Skip to main content

يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا نَاجَيْتُمُ الرَّسُوْلَ فَقَدِّمُوْا بَيْنَ يَدَىْ نَجْوٰٮكُمْ صَدَقَةً ۗ ذٰلِكَ خَيْرٌ لَّكُمْ وَاَطْهَرُ ۗ فَاِنْ لَّمْ تَجِدُوْا فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ

O you who believe!
يَٰٓأَيُّهَا
اے
O you who believe!
ٱلَّذِينَ
لوگو !
O you who believe!
ءَامَنُوٓا۟
جو ایمان لائے ہو
When
إِذَا
جب
you privately consult
نَٰجَيْتُمُ
سرگوشی کرو تم
the Messenger
ٱلرَّسُولَ
رسول سے
then offer before
فَقَدِّمُوا۟ بَيْنَ
تو پیش کرو
before
يَدَىْ
پہلے
your private consultation
نَجْوَىٰكُمْ
اپنی سرگوشی کے
charity
صَدَقَةًۚ
صدقہ
That
ذَٰلِكَ
یہ بات
(is) better
خَيْرٌ
بہتر ہے
for you
لَّكُمْ
تمہارے لیے
and purer
وَأَطْهَرُۚ
اور زیادہ پاکیزہ ہے
But if
فَإِن
پھر اگر
not
لَّمْ
نہ
you find
تَجِدُوا۟
تم پاؤ
then indeed
فَإِنَّ
تو بیشک
Allah
ٱللَّهَ
اللہ تعالیٰ
(is) Oft-Forgiving
غَفُورٌ
غفور
Most Merciful
رَّحِيمٌ
رحیم ہے

تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جب تم رسول سے تخلیہ میں بات کرو تو بات کرنے سے پہلے کچھ صدقہ دو یہ تمہارے لیے بہتر اور پاکیزہ تر ہے البتہ اگر تم صدقہ دینے کے لیے کچھ نہ پاؤ تو اللہ غفور و رحیم ہے

English Sahih:

O you who have believed, when you [wish to] privately consult the Messenger, present before your consultation a charity. That is better for you and purer. But if you find not [the means] – then indeed, Allah is Forgiving and Merciful.

ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جب تم رسول سے تخلیہ میں بات کرو تو بات کرنے سے پہلے کچھ صدقہ دو یہ تمہارے لیے بہتر اور پاکیزہ تر ہے البتہ اگر تم صدقہ دینے کے لیے کچھ نہ پاؤ تو اللہ غفور و رحیم ہے

احمد رضا خان Ahmed Raza Khan

اے ایمان والو جب تم رسول سے کوئی بات آہستہ عرض کرنا چاہو تو اپنی عرض سے پہلے کچھ صدقہ دے لو یہ تمہارے لیے بہت بہتر اور بہت ستھرا ہے، پھر اگر تمہیں مقدور نہ ہو تو اللہ بخشنے والا مہربان ہے،

احمد علی Ahmed Ali

اے ایمان والو جب تم رسول سے سرگوشی کرو تو اپنی سرگوشی سے پہلے صدقہ دے لیا کرو یہ تمہارے لیے بہتر اور زیادہ پاکیزہ بات ہے پس اگر نہ پاؤ تو الله بخشنے والا نہایت رحم والا ہے

أحسن البيان Ahsanul Bayan

اے مسلمانو! جب تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سرگوشی کرنا چاہو تو اپنی سرگوشی سے پہلے کچھ صدقہ دے دیا کرو (١) یہ تمہارے حق میں بہتر اور پاکیزہ تر ہے (۲) ہاں اگر نہ پاؤ تو بیشک اللہ تعالٰی بخشنے والا ہے۔

١٢۔١ ہر مسلمان نبی سے مناجات اور خلوت میں گفتگو کرنے کی خواہش رکھتا تھا، جس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خاصی تکلیف ہوتی، بعض کہتے ہیں کہ منافقین یوں ہی بلا وجہ نبی سے مناجات میں مصروف رہتے تھے، جس سے مسلمان تکلیف محسوس کرتے تھے، اس لئے اللہ نے یہ حکم نازل فرمایا، تاکہ آپ سے گفتگو کرنے کے رحجان عام کی حوصلہ شکنی ہو
۱۲۔۲ بہتر اس لیے کہ صدقے سے تمہارے ہی دوسرے غریب مسلمان بھا‏ئیوں کو فائدہ ہوگا اور پاکیزہ تر اس لیے کہ یہ ایک عمل صالح اور اطاعت الہی ہے جس سے نفوس انسانی کی تطہیر ہوتی ہے اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ یہ امر بطور استحباب کے تھا وجوب کے لیے نہیں۔

جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry

مومنو! جب تم پیغمبر کے کان میں کوئی بات کہو تو بات کہنے سے پہلے (مساکین کو) کچھ خیرات دے دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہت بہتر اور پاکیزگی کی بات ہے۔ اور اگر خیرات تم کو میسر نہ آئے تو خدا بخشنے والا مہربان ہے

محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi

اے مسلمانو! جب تم رسول ﴿صلی اللہ علیہ وسلم﴾ سے سرگوشی کرنا چاہو تو اپنی سرگوشی سے پہلے کچھ صدقہ دے دیا کرو یہ تمہارے حق میں بہتر اور پاکیزه تر ہے، ہاں اگر نہ پاؤ تو بیشک اللہ تعالیٰ بخشنے واﻻ مہربان ہے

محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi

اے ایمان والو! جب تم پیغمبر سے تنہائی میں کوئی بات کرنا چاہو تو اپنی اس رازدارانہ بات سے پہلے کچھ صدقہ دے دیا کرو یہ بات تمہارے لئے بہتر ہے اور پاکیزہ تر ہے اور اگر اس کے لئے کچھ نہ پاؤ تو بلاشبہ اللہ بڑا بخشنے والا، بڑا مہربان ہے۔

علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi

ایمان والو جب بھی رسول سے کوئی راز کی بات کرو تو پہلے صدقہ نکال دو کہ یہی تمہارے حق میں بہتری اور پاکیزگی کی بات ہے پھر اگر صدقہ ممکن نہ ہو تو خدا بہت بخشنے والا اور مہربان ہے

طاہر القادری Tahir ul Qadri

اے ایمان والو! جب تم رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کوئی راز کی بات تنہائی میں عرض کرنا چاہو تو اپنی رازدارانہ بات کہنے سے پہلے کچھ صدقہ و خیرات کر لیا کرو، یہ (عمل) تمہارے لئے بہتر اور پاکیزہ تر ہے، پھر اگر (خیرات کے لئے) کچھ نہ پاؤ تو بیشک اللہ بہت بخشنے والا بہت رحم فرمانے والا ہے،

تفسير ابن كثير Ibn Kathir

نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سرگوشی کی منسوخ شرط
اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو حکم دیتا ہے کہ میرے نبی سے جب تم کوئی راز کی بات کرنا چاہو تو اس سے پہلے میری راہ میں خیرات کرو تاکہ تم پاک صاف ہوجاؤ اور اس قابل بن جاؤ کہ میرے پیغمبر سے مشورہ کرسکو، ہاں اگر کوئی غریب مسکین شخص ہو تو خیر۔ اسے اللہ تعالیٰ کی بخشش اور اس کے رحم پر نظریں رکھنی چاہئیں یعنی یہ حکم صرف انہیں ہے جو مالدار ہوں۔ پھر فرمایا شاید تمہیں اس حکم کے باقی رہ جانے کا اندیشہ تھا اور خوف تھا کہ یہ صدقہ نہ جانے کب تک واجب رہے۔ جب تم نے اسے ادا نہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے بھی تمہیں معاف فرمایا اب تو اور مذکورہ بالا فرائض کا پوری طرح خیال رکھو، کہا جاتا ہے کہ سرگوشی سے پہلے صدقہ نکالنے کا شرف صرف حضرت علی (رض) کو حاصل ہوا پھر یہ حکم ہٹ گیا، ایک دینار دے کر آپ نے حضور سے پوشیدہ باتیں کیں دس مسائل پوچھے۔ پھر تو یہ حکم ہی ہٹ گیا۔ حضرت علی (رض) سے خود بھی یہ واقعہ بہ تفصیل مروی ہے کہ آپ نے فرمایا اس آیت پر مجھ سے پہلے کسی نے عمل کیا نہ میرے بعد کوئی عمل کرسکا، میرے پاس ایک دینار تھا جسے بھناکر میں نے دس درہم لے لئے ایک درہم اللہ کے نام پر کسی مسکین کو دیدیا پھر آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ سے سرگوشی کی پھر تو یہ حکم اٹھ گیا تو مجھ سے پہلے بھی کسی نے اس پر عمل نہیں کیا اور نہ میرے بعد کوئی اس پر عمل کرسکتا ہے۔ پھر آپ نے اس آیت کی تلاوت کی۔ ابن جریر میں ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی سے پوچھا کیا صدقہ کی مقدار ایک دینار مقرر کرنی چاہئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہ تو بہت ہوئی۔ فرمایا پھر آدھا دینار کہا ہر شخص کو اس کی بھی طاقت نہیں آپ نے فرمایا اچھا تم ہی بتاؤ کس قدر ؟ فرمایا ایک جو برابر سونا آپ نے فرمایا واہ واہ تم تو بڑے ہی زاہد ہو، حضرت علی (رض) فرماتے ہیں پس میری وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اس امت پر تخفیف کردی، ترمذی میں بھی یہ روایت ہے اور اسے حسن غریب کہا ہے، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں مسلمان برابر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے راز داری کرنے سے پہلے صدقہ نکالا کرتے تھے لیکن زکوٰۃ کے حکم نے اسے اٹھا دیا، آپ فرماتے ہیں صحابہ نے کثرت سے سوالات کرنے شروع کردیئے جو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر گراں گزرتے تھے تو اللہ تعالیٰ نے یہ حکم دے کر آپ پر تخفیف کردی کیونکہ اب لوگوں نے سوالات چھوڑ دیئے، پھر اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر کشادگی کردی اور اس حکم کو منسوخ کردیا، عکرمہ اور حسن بصری کا بھی یہی قول ہے کہ یہ حکم منسوخ ہے، حضرت قتادہ اور حضرت مقاتل بھی یہی فرماتے ہیں، حضرت قتادہ کا قول ہے کہ صرف دن کی چند ساعتوں تک یہ حکم رہا حضرت علی (رض) بھی یہی فرماتے ہیں کہ صرف میں ہی عمل کرسکا تھا اور دن کا تھوڑا ہی حصہ اس حکم کو نازل ہوئے تھا کہ منسوخ ہوگیا۔