تم تو میرے خلاف ہی کیا کرتے ہو فاروق اعظم نے جواب دیا نہیں نہیں آپ یہ خیال بھی نہ فرمائیے اس پر یہ آیت نازل ہوئی حضرت ابن زبیر فرماتے ہیں اس کے بعد تو حضرت عمر اس طرح حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نرم کلامی کرتے تھے کہ آپ کو دوبارہ پوچھنا پڑتا تھا۔ اور روایت میں ہے کہ حضرت ابوبکر فرماتے تھے قعقاع بن معبد کو اس وفد کا امیر بنائیے اور حضرت عمر فرماتے تھے نہیں بلکہ حضرت اقرع بن حابس کو اس اختلاف میں آوازیں کچھ بلند ہوگئیں جس پر آیت ( يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُـقَدِّمُوْا بَيْنَ يَدَيِ اللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ وَاتَّقُوا اللّٰهَ ۭ اِنَّ اللّٰهَ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ ) 49 ۔ الحجرات :1) نازل ہوئی اور آیت ( وَلَوْ اَنَّهُمْ صَبَرُوْا حَتّٰى تَخْرُجَ اِلَيْهِمْ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُمْ ۭ وَاللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ ) 49 ۔ الحجرات :5) ، مسند بزار میں ہے آیت ( يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْٓا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْـهَرُوْا لَهٗ بالْقَوْلِ كَجَــهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَــطَ اَعْمَالُكُمْ وَاَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ ) 49 ۔ الحجرات :2) ، کے نازل ہونے کے بعد حضرت ابوبکر نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قسم اللہ کی اب تو میں آپ سے اس طرح باتیں کروں گا جس طرح کوئی سرگوشی کرتا ہے صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت ثابت بن قیس کئی دن تک حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مجلس میں نظر نہ آئے اس پر ایک شخص نے کہا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں اس کی بابت آپ کو بتاؤں گا چناچہ وہ حضرت ثابت کے مکان پر آئے دیکھا کہ وہ سر جھکائے ہوئے بیٹھے ہیں۔ پوچھا کیا حال ہے۔ جواب ملا برا حال ہے میں تو حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آواز پر اپنی آواز کو بلند کرتا تھا میرے اعمال برباد ہوگئے اور میں جہنمی بن گیا۔ یہ شخص رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے اور سارا واقعہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہہ سنایا پھر تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرمان سے ایک زبردست بشارت لے کر دوبارہ حضرت ثابت کے ہاں گئے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم جاؤ اور ان سے کہو کہ تو جہنمی نہیں بلکہ جنتی ہے مسند احمد میں بھی یہ واقعہ ہے اس میں یہ بھی ہے کہ خود حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا تھا کہ ثابت کہاں ہیں نظر نہیں آتے۔ اس کے آخر میں ہے حضرت انس فرماتے ہیں ہم انہیں زندہ چلتا پھرتا دیکھتے تھے اور جانتے تھے کہ وہ اہل جنت میں سے ہیں۔ یمامہ کی جنگ میں جب کہ مسلمان قدرے بددل ہوگئے تو ہم نے دیکھا کہ حضرت ثابت خوشبو ملے، کفن پہنے ہوئے دشمن کی طرف بڑھتے چلے جا رہے ہیں اور فرما رہے ہیں مسلمانو تم لوگ اپنے بعد والوں کے لئے برا نمونہ نہ چھوڑ جاؤ یہ کہہ کر دشمنوں میں گھس گئے اور بہادرانہ لڑتے رہے یہاں تک کہ شہید ہوگئے (رض) ۔ صحیح مسلم شریف میں ہے آپ نے جب انہیں نہیں دیکھا تو حضرت سعد سے جو ان کے پڑوسی تھے دریافت فرمایا کہ کیا ثابت بیمار ہیں ؟ لیکن اس حدیث کی اور سندوں میں حضرت سعد کا ذکر نہیں اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ روایت معطل ہے اور یہی بات صحیح بھی ہے اس لئے کہ حضرت سعد بن معاذ اس وقت زندہ ہی نہ تھے بلکہ آپ کا انتقال بنو قریظہ کی جنگ کے بعد تھوڑے ہی دنوں میں ہوگیا تھا اور بنو قریظہ کی جنگ سنہ\0\05ہجری میں ہوئی تھی اور یہ آیت وفد بنی تمیم کی آمد کے وقت اتری ہے اور وفود کا پے درپے آنے کا واقعہ سنہ\0\09ہجری کا ہے واللہ اعلم۔ ابن جریر میں ہے جب یہ آیت اتری تو حضرت ثابت بن قیس راستے میں بیٹھ گئے اور رونے لگے حضرت عاصم بن عدی جب وہاں سے گزرے اور انہیں روتے دیکھا تو سبب دریافت کیا جواب ملا کہ مجھے خوف ہے کہ کہیں یہ آیت میرے ہی بارے میں نازل نہ ہوئی ہو میری آواز بلند ہے حضرت عاصم یہ سن کر چلے گئے اور حضرت ثابت کی ہچکی بندھ گئی دھاڑیں مار مار کر رونے لگے اور اپنی بیوی صاحبہ حضرت جمیلہ بنت عبداللہ بن ابی سلول سے کہا میں اپنے گھوڑے کے طویلے میں جارہا ہوں تم اس کا دروازہ باہر سے بند کر کے لوہے کی کیل سے اسے جڑ دو ۔ اللہ کی قسم میں اس میں سے نہ نکلوں گا یہاں تک کہ یا مرجاؤں یا اللہ تعالیٰ اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مجھ سے رضامند کر دے۔ یہاں تو یہ ہوا وہاں جب حضرت عاصم نے دربار رسالت میں حضرت ثابت کی حالت بیان کی تو رسالت مآب نے حکم دیا کہ تم جاؤ اور ثابت کو میرے پاس بلا لاؤ۔ لیکن عاصم اس جگہ آئے تو دیکھا کہ حضرت ثابت وہاں نہیں مکان پر گئے تو معلوم ہوا کہ وہ تو گھوڑے کے طویلے میں ہیں یہاں آکر کہا ثابت چلو تم کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یاد فرما رہے ہیں۔ حضرت ثابت نے کہا بہت خوب کیل نکال ڈالو اور دروازہ کھول دو ، پھر باہر نکل کر سرکار میں حاضر ہوئے تو آپ نے رونے کی وجہ پوچھی جس کا سچا جواب حضرت ثابت سے سن کر آپ نے فرمایا کیا تم اس بات سے خوش نہیں ہو کہ تم قابل تعریف زندگی گزارو اور شہید ہو کر مرو اور جنت میں جاؤ۔ اس پر حضرت ثابت کا سارا رنج کافور ہوگیا اور باچھیں کھل گئیں اور فرمانے لگے یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں اللہ تعالیٰ کی اور آپ کی اس بشارت پر بہت خوش ہوں اور اب آئندہ کبھی بھی اپنی آواز آپ کی آواز سے اونچی نہ کروں گا۔ اس پر اس کے بعد کی آیت ( اِنَّ الَّذِيْنَ يَغُضُّوْنَ اَصْوَاتَهُمْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ امْتَحَنَ اللّٰهُ قُلُوْبَهُمْ للتَّقْوٰى ۭ لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّاَجْرٌ عَظِيْمٌ ) 49 ۔ الحجرات :3) الخ، نازل ہوئی، یہ قصہ اسی طرح کئی ایک تابعین سے بھی مروی ہے۔ الغرض اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے آواز بلند کرنے سے منع فرما دیا امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب نے دو شخصوں کی کچھ بلند آوازیں مسجد نبوی میں سن کر وہاں آکر ان سے فرمایا تمہیں معلوم ہے کہ تم کہاں ہو ؟ پھر ان سے پوچھا کہ تم کہاں کے رہنے والے ہو ؟ انہوں نے کہا طائف کے آپ نے فرمایا اگر تم مدینے کے ہوتے تو میں تمہیں پوری سزا دیتا۔ علماء کرام کا فرمان ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قبر شریف کے پاس بھی بلند آواز سے بولنا مکروہ ہے جیسے کہ آپ کی حیات میں آپ کے سامنے مکروہ تھا اس لئے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جس طرح اپنی زندگی میں قابل احترام و عزت تھے اب اور ہمیشہ تک آپ اپنی قبر شریف میں بھی باعزت اور قابل احترام ہی ہیں۔ پھر آپ کے سامنے آپ سے باتیں کرتے ہوئے جس طرح عام لوگوں سے باآواز بلند باتیں کرتے ہیں باتیں کرنی منع فرمائیں، بلکہ آپ سے تسکین و وقار، عزت و ادب، حرمت و عظمت سے باتیں کرنی چاہیں۔ جیسے اور جگہ ہے آیت ( لَا تَجْعَلُوْا دُعَاۗءَ الرَّسُوْلِ بَيْنَكُمْ كَدُعَاۗءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًا ۭ قَدْ يَعْلَمُ اللّٰهُ الَّذِيْنَ يَتَسَلَّـلُوْنَ مِنْكُمْ لِوَاذًا ۚ فَلْيَحْذَرِ الَّذِيْنَ يُخَالِفُوْنَ عَنْ اَمْرِهٖٓ اَنْ تُصِيْبَهُمْ فِتْنَةٌ اَوْ يُصِيْبَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ 63) 24 ۔ النور :63) اے مسلمانو ! رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس طرح نہ پکارو جس طرح تم آپس میں ایک دوسرے کو پکارتے ہو، پھر فرماتا ہے کہ ہم نے تمہیں اس بلند آواز سے اس لئے روکا ہے کہ ایسا نہ ہو کسی وقت حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ناراض ہوجائیں اور آپ کی ناراضگی کی وجہ سے اللہ ناراض ہوجائے اور تمہارے کل اعمال ضبط کرلے اور تمہیں اس کا پتہ بھی نہ چلے۔ چناچہ صحیح حدیث میں ہے کہ ایک شخص اللہ کی رضامندی کا کوئی کلمہ ایسا کہہ گزرتا ہے۔ کہ اس کے نزد یک تو اس کلمہ کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ لیکن اللہ کو وہ اتنا پسند آتا ہے۔ کہ اس کی وجہ سے وہ جنتی ہوجاتا ہے اسی طرح انسان اللہ کی ناراضگی کا کوئی ایسا کلمہ کہہ جاتا ہے کہ اس کے نزدیک تو اس کی کوئی وقعت نہیں ہوتی لیکن اللہ تعالیٰ اسے اس ایک کلمہ کی وجہ سے جہنم کے اس قدر نیچے کے طبقے میں پہنچا دیتا ہے کہ جو گڑھا آسمان و زمین سے زیادہ گہرا ہے پھر اللہ تبارک وتعالیٰ آپ کے سامنے آواز پست کرنے کی رغبت دیتا ہے اور فرماتا ہے کہ جو لوگ اللہ کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے اپنی آوازیں دھیمی کرتے ہیں انہیں اللہ رب العزت نے تقوے کے لئے خالص کرلیا ہے اہل تقویٰ اور محل تقویٰ یہی لوگ ہیں۔ یہ اللہ کی مغفرت کے مستحق اور اجر عظیم کے لائق ہیں امام احمد نے کتاب الزہد میں ایک روایت نقل کی ہے کہ حضرت عمر سے ایک تحریراً استفتاء لیا گیا کہ اے امیرالمومنین ایک وہ شخص جسے نافرمانی کی خواہش ہی نہ ہو اور نہ کوئی نافرمانی اس نے کی ہو وہ اور وہ شخص جسے خواہش معصیت ہے لیکن وہ برا کام نہیں کرتا تو ان میں سے افضل کون ہے ؟ آپ نے جواب میں لکھا کہ جنہیں معصیت کی خواہش ہوتی ہے پھر نافرمانیوں سے بچتے ہیں یہی لوگ ہیں جن کے دلوں کو اللہ تعالیٰ نے پرہیزگاری کے لئے آزما لیا ہے ان کے لئے مغفرت ہے اور بہت بڑا اجر وثواب ہے۔