النجم آية ۱
وَالنَّجْمِ اِذَا هَوٰىۙ
طاہر القادری:
قَسم ہے روشن ستارے (محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جب وہ (چشمِ زدن میں شبِ معراج اوپر جا کر) نیچے اترے،
English Sahih:
By the star when it descends,
1 Abul A'ala Maududi
قسم ہے تارے کی جبکہ وہ غروب ہوا
2 Ahmed Raza Khan
اس پیارے چمکتے تارے محمد کی قسم! جب یہ معراج سے اترے
3 Ahmed Ali
ستارے کی قسم ہے جب وہ ڈوبنے لگے
4 Ahsanul Bayan
قسم ہے ستارے کی جب وہ گرے (١)
١۔١ بعض مفسرین نے ستارے سے ثریا ستارہ اور بعض نے زہرہ ستارہ مراد لیا ہے، یعنی جب رات کے اختتام پر فجر کے وقت وہ گرتا ہے، یا شیاطین کو مارنے کے لئے گرتا ہے یا بقول بعض قیامت والے دن گریں گے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
تارے کی قسم جب غائب ہونے لگے
6 Muhammad Junagarhi
قسم ہے ستارے کی جب وه گرے
7 Muhammad Hussain Najafi
قَسم ہے ستارے کی جبکہ وہ ڈوبنے لگے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
قسم ہے ستارہ کی جب وہ ٹوٹا
9 Tafsir Jalalayn
تارے کی قسم جب غائب ہونے لگے
ترجمہ : شروع کرتا ہوں میں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان، نہایت رحم والا ہے، قسم ہے ثریا ستارے کی جب گرے یعنی غائب ہو تمہارا ساتھی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) راہ ہدایت سے نہ بہکا اور نہ بھٹکا یعنی اس نے (اعتقاداً ) کج روی اختیار نہیں کی اور وہ (ینی غی) اعتقاد فاسد سے پیدا ہونے والا جہل ہے، اور جو کچھ وہ تم سے بیان کرتے ہیں اور پانی خواہش نفس سے بیان نہیں کرتے وہ تو صرف وحی ہے جو اس کی طرف نازل کی جاتی ہے اس وحی کی ان کو ایک فرشتہ نے تعلیم دی ہے، جو بڑا طاقتور ہے اور زور آور ہے یعنی قوت و شدت والا ہے، یا حسین المنظر ہے یعنی جبرئیل (علیہ السلام) پھر وہ سیدھا کھڑا ہو کر ٹھہر گیا حال یہ ہے کہ وہ مشرق کی بالائی افق پر تھا یعنی طلوع شمس کی جگہ اپنی (اصلی) صورت پر جس پر اس کو پیدا کا گیا ہے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو دیکھا جب کہ آپ (غار) حراء میں تھے، حال یہ کہ (جانب) مغرب تک اس نے افق کو بھر دیا، تو آپ بیہوش ہو کر گرپڑے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جبرائیل سے سوال کیا تھا کہ وہ انہیں خود کو اپنی اس صورت میں دکھائیں جس پر اس کو پیدا کیا گیا ہے چناچہ جبرئیل (علیہ السلام) نے آپ سے حراء میں اس کا وعدہ کرلیا پھر حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے انسانی شکل میں نزول فرمایا پھر وہ آپ کے قریب آیا پھر وہ اتر آیا (یعنی) زیادہ قریب ہوا، تو وہ آپ سے بقدر دو کمانوں یا اس سے بھی زیادہ قریب ہوگیا، یہاں تک کہ آپ کو (بیہوشی سے) افاقہ ہوا اور آپ کا خوف جاتا رہا پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے جبرئیل کی طرف وحی بھیجی جو جبرئیل (علیہ السلام) نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف پہنچا دی اور موحی بہ کا ذکر نہیں کیا (یعنی) عظمت شان کو ظاہر کرنے کے لئے مبہم رکھا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قلب مبارک نے اس صورت کی تردید نہیں کی جو صورت آپ نے اپنی نظر سے جبرئیل علیہ ال صلاۃ والسلام کی دیکھی، کذب تخفیف اور تشدید کے ساتھ ہے سو کیا تم اس (پیغمبر) کی دیکھی ہوئی چیز میں مجادلہ کرتے ہو اور ان پر غالب آنے کی کوشش کرتے ہو، یہ خطاب ان مشرکین سے ہے جو آپ کے جبرئیل (علیہ السلام) کو دیکھنے سے منکر تھے اور اسے تو اصل صورت میں ایک مرتبہ سدرۃ المنتہی کے پاس اس کے علاوہ بھی دیکھا ہے جبکہ آپ کو رات کے وقت آسمانوں پر لیجایا گیا اور وہ عرش کی دائیں جانب بیری کا درخت ہے اس سے آگے فرشتہ وغیرہ کوئی نہیں بڑھ سکتا، اسی کے پاس جنت الماوی ہے جس میں فرشتے اور شہداء کی روحیں یا متقیوں کی روحیں سکونت پذیر رہتی ہیں، جبکہ سدرہ کو چھپائے لیتی تھیں وہ چیزیں جو اس پر چھا رہی تھیں، پرند وغیرہ اور اذا، راہ کا معمول ہے آپ کی نظر نہ ہٹی اور نہ بڑھی یعنی آپ کی نظر اس رات مطلمح نظر سے نہ پھری اور نہ تجاوز کیا، یقیناً آپ نے اس رات میں اپنے رب کی عظیم نشانیوں میں سے بعض کو دیکھا آپ نے عالم ملکوت کے عجائبات میں سبز رفرف کو دیکھا جس نے افق آسمان کو بھر دیا، اور جبرئیل کو دیکھا ان کے چھ سو بازو ہیں کیا تم نے لات اور عزیٰ کو اور پچھلے منات کو دیکھا (یعنی ان کے بارے میں غور کیا) جو سابق دو کا تیسرا ہے الاخری، ثالثۃ کی صفت ذم ہے اور وہ پتھر کے بت ہیں، مشرکین ان کی پوجا کیا کرتے تھے اور یہ دعویٰ کرتے تھے کہ یہ اللہ کے حضور ہماری شفاعت کریں گے اور ارایتم کا مفعول اول اللات اور اس پر جس کا عطف کیا گیا وہ ہے اور دوسرا مفعول محذوف ہے اور معنی یہ ہیں کہ مجھے بتائو کہ کیا ان بتوں کو کسی شئی پر قدرت حاصل ہے جس کی وجہ سے تم اللہ عزو جل کو چھوڑ کر ان کی بندگی کرتے ہو جو کہ قادر ہے جیسا کہ ماقبل میں مذکور ہوا اور جبکہ ان کا دعویٰ یہ بھی تھا کہ فرشتے اللہ کی یٹیاں ہیں باوجود ان کے بیٹیوں کو ناپسند کرنے کے، توالکم الذکر ولہ النثی (الآیۃ) نازل ہوئی (یعنی) کیا تمہارے لئے بیٹے اور اس کے لئے بیٹیاں، تب تو یہ بڑی دھاندلی کی تقسیم ہے یعنی ظالمانہ ہے، یہ ضازہ، یضیزہ سے ماخوذ ہے کہ اس پر ظلم و زیادتی کرے یہ مذکور محض چند نام ہیں جو تم نے یعنی ان کے تم نے یہ نام رکھ لئے ہیں اور تمہارے آباء نے ان بتوں کے رکھ لئے ہیں جن کی تم پوجا کرتے ہو ان کی عبادت کے بارے میں اللہ نے کوئی دلیل اور حجت نہیں اتاری یہ لوگ ان کی بندگی کے بارے میں محض ظن اور خواہشات نفس کی پیروی کرتے ہیں یعنی ان گمانوں کی جو شیطان نے ان کے لئے آراستہ کردیئے ہیں، یہ کہ یہ بت اللہ کے حضور میں ان کی شفاعت کریں گے اور یقینا ان کے پاس ان کے رب کی طرف سے نبی (علیہ السلام) کی زبانی برہان قاطع کے ساتھ ہدایت آچکی پھر بھی وہ اپنے اختیار کردہ روش سے باز نہیں آئے کیا انسان کے لئے یعنی ان میں سے ہر انسان کے لئے وہ میسر ہے جس کی وہ آرزو کرے ؟ یہ کہ یہ بت ان کی شفاعت کریں گے، بات ایسی نہیں وہ جہان اور یہ جہان اسی کے قبضے میں ہے لہٰذا دونوں جہانوں میں وہی ہوگا جو وہ چاہے گا۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : والنجم وائو قسمیہ ہے، النجم ستارہ (جمع) نجوم وانجم اسم جنس ہے، اس پر اسمیت غالب آگئی ہے جب مطلق بولا جاتا ہے تو ثریا ستارہ مراد ہوتا ہے، النجم سے یہاں کیا مراد ہے ؟ اس میں چند اقوال ہیں : (١) ایک جماعت نے کہا ہے کہ جنس نجوم مراد ہے (٢) ثریا ستارہ مراد ہے (مفسر علام نے یہی قول اختیار کیا) مجاہد وغیرہ نے بھی یہی مراد لیا ہے (٣) سدی نے کہا زہرہ ستارہ مراد ہے، عرب کا ایک قبیلہ اس کی پوجا کرتا تھا (٤) بعض حضرات نے بیلدار گھاس مراد لی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے قول والنجم والشجر یسجدان میں اخفش کا یہی قول ہے (٥) کہا گیا ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مراد ہیں 6 بعض حضرات نے قرآن مراد لیا ہے، اس کے نجماً نجماً نازل ہونے کی وجہ سے، مجاہد و فراء وغیرہ کا یہی قول ہے، اس کے علاوہ بھی اور بہت سے اقوال ہیں، مگر راجح قول ثریا ہے۔ (فتح القدیر شوکانی) ثریا سات ستاروں کے مجموعہ کا نام ہے چھ ان میں سے ظاہر ہیں اور ایک مخفی ہے بعض حضرات نے سات سے بھی زیادہ کا مجموعہ بتایا ہے، لوگ ثریا سے اپنی نظروں کا امتحان کرتے ہیں شفاء میں قاضی عیاض نے لکھا ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ثریا کے گیارہ ستاروں کو دیکھ لیا کرتے تھے، اور مجاہد سے بھی ایسا ہی قول مروی ہے۔ (حمل)
قولہ : اذا ھوی (ض) ای سقط وغاب
قولہ : ماضل صاحبکم وما غوی یہ عطف خاص علی العام کے قبیل سے ہے ضلالت، ہر قسم کی گمراہی خواہ اعتقادی ہو یا عملی اور غوایۃ اعتضادی گمراہی اور بعض حضرات نے کہا ہے ضلال علمی گمراہی اور غوایۃ عملی گمراہی، اور بعض نے دونوں کو مترادف کہا ہے۔ (صاوی)
قولہ : عن الھویٰ اسم مصدر (سمع) ناجائز رغبت نفس، عن الھویٰ ، ماینطق کے متعق ہے یعنی آپ کا کوئی کلام خواہش نفس سے نہیں ہوتا۔
قولہ : ان ھو، ھو کا مرجع نطق ہے جو ینطق سے مفہوم ہے۔
قولہ : یوحی یہ وحی کی صفت ہے احتمال مجاز کو ختم کرنے کے لئے۔ (صاوی)
قولہ : علمہ ایاہ ضمیر منصوب متصل آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف رجوع ہے اور مفعول اول ہے اور دوسری ضمیر منصوب منفصل جس کو مفسر علام نے محذوف مانا ہے وہ مفعول ثانی ہے اور وحی کی طرف راجع ہے۔
قولہ : شدید القویٰ یہ موصوف محذوف کی صفت ہے جس کو مفسر علام نے ملک محذوف مان کر اشارہ کردیا ہے مراد جبرئیل ہیں۔
قولہ : ذومرۃ مرۃ قوت باطنی، جیسے عزم، سرعت حرکت اور بعض حضرات نے مرۃ سے علم اور بعض نے حسن و جمال مراد لیا ہے، منظر حسن کہہ کر اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے، اور شدید القویٰ ظاہری قوت، یعنی اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرئیل کو، قوۃ ظاہری اور قوت باطنی بدرجہ اتم عطا فرمائی تھیں۔
قولہ : فاستوی، علمہ شدید القویٰ پر اس کا عطف ہے۔
قولہ : وھو بالافق الاعلیٰ جملہ حالیہ ہے۔
قولہ : فتدلی تدلی سے ماضی واحد مذکر غائب وہ اتر آیا، وہ لٹک آیا، وہ قریب ہوا، یہ دلیت الدلو فی البئر سے ماخوذ ہے، میں نے کنوئیں میں ڈول لٹکایا، اتارا۔
سوال : قرب نزول کے بعد ہوتا ہے، لہٰذا یہ کہنا کہ قریب ہوا اور پھر نازل ہوا، مناسب معلوم نہیں ہوتا۔
جواب : مفسر علام نے زاد فی القرب کا اضافہ اسی شبہ کا جواب دینے کے لئے کیا ہے یعنی حضرت جبرائیل قریب ہوئے اور پھر اور زیادہ قریب ہوئے، اور بعض حضرات نے مذکورہ شبہ کا یہ جواب دیا کہ کلام میں تقدیم و تاخیر ہے، تقدیر عبارت یہ ہے ثم تدلی فدنی یعنی جبرئیل اترے اور قریب ہوئے۔
قولہ : قاب قوسین القاب و القیب، ولقادوالقید، المقدار، عرب میں ناپنے اور اندازہ کرنے کے مختلف طریقے تھے ان میں سے ایک طریقہ قوس (کمان) سے ناپنے کا بھی تھا، قوس کے علاوہ عرب رح (نیزہ) سوط کوڑا، ذراع الباع الخطوۃ (قدم) الشبر (بالشت) فتر (انگشت شہادت اور انگوٹھے کے درمیان کا حصہ) والاصبع (انگشت) سے بھی ناپتے تھے۔ یعنی جبرئیل علیہ الصلاۃ والسام آپ سے اتنے قریب ہوگئے کہ صرف دو کمانوں کی مقدار دور رہ گئے، بعض حضرات نے کہا ہے کہ قاب اس فاصلہ کو کہتے ہیں جو کمان کے مقبض اور کنارے کے درمیان ہوتا ہے اور دو کمانوں کے دو قاب ہوتے ہیں۔
قولہ : او ادنی میں او بمعنی بل ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے قول اویزیدون میں او بمعنی بل ہے اور اگر او اپنی اصل پر ہو تو شک رائی (دیکھنے والے) کے اعتبار سے ہوگا۔
قولہ : حتی افاق یہ محذوف کی غایت ہے، تقدیر عبارت یہ ہے ای ضمہ الیہ حتی افاق
قولہ : حتی افاق یہ محذوف کی غایت ہے، تقدیر عبارت یہ ہے ای ضمہ الیہ حتی افاق
قولہ : ماکذب بالتشدید و التخفیف دونوں قراءتیں سبعیہ ہیں، تشدید کی صورت میں ترجمہ ہوگا، جو کچھ آپ کی نظر نے دیکھا قلب نے اس میں شرک نہیں کیا۔ (صاوی)
قولہ : من صورۃ جبرئیل یہ ما کا بیان ہے۔
قولہ : وتغلبونہ، تمارونہ کی دوسری تفسیر تغلبونہ سے کر کے اشارہ کردیا کہ تمارونہ، تغلبونہ کے معنی کو متضمن ہے اور اس کا صلہ علی لانا درست ہے۔
قولہ : الماوی مصدر، اور اسم ظرف ہے، قیام کرنا، رہنا، سکونت اختیار کرنا، مقام سکونت، ٹھکانہ (ض) اگر صلہ میں الیٰ آئے تو پناہ لینا اور اگر اس کا صلہ لام ہو تو مہربانی کرنا، جیسے اوی لہ اس پر مہربانی کی، اس پر رحم کیا۔
قولہ : لقد رای لام جواب قسم پر ہے اور قسم، اقسم محذوف ہے۔
قولہ : من آیات ربہ الکبریٰ ، من تبعیضیہ ہے اور رای کا مفعول ہے جیسا کہ مفسر علام نے اشارہ کیا ہے اور کبری آیات کی صفت ہے۔
سوال : الآیات موصوف جمع ہے اور کبریٰ صفت واحد ہے موصوف اور صفت میں مطابقت نہیں ہے۔
جواب :۔ ال آیت ایسی جمع ہے کہ اس کی صفت واحد مئونث لانا درست ہے اس کے علاوہ فواصل کی رعایت کی وجہ سے اس میں مزید حسن پیدا ہوگیا۔ (حمل)
اس میں دوسری ترکیب یہ بھی ہوسکتی ہے الکبری رای کا مفعول بہ اور من آیات ربہ حال مقدم، تقدیر عبارت یہ ہے کہ لقد رای الآیات الکبری حال کونھا من جملۃ آیات ربہ
قولہ : رفرفا، قالین، رفرفا، حضراً سبز قالین، چاندیاں، تکئے، ہرے بھرے باغیچے اس کا واحد رفرفۃ ہے۔ (لغات القرآن)
قولہ : افرایتم الات والعزی استفہاء تو بیجی ہے، لات اس بت کا نام ہے جو کعبہ میں نصب تھا، بعض حضرات نے کہا ہے کہ یہ بت طائف میں تھا اور یہ بنو ثقیف کا دیوتا تھا، اس کی تحقیق میں بعض حضرات نے کہا ہے کہ یہ لت السویق سے ماخوذ ہے، لات اسم فاعل کا صیغہ ہے گوندھنے والا، ملانے والا، ایک شخص جو کہ حجاج کو ستو گھول کر پلایا کرتا تھا، کلبی نے کہا ہے کہ اس کا اصل نامہ صرمہ بن غنم تھا (خلاصہ التفاسیر) جب اس کا انتقال ہوگیا تو جس پتھر پر بیٹھ کر وہ ستو گھولا اور پلایا کرتا تھا اسی پتھر کا ایک بڑا بت تراش کر رکھ دیا بعدازاں لوگوں نے اس کی پوجا شروع کردی، یہ وہی لات ہے۔
قولہ : عزی یہ اعز کی تانیث ہے یہ قبیلہ غطفان کے بت کا نام ہے اور بعض نے کہا ہے کہ یہ ایک ببول کا درخت تھا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خالد بن ولید کو بھیج کر اس درخت کو کٹوا دیا تھا، جب اس درخت کو کاٹا تو اس میں سے ایک (جنیہ) بھوتنی سر کے بال بکھیرے ہوئے اور ہاتھ سر پر رکھ ہوئے خرابی خرابی چلاتی ہوئی نکلی، حضرت خالد (رض) نے اس کو تلوار سے قتل کردیا، حضرت خالد نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس کی اطلاع دی تو آپ نے فرمایا یہی عزی ہے۔
قولہ : مناۃ یہ ایک پتھر تھا جو ہذیل اور خزاعہ کا دیوتا تھا اور حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ یہ بنی ثقیف کا دیوتا تھا، یہ منی یمنی سے ماخوذ ہے اس کے معنی بہانے کے ہیں، چونکہ اس کے پاس کثرت سے جانور ذبح ہوتے تھے جس کی وجہ سے بہت خون بہتا تھا، اسی وجہ سے اس کا نام مناۃ ہوگیا۔
قولہ : الاخری یہ ثالثۃ کی صفت ذم ہے، یعنی رتبے کے اعتبار سے تیسرے نمبر کا۔
سوال :۔ جب ثالثۃ کہہ دیا تو اس کا اخری ہونا خود بخود معلوم ہوگیا، پھر اخری کہنے کی کیا ضرورت ؟
جواب : الاخری صفت ذم ہے اس لئے کہ مراد رتبہ میں تاخیر ہے ہے نہ کہ ذکر و شمار میں جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے قول قالت اخراھم، لاولھم ای صعفائوھم لرئوسائھم
قولہ : الثانی محذوف الات اپنے معطوفات سے مل کر ارایتم بمعنی اخبرونی کا مفعول اول ہے اور الھذہ الاصنام الخ جملہ استفہامیہ مفعول ثانی ہے۔
قولہ : تلک، تلک کا مشار الیہ قسمۃ ہے جو ماقبل کے ماقبل کے جملہ استفہامیہ سے مفہوم ہے۔
قولہ : ضیزی یہ ضیر سے ماخوذ ہے بمعنی ظلم، یاء، کی رعایت سے ضاد کے ضمہ کو کسرہ سے بدل دیا گیا، جیسا کہ بیض میں کیا ہے، اس لئے کہ فعلی کا وزن صفت کے لئے مستعمل نہیں ہے۔
سوال : مفسر علام نے سمیتموھا کی تفسیر سمیتم بھا سے کیوں کی ؟
جواب : اس کا مقصد ایک اعتراض کا دفعیہ ہے، اعتراض یہ ہے کہ اسماء کا نام نہیں رکھا جاتا جیسا کہ بظاہر سمیتموھا سے مفہوم ہوتا ہے بلکہ مسمی کا نام رکھا جاتا ہے، جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ کلام میں حذف ہے اصل کلام سمیتم بھا ہے، اس کا مفعول محذوف ہے اور وہ اصناماً ہے جیسا کہ مفسر علام نے ظاہر کردیا ہے۔
تفسیر و تشریح
ربط :۔
سورة طور کا اختتام لفظ النجوم پر ہوا تھا، اس سورة کی ابتداء و النجم سے ہوئی ہے دونوں میں مناسبت قریبہ موجود ہے، سورة نجم مکہ میں نازل ہوئی سوائے الذین یجتنبون کے کہ یہ آیت مدنی ہے، اس میں 62 آیتیں ہیں، اس کا مرکزی مضمون، عصمت انبیاء تصدیق نبوت، مسئلہ تعلیم جبرئیل، رئویت باری تعالیٰ اور سیر علوی مقامات ہیں۔
اس سورت کے اکثر کلمات معانی کثیرہ اور مفاہیم مختلفہ پر مشتمل ہیں، معانی مجازی اور استعارات پر محمول ہیں، اسی وجہ سے اس کی تفسیر میں اختلاف بہت زیادہ ہے۔
خصوصیات سورة نجم :
سورة نجم پہلی سورت ہے جس کا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مکہ میں اعلان فرمایا اور یہی سب سے پہلی سورت ہے جس میں آیت سجدہ نازل ہوئی، جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آسیت سجدہ تلاوت کرنے کے بعد سجدہ تلاوت فرمایا تو حاضرین میں سے مسلمان، کافر سب نے سجدہ کیا سوائے ایک شخص امیہ بن خلف کے، اس نے اپنی مٹھی میں مٹی لیکر اپنی پیشانی سے لگا لی، چنانچ یہ کفر کی حالت میں مارا گیا (صحیح بخاری تفسیر سورة النجم) بعض روایتوں میں اس شخص کا نام عتبہ بن ربیعہ بتلایا گیا ہے۔
والنجم اذا ھوی بعض مفسرین نے النجم سے ثریا ستارہ مراد لیا ہے اور بعض نے زہرہ ستارہ اور بعض نے جنس نجوم ھوی اوپر سے نیچے گرنا یعنی طلوع فجر کے وقت جب وہ گرتا ہے یا شیاطین کو مارنے کے وقت گرتا ہے۔
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک وتعالیٰ ستارے کے ٹوٹنے کی، یعنی رات کے آخری حصے میں جب رات کے جانے اور دن کے آنے کا وقت ہوتا ہے اس وقت افق میں ستارے کے گرنے کی قسم کھاتا ہے کیونکہ اس میں بڑی بڑی نشانیاں ہیں جو اس امر کی موجب ہیں کہ اس کی قسم کھائی جائے اور صحیح معنی یہ ہے کہ ’’لنجم‘‘ ستارہ اسم جنس ہے جو تمام ستاروں کو شامل ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو وحی لے کر آئے ہیں، اس کی صحت پر اللہ نے ستاروں کی قسم کھائی ہے کیونکہ وحی الٰہی اور ستاروں کے مابین ایک عجیب مناسبت ہے اللہ نے ستاروں کو آسمان کی زینت بنایا اسی طرح اللہ نے وحی اور اس کے آثار کو زمین کے لیے زینت بنایا پس اگر انبیائے کرام کی طرف سے موروث علم نہ ہوتا تو لوگ گمراہی کے تیرہ وتار اندھیروں میں بھٹک رہے ہوتے جو شب تاریک کے اندھیروں سے بھی گہرے ہوتے ہیں۔
جس امر پر قسم کھائی گئی ہے وہ ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے علم میں ضلالت اور اپنے قصد میں گمراہی سے منزہ اور پاک ہونا اور اس سے یہ لازم آتا ہے کہ آپ اپنے علم میں راست رو، راہ راست کی طرف رہنمائی کرنے والے حسن قصد رکھنے والے اور مخلوق کی خیرخواہی کرنے والے ہیں۔ اس کے برعکس فساد علم اور سوء قصد کاراستہ وہ ہے جس پر گمراہ لوگ گامزن ہیں۔
11 Mufti Taqi Usmani
qasam hai sitaray ki jab woh giray ,
12 Tafsir Ibn Kathir
حضرت شعبی فرماتے ہیں خالق تو اپنی مخلوق میں سے جس کی چاہے قسم کھالے لیکن مخلوق سوائے اپنے خالق کے کسی اور کی قسم نہیں کھا سکتی (ابن ابی حاتم) ستارے کے جھکنے سے مراد فجر کے وقت ثریا کے ستارے کا غائب ہونا ہے۔ بعض کہتے ہیں مراد زہرہ نامی ستارہ ہے۔ حضرت ضحاک فرماتے ہیں مراد اس کا جھڑ کر شیطان کی طرف لپکنا ہے اس قول کی اچھی توجیہ ہوسکتی ہے مجاہد فرماتے ہیں اس جملے کی تفسیر یہ ہے کہ قسم ہے قرآن کی جب وہ اترے۔ اس آیت جیسی ہی آیت ( فَلَآ اُقْسِمُ بِمَوٰقِعِ النُّجُوْمِ 75 ۙ ) 56 ۔ الواقعة :75) ہے۔ پھر جس بات پر قسم کھا رہا ہے اس کا بیان ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نیکی اور رشد و ہدایت اور تابع حق ہیں وہ بےعلمی کے ساتھ کسی غلط راہ لگے ہوئے یا باوجود علم کے ٹیڑھا راستہ اختیار کئے ہوئے نہیں ہیں۔ آپ گمراہ نصرانیوں اور جان بوجھ کر خلاف حق کرنے والے یہودیوں کی طرح نہیں۔ آپ کا علم کامل آپ کا عمل مطابق علم آپکا راستہ سیدھا آپ عظیم الشان شریعت کے شارع، آپ اعتدال والی راہ حق پر قائم۔ آپ کا کوئی قول کوئی فرمان اپنے نفس کی خواہش اور ذاتی غرض سے نہیں ہوتا بلکہ جس چیز کی تبلیغ کا آپکو حکم الہٰی ہوتا ہے آپ اسے ہی زبان سے نکالتے ہیں جو وہاں سے کہا جائے وہی آپ کی زبان سے ادا ہوتا ہے کمی بیشی زیادتی نقصان سے آپ کا کلام پاک ہوتا ہے، مسند احمد میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ایک شخص کی شفاعت سے جو نبی نہیں ہیں مثل دو قبیلوں کے یا دو میں سے ایک قبیلے کی گنتی کے برابر لوگ جنت میں داخل ہوں گے۔ قبیلہ ربیعہ اور قبیلہ مضر اس پر ایک شخص نے کہا کیا ربیعہ مضر میں سے نہیں ہیں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں تو وہی کہتا ہوں جو کہتا ہوں۔ مسند کی اور حدیث میں ہے حضرت عبداللہ بن عمرو فرماتے ہیں میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جو کچھ سنتا تھا اسے حفظ کرنے کے لئے لکھ لیا کرتا تھا پس بعض قریشیوں نے مجھے اس سے روکا اور کہا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک انسان ہیں کبھی کبھی غصے اور غضب میں بھی کچھ فرما دیا کرتے ہیں چناچہ میں لکھنے سے رک گیا پھر میں نے اس کا ذکر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کیا تو آپ نے فرمایا لکھ لیا کرو اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میری زبان سے سوائے حق بات کے اور کوئی کلمہ نہیں نکلتا یہ حدیث ابو داؤد اور ابن ابی شیبہ میں بھی ہے بزار میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں تمہیں جس امر کی خبر اللہ تعالیٰ کی طرف سے دوں اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہوتا مسند احمد میں ہے کہ آپ نے فرمایا میں سوائے حق کے اور کچھ نہیں کہتا۔ اس پر بعض صحابہ نے کہا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کبھی کبھی ہم سے خوش طبعی بھی کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا اس وقت بھی میری زبان سے ناحق نہیں نکلتا۔