الذاریات آية ۳۷
وَتَرَكْنَا فِيْهَاۤ اٰيَةً لِّـلَّذِيْنَ يَخَافُوْنَ الْعَذَابَ الْاَلِيْمَۗ
طاہر القادری:
اور ہم نے اُس (بستی) میں اُن لوگوں کے لئے (عبرت کی) ایک نشانی باقی رکھی جو دردناک عذاب سے ڈرتے ہیں،
English Sahih:
And We left therein a sign for those who fear the painful punishment.
1 Abul A'ala Maududi
اس کے بعد ہم نے وہاں بس ایک نشانی اُن لوگوں کے لیے چھوڑ دی جو درد ناک عذاب سے ڈرتے ہوں
2 Ahmed Raza Khan
اور ہم نے اس میں نشانی باقی رکھی ان کے لیے جو دردناک عذاب سے ڈرتے ہیں
3 Ahmed Ali
اورہم نے اس واقعہ میں ایسے لوگو ں کے لیے ایک عبرت رہنے دی جو دردناک عذاب سے ڈرتے ہیں
4 Ahsanul Bayan
اور ہم نے ان کے لئے جو دردناک عذاب کا ڈر رکھتے ہیں ایک (کامل) علامت چھوڑی (١)
٣٧۔١ یہ آیت یا کامل علامت وہ آثار عذاب ہیں جو ان ہلاک شدہ بستیوں میں ایک عرصے تک باقی رہے۔ اور یہ علامت بھی انہی کے لئے ہے جو عذاب الٰہی سے ڈرنے والے ہیں، کیونکہ وعظ و نصیحت کا اثر بھی وہی قبول کرتے ہیں اور آیات میں غور و فکر بھی وہی کرتے ہیں۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور جو لوگ عذاب الیم سے ڈرتے ہیں ان کے لئے وہاں نشانی چھوڑ دی
6 Muhammad Junagarhi
اور وہاں ہم نے ان کے لیے جو درد ناک عذاب کا ڈر رکھتے ہیں ایک (کامل) علامت چھوڑی
7 Muhammad Hussain Najafi
اور ہم نے اس (واقعہ) میں ایک نشانی چھوڑ دی ہے ان لوگوں کے لئے جو دردناک عذاب سے ڈرتے ہیں۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور وہاں ان لوگوں کے لئے ایک نشانی بھی چھوڑ دی جو دردناک عذاب سے ڈرنے والے ہیں
9 Tafsir Jalalayn
اور جو لوگ عذاب الیم سے ڈرتے ہیں ان کے لئے وہاں نشانی چھوڑ دی
وترکنا فیھا آیۃ للذین یخافون العذاب الالیم اس کے بعد ہم نے بس ایک نشانی ان لوگوں کے لئے چھوڑ دی جو درد ناک عذاب سے ڈرتے ہیں۔
وہ نشانی کیا تھی ؟
بعض مفسرین حضرات نے ان نشان زدہ کنکریوں کو نشانی قرار دیا ہے اور بعض حضرات نے کہا ہے کہ اس نشانی سے مراد بحیرہ مردار (Dead Sea) ہے جس کا جنوبی علاقہ آج بھی تباہی و بربادی کے آثار پیش کر رہ ا ہے، ماہرین آثار قدیمہ کا اندازہ ہے کہ قوم لوط کے بڑے شہر غالباً شدید زلزلے سے زمین کے اندر دھنس گئے تھے اور ان کے اوپر بحیرہ مردار کا پانی پھیل گیا تھا۔ کیونکہ اس بحیرہ کا وہ حصہ جو ” اللسان “ نامی چھوٹے سے جزیرہ نما کے جنوب میں واقع ہے صاف طور پر بعد کی پیداوار معلوم ہوتا ہے اور قدیم بحیرہ مردار کے جو آثار اس جزیرہ نما کے شمال تک نظر آتے ہیں وہ جنوب میں پائے جانے والے آثار سے بہت مختلف ہیں، اس لئے یہ قیاس کیا جاسکتا ہے کہ جنوب کا حصہ پہلے اس بحیرہ کی سطح سے بلند تھا بعد میں کسی وقت دھنس کر اس کے نیچے چلا گیا اس کے دھنسنے کا زمانہ بھی دو ہزار قبل مسیح کے لگ بھگ معلوم ہوتا ہے اور یہی تاریخی طور پر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور حضرت لوط (علیہ السلام) کا زمانہ ہے، 1965 ء میں آثار قدیمہ کی تلاش کرنے والی ایک امریکی جماعت کو اللسان پر ایک بہت بڑا قبرستان ملا ہے جس میں بیس ہزار سے زیادہ قبریں ہیں، اس سے انداز ہوتا ہے کہ قریب میں کوئی بڑا شہر ضرور آباد تھا مگر کسی ایسے شہر کے آثار آس پاس کہیں موجود نہیں ہیں، جس سے متصل اتنا بڑا قبرستان بن کستا ہو، اس سے بھی اس شبہ کی تقویت ہوتی ہے کہ جس شہر کا یہ قبرستان تھا وہ بحیرہ میں غرق ہوچکا ہے، بحیرہ کے جنوب میں جو علاقہ ہے اس میں با بھی ہر طرف تباہی کے آثار موجود ہیں اور زمین میں گندھک، رال تار کول اور قدرتی گیس کے اتنے بڑے ذخائر پائے جاتے ہیں کہ جنہیں دیکھ کر گمان ہوتا ہے کہ کسی وقت بجلیوں کے گرنے سے یا زلزلے کالا وا نکلنے سے یہاں ایک جہنم پھٹ پڑی ہوگی۔
10 Tafsir as-Saadi
﴿وَتَرَکْنَا فِیْہَآ اٰیَۃً لِّلَّذِیْنَ یَخَافُوْنَ الْعَذَابَ الْاَلِیْمَ﴾ اور ہم نے ان کے بارے میں لوگوں کے لیے نشانی چھوڑ دی جو دردناک عذاب سے ڈرتے ہیں۔ اس سے وہ عبرت حاصل کرتے ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ سخت عذاب دینے والا ہے اور اس کے رسول سچے ہیں جن کی تصدیق کی گئی ہے۔
اس قصے سے حاصل شدہ بعض فوائد
1۔ اللہ تبارک وتعالی کے اپنے بندوں کے سامنے نیک اور بد لوگوں کے واقعات بیان کرنے میں یہ حکمت پوشیدہ ہے کہ بندے ان سے عبرت حاصل کریں اور تاکہ معلوم ہوجائے کہ ان کے احوال نے انہیں کہاں پہنچا دیا۔
2۔ اس قصے میں ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی فضیلت کی طرف اشارہ ہے اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے قصے کی ابتدا کی جو اس قصے کی اہمیت کی دلیل ہے اور اس کی طرف اللہ تعالیٰ کی خصوصی توجہ کا اظہار ہوتا ہے۔
3۔ یہ قصہ ضیافت کی مشروعیت پر دلالت کرتا ہے نیز اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مہمانوں کی خاطر تواضع کرنا ابراہیم علیہ السلام کی عادت تھی اللہ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی امت کو حکم دیا کہ وہ ملت ابراہیم کی اتباع کریں اور اس مقام پر اللہ نے اس قصے کی مدح وثنا کے سیاق میں بیان کیا ہے۔
4۔ اس واقعہ میں اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ قول وفعل اور اکرام وتکریم کے مختلف طریقوں سے مہمان کی عزت وتکریم کی جائے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے مہمانوں کا یہ وصف بیان فرمایا کہ وہ قابل تکریم تھے یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام ان کی عزت وتکریم کی۔ اللہ تعالیٰ نے بھی بیان فرمایا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے قول فعل سے کس طرح ان کی مہمان نوازی کی نیز یہ بھی بیان فرمایا کہ وہ مہمان اللہ تعالیٰ کے ہاں بھی اکرام وتکریم سے بہرہ مند تھے۔
5۔ اس واقعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کا گھر رات کے وقت آنے والے مسافروں اور مہمانوں کاٹھکانا تھا کیونکہ وہ اجازت طلب کیے بغیر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے گھر میں داخل ہوئے اور سلام میں پہل کرنے میں ادب کا طریقہ استعمال کیا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بھی کامل ترین سلام کے ساتھ ان کو جواب دیا کیونکہ جملہ اسمیہ اثبات اور استمرار پر دلالت کرتا ہے۔
6۔ یہ قصہ دلالت کرتا ہے کہ انسان کے پاس جو کوئی آتا ہے یا اسے ملتا ہے تو اس سے تعارف حاصل کرنا مشروع ہے کیونکہ اس میں بہت سے فوائد ہیں۔
7۔ یہ واقعہ بات چیت میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے آداب اور آپ کے لطف وکرم پر دلالت کرتا ہے آپ نے (اپنے مہمانوں سے) فرمایا تھا: ﴿قَوْمٌ مُّنكَرُونَ﴾(الذاریات:51؍25 )’’تم اجنبی لوگ ہو۔،، اور یہ نہیں فرمایا کہ "أَنْکَرْتُکُم"’’میں تمہیں نہیں پہچانتا،، اور دونوں جملوں میں جو فرق ہے وہ مخفی نہیں۔
8۔ یہ واقعہ مہمان نوازی میں جلدی کرنے پر دلالت کرتا ہے کیونکہ بہترین نیکی وہ ہے جس پر جلدی سے عمل کیا جائے اس لیے ابراہیم علیہ السلام نے مہمانوں کے سامنے ضیافت پیش کرنے میں عجلت کی۔
9۔ اس واقعہ سے ثابت ہوتا ہے کہ ایسا ذبیحہ کھانا جو کسی اور کے لیے تیار کیا گیا ہو اسے مہمان کی خدمت میں پیش کرنے میں اس کی ذرہ بھر اہانت نہیں بلکہ اس کی عزت وتکریم ہے جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کیا تھا اور اللہ تبارک وتعالی نے خبر دی ہے کہ وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے مکرم مہمان تھے۔
10۔ اللہ تبارک وتعالی نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بکثرت رزق سے نوازرکھا تھا اور یہ رزق ان کے پاس گھر میں ہر وقت موجود رہتا تھا انہیں بازار سے لانے کی ضرورت ہوتی تھی نہ پڑوسیوں سے مانگنے کی۔
11۔ اس واقعہ سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بنفس نفیس مہمانوں کی خدمت کی، حالانکہ آپ اللہ تعالیٰ کے خلیل اور مہمان نوازوں کے سردار تھے۔
12۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مہمانوں کو اسی جگہ ضیافت پیش کی جہاں وہ موجود تھے کسی اور جگہ ضیافت کے لیے انہیں نہیں بلایا کہ آئیے تشریف لائیے کیونکہ مہمان کو اس کی جگہ کھانا پیش کرنے میں مہمان کے لیے زیادہ آسانی اور بہتر ہے۔
13۔ اس واقعہ میں اس بات کی دلیل ہے کہ مہمان کے ساتھ نرم کلامی اور ملاطفت سے پیش آنا چاہیے خاص طور پر کھانا پیش کرتے وقت کیونکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے نہایت نرمی سے اپنے مہمانوں کی خدمت میں کھاناپیش کیا تھا ﴿أَلَا تَأْكُلُونَ﴾( الذاریات :51؍27) ’’آپ تناول کیوں نہیں کرتے؟،، اور یہ نہیں کہا تھا کُلُوا ’’کھانا کھالو،، بلکہ آپ نے اس قسم کے الفاظ استعمال فرمائے جن میں درخواست اور التماس کا مفہوم پایا جاتا ہے چنانچہ فرمایا ﴿أَلَا تَأْكُلُونَ﴾(الذاریات :51؍27) ’’آپ کھانا تناول کیوں نہیں کرتے؟،، چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پیروی کرنے والے کو چاہیے کہ وہ بہترین الفاظ استعمال کرے جو مہمان کے لیے مناسب اور لائق حال ہوں مثلاً آپ کا مہمانوں سے کہنا کیا آپ کھانا تناول نہیں کریں گے ؟ ہمیں شرف بخشئے اور ہم پر عنایت کیجئے اور اس قسم کے دیگر الفاظ۔
14۔ اس واقعہ سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی بھی سبب کی بنا پر کسی سے خوفزدہ ہوجائے تو خوف زدہ کرنے والے کافرض ہے کہ وہ اس کے خوف کو زائل کرنے کی کوشش کرے اور اس کے سامنے ایسی باتوں کا ذکر کرے جس سے اس کا خوف دور ہو اور وہ پرسکون ہوجائے۔ جیسا کہ فرشتوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کہا تھا جب وہ ان سے خوفزدہ ہوگئے تھے۔ ﴿لَا تَخَفْ﴾ (الذاریات:51؍28) ’’ڈرئیے مت!،، اور انہوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو وہ خوش کن خبر سنائی۔
15۔ یہ قصہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زوجہ محترمہ کی بے انتہا مسرت وفرحت پر دلالت کرتا ہے حتیٰ کہ انہوں نے خوشی میں چلا کر بے ساختگی سے اپنا چہرہ پیٹ ڈالا۔
16۔ اس قصہ سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور آپ کی زوجہ محترمہ کو ایک علم رکھنے والے بیٹے کی بشارت سے نوازا۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur hum ney uss basti mein unn logon kay liye ( ibrat ki ) aik nishani chorr di jo dardnak azab say dartay hon .