النجم آية ۳۹
وَاَنْ لَّيْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰىۙ
طاہر القادری:
اور یہ کہ انسان کو (عدل میں) وہی کچھ ملے گا جس کی اُس نے کوشش کی ہوگی (رہا فضل اس پر کسی کا حق نہیں وہ محض اﷲ کی عطاء و رضا ہے جس پر جتنا چاہے کر دے)،
English Sahih:
And that there is not for man except that [good] for which he strives
1 Abul A'ala Maududi
اور یہ کہ انسان کے لیے کچھ نہیں ہے مگر وہ جس کی اُس نے سعی کی ہے
2 Ahmed Raza Khan
اور یہ کہ آدمی نہ پاے گا مگر اپنی کوشش
3 Ahmed Ali
اور یہ کہ انسان کو وہی ملتا ہے جو کرتا ہے
4 Ahsanul Bayan
اور یہ کہ ہر انسان کے لئے صرف وہی ہے جس کی کوشش خود اس نے کی (١)۔
٣٩۔١ یعنی جس طرح کوئی کسی دوسرے کے گناہ کا ذمے دار نہیں ہوگا، اسی طرح اسے آخرت میں اجر بھی انہی چیزوں کا ملے گا، جن میں اس کی اپنی محنت ہوگی۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور یہ کہ انسان کو وہی ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے
6 Muhammad Junagarhi
اور یہ کہ ہر انسان کے لیے صرف وہی ہے جس کی کوشش خود اس نے کی
7 Muhammad Hussain Najafi
اور یہ کہ انسان کے لئے وہی کچھ ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور انسان کے لئے صرف اتنا ہی ہے جتنی اس نے کوشش کی ہے
9 Tafsir Jalalayn
اور یہ کہ انسان کو وہی ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے
وان لیس للانسان الا ماسعی جیسا کہ ماسبق کی آیت سے معلوم ہوا کہ کسی کا گاہ دوسرے کو نقصان نہیں پہنچا سکتا، اسی طرح اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کسی کی سعری دوسرے کو فائدہ نہیں پہنچا سکتی، اس آیت سے جو یہ حصر مستفاد ہے کہ ہر شخص کو اسی کے عمل کی جزاء ملے گی دوسرے کے عمل کی نہیں، مگر یہ مسلک متعزلہ کا ہے، اہل سنت والجماعت کا بلکہ اہل اسلام میں سے اور کسی کا نہیں۔
تین اہم اصول :
اس آیت سے بھی تین اہم اصول نکلتے ہیں : (١) ایک یہ کہ ہر شخص جو کچھ بھی پائے گا اپنے عمل کا ہی پھل پائے گا (٢) دوسرے یہ کہ ایک شخص کے عمل کا پھل دوسرا نہیں پاسکتا الایہ کہ اس عمل میں اس کا کوئی حصہ ہو (٣) تیسرے یہ کہ کوئی شخص سعی اور عمل کے بغیر کچھ نہیں پاسکتا۔
مطلب یہ کہ جس طرح کوئی کسی دوسرے کے گناہ کا ذمے دار نہیں ہوگا اسی طرح آخرت میں اجر بھی انہی چیزوں کا ملے گا جن میں اس کی اپنی محنت ہوگی (اس جز کا تعلق آخرت سے ہے دنیا سے نہیں) جیسا کہ بعض لوگ اس آیت کو دنیا کے معاشی معاملات پر غلط طریقے سے منطبق کر کے اس سے یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ کوئی شخص اپنی معنت کی کمائی کے سوا کسی چیز کا جائز مالک نہیں ہوسکتا، جیسا کہ سوشلسٹ قسم کے لوگ اس کا یہ مفہوم باور کرا کے غیر حاض رزمینداری اور کرایہ داری کو ناجائز قرار دیتے ہیں اسی طرح کارخانوں کی پیداوار میں بقدر محنت وسعی مزدور کا حصہ قرار دیتے ہیں مگر یہ بات قرآن مجید ہی کے دیئے ہوئے دیگر قوانین اور احکام سے ٹکراتی ہے مثلاً قانون وراثت جس کی رو سے ایک شخص کے ترکہ میں سے بہت سے افراد حصہ پاتے ہیں اور اس کے جائز وارث قرار پاتے ہیں، حالانکہ یہ میراث ان کی اپنی محنت کی کمائی نہیں ہوتی، ایک شیر خوار وارث بچہ کے متعلق تو کسی طرح کھینچ تان سے بھی یہ ثابت نہیں کیا جاسکتا کہ باپ کے چھوڑے ہوئے مال میں اس بچے کی محنت کا بھی کوئی حصہ تھا ایسے ہی احکام زکوۃ و صدقات جن کی رو سے ایک آدمی کا مال دوسرے کو محض ان کو شرعی و اخلاقی استحقاق کی بنئا پر ملتا ہے اور وہ اس کے جائز مالک ہوتے ہیں، حالن کہ اس مال کے پیدا کرنے میں ان کی محنت کا قطعاً کوئی حصہ نہیں ہوتا، اس لئے قرآن کی کسی ایک آیت کو لے کر اس سے ایسے نتائج نکالنا جو خود قرآن ہی کی دوسری تعلیمات سے متصادم ہوتے ہیں، قرآن کے منشاء کے بالکل خلاف ہے۔
مسئلہ ایصال ثواب :
بعض دوسرے لوگ ان اصولوں کو آخرت سے متعلق مان کر یہ سوالات اٹھاتے ہیں کہ آیا ان اصولوں کی رو سے ایک شخص کا عمل دوسرے شخص کے لئے کسی صورت میں بھی نافع ہوسکتا ہے ؟ اور کیا ایک شخص اگر دوسرے شخص کے لئے یا اس کے بدلے کوئی عمل کرے تو وہ اس کی طرف سے قبول کیا جاسکتا ہے ؟ اور کیا یہ بھی ممکن ہے کہ ایک شخص اپنے عمل کے اجر کو دوسرے کی طرف منتقل کرسکتا ہے ؟ ان سوالات کا جواب اگر نفی میں ہو تو ایصال ثواب اور حج بدل وغیرہ سب ناجائز ہوجاتے ہیں، بلکہ دوسرے کے حق میں دعاء، استغفار بھی بےمعنی ہوجاتی ہے کیونکہ یہ دعاء بھی اس شخص کا اپنا عمل نہیں ہے جس کے حق میں دعا کیجیائے، مگر یہ انتہائی نقطہ، نظر معتزلہ کے سوا اہل اسلام میں سے کسی کا نہیں ہے، صرف معتزلہ ہی اس آیت کا یہ مطلب لیتے ہیں کہ ایک شخص کی سعی دوسرے کے لئے کسی حال میں بھی نافع نہیں ہوسکتی، بخلاف اہل سنت والجماعت کے کہ ایک شخص کے لئے دوسرے کی دعاء کے نافع ہونے کو تو بالا تفاق مانتے ہیں کیونکہ یہ قرآن سے ثابت ہے البتہ ایصال ثواب اور نیابۃ کسی دوسرے کی طرف سے کسی نیک کام کے نافع ہونے میں ان کے درمیان اصولاً نہیں تفصیل میں اختلاف ہے۔
عبادات کی تین قسمیں :
فقہاء حنفیہ کہتے ہیں کہ عبادات کی تین قسمیں ہیں : (١) اول خالص بدنی جیسے نماز، روزہ، ایمان (٢) دوسرے خالص مالی جیسے زکوۃ صدقہ (٣) مالی اور بدنی سے مرکب، جیسے حج، پہلی قسم میں نیابت درست نہیں مثلاً ایک شخص دوسرے کی طرف سے فرض نماز پڑھ لے اور دوسرا شخص اس عمل سے سبکدوش ہوجائے یا دوسرے کی طرف سے فرض روزہ رکھ لے اور دوسرا اس فرض روزے سے سبکدوش ہوجائے، یا ایک شخص دوسرے کی طرف سے ایمان قبول کرلے اور دوسرا اس سے سبکدوش ہوجائے اور اس دوسرے شخص کو مومن قرار دیدیا جائے۔
آیت مذکورہ کی اس تفسیر پر کوئی فقہی اشکال نہیں اور نہ شبہ عائد ہوتا ہے، زیادہ سے زیادہ حج اور زکوۃ کے مسئلہ میں یہ شبہ ہوسکتا ہے کہ ضرورت کے وقت شرعاً ایک شخص دوسرے کی طر سے حج بدل سکتا ہے یا دوسرے کی زکوۃ اس کی اجازت سے ادا کرسکتا ہے، مگر غور کیا جائے تو یہ اشکال اس لئے درست نہیں کہ کسی کو اپنی جگہ حج بدل کے لئے بھیج دینا اور اس کے مصارف خود ادا کرنا، یا کسی شخص کو اپنی طرف سے زکوۃ ادا کرنے کے لئے مامور کردینا بھی درحقیقت اسی شخص کے اپنے عمل اور سعی کا جزء ہے، اس لئے لیس للانسان الا ماسعی کے منافی نہیں۔
جبکہ اوپر یہ معلوم ہوچکا ہے کہ آیت مذکورہ کا مفہوم یہ ہے کہ ایک شخص دوسرے کے فرائض مثلاً ایمان، نماز، روزہ ادا کر کے دوسرے شخص کو سبکدوش نہیں کرسکتا، تو اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ ایک شخص کے نفلی عملی کا فائدہ اور ثواب دوسرے شخص کو نہ پہنچ سکے، ایک شخص کی دعاء اور صدقہ کا ثواب دوسرے شخص کو پہنچنا نصوص شرعیہ سے ثابت ہے اور تمام امت کے نزدیک اجماعی مسئلہ ہے۔ (ابن کثیر، معارف) تفسیر مظہری میں اس جگہ ان تمام احادیث کو جمع کردیا ہے جن سے ایصال ثواب کا فائدہ دوسرے کو پہنچنا ثابت ہوتا ہے۔
ایصال ثواب کی حقیقت :
ایصال ثواب یہ ہے کہ ایک شخص کو نیک عمل کر کے اللہ سے دعاء کرے کہ اس کا اجر وثواب کسی دوسرے شخص کو عطا فرما دیا جائے، اس مسئلہ میں امام مالک اور امام شافعی فرماتے ہیں کہ خلاص بدنی عبادات مثلاً نماز روزہ، تلاوت قرآن وغیرہ کا ثواب دوسرے کو نہیں پہنچ سکتا، البتہ مالی عبادات مثلاً صدقہ خیرات وغیرہ یا مالی اور بدنی سے مرکب عبادات مثلاً حج کا ثواب دوسرے کو پہنچ سکتا ہے، اصول یہ ہے کہ ایک شخص کا عمل دوسرے کے لئے نافع نہ ہو مگر چونکہ احادیث صحیحہ کی رو سے صدقہ کا ثواب پہنچایا جاسکتا ہے، اور حج بدل بھی کیا جاسکتا ہے اس لئے ہم اسی نوعیت کی عبادات تک ایصال ثواب کی صحت تسلیم کرتے ہیں۔
قرآن خوانی کا ایصال ثواب :
اس کے برخلاف حنفیہ کا مسلک یہ ہے کہ انسان اپنے ہر نیک عمل کا ثواب دوسرے کو ہبہ کرسکات ہے خواہ وہ نماز ہو یا روزہ یا تلاوت قرآن، یا ذکر و صدقہ یا حج وعمرہ یہ بات بکثرت احادیث سے ثابت ہے، صاحب صاوی نے مالی و بدنی عبادت کے ایصال ثواب کے جواز پر اسی آیت کے تحت گیارہ دلیلیں لکھی ہیں جن میں قرآن و سنت دونوں کی دلیلیں ہیں، قرآن میں فرمایا واتبعتھم ذریتھم بایمان والدین کے ایمان و عمل کی بدولت اولاد کو ان کے مرتبہ میں پہنچا دینا یہ سعی غیر کا فائدہ ہے حالانکہ والدین کے عمل وسعی میں اولاد کا کوئی حصہ نہیں ہے، شیخ تقی الدین ابوالعباس احمد بن تیمیمہ نے فرمایا کہ جس نے یہ اعتقاد رکھا کہ انسان کو صرف اسی کے عمل کا فائدہ اور ثمرہ حاصل ہوگا، اس نے خرق اجماع کیا، امام اعظم رحمتہ اللہ تعالیٰ کا بھی یہی مسلک ہے۔ (صاوی)
دارقطنی میں ہے کہ ایک شخص نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا میں اپنے والدین کی خدمت ان کی زندگی میں تو کرتا ہوں ان کے انتقال کے بعد کیسے کروں ؟ آپ نے فرمایا یہ بھی ان کی خدمت ہی ہے کہ ان کے منے کے بعد تو اپنی نماز کے ساتھ ان کے لئے بھی نماز پڑھے اور اپنے روزوں کے ساتھ ان کے لئے بھی روزے رکھے، دار قطنی کی ایک دوسری روایت میں حضرت علی (رض) سے مروی ہے جس میں وہ بیان فرماتے ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ” جس شخص کا قبرستان پر گذر ہوا اور وہ گیارہ مرتبہ قل ھو اللہ احد پڑھ کر اس کا اجر مرنے والوں کو بخش دے تو (اس قبرستان میں) جتنے مردے ہیں اتنا ہی اجر عطا کردیا جائے گا۔
بخاری، مسلم، مسند احم، ابن ماجہ، طبرانی (فی الاوسط) مستدرک اور ابن ابی شیبہ میں حضرت عائشہ (رض) ، ابوہریرہ (رض) حضرت جابر (رض) بن عبداللہ، حضرت ابو رافع (رض) حضرت ابوطلحہ انصاری، اور حذیفہ بن اسید الغاری کی متفقہ روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دو مینڈھے لے کر ایک اپنی اور اپنے گھر والوں کی طر سے قبران کیا اور دوسرا اپنی امت کی طرف سے۔
مسلم و بخاری، مسند احمد ابو دائود اور نسائی میں حضرت عائشہ (رض) کی روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ میری والدہ کا اچانک انتقال ہوگیا ہے، میرا خیال ہے کہ اگر انہیں بات کرنے کا موقع ملتا تو وہ ضرور صدقہ کرنے کے لئے کہتیں، اب اگر میں ان کی طرف سے صدقہ کروں تو کیا ان کے لئے اجر ہے ؟ فرمایا ہاں !۔
یہ کثیر روایتیں جو ایک دوسرے کی تائید کر رہی ہیں اس امر کی تصریح کرتی ہیں کہ ایصال ثواب نہ صرف ممکن ہے بلکہ ہر طرح کی عبادات اور نیکیوں کے ثواب کا ایصال ہوسکتا ہے اور اس میں کسی خاص نوعیت کے اعمال کی تخصیص نہیں ہے۔
ایصال عذاب ممکن نہیں :
ایصال ثواب تو ممکن ہے مگر ایصال عذاب ممکن نہیں، یعنی یہ تو ہوسکتا ہے کہ آدمی نیکی کر کے کسی دوسرے کے لئے اجر بخش دے اور وہ اس کو پہنچ جائے مگر یہ نہیں ہوسکتا کہ آدمی گناہ کر کے اس کا عذاب کسی کو بخش دے اور وہ اسے پہنچ جائے۔
خالص بدنی عبادات میں نیابت اور ان کا ایصال ثواب :
خلاص مالی عبادات یا مالی اور بدنی عبادات سے مرکب عبادات میں نیابت اور ایصال ثواب کا واضح ثبوت ملات ہے، اب رہیں خالص بدنی عبادات میں نیابت اور ایصال ثواب کا ثبوت تو بعض احادیث ایسی بھی ہیں جن سے اس نوعیت کی عبادات میں نیابت کا جوا زثابت ہوتا ہے، مثلاً ابن عباس (رض) کی یہ روایت کہ قبیلہ جہینہ کی ایک عورت نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا کہ میری ماں نے روزے کی نذر مانی تھی اور وہ پوری کئے غیر مرگئی، کیا میں اس کی طرف سے روزہ رکھ سکتی ہوں، آپ نے فرمایا اس کی طرف سے روزہ رکھ لے۔ (بخاری و مسلم، احمد، نسائی، ابو دائود)
اور حضرت بریدہ (رض) کی یہ روایت کی کہ ایک عورت نے اپنی ماں کے متعلق پوچھا کہ اس کے ذمہ ایک مہینے کے روزے (یا دوسری روایت کے مطابق دو مہینے) کے روزے تھے، کیا میں یہ روزے ادا کر دوں ؟ آپ نے اس کو بھی اس کی اجازت دے دی۔ (مسلم، احمد، ترمذی، ابو ائود)
اور حضرت عائشہ کی یہ روایت کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا من مات وعلیہ صیام صام عنہ ولیہ، جو شخص مرجائے اور اس کے ذمہ روزے ہوں تو اس کی طرف سے اس کا ولی روزے رکھ لے۔ (بخاری، مسلم، احمد) بزار کی روایت میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ال فاظ یہ ہیں فلیضم عنہ ولیہ ان شاء یعنی اگر اس کا ولی چاہے تو اس کی طرف سے روزے رکھ لے، انہی احادیث کی بناء پر اصحاب الحدیث، اور امام اوزاعی اور ظاہر یہ اس کے قائل ہیں کہ بدنی عبادات میں بھی نیابت جائز ہے، مگر امام ابوحنیفہ، امام مالک اور امام شافعی اور امام زید بن علی کا فتویٰ یہ ہے کہ میت کی طرف سے روزہ نہیں رکھا جاسکتا اور امام احمد، امام لیث اور اسحاق بن راہو یہ فرماتے ہیں کہ صرف اس صورت میں ایسا کیا جاسکتا ہے جب مرنے والے نے اس کی نذر مانی ہو اور وہ اسے پورا نہ کرسکا ہو۔
مانعین کا استدلال :
مانعین کا استدلال یہ ہے کہ جن احادیث سے اس کے جواز کا ثبوت ملتا ہے ان کے راویوں نے خود اس کے خلاف فتویٰ دیا ہے، حضرت ابن عباس کا فتویٰ نسائی نے ان الفاظ میں نقل کیا ہے لایصل احد عن احد ولا یصم احد عن احد کوئی شخص نہ کسی کی طرف سے نماز پڑھے اور نہ روزہ رکھے اور حضرت عائشہ (رض) کا فتویٰ عبدالرزاق کی روایت کے مطابق یہ ہے لاتصوموا عن موتکم وا طعموا عنھم اپنے مردوں کی طرف سے روزہ نہ رکھو بلکہ ان کی طرف سے کھانا کھلائو، حضرت عبداللہ بن عمر سے بھی عبدالرزاق نے یہی بات نقل کی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اتداء بدنی عبادات میں نیابت کی اجازت تھی، مگر آخری حکم یہی قرار پایا کہ ایسا کرنا جائز نہیں ہے، ورنہ کس طرح ممکن تھا کہ جنہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ احادیث نقل کی ہوں وہ خود ان کے خلاف فتویٰ دیں۔
فائدہ :۔ اس سلسلہ میں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ نیابۃ فریضہ کی ادائیگی کے قائلین کے نزدیک بھی نیابۃ ادائیگی صرف اسی صورت میں مفید ہوسکتی ہے جبکہ خود ادائے فرض کے خواہشمند رہے ہوں اور معذوری کی وجہ سے قاصر رہ گئے ہوں لیکن اگر کوئی شخص استطاعت کے باوجود قصداً مثلاً حج سے مجتنب رہا اور اس کے دل میں اس فرض کا احساس تک نہ تھا اس کے لئے خواہ کتنے ہی حج بدل کئے جائیں وہ اس کے حق میں مفید نہیں ہوسکتے، یہ ایسا ہی ہے کہ ایک شخص نے کسی کا قرض جان بوجھ کر مار رکھا ہے اور مرتے دم تک اس کا کوئی ارادہ قرض ادا کرنے کا نہ تھا اس کی طرف سے اگر قرض ادا کردیا جائے، اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں وہ قرض مارنے ولا ہی شمار ہوگا، دوسرے کے ادا کرنے سے سبکدوش صرف وہی شخص ہوسکتا ہے جو اپنی زندگی میں ادائے قرض کا خواہشمند ہوا اور مجبوری کی وجہ سے ادا نہ کرسکا ہو۔ (واللہ اعلم بالصواب)
10 Tafsir as-Saadi
﴿وَاَنْ لَّیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰی﴾ اللہ تبارک وتعالی کے اس ارشاد سے استدلال کیا گیا ہے کسی شخص کا زندوں اور مردوں کے لیے ہدیہ کرنا، ان کے لیے کوئی مفید نہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَاَنْ لَّیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰی﴾ ’’اور انسان کے لیے وہی کچھ ہے جس کی اس نے سعی کی۔‘‘ چنانچہ کسی شخص کی سعی اور اس کے عمل کا کسی اور کو پہنچنا اس آیت کے منافی ہے۔ مگر یہ استدلال محل نظر ہے، کیونکہ آیت کریمہ تو صرف یہ دلالت کرتی ہے کہ انسان کے لیے صرف وہی ہے جس کے لیے اس نے خود کوشش کی اور یہ حق ہے۔ اس میں کوئی اختلاف نہیں مگر اس میں کوئی ایسی چیز نہیں جو اس بات پر بھی دلالت کرتی ہو کہ وہ غیر کی سعی سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔ جب کہ غیر نے اپنی سعی اور عمل کو اسے ہدیہ کے طور پر پیش کیا ہوجیسے انسان صرف اسی مال کا مالک ہے جو اس کی ملکیت اور اس کے قبضہ میں ہو مگر اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ کسی ایسی چیز کا مالک نہیں ہوسکتا جو غیر نے اپنے مال میں سے جس کا وہ مالک ہے اسے ہبہ کی ہو۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur yeh kay insan ko khud apni koshish kay siwa kissi aur cheez ka ( badla lenay ka ) haq nahi phonchta ,