الحدید آية ۱
سَبَّحَ لِلّٰهِ مَا فِى السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِۚ وَهُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ
طاہر القادری:
اللہ ہی کی تسبیح کرتے ہیں جو بھی آسمانوں اور زمین میں ہیں، اور وہی بڑی عزت والا بڑی حکمت والا ہے،
English Sahih:
Whatever is in the heavens and earth exalts Allah, and He is the Exalted in Might, the Wise.
1 Abul A'ala Maududi
اللہ کی تسبیح کی ہے ہر اُس چیز نے جو زمین اور آسمانوں میں ہے، اور وہی زبردست دانا ہے
2 Ahmed Raza Khan
اللہ کی پاکی بولتا ہے جو کچھ آسمان اور زمین میں ہے اور وہی عزت و حکمت والا ہے،
3 Ahmed Ali
الله کی پاکیزگی بیان کرتے ہیں وہ جو آسمانوں اور زمین میں ہیں اور وہ زبردست حکمت والا ہے
4 Ahsanul Bayan
جو مخلوق آسمانوں اور زمین میں ہے خدا کی تسبیح کرتی ہے۔ اور وہ غالب (اور) حکمت والا ہے
5 Fateh Muhammad Jalandhry
جو مخلوق آسمانوں اور زمین میں ہے خدا کی تسبیح کرتی ہے۔ اور وہ غالب (اور) حکمت والا ہے
6 Muhammad Junagarhi
آسمانوں اور زمین میں جو ہے (سب) اللہ کی تسبیح کر رہے ہیں، وه زبردست باحکمت ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
ہر وہ چیز جو آسمانوں اور زمین میں ہے وہ اللہ کی تسبیح کرتی ہے وہ (ہر چیز پر) غالب (اور) بڑا حکمت والا ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
محو تسبیح پروردگار ہے ہر وہ چیز جو زمین و آسمان میں ہے اور وہ پروردگار صاحبِ عزت بھی ہے اور صاحبِ حکمت بھی ہے
9 Tafsir Jalalayn
جو مخلوق آسمانوں اور زمین میں ہے خدا کی تسبیح کرتی ہے اور وہ غالب (اور) حکمت والا ہے
ترجمہ : میں شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے، زمین اور آسمان میں جو کچھ ہے وہ اللہ کی پاکی بیان کرتی ہے یعنی ہر چیز اس کی پاکی بیان کرتی ہے (للہ) میں لام زائدہ ہے من کے بجائے ما کا استعمال اکثر کو غلہ دینے کے اعتبار سے ہے وہ اپنے ملک میں زبردست اور اپنی نصعت میں حکمت والا ہے زمین اور آسمان کی بادشاہت اسی کی ہے پیدا کر کے زندگی دیتا ہے اس کے بعد موت دیتا ہے وہ ہر چیز پر قادر ہے وہی اول ہے بغیر ابتداء کے ہر چیز سے پہلے اور وہی آخر ہے یعنی بلا نہایت کے ہر چیز کے بعد رہے گا وہی ظاہر ہے اس پر دلائل موجود ہونے کی وجہ سے اور وہ حواس کے ادراک سے مخفی ہے اور ہر شئی کو جاننے والا ہے وہی ہے جس نے آسمان اور زمین کو دنیا کے ایام کے مطابق چھ دنوں میں پیدا فرمایا ان میں پہلا دن یکشنبہ (اتوار) کا ہے اور آخری دن جمعہ کا، پھر وہ عرش کرسی پر مستوی ہوگیا ایسا استواء جو اس کی شان کے لائق ہے وہ اس چیز کو بھی جانتا ہے جو زمین میں داخل ہوتی ہے جیسا کہ بارش کا پانی اور مردے، اور اس کو بھی جو زمین سے نکلتی ہے جیسا کہ نباتات اور معدنیات اور جو آسمان سے نازل ہو، جیسا کہ رحمت اور عذاب اور جو اس کی طرف چڑھے، جیسا کہ اعمال صالحہ اور اعمال سیئہ اور تم جہاں کہیں ہو وہ علم کے اعتبار سے تمہارے ساتھ ہے اور تم جو کچھ کر رہے ہو اللہ اس کو دیکھ رہا ہے، آسمان اور زمین کی بادشاہت اسی کی ہے اور اسی کی طرف تمام امور لوٹائے جائیں گے یعنی تمام موجودات، وہ رات کو دن میں داخل کرتا ہے تو دن بڑھ جاتا ہے اور رات گھٹ جاتی ہے اور دن کو رات میں داخل کردیتا ہے تو رات بڑھ جاتی ہے اور دن گھٹ جاتا ہے اور وہ سینوں کے رازوں کا پورا عالم ہے یعنی سینوں میں جو راز اور معتقدات ہیں ان کو بخوبی جانتا ہے اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لے آئو یعنی ایمان پر دائم رہو، اللہ کے راستہ میں اس مال میں سے خرچ کرو جس میں تم کو نائب بنایا ہے ان لوگوں کے مال میں جو تم سے پہلے گذر چکے اور اس میں تمہارے بعد والوں کو تمہارا خلیفہ بنائے گا، یہ آیت غزوہ عسرہ کے بارے میں نازل ہئوی اور وہ غزوہ تبوک ہے پس تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور خرچ کیا انکے لئے بڑا اجر ہے (اس میں) حضرت عثمان غنی (رض) کی طرف اشارہ ہے، تم اللہ پر ایمان کیوں نہیں لاتے ؟ یہ کفار کو خطاب ہے یعنی اللہ پر ایمان لانے سے کوئی چیز تم کو مانع نہیں ہے حالانکہ خود رسول تمہیں اپنے رب پر ایمان لانے کی دعوت دے رہا ہے اور خود خدا نے تم سے اس پر عہد لیا تھا، اگر تم کو ایمان لانا ہو یعنی اگر اس پر ایمان لانے کا ارادہ ہو تو اس کی طرف سبقت کرو (اخذ) ہمزہ کے ضمہ اور خاء کے کسرہ کے ساتھ اور دونوں کے فتحہ کے ساتھ اور اس کے مابعد فتحہ کے ساتھ ہے، یعنی اللہ نے انسان سے عالم ذر (نمل) میں جبکہ ان کو خود ان کے اوپر الست بربکم کے ذریعہ شاہد بنایا تھا تو سب نے جواب دیا تھا بلی وہی ہے جو اپنے بندے پر قرآن کی واضح آیتیں نازل کرتا ہے تاکہ تم کو کفر کی ظلمت سے ایمان کے نور کی طرف نکالے یقینا اللہ تعالیٰ تم کو کفر سے ایمان کی طرف نکال کر تم پر بڑا نرمی کرنے والا رحم کرنے والا ہے تمہیں کیا ہوگا ہے کہ ایمان کے بعد اللہ کے راستہ میں خرچح نہیں کرتے ؟ آسمانوں اور زمین کی میراث مع تمام ان چیزوں کے جواب میں ہیں اللہ کے لئے ہے تمہارے اموال بغیر اجیر انفاق کے اسی کے پاس پہنچ جائیں گے۔ بخلاف اس مال کے جسم کو تم نے خرچ کیا تو اس پر تم کو اجر عطا کیا جائے گا، تم میں سے جو لوگ فتح مکہ سے پہلے (فی سبیل اللہ) خرچ کرچکے اور (فی سبیل اللہ) لڑ چکے برابر نہیں یہی لوگ ہیں بڑے درجے والے ان لوگوں سے جنہوں نے (فتح مکہ کے عبد) خرچ کیا اور قتال کیا، دونوں فریقوں میں سے ہر ایک سے اللہ کا جنت کا وعدہ ہے اور ایک قرأت میں (کل) رفع کے ساتھ مبتداء ہے جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے باخبر سورو اس کی تم کو جزاء دے گا۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
سوال : سبح للہ میں سبح کو متعدی بالام لایا گیا ہے حالانکہ سبح متعدی بنفسہ استعمال ہوتا ہے۔
جواب :۔ لام زائدہ تاکید کے لئے ہے جیسے نصحت لہ وشکوت لہ یا تعلیل کے لئے ہے، مفسر علام نے سبح للہ کی تفسیر نزھہ سے کر کے اور فاللام مزیدۃ کا اضافہ کر کے اسی اعتراض کا جواب دیا ہے۔
قولہ : بالانشاء اس لفظ سے اشارہ کردیا کہ یحییٰ سے مراد زندہ چھوڑنا نہیں ہے جیسا کہ نمود و بعض کو قتل کردیا تھا اور بعض کو زندہ چھوڑ دیتا تھا، نمود نے حضرت ابراہمی (علیہ السلام) سے محاجہ کرتے ہوئے انا احیی و امیت کہا اور وہ آدمیوں کو بلایا جن میں سے ایک کو قتل کردیا اور دوسرے کو چھوڑ دیا اور کہا انا احی و امیت بعض کو قتل نہ کرنا زندہ کرنا نہیں ہے بلکہ یحییٰ سے مراد نشاء حیات ہے۔
قولہ : الکرسی مناسب تھا کہ لاعرش کی تفسیر کرسی سے کرنے کے بجائے اپنی حالت پر رہنے دیتے۔
قولہ : استواء یلیق بہ :۔ یہ سلف کی تفسیر ہے خلف اس کی تاویل قہر اور غلبہ سے کرتے ہیں۔
قولہ : والسیئۃ بہتر ہوتا کہ اس کو حذف کردیتے اس لئے کہ آسمان کی طرف کلمات طیبات صعود کرتے ہیں نہ کہ کلمات سیئہ
قولہ : دوموا علی الایمان اس عبارت کے اضافہ کا مقصد ایک سوال کا جواب ہے۔
سوال : خطاب مومنین کو ہے۔ لہٰذا ان سے آمنوا کہنا تحصیل حاصل ہے۔
جواب :۔ آمنوا سے مراد دوام وقرار علی الایمان ہے جو کہ مومنین سے مطلوب ہے۔
قولہ : والرسولہ یدعوکم یہ لاتومنون کی ضمیر سے حال ہے۔
قولہ : وقد اخذ میثاقکم یہ یدعوکم کے کم ضمیر سے حال ہے۔
قولہ : ایم ریدین الایمان یہ عبارت بھی ایک سوال مقدر کا جواب ہے۔
سوال : اول فرمایا مالکم لائومنون باللہ جس کا مقتضی ہے کہ مخاطب مومن نہیں ہے اس کے بعد ارشاد فرمایا ان کنتم مومنین جس کا مقتضیٰ ہے کہ مخاطب مومن ہے۔
جواب :۔ جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ تم اللہ کے رسول محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لے آئو اگر تم موسیٰ (علیہ السلام) اور عیسیٰ علیہ الصلام والسلام پر ایمان رکھتے ہو، اس لئے کہ ان حضرات کی شریعت بھی اس بات کی مقتضی ہے کہ تم محمد پر ایمان لائو۔
قولہ : فبادروا الیہ اس میں اشارہ ہے کہ جواب شرط محذوف ہے اور وہ فبادروا الخ ہے۔
قولہ : من انفق من قبل یہ لایستوی کا فاعل ہے اور استوی دو چیزوں سے کم میں نہیں ہوتا، معلوم ہوا اس کا مقابل اس کے واضح ہونے کی وجہ سے حذف کردیا گیا ہے اور وہ من انفق من بعد الفتح ہے۔
قولہ : کلا، وعداللہ کا مفعول مقدم ہے اور ابن عامر نے کل مبتداء ہونے کی وجہ سے رفع کے ساتھ پڑھا ہے اور مابعد اس کی خبر ہے۔
تفسیر و تشریح
ربط :۔
سورة واقعہ کو فسبیح باسم ربک العظیم پر ختم فرمایا ہے، اس میں تسبیح کا حکم دیا گیا ہے اور سورة حدید کو سبح للہ مافی السموت ولارض سے شروع فرمایا ہے تو گویا کہ سورة حدید کی ابتداء علت ہے سورة واقعہ کے اختتامی مضمون کی، گویا کہ فرمایا گیا فسبح باسم ربک العظیم لانہ سبح لہ ما فی السموت ولارض
سورة حدید کے فضائل :
ابودائود، ترمذی، نسائی میں حضرت عرباض بن ساریہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رات کو سونے سے پہلے مسبحات پڑھا کرتے تھے اور آپ نے فرمایا ان فیھن آیۃ افضل من الف آیۃ آپ نے فرمایا ان میں ایک آیت ایسی ہے جو ایک ہزار آیتوں سے افضل ہے اور ابن ضرس نے یحییٰ بن ابی کثیر سے بھی ایسا ہی روایت کیا ہے، اور یحییٰ نے کہا کہ ہم ہزار آیتوں کے مساوی آیت سورة حشر کی آخری آیت کو سمجھتے تھے۔ (روح)
سورة مسبحات پانچ سورتوں کو حدیث میں مسبحات سے تعبیر کیا گیا ہے جن کے شروع میں سبح یا یسبح آیا ہے ان میں پہلی سورت سورة حدید ہے، دوسری حشر، تیسری صف، چوتھی جمعہ، پانچویں تغابن، ان پانچوں سورتوں میں سے تین یعنی حدید، حشر، صف میں، سبح بیغہ ماضی آیا ہے اور آخری دو سورتوں یعنی جمعہ اور تغابن میں یسبح بصیغہ مضارع آیا ہے، اس میں اشارہ اس طرف ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی تسبیح اور اس کا ذکر ہر زمانے اور ہر وقت خواہ ماضی ہو یا مستقبل و حال، جاری رہنا چاہیے، اور کائنات کا ذرہ ذرہ ہمیشہ اپنے خالق کی پاکی بیان کرتا رہتا ہے آج بھی کر رہا ہے اور ہمیشہ کرتا رہے گا۔
ھو العزیز الحکیم حصر کے ساتھ فرمایا، وہی عزیز اور حکیم ہے، عزیز کے معنی ہیں قوی طاقتور اور حکیم کے معنی ہیں حکمت کے ساتھ کام کرنے والا یعنی وہ جو کچھ بھی کرتا ہے حکمت اور دانائی کے ساتھ کرتا ہے، اس کی تخلیق اس کی تدبیر، اس کی فرمانروائی، اس کے احکام، اس کی ہدایات سب حکمت پر مبنی ہیں، اس کے کسی کام میں نادانی اور حماقت و جہالت کا شائبہ تک نہیں ہے، اور وہ ایسا عزیز و طاقتور ہے کہ وہ کائنات میں جس طرح چاہتا ہے تصرف کرتا ہے۔
لطیف نکتہ :۔
اس مقام پر ایک لطیف نکتہ یاد رکھنے کے لائق ہے، جسے اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے، قرآن مجید میں کم ہی مقامات ایسے ہیں جہاں اللہ تعالیٰ کی صفت عزیز کے ساتھ قوی، مقتدر، جبار، ذو انتقام جیسے الفاظ استعمال ہوئے ہیں، جن سے محض اس کے اقتدار مطلق کا اظہار ہوتا ہے اور وہ بھی صرف ان مواقع پر استعمال ہوا ہے، جہاں سلسلہ کلام اس بات کا متقاضی تھا کہ ظالموں اور نافرمانوں کو اللہ کی پکڑ سے ڈرایا جائے، اس طرح کے چند مقامات کو چھوڑ کر باقی جہاں بھی اللہ تعالیٰ کے لئے عزیز کا لفظ استعمال ہوا ہے، وہاں اس کے ساتھ حکیم، علیم، غفور، وھاب اور حمید میں سے کوئی لفظ ضرور استعمال ہوا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر کوئی ہستی ایسی ہو جسے بےپناہ طاقت حاصل ہو مگر اس کے ساتھ وہ نادان ہو، جاہل ہو، بےرحم ہو، معاف اور درگذر کرنا جانتی ہی نہ ہو، بخیل ہو اور بد سیرت اور تند خود ہو، ضدی اور ہٹ دھرم ہو تو اس کے اقتدار کا نتیجہ ظلم کے سوا کچھ نہیں ہوسکتا دنیا میں جہاں کہیں بھی ظلم ہو رہا ہے اس کا بنیادی سبب یہی ہے کہ جس شخص یا جماعت کو دوسروں پر بالا دستی حاصل ہے، وہ اپنی طاقت کو یا توانادانی اور جہالت کے ساتھ استعمال کر رہا ہے یا وہ بےرحم اور سنگ دل ہے، طاقت کے ساتھ ان بری صفات کا اجتماع جہاں کہیں بھی ہو وہاں کسی خیر کی توقع نہیں کا جاسکتی، اسی لئے اللہ تعالیٰ کے لئے اس کی صفت عزیز کے ساتھ اس کے حکیم وعلیم اور رحیم و غفور اور حمید و وہاب ہونے کا ذکر لازماً کیا گیا ہے اور یہ تمام صفات کمال اس کی ذات میں شامل ہیں۔
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک وتعالیٰ اپنی عظمت و جلال اور اپنی لا محدود قوت کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے کہ آسمانوں اور زمین کی تمام موجودات، حیوانات ناطقہ اور جمادات وغیرہ ،اپنے رب کی حمد و ستائش کے ساتھ، اس کی تسبیح بیان کر رہے ہیں اور ان اوصاف سے اسے منزہ قرار دے رہے ہیں جو اس کے جلال کے لائق نہیں، نیز یہ کہ تمام موجودات اپنے رب کی مطیع اور اس کے غلبے کے سامنے سرنگوں ہے۔ ان موجودات میں اس کی حکمت کے آثار ظاہر ہوئے ہیں۔ بنا بریں فرمایا ﴿وَہُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ ﴾’’اور وہ زبردست باحکمت ہے۔‘‘ اس آیت کریمہ میں اس حقیقت کو بیان کیا گیا ہے کہ عالم علوی اور عالم سفلی کی تمام مخلوقات اپنے تمام احوال میں ہر لحاظ سے اپنے رب کی محتاج ہیں، اس کے لامحدود غلبہ و قہر نے تمام اشیاء کو مغلوب و مقہور کر رکھا ہے اور اس کی حکمت عامہ اس کے خلق و امر میں جاری و ساری ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
aasmano aur zameen mein jo cheez bhi hai , woh Allah ki tasbeeh kerti hai , aur wohi hai jo iqtidar ka bhi malik hai , hikmat ka bhi malik .
12 Tafsir Ibn Kathir
کل کائنات ثناء خواں ہے
تمام حیوانات، سب نباتات اس کی پاکی بیان کرتے ہیں، ساتواں آسمان، زمینیں، ان کی مخلوق اور ہر ایک چیز اس کی ستائش کرنے میں مشغول ہے گو تم ان کی تسبیح نہ سمجھ سکو اللہ حلیم و غفور ہے۔ اس کے سامنے ہر کوئی پست و عاجز و لاچار ہے، اس کی مقرر کردہ شریعت اور اس کے احکام حکمت سے پر ہیں۔ حقیقی بادشاہ جس کی ملکیت میں آسمان و زمین ہیں وہی ہے، خلق میں متصرف وہی ہے، زندگی موت اسی کے قبضے میں ہے، وہی فنا کرتا ہے، وہی پیدا کرتا ہے۔ جسے جو چاہے عنایت فرماتا ہے، ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے، جو چاہتا ہے ہوجاتا ہے، جو نہ چاہے نہیں ہوسکتا۔ اس کے بعد کی آیت ( هُوَ الْاَوَّلُ وَالْاٰخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ ۚ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ ) 57 ۔ الحدید :3) وہ آیت ہے جس کی بابت اوپر کی حدیث میں گذرا کہ ایک ہزار آیتوں سے افضل ہے۔ حضرت ابو زمیل حضرت ابن عباس سے کہتے ہیں کہ میرے دل میں ایک کھٹکا ہے لیکن زبان پر لانے کو جی نہیں چاہتا اس پر حضرت ابن عباس (رض) نے مسکرا کر فرمایا شاید کچھ شک ہوگا جس سے کوئی نہیں بچا یہاں تک کہ قرآن میں ہے آیت ( فَاِنْ كُنْتَ فِيْ شَكٍّ مِّمَّآ اَنْزَلْنَآ اِلَيْكَ فَسْــــَٔـلِ الَّذِيْنَ يَقْرَءُوْنَ الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِكَ ۚ لَقَدْ جَاۗءَكَ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكَ فَلَا تَكُوْنَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِيْنَ 94 ۙ ) 10 ۔ یونس :94) ، یعنی اگر تو جو کچھ تیری طرف نازل کیا گیا ہے اس میں شک میں ہو تو تجھ سے پہلے جو کتاب پڑھتے ہیں ان سے پوچھ لے۔ پھر فرمایا جب تیرے دل میں کوئی شک ہو تو اس آیت کو پڑھ لیا کر ( هُوَ الْاَوَّلُ وَالْاٰخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ ۚ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ ) 57 ۔ الحدید :3) اس آیت کی تفسیر میں دس سے اوپر اوپر اقوال ہیں۔ بخاری فرماتے ہیں یحییٰ کا قول ہے کہ ظاہر باطن سے مراد از روئے علم ہر چیز پر ظاہر اور پوشیدہ ہونا ہے۔ یہ یحییٰ زیاد فراء کے لڑکے ہیں ان کی ایک تصنیف ہے جس کا نام معانی القرآن ہے۔ مسند احمد میں ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سونے کے وقت یہ دعا پڑھا کرتے۔
اے اللہ اے ساتوں آسمانوں کے اور عرش عظیم کے رب، اے ہمارے اور ہر چیز کے رب ! اے تورات و انجیل کے اتارنے والے ! اے دانوں اور گٹھلیوں کو اگانے والے تیرے سوا کوئی لائق عبادت نہیں میں تیری پناہ میں آتا ہوں ہر اس چیز کی برائی سے کہ اس کی چوٹی تیرے ہاتھ میں ہے تو اول ہے تجھ سے پہلے کچھ نہ تھا تو ہی آخر ہے تیرے بعد کچھ نہیں تو ظاہر ہے تجھ سے اونچی کوئی چیز نہیں تو باطن ہے تجھ سے چھپی کوئی چیز نہیں ہمارے قرض ادا کرا دے اور ہمیں فقیری سے غنا دے۔ حضرت ابو صالح اپنے متعلقین کو یہ دعا سکھاتے اور فرماتے سوتے وقت داہنی کروٹ پر لیٹ کر یہ دعا پڑھ لیا کرو، الفاظ میں کچھ ہیر پھیر ہے۔ ملاحظہ ہو مسلم۔ ابو یعلی میں ہے حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم سے آپ کا بسترہ قبلہ رخ بچھایا جاتا آپ آ کر اپنے داہنے ہاتھ پر تکیہ لگا کر آرام فرماتے، پھر آہستہ آہستہ کچھ پڑھتے رہتے لیکن آخر رات میں با آواز بلند یہ دعا پڑھتے (جو اوپر بیان ہوئی) الفاظ میں کچھ ہیر پھیر ہے۔ اس آیت کی تفسیر میں جامع ترمذی میں ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے صحابہ سمیت تشریف فرما تھے کہ ایک بادل سر پر آگیا آپ نے فرمایا جانتے ہو یہ کیا ہے ؟ صحابہ نے با ادب جواب دیا اللہ اور اس کے رسول زیادہ جاننے والے ہیں۔ فرمایا اسے عنان کہتے ہیں یہ زمین کو سیراب کرنے والے ہیں ان لوگوں پر بھی یہ برسائے جاتے ہیں جو نہ اللہ کے شکر گزار ہیں نہ اللہ کے پکارنے والے پھر پوچھا معلوم ہے تمہارے اوپر کیا ہے انہوں نے کہا اللہ اور اس کا رسول زیادہ باخبر ہے، فرمایا بلند محفوظ چھت اور لپٹی ہوئی موج، جانتے ہو تم میں اس میں کس قدر فاصلہ ہے وہی جواب ملا، فرمایا پانچ سو سال کا راستہ۔ پھر پوچھا جانتے ہو اس کے اوپر کیا ہے ؟ صحابہ نے پھر اپنی لاعلمی ان ہی الفاظ میں ظاہر کی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس کے اوپر پھر دوسرا آسمان ہے اور ان دونوں آسمانوں میں بھی پانچ سو سال کا فاصلہ ہے اسی طرح آپ نے سات آسمان گنوائے اور ہر دو میں اتنی ہی دوری بیان فرمائی۔ پھر سوال کر کے جواب سن کر فرمایا اس ساتویں کے اوپر اتنے ہی فاصلہ سے عرش ہے، پھر پوچھا جانتے ہو تمہارے نیچے کیا ہے اور جواب وہی سن کر فرمایا دوسری زمین ہے، پھر سوال جواب کے بعد فرمایا اس کے نیچے دوسری زمین ہے اور دونوں زمینوں کے درمیان پانچ سو سال کا فاصلہ ہے، اسی طرح سات زمینیں اسی فاصلہ کے ساتھ ایک دوسرے کے نیچے بتائیں، پھر فرمایا اس کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جان ہے اگر تم کوئی رسی سب سے نیچے کی زمین کی طرف لٹکاؤ تو وہ بھی اللہ کے پاس پہنچے گی پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت کی، لیکن یہ حدیث غریب ہے اس کے راوی حسن کا ایوب یونس اور علی بن زید محدثین کا قول ہے۔ بعض اہل علم نے اس حدیث کی شرح میں کہا ہے کہ اس سے مراد رسی کا اللہ تعالیٰ کے علم قدرت اور غلبے تک پہنچنا ہے (نہ کہ ذات باری تعالیٰ ) اللہ تعالیٰ کا علم اس کی قدرت اور اس کا غلبہ اور سلطنت بیشک ہر جگہ ہے لیکن وہ اپنی ذات سے عرش پر ہے جیسے کہ اس نے اپنا یہ وصف اپنی کتاب میں خود بیان فرمایا ہے۔ مسند احمد میں بھی یہ حدیث ہے اور اس میں دو دو زمینوں کے درمیان کا فاصلہ سات سو سال کا بیان ہوا۔ ابن ابی حاتم اور بزار میں بھی یہ حدیث ہے لیکن ابن ابی حاتم میں رسی لٹکانے کا جملہ نہیں اور ہر دو زمین کے درمیان کی دوری اس میں بھی پانچ سو سال کی بیان ہوئی ہے۔ امام بزار نے یہ بھی فرمایا ہے کہ اس روایت کا راوی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بغیر حضرت ابوہریرہ کے اور کوئی نہیں۔ ابن جریر میں یہ حدیث مرسلاً مروی ہے یعنی قتادہ فرماتے ہیں ہم سے یوں ذکر کیا گیا ہے پھر حدیث بیان کرتے ہیں صحابی کا نام نہیں لیتے۔ ممکن ہے یہی ٹھیک ہو، واللہ اعلم، حضرت ابوذر غفاری سے مسند بزار اور کتاب الاسماء و الصفات بیہقی میں یہ حدیث مروی ہے لیکن اس کی اسناد میں نظر ہے اور متن میں غربت و نکارت ہے واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم۔ امام ابن جریر آیت (وَّمِنَ الْاَرْضِ مِثْلَهُنّ 12ۧ) 65 ۔ الطلاق :12) کی تفسیر میں حضرت قتادہ کا قول لائے ہیں کہ آسمان و زمین کے درمیان چار فرشتوں کی ملاقات ہوئی۔ آپس میں پوچھا کہ تم کہاں سے آ رہے ہو ؟ تو ایک نے کہا ساتویں آسمان سے مجھے اللہ عزوجل نے بھیجا ہے اور میں نے اللہ کو وہیں چھوڑا ہے۔ دوسرے نے کہا ساتویں زمین سے مجھے اللہ نے بھیجا تھا اور اللہ وہیں تھا، تیسرے نے کہا میرے رب نے مجھے مشرق سے بھیجا ہے جہاں وہ تھا چوتھے نے کہا مجھے مغرب سے اللہ تعالیٰ نے بھیجا ہے اور میں اسے وہیں چھوڑ کر آ رہا ہوں۔ لیکن یہ روایت بھی غریب ہے بلکہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حضرت قتادہ والی اوپر کی روایت جو مرسلاً بیان ہوئی ہے ممکن ہے وہ بھی حضرت قتادہ کا اپنا قول ہو جیسے یہ قول خود قتادہ کا اپنا۔ واللہ اعلم