المائدہ آية ۸۷
يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُحَرِّمُوْا طَيِّبٰتِ مَاۤ اَحَلَّ اللّٰهُ لَـكُمْ وَلَا تَعْتَدُوْا ۗ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِيْنَ
طاہر القادری:
اے ایمان والو! جو پاکیزہ چیزیں اللہ نے تمہارے لئے حلال کی ہیں انہیں (اپنے اوپر) حرام مت ٹھہراؤ اور نہ (ہی) حد سے بڑھو، بیشک اللہ حد سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا،
English Sahih:
O you who have believed, do not prohibit the good things which Allah has made lawful to you and do not transgress. Indeed, Allah does not like transgressors.
1 Abul A'ala Maududi
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جو پاک چیزیں اللہ نے تمہارے لیے حلال کی ہیں انہیں حرام نہ کر لو اور حد سے تجاوز نہ کرو، اللہ کو زیادتی کرنے والے سخت ناپسند ہیں
2 Ahmed Raza Khan
اے ایمان والو! حرام نہ ٹھہراؤ وہ ستھری چیزیں کہ اللہ نے تمہارے لیے حلال کیں اور حد سے نہ بڑھو، بیشک حد سے بڑھنے والے اللہ کو ناپسند ہیں،
3 Ahmed Ali
اے ایمان والو ان ستھری چیزوں کو حرام نہ کرو جو الله نے تمہارے لیے حلال کی ہیں اور حد سے نہ بڑھو بے شک الله حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں کرتا
4 Ahsanul Bayan
اے ایمان والو! اللہ تعالٰی نے جو پاکیزہ چیزیں تمہارے واسطے حلال کی ہیں ان کو حرام مت کرو (١) اور حد سے آگے مت نکلو، بیشک اللہ تعالٰی حد سے نکلنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔
٨٧۔١ حدیث میں آتا ہے کہ ایک شخص نبی کی خدمت میں حاضر ہوا اور آکر کہا کہ یارسول اللہ! جب میں گوشت کھاتا ہوں تو نفسانی شہوت کا غلبہ ہو جاتا ہے، اس لئے میں نے اپنے اوپر گوشت حرام کر لیا ہے، جس پر آیت نازل ہوئی، اس طرح سبب نزول کے علاوہ دیگر روایات سے ثابت ہے کہ بعض صحابہ زہد و عبادت کی غرض سے بعض حلال چیزوں سے (مثلًا عورت سے نکاح کرنے، رات کے وقت سونے، دن کے وقت کھانے پینے سے) اجتناب کرنا چاہتے تھے۔ نبی کے علم میں یہ بات آئی تو آپ نے انہیں منع فرمایا۔ حضرت عثمان بن مظعون نے بھی اپنی بیوی سے کنارہ کشی اختیار کی ہوئی تھی، ان کی بیوی کی شکایت پر آپ نے انہیں بھی روکا (کتب حدیث) بہرحال اس آیت اور حدیث سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالٰی کی حلال کردہ کسی بھی چیز کو حرام کر لینا یا اس سے ویسے ہی پرہیز کرنا جائز نہیں ہے چاہے اس کا تعلق کھانے پینے یا مشروبات سے ہو یا لباس سے ہو یا مرغوبات و جائز خواہشات سے۔
مسئلہ ;۔ اس طرح اگر کوئی شخص کسی چیز کو اپنے اوپر حرام کرلے گا تو وہ حرام نہیں ہوگی سوائے عورت کے البتہ اس صورت میں بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ اسے قسم کا کفارہ ادا کرنا ہوگا اور بعض کے نزدیک کفارہ ضروری نہیں امام شوکانی کہتے ہیں کہ احادیث صحیحہ سے اسی بات کی تائید ہوتی ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو بھی کفارہ یمین ادا کرنے کا حکم نہیں دیا امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ اس آیت کے بعد اللہ تعالٰی نے قسم کا کفارہ بیان فرمایا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی حلال چیز کو حرام کر لینا یہ قسم کھانے کے مرتبے میں ہے جو تکفیر یعنی کفارہ ادا کرنے کا متقاضی ہے لیکن یہ استدلال احادیث صحیحہ کی موجودگی میں محل نظر ہے۔ فالصحیح ما قالہ الشوکانی
5 Fateh Muhammad Jalandhry
مومنو! جو پاکیزہ چیزیں خدا نے تمہارے لیے حلال کی ہیں ان کو حرام نہ کرو اور حد سے نہ بڑھو کہ خدا حد سے بڑھنے والوں کو دوست نہیں رکھتا
6 Muhammad Junagarhi
اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ نے جو پاکیزه چیزیں تمہارے واسطے حلال کی ہیں ان کو حرام مت کرو اور حد سے آگے مت نکلو، بےشک اللہ تعالیٰ حد سے نکلنے والوں کو پسند نہیں کرتا
7 Muhammad Hussain Najafi
اے ایمان والو! (اپنے اوپر) حرام نہ کرو ان پاکیزہ چیزوں کو جو اللہ نے تمہارے لئے حلال کی ہیں اور (حد سے) تجاوز نہ کرو بے شک اللہ (حد سے) تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
ایمان والو جن چیزوں کو خدا نے تمہارے لئے حلال کیا ہے انہیں حرام نہ بناؤ اور حد سے تجاوز نہ کرو کہ خدا تجاوز کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا ہے
9 Tafsir Jalalayn
مومنو ! جو پاکیزہ چیزیں خدا نے تمہارے لئے حلال کی ہیں ان کو حرام نہ کرو اور حد سے نہ بڑھو کہ خدا حد سے بڑھنے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔
آیت نمبر ٨٧ تا ٩٣
ترجمہ : (آئندہ آیت) اس وقت نازل ہوئی جب صحابہ (رض) کی ایک جماعت نے یہ ارادہ کرلیا کہ وہ ہمیشہ روزہ رکھیں گئ اور ہمیشہ نماز میں مشغول رہیں گے، اور عورتوں سے ہم بستر نہ ہوں گے اور نہ خوشبو کا استعمال کریں گے، اور نہ گوشت کھائیں گے اور نہ بستر پر سوئیں گے، اے ایمان والو ! اللہ نے جو پاکیزہ چیزیں تمہارے لئے حلال کی ہیں ان کو حرام مت کرو اور حکم خداوندی سے تجاوز نہ کرو اللہ تعالیٰ حد سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا اور اللہ تعالیٰ نے جو حلال مرغوب چیزیں تم کو دی ہیں ان میں سے کھاؤ (حَلالاً ، کلوا کا) مفعول ہے اور اس کا ما قبل (ممّا رزقکم اللہ) کا متعلق مقدم حال ہے، اور اس اللہ سے ڈرتے رہو جس پر تم ایمان رکھتے ہو، اللہ تعالیٰ تمہاری لغو (مہمل) قسموں پر مؤاخذہ نہیں کرے گا، لغو اس قسم کو کہتے ہیں جو بلا قصد سبقت لسانی سے سرزد ہوجائے، مثلاً لوگ کہتے ہیں، لا واللہ، اور بلیٰ واللہ، مگر جو قسمیں تم جان بوجھ کر کھاتے ہو یعنی قصداً قسم کھاتے ہو (عقدتم) میں تخفیف اور تشدید دونوں قراءتیں ہیں اور ایک قراءت میں عاقدتم ہے تو ایسی قسم کا کفارہ جب تم اس میں حانث ہوجاؤ دس مسکینوں کو کھانا کھلانا ہے ہر ایک مسکین کو ایک مدوہ اوسط درجہ کا کھانا ہے جو تم اپنے اہل و عیال کو کھلاتے ہو، یعنی درمیانی درجہ کا، غالب حالات کے اعتبار سے، نہ بہت اعلیٰ اور نہ بہت ادنیٰ ، یا انہیں کپڑے پہناؤ، وہ کپڑا جس کو (عرف میں) لباس کہا جائے، مثلاً قمیص، اور دستار، اور ازار، اور مذکورہ چیزیں ایک ہی مسکین کو دیدینا کافی نہیں ہے اور یہ (امام) شافعی (رح) تعالیٰ کا مذہب ہے، یا ایک مومن غلام آزاد کرنا ہے جیسا کہ کفارہ قتل اور کفارہ ظہار میں مطلق کو مقید پر محمول کرتے ہوئے، جو شخص (مذکورہ تینوں) میں سے کسی پر قدرت نہ رکھتا ہو تو اس کا کفارہ تین دن کے روزے ہیں اور اس سے بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ تسلسل شرط نہیں ہے، اور یہی امام شافعی (رح) تعالیٰ کا مذہب ہے، یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے جب تم قسمیں کھاؤ اور توڑ دو اور اپنی قسموں کی توڑنے سے حفاظت کیا کرو جبکہ قسم کسی کار خیر یا اصلاح بین الناس نہ کرنے پر نہو، جیسا کہ سورة بقرہ میں ہے، اسی طرح جیسا کہ مذکورہ (احکام) تمہارے لیے بیان کئے اللہ تمہارے لئے اپنے احکام بیان کرتا ہے تاکہ تم اس پر شکر ادا کرو اے ایمان والو یہ شراب جو عقل کو مستور کر دے اور جوا اور بت اور قسمت آزمائی کے تیر خبیث گندے شیطانی عمل ہیں جن کو وہ آراستہ کرکے پیش کرتا ہے تم ان سے پرہیز کرو، یعنی اس گندگی سے پرہیز کرو جن کو ان ناموں سے تعبیر کیا ہے، امید ہے کہ تم کو فلاح نصیب ہوگی شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ شراب اور جوے کے ذریعہ تمہارے درمیان بغض و عداوت ڈالدے جب تم ان کا ارتکاب کرو، اس لئے کہ ان سے شر و فساد جنم لیتا ہے، اور تم کو ان میں مشغول کرکے اللہ کی یاد اور نماز سے روک دے ان دونوں کی عظمت کی وجہ سے خاص طور پر ان کو ذکر کیا ہے تو کیا تم ان چیزوں سے باز آجاؤ گے ؟ یعنی باز آجاؤ، اللہ اور اس کے رسول کی بات مانو اور معاصی سے باز آجاؤ اور اگر تم اس کی اطاعت سے حکم عدولی کرو گے تو جان لو ہمارے رسول پر صاف صاف (حکم) پہنچا دینا ہے اور بس، اور تم کو جزاء دینا ہماری ذمہ داری ہے، جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرنے لگے، انہوں نے حرمت سے پہلے شراب اور (مال) قمار میں سے جو کچھ کھایا پیا اس پر گرفت نہ ہوگی بشرطیکہ (آئندہ) حرام کردہ چیزوں سے بچے رہیں اور ایمان رکھتے ہوں اور نیک عمل کرتے رہیں پھر تقوے اور ایمان پر ثابت قدم رہیں پھر (ممنوعات) سے اجتناب کریں اور نیک اعمال کریں اور اللہ تعالیٰ نیک کرداروں کو پسند کرتے ہیں بایں معنی کہ ان کو اس کا اجر عطا عطا فرمائیں گے۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیر فوائد
قولہ : مُفْعُوْلٌ وَالْجَارُّ وَالمَجْرُوْرُ قَبْلَہٗ ، حَالٌ مُتَعَلِّقٌ بہ حَلاَ لاَ طیبًا موصوف صفت سے ملکر کلوا کا مفعول بہ ہے اور مِمَّا رزقناکم حلالا سے متعلق ہو کر حال مقدم ہے تقدیر عبارت یہ ہے، کلوا شیئاً حَلَالاً طَیّباً حال کونہ مما رزقکم اللہ، اسلئے کہ مِمَّا رزقکم دراصل نکرہ کی صفت ہونے کی وجہ سے مقدم ہو کر حال واقع ہے، مفسر علام نے مذکورہ عبارت سے اسی ترکیب کی طرف اشارہ کیا ہے۔
قولہ : الکَائِن، اس میں اشارہ ہے کہ فی اَیْمَانِکم، اَلَّغو کی صفت ہے نہ کہ حال۔
قولہ : مَایَسْبِقُ اِلیہ اللِسَانُ من غَیْرِ قَصْدٍ ، یہ امام شافعی (رح) تعالیٰ کا مذہب ہے۔
قولہ : بما عَقَّدْتم ای وَثَقْتم بالنیۃ والقصد، عَقَّدْتُمْ ، تعقید (تفعیل) سے ماضی جمع مذکر حاضر تم نے گرہ لگائی تم نے پختہ عہد کیا۔
قولہ : عَلَیْہِ ، اس میں اشارہ ہے مَا عَقَّدْتم، میں مَا، موصولہ ہے اور عَقَّدْتُمْ الْاَیْمَان جملہ ہو کر صلہ ہے، اور جب صلہ جملہ ہوتا ہے تو اس میں ضمیر عائد کا ہونا ضروری ہوتا ہے اور وہ علیہ ہے۔
قولہ : اِذَا حَنِثْتم، اس میں اشارہ ہے کہ نفس یمین و جوب کفارہ کا سبب نہیں ہے بلکہ قسم توڑنا کفارہ کا سبب ہے۔
قولہ : مُؤْمِنَۃ، ھذا عند الشافعی۔ قولہ : مُد، ایک مد کی مقدار ٦٨ تولہ ٣ ماشہ یا ٧٩٦ گرام ٦٨ ملی گرام ہوتی ہے۔
قولہ : کَفَارُتُہ، اس میں اشارہ ہے کہ فَصِیام، مبتداء ہے اور کفّارَۃ اس کی خبر محذوف ہے۔
قولہ : خَبِیْثٌ مُسْتَقْذَرٌ، الرجس کے معنی اکثر کے نزدیک نجس کے ہیں، اور بعض حضرات نے کہا ہے کہ رجس معنی اسم۔۔۔ ہے یہی وجہ ہے کہ مفرد ہونے کے باوجود متعدد کی خبر واقع ہے، مفسر علام نے مستقذرٌ کا اضافہ کرکے اشارہ کردیا کہ رجس سے مراد نجس طبعی نہیں ہے بلکہ نجس عقلی ہے، زجاج نے کہا کہ رجس فتحہ راء اور کسرہ راء کے ساتھ پر عمل قبیح کو کہتے ہیں۔
قولہ : الرِجْسِ ، یہ ایک سوال مقدر کا جواب ہے۔
سوال : اِجْتَنِبُوْہ، کی ضمیر متعدد یعنی ماقبل میں مذکور چار چیزوں کی طرف راجع ہے حالانکہ ضمیر واحد ہے۔
جواب : ضمیر واحد کا مرجع الرجس ہے جو اسم جمع ہونے کی وجہ سے حکم میں متعدد کے ہے، مفسر علام نے اَنْ تَفْعَلوہ، اِذَا سمیتموھما، بالاشتغال، ان تینوں کلموں کا اضافہ کرکے اس اعتراض کا جواب دیا ہے کہ منع اور حکم کا تعلق افعال سے ہوتا ہے نہ کہ۔۔ و اعیان سے
قولہ : ثَبَتُوا مفسر علام نے ثبتوا کا اضافہ دفع تکرار کیلئے کیا ہے۔
تفسیر و تشریح
ربط آیات : اوپر قریبی آیات میں رہبانیت کا مدح و ستائش کے طور پر ذکر آیا تھا احتمال تھا کہ کہیں مسلمان بھی اس کو قابل مدح و ستائشنی سمجھ لیں اسی مناسبت سے حلال چیزوں کو حرام سمجھنے کی ممانعت کا ذکر فرمایا۔
شان نزول : یٰایّھا الّذین آمنوا لَاتُحرموا طیبٰت (الآیۃ) ان آیات کے شان نزول کے سلسلہ میں متعدد واقعات احادیث میں مروی ہیں، ممکن ہے کہ یہ سب ہی واقعات نزول کا سبب ہوئے ہوں۔
پہلا واقعہ : ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے زید بن اسلم سے روایت کیا ہے کہ ایک زور عبد اللہ ابن رواحہ (رض) کے گھر ان کی عدم موجودگی میں ایک مہمان آیا، عبد اللہ ابن رواحہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں تھے تاخیر سے گھر لوٹے تو معلوم ہوا کہ ان کی اہلیہ نے ان کے انتظار میں مہمان کو کھانا نہیں کھلایا عبد اللہ ابن رواحہ کو اس سے ناگواری ہوئی اور کھانا نہ کھانے کی، ھُوَ حرام عَلَیَّ ، کہ کر قسم کھالی یہ صورت حال دیکھ کر ان کی اہلیہ نے بھی ھُوَ حرام عَلیَّ کہ کر قسم کھالی جب مہمان نے دیکھا کہ عبد اللہ ابن رواحہ اور ان کی اہلیہ نے کھانا نہ کھانے کی قسم کھالی ہے تو اس نے بھی ھو حرام علیّ ، کہہ کر قسم کھالی، جب عبد اللہ ابن رواحہ نے دیکھا کہ مہمان نے بھی قسم کھالی تو انہوں نے ہاتھ بڑھایا اور فرمایا کلوا بسم اللہ، اور پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر اس واقعہ کی خبر دی، تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، ” قد اَصَبْتَ “ تو مذکورہ آیت نازل ہوئی۔ (فتح القدیر شوکانی)
دوسرا واقعہ : ابن مردویہ نے ابن عباس سے روایت کیا ہے کہ ایک شخص آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا، اور عرض کیا یا رسول اللہ جب میں گوشت کھاتا ہوں تو مجھے شہوت کا زور ہوجاتا ہے اور اسی وجہ سے میں نے گوشت کو اپنے اوپر حرام کرلیا ہے، تو مذکورہ آیت نازل ہوئی۔ (ایضاً )
تیسرا واقعہ : ایک روز صحابہ کے مجمع میں حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آخرت کی زندگی اور حالات پر نہایت اثر انگیز تقریر فرمائی، اس کا اثر یہ ہوا کہ تقریباً دس صحابہ کرام حضرت عثمان بن مظعون (رض) کے مکان پر جمع ہوئے اور باہمی مشورہ کرکے یہ طے کیا کہ آئندہ دنیا کو بالکل ترک کردیں گے، ٹاٹ کا لباس پہنیں گے، زمین پر لیٹیں گے، گوشت کو ہاتھ نہ لگائیں گے، بال بچوں سے کوئی واسطہ نہ رکھیں گے دن بھر روزے رکھا کریں گے اور شب بیداری کریں گے، اس کی اطلاع آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہوگئی تو ان لوگوں کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بلا بھیجا جب وہ حضرات حاضر خدمت ہوگئے تو آپ نے واقعہ کی تصدیق چاہی ان لوگوں نے اس کی تصدیق کردی، تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میں روزہ رکھتا ہوں اور نہیں بھی رکھتا، اور نماز بھی پڑھتا ہوں اور آرام بھی کرتا ہوں، اور عورتوں سے ہم بستر میں بھی ہوتا ہوں، لہٰذا جس نے میرا طریقہ اختیار کیا وہ میرا ہے اور جس نے میرا طریقہ اختیار نہ کیا وہ میرا نہیں، اس قسم کا واقعہ صحیحین میں بھی مذکور ہے مگر ان میں مذکورہ آیت کا شان نزول ہونے کی صراحت نہیں ہے۔ (فتح القدیر شوکانی)
مذکورہ آیت کا مطالبہ : اس آیت میں خاص طور پر دو باتیں ذکر کی گئی ہیں، ایک یہ کہ خود حلال و حرام کے مختار نہ بنو، حلال وہی ہے جو اللہ نے حلال کیا اور حرام وہی ہے جو اللہ نے حرام کیا، اپنے اختیار سے کسی حلال کو حرام اور حرام کو حلال کرو گے تو قانون الہیٰ کے پیرو ہونے کے بجائے قانون نفس کے پیرو قرار پاؤ گے۔ دوسری بات یہ کی عیسائی راہبوں، ہندو جوگیوں، بدھ مذہب کے بھکشوؤں کی طرح رہبانیت اور قطع لذات کا طریقہ اختیار نہ کرو، مذہبی ذہنیت کے نیک مزاج لوگوں میں ہمیشہ سے یہ میلان رہا ہے کہ نفس و جسم کے حقوق ادا کرنے کو روحانی ترقی میں مانع سمجھتے ہیں۔ اپنے آپ کو تکلیف میں ڈالنا، اپنے نفس کو دنیوی لذتوں سے محروم کرنا اور دنیا کے سامان راحت سے رشتہ توڑ لینا بجائے خود ایک نیکی ہے، اور خدا کا تقرب اس کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتا، ماسبق میں مذکورہ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ میں بھی بعض لوگ ایسے تھے جو اسی قسم کی ذہنیت رکھتے تھے، جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بعض صحابہ کے بارے میں گوشہ گیری اور عزلت نشنبی کی اطلاع ملی تو آپ نے فرمایا ضبط نفس کے لئے میرے یہاں روزہ ہے اور رہبانیت کے سارے فائدے جہاد سے حل ہوتے ہیں، اللہ کی بندگی کرو اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو حج وعمرہ کرو نماز قائم کرو زکوٰۃ ادا کرو اور رمضان کے روزے رکھو، تم سے پہلے جو لوگ ہلاک ہوئے وہ اسی لئے ہلاک ہوئے کہ انہوں نے اپنے اوپر سختی کی، اور جب انہوں نے خود اپنے اوپر سختی کی تو اللہ نے بھی ان پر سختی کی۔
10 Tafsir as-Saadi
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُحَرِّمُوا طَيِّبَاتِ مَا أَحَلَّ اللّٰهُ لَكُمْ﴾” اے ایمان والو ! جن پاکیزہ چیزوں کو اللہ نے تمہارے لئے حلال کیا ہے، تم انہیں حرام مت کرو“ یعنی اللہ تعالیٰ نے ماکولات و مشروبات میں جو چیزیں حلال ٹھہرا رکھی ہیں، انہیں حرام نہ ٹھہراؤ۔ کیونکہ یہ تو اللہ تعالیٰ کی نعمتیں ہیں جو اس نے تمہیں عطا کی ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کرو کیونکہ اس نے تمہارے لئے ان نعمتوں کو حلال ٹھہرایا اور اس کا شکر ادا کرو۔ کفران نعمت، عدم قبول اور ان کی تحریم کا اعتقاد رکھتے ہوئے ان نعمتوں کو نہ ٹھکراؤ ورنہ تم کفران نعمت اور اللہ تعالیٰ پر افتراپردازی کے ساتھ حلال کو حرام اور ناپاک قرار دینے کے مرتکب بھی ٹھہر و گے۔۔۔ اور یہ حد سے تجاوز ہے اور اللہ تعالیٰ نے حد سے بڑھنے سے منع فرمایا ہے ﴿وَلَا تَعْتَدُوا ۚ إِنَّ اللَّـهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ ﴾ ” اور حد سے نہ بڑھو، اللہ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں فرماتا‘‘ بلکہ ان سے ناراض ہوتا ہے اور اس پر ان کو سزا دے گا۔
11 Mufti Taqi Usmani
aey emaan walo ! Allah ney tumharay liye jo pakeezah cheezen halal ki hain unn ko haram qarar naa do , aur hadd say tajawuz naa kero . yaqeen jano kay Allah hadd say tajawuz kernay walon ko pasand nahi kerta . .
12 Tafsir Ibn Kathir
راہبانیت (خانقاہ نشینی) اسلام میں ممنوع ہے
ابن ابی حاتم میں ہے کہ چند صحابہ نے آپس میں کہا کہ ہم خصی ہوجائیں، دنیوی لذتوں کو ترک کردیں، بستی چھوڑ کر جنگلوں میں جا کر تارک دنیا لوگوں کی طرح زندگی یاد الٰہی میں بسر کریں۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان کی یہ باتیں معلوم ہوگئیں، آپ نے انہیں یاد فرمایا اور ان سے پوچھا، انہوں نے اقرار کیا، اس پر آپ نے فرمایا تم دیکھ نہیں رہے ؟ کہ میں نفلی روزے رکھتا ہوں اور نہیں بھی رکھتا۔ رات کو نفلی نماز پڑھتا بھی ہوں اور سوتا بھی ہوں۔ میں نے نکاح بھی کر رکھے ہیں۔ سنو جو میرے طریقے پر ہو وہ تو میرا ہے اور جو میری سنتوں کو نہ لے وہ میرا نہیں۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں ہے کہ " لوگوں نے امہات المومنین سے حضور کے اعمال کی نسبت سوال کیا پھر بعض نے کہا کہ ہم گوشت نہیں کھائیں گے بعض نے کہا ہم نکاح نہیں کریں گے بعض نے کہا ہم بستر پر سوئیں گے ہی نہیں، جب یہ واقعہ حضور کے گوش گزار ہوا تو آپ نے فرمایا ان لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ ان میں سے بعض یوں کہتے ہیں حالانکہ میں روزہ رکھتا ہوں اور نہیں بھی رکھتا، سوتا بھی ہوں اور تہجد بھی پڑھتا ہوں، گوشت بھی کھاتا ہوں اور نکاح بھی کئے ہوئے ہوں جو میری سنت سے منہ موڑے وہ میرا نہیں۔ ترمذی وغیرہ میں ہے کہ کسی شخص نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر کہا کہ گوشت کھانے سے میری قوت باہ بڑھ جاتی ہے اس لئے میں نے اپنے اوپر گوشت کو حرام کرلیا ہے اس پر یہ آیت اتری۔ امام ترمذی اسے حسن غریب بتاتے ہیں اور سند سے بھی یہ روایت مرسلاً مروی ہے اور موقوفا بھی واللہ اعلم۔ بخاری و مسلم میں ہے حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) فرماتے ہیں ہم آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ماتحتی میں جہاد کرتے تھے اور ہمارے ساتھ ہماری بیویاں نہیں ہوتی تھیں تو ہم نے کہا اچھا ہوگا اگر ہم خصی ہوجائیں لیکن اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں اس سے روکا اور مدت معینہ تک کیلئے کپڑے کے بدلے پر نکاح کرنے کی رخصت ہمیں عطا فرمائی پھر حضرت عبداللہ نے یہی آیت پڑھی۔ یہ یاد رہے کہ یہ نکاح کا واقعہ متعہ کی حرمت سے پہلے کا ہے واللہ اعلم۔۔ معقل بن مقرن نے حضرت عبداللہ بن مسعود کو کہا کہ میں نے تو اپنا بستر اپنے اوپر حرام کرلیا ہے تو آپ نے یہی آیت تلاوت فرمائی۔ حضرت ابن مسعود کے سامنے کھانا لایا جاتا ہے تو ایک شخص اس مجمع سے الگ ہوجاتا ہے آپ اسے بلاتے ہیں کہ آؤ ہمارے ساتھ کھالو وہ کہتا ہے میں نے تو اس چیز کا کھانا اپنے اوپر حرام کر رکھا ہے۔ آپ فرماتے ہیں آؤ کھالو اپنی قسم کا کفارہ دے دینا، پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت فرمائی (مستدرک حاکم) ابن ابی حاتم میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن رواحہ (رض) کے گھر کوئی مہمان آئے آپ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس سے رات کو جب واپس گھر پہنچے تو معلوم ہوا کہ گھر والوں نے آپ کے انتظار میں اب تک مہمان کو بھی کھانا نہیں کھلایا۔ آپ کو بہت غصہ آیا اور فرمایا تم نے میری وجہ سے مہمان کو بھوکا رکھا، یہ کھانا مجھ پر حرام ہے۔ بیوی صاحبہ بھی ناراض ہو کر یہی کہہ بیٹھیں مہمان نے دیکھ کر اپنے اوپر بھی حرام کرلیا اب تو حضرت عبداللہ بہت گھبرائے کھانے کی طرف ہاتھ بڑھایا اور سب سے کہا چلو بسم اللہ کرو کھا پی لیا پھر جب حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے سارا واقعہ کہہ سنایا پس یہ آیت اتری، لیکن اثر منقطع ہے، صحیح بخاری شریف میں اس جیسا ایک قصہ حضرت ابوبکر صدیق کا اپنے مہمانوں کے ساتھ کا ہے اس سے امام شافعی وغیرہ علماء کا وہ قوم ثابت ہوتا ہے کہ جو شخص علاوہ عورتوں کے کسی اور کھانے پینے کی چیز کو اپنے اوپر حرام کرلے تو وہ اس پر حرام نہیں ہوجاتی اور نہ اس پر اس میں کوئی کفارہ ہے، دلیل یہ آیت اور دوسری وہ حدیث ہے جو اوپر گزر چکی کہ جس شخص نے اپنے اوپر گوشت حرام کرلیا تھا اسے حضور نے کسی کفارے کا حکم نہیں فرمایا۔ لیکن امام احمد اور ان کے ہم خیال جماعت علماء کا خیال ہے کہ جو شخص کھانے پہننے وغیرہ کی کسی چیز کو اپنے اوپر حرام کرلے تو اس پر قسم کا کفارہ ہے۔ جیسے اس شخص پر جو کسی چیز کے ترک پر قسم کھالے۔ حضرت ابن عباس کا فتویٰ یہی ہے اور اس کی دلیل یہ آیت (يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَآ اَحَلَّ اللّٰهُ لَكَ ۚ تَبْتَغِيْ مَرْضَاتَ اَزْوَاجِكَ ۭ وَاللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ) 66 ۔ التحریم :1) بھی ہے اور اس آیت کے بعد ہی کفارہ قسم کا ذکر بھی اسی امر کا مقتضی ہے کہ یہ حرمت قائم مقام قسم کے ہے واللہ اعلم۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں بعض حضرات نے ترک دنیا کا، خصی ہوجانے کا اور ٹاٹ پہننے کا عزم مصمم کرلیا اس پر یہ آیتیں اتریں۔ ایک روایت میں ہے کہ حضرت عثمان بن مظعون، حضرت علی بن ابی طالب، حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت مقداد بن اسود، حضرت سالم مولی، حضرت ابی حذیفہ وغیرہ ترک دنیا کا ارادہ کر کے گھروں میں بیٹھ رہے باہر آنا جانا ترک کردیا عورتوں سے علیحدگی اختیار کرلی ٹاٹ پہننے لگے اچھا کھانا اور اچھا پہننا حرام کرلیا اور نبی اسرائیل کے عابدوں کی وضع کرلی بلکہ ارادہ کرلیا کہ خصی ہوجائیں تاکہ یہ طاقت ہی سلب ہوجائے اور یہ بھی نیت کرلی کہ تمام راتیں عبادت میں اور تمام دن روزے میں گزاریں گے اس پر یہ آیت اتری یعنی یہ خلاف سنت ہے۔ پس حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں بلا کر فرمایا کہ تمہاری جانوں کا تم پر حق ہے، تمہاری آنکھوں کا بھی تم پر حق ہے۔ نفل روزے رکھو اور کبھی کبھی چھوڑ بھی دو ۔ نفل نماز رات کو پڑھو اور کچھ دیر سو بھی جاؤ جو ہماری سنت کو چھوڑ دے وہ ہم میں سے نہیں اس پر ان بزرگوں نے فرمایا یا اللہ ہم نے سنا اور جو فرمان ہوا اس پر ہماری گردنیں خم ہیں۔ یہ واقعہ بہت سے تابعین سے مرسل سندوں سے مروی ہے۔ اس کی شاہد وہ مرفوع حدیث بھی ہے جو اوپر بیان ہوچکی۔ فالحمد اللہ۔ ابن جریر میں ہے کہ ایک دن رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کے سامنے وعظ کیا اور اس میں خوف اور ڈر کا ہی بیان تھا اسے سن کر دس صحابیوں نے جن میں حضرت علی، حضرت عثمان بن مظعون وغیرہ تھے آپس میں کہا کہ ہمیں تو کوئی بڑے بڑے طریقے عبادت کے اختیار کرنا چاہئیں نصرانیوں کو دیکھو کہ انہوں نے اپنے نفس پر بہت سی چیزیں حرام کر رکھی ہیں اس پر کسی نے گوشت اور چربی وغیرہ کھانا اپنے اوپر حرام کیا، کسی نے دن کو کھانا بھی حرام کرلیا، کسی نے رات کی نیند اپنے اوپر حرام کرلی، کسی نے عورتوں سے مباشرت حرام کرلی۔ حضرت عثمان بن مظعون نے اپنی بیوی سے میل جول اسی بنا پر ترک کردیا۔ میاں بیوی اپنے صحیح تعلقات سے الگ رہنے لگے ایک دن یہ بیوی صاحبہ حضرت خولہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ کے پاس آئیں وہاں حضور کی ازواج مطہرات بھی تھیں انہیں پراگندہ حالت میں دیکھ کر سب نے پوچھا کہ تم نے اپنا یہ حلیہ کیا بنا رکھا ہے ؟ نہ کنگھی نہ چوٹی کی خبر ہے نہ لباس ٹھیک ٹھاک ہے نہ صفائی اور خوبصورتی کا خیال ہے ؟ کیا بات ہے ؟ حضرت خولہ (رض) نے فرمایا مجھے اب اس بناؤ سنگار کی ضرورت ہی کیا رہی ؟ اتنی مدت ہوئی جو میرے میاں مجھ سے ملے ہی نہیں نہ کبھی انہوں نے میرا کپڑا ہٹایا، یہ سن کر اور بیویاں ہنسنے لگیں اتنے میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے اور دریاف فرمایا کہ یہ ہنسی کیسی ہے ؟ حضرت عائشہ نے سارا واقعہ بیان فرمایا آپ نے اسی وقت آدمی بھیج کر حضرت عثمان کو بلوایا اور فرمایا یہ کیا قصہ ہے ؟ حضرت عثمان نے کل واقعہ بیان کر کے کہا کہ میں نے اسے اس لئے چھوڑ رکھا ہے کہ اللہ کی عبادت دلچسپی اور فارغ البالی سے کرسکوں بلکہ میرا ارادہ ہے کہ میں خصی ہوجاؤں تاکہ عورتوں کے قابل ہی نہ رہوں۔ آپ نے فرمایا میں تجھے قسم دیتا ہوں جا اپنی بیوی سے میل کرلے اور اس سے بات چیت کر۔ جواب دیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس وقت تو میں روزے سے ہوں فرمایا جاؤ روزہ توڑ ڈالو چناچہ انہوں نے حکم برداری کی، روزہ توڑ دیا اور بیوی سے بھی ملے۔ اب پھر جو حضرت خولاء آئیں تو وہ اچھی ہئیت میں تھیں۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ نے ہنس کر پوچھا کہو اب کیا حال ہے جواب دیا کہ اب حضرت عثمان نے اپنا عہد توڑ دیا ہے اور کل وہ مجھ سے ملے بھی۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں میں فرمایا لوگو یہ تمہارا کیا حال ہے کہ کوئی بیویاں حرام کر رہا ہے، کوئی کھانا، کوئی سونا۔ تم نہیں دیکھتے کہ میں سوتا بھی ہوں اور قیام بھی کرتا ہوں، افطار بھی کرتا ہوں اور روزے سے بھی رہتا ہوں۔ عورتوں سے ملتا بھی ہوں نکاح بھی کر رکھے ہیں۔ سنو جو مجھ سے بے [ ا۔ ی ] غبتی کرے وہ مجھ سے نہیں ہے، اس پر یہ آیت اتری۔ حد سے نہ گزرو سے مطلب یہ ہے کہ عثمان کو خصی نہیں ہونا چاہیے۔ یہ حد سے گزر جانا ہے اور ان بزرگوں کو اپنی قسموں کا کفارہ ادا کرنے کا حکم ہوا اور فرمایا آیت (لَا يُؤَاخِذُكُمُ اللّٰهُ باللَّغْوِ فِيْٓ اَيْمَانِكُمْ وَلٰكِنْ يُّؤَاخِذُكُمْ بِمَا كَسَبَتْ قُلُوْبُكُمْ ۭ وَاللّٰهُ غَفُوْرٌ حَلِيْمٌ) 2 ۔ البقرۃ :225) پس لا تعتدوا سے مراد یا تو یہ ہے کہ اللہ نے جن چیزوں کو تمہارے لئے مباح کیا ہے تم انہیں اپنے اوپر حرام کر کے تنگی نہ کرو اور یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ حلال بقدر کفایت لے لو اور اس حد سے آگے نہ نکل جاؤ۔ جیسے فرمایا کھاؤ پیو لیکن حد سے نہ بڑھو۔ ایک اور آیت میں ہے ایمانداروں کا ایک وصف یہ بھی ہے کہ وہ خرچ کرنے میں اسراف اور بخیلی کے درمیان درمیان رہتے ہیں۔ پس افراط وتفریط اللہ کے نزدیک بری بات ہے اور درمیانی روش رب کو پسند ہے۔ اسی لئے یہاں بھی فرمایا حد سے گزر جانے والوں کو اللہ ناپسند فرماتا ہے۔ پھر فرمایا اللہ تعالیٰ جو حلال و طیب چیزیں تمہیں دے رکھی ہیں انہیں کھاؤ پیو اور اپنے تمام امور میں اللہ سے ڈرتے رہو اس کی اطاعت اور طلب رضا مندی میں رہا کرو۔ اس کی نافرمانی اور اس کی حرام کردہ چیزوں سے الگ رہو۔ اسی اللہ پر تم یقین رکھتے ہو، اسی پر تمہارا ایمان ہے پس ہر امر میں اس کا لحاظ رکھو۔