المائدہ آية ۵
اَلْيَوْمَ اُحِلَّ لَـكُمُ الطَّيِّبٰتُ ۗ وَطَعَامُ الَّذِيْنَ اُوْتُوْا الْكِتٰبَ حِلٌّ لَّـکُمْۖ وَطَعَامُكُمْ حِلٌّ لَّهُمْۖ وَالْمُحْصَنٰتُ مِنَ الْمُؤْمِنٰتِ وَالْمُحْصَنٰتُ مِنَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْـكِتٰبَ مِنْ قَبْلِكُمْ اِذَاۤ اٰتَيْتُمُوْهُنَّ اُجُوْرَهُنَّ مُحْصِنِيْنَ غَيْرَ مُسَافِحِيْنَ وَلَا مُتَّخِذِىْۤ اَخْدَانٍۗ وَمَنْ يَّكْفُرْ بِالْاِيْمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهٗۖ وَهُوَ فِى الْاٰخِرَةِ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ
طاہر القادری:
آج تمہارے لئے پاکیزہ چیزیں حلال کر دی گئیں، اور ان لوگوں کا ذبیحہ (بھی) جنہیں (اِلہامی) کتاب دی گئی تمہارے لئے حلال ہے اور تمہارا ذبیحہ ان کے لئے حلال ہے، اور (اسی طرح) پاک دامن مسلمان عورتیں اور ان لوگوں میں سے پاک دامن عورتیں جنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئی تھی (تمہارے لئے حلال ہیں) جب کہ تم انہیں ان کے مَہر ادا کر دو، (مگر شرط) یہ کہ تم (انہیں) قیدِ نکاح میں لانے والے (عفت شعار) بنو نہ کہ (محض ہوس رانی کی خاطر) اِعلانیہ بدکاری کرنے والے اور نہ خفیہ آشنائی کرنے والے، اور جو شخص (اَحکامِ الٰہی پر) ایمان (لانے) سے انکار کرے تو اس کا سارا عمل برباد ہوگیا اور وہ آخرت میں (بھی) نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگا،
English Sahih:
This day [all] good foods have been made lawful, and the food of those who were given the Scripture is lawful for you and your food is lawful for them. And [lawful in marriage are] chaste women from among the believers and chaste women from among those who were given the Scripture before you, when you have given them their due compensation, desiring chastity, not unlawful sexual intercourse or taking [secret] lovers. And whoever denies the faith – his work has become worthless, and he, in the Hereafter, will be among the losers.
1 Abul A'ala Maududi
آج تمہارے لیے ساری پاک چیزیں حلال کر دی گئی ہیں اہل کتاب کا کھانا تمہارے لیے حلال ہے اور تمہارا کھانا اُن کے لیے اور محفوظ عورتیں بھی تمہارے لیے حلال ہیں خواہ وہ اہل ایمان کے گروہ سے ہوں یا اُن قوموں میں سے جن کو تم سے پہلے کتاب دی گئی تھی، بشر طیکہ تم اُن کے مہر ادا کر کے نکاح میں اُن کے محافظ بنو، نہ یہ کہ آزاد شہوت رانی کرنے لگو یا چوری چھپے آشنائیاں کرو اور جو کسی نے ایمان کی روش پر چلنے سے انکار کیا تو اس کا سارا کارنامہ زندگی ضائع ہو جائے گا اور وہ آخرت میں دیوالیہ ہوگا
2 Ahmed Raza Khan
آج تمہارے لئے پاک چیزیں حلال ہوئیں، اور کتابیوں کا کھانا تمہارے لیے حلال ہوا، اور تمہارا کھانا ان کے لئے حلال ہے، اور پارسا عورتیں مسلمان اور پارسا عورتیں ان میں سے جن کو تم سے پہلے کتاب ملی جب تم انہیں ان کے مہر دو قید میں لاتے ہوئے نہ مستی نکالتے اور نہ ناآشنا بناتے اور جو مسلمان سے کافر ہو اس کا کیا دھرا سب اکارت گیا اور وہ آخرت میں زیاں کار ہے
3 Ahmed Ali
آج تمہارے واسطے سب پاکیزہ چیزیں حلا کی گئی ہیں اور اہلِ کتاب کا کھانا تمہیں حلال ہے اور تمہارا کھانا انہیں حلال ہے اور تمہارے لیے پاک دامن مسلمان عورتیں حلال ہیں اوران میں سے پاک دامن عورتیں جنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئی ہےجب ان کے مہر انہیں دے دو ایسے حال میں کہ نکاح میں لانے والے ہو نہ بدکاری کرنے والے اورنہ خفیہ آشنائی کرنے والے اورجوایمان سے منکر ہوا تو اس کی محنت ضائع ہوئی اور وہ آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو گا
4 Ahsanul Bayan
کل پاکیزہ چیزیں آج تمہارے لئے حلال کی گئیں اور اہل کتاب کا ذبیحہ تمہارے لئے حلال ہے (١) اور تمہارا ذبیحہ ان کے لئے حلال، اور پاکدامن مسلمان عورتیں اور جو لوگ تم سے پہلے کتاب دیئے گئے ان کی پاک دامن عورتیں بھی حلال ہیں (٢) جب کہ تم ان کے مہر ادا کرو، اس طرح کہ تم ان سے باقاعدہ نکاح کرو یہ نہیں کہ اعلانیہ زنا کرو یا پوشیدہ بدکاری کرو، منکرین ایمان کے اعمال ضائع اور اکارت ہیں اور آخرت میں وہ ہارنے والوں میں سے ہیں۔
٥۔١ اہل کتاب کا وہی ذبیحہ حلال ہوگا جس میں خون بہہ گیا ہو۔ یعنی ان کا مشینی ذبیحہ حلال نہیں ہی کیونکہ اس میں خون بہنے کی ایک بنیادی شرط مفقود ہے۔
٥۔٢ اہل کتاب کی عورتوں کے ساتھ نکاح کی اجازت کے ساتھ ایک تو پاکدامن کی قید ہے، جو آج کل اکثر عورتوں میں عام ہے۔ دوسرے اس کے بعد فرمایا گیا جو ایمان کے ساتھ کفر کرے، اس کے عمل برباد ہوگئے اس سے یہ تنبیہ مقصود ہے کہ اگر ایسی عورت سے نکاح کرنے میں ایمان کی ضیاع کا اندیشہ ہو تو بہت ہی خسارے کا سودا ہوگا اور آج کل اہل کتاب کی عورتوں سے نکاح میں ایمان کو شدید خطرات لاحق ہوتے ہیں محتاج وضاحت نہیں۔ درآنحالانکہ ایمان کو بچانا فرض ہے، ایک جائز کے لئے فرض کو خطرے میں نہیں ڈالا جا سکتا۔ اس لیے اس کا جواز بھی اس وقت تک ناقابل عمل رہے گا، جب تک دونوں مذکورہ چیزیں مفقود نہ ہو جائیں۔ علاوہ ازیں آج کل کے اہل کتاب ویسے بھی اپنے دین سے بالکل ہی بیگانہ بلکہ بیزار اور باغی ہیں۔ اس حالت میں کیا وہ واقعی اہل کتاب میں شمار بھی ہو سکتے ہیں؟ واللہ اعلم۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
آج تمہارے لیے سب پاکیزہ چیزیں حلال کر دی گئیں اور اہل کتاب کا کھانا بھی تم کو حلال ہے اور تمہارا کھانا ان کو حلال ہے اور پاک دامن مومن عورتیں اور پاک دامن اہل کتاب عورتیں بھی (حلال ہیں) جبکہ ان کا مہر دے دو۔ اور ان سے عفت قائم رکھنی مقصود ہو نہ کھلی بدکاری کرنی اور نہ چھپی دوستی کرنی اور جو شخص ایمان سے منکر ہوا اس کے عمل ضائع ہو گئے اور وہ آخرت میں نقصان پانے والوں میں ہوگا
6 Muhammad Junagarhi
کل پاکیزه چیزیں آج تمہارے لئے حلال کی گئیں اور اہل کتاب کا ذبیحہ تمہارے لئے حلال ہے اور تمہارا ذبیحہ ان کے لئے حلال ہے، اور پاک دامن مسلمان عورتیں اور جو لوگ تم سے پہلے کتاب دیئے گئے ہیں ان کی پاک دامن عورتیں بھی حلال ہیں جب کہ تم ان کے مہر ادا کرو، اس طرح کہ تم ان سے باقاعده نکاح کرو یہ نہیں کہ علانیہ زنا کرو یا پوشیده بدکاری کرو، منکرین ایمان کے اعمال ضائع اور اکارت ہیں اور آخرت میں وه ہارنے والوں میں سے ہیں
7 Muhammad Hussain Najafi
آج تمہارے لئے سب پاک و پاکیزہ چیزیں حلال کر دی گئی ہیں۔ اور اہل کتاب کا طعام (اناج) تمہارے لئے حلال ہے اور تمہارا طعام (اناج) ان کے لئے حلال ہے اور پاکدامن مسلمان عورتیں اور ان لوگوں (اہل کتاب) کی پاکدامن عورتیں جنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئی ہے۔ (وہ تمہارے لئے حلال ہیں) بشرطیکہ تم ان کی اجرتیں (حق مہر) دے دو۔ اور وہ بھی اپنی پاکدامنی کے تحفظ کی خاطر نہ کہ آزاد شہوت رانی کی خاطر اور نہ ہی چوری چھپے ناجائز تعلقات قائم کرنے کے لیے۔ اور جو ایمان کا انکار کرے (اور کفر اختیار کرے) تو اس کے سب عمل اکارت ہوگئے اور وہ آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں ہوگا۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
آج تمہارے لئے تمام پاکیزہ چیزیں حلال کردی گئی ہیں اور اہلِ کتاب کا طعام بھی تمہارے لئے حلال ہے اور تمہارا طعام ان کے لئے حلال ہے اور اہلِ ایمان کی آزاد اور پاک دامن عورتیں یا ان کی آزاد عورتیں جن کو تم سے پہلے کتاب دی گئی ہے تمہارے لئے حلال ہے بشرطیکہ تم ان کی اجرت دے دو پاکیزگی کے ساتھ -نہ کھّلم کھلاّ زنا کی اجرت کے طور پر اور نہ پوشیدہ طور پر دوستی کے انداز سے اور جو بھی ایمان سے انکار کرے گا اس کے اعمال یقینا برباد ہوجائیں گے اور وہ آخرت میں گھاٹا اُٹھانے والوں میں ہوگا
9 Tafsir Jalalayn
آج تمہارے لئے سب پاکیزہ چیزیں حلال کردی گئیں۔ اور اہل کتاب کا کھانا بھی تم کو حلال ہے اور تمہارا کھانا انکو حلال ہے اور پاک دامن مومن عورتیں اور پاک دامن اہل کتاب عورتیں بھی (حلال ہیں) جب کہ ان کا مہر دیدو اور ان کے عفت قائم رکھنی مقصود ہو کھلی بدکاری کرنی اور نہ چھپی دوستی کرنی۔ اور جو شخص ایمان سے منکر ہوا اس کے عمل ضائع ہوگئے اور وہ آخرت میں نقصان پانے والوں میں ہوگا۔
ایک اصولی ضابطہ : سابق آیات میں حلال و حرام کی جزئیات کو بیان کرنے کے بعد اب الیوم اُحِلّ لکم الطیبٰت الخ میں ایک اصولی ضابطہ بیان کیا جا رہا ہے جس سے حرام چیزوں کو حلال چیزوں سے بآسانی ممتاز کیا جاسکتا ہے، اس لئے کہ حلال اور حرام اشیاء کی ایک لمبی فہرست ہے جن کا شمار کرنا آسان نہیں ہے، سابقہ آیت میں غور کرنے سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ اشیاء میں اصل حلت ہے حرمت عارض ہے جب تک کسی شئ کی حرمت کی صراحت یا مصرح کی علت نہ پائی جائے حرام نہ ہوگی، بخلاف زمانہ جاہلیت کے کہ ان کے یہاں اس کا عکس تھا کہ ہر شئ میں حرمت اصل ہے الایہ کہ اس کی حلت صراحت سے معلوم ہوجائے۔
الیوم اُحِلّ لکم الطیّبٰت، میں یہ ضابطہ بیان کیا گیا ہے کہ تمہارے لئے صاف ستھری اور پاکیزہ چیزیں حلال کردی گئی ہیں مطلب یہ ہے کہ پاکیزہ چیزیں جس طرح تمہارے لئے پہلے سے حلال تھیں آئندہ بھی حلال رہیں گی اب ان میں تبدیل و تنسیخ کا احتمال ختم ہوگیا اس لئے کہ نسخ و تغیر وحی کے ذریعہ ہی ہوسکتا ہے اور اب وحی کا سلسلہ موقوف ہونے جا رہا ہے لہٰذا اب ردوبدل کی بھی کوئی گنجائش باقی نہیں۔ ایک دوسری آیت ویحرم علیہم الخبائث میں گندی چیزوں کو حرام کرنے کا بیان ہے یعنی تمہارے لئے گندی اور قابل نفرت چیزوں کو حرام کیا جاتا ہے، لغت میں طیبات ستھری اور مرغوب چیزوں کو کہا جاتا ہے اور خبائث اس کے بالمقابل گندی اور قابل نفرت چیزوں کے لئے بولا جاتا ہے، آیت کے اس جملہ نے یہ بتادیا کہ جتنی چیزیں صاف ستھری مفید اور پاکیزہ ہیں وہ انسان کیلئے حلال کی گئیں اور جو گندی قابل نفرت اور مضر چیز ہیں وہ حرام کی گئی ہیں، وجہ یہ ہے کہ انسان دوسرے جانوروں کی طرح نہیں ہے کہ اس کا مقصد زندگی دنیا میں کھانے، پینے، سونے جاگنے اور جینے مرنے تک محدود ہو، اس کو قدرت نے مخدوم کائنات کسی خاص مقصد سے بنایا ہے اور وہ مقصد پاکیزہ اخلاق کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتا اسی لئے بداخلاق انسان در حقیقت انسان کہلانے کے قابل نہیں، اسی لئے قرآن کریم نے ایسے انسانوں کیلئے ” بل ھم اضلّ “ فرمایا یعنی ایسے لوگ چوپایوں سے بھی زیادہ گمراہ ہیں، جب انسان کی انسانیت کا مدار اصلاح اخلاق پر ہے تو ضروری ہے کہ جتنی چیزیں انسانی اخلاق کو گندہ اور خراب کرنے والی ہیں ان سے اس کا مکمل پرہیز کرایا جائے، اسی لئے کھانے پینے کی ساری چیزوں میں احتیاط کو لازمی قرار دیا گیا، چوری، ڈاکہ، رشوت، سود، قمار وغیرہ کی حرام آمدنی جس کے بدن کا جزء بنے گی وہ لازمی طور پر اس کو انسانیت سے دور اور شیطنت سے قریب کر دے گی۔ اسی لئے قرآن کریم نے ارشاد فرمایا ” یٰآیّھا الرسل کلوا مِنَ الطیبٰت واعملوا صالحًا “ کیونکہ اکل حلال کے بغیر عمل صالح متصور نہیں۔
طیبٰت اور خبائث کا معیار : اب رہی یہ بات کہ کونسی چیزیں طیب یعنی صاف ستھری مفید اور مرغوب ہیں اور کونسی خبائث یعنی گندی، مضر اور قابل نفرت ہیں، اس کا اصل فیصلہ طبائع سلیمہ کی رغبت و نفرت پر ہے، یہی وجہ ہے کہ جن جانوروں کو اسلام نے حرام قرار دیا ہے ہر زمانہ کے سلیم الطبع انسان ان کو گندہ اور قابل نفرت سمجھتے رہے ہیں جیسے مردار جانور، خون البتہ بعض چیزوں کا خبث مخفی ہوتا ہے، ایسی چیزوں میں انبیاء (علیہم السلام) کا فیصلہ سب کیلئے حجت ہوتا ہے، اس لئے کہ افراد انسانی میں سب سے زیادہ سلیم الطبع انبیاء (علیہ السلام) ہی ہوتے ہیں، اسلئے کہ وہ اللہ رب العزت کے خصوصی تربیت یافتہ ہوتے ہیں اور فرشتے ان کی نگرانی پر مامور ہوتے ہیں۔ حضرت نوح (علیہ السلام) سے لیکر خاتم الانبیاء (علیہ السلام) کے عہد مبارک تک ہر پیغمبر نے مردار جانور اور خنزیر وغیرہ کی حرمت کا اپنے اپنے زمانہ میں اعلان فرمایا ہے۔
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) تعالیٰ نے حجۃ اللہ البالغہ میں بیان فرمایا ہے کہ جتنے جانور شریعت اسلام نے حرام قرار دئیے ہیں اگر ان میں غور کیا جائے تو وہ سمٹ کردو اصولوں کے تحت آجاتے ہیں، ایک یہ کہ کوئی جانور اپنی فطرت اور طبیعت کے اعتبار سے خبیث ہو، دوسرے یہ کہ اس کے ذبح کرنے کا طریقہ غلط ہو جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ ذبیحہ مردار قرار پائیگا۔ سورة مائدہ کی تیسری آیت میں جن نو چیزوں کی حرمت کا ذکر ہے ان میں خنزیر قسم اول میں داخل ہے باقی آٹھ قسم دوم میں، قرآن کریم نے ” ویحرم علیہم الخبائث “ میں اجمالی طور پر خبیث جانوروں کے حرام ہونے کا ذکر فرمایا، اور چند چیزوں کی حرمت کی صراحت کے بعد باقی چیزوں کی حرمت کا بیان رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سپرد فرما دیا۔
اہل کتاب کے ذبیحہ کی حلت اور مناکحت کی اجازت میں مناسبت اور حکمت : وَالْمحصنتِ مِن المؤمنات والمحصنتِ من الذین
اُوْتوا الکتابَ من قبلکم اِذَا آتیتموھن اجورھُنّ ، ابھی کھانے پینے کی چیزوں کی حلت کا ذکر تھا، اس کے معاً بعد کتابیہ سے نکاح کی حلت کا ذکر ہے مناسبت ظاہر ہے کہ جس طرح مواکلت طبعی ضرورت ہے مناکحت بھی انسان کی طبعی خواہش ہے لہٰذا دونوں کو یکجا ذکر کرنا عین باہمی مناسبت کا تقاضہ ہے۔
سوال : اہل کتاب کے ذبیحہ کا مسلمانوں کیلئے حلال ہونے کا بیان سمجھ میں آتا ہے اسلئے کہ مسلمان قرآنی احکام کے مکلف ہیں مگر یہ کہنا کہ مسلمانوں کا ذبیحہ اہل کتاب کے لئے حلال ہے یہ بات سمجھ میں نہیں آتی اسلئے کہ اہل کتاب تو قرآنی احکام کے مکلف ہی نہیں۔
جواب : ایک جواب تو یہ ہے کہ دراصل یہ حکم بھی مسلمانوں ہی کو ہے اس لئے کہ اگر مسلمانوں کا کھانا (ذبیحہ) اہل کتاب کیلئے حرام ہوتا تو کسی مسلمان کے لئے یہ جائز نہ ہوتا کہ کسی اہل کتاب کو اپنا ذبیحہ کھلائے اور اگر کھلاتا تو گنہگار ہوتا مسلمانوں کے ذبیحہ کو اہل کتاب کیلئے حلال کرکے بتادیا کہ اگر مسلمان اہل کتاب کو اپنا ذبیحہ کھلا دے تو گنہگار نہ ہوگا، لہٰذا مسلمان اپنی قربانی کا گوشت کتابی کو دے سکتے ہیں، اگر مذکورہ حکم نہ ہوتا تو کتابی کو اہل اسلام کے ذبیحہ کا گوشت دینا جائز نہ ہوتا۔
دوسرا جواب : جب نص قرآنی کی رو سے مسلمان کیلئے کتابیہ سے نکاح جائز ہے تو یہ ضروری تھا کہ ذبیحہ کی حلت طرفین سے ہو ورنہ تو ازدواجی زندگی میں نہایت دشواری پیش آتی اسلئے کہ مسلمان کو ذبیحہ اہل کتاب کیلئے حلال نہ ہونے کی صورت میں معاشرتی دشواریاں ازدواجی زندگی میں پیچیدگیاں پیدا ہوتیں یا تو اہل کتاب کے ذبیحہ پر اکتفاء کرنا پڑتا جو دونوں کیلئے حلال تھا یا پھر دونوں کیلئے دو ہانڈیاں الگ الگ پکانی ہوتیں جو کہ ایک امر دشوار ہے۔
سوال : قرآنی نص سے معلوم ہوتا ہے کہ کتابیہ عورت مسلمان کیلئے حلال ہے مگر مومنہ کتابی کیلئے حلال نہیں ہے اس کی کیا وجہ ہے
جواب : اس میں حکمت یہ ہے کہ مسلمان چونکہ تمام انبیاء سابقین پر اجمالی ایمان رکھتے ہیں اور ان کا احترام سے نام لیتے اور ان کے نام کیلئے (علیہ السلام) کو لازمی جز سمجھتے ہیں لہٰذا اگر کوئی کتابیہ مسلمان کے نکاح میں ہوگی تو وہ روزمرہ کی زندگی میں اپنے نبی کا نام اداب و احترام سے سنے گی جس سے موافقت وانسیت میں اضافہ ہوگا اور ازدواجی زندگی کی ہم آہنگی کو تقویت حاصل ہوگی اس کے برخلاف اہل کتاب چونکہ نبی آخر الزمان محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کے قائل نہیں ہیں لہٰذا وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اسم گرامی احترام نبوت کے ساتھ نہ لیں گے بلکہ ہوسکتا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شان میں بعض اوقات ہتک آمیز کلمات استعمال کریں جن کو سنکر ایک مسلمان عورت جو کسی کتابی کے نکاح میں ہو کبیدہ خاطر ہو، اس کا لازمی اور غیر مختلف نتیجہ یہ ہوگا کہ موافقت کے بجائے ناموافقت اور انس و محبت کے بجائے نفرت و عداوت پیدا ہوجائے جس کے نتیجے میں زندگی کا گلستان محبت وادی پر خار بن جائے۔
کتابیات سے نکاح کے بارے میں ائمہ کا اختلاف : مسلمات اور کتابیات کے درمیان اصلاً قدر مشترک سلسلہ وحی ونبوت پر ایمان ہے، یہود و یصاری کے اعمال فاسقانہ ہوں یا عقائد غالیانہ بہرحال اصلاً یہ لوگ توحید کے قائل اور سلسلہ وحی ونبوت کے ماننے والے ہیں، اور عقائد کے باب میں یہی دو عنوان اہم ترین ہیں البتہ یہ خیال رہے کہ نصرانیت موجودہ یوروپی قوموں کی مسیحیت کے مرادف نہیں ہے۔ کتابیہ سے نکاح بالکل جائز ہے نفس جواز نکاح میں کوئی گفتگو نہیں ہے اور نص کی موجودگی میں گفتگو کی گنجائش بھی نہیں ہوسکتی، البتہ فقہاء نے مفاسد پر نظر کرتے ہوئے اور مصلحت شرعی کا لحاظ رکھتے ہوئے فتویٰ یہ دیا ہے کہ بلا ضرورت شدیدہ ایسے نکاحوں سے بچنا چاہیے۔
یَجُوزُ تزوج الکتابیات والاولیٰ ان لا یفعل، (فتح القدیر) وصح نکاح الکتابیۃ واِنْ کرِہ تنزیھًا، (درمختار) البتہ کتابیہ حربیہ کے نکاح کی کراہت میں شبہ نہیں، تکرہ الکتابیۃ الحربیۃ اجماعاً لافتتاح باب الفتنۃ (فتح القدیر) حنفیہ کے اس قول کا ماخذ حضرت علی (رض) کا ایک اثر ہے جس میں آپ نے کتابیہ مقیم دار الحرب سے نکاح پر کراہت ظاہر فرمائی ہے۔ (مسبوط)
علامہ شامی نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ غیر حربیہ سے نکاح مکروہ تنزیہی ہے اور حربیہ سے مکروہ تحریمی۔ (ردالمحتار)
جمہور کا مسلک : جمہور صحابہ وتابعین کے نزدیک اگرچہ ازروئے نص قرآن اہل کتاب کی عورتوں سے فی نفسہٖ نکاح حلال ہے، لیکن ان سے نکاح کرنے پر جو دوسرے مفاسد اپنے لئے اور اپنی اولاد کیلئے بلکہ پوری امت مسلمہ کیلئے ازروئے تجربہ لازمی طور سے پیدا ہوں گے ان کی بناء پر اہل کتاب کی عورتوں سے نکاح کو وہ بھی مکروہ سمجھتے تھے۔ جصاص نے احکام القرآن میں شفیق بن سلمہ کی روایت سے نقل کیا ہے کہ حضرت حذیفہ بن یمان (رض) جب مدائن پہنچے تو وہاں ایک یہودی عورت سے نکاح کرلیا، حضرت فاروق اعظم کو جب اس کی اطلاع ملی تو ان کو خط لکھا کہ اس کو طلاق دیدو، حضرت حذیفہ (رض) نے جواب میں لکھا کہ کیا وہ میرے لئے حرام ہے، تو اس کے جواب میں امیر المؤمنین فاروق اعظم نے لکھا، میں حرام نہیں کہتا لیکن ان لوگوں کی عورتیں عام طور پر عفیف اور پاکدامن نہیں ہوتیں اس لئے مجھے خطرہ ہے کہ کہیں آپ لوگوں کے گھرانوں میں اس راہ سے فحش و بدکاری داخل نہ ہوجائے، اور امام محمد بن حسن (رح) تعالیٰ نے کتاب الآثار میں اس واقعہ کو روایت امام ابوحنیفہ سے اس طرح نقل کیا ہے کہ دوسری مرتبہ فاروق اعظم نے جب حضرت حذیفہ (رض) کو خط لکھا تو اس کے الفاظ مندرجہ ذیل تھے۔
اعزم عَلَیْکَ أن لاتَضَع کتابی ھذا حتیّٰ تخلی سبیلھا فانی اخاف ان یقتدیکَ المسلمون فیختا روا لنساءَ اھل الذمۃ لجمالھِنّ وکفی بذلک فتنۃ لِنساء المسلمین۔ (کتاب الآثار، معارف)
یعنی تم کو قسم دیتا ہوں کہ میرا یہ خط اپنے ہاتھ سے رکھنے سے پہلے ہی اس کو طلاق دیکر آزاد کردو، کیونکہ مجھے خطرہ ہے کہ دوسرے مسلمان بھی تمہاری اقتداء کریں گے اور اہل ذمہ (اہل کتاب) کی عورتوں کو ان کے حسن و جمال کی وجہ سے مسلمان عورتوں پر ترجیح دینے لگیں تو مسلمان عورتوں کیلئے اس سے بڑی مصیبت اور کیا ہوگی۔
فاروق اعظم کی نظر دوربین : فاروق اعظم کا زمانہ تو خیر القرون کا زمانہ تھا، اس وقت اس کا احتمال بہت کم تھا کہ کوئی یہودی یا نصرانی عورت کسی مسلمان کی بیوی بن کر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازش کرسکے، اس وقت تو صرف یہ خطرات سامنے تھے کہ کہیں ان کے ذریعہ ہمارے گھروں میں بدکاری نہ داخل ہوجائے جس کی وجہ سے ہمارے گھر گندے ہوجائیں، یا ان کے حسن و جمال کی وجہ سے لوگ ان کو ترجیح دینے لگیں، جس کے نتیجے میں مسلمان عورتیں تکلیف میں پڑجائیں، مگر فاروقی نظروں نے اتنے ہی نتائج کو سامنے رکھ کر ان حضرات کو طلاق پر مجبور کیا، اگر آج کا نقشہ اور صورت حال ان کے سامنے ہوتی تو اندازہ کیجئے کہ ان کا اس کے متعلق کیا عمل ہوتا۔ اول تو آج یہودیوں اور مسیحیوں کی بہت بڑی تعداد مردم شماری کے رجسٹروں میں تو یہود اور نصاری ہیں مگر حقیقت میں وہ بےدین لامذہب دھرئیے ہیں یہودیت اور نصرانیت کو ایک لعنت سمجھتے ہیں نہ ان کا ایمان تورات پر ہے اور نہ انجیل پر، ظاہر ہے کہ ان لوگوں کی عورتیں مسلمانوں کیلئے کس طرح حلال ہوسکتی ہیں اور بالفرض وہ اپنے مذہب کی پابند بھی ہوں تو ان کو کسی مسلمان گھرانے میں جگہ دینا اپنے پورے خاندان کے لئے دینی اور دنیوی تباہی کو دعوت دینا ہے، اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جو سازشیں اس راہ سے اس آخری دور میں ہوئیں اور ہوتی رہتی ہیں اور ہو رہی ہیں جن کے عبرتناک انجام آئے دن آنکھوں کے سامنے آتے ہیں کہ ایک لڑکی نے پوری مسلم قوم اور سلطنت کو تباہ کردیا، یہ ایسی چیزیں ہیں کہ حلال و حرام سے قطع نظر بھی کوئی سمجھدار ذی ہوش انسان اس کے قریب جانے کے لئے تیار نہیں ہوسکتا۔
محصنت کے معنی : مذکورہ آیت میں دو جگہ محصنٰت کا لفظ آیا ہے جس کے معنی عربی لغت نیز عرف و محاورہ کے اعتبار سے دو ہیں ایک آزاد جو باندی کے بالمقابل ہے علامہ سیوطی (رح) تعالیٰ نے یہی معنی مراد لیے ہیں دوسرے عفیف و پاکدامن لغت کے اعتبار سے یہاں یہ معنی بھی مراد ہوسکتے ہیں جیسا کہ بعض مفسرین سے یہ معنی مراد لئے ہیں، پہلے معنی کی رو سے مطلب یہ ہوگا کہ مسلمانوں کیلئے اہل کتاب کی آزاد عورتیں حلال ہیں باندیاں نہیں مجاہد نے یہاں یہی معنی مراد لئے ہیں، مگر جمہور علماء نے دوسرے معنی، یعنی عفیف مراد لئے ہیں جس طرح عفیف و پاکدامن مومن عورت سے نکاح افضل واولی ہے گو غیر عفیف سے نکاح جائز ہے یہی مطلب اہل کتاب کی عفیفاؤں کے بارے میں ہے۔
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک و تعالیٰ نے بندوں پر اپنے احسان کا ذکر کرتے ہوئے طیبات کی حلت کو مکرر بیان فرمایا۔ اس میں بندوں کو اس کا شکر ادا کرنے اور کثرت سے ذکر کرنے کی ترغیب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے ان چیزوں کو مباح فرمایا جن کے وہ سخت محتاج تھے اور وہ ان طیبات سے فائدے حاصل کرتے ہیں۔
﴿وَطَعَامُ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ حِلٌّ لَّكُمْ ﴾” اور اہل کتاب کا کھانا بھی تم کو حلال ہے۔“ یعنی اے مسلمانو ! تمہارے لئے یہودیوں اور عیسائیوں کے ذبیحے حلال ہیں اور باقی کفار کے ذبیحے حلال نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تمام اہل کتاب انبیائے کرام اور کتابوں سے منسوب ہیں اور تمام انبیائے کرام غیر اللہ کے نام پر ذبح کرنے کی تحریم پر مفق ہیں، کیونکہ یہ شرک ہے۔ پس یہود و نصاریٰ بھی غیر اللہ کے نام پر ذبیحہ کی حرمت کے قائل ہیں، اس لئے دیگر کفار کو چھوڑ کر یہود و نصاریٰ کا ذبیحہ حلال قرار دیا گیا ہے اور یہاں ان کے طعام سے مراد ان کا ذبیحہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ وہ طعام جو ذبیحہ کے زمرے میں نہیں آتا مثلاً غلہ اور پھل وغیرہ تو اس میں اہل کتاب کی کوئی خصوصیت نہیں۔ غلہ اور پھل تو حلال ہیں، اگرچہ وہ اہل کتاب کے علاوہ کسی اور کا طعام ہوں۔ نیز طعام کو ان کی طرف مضاف کیا گیا ہے جو اس امر کی دلیل ہے کہ وہ ان کا ذبیحہ ہونے کے سبب سے ” ان کا کھانا“ ہے۔ یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ یہ اضافت تملیک کے لئے ہے اور یہ کہ اس سے مراد وہ کھانا ہے، جس کے وہ مالک ہیں، کیونکہ غصب کے پہلو سے یہ بھی حلال نہیں خواہ مسلمانوں ہی کا ہو۔
﴿وَطَعَامُكُمْ حِلٌّ لَّهُمْ ﴾ ” اور تمہارا کھانا ان کو حلال ہے۔“ اے مسلمانو ! اگر تم اپنا کھانا اہل کتاب کو کھلاؤ تو یہ ان کے لئے حلال ہے۔ ﴿وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الْمُؤْمِنَاتِ ﴾ ” اور آزاد اور عفت مآب مومن عورتیں (تمہارے لئے حلال ہیں) “ ﴿ِوَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِن قَبْلِكُمْ ﴾” اور آزاد پاک دامن اہل کتاب کی عورتیں۔“ یعنی یہود و نصاریٰ کی آزاد عفت مآب عورتیں بھی تمہارے لئے حلال ہیں اور یہ آیت کریمہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی تخصیص کرتی ہے ﴿وَ لَا تَنْکِحُوا المُشْرِکٰتِ حَتّٰی یُؤْمِنَّ﴾ (البقرہ :2؍221) ” اور مشرک عورتوں سے نکاح نہ کرو جب تک کہ وہ ایمان نہ لے آئیں۔ “
آیت کریمہ کا مفہوم مخالف دلالت کرتا ہے کہ مومن لونڈیوں کا آزاد مردوں کے ساتھ نکاح جائز نہیں۔ لیکن اہل کتاب لونڈیوں کا نکاح، آزاد مومن مردوں کے ساتھ مطلقاً حرام ہے اور اس کی دلیل اللہ تبارک و تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے : ﴿مِّن فَتَيَاتِكُمُ الْمُؤْمِنَاتِ ﴾ (النساء :4؍ 25) ” یعنی ان لونڈیوں سے نکاح کرلو جو مومن ہیں۔“ اگر مسلمان عورتیں لونڈیاں ہوں، تو آزاد مردوں کے ساتھ ان کے نکاح کے لئے دو شرائط ہیں۔
(١) مرد آزاد عورت کے ساتھ نکاح کرنے کی استطاعت نہ رکھتا ہو۔
(٢) عدم نکاح کی صورت میں اسے حرام میں پڑنے کا خدشہ ہو۔
رہی فاجر عورتیں، جو زنا سے نہیں بچتیں، ان کے ساتھ نکاح جائز نہیں خواہ وہ مسلمان ہوں یا اہل کتاب سے تعلق رکھتی ہوں جب تک کہ وہ حرام کاری سے تائب نہ ہوجائیں۔ اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے : ﴿ لزَّانِي لَا يَنكِحُ إِلَّا زَانِيَةً أَوْ مُشْرِكَةً ﴾(النور :24؍ 3) ” زانی مرد نکاح نہیں کرتا مگر زانی عورت یا مشرک عورت کے ساتھ ہی۔ “
﴿إِذَا آتَيْتُمُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ ﴾” جب کہ ان کا مہر دے دو۔“ یعنی جب تم ان کے مہر ادا کر دو تو ہم نے ان کے ساتھ تمہارا نکاح جائز قرار دے دیا ہے اور جس کا یہ ارادہ ہو کہ وہ مہر ادا نہیں کرے گا تو وہ عورت اس کے لئے حلال نہیں ہے۔ اگر عورت سمجھ دار ہے تو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ خود اسے مہر ادا کیا جائے ورنہ شوہر اس کے سرپرست کو مہر ادا کرے۔ حق مہر کی عورتوں کی طرف اضافت دلالت کرتی ہے کہ عورت اپنے تمام حق مہر کی خود مالک ہوتی ہے اس میں کسی کا کوئی حصہ نہیں۔ سوائے اس کے کہ عورت خود اپنے شوہر کو یا اپنے ولی (سرپرست) وغیرہ کو یہ مہر عطا کر دے۔ ﴿مُحْصِنِينَ ﴾ ” اور عفت قائم رکھنی مقصود ہو۔“ یعنی اے شوہرو ! اس حال میں کہ تم اپنی بیویوں کی عفت کی حفاظت کر کے ان کو پاک باز رکھو ﴿غَيْرَ مُسَافِحِينَ﴾ ” نہ کہ اس حال میں کہ تم ہر ایک کے ساتھ زنا کرتے پھرو“ ﴿وَلَا مُتَّخِذِي أَخْدَانٍ﴾اور نہ اس حالت میں کہ تم اپنی معشوقاؤں کے ساتھ بدکاری کرو (اخدان) سے مراد ہے معشوقاؤں کے ساتھ زنا کرنا۔ زمانہ جاہلیت میں زنا کاروں کی دو اقسام تھیں۔
(١) کسی بھی عورت کے ساتھ زنا کرنے والے کو(مُسَافِحِينَ) کہا جاتا ہے۔
(٢) صرف اپنی محبوبہ کے ساتھ زنا کرنے والے (أَخْدَان) ہیں۔
پس اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ یہ دونوں صورتیں پاک دامنی کے منافی ہیں اور یہ کہ نکاح کی شرط ہے کہ مرد زنا کاری سے دامن بچانے والا ہو۔
﴿وَمَن يَكْفُرْ بِالْإِيمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهُ﴾ ” اور جو منکر ہوا ایمان سے، تو ضائع ہوگئے عمل اس کے“ جو کوئی اللہ تعالیٰ اور ان چیزوں کے ساتھ کفر کرتا ہے جن پر ایمان لانا فرض ہے، مثلاً اللہ تعالیٰ کی کتابیں اور اس کے انبیاء و رسل اور شریعت کے بعض امور۔۔۔ اور وہ اسی کفر کی حالت میں مر جاتا ہے تو اس کے تمام اعمال اکارت چلے جاتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ وَمَن يَرْتَدِدْ مِنكُمْ عَن دِينِهِ فَيَمُتْ وَهُوَ كَافِرٌ فَأُولَـٰئِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ﴾(البقرۃ:2؍217) ” اور تم میں سے جو کوئی اپنے دین سے پھر کر کافر ہوجائے اور وہ کفر کی حالت میں مر جائے تو دنیا اور آخرت میں اس کے تمام اعمال اکارت جائیں گے۔“ ﴿وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ﴾ ” اور وہ آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگا۔“ یعنی ان کا شمار ان لوگوں میں ہوگا جو قیامت کے روز، اپنی جان، مال اور اپنے اہل و عیال کے بارے میں سخت خسارے میں ہوں گے اور ابدی بدبختی ان کا نصیب بنے گی۔
11 Mufti Taqi Usmani
aaj tumharay liye pakeezah cheezen halal kerdi gaee hain , aur jinn logon ko ( tum say pehlay ) kitab di gaee thi , unn ka khana bhi tumharay liye halal hai , aur tumhara khana unn kay liye halal hai neez mominon mein say pak daman aurten bhi aur unn logon mein say pak daman aurten bhi tumharay liye halal hain jinn ko tum say pehlay kitab di gaee thi , jabkay tum ney unn ko nikah ki hifazat mein laney kay liye unn kay mehar dey diye hon , naa to ( baghair nikah kay ) sirf hawas nikalna maqsood ho aur naa khufiya aashnai peda kerna . aur jo shaks emaan say inkar keray uss ka sara kiya dhara gharat ho jaye ga , aur aakhirat mein uss ka shumar khasara uthaney walon mein hoga .
12 Tafsir Ibn Kathir
ذبیحہ کس نام اور کن ہاتھوں کا حلال ہے ؟
حلال و حرام کے بیان کے بعد بطور خلاصہ فرمایا کہ کل ستھری چیزیں حلال ہیں، پھر یہود و نصاریٰ کے ذبح کئے ہوئے جانوروں کی حلت بیان فرمائی۔ حضرت ابن عباس، ابو امامہ، مجاہد، سعید بن جبیر، عکرمہ، عطاء، حسن، مکحول، ابراہیم، نخعی، سدی، مقاتل بن حیان یہ سب یہی کہتے ہیں کہ طعام سے مراد ان کا اپنے ہاتھ سے ذبح کیا ہوا جانور ہے، جس کا کھانا مسلمانوں کو حلال ہے، علماء اسلام کا اس پر مکمل اتفاق ہے کہ ان کا ذبیحہ ہمارے لئے حلال ہے، کیونکہ وہ بھی غیر اللہ کیلئے ذبح کرنا ناجائز جانتے ہیں اور ذبح کرتے وقت اللہ کے سوا دوسرے کا نام نہیں لیتے گو ان کے عقیدے ذات باری کی نسبت یکسر اور سراسر باطل ہیں، جن سے اللہ تعالیٰ بلند وبالا اور پاک و منزہ ہے۔ صحیح حدیث میں حضرت عبداللہ بن مغفل کا بیان ہے کہ جنگ خیبر میں مجھے چربی کی بھری ہوئی ایک مشک مل گئی، میں نے اسے قبضہ میں کیا اور کہا اس میں سے تو آج میں کسی کو بھی حصہ نہ دونگا، اب جو ادھر ادھر نگاہ پھرائی تو دیکھتا ہوں کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے پاس ہی کھڑے ہوئے تبسم فرما رہے ہیں۔ اس حدیث سے یہ بھی استدلال کیا گیا ہے کہ مال غنیمت میں سے کھانے پینے کی ضروری چیزیں تقسیم سے پہلے بھی لے لینی جائز ہیں اور یہ استدلال اس حدیث سے صاف ظاہر ہے، تینوں مذہب کے فقہاء نے مالکیوں پر اپنی سند پیش کی ہے اور کہا ہے کہ تم جو کہتے ہو کہ اہل کتاب کا وہی کھانا ہم پر حلال ہے جو خود ان کے ہاں بھی حلال ہو یہ غلط ہے کیونکہ چربی کو یہودی حرام جانتے ہیں لیکن مسلمان کیلئے حلال ہے لیکن یہ ایک شخص کا انفرادی واقعہ ہے۔ البتہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ وہ چربی ہو جسے خود یہودی بھی حلال جانتے تھے یعنی پشت کی چربی انتڑیوں سے لگی ہوئی چربی اور ہڈی سے ملی ہوئی چربی، اس سے بھی زیادہ دلالت والی تو وہ روایت ہے جس میں ہے کہ خیبر والوں نے سالم بھنی ہوئی ایک بکری حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تحفہ میں دی جس کے شانے کے گوشت کو انہوں نے زہر آلود کر رکھا تھا کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو شانے کا گوشت پسند ہے، چناچہ آپ نے اس کا یہی گوشت لے کر منہ میں رکھ کر دانتوں سے توڑا تو فرمان باری سے اس شانے نے کہا، مجھ میں زہر ملا ہوا ہے، آپ نے اسی وقت اسے تھوک دیا اور اس کا اثر آپ کے سامنے کے دانتوں وغیرہ میں رہ گیا، آپ کے ساتھ حضرت بشر بن براء بن معرور بھی تھے، جو اسی کے اثر سے راہی بقاء ہوئے، جن کے قصاص میں زہر ملانے والی عورت کو بھی قتل کیا گیا، جس کا نام زینب تھا، وجہ دلالت یہ ہے کہ خود حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مع اپنے ساتھیوں کے اس گوشت کے کھانے کا پختہ ارادہ کرلیا اور یہ نہ پوچھا کہ اس کی جس چربی کو تم حلال جانتے ہو اسے نکال بھی ڈالا ہے یا نہیں ؟ اور حدیث میں ہے کہ ایک یہودی نے آپ کی دعوت میں جو کی روٹی اور پرانی سوکھی چربی پیش کی تھی، حضرت مکحول فرماتے ہیں جس چیز پر نام رب نہ لیا جائے اس کا کھانا حرام کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر رحم فرما کر منسوخ کر کے اہل کتاب کے ذبح کئے جانور حلال کر دئے یہ یاد رہے کہ اہل کتاب کا ذبیحہ حلال ہونے سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ جس جانور پر بھی نام الٰہی نہ لیا جائے وہ حلال ہو ؟ اس لئے کہ وہ اپنے ذبیحوں پر اللہ کا نام لیتے تھے بلکہ جس گوشت کو کھاتے تھے اسے ذبیحہ پر موقوف نہ رکھتے تھے بلکہ مردہ جانور بھی کھالیتے تھے لیکن سامرہ اور صائبہ اور ابراہیم وشیث وغیرہ پیغمبروں کے دین کے مدعی اس سے مستثنیٰ تھے، جیسے کہ علماء کے دو اقوال میں سے ایک قول ہے اور عرب کے نصرانی جیسے بنو تغلب، تنوخ بہرا، جذام لحم، عاملہ کے ایسے اور بھی ہیں کہ جمہور کے نزدیک ان کے ہاتھ کا کیا ہوا ذبیحہ نہیں کھایا جائے گا۔ حضرت علی فرماتے ہیں قبیلہ بنو تغلب کے ہاتھ کا ذبح کیا ہوا جانور نہ کھاؤ، اس لئے کہ انہوں نے تو نصرانیت سے سوائے شراب نوشی کے اور کوئی چیز نہیں لی، ہاں سعید بن مسیب اور حسن بنو تغلب کے نصاریٰ کے ہاتھوں ذبح کئے ہوئے جانور کے کھا لینے میں کوئی حرج نہیں جانتے تھے، باقی رہے مجوسی ان سے گو جزیہ لیا گیا ہے کیونکہ انہیں اس مسئلہ میں یہود و نصاریٰ میں ملا دیا گیا ہے اور ان کا ہی تابع کردیا گیا ہے، لیکن ان کی عورتوں سے نکاح کرنا اور ان کے ذبح کئے ہوئے جانور کا کھانا ممنوع ہے۔ ہاں ابو ثور ابراہیم بن خالد کلبی جو شافعی اور احمد کے ساتھیوں میں سے تھے، اس کے خلاف ہیں، جب انہوں نے اسے جائز کہا اور لوگوں میں اس کی شہرت ہوئی تو فقہاء نے اس قول کی زبردست تردید کی ہے۔ یہاں تک کہ حضرت امام احمد بن حنبل نے تو فرمایا کہ ابو ثور اس مسئلہ میں اپنے نام کی طرح ہی ہے یعنی بیل کا باپ، ممکن ہے ابو ثور نے ایک حدیث کے عموم کو سامنے رکھ کر یہ فتویٰ دیا ہو جس میں حکم ہے کہ مجوسیوں کے ساتھ اہل کتاب کا سا طریقہ برتو لیکن اولاً تو یہ روایت ان الفاظ سے ثابت ہی نہیں دوسرے یہ روایت مرسل ہے، ہاں البتہ صحیح بخاری شریف میں صرف اتنا تو ہے کہ ہجر کے مجوسیوں سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جزیہ لیا۔ علاوہ ان سب کے ہم کہتے ہیں کہ ابو ثور کی پیش کردہ حدیث کو اگر ہم صحیح مان لیں، تو بھی ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس کے عموم سے بھی اس آیت میں حکم امتناعی کو دلیل بنا کر اہل کتاب کے سوا اور دین والوں کا ذبیحہ بھی ہمارے لئے حرام ثابت ہوتا ہے، پھر فرماتا ہے کہ تمہارا ذبیحہ بھی ہمارے لئے حرام ثابت ہوسکتا ہے، پھر فرماتا ہے کہ تمہارا ذبیحہ ان کیلئے حلال ہے یعنی تم انہیں اپنا ذبیحہ کھلا سکتے ہو۔ یہ اس امر کی خبر نہیں کہ ان کے دین میں ان کیلئے تمہارا ذبیحہ حلال ہے ہاں زیادہ سے زیادہ اتنا کہا جاسکتا ہے کہ یہ اس بات کی خبر ہو کہ انہیں بھی ان کی کتاب میں یہ حکم دیا گیا ہے کہ جس جانور کا ذبیحہ اللہ کے نام پر ہوا ہو اسے وہ کھا سکتا ہے بلحاظ اس سے کہ ذبح کرنے والا انہیں میں سے ہو یا ان کے سوا کوئی اور ہو، لیکن زیادہ باوزن بات پہلی ہی ہے۔ یعنی یہ کہ تمہیں اجازت ہے کہ انہیں اپنا ذبیحہ کھلاؤ جیسے کہ ان کے ذبح کئے ہوئے جانور تم کھالیتے ہو۔ یہ گویا اول بدل کے طور پر ہے، جس طرح حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عبداللہ بن ابی بن سلول منافق کو اپنے خاص کرتے ہیں کفن دیا جس کی وجہ سے بعض حضرات نے یہ بیان کیا ہے کہ اس نے آپ کے چچا حضرت عباس کو اپنا کرتا دیا تھا جب وہ مدینے میں آئے تھے تو آپ نے اس کا بدلہ چکا دیا۔ ہاں ایک حدیث میں ہے کہ مومن کے سوا کسی اور کی ہم نشینی نہ کر اور اپنا کھانا بجز پرہیزگاروں کے اور کسی کو نہ کھلا اسے اس بدلے کے خلاف نہ سمجھنا چاہئے، ہوسکتا ہے کہ حدیث کا یہ حکم بطور پسندیدگی اور افضلیت کے ہو، واللہ اعلم۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ پاک دامن مومن عورتوں سے نکاح کرنا تمہارے لئے حلال کردیا گیا ہے یہ بطور تمہید کے ہے اسی لئے اس کے بعد ہی فرمایا کہ تم سے پہلے جنہیں کتاب دی گئی ہے ان کی عفیفہ عورتوں سے بھی نکاح تمہیں حلال ہے۔ یہ قول بھی ہے کہ مراد محصنات سے آزاد عورتیں ہیں یعنی لونڈیاں نہ ہوں۔ یہ قول حضرت مجاہد کی طرف منسوب ہے اور حضرت مجاہد کے الفاظ یہ ہیں کہ محصنات سے آزاد مراد ہیں اور جب یہ ہے تو جہاں اس قول کا وہ مطلب لیا جاسکتا ہے کہ لونڈیاں اس سے خارج ہیں وہاں یہ معنی بھی لئے جاسکتے ہیں کہ پاک دامن عفت شعار، جیسے کہ انہی سے دوسری روایت ان ہی لفظوں میں موجود ہے، جمہور بھی کہتے ہیں اور یہ زیادہ ٹھیک بھی ہے۔ تاکہ ذمیہ ہونے کے ساتھ ہی غیر عفیفہ ہونا شامل ہو کر بالکل ہی باعث فساد نہ بن جائے اور اس کا خاوند صرف فضول بھرتی کے طور پر بری رائے پر نہ چل پڑے پس بظاہر یہی ٹھیک معلوم ہوتا ہے کہ محصنات سے مراد عفت مآب اور بدکاری سے بچاؤ والیاں ہی لی جائیں، جیسے دوسری آیت میں محصنات کے ساتھ ہی آیت (غَيْرَ مُسٰفِحِيْنَ وَلَا مُتَّخِذِيْٓ اَخْدَانٍ ) 5 ۔ المائدہ :5) آیا ہے۔ علماء اور مفسرین کا اس میں بھی اختلاف ہے کہ کیا آیت ہر کتابیہ عفیفہ عورت پر مشتمل ہے ؟ خواہ وہ آزاد ہو خواہ لونڈی ہو ؟ ابن جریر میں سلف کی ایک جماعت سے اسے نقل کیا ہے جو کہتے ہیں کہ محصنات سے مراد پاک دامن ہے، ایک قول یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہاں مراد اہل کتاب سے اسرائیلی عورتیں ہیں، امام شافعی کا یہی مذہب ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد ذمیہ عورتیں ہیں سوائے آزاد عورتوں کے اور دلیل یہ آیت ہے (قَاتِلُوا الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ باللّٰهِ وَلَا بالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَلَا يُحَرِّمُوْنَ مَا حَرَّمَ اللّٰهُ وَرَسُوْلُهٗ وَلَا يَدِيْنُوْنَ دِيْنَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ حَتّٰي يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَنْ يَّدٍ وَّهُمْ صٰغِرُوْنَ ) 9 ۔ التوبہ :29) یعنی ان سے لڑو جو اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان نہیں لاتے، چناچہ حضرت عبداللہ بن عمر نصرانیہ عورتوں سے نکاح کرنا جائز نہیں جانتے تھے اور فرماتے تھے اس سے بڑا شرک کیا ہوگا ؟ کہ وہ کہتی ہو کہ اس کا رب عیسیٰ ہے اور جب یہ مشرک ٹھہریں تو نص قرآنی موجود ہے کہ آیت (وَلَا تَنْكِحُوا الْمُشْرِكٰتِ حَتّٰى يُؤْمِنَّ ۭوَلَاَمَةٌ مُّؤْمِنَةٌ خَيْرٌ مِّنْ مُّشْرِكَةٍ وَّلَوْ اَعْجَبَـتْكُمْ ۚ وَلَا تُنْكِحُوا الْمُشْرِكِيْنَ حَتّٰى يُؤْمِنُوْا) 2 ۔ البقرۃ :221) یعنی مشرکہ عورتوں سے نکاح نہ کرو جب تک کہ وہ ایمان نہ لائیں، ابن ابی حاتم میں حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ جب مشرکہ عورتوں سے نکاح نہ کرنے کا حکم نازل ہوا تو صحابہ ان سے رک گئے یہاں تک کہ اس کے بعد کی آیت اہل کتاب کی پاکدامن عورتوں سے نکاح کرنے کی رخصت نازل ہوئی تو صحابہ نے اہل کتاب عورتوں سے نکاح کئے اور صحابہ کی ایک جماعت سے ایسے نکاح اسی آیت کو دلیل بنا کر کرنے ثابت ہیں تو گویا پہلے سورة بقرہ کی آیت کی ممانعت میں یہ داخل تھیں لیکن دوسری آیت نے انہیں مخصوص کردیا۔ یہ اس وقت جب یہ مان لیا جائے کہ ممانعت والی آیت کے حکم میں یہ بھی داخل تھیں ورنہ ان دونوں آیتوں میں کوئی معارض نہیں، اس لئے کہ اور بھی بہت سی آیتوں میں عام مشرکین سے انہیں الگ بیان کیا گیا ہے جیسے آیت لم یکن الذین کفروا۔ ( وَقُلْ لِّلَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ وَالْاُمِّيّٖنَ ءَاَسْلَمْتُمْ ۭ فَاِنْ اَسْلَمُوْا فَقَدِ اھْتَدَوْا ۚ وَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلٰغُ ۭ وَاللّٰهُ بَصِيْرٌۢ بِالْعِبَادِ ) 3 ۔ آل عمران :20) پھر فرماتا ہے جب تم انہیں ان کے مقررہ مہر دے دو وہ اپنے نفس کو بچانے والیاں ہوں اور تم ان کے مہر ادا کرنے والے ہو، حضرت جابر بن عبداللہ عامر شعبی ابراہیم نخعی حسن بصری کا فتویٰ ہے کہ جب کسی شخص نے کسی عورت سے نکاح کیا اور دخول سے پہلے اس نے بدکاری کی تو میاں بیوی میں تفریق کرا دی جائے گی اور جو مہر خاوند نے عورت کو دیا ہے اسے واپس دلوایا جائے گا (ابن جریر) پھر فرماتا ہے تم بھی پاک دامن عفت مآب ہو اور علانیہ یا پوشیدہ بدکار نہ ہوؤ۔ پس عورتوں میں جس طرح پاک دامن اور عفیفہ ہونے کی شرط لگائی تھی مردوں میں بھی یہی شرط لگائی اور ساتھ ہی فرمایا کہ وہ کھلے بدکار نہ ہوں کہ ادھر ادھر منہ مارتے پھرتے ہوں اور نہ ایسے ہوں کہ خاص تعلق سے حرام کاری کرتے ہوں۔ سورة نساء میں بھی اسی کے تماثل حکم گزر چکا ہے۔ حضرت امام احمد اسی طرف گئے ہیں کہ زانیہ عورتوں سے توبہ سے پہلے ہرگز کسی بھلے آدمی کو نکاح کرنا جائز نہیں، اور یہی حکم ان کے نزدیک مردوں کا بھی ہے کہ بدکار مردوں کا نکاح نیک کار عفت شعار عورتوں سے بھی ناجائز ہے جب تک وہ سچی توبہ نہ کریں اور اس رذیل فعل سے باز نہ آجائیں۔ ان کی دلیل ایک حدیث بھی ہے جس میں ہے کوڑے لگایا ہوا زانی اپنے جیسی سے ہی نکاح کرسکتا ہے۔ خلیفتہ المومنین حضرت عمر فاروق نے ایک مرتبہ فرمایا کہ میں ارادہ کر رہا ہوں کہ جو مسلمان کوئی بدکاری کرے میں اسے ہرگز کسی مسلمان پاک دامن عورت سے نکاح نہ کرنے دوں۔ اس پر حضرت ابی بن کعب نے عرض کی کہ اے امیر المومنین شرک اس سے بہت بڑا ہے اس کے باوجود بھی اس کی توبہ قبول ہے۔ اس مسئلے کو ہم آیت (اَلزَّانِيْ لَا يَنْكِحُ اِلَّا زَانِيَةً اَوْ مُشْرِكَةً ۡ وَّالزَّانِيَةُ لَا يَنْكِحُهَآ اِلَّا زَانٍ اَوْ مُشْرِكٌ ۚ وَحُرِّمَ ذٰلِكَ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ ) 24 ۔ النور :3) کی تفسیر میں پوری طرح بیان کریں گے انشاء اللہ تعالیٰ ۔ آیت کے خاتمہ پر ارشاد ہوتا ہے کہ کفار کے اعمال اکارت ہیں اور وہ آخرت میں نقصان یافتہ ہیں۔