الحشر آية ۱۱
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ نَافَقُوْا يَقُوْلُوْنَ لِاِخْوَانِهِمُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ لَٮِٕنْ اُخْرِجْتُمْ لَنَخْرُجَنَّ مَعَكُمْ وَلَا نُطِيْعُ فِيْكُمْ اَحَدًا اَبَدًاۙ وَّاِنْ قُوْتِلْتُمْ لَـنَـنْصُرَنَّكُمْ ۗ وَاللّٰهُ يَشْهَدُ اِنَّهُمْ لَـكٰذِبُوْنَ
طاہر القادری:
کیا آپ نے منافقوں کو نہیں دیکھا جو اپنے اُن بھائیوں سے کہتے ہیں جو اہلِ کتاب میں سے کافر ہوگئے ہیں کہ اگر تم (یہاں سے) نکالے گئے توہم بھی ضرور تمہارے ساتھ ہی نکل چلیں گے اور ہم تمہارے معاملے میں کبھی بھی کسی ایک کی بھی اطاعت نہیں کریں گے اور اگر تم سے جنگ کی گئی تو ہم ضرور بالضرور تمہاری مدد کریں گے، اور اللہ گواہی دیتا ہے کہ وہ یقیناً جھوٹے ہیں،
English Sahih:
Have you not considered those who practice hypocrisy, saying to their brothers [i.e., associates] who have disbelieved among the People of the Scripture, "If you are expelled, we will surely leave with you, and we will not obey, in regard to you, anyone – ever; and if you are fought, we will surely aid you." But Allah testifies that they are liars.
1 Abul A'ala Maududi
تم نے دیکھا نہیں اُن لوگوں کو جنہوں نے منافقت کی روش اختیار کی ہے؟ یہ اپنے کافر اہل کتاب بھائیوں سے کہتے ہیں "اگر تمہیں نکالا گیا تو ہم تمہارے ساتھ نکلیں گے، اور تمہارے معاملہ میں ہم کسی کی بات ہرگز نہ مانیں گے، اور اگر تم سے جنگ کی گئی تو ہم تمہاری مدد کریں گے" مگر اللہ گواہ ہے کہ یہ لوگ قطعی جھوٹے ہیں
2 Ahmed Raza Khan
کیا تم نے منافقوں کو نہ دیکھا کہ اپنے بھائیوں کافر کتابیوں سے کہتے ہیں کہ اگر تم نکالے گئے تو ضرور ہم تمہارے ساتھ جائیں گے اور ہرگز تمہارے بارے میں کسی کی نہ مانیں گے اور اگر تم سے لڑائی ہوئی تو ہم ضرور تمہاری مدد کریں گے، اور اللہ گواہ ہے کہ وہ جھوٹے ہیں
3 Ahmed Ali
کیا آپ نے منافقوں کو نہیں دیکھا جواپنے اہل کتاب کے کافر بھائیوں سے کہتے ہیں کہ اگر تم نکالے گئے تو ضرور ہم بھی تمہارے ساتھ نکلیں گے اور تمہارے معاملہ میں کبھی کسی کی بات نہ مانیں گے اور اگر تم سے لڑائی ہو گی تو ہم تمہاری مدد کریں گے اور الله گواہی دیتا ہے کہ وہ سراسر جھوٹے ہیں
4 Ahsanul Bayan
کیا تو نے منافقوں کو نہ دیکھا؟ کہ اپنے اہل کتاب کافر بھائیوں سے کہتے ہیں اگر تم جلا وطن کئے گئے تو ضرور بالضرور ہم تمہارے ساتھ نکل کھڑے ہونگے اور تمہارے بارے میں ہم کبھی بھی کسی کی بات نہ مانیں گے اور اگر تم سے جنگ کی جائے گی تو بخدا ہم تمہاری مدد کریں گے (١)، لیکن اللہ تعالٰی گواہی دیتا ہے کہ یہ قطعًا جھوٹے ہیں (٢)۔
١١۔١ جیسے پہلے گزر چکا ہے کہ منافقین نے بنو نضیر کو یہ پیغام بھیجا تھا۔
١١۔٢ چنانچہ ان کا جھوٹ واضح ہو کر سامنے آگیا کہ بنو نضیر جلا وطن کر دیئے گئے، لیکن یہ ان کی مدد کو پہنچے نہ ان کی حمایت میں مدینہ چھوڑنے پر آمادہ ہوئے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
کیا تم نے ان منافقوں کو نہیں دیکھا جو اپنے کافر بھائیوں سے جو اہل کتاب ہیں کہا کرتے ہیں کہ اگر تم جلا وطن کئے گئے تو ہم بھی تمہارے ساتھ نکل چلیں گے اور تمہارے بارے میں کبھی کسی کا کہا نہ مانیں گے۔ اور اگر تم سے جنگ ہوئی تو تمہاری مدد کریں گے۔ مگر خدا ظاہر کئے دیتا ہے کہ یہ جھوٹے ہیں
6 Muhammad Junagarhi
کیا تو نے منافقوں کو نہ دیکھا؟ کہ اپنے اہل کتاب کافر بھائیوں سے کہتے ہیں اگر تم جلا وطن کیے گئے تو ضرور بالضرور ہم بھی تمہارے ساتھ نکل کھڑے ہوں گے اور تمہارے بارے میں ہم کبھی بھی کسی کی بات نہ مانیں گے اور اگر تم سے جنگ کی جائے گی تو بخدا ہم تمہاری مدد کریں گے، لیکن اللہ تعالیٰ گواہی دیتا ہے کہ یہ قطعاً جھوٹے ہیں
7 Muhammad Hussain Najafi
کیا تم نے منافقوں کو نہیں دیکھا جو اپنے کافر اہلِ کتاب بھائیوں سے کہتے ہیں کہ اگر تم (اپنے گھروں سے) نکالے گئے تو ہم بھی تمہارے ساتھ (شہر سے) نکل جائیں گے اور ہم تمہارے معاملہ میں کبھی کسی کی اطاعت نہیں کریں گے اور اگرتم سے جنگ کی گئی تو ہم ضرور تمہاری مدد کریں گے اور اللہ گواہی دیتا ہے کہ یہ لوگ بالکل جھوٹے ہیں۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
کیا تم نے منافقین کا حال نہیں دیکھا ہے کہ یہ اپنے اہل کتاب کافر بھائیوں سے کہتے ہیں کہ اگر تمہیں نکال دیا گیا تو ہم بھی تمہارے ساتھ نکل چلیں گے اور تمہارے بارے میں کسی کی اطاعت نہ کریں گے اور اگر تم سے جنگ کی گئی تو بھی ہم تمہاری مدد کریں گے اور خدا گواہ ہے کہ یہ سب بالکل جھوٹے ہیں
9 Tafsir Jalalayn
کیا تم نے ان منافقوں کو نہیں دیکھا جو اپنے کافر بھائیوں سے جو اہل کتاب ہیں کہا کرتے ہیں کہ اگر تم جلا وطن کئے گئے تو ہم بھی تمہارے ساتھ نکل چلیں گے اور تمہارے بارے میں کبھی کسی کا کہا نہ مانیں گے اور اگر تم سے جنگ ہوئی تو تمہاری مدد کریں گے۔ مگر خدا ظاہر کئے دیتا ہے کہ یہ جھوٹے ہیں۔
ترجمہ، کیا آپ نے منافقوں کو نہ دیکھا ؟ کہ اپنے اہل کتاب بھائیوں سے کہتے ہیں اور وہ بنو نضیر اور ان کے کفر کے بھائی ہیں، اگر تم کو مدینہ سے نکالا گیا چاروں جگہ لام قسم کا ہے تو یقینا ہم بھی تمہارے ساتھ نکل کھڑے ہوں گے اور تمہاری ذلت کے بارے میں ہم کبھی بھی کسی کی بات نہ مانیں گے اور اگر تم سے قتال کیا گیا (قوتلتم) سے لام قسم حذف کردیا گیا ہے تو بخدا ہم تمہاری مدد کریں گے اور اللہ گواہی دیتا ہے کہ یہ قطعاً جھوٹے ہیں اگر وہ جلا وطن کئے گئے تو یہ ان کے ساتھ نہ جائیں گے اور اگر ان سے جنگ کی گئی تو یہ ان کی مدد نہ کریں گے اور اگر بالفرض ان کی مدد پر آبھی گئے تو پیٹھ پھیر کر بھاگ کھڑے ہوں گے پانچوں جگہ قسم مقدر کے جواب کی وجہ سے جواب شرط سے استغناء ہے پھر یہود کی مدد نہ کی جائے ی (مسلمانو ! یقین مانو) تمہاری ہیبت ان منفاقوں کے دل میں بہ نسبت اللہ کی ہیبت کے بہت زیادہ ہے اس کے عذاب کے مئوخر ہونے کی وجہ سے یہ اس لئے ہے کہ یہ ناسمجھ لوگ ہیں، یہ یعنی یہود سب مل کر بھی لڑ نہیں سکتے، ہاں یہ اور بات ہے کہ قلعہ بند مقامات میں ہوں یا دیوار کی آڑ میں ہوں اور ایک قرأت میں جدار کے بجائے جدر ہے، ان کی لڑائی تو ان کے آپس میں ہی بڑی سخت ہے گو آپ انہیں متحد سمجھ رہے ہیں لیکن گمان کے برخلاف ان کے دل ایک دوسرے سے جدا ہیں اس لئے کہ یہ بےعقل لوگ ہیں ترک ایمان میں ان لوگوں کی مثال ان لوگوں جیسی ہے جو ان سے کچھ ہی پہلے گذرے ہیں، قریبی زمانہ میں اور وہ مشرکین اہل بدر ہیں، جنہوں نے اپنے کام کا وبال چکھ لیا اس کا انجام قتل وغیرہ دنیا میں اور ان کے لئے آخرت میں درد ناک عذاب تیار ہے نیز ان کی مثال منافقوں کی بات سننے میں اور ان سے تخلف اختیار کرنے میں شیطان کے مانند ہے کہ اس نے انسان سے کہا کفر کر چناچہ جب وہ کفر کرچکا تو (شیطان) کہنے لگا میں تجھ سے بری ہوں، میں تو اللہ رب العالمین سے ڈرتا ہوں اور اس کا یہ قول ریا اور کذب پر مبنی ہے پس ان دونوں کا انجام یہ ہوا کہ آتش (دوزخ) میں ہمیشہ کے لئے رہیں گے یعنی گمراہ کرنے والا اور گمراہ ہونے والا اور (عاقبتھما) کو اسم کان کے طور پر مرفوع بھی پڑھا گیا ہے، اور ظالموں کافروں کی یہی سزا ہے۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : اخوانھم فی الکفر اس عباتر کے اضافہ کا مقصد یہ بتانا ہے کہ قرآن میں جو منافقوں کو بنو نضیر (یہود) کا بھائی کہا گیا ہے یہ باعتبار کفر میں ہم مذہب ہونے کے ہے، نہ کہ باعتبار ہم نسب ہونے کے اس لئے کہ بنو نضیر وغیرہ یہود تھے، اور منافقین کا تعلق اوس و خزرج سے تھا۔
قولہ : لام قسم فی اربعۃ مواقع چار مواقع میں لام قسم کا ہے جو قسم محذوف پر دلالت کرتا ہے اور وہ چار مقام یہ ہیں 1 لئن اخرجتم 2 لان اخرجوا 3 ولئن قوتلوا 4 ولئن نصروھم ایک پانچویں جگہ اور ہے اور وہ وان قوتلتم الخ ہیخ یہاں لام قسم مقدر ہے۔
قولہ : واستغنی بجواب القسم یعنی جواب قسم مذکورہ پانچوں جگہ جواب قسم کی وجہ سے جواب شرط سے مستغنی ہے اس لئے کہ قاعدہ معروف ہے کہ جب قسم اور شرط دونوں جمع ہوجائیں تو مئوخر کا جواب محذوف ہوتا ہے (ابن مالک نے کہا ہے)
واحذف لدی اجتماع شرط وقسم جواب ما اخرت فھو ملتزم
ترجمہ :۔ جب قسم اور شرط جمع ہوجائیں تو ان میں مئوخر کی جزا کو لازمی طور پر حذف کر دے۔ وہ پانچ مقامات جو قسم محذوف کا جواب واقع ہو رہے ہیں اور جن کی دلالت کی وجہ سے جواب شرط کو حذف کردیا گیا یہ ہیں :
(١) لنخرجن (٢) لننصرنکم (٣) لایخرجون (٤) لاینصرونھم (٥) لیولن الادبار
قولہ : مجتمعین اس میں اشارہ ہے کہ جمعیاً لایقاتلونکم کی ضمیر فاعل سے حال ہے۔
قولہ : مثلھم فی ترک الایمان اس عبارت کو محذوف مان کر اشارہ کردیا کہ کمثل الذین الخ مثلھم مبتداء محذوف کی خبر ہے۔
قولہ : وقری بالرفع اسم کان عاقبتما میں تاء پر نصب اور رفع دونوں جائز ہیں، نصب کی وجہ یہ ہے کہ کان کی خبر مقدم ہے اور انھما فی النار، ان اپنے اسم و خبر سے مل کر کان کا اسم مئوخر ہے اور تاء کے رفع کی صورت میں عاقبتھما کان کا اسم ہے اور انھما فی النار جملہ ہو کر کان کی خبر۔
تفسیر و تشریح
الم ترالی الذین تافقوا (الآیۃ) جیسا کہ پہلے گذر چکا ہے ہے کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بنو نضیر کو دس دن کے اندر مدینہ سے نکل جانے کا نوٹس بھیجا تو عبداللہ بن ابی اور مدینہ کے دوسرے منافق لیڈروں نے بنو نضیر کے یہودیوں کو یہ پیغام بھجیا تھا کہ ہم دو ہزار جنگ جو بہادروں کے ساتھ تمہاری مدد کو آئیں گے اور بنو غطفان اور بنو قریظہ بھی تمہاری حمایت میں اٹھ کھڑے ہوں گے، لہٰذا تم مسلمانوں کے مقابلہ میں ڈٹ جائو اور ہرگز ان کے آگے ہتھیار نہ ڈالو اگر تمہارے ساتھ جنگ کی گئی تو ہم تمہارے ساتھ مل کر مسلمانوں سے لڑیں گے اور اگر تم کو مدینہ سے نکال دیا گیا تو ہم بھی تمہارے ساتھ نکل کھڑے ہوں گے، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ترتیب نزولی کے اعتبار سے دوسرا رکوع پہلے نازل ہوا ہے اور پہلا رکوع اس کے بعد نازل ہوا ہے جبکہ بنو نضیر مدینہ سے نکالے جا چکے تھے دوسرے رکوع میں اہم ترین مضمون ہونے کی وجہ سے ترتیب قرآنی کے اعتبار سے اس کو مقدم کردیا گیا ہے۔
واللہ یشھد انھم لکذبون چناچہ مناففقین کا جھوٹ واضح ہو کر سامنے آگیا کہ بنو نضیر جلا وطن کردیئے گئے لیکن یہ ان کی مدد کو نہ پہنچے اور نہ ان کی حمایت میں مدینہ چھوڑنے پر آمادہ ہوئے۔
ولئن نصروھم ای جاء ولنصرھم اس اضافہ کا مقصد ایک اعتراض کو دفع کرنا ہے۔
اعتراض : اعتراض یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پہلے فقرے میں فرمایا لاینصرونھم اس کا مطلب ہے کہ منافقین یہود کی مدد کو نہیں آئیں گے دوسرے فقرے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ولئن نصروھم اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ یہود کی مدد کو آئیں گے۔
جواب :۔ جواب کا ماحصل یہ ہے کہ مفسر علام نے لائن نصروھم کی تفسیر جائو و لنصرھم سے کر کے جواب دیدیا کہ یہ بطور فرض کے ہے یعنی بالفرض و القتدریر مدد کے لئے نکلے بھی تو ان کی مدد نہ کریں گے، ورنہ تو جس چیز کی نفی اللہ تعالیٰ فرما دیں اس کا وجود کیونکر ممکن ہے، مطل بیہ ہے کہ اگر یہ یہود کی مدد کا ارادہ کریں بھی تو ان کی مدد نہ کرسکیں گے۔
10 Tafsir as-Saadi
پھر اللہ تبارک وتعالیٰ نے منافقین کے احوال پر تعجب کا اظہار کیا جنہوں نے اپنے اہل کتاب بھائیوں کو اپنی مدد اور اہل ایمان کے خلاف موالات کالالچ دیا تھا ،وہ ان سے کہہ رہے تھے: ﴿لَیِٕنْ اُخْرِجْتُمْ لَنَخْرُجَنَّ مَعَکُمْ وَلَا نُطِیْعُ فِیْکُمْ اَحَدًا اَبَدًا ﴾ ”اگر تم نکال دیے گئے تو ہم بھی تمہارے ساتھ ہی نکلیں گے اور تمہارے بارے میں کبھی کسی کا کہنا نہیں مانیں گے ۔“یعنی تمہاری نصرت ومدد کے بارے میں جو کوئی ہمیں برا بھلا کہے گا یاڈرائے گا، ہم تمہاری عدم نصرت میں اس کی اطاعت نہیں کریں گے ﴿وَّاِنْ قُوْتِلْتُمْ لَنَنْصُرَنَّکُمْ وَاللّٰہُ یَشْہَدُ اِنَّہُمْ لَکٰذِبُوْنَ﴾ ”اور اگر تم سے جنگ ہوئی تو یقینا ہم تمہاری مدد کریں گے اور اللہ گواہی دیتا ہے کہ وہ جھوٹے ہیں۔“ یعنی وہ اس وعدے میں جھوٹے ہیں جس کے ذریعے سے انہوں نے اپنے بھائیوں کو دھوکے میں مبتلا کیا ۔ان کے اس جھوٹے وعدے کو زیادہ اہمیت نہ دیں کیونکہ جھوٹ ان کا وصف، فریب ور دھوکہ ان کے ساتھی، نفاق اور بزدلی ان کے دوست ہیں
11 Mufti Taqi Usmani
kiya tum ney unn ko nahi dekha jinhon ney munafiqat say kaam liya hai kay woh apney unn bhaiyon say jo kafir ehal-e-kitab mein say hain yeh kehtay hain kay : agar tumhen nikala gaya to hum bhi tumharay sath niklen gay , aur tumharay baaray mein kabhi kissi aur ka kehna nahi maanen gay , aur agar tum say jang ki gaee to hum tumhari madad keren gay . aur Allah gawahi deta hai kay yeh log bilkul jhootay hain .
12 Tafsir Ibn Kathir
کفر بز دلی کی گود ہے
تلبیس ابلیس کا ایک انداز :۔ عبداللہ بن ابی اور اسی جیسے منافقین کی چالبازی اور عیاری کا ذکر ہو رہا ہے کہ انہوں نے یہودیان بنو نضیر کو سبز باغ دکھا کر جھوٹا دلاسا دلا کر غلط وعدہ کر کے مسلمانوں سے لڑوا دیا، ان سے وعدہ کیا کہ ہم تمہارے ساتھی ہیں لڑنے میں تمہاری مدد کریں گے اور اگر تم ہار گئے اور مدینہ سے دیس نکالا ملا تو ہم بھی تمہارے ساتھ اس شہر کو چھوڑ دیں گے، لیکن بوقت وعدہ ہی ایفا کرنے کی نیت نہ تھی اور یہ بھی کہ ان میں اتنا حوصلہ بھی نہیں کہ ایسا کرسکیں نہ لڑائی میں ان کی مدد کرسکیں نہ برے وقت ان کا ساتھ دیں، اگر بدنامی کے خیال سے میدان میں آ بھی جائیں تو یہاں آتے ہی تیز و تلوار کی صورت دیکھتے رونگٹے کھڑے ہوجائیں اور نامردی کے ساتھ بھاگتے ہی بن پڑے، پھر مستقل طور پر پیش گوئی فرماتا ہے کہ ان کی تمہارے مقابلہ میں امداد نہ کی جائے گی، یہ اللہ سے بھی اتنا نہیں ڈرتے جتنا تم سے خوف کھاتے ہیں، جیسے اور جگہ بھی ہے۔ (اِذَا فَرِيْقٌ مِّنْھُمْ يَخْشَوْنَ النَّاسَ كَخَشْيَةِ اللّٰهِ اَوْ اَشَدَّ خَشْـيَةً 77) 4 ۔ النسآء :77) یعنی ان کا ایک فریق لوگوں سے اتنا ڈرتا ہے جتنا اللہ سے بلکہ اس سے بھی بہت زیادہ بات یہ ہے کہ یہ بےسمجھ لوگ ہیں، ان کی نامردی اور بزدلی کی یہ حالت ہے کہ یہ میدان کی لڑائی کبھی لڑ نہیں سکتے ہاں اگر مضبوط اور محفوظ قلعوں میں بیٹھے ہوئے ہوں یا مورچوں کی آڑ میں چھپ کر کچھ کاروائی کرنے کا موقعہ ہو تو خیر بہ سبب ضرورت کر گذریں گے لیکن میدان میں آ کر بہادری کے جوہر دکھانا یہ ان سے کوسوں دور ہے، یہ آپس ہی میں ایک دوسرے کے دشمن ہیں، جیسے اور جگہ ہے (وَّيُذِيْقَ بَعْضَكُمْ بَاْسَ بَعْضٍ 65) 6 ۔ الانعام :65) بعض کو بعض سے لڑائی کا مزہ چکھاتا ہے، تم انہیں مجتمع اور متفق و متحد سمجھ رہے ہو لیکن دراصل یہ متفرق و مختلف ہیں ایک کا دل دوسرے سے نہیں ملتا، منافق اپنی جگہ اور اہل کتاب اپنی جگہ ایک دوسرے کے دشمن ہیں، وجہ یہ ہے کہ بےعقل لوگ ہیں، پھر فرمایا ان کی مثال ان سے کچھ ہی پہلے کے کافروں جیسی ہے جنہوں نے یہاں بھی اپنے کئے کا بدلہ بھگتا اور وہاں کا بھگتنا ابھی باقی ہے، اس سے مراد یا تو کفار قریش ہیں کہ بدر والے دن ان کی کمر کبڑی ہوگئی اور سخت نقصان اٹھا کر کشتوں کے پشتے چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے، یا بنو قینقاع کے یہود ہیں کہ وہ بھی شرارت پر اتر آئے اللہ نے ان پر اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو غالب کیا اور آپ نے انہیں مدینہ سے خارج البلد کرا دیا یہ دونوں واقعے ابھی ابھی کے ہیں اور تمہاری عبرت کا صحیح سبق ہیں لیکن اس وقت کہ کوئی عبرت حاصل کرنے والا انجام کو سوچنے والا ہو بھی، زیادہ مناسب مقام بنو قینقاع کے یہود کا واقعہ ہی ہے واللہ اعلم، منافقین کے وعدوں پر ان یہودیوں کا شرارت پر آمادہ ہونا اور ان کے بھرے میں آ کر معاہدہ توڑ ڈالنا پھر ان منافقین کا انہیں موقعہ پر کام نہ آنا نہ لڑائی کے وقت مدد پہنچانا نہ جلا وطنی میں ساتھ دینا، ایک مثال سے سمجھایا جاتا ہے کہ دیکھو شیطان بھی اسی طرح انسان کو کفر پر آمادہ کرتا ہے اور جب یہ کفر کر چکتا ہے تو خود بھی اسے ملامت کرنے لگتا ہے اور اپنا اللہ والا ہونا ظاہر کرنے لگتا ہے، اسی مثال کا ایک واقعہ بھی سن لیجئے، بنی اسرائیل میں ایک عابد تھا ساٹھ سال اسے عبادت الٰہی میں گذر چکے تھے شیطان نے اسے ورغلانا چاہا لیکن وہ قابو میں نہ آیا اس نے ایک عورت پر اپنا اثر ڈالا اور یہ ظاہر کیا کہ گویا اسے جنات ستا رہے ہیں ادھر اس عورت کے بھائیوں کو یہ وسوسہ ڈالا کہ اس کا علاج اسی عابد سے ہوسکتا ہے یہ اس عورت کو اس عابد کے پاس لائے اس نے علاج معالجہ یعنی دم کرنا شروع کیا اور یہ عورت یہیں رہنے لگی، ایک دن عابد اس کے پاس ہی تھا جو شیطان نے اس کے خیالات خراب کرنے شروع کئے یہاں تک کہ وہ زنا کر بیٹھا اور وہ عورت حاملہ ہوگئی۔ اب رسوائی کے خوف سے شیطان نے چھٹکارے کی یہ صورت بتائی کہ اس عورت کو مار ڈال ورنہ راز کھل جائے گا۔ چناچہ اس نے اسے قتل کر ڈالا، ادھر اس نے جا کر عورت کے بھائیوں کو شک دلوایا وہ دوڑے آئے، شیطان راہب کے پاس آیا اور کہا وہ لوگ آ رہے ہیں اب عزت بھی جائے گی اور جان بھی جائے گی۔ اگر مجھے خوش کرلے اور میرا کہا مان لے تو عزت اور جان دونوں بچ سکتی ہیں۔ شیطان نے کہا مجھے سجدہ کر، عابد نے اسے سجدہ کرلیا، یہ کہنے لگا تف ہے تجھ پر کم بخت میں تو اب تجھ سے بیزار ہوں میں تو اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہوں، جو رب العالمین ہے (ابن جریر) ایک اور روایت میں اس طرح ہے کہ ایک عورت بکریاں چرایا کرتی تھی اور ایک راہب کی خانقاہ تلے رات گذارا کرتی تھی اس کے چار بھائی تھے ایک دن شیطان نے راہب کو گدگدایا اور اس سے زنا کر بیٹھا اسے حمل رہ گیا شیطان نے راہب کے دل میں ڈالا کہ اب بڑی رسوائی ہوگی اس سے بہتر یہ ہے کہ اسے مار ڈال اور کہیں دفن کر دے تیرے تقدس کو دیکھتے ہوئے تیری طرف تو کسی کا خیال بھی نہ جائے گا اور اگر بالفرض پھر بھی کچھ پوچھ گچھ ہو تو جھوٹ موٹ کہ دینا، بھلا کون ہے جو تیری بات کو غلط جانے ؟ اس کی سمجھ میں بھی یہ بات آگئی، ایک روز رات کے وقت موقعہ پا کر اس عورت کو جان سے مار ڈالا اور کسی اجاڑ جگہ زمین میں دبا دیا۔ اب شیطان اس کے چاروں بھائیوں کے پاس پہنچا اور ہر ایک کے خواب میں اسے سارا واقعہ کہہ سنایا اور اس کے دفن کی جگہ بھی بتادی، صبح جب یہ جاگے تو ایک نے کہا آج کی رات تو میں نے ایک عجیب خواب دیکھا ہے ہمت نہیں پڑتی کہ آپ سے بیان کروں دوسروں نے کہا نہیں کہو تو سہی چناچہ اس نے اپنا پورا خواب بیان کیا کہ اس طرح فلاں عابد نے اس سے بدکاری کی پھر جب حمل ٹھہر گیا تو اسے قتل کردیا اور فلاں جگہ اس کی لاش دبا آیا ہے، ان تینوں میں سے ہر ایک نے کہا مجھے بھی یہی خواب آیا ہے اب تو انہیں یقین ہوگیا کہ سچا خواب ہے، چناچہ انہوں نے جا کر اطلاع دی اور بادشاہ کے حکم سے اس راہب کو اس خانقاہ سے ساتھ لیا اور اس جگہ پہنچ کر زمین کھود کر اس کی لاش برآمد کی، کامل ثبوت کے بعد اب اسے شاہی دربار میں لے چلے اس وقت شیطان اس کے سامنے ظاہر ہوتا ہے اور کہتا ہے یہ سب میرے کرتوت ہیں اب بھی اگر تو مجھے راضی کرلے تو جان بچا دوں گا اس نے کہا جو تو کہے کروں گا، کہا مجھے سجدہ کرلے اس نے یہ بھی کردیا، پس پورا بےایمان بنا کر شیطان کہتا ہے میں تو تجھ سے بری ہوں میں تو اللہ تعالیٰ سے جو تمام جہانوں کا رب ہے ڈرتا ہوں، چناچہ بادشاہ نے حکم دیا اور پادری صاحب کو قتل کردیا گیا، مشہور ہے کہ اس پادری کا نام برصیصا تھا۔ حضرت علی حضرت عبداللہ بن مسعود، طاؤس، مقاتل بن حیان وغیرہ سے یہ قصہ مختلف الفاظ سے کمی بیشی کے ساتھ مروی ہے، واللہ اعلم، اس کے بالکل برعکس جریج عابد کا قصہ ہے کہ ایک بدکار عورت نے اس پر تہمت لگا دی کہ اس نے میرے ساتھ زنا کیا ہے اور یہ بچہ جو مجھے ہوا ہے وہ اسی کا ہے چناچہ لوگوں نے حضرت جریج کے عبادت خانے کو گھیر لیا اور انہیں نہایت بےادبی سے زد و کو ب کرتے ہوئے گالیاں دیتے ہوئے باہر لے آئے اور عبادت خانے کو ڈھا دیا یہ بیچارے گھبرائے ہوئے ہرچند پوچھتے ہیں کہ آخر واقعہ کیا ہے ؟ لیکن مجمع آپے سے باہر ہے آخر کسی نے کہا کہ اللہ کے دشمن اولیاء اللہ کے لباس میں یہ شیطانی حرکت ؟ اس عورت سے تو نے بدکاری کی۔ حضرت جریج نے فرمایا اچھا ٹھہرو صبر کرو اس بچے کو لاؤ چناچہ وہ دودھ پیتا چھوٹا سا بچہ لایا گیا حضرت جریج نے اپنی عزت کی بقا کی اللہ سے دعا کی پھر اس بچے سے پوچھا اے بچے بتا تیرا باپ کون ہے ؟ اس بچے کو اللہ نے اپنے ولی کی عزت بچانے کے لئے اپنی قدرت سے گویائی کی قوت عطا فرما دی اور اس نے اس صاف فصیح زبان میں اونچی آواز سے کہا میرا باپ ایک چرواہا ہے۔ یہ سنتے ہی بنی اسرائیل کے ہوش جاتے رہے یہ اس بزرگ کے سامنے عذر معذرت کرنے لگے معافی مانگنے لگے انہوں نے کہا بس اب مجھے چھوڑ دو لوگوں نے کہا ہم آپ کی عابدت گاہ سونے کی بنا دیتے ہیں آپ نے فرمایا بس اسے جیسی وہ تھی ویسے ہی رہنے دو ۔ پھر فرماتا ہے کہ آخر انجام کفر کے کرنے اور حکم دینے والے کا یہی ہوا کہ دونوں ہمیشہ کے لئے جہنم واصل ہوئے، ہر ظالم کئے کی سزا پا ہی لیتا ہے۔