اور اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں جنگ کریں تو اُن کے درمیان صلح کرا دیا کرو، پھر اگر ان میں سے ایک (گروہ) دوسرے پر زیادتی اور سرکشی کرے تو اس (گروہ) سے لڑو جو زیادتی کا مرتکب ہو رہا ہے یہاں تک کہ وہ اﷲ کے حکم کی طرف لوٹ آئے، پھر اگر وہ رجوع کر لے تو دونوں کے درمیان عدل کے ساتھ صلح کرا دو اور انصاف سے کام لو، بیشک اﷲ انصاف کرنے والوں کو بہت پسند فرماتا ہے،
English Sahih:
And if two factions among the believers should fight, then make settlement between the two. But if one of them oppresses the other, then fight against the one that oppresses until it returns to the ordinance of Allah. And if it returns, then make settlement between them in justice and act justly. Indeed, Allah loves those who act justly.
1 Abul A'ala Maududi
اور اگر اہل ایمان میں سے دو گروہ آپس میں لڑ جائیں تو ان کے درمیان صلح کراؤ پھر اگر ان میں سے ایک گروہ دوسرے گروہ سے زیادتی کرے تو زیادتی کرنے والے سے لڑو یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف پلٹ آئے پھر اگر وہ پلٹ آئے تو ان کے درمیان عدل کے ساتھ صلح کرا دو اور انصاف کرو کہ اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے
2 Ahmed Raza Khan
اور اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑیں تو ان میں صلح کراؤ پھر اگر ایک دوسرے پر زیادتی کرے تو اس زیادتی والے سے لڑو یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف پلٹ آئے، پھر اگر پلٹ آئے تو انصاف کے ساتھ ان میں اصلاح کردو اور عدل کرو، بیشک عدل والے اللہ کو پیارے ہیں،
3 Ahmed Ali
اور اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ان کے درمیان صلح کرا دو پس اگر ایک ان میں دوسرے پر ظلم کرے تو اس سے لڑو جو زیادتی کرتا ہے یہاں تک کہ وہ الله کے حکم کی طرف رجوع کرے پھر اگر وہ رجوع کرے تو ان دونوں میں انصاف سے صلح کرادو اورانصاف کرو بے شک الله انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے
4 Ahsanul Bayan
اور اگر مسلمانوں کی دو جماعتیں آپس میں لڑ پڑیں تو ان میں میل ملاپ کرا دیا کرو (١) پھر اگر ان دونوں میں سے ایک جماعت دوسری جماعت پر زیادتی کرے تو تم (سب) اس گروہ سے جو زیادتی کرتا ہے لڑو۔ یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف لوٹ آئے (۲) اگر لوٹ آئے تو پھر انصاف کے ساتھ صلح کرا دو (۳) اور عدل کرو بیشک اللہ تعالٰی انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ (٤)
٩۔١ اور اس صلح کا طریقہ یہ ہے کہ انہیں قرآن و حدیث کی طرف بلایا جائے یعنی ان کی روشنی میں ان کے اختلاف کا حل تلاش کیا جائے۔ ۹۔۲ یعنی اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کے مطابق اپنا اختلاف دور کرنے پر آمادہ نہ ہو بلکہ بغاوت کی روش اختیار کرے تو دوسرے مسلمانوں کی ذمے داری ہے کہ وہ سب مل کر بغاوت کرنے والے گروہ سے لڑائی کریں تاکہ وہ اللہ کے حکم کو ماننے کے لیے تیار ہو جائے ۔ ۹۔۳ یعنی باغی گروہ بغاوت سے باز آ جائے تو پھر عدل کے ساتھ یعنی قرآن وحدیث کی روشنی میں دونوں گروہوں کے درمیان صلح کرا دی جائے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور اگر مومنوں میں سے کوئی دو فریق آپس میں لڑ پڑیں تو ان میں صلح کرا دو۔ اور اگر ایک فریق دوسرے پر زیادتی کرے تو زیادتی کرنے والے سے لڑو یہاں تک کہ وہ خدا کے حکم کی طرف رجوع لائے۔ پس جب وہ رجوع لائے تو وہ دونوں فریق میں مساوات کے ساتھ صلح کرا دو اور انصاف سے کام لو۔ کہ خدا انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے
6 Muhammad Junagarhi
اور اگر مسلمانوں کی دو جماعتیں آپس میں لڑ پڑیں تو ان میں میل ملاپ کرا دیا کرو۔ پھر اگر ان دونوں میں سے ایک جماعت دوسری جماعت پر زیادتی کرے تو تم (سب) اس گروه سے جو زیادتی کرتا ہے لڑو۔ یہاں تک کہ وه اللہ کے حکم کی طرف لوٹ آئے، اگر لوٹ آئے تو پھر انصاف کے ساتھ صلح کرا دو اور عدل کرو بیشک اللہ تعالیٰ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
اور اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو تم ان کے درمیان صلح کراؤ پھر اگر ان میں سے ایک گروہ دوسرے پر تعدی و زیادتی کرے تو تم سب ظلم وزیادتی کرنے والے سے لڑو۔ یہاں تک کہ وہ حکمِ الٰہی کی طرف لوٹ آئے پس اگر وہ لوٹ آئے تو پھر تم ان دونوں کے درمیان عدل و انصاف کے ساتھ صلح کرا دو اور انصاف کرو۔ بےشک اللہ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور اگر مومنین کے دو گروہ آپس میں جھگڑا کریں تو تم سب ان کے درمیان صلح کراؤ اس کے بعد اگر ایک دوسرے پر ظلم کرے تو سب مل کر اس سے جنگ کرو جو زیادتی کرنے والا گروہ ہے یہاں تک کہ وہ بھی حکم خدا کی طرف واپس آجائے پھر اگر پلٹ آئے تو عدل کے ساتھ اصلاح کردو اور انصاف سے کام لو کہ خدا انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے
9 Tafsir Jalalayn
اور اگر مومنوں میں سے کوئی دو فریق آپس میں لڑ پڑیں تو ان میں صلح کرا دو اور اگر ایک فریق دوسرے پر زیادتی کرے تو زیادتی کرے تو زیادتی کرنے والے سے لڑو یہاں تک کہ وہ خدا کے حکم کی طرف رجوع لائے پس وہ رجوع لائے تو دونوں فریق میں مساوات کے ساتھ صلح کرا دو اور انصاف سے کام لو کہ خدا انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے شان نزول : وان طائفتان من المومنین (آلایۃ) کے سبب نزول میں مفسرین نے متعدد واقعات بیان فرمائے ہیں جن میں خود مسلمانوں کے دو گروہوں میں باہم تصادم ہوا اور کوئی بعید نہیں کہ یہ سب ہی واقعات کا مجموعہ سبب نزول ہوا ہو یا نزول کسی ایک واقعہ میں ہوا ہو اور دوسرے واقعات کو اس کے مطابق پا کر ان کو بھی سبب نزول میں شریک کردیا گیا، اس آیت کے اصل مخاطب تو وہ اولوالامر اور ملکوک ہیں جن کو قتال و جہاد کے وسائل حاصل ہوں۔ (روح المعانی، معارف) اور بالواسطہ تمام مسلمان مخاطب ہیں کہ اولوالامر کی اعانت کریں اور جہاں کوئی امام و امیر بادشاہ نہ ہو، وہاں حکم یہ ہے کہ جہاں تک ممکن ہو دونوں کو فرمائش کر کے ترک قتال پر آمادہ کیا جائے اور اگر دونوں نہ مانیں تو دونوں سے الگ رہے نہ کسی کی مخالفت کرے اور نہ موافقت ہے۔ (بیان القرآن) مسائل متعلقہ : مسلمانوں کے دو گروہوں کی باہمی لڑائی کی چند صورتیں ہیں : (١) اول یہ کہ دونوں جماعتیں امام السلمین کے تحت ولایت ہوں (٢) دوسرے دونوں جماعتیں امام السلمین کے تحت ولایت نہ ہوں (٣) تیسری صورت ایک جماعت امام المسلمین کے تحت ولایت ہو اور دوسری نہ ہو۔ پہلی صورت میں عام مسلمانوں پر لازم ہے کہ فرمائش کر کے ان کو باہمی جنگ سے روکیں، اگر فرمائش سے باز نہ آئیں تو امام المسلمین پر اصلاح کرنا واجب ہے، اگر حکومت اسلامیہ کی مداخلت سے دونوں فریق جنگ سے باز آگئے تو قصاص و دیت کے احکام جاری ہوں گے اور اگر باز نہ آئیں تو دونوں فریق کے ساتھ باغیوں کا سا معاملہ کیا جائے گا اور اگر ایک باز آگیا اور دوسرا ظلم وتعدی پر جما رہا تو دوسرا فریق باغی ہے اس کے ساتھ باغیوں کا سامعاملہ کیا جائے اور جس نے اطاعت قبول کرلی وہ فریق عادل کہلائے گا (اور باغیوں کے احکام کی تفصیل کتب فقہ میں دیکھی جاسکتی ہے) مشاجرات صحابہ اور مسلمانوں کے باہمی تصادم کی مزید تفصیل کے لئے بیان القرآن اور معارف القرآن کی طرف رجوع کریں اطناب کے خوف سے ترک کردیا گیا۔
10 Tafsir as-Saadi
یہ آیت کریمہ، اہل ایمان کو ایک دوسرے پر زیادتی کرنے اور ایک دوسرے سے لڑائی کرنے سے روکنے کو متضمن ہے، نیز یہ کہ جب اہل ایمان میں سے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو دیگر اہل ایمان پر واجب ہے کہ وہ ان دو گروہوں کے درمیان پڑ کر، جس کے ذریعے سے ان کے مابین صلح ہوجائے اور ان کے درمیان اصلاح کے ذریعے سے، اس بہت بڑے شرکی تلافی کریں اور وہ ذرائع اختیار کریں جو صلح پر منتج ہوتے ہوں۔ اگر وہ دونوں گروہ باہم صلح کرلیں تو بہت اچھی بات ہے ﴿ فَإِن بَغَتْ إِحْدَاهُمَا عَلَى الْأُخْرَىٰ فَقَاتِلُوا الَّتِي تَبْغِي حَتَّىٰ تَفِيءَ إِلَىٰ أَمْرِ اللّٰـهِ ﴾ ”اور اگر ایک فریق دوسرے پر زیادتی کرے تو زیادتی کرنے والے سے لڑو، حتیٰ کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف رجوع کرلے۔“ یعنی اس حد کی طرف لوٹ آئیں جو اللہ تعالیٰ نے مقرر کی ہے یعنی فعل خیر اور ترک شر اور سب سے بڑا شر آپس میں لڑنا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان : ﴿ فَإِن فَاءَتْ فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا بِالْعَدْلِ ﴾ ” پس جب وہ رجوع کرلے تو ان کے درمیان عدل کے ساتھ صلح کرا دو۔“ صلح اور صلح میں عدل و انصاف کا حکم ہے، کیونکہ کبھی کبھار صلح تو ہوتی ہے مگر عدل و انصاف پر نہیں بلکہ ظلم اور کسی ایک فریق پر زیادتی پر مبنی ہوتی ہے، اس لئے یہ وہ صلح نہیں جس کا حکم دیا گیا ہے لہٰذا لازم ہے کہ فریقین میں سے کسی کی کسی قرابت یا وطن یا دیگر اغراض و مقاصد کے حوالے سے رعایت نہ رکھی جائے جو عدل و انصاف سے انحراف کے موجب بنتے ہیں۔ ﴿ وَأَقْسِطُوا إِنَّ اللّٰـهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ ﴾ ” اور عدل کرو بے شک اللہ تعالیٰ عدل کرنے والوں کو پسند کرتا ہے“ جو لوگوں کے درمیان اپنے فیصلوں اور ان تمام ذمہ داریوں میں، جن پر ان کو متعین کیا جاتا ہے، انصاف سے کام لیتے ہیں حتیٰ کہ اس میں وہ عدل و انصاف بھی داخل ہے جو انسان اپنے اہل وعیال کے حقوق کی ادائیگی کے بارے میں کرتا ہے۔ ایک صحیح حدیث میں وارد ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :” انصاف کرنے والے اللہ کے ہاں نور کے منبروں پر فائز ہوں گے یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے فیصلوں میں، اپنے اہل و عیال میں اور منصبی ذمہ داریوں میں انصاف کرتے ہیں۔ “ [صحیح مسلم، الأمارۃ، باب فضیلة الأمیر العادل۔۔۔حدیث:1827]
11 Mufti Taqi Usmani
aur agar musalmanon kay do giroh aapas mein larr parren to unn kay darmiyan sulah kerao . phir agar unn mein say aik giroh doosray kay sath ziyadti keray to uss giroh say larro jo ziyadti ker raha ho , yahan tak kay woh Allah kay hukum ki taraf loat aaye . chunacheh agar woh loat aaye , to unn kay darmiyan insaf kay sath sulah kerado , aur ( her moamlay mein ) insaf say kaam liya kero , beyshak Allah insaf kernay walon say mohabbat kerta hai .
12 Tafsir Ibn Kathir
دو متحارب " مسلمان جماعتوں " میں صلح کرانا ہر مسلمان کا فرض ہے یہاں حکم ہو رہا ہے کہ اگر مسلمانوں کی کوئی دو جماعتیں لڑنے لگ جائیں تو دوسرے مسلمانوں کو چاہیے کہ ان میں صلح کرا دیں آپس میں لڑنے والی جماعتوں کو مومن کہنا اس سے حضرت امام بخاری نے استدلال کیا ہے کہ نافرمانی گو کتنی ہی بڑی وہ انسان کو ایمان سے الگ نہیں کرتی۔ خارجیوں کا اور ان کے موافق معتزلہ کا مذہب اس بارے میں خلاف حق ہے، اسی آیت کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جو صحیح بخاری وغیرہ میں مروی ہے کہ ایک مرتبہ رسول للہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) منبر پر خطبہ دے رہے تھے آپ کے ساتھ منبر پر حضرت حسن بن علی بھی تھے آپ کبھی ان کی طرف دیکھتے کبھی لوگوں کی طرف اور فرماتے کہ میرا یہ بچہ سید ہے اور اس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ مسلمانوں کی دو بڑی بڑی جماعتوں میں صلح کرا دے گا۔ آپ کی یہ پیش گوئی سچی نکلی اور اہل شام اور اہل عراق میں بڑی لمبی لڑائیوں اور بڑے ناپسندیدہ واقعات کے بعد آپ کی وجہ سے صلح ہوگئی۔ پھر ارشاد ہوتا ہے اگر ایک گروہ دوسرے گروہ پر زیادتی کرے تو زیادتی کرنے والے سے لڑائی کی جائے تاکہ وہ پھر ٹھکانے آجائے حق کو سنے اور مان لے صحیح حدیث میں ہے اپنے بھائی کی مدد کر ظالم ہو تو مظلوم ہو تو بھی۔ حضرت انس نے پوچھا کہ مظلوم ہونے کی حالت میں تو ظاہر ہے لیکن ظالم ہونے کی حالت میں کیسے مدد کروں ؟ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اسے ظلم سے باز رکھو یہی اس کی اس وقت یہ مدد ہے مسند احمد میں ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایک مرتبہ کہا گیا کیا اچھا ہو اگر آپ عبداللہ بن ابی کے ہاں چلئے چناچہ آپ اپنے گدھے پر سوار ہوئے اور صحابہ آپ کی ہمرکابی میں ساتھ ہو لیئے زمین شور تھی جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وہاں پہنچے تو یہ کہنے لگا مجھ سے الگ رہیے اللہ کی قسم آپ کے گدھے کی بدبو نے میرا دماغ پریشان کردیا۔ اس پر ایک انصاری نے کہا واللہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گدھے کی بو تیری خوشبو سے بہت ہی اچھی ہے اس پر ادھر سے ادھر کچھ لوگ بول پڑے اور معاملہ بڑھنے لگا بلکہ کچھ ہاتھا پائی اور جوتے چھڑیاں بھی کام میں لائی گئیں۔ ان کے بارے میں یہ آیت اتری ہے۔ حضرت سعید بن جبیر فرماتے ہیں اوس اور خزرج قبائل میں کچھ چشمک ہوگئی تھی ان میں صلح کرا دینے کا اس آیت میں حکم ہو رہا ہے۔ حضرت سدی فرماتے ہیں عمران نامی ایک انصاری تھے ان کی بیوی صاحبہ کا نام ام زید تھا اس نے اپنے میکے جانا چاہا خاوند نے روکا اور منع کردیا کہ میکے کا کوئی شخص یہاں بھی نہ آئے، عورت نے یہ خبر اپنے میکے کہلوا دی وہ لوگ آئے اور اسے بالا خانے سے اتار لائے اور لے جانا چاہا ان کے خاوند گھر پر تھے نہیں خاوند والوں نے اس کے چچا زاد بھائیوں کو اطلاع دے کر انہیں بلا لیا اب کھینچا تانی ہونے لگی اور ان کے بارے میں یہ آیت اتری۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دونوں طرف کے لوگوں کو بلا کر بیچ میں بیٹھ کر صلح کرا دی اور سب لوگ مل گئے پھر حکم ہوتا ہے دونوں فریقوں میں عدل کرو، اللہ عادلوں کو پسند فرماتا ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں دنیا میں جو عدل و انصاف کرتے رہے وہ موتیوں کے منبروں پر رحمن عزوجل کے سامنے ہوں گے اور یہ بدلہ ہوگا ان کے عدل و انصاف کا (نسائی) مسلم کی حدیث میں ہے یہ لوگ ان منبروں پر رحمن عزوجل کے دائیں جانب ہوں گے یہ اپنے فیصلوں میں اپنے اہل و عیال میں اور جو کچھ ان کے قبضہ میں ہے اس میں عدل سے کام لیا کرتے تھے۔ پھر فرمایا کل مومن دینی بھائی ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں مسلمان مسلمان کا بھائی ہے اسے اس پر ظلم و ستم نہ کرنا چاہیے۔ صحیح حدیث میں ہے اللہ تعالیٰ بندے کی مدد کرتا رہتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں لگا رہے اور صحیح حدیث میں ہے جب کوئی مسلمان اپنے غیر حاضر بھائی مسلمان کے لئے اس کی پس پشت دعا کرتا ہے تو فرشتہ کہتا ہے آمین۔ اور تجھے بھی اللہ ایسا ہی دے۔ اس بارے میں اور بھی بہت سی حدیثیں ہیں صحیح حدیث میں ہے مسلمان سارے کے سارے اپنی محبت رحم دلی اور میل جول میں مثل ایک جسم کے ہیں جب کسی عضو کو تکلیف ہو تو سارا جسم تڑپ اٹھتا ہے کبھی بخار چڑھ آتا ہے کبھی شب بیداری کی تکلیف ہوتی ہے۔ ایک اور حدیث میں ہے مومن مومن کے لئے مثل دیوار کے ہے جس کا ایک حصہ دوسرے حصے کو تقویت پہنچاتا اور مضبوط کرتا ہے پھر آپ نے اپنی ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈال کر بتایا مسند احمد میں ہے مومن کا تعلق اور اہل ایمان سے ایسا ہے جیسے سر کا تعلق جسم سے ہے، مومن اہل ایمان کے لئے وہی درد مندی کرتا ہے جو درد مندی جسم کو سر کے ساتھ ہے۔ پھر فرماتا ہے دونوں لڑنے والی جماعتوں اور دونوں طرف کے اسلامی بھائیوں میں صلح کرا دو اپنے تمام کاموں میں اللہ کا ڈر رکھو۔ یہی وہ اوصاف ہیں جن کی وجہ سے اللہ کی رحمت تم پر نازل ہوگی پرہیزگاروں کے ساتھ ہی رب کا رحم رہتا ہے۔