Skip to main content

يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا قِيْلَ لَـكُمْ تَفَسَّحُوْا فِى الْمَجٰلِسِ فَافْسَحُوْا يَفْسَحِ اللّٰهُ لَـكُمْ ۚ وَاِذَا قِيْلَ انْشُزُوْا فَانْشُزُوْا يَرْفَعِ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ ۙ وَالَّذِيْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ دَرَجٰتٍ ۗ وَاللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيْرٌ

O you who believe!
يَٰٓأَيُّهَا
اے
O you who believe!
ٱلَّذِينَ
لوگو
O you who believe!
ءَامَنُوٓا۟
جو ایمان لائے ہو
When
إِذَا
جب
it is said
قِيلَ
کہا جائے
to you
لَكُمْ
تم سے
"Make room"
تَفَسَّحُوا۟
جگہ پیدا کرو۔ کشادگی پیدا کرو
in
فِى
میں
the assemblies
ٱلْمَجَٰلِسِ
مجلسوں (میں)
then make room
فَٱفْسَحُوا۟
تو کشادگی پیدا کرو
Allah will make room
يَفْسَحِ
کشادگی پیدا کردے گا
Allah will make room
ٱللَّهُ
اللہ
for you
لَكُمْۖ
تمہارے لیے
And when
وَإِذَا
اور جب
it is said
قِيلَ
کہا جائے
"Rise up"
ٱنشُزُوا۟
اٹھ جاؤ
then rise up
فَٱنشُزُوا۟
تو اٹھ جایا کرو
Allah will raise
يَرْفَعِ
بلند کرتا ہے
Allah will raise
ٱللَّهُ
اللہ
those who
ٱلَّذِينَ
ان لوگوں کو
believe
ءَامَنُوا۟
جو ایمان لائے
among you
مِنكُمْ
تم میں سے
and those who
وَٱلَّذِينَ
اور وہ لوگ
were given
أُوتُوا۟
جو دیے گئے
the knowledge
ٱلْعِلْمَ
علم
(in) degrees
دَرَجَٰتٍۚ
درجوں میں
And Allah
وَٱللَّهُ
اور اللہ
of what
بِمَا
ساتھ اس کے جو
you do
تَعْمَلُونَ
تم عمل کرتے ہو
(is) All-Aware
خَبِيرٌ
باخبر ہے

تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جب تم سے کہا جائے کہ اپنی مجلسوں میں کشادگی پیدا کرو تو جگہ کشادہ کر دیا کرو، اللہ تمہیں کشادگی بخشے گا اور جب تم سے کہا جائے کہ اٹھ جاؤ تو اٹھ جایا کرو تم میں سے جو لوگ ایمان رکھنے والے ہیں اور جن کو علم بخشا گیا ہے، اللہ ان کو بلند درجے عطا فرمائے گا، اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ کو اس کی خبر ہے

English Sahih:

O you who have believed, when you are told, "Space yourselves" in assemblies, then make space; Allah will make space for you. And when you are told, "Arise," then arise; Allah will raise those who have believed among you and those who were given knowledge, by degrees. And Allah is Aware of what you do.

ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جب تم سے کہا جائے کہ اپنی مجلسوں میں کشادگی پیدا کرو تو جگہ کشادہ کر دیا کرو، اللہ تمہیں کشادگی بخشے گا اور جب تم سے کہا جائے کہ اٹھ جاؤ تو اٹھ جایا کرو تم میں سے جو لوگ ایمان رکھنے والے ہیں اور جن کو علم بخشا گیا ہے، اللہ ان کو بلند درجے عطا فرمائے گا، اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ کو اس کی خبر ہے

احمد رضا خان Ahmed Raza Khan

اے ایمان والو جب تم سے کہا جائے مجلسوں میں جگہ دو تو جگہ دو اللہ تمہیں جگہ دے گا اور جب کہا جائے اٹھ کھڑے ہو تو اٹھ کھڑے ہو اللہ تمہارے ایمان والوں کے اور ان کے جن کو علم دیا گیا درجے بلند فرمائے گا، اور اللہ کو تمہارے کاموں کی خبر ہے،

احمد علی Ahmed Ali

اے ایمان والو جب تمہیں مجلسوں میں کھل کر بیٹھنے کو کہا جائے تو کھل کر بیٹھو الله تمیں فراخی دے گا اور جب کہا جائے کہ اٹھ جاؤ تو اٹھ جاؤ تم میں سے الله ایمان داروں کے اور ان کے جنہیں علم دیا گیا ہے درجے بلند کرے گا اور جو کچھ تم کرتے ہواللہ اس سے خبردار ہے

أحسن البيان Ahsanul Bayan

اے مسلمانو! جب تم سے کہا جائے کہ مجلسوں میں ذرا کشادگی پیدا کرو تو تم جگہ کشادہ کردو (۱) اللہ تمہیں کشادگی دے گا (۲) اور جب کہا جائے اٹھ کھڑے ہو جاؤ تو تم اٹھ کھڑے ہو جاؤ (۳) اللہ تعالٰی تم میں سے ان لوگوں کے جو ایمان لائے ہیں اور جو علم دیئے گئے ہیں درجے بلند کر دے گا (٤) اور اللہ تعالیٰ(ہر اس کام سے) جو تم کر رہے ہو (خوب) خبردار ہے۔

۱۱۔۱ اس میں مسلمانوں کو مجلس کے آداب بتلائے جا رہے ہیں مجلس کا لفظ عام ہے جو ہر اس مجلس کو شامل ہے جس میں مسلمان خیر اور اجر کے حصول کے لیے جمع ہوں وعظ ونصیحت کی مجلس ہو یا جمعہ کی مجلس ہو تفسیر القرطبی کھل کر بیٹھو کا مطلب ہے کہ مجلس کا دائرہ وسیع رکھو تاکہ بعد میں آنے والوں کے لے بیٹھنے کی جگہ رہے دائرہ تنگ مت رکھو کہ بعد میں آنے والے کو کھڑا رہنا پڑھے یا کسی بیٹھے ہو‏ئے کو اٹھا کر اس کی جگہ وہ بیٹھے کہ یہ دونوں باتیں ناشائستہ ہیں چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا کوئی شخص کسی دوسرے شخص کو اس کی جگہ سے اٹھا کر خود نہ بیٹھے اس لیے مجلس کے دائرے کو فراخ اور وسیع کر لو۔ صحیح بخاری۔
١١۔۲ یعنی اس کے صلے میں اللہ تعالٰی تمہیں جنت میں وسعت عطا فرمائے گا یا جہاں بھی تم وسعت و فراخی کے طالب ہوگے، مثلاً مکان میں، رزق میں، قبر میں، ہرجگہ تمہیں فراخی عطا فرمائے گا۔
١١۔۳ یعنی جہاد کے لئے، نماز کے لئے یا کسی بھی عمل خیر کے لئے۔ یا مطلب ہے کہ جب مجلس سے اٹھ کر جانے کو کہا جائے تو فوراً چلے جاؤ۔ مسلمانوں کو یہ حکم اس لئے دیا گیا کہ صحابہ کرام نبی کی مجلس سے اٹھ کر جانا پسند نہیں کرتے تھے لیکن اس طرح بعض دفعہ ان لوگوں کو تکلیف ہوتی تھی جو نبی سے خلوت میں کوئی گفتگو کرنا چاہتے تھے۔
۱۱۔٤ یعنی اہل ایمان کے درجے غیر اہل ایمان پر اور اہل علم کے درجے اہل ایمان پر بلند فرمائے گا جس کا مطلب یہ ہوا کہ ایمان کے ساتھ علوم دین سے واقفیت مزید رفع درجات کا باعث ہے۔

جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry

مومنو! جب تم سے کہا جائے کہ مجلس میں کھل کر بیٹھو تو کھل بیٹھا کرو۔ خدا تم کو کشادگی بخشے گا۔ اور جب کہا جائے کہ اُٹھ کھڑے ہو تو اُٹھ کھڑے ہوا کرو۔ جو لوگ تم میں سے ایمان لائے ہیں اور جن کو علم عطا کیا گیا ہے خدا ان کے درجے بلند کرے گا۔ اور خدا تمہارے سب کاموں سے واقف ہے

محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi

اے مسلمانو! جب تم سے کہا جائے کہ مجلسوں میں ذرا کشادگی پیدا کرو تو تم جگہ کشاده کر دو اللہ تمہیں کشادگی دے گا، اور جب کہا جائے کہ اٹھ کھڑے ہو جاؤ تو تم اٹھ کھڑے ہو جاؤ اللہ تعالیٰ تم میں سے ان لوگوں کے جو ایمان ﻻئے ہیں اور جو علم دیئے گئے ہیں درجے بلند کر دے گا، اور اللہ تعالیٰ (ہر اس کام سے) جو تم کر رہے ہو (خوب) خبردار ہے

محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi

اے ایمان والو! جب تم سے کہا جائے کہ (آنے والوں کیلئے) مجلسوں میں جگہ کشادہ کرو تو کشادہ کر دیا کرو اللہ تمہیں کشادگی دے گااور جب کہا جائے کہ اٹھ جاؤ تو اٹھ جایا کرو اللہ ان لوگوں کے جو تم میں سے ایمان لائے ہیں اور جن کو علم دیا گیا ہے ان کے در جے بلند کرتا ہے اور تم جو کچھ کرتے ہواللہ اس سے بڑا باخبر ہے۔

علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi

ایمان والو جب تم سے مجلس میں وسعت پیدا کرنے کے لئے کہا جائے تو دوسروں کو جگہ دیدو تاکہ خدا تمہیں جنّت میں وسعت دے سکے اور جب تم سے کہا جائے کہ اُٹھ جاؤ تو اُٹھ جاؤ کہ خدا صاحبان هایمان اور جن کو علم دیا گیا ہے ان کے درجات کو بلند کرنا چاہتا ہے اور اللہ تمہارے اعمال سے خوب باخبر ہے

طاہر القادری Tahir ul Qadri

اے ایمان والو! جب تم سے کہا جائے کہ (اپنی) مجلسوں میں کشادگی پیدا کرو تو کشادہ ہو جایا کرو اللہ تمہیں کشادگی عطا فرمائے گا اور جب کہا جائے کھڑے ہو جاؤ تو تم کھڑے ہوجایا کرو، اللہ اُن لوگوں کے درجات بلند فرما دے گا جو تم میں سے ایمان لائے اور جنہیں علم سے نوازا گیا، اور اللہ اُن کاموں سے جو تم کرتے ہو خوب آگاہ ہے،

تفسير ابن كثير Ibn Kathir

آداب مجلس باہم معاملات اور علمائے حق و باعمل کی توقیر
یہاں ایمان والوں کو اللہ تعالیٰ مجلسی آداب سکھاتا ہے۔ انہیں حکم دیتا ہے کہ نشست و برخاست میں بھی ایک دوسرے کا خیال ولحاظ رکھو۔ تو فرماتا ہے کہ جب مجلس جمع ہو اور کوئی آئے تو ذرا ادھر ادھر ہٹ ہٹاکر اسے بھی جگہ دو ۔ مجلس میں کشادگی کرو۔ اس کے بدلے اللہ تعالیٰ تمہیں کشادگی دے گا۔ اس لئے کہ ہر عمل کا بدلہ اسی جیسا ہوتا ہے، چناچہ ایک حدیث میں ہے جو شخص اللہ تعالیٰ کیلئے مسجد بنادے اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت میں گھر بنا دے گا۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ جو کسی سختی والے پر آسانی کرے اللہ تعالیٰ اس پر دنیا اور آخرت میں آسانی کرے گا، جو شخص اپنے کسی مسلمان بھائی کی مدد میں لگا رہے اللہ تعالیٰ خود اپنے اس بندے کی مدد پر رہتا ہے اور بھی اسی طرح کی بہت سی حدیثیں ہیں۔ حضرت قتادہ (رح) فرماتے ہیں یہ آیت مجلس ذکر کے بارے میں اتری ہے مثلاً وعظ ہو رہا ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کچھ نصیحت کی باتیں بیان فرما رہے ہیں لوگ بیٹھے سن رہے ہیں اب جو دوسرا کوئی آیا تو کوئی اپنی جگہ سے نہیں سرکتا تاکہ اسے بھی جگہ مل جائے۔ قرآن کریم نے حکم دیا کہ ایسا نہ کرو ادھر ادھر کھل جایا کرو تاکہ آنے والے کی جگہ ہوجائے۔ حضرت مقاتل فرماتے ہیں جمعہ کے دن یہ آیت اتری، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس دن صفہ میں تھے یعنی مسجد کے ایک چھپر تلے جگہ تنگ تھی اور آپ کی عادت مبارک تھی کہ جو مہاجر اور انصاری بدر کی لڑائی میں آپ کے ساتھ تھے آپ ان کی بڑی عزت اور تکریم کیا کرتے تھے اس دن اتفاق سے چند بدری صحابہ دیر سے آئے تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آس پاس کھڑے ہوگئے آپ سے سلام علیک ہوئی آپ نے جواب دیا پھر اور اہل مجلس کو سلام کیا انہوں نے بھی جواب دیا اب یہ اسی امید پر کھڑے رہے کہ مجلس میں ذرا کشادگی دیکھیں تو بیٹھ جائیں لیکن کوئی شخص اپنی جگہ سے نہ ہلا جو ان کیلئے جگہ ہوتی۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب یہ دیکھا تو نہ رہا گیا نام لے لے کر بعض لوگوں کو ان کی جگہ سے کھڑا کیا اور ان بدری صحابیوں کو بیٹھنے کو فرمایا، جو لوگ کھڑے کرائے گئے تھے انہیں ذرا بھاری پڑا ادھر منافقین کے ہاتھ میں ایک مشغلہ لگ گیا، کہنے لگے لیجئے یہ عدل کرنے کے مدعی نبی ہیں کہ جو لوگ شق سے آئے پہلے آئے اپنے نبی کے قریب جگہ لی اطمینان سے اپنی اپنی جگہ بیٹھ گئے انہیں تو ان کی جگہ سے کھڑا کردیا اور دیر سے آنے والوں کو ان کی جگہ دلوا دی کس قدر ناانصافی ہے، ادھر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس لئے ان کے دل میلے نہ ہوں دعا کی کہ اللہ اس پر رحم کرے جو اپنے مسلمان بھائی کیلئے مجلس میں جگہ کردے۔ اس حدیث کو سنتے ہی صحابہ نے فوراً خود بخود اپنی جگہ سے ہٹنا اور آنے والوں کو جگہ دینا شروع کردیا اور جمعہ ہی کے دن یہ آیت اتری (بن ابی حاتم) بخاری مسلم مسند وغیرہ میں حدیث ہے کہ کوئی شخص کسی دوسرے شخص کو اس کی جگہ سے ہٹاکر وہاں نہ بیٹھے بلکہ تمہیں چاہئے کہ ادھر ادھر سرک کر اس کیلئے جگہ بنادو۔ شافعی میں ہے، تم میں سے کوئی شخص اپنے بھائی کو جمعہ کے دن اس کی جگہ سے ہرگز نہ اٹھائے بلکہ کہہ دے کہ گنجائش کرو۔ اس مسئلہ میں علماء کا اختلاف ہے کہ کسی آنے والے کیلئے کھڑے ہوجانا جائز ہے یا نہیں ؟ بعض لوگ تو اجازت دیتے ہیں اور یہ حدیث پیش کرتے ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اپنے سردار کیلئے کھڑے ہوجاؤ، بعض علماء منع کرتے ہیں اور یہ حدیث پیش کرتے ہیں کہ جو شخص یہ چاہے کہ لوگ اس کیلئے سیدھے کھڑے ہوں وہ جہنم میں اپنی جگہ بنالے، بعض بزرگ تفصیل بیان کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ سفر سے اگر کوئی آیا ہو تو حاکم کیلئے عہدہ حکمرانی کے سبب لوگوں کا کھڑے ہوجانا درست ہے کیونکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جن کیلئے کھڑا ہونے کو فرمایا تھا یہ حضرت سعد بن معاذ (رض) تھے۔ بنو قریظہ کے آپ حاکم بنائے گئے تھے جب انہیں آتا ہوا دیکھا تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تھا کہ اپنے سردار کیلئے کھڑے ہوجاؤ اور یہ (بطور تعظیم کے نہ تھا بلکہ) صرف اس لئے تھا کہ ان کے احکام کو بخوبی جاری کرائے واللہ اعلم۔ ہاں اسے عادت بنالینا کہ مجلس میں جہاں کوئی بڑا آدمی آیا اور لوگ کھڑے ہوگئے یہ عجمیوں کا طریقہ ہے، سنن کی حدیث میں ہے کہ صحابہ کرام کے نزدیک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے زیادہ محبوب اور باعزت کوئی نہ تھا لیکن تاہم آپ کو دیکھ کر وہ کھڑے نہیں ہوا کرتے تھے، جانتے تھے کہ آپ اسے مکروہ سمجھتے ہیں۔ سنن کی اور حدیث میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آتے ہی مجلس کے خاتمہ پر بیٹھ جایا کرتے تھے اور جہاں آپ تشریف فرما ہوجاتے وہی جگہ صدارت کی جگہ ہوجاتی اور صحابہ کرام اپنے اپنے مراتب کے مطابق مجلس میں بیٹھ جاتے۔ حضرت الصدیق (رض) کے آپ دائیں جانب، فاروق (رض) آپ کے بائیں اور عموماً حضرت عثمان و علی (رض) آپ کے سامنے بیٹھتے تھے کیونکہ یہ دونوں بزرگ کاتب وحی تھے آپ ان سے فرماتے اور یہ وحی کو لکھ لیا کرتے تھے۔ صحیح مسلم میں ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان تھا کہ مجھ سے قریب ہو کر عقل مند، صاحب فراست لوگ بیٹھیں پھر درجہ بدرجہ اور یہ انتظام اس لئے تھا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مبارک ارشادات یہ حضرات سنیں اور بخوبی سمجھیں، یہی وجہ تھی کہ صفہ والی مجلس میں جس کا ذکر ابھی ابھی گزرا ہے آپ نے اور لوگوں کو ان کی جگہ سے ہٹاکر وہ جگہ بدری صحابہ کو دلوائی، گو اس کے ساتھ اور وجوہات بھی تھیں مثلاً ان لوگوں کو خود چاہئے تھا کہ ان بزرگ صحابہ کا خیال کرتے اور لحاظ و مروت برت کر خود ہٹ کر انہیں جگہ دیتے جب انہوں نے از خود ایسا نہیں کیا تو پھر حکماً ان سے ایسا کرایا گیا، اسی طرح پہلے کے لوگ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بہت سے کلمات پوری طرح سن چکے تھے اب یہ حضرات آئے تھے تو آپ نے چاہا کہ یہ بھی بہ آرام بیٹھ کر میری حدیثیں سن لیں اور دینی تعلیم حاصل کرلیں، اسی طرح امت کو اس بات کی تعلیم بھی دینی تھی کہ وہ اپنے بڑوں اور بزرگوں کو امام کے پاس بیٹھنے دیں اور انہیں اپنے سے مقدم رکھیں۔ مسند احمد میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز کی صفوں کی درستی کے وقت ہمارے مونڈھے خود پکڑ پکڑ کر ٹھیک ٹھاک کرتے اور زبانی بھی فرماتے جاتے سیدھے رہو ٹیڑھے ترچھے نہ کھڑے ہوا کرو، دانائی اور عقلمندی والے مجھ سے بالکل قریب رہیں پھر درجہ بہ درجہ دوسرے لوگ۔ حضرت ابو مسعود (رض) اس حدیث کو بیان فرما کر فرماتے اس حکم کے باوجود افسوس کہ اب تم بڑی ٹیڑھی صفیں کرتے ہو، مسلم، ابو داؤد، نسائی اور ابن ماجہ میں بھی یہ حدیث ہے ظاہر ہے کہ جب آپ کا یہ حکم نماز کیلئے تھا تو نماز کے سوا کسی اور وقتوں میں تو بطور اولیٰ یہی حکم رہے گا، ابو داؤد شریف میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا صفوں کو درست کرو، مونڈھے ملائے رکھو، صفوں کے درمیان خالی جگہ نہ چھوڑو اپنے بھائیوں کے پاس صف میں نرم بن جایا کرو، صف میں شیطان کیلئے سوراخ نہ چھوڑو صف ملانے والے کو اللہ تعالیٰ ملاتا ہے اور صف توڑنے والے کو اللہ تعالیٰ کاٹ دیتا ہے، اسی لئے سید القراء حضرت ابی بن کعب (رض) جب پہنچتے تو صف اول میں سے کسی ضعیف العقل شخص کو پیچھے ہٹا دیتے اور خود پہلی صف میں مل جاتے اور اسی حدیث کو دلیل میں لاتے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے مجھ سے قریب ذی رائے اور اعلیٰ عقل مند کھڑے ہوں پھر درجہ بہ درجہ دوسرے لوگ۔ حضرت عبداللہ بن عمر (رض) کو دیکھ کر اگر کوئی شخص کھڑا ہوجاتا تو آپ اس کی جگہ پر نہ بیٹھتے اور اس حدیث کو پیش کرتے جو اوپر گزری کہ کسی کو اٹھا کر اس کی جگہ میں کوئی اور نہ بیٹھے، یہاں بطور نمونے کے یہ چند مسائل اور تھوڑی حدیثیں لکھ کر ہم آغے چلتے ہیں بسط و تفصیل کی یہاں گنجائش نہیں نہ یہ موقع ہے، ایک صحیح حدیث میں ہے کہ ایک مرتبہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیٹھے ہوئے تھے کہ تین شخص آئے ایک تو مجلس کے درمیان جگہ خالی دیکھ کر وہاں آکر بیٹھ گئے دوسرے نے مجلس کے آخڑ میں جگہ بنآلی تیسرے واپس چلے گئے، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا لوگوں میں تمہیں تین شخصوں کی بابت خبر دوں ایک نے تو اللہ کی طرف جگہ لی اور اللہ تعالیٰ نے اسے جگہ دی، دوسرے نے شرم کی۔ اللہ نے بھی اس سے حیا کی، تیسرے نے منہ پھیرلیا تو اللہ تعالیٰ نے بھی اس سے منہ پھیرلیا۔ مسند احمد میں ہے کہ کسی کو حلال نہیں کہ دو شخصوں کے درمیان تفریق کرے، ہاں ان کی خوشنودی سے ہو تو اور بات ہے (ابوداؤد ترمذی) امام ترمذی نے اسے حسن کہا ہے، حضرت ابن عباس حضرت حسن بصری وغیرہ فرماتے ہیں مجلسوں کی کشادگی کا حکم جہاد کے بارے میں ہے، اسی طرح اٹھ کھڑے ہونے کا حکم بھی جہاد کے بارے میں ہے، حضرت قتادہ فرماتے ہیں یعنی جب تمہیں بھلائی اور کارخیر کی طرف بلایا جائے تو تم فوراً آجاؤ، حضرت مقاتل فرماتے ہیں، مطلب یہ ہے کہ جب تمہیں نماز کیلئے بلایا جائے تو اٹھ کھڑے ہوجایا کرو، حضرت عبدالرحمن بن زید فرماتے ہیں کہ صحابہ جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاں آتے تو جاتے وقت ہر ایک کی چاہت یہ ہوتی کہ سب سے آخر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جدا میں ہوں، بسا اوقات آپ کو کوئی کام کاج ہوتا تو بڑا حرج ہوتا لیکن آپ مروت سے کچھ نہ فرماتے اس پر یہ حکم ہوا کہ جب تم سے کھڑے ہونے کو کہا جائے تو کھڑے ہوجایا کرو، جیسے اور جگہ ہے وان قیل لکم ارجعوا فارجعوا اگر تم سے لوٹ جانے کو کہا جائے تو لوٹ جاؤ۔ پھر فرماتا ہے کہ مجلسوں میں جگہ دینے کو جب کہا جائے تو جگہ دینے میں اور جب چلے جانے کو کہا جائے تو چلے جانے میں اپنی ہتک نہ سمجھو بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک مرتبہ بلند کرنا اور اپنی توقیر کر انآ ہے اسے اللہ ضائع نہ کرے گا بلکہ اس پر دنیا اور آخرت میں نیک بدلہ دے گا، جو شخص احکام الٰہیہ پر تواضع سے گردن جھکا دے اللہ تعالیٰ اس کی عزت بڑھاتا ہے اور اس کی شہرت نیکی کے ساتھ کرتا ہے۔ ایمان والوں اور صحیح علم والوں کا یہی کام ہوتا ہے کہ اللہ کے احکام کے سامنے گردن جھکا دیا کریں اور اس سے وہ بلند درجوں کے مستحق ہوجاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کو بخوبی علم ہے کہ بلند مرتبوں کا مستحق کون ہے اور کون نہیں ؟ حضرت نافع بن عبدالحارث سے امیرالمومنین حضرت عمر فاروق (رض) کی ملاقات عسفان میں ہوئی ہے حضرت عمر نے انہیں مکہ شریف کا عامل بنایا تھا تو ان سے پوچھا کہ تم مکہ شریف میں اپنی جگہ کسے چھوڑ آئے ہو ؟ جواب دیا کہ ابن ابزیٰ کو حضرت عمر فاروق نے فرمایا وہ تو ہمارے مولیٰ ہیں یعنی آزاد کردہ غلام انہیں تم اہل مکہ کا امیر بناکر چلے آئے ہو ؟ کہا ہاں اس لئے کہ وہ اللہ کی کتاب کا ماہر اور فرائض کا جاننے والا اور اچھا وعظ کہنے والا ہے، حضرت عمر نے اس وقت فرمایا سچ فرمایا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کہ اللہ تعالیٰ اس کتاب کی وجہ سے ایک قوم کو عزت پر پہنچا کر بلند مرتبہ کرے گا اور بعض کو پست و کم مرتبہ بنا دے گا۔ (مسلم) علم اور علماء کی فضیلت، جو اس آیت اور دیگر آیات و احادیث سے ظاہر ہے میں نے ان سب کو بخاری شریف کی کتاب العلم کی شرح میں جمع کردیا ہے والحمدللہ۔