الرحمٰن آية ۱
اَلرَّحْمٰنُۙ
طاہر القادری:
(وہ) رحمان ہی ہے،
English Sahih:
The Most Merciful
1 Abul A'ala Maududi
رحمٰن نے
2 Ahmed Raza Khan
رحمٰن
3 Ahmed Ali
رحمنٰ ہی نے
4 Ahsanul Bayan
رحمٰن نے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
(خدا جو) نہایت مہربان
6 Muhammad Junagarhi
رحمٰن نے
7 Muhammad Hussain Najafi
خدائے رحمٰن۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
وہ خدا بڑا مہربان ہے
9 Tafsir Jalalayn
(خدا جو) نہایت مہربان
ترجمہ : شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے، رحمٰن نے جس کو چاہا قرآن سکھلایا انسان یعنی جنس انسان کو پیدا فرمایا اس کو گفتگو کرنا سکھلایا سورج اور چاند مقررہ حساب سے چلتے ہیں اور بلیں یعنی وہ گھاس جس کا تنا نہ ہو اور شجر یعنی تنے دار درخت، جو ان سے مطلوب ہے اس کے تابع ہیں، اور اسی نے آسمان کو بلند وبالا کیا اور میزان رکھ دی یعنی انصاف قائم کیا تاکہ تم لوگ تول میں تجاوز نہ کرو اور تاکہ انصاف کے ساتھ وزن کو ٹھیک رکھو اور تول میں کم نہ دو یعنی وزن میں کمی نہ کرو اور مخلوق یعنی جن و انس وغیرہ کے لئے زمین بچھا دی جس میں میوے ہیں اور کھجور کے درخت ہیں جو معلوم ہیں جن کے (پھلوں) پر غلاف ہوتا ہے (اکمام) شگوفہ کا غلاف، اور غلہ جیسا کہ گندم اور جو بھوسے والے اور پتوں والے (یا) خوشبو والے پھول پیدا کئے تو اے جن اور انسانو ! تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کے منکر ہوجائو گے ؟ (یہ آیت) 31 مرتبہ ذکر کی گئی ہے اور استفہام اس میں تقریر کے لئے ہے، جیسا کہ حاکم نے جابر (رض) سے روایت کیا ہے فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہم کو سورة رحمٰن پوری پڑھ کر سنائی، پھر فرمایا کیا بات ہے کہ میں تم کو خاموش دیکھ رہا ہوں ؟ جنات جواب کے اعتبار سے یقینا تم سے بہتر تھے، میں نے جب بھی ان کو یہ آیت فبای الآء ربکما تکذبان پڑھ کر سنائی کبھی ایسا نہیں ہوا کہ انہوں نے ولا بشیء من نعمک ربنا نکذب فلک الحمد نہ کہا ہو (اے ہمارے پروردگار ہم تیری کسی نعمت کی بھی تکذیب (ناشکری) نہیں کرتے، تیرے ہی لئے سب تعریفیں ہیں) اسی نے انسان آدم کو ایسی مٹی سے جو ٹھیکرے کی طرح کھنکتیھی پیدا کیا (یعنی) ایسی خشک مٹ سے جس میں آواز تھی جب بجایا جائے اور وہ ایسی مٹی ہے جس کو پکایا گیا ہو اور جنات کو (یعنی) ابو الجن کو اور وہ ابلیس ہے خالص آگ سے پیدا کیا، اور مارج آگ کا وہ شعلہ جس میں دھواں نہ ہو تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کے منکر ہوجائو گے ؟ وہ دونوں مشرقوں سردیوں کی مشرق اور گرمیوں کی مشرق اور اسی طرح دونوں مغربوں کا رب ہے تو تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کے منکر ہوجائو گے ؟ شور اور شیریں دو دوریائوں کو جاری کیا جو بظاہر ملے ہوئے ہیں، حقیقت میں ان دونوں کے درمیان آڑ ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی قدرت کی آڑ ہے کہ دونوں بڑھ نہیں سکتے، یعنی ان دونوں میں سے کوئی دوسرے پر تجاوز نہیں کرسکتا کہ اس سے خلط ملط ہوجائے تو تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کے منر ہوجائو گے ؟ اور ان دونوں سے یعنی دونوں کے مجموعہ سے موتی اور مونگے برآمد ہوتے ہیں مجموعہ کا اطلاق ایک پر بھی ہوتا ہے اور وہ (دریائے) شور ہے یخرج معروف اور مجہول دونوں ہے (لولو) بڑے سرخ موتی (مرجان) چھوٹے موتی تو تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کے منکر ہوجائو گے ؟ اللہ ہی کی ملک ہیں وہ جہاز (کشتیاں) جو دریا میں پہاڑوں کے مانند بلند ہیں، بلند اور عظیم ہونے میں پہاڑوں کے مانند ہیں تو تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کے منکر ہوجائو گے ؟۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : الرحمن مبتداء مابعد اس کی خبر، تعدید اور اقامت حجتہ کے طور پر خبر بغیر عطف کے متعدد بھی ہوسکتی ہے جیسا کہ یہاں بغیر عطف کے خبر متعدد ہیں، الرحمٰن مبتداء اور مابعد اس کی خبر، یہ ان لوگوں کے نزدیک ہے جو الرحمن کو پوری آیت نہیں مانتے اور جو لوگ پوری آیت مانتے ہیں ان کے نزدیک الرحمٰن مبتداء محذوف کی خبر ہے یا اللہ الرحمٰن یا الرحمن مبتداء ہے اور ربنا اس کی خبر محذوف ہے۔
قولہ : من شاء اس عبارت کے اضافہ سے اشارہ کردیا کہ علم متعدی بدومفعول ہے اور مفعول اول اس کا محذوف ہے۔
قولہ : النطق گویائی، اظہار مافی ال ضمیر، یہ قوت حیوانات میں نہیں ہے۔
قولہ : بحسبان یہ حسب کا مصدر مفرد ہے بمعنی حساب جیسا کہ غفران و کفران اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ حساب کی جمع ہو جیسا کہ شہاب کی جمع، شھبان اور غیف کی جمع رغفان (چپاتی) مطلب یہ ہے کہ شمس و قمر مقررہ حساب سے اپنے اپنے برجوں میں چلتے ہیں سر موانحراف نہیں کرتے۔
قولہ : آفتاب کا قطر 866500 (آٹھ لاکھ چھیاسٹھ ہزار پانچ سو میل) ہے، اور وہ تیرہ لاکھ زمینوں کے مساوی ہے، آفتاب زمین کے مانند ٹھوس نہیں ہے اور نہ پانی کی طرح سیال بلکہ پانی سے ڈیڑھ گنا کثیف ہے (پتے شہد کے مانند) (فلکیات جدیدہ) ۔ (واللہ اعلم بالصواب)
قولہ : ای لاجل ان لاجوروا یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ الا طغوا میں ان مصدریہ ہے نہ کہ نافیہ اور ان سے پہلے لام علت مقدر ہے۔
قولہ : اکمام، اکمام جمع کم بمعنی شوگفہ کا غلاف، جھلی۔
قولہ : الآء نعمتیں واحد الی والی جیسے معنی و حصی والی الی
قولہ : رب المشرقین، رب کے رفع کے ساتھ، رفع کی تین وجہیں ہوسکتی ہیں (١) یہ کہ رب المشرقین بترکیب اضافی مبتداء اور مرج البحرین اس کی خبر اور مبتداء خبر کے رمیان جملہ معترضہ ہو (٢) یہ کہ رب المشرقین مبتداء محذوف کی خبر، ای ھو رب المشرقین (٣) یہ کہ خلق کے فاعل سے بدل ہو اور بعض حضرات نے من ربکما سے بدل مان کر مجرور بھی پڑھا ہے۔
قولہ : یلتقیان یہ بحرین سے حال ہے۔
قولہ : مجموعھما الصادق یا حدھما شارح کا یہ فرمانا کہ دونوں کے مجموعہ پر بھی واحد کا اطلاق صحیح ہے صحیح نہیں ہے اس لئے کہ مجموعہ سے بعض اسی وقت مراد لینا صحیح ہے جبکہ بعض سے متعدد مراد ہوں ورنہ تو جمع بول کر واحد مراد لینا درستن ہیں ہے۔
تفسیر و تشریع
نام :
اس سورت کا نام ” سورة رحمٰن “ ہے، جو کہ پہلے ہی لفظ سے ماخوذ ہے، حدیث میں اس کو عروس قرآن بھی کہا گیا ہے آپ نے فرمایا لکل شی عروس و عروس القرآن، الرحمن (خازن) اس سورت کے مکی، مدنی ہونے میں اختلاف ہے، امام قرطبی نے چند روایات حدیث کی وجہ سے مکی ہونے کو ترجیح دی ہے، ابن جوزی نے کہا ہے کہ یہ سورت مدنی ہے، مگر علماء تفسیر اس سورت کو بالعموم مکی قرار دیتے ہیں، اگرچہ بعض روایات میں حضرت عبداللہ بن عباس (رض) اور عکرمہ (رض) اور قتادہ سے یہ قول منقول ہے کہ یہ سورت مدنی ہے، لیکن اول تو ان بزرگوں سے بعض دوسری روایات اس کے خلافھی منقول ہیں دوسرے اس کا مضمون مدنی سورتوں کی بہ نسبت مکی سورتوں سے زیادہ مشابہ ہے، ترمذی میں حضرت جابر ری اللہ تعالیٰ عنہ سے روای ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں کے سامنے سورة رحمٰ پوری تلاوت فرمائی لوگ سن کر خاموش رہے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ میں نے لیلتہ الجن میں جنتا کے سامنے یہ سورت تلاوت کی تو اثر قبول کرنے کے اعتبار سے وہ تم سے بہتر رہے کیونکہ جب میں قرآن کے اس جملہ پر پہنچتا تھا فبای الآء ربکما تکذبان تو جنات سب کے سب بول اٹھتے تھے (لابشی من نعمک ربنا نکذب فلک الحمد) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ یہ سورت مکی ہے کیونکہ لیلتہ الجن کا واقعہ مکہ میں پیش آیا تھا۔
سیرت ابن ہشام کی ایک روایت :
اس روایت سے پتہ چلتا ہے کہ یہ سورت مکہ معظمہ کے ابتدائی دور کی نازل شدہ سورتوں میں سے ہے، ابن اسحٰق حضرت عمروہ بن زبیر سے یہ واقعہ نقل کرتے ہیں کہ ایک روز صحابہ کرام نے آپس میں کہا کہ قریش نے کبھی کسی کو علانیہ با آواز بلند قرآن پڑھتے نہیں سنا ہے، ہم میں کون ہے جو ان کو ایک دفعہ یہ کلام پاک سنا ڈالے ؟ حضرت عبداللہ بن مسعود نے کہا میں یہ کام کرتا ہوں صحابہ نے کہا ہمیں ڈر ہے کہ وہ تم پر زیادتی کریں گے، ہمارے خیال میں کسی ایسے شخص کو یہ کام کرنا چاہیے کہ جس کا خاندان زبردست ہو، تاکہ اگر قریش کے لوگ اس پر دست درازی کریں، تو اس کے خاندان والے اس کی حمایت پر اٹھ کھڑے ہوں، حضرت عبداللہ نے فرمایا مجھے یہ کام کر ڈالنے دو ، میرا محافظ اللہ ہے پھر وہ دن چڑھے حرم میں پہنچے، جبکہ قریش کے سردار وہاں اپنی اپنی مجلسوں میں بیٹھے ہوئے تھے، حضرت عبداللہ نے مقام ابراہیم پر پہنچ کر پورے زور سے سورة رحمٰن کی تلاوت شروع کردی، قریش کے لوگ پہلے تو سوچتے رہے کہ عبداللہ کیا کہہ رہے ہیں ؟ پھر جب انہیں پتہ چلا کہ یہ وہ کلام ہے جسے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خدا کے کلام کی حیثیت سے پیش کرتے ہیں تو وہ ان پر ٹوٹ پڑے اور ان کے منہ پر تھپڑ مارنے لگے مگر حضرت عبداللہ نے پرواہ نہ کی، پٹتے جاتے تھے اور پڑھتے جاتے تھے، جب تک ان کے دم میں دم رہا قرآن سناتے چلے گئے، آخر کار جب وہ اپنا سو جا ہوا منہ لیکر پلٹے تو ساتھیوں نے کہا ہمیں اسی چیز کا ڈر تھا، انہوں نے جواب دیا آج سے بڑھ کر یہ خدا کے دشمن میرے لئے کبھی ہلکے نہ تھے، تم کہو تو کل پھر ان کو قرآن سنائوں، سب نے کہا بس اتنا ہی کافی ہے، جو کچھ وہ نہیں سننا چاہتے تھے وہ تم نے انہیں سنا دیا۔ (سیرت ابن ہشام : جلد اول ص 336)
شان نزول :
کہا گیا ہے کہ الرحمٰن علم القرآن اہل مکہ کے اس قوت کے جواب میں نازل ہوئی کہ وہ کہا کرتے تھے کہ اس کو کوئی بشر سکھلاتا ہے، اور بعض کہتے ہیں کہ یہ ان کے اس قول کے جواب میں نازل ہوئی وہ کہا کرتے تھے کہ رحمٰن کیا ہے ؟ اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی بہت سی نعمتیں شمار کرائی ہیں، علم القرآن میں اللہ تعالیٰ نے نعمتوں میں جو سب سے بڑی نعمت ہے اس کے ذکر سے ابتداء کی ہے اور وہ نعمت قرآن ہے اس لئے کہ قرآن پر دارین کی سعادت کا مدار ہے۔ (فتح القدیر شو کانی) علم القرآن کے فقرے سے آغاز کرنے کا مقصد اس بات کی طرف اشارہ کرنا ہے کہ نہ تو یہ کلام آپ کا خود طبع زاد ہے اور نہ کسی انسان وغیرہ کا سکھلایا ہوا، بلکہ یہ اللہ الرحمٰن کا تعلیم فرمودہ ہے۔
10 Tafsir as-Saadi
اس سورة کریمہ کا افتتاح اللہ کے اسم مبارک ﴿االرَّحْمَـٰنُ﴾ سے ہوا ہے جو اس کی بے پایاں رحمت، عمومی احسان، بے شمار بھلائیوں اور وسیع فضل وکرم پر دلالت کرتا ہے، پھرا للہ تعالیٰ نے ان امور کا ذکر فرمایا جو اس کی رحمت اور اس کے آثار، یعنی دینی، دنیاوی اور اخروی نعمتوں پر دلالت کرتے ہیں جن کو اللہ نے اپنے بندوں تک پہنچایا۔ اپنی نعمتوں کی ہرجنس اور نوح کو بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ دونوں جماعتوں یعنی جن وانس کو تنبیہ کرتا ہے کہ وہ اس کا شکر ادا کریں، چنانچہ فرماتا ہے: ﴿ فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ﴾’’پھر تم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟‘‘
11 Mufti Taqi Usmani
woh rehman hi hai
12 Tafsir Ibn Kathir
انسان پر اللہ تعالیٰ کے احسانات کی ایک جھلک
اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کاملہ کا بیان فرماتا ہے کہ اس نے اپنے بندوں پر قرآن کریم نازل فرمایا اور اپنے فضل و کرم سے اس کا حفظ کرنا بالکل آسان کردیا اسی نے انسان کو پیدا کیا اور اسے بولنا سکھایا۔ قتادہ وغیرہ کہتے ہیں بیان سے مراد خیر و شر ہے لیکن بولنا ہی مراد لینا یہاں بہت اچھا ہے۔ حضرت حسن کا قول بھی یہی ہے اور ساتھ ہی تعلیم قرآن کا ذکر ہے جس سے مراد تلاوت قرآن ہے اور تلاوت موقوف ہے بولنے کی آسانی پر ہر حرف اپنے مخرج سے بےتکلف زبان ادا کرتی رہتی ہے خواہ حلق سے نکلتا ہو خواہ دونوں ہونٹوں کے ملانے سے مختلف، مخرج اور مختلف قسم کے حروف کی ادائیگی اللہ تعالیٰ نے انسان کو سکھا دی، سورج اور چاند ایک دوسرے کے پیچھے اپنے اپنے مقررہ حساب کے مطابق گردش میں ہیں نہ ان میں اختلاف ہو نہ اضطراب نہ یہ آگے بڑھے نہ وہ اس پر غالب آئے ہر ایک اپنی اپنی جگہ تیرتا پھرتا ہے اور جگہ فرمایا ہے آیت ( فَالِقُ الْاِصْبَاحِ ۚ وَجَعَلَ الَّيْلَ سَكَنًا وَّالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْـبَانًا ۭذٰلِكَ تَقْدِيْرُ الْعَزِيْزِ الْعَلِيْمِ 96) 6 ۔ الانعام :96) ، اللہ صبح کو نکالنے والا ہے اور اسی نے رات کو تمہارے لئے آرام کا وقت بنایا ہے اور سورج چاند کو حساب پر رکھا ہے یہ مقررہ محور غالب و دانا اللہ کا طے کردہ ہے۔ حضرت عکرمہ فرماتے ہیں تمام انسانوں، جنات، چوپایوں، پرندوں کی آنکھوں کی بصارت ایک ہی شخص کی آنکھوں میں سمو دی جائے پھر بھی سورج کے سامنے جو ستر پردے ہیں ان میں سے ایک پردہ ہٹا دیا جائے تو ناممکن ہے کہ یہ شخص پھر بھی اس کی طرف دیکھ سکے باوجودیکہ سورج کا نور اللہ کی کرسی کے نور کا سترواں حصہ ہے اور کرسی کا نور عرش کے نور کا سترواں حصہ ہے اور عرش کے نور کے جو پردے اللہ کے سامنے ہیں اس کے ایک پردے کے نور کا سترواں حصہ ہے پس خیال کرلو کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے جنتی بندوں کی آنکھوں میں کس قدر نور دے رکھا ہوگا کہ وہ اپنے تبارک و تعالیٰ کے چہرے کو کھلم کھلا اپنی آنکھوں سے بےروک دیکھیں گے (ابن ابی حاتم) اس پر تو مفسرین کا اتفاق ہے کہ شجر اس درخت کو کہتے ہیں جو تنے والا ہو لیکن نجم کے معنی کئی ایک ہیں بعض تو کہتے ہیں نجم سے مراد بیلیں ہیں جن کا تنہ نہیں ہوتا اور زمین پر پھیلی ہوئی ہوتی ہیں۔ بعض کہتے ہیں مراد اس سے ستارے ہیں جو آسمان میں ہیں۔ یہی قول زیادہ ظاہر ہے گو اول قول امام ابن جریر کا اختیار کردہ ہے واللہ اعلم، قرآن کریم کی یہ آیت بھی اس دوسرے قول کی تائید کرتی ہے۔ فرمان ہے آیت ( اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ يَسْجُدُ لَهٗ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَمَنْ فِي الْاَرْضِ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ وَالنُّجُوْمُ وَالْجِبَالُ وَالشَّجَرُ وَالدَّوَاۗبُّ وَكَثِيْرٌ مِّنَ النَّاسِ ۭ وَكَثِيْرٌ حَقَّ عَلَيْهِ الْعَذَابُ ۭ وَمَنْ يُّهِنِ اللّٰهُ فَمَا لَهٗ مِنْ مُّكْرِمٍ ۭ اِنَّ اللّٰهَ يَفْعَلُ مَا يَشَاۗءُ 18ڍ{ السجدہ }) 22 ۔ الحج :18) ، کیا تو نے نہیں دیکھا کہ اللہ کے لئے آسمان زمین کی تمام مخلوقات اور سورج، چاند، ستارے، پہاڑ، درخت، چوپائے، جانور اور اکثر لوگ سجدہ کرتے ہیں۔ پھر فرماتا ہے آسمان کو اسی نے بلند کیا ہے اور اسی میں میزان قائم کی ہے یعنی عدل جیسے اور آیت میں ہے آیت ( لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بالْبَيِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتٰبَ وَالْمِيْزَانَ لِيَقُوْمَ النَّاس بالْقِسْطِ 25ۧ) 57 ۔ الحدید :25) یعنی یقینا ہم نے اپنے رسولوں کو دلیلوں کے ساتھ اور ترازو کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ لوگ عدل پر قائم ہوجائیں یہاں بھی اس کے ساتھ ہی فرمایا تاکہ تم ترازو میں حد سے نہ گذر جاؤ یعنی اس اللہ نے آسمان و زمین کو حق اور عدل کے ساتھ پیدا کیا تاکہ تمام چیزیں حق و عدل کے ساتھ ہوجائیں، پس فرماتا ہے جب وزن کرو تو سیدھی ترازو سے عدل و حق کے ساتھ وزن کرو کمی زیادتی نہ کرو کہ لیتے وقت بڑھتی تول لیا اور دیتے وقت کم دے دیا اور جگہ ارشاد ہے آیت ( وَزِنُوْا بالْقِسْطَاسِ الْمُسْـتَقِيْمِ\018\02ۚ ) 26 ۔ الشعراء :182) صحت کے ساتھ کھرے پن سے تول کیا کرو، آسمان کو تو اس نے بلند وبالا کیا اور زمین کو اس نے نیچی اور پست کر کے بچھا دیا اور اس میں مضبوط پہاڑ مثل میخ کے گاڑ دئیے تاکہ وہ ہلے جلے نہیں اور اس پر جو مخلوق بستی ہے وہ باآرام رہے پھر زمین کی مخلوق کی دیکھو ان کی مختلف قسموں مختلف شکلوں مختلف رنگوں مختلف زبانوں مختلف عادات واطوار پر نظر ڈال کر اللہ کی قدرت کاملہ کا اندازہ کرو۔ ساتھ ہی زمین کی پیداوار کو دیکھو کہ رنگ برنگ کے کھٹے میٹھے پھیکے سلونے طرح طرح کی خو شبوؤں والے میوے پھل فروٹ اور خاصۃً کھجور کے درخت جو نفع دینے والا اور لگنے کے وقت سے خشک ہوجانے تک اور اس کے بعد بھی کھانے کے کام میں آنے والا عام میوہ ہے، اس پر خوشے ہوتے ہیں جنہیں چیر کر یہ باہر آتا ہے پھر گدلا ہوجاتا ہے پھر تر ہوجاتا ہے پھر پک کر ٹھیک ہوجاتا ہے بہت نافع ہے، ساتھ ہی اس کا درخت بالکل سیدھا اور بےضرر ہوتا ہے۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ قیصر نے امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب کو لکھا کہ میرے قاصد جو آپ کے پاس سے واپس آئے ہیں وہ کہتے ہیں کہ آپ کے ہاں ایک درخت ہوتا ہے جس کی سی خو خصلت کسی اور میں نہیں، وہ جانور کے کان کی طرح زمین سے نکلتا ہے پھر کھل کر موتی کی طرح ہوجاتا ہے پھر سبز ہو کر زمرد کی طرح ہوجاتا ہے پھر سرخ ہو کر یاقوت جیسا بن جاتا ہے، پھر یکتا ہے اور تیار ہو کر بہترین فالودے کے مزے کا ہوجاتا ہے پھر خشک ہو کر مقیم لوگوں کے بچاؤ کی اور مسافروں کے توشے بھتے کی چیز بن جاتا ہے پس اگر میرے قاصد کی یہ روایت صحیح ہے تو میرے خیال سے تو یہ درخت جنتی درخت ہے اس کے جواب میں شاہ اسلام حضرت فاروق اعظم نے لکھا کہ یہ خط ہے اللہ کے غلام مسلمانوں کے بادشاہ عمر کی طرف سے شاہ روم قیصر کے نام آپ کے قاصدوں نے جو خبر آپ کو دی ہے وہ سچ ہے اس قسم کے درخت ملک عرب میں بکثرت ہیں یہی وہ درخت ہے جسے اللہ تعالیٰ نے مریم کے پاس اگایا تھا جبکہ ان کے لڑکے حضرت عیسیٰ کی مثال اللہ تعالیٰ کے نزدیک حضرت آدم جیسی ہے کہ انہیں اللہ تعالیٰ نے مٹی سے پیدا کیا پھر فرمایا ہوجا پس وہ ہوگئے اللہ کی طرف سے سچی اور حق بات یہی ہے تجھے چاہیے کہ شک و شبہ کرنے والوں میں نہ رہے اکمام کے معنی لیف کے بھی کئے گئے ہیں جو درخت کھجور کی گردن پر پوست کی طرح ہوتا ہے اور اس نے زمین میں بھوسی اور اناج پیدا کیا عصف کے معنی کھیتی کے سبز پتے مطلب یہ ہے کہ گیہوں جو وغیرہ کے وہ دانے جو خوشہ میں بھوسی سمیت ہوتے ہیں اور جو پتے ان کے درختوں پر لپٹے ہوئے ہوتے ہیں اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ کھیتی سے پہلے ہی اگے ہوئے پتوں کو تو عصف کہتے ہیں اور جب دانے نکل آئیں بالیں پیدا ہوجائیں تو انہیں ریحان کہتے ہیں جیسے کہ زید بن عمرو بن نفیل کے مشہور قصیدے میں ہے۔ پھر فرماتا ہے اے جنو اور انسانو تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے یعنی تم اس کی نعمتوں کے سر سے پیر تک ڈوبے ہوئے ہو اور مالا مال ہو رہے ہو ناممکن ہے کہ حقیقی طور پر تم کسی نعمت کا انکار کرسکو اور اسے جھوٹ بتاسکو ایک دو نعمتیں ہوں تو خیر یہاں تو سر تا پا اس کی نعمتوں سے تم دبے ہوئے ہو اسی لئے مومن جنوں نے اسے سن کر جھٹ سے جواب دیا (اللھم ولا بشئی من الائک ربنا نکذب فلک الحمد) حضرت ابن عباس اس کے جواب میں فرمایا کرتے تھے (لا فایھا یارب) یعنی خدایا ہم ان میں سے کسی نعمت کا انکار نہیں کرسکتے۔ حضرت ابوبکر صدیق کی صاحبزادی حضرت اسماء فرماتی ہیں کہ شروع شروع رسالت کے زمانہ میں ابھی امر اسلام کا پوری طرح اعلان نہ ہوا تھا میں نے رسول اللہ کو بیت اللہ میں دکن کی طرف نماز پڑھتے ہوئے دیکھا آپ اس نماز میں اس سورت کی تلاوت فرما رہے تھے اور مشرکین بھی سن رہے تھے۔