الانعام آية ۱۱
قُلْ سِيْرُوْا فِى الْاَرْضِ ثُمَّ انْظُرُوْا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِيْنَ
طاہر القادری:
فرمادیجئے کہ تم زمین پر چلو پھرو، پھر (نگاہِ عبرت سے) دیکھو کہ (حق کو) جھٹلانے والوں کا انجام کیسا ہوا،
English Sahih:
Say, "Travel through the land; then observe how was the end of the deniers."
1 Abul A'ala Maududi
اِن سے کہو، ذرا زمین میں چل پھر کر دیکھو جھٹلانے والوں کا کیا انجام ہوا ہے
2 Ahmed Raza Khan
تم فرمادو زمین میں سیر کرو پھر دیکھو کہ جھٹلانے والوں کا کیسا انجام ہوا
3 Ahmed Ali
کہہ دو کہ ملک میں سیر کرو پھر دیکھو جھٹلانے والوں کا کیا انجام ہوا
4 Ahsanul Bayan
آپ فرما دیجئے کہ ذرا زمین میں چلو پھرو پھر دیکھ لو کہ تکذیب کرنے والے کا کیا انجام ہوا۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
کہو کہ (اے منکرین رسالت) ملک میں چلو پھرو پھر دیکھو کہ جھٹلانے والوں کا کیا انجام ہوا
6 Muhammad Junagarhi
آپ فرما دیجئے کہ ذرا زمین میں چلو پھرو پھر دیکھ لو کہ تکذیب کرنے والوں کا کیا انجام ہوا
7 Muhammad Hussain Najafi
اے رسول(ص) ان سے کہیے کہ زمین میں چلو پھرو اور پھر دیکھو۔ کہ جھٹلانے والوں کا کیا (بھیانک) انجام ہوا۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
آپ ان سے کہہ دیجئے کہ زمین میں سیر کریں پھر اس کے بعد دیکھیں کہ جھٹلانے والوں کا انجام کیا ہوتا ہے
9 Tafsir Jalalayn
کہو کہ (اے منکرین رسالت) ملک میں چلو پھرو پھر دیکھو کہ جھٹلانے نے والوں کا کیا انجام ہوا۔
آیت نمبر ١١ تا ٢٠
ترجمہ : آپ ان سے کہیے زمین میں چلو پھرو پھر دیکھو رسولوں کی تکذیب کرنے والوں کا کیا انجام ہوا، تاکہ تم عبرت حاصل کرو، آپ ان سے پوچھئے کہ آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے وہ کس کا ہے ؟ اگر وہ اس کا جواب نہ دیں تو کہئے اللہ کا ہے اس لئے کہ اس کے علاوہ کوئی (صحیح) جواب ہی نہیں ہے ازراہ کرم اس نے اپنے اوپر رحمت لازم کرلی ہے اس میں ان کو دعوت دینے میں نرمی ہے تم کو اللہ قیامت کے دن جمع کرے گا تاکہ تم کو تمہارے اعمال کا بدلہ دے اس میں کوئی شک نہیں کہ جن لوگوں نے خود کو عذاب پر پیش کرکے اپنا نقصان کیا ہے یہ ایمان لانیوالے نہیں ہیں (الذین الخ) مبتداء ہے (فھو لا یؤمنون) مبتداء کی خبر ہے، اور اللہ تعالیٰ ہی کی ہے ہر وہ چیز جو رات اور دن میں ٹھہری ہے یعنی ہر شئ کا وہی رب اور وہی خالق اور وہی مالک ہے اور جو کچھ کہا جاتا ہے اس کا سننے والا جو کچھ کیا جاتا ہے اس کا جاننے والا ہے کیا میں اللہ کے غیر کی بندگی کروں وہ اللہ کہ جو آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے اور اس اور کھلاتا ہے اور اس کو کوئی نہیں کھلا تا ہے (ہرگز) نہیں، آپ کہئے کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں اس امت کے پہلے اسلام لانے والوں میں ہوں اور مجھ سے کہا گیا ہے کہ تم ہرگز اس کے ساتھ شرک کرنے والوں میں سے نہ ہونا آپ کہہ دیجئے میں بڑے دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں اور وہ قیامت کا دن ہے اگر میں غیر اللہ کی بندگی کرکے اپنے رب کی نافرمانی کروں، اور جو شخص اس روز عذاب سے بچا لیا گیا (یُصرف) میں مجہول اور معروف دونوں قراءتیں ہیں (معروف کی صورت میں) فاعل اللہ ہوگا اور عائد محذوف ہوگا، یقیناً اللہ نے اس پر بڑا رحم کیا، یعنی اس کے لئے خیر کا ارادہ کیا، یہی بڑی کامیابی ہے کھلی کامیابی ہے، اور اگر اللہ تجھ کو کسی آزمائش مثلاً مرض اور فقر کے ذریعہ تکلیف پہنچانا چاہے تو اس کو اللہ کے سوا کوئی دور کرنے والا نہیں اور اگر تجھ کو کوئی خیر مثلاً صحت پہنچائے تو وہ ہر چیز پر قادر ہے، اور اسی میں سے وہ بھی ہے جو تجھ کو لاحق ہوئی، اور تجھ سے اللہ کے سوا کوئی اس کو دفع کرنے والا نہیں اور وہ اپنے بندوں پر ایسا قادر ہے کہ کوئی چیز اس کے غالب ہونے کی وجہ سے عاجز نہیں کرسکتی اور وہ اپنی مخلوق کے بارے میں باحکمت اور ان کے سرائر سے ان کے ظواہر کے مانند خبر رکھنے والا ہے اور جب (اہل مکہ) نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کہ اس شخص کو پیش کرو جو تمہاری نبوت کی شہادت دے اس لئے کہ اہل کتاب آپ (کی نبوت) کا انکار کرچکے ہیں، تو یہ آیت نازل ہوئی، آپ ان سے پوچھئے کہ کس کی گواہی سب سے بڑھ کر ہے ؟ (شھادۃً ) مبتداء سے منقول ہو کر تمیز ہے، اگر وہ یہ جواب نہ دیں تو تم کہو میری صداقت پر میرے اور تمہارے درمیان اللہ گواہ ہے اسلئے کہ اس کے علاوہ کوئی جواب نہیں ہے، اور یہ قرآن میرے پاس وحی کے طور پر بھیجا گیا ہے تاکہ اے اہل مکہ میں تم کو اور اس شخص کو اس کے ذریعہ ڈراؤں جس کو قرآن پہنچا ہے (مَنْ بَلَغَ ) کا عطف انذرکم کی ضمیر پر ہے، یعنی جس کو قرآن پہنچا ہو خواہ انسانوں میں سے ہو یا جنات میں سے، کیا تم سچ مچ یہی گواہی دو گے کہ خدا کے ساتھ اور معبود بھی ہیں، استفہام انکاری ہے آپ ان سے کہہ دیجئے میں اسکی گواہی نہیں دوں گا آپ کہہ دیجئے کہ بس وہ تو ایک ہی معبود ہے اور بیشک میں ان بتوں سے بری ہوں جن کو تم اسکے ساتھ شریک کرتے ہو، جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے وہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان کی کتاب میں اس کی صفات پائے جانے کی وجہ سے ایسا پہچانتے ہیں جیسا کہ اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں، ان میں جن لوگوں نے خود کو نقصان میں ڈالا وہ اس پر ایمان لانے والے نہیں ہیں۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : اَلَّذِیْن خَسِرُوْا اَنْفُسَھُم فَھُمْ لا یؤمنُونَ ، الذین خَسِروا انفسھم مبتداء فَھُمْ لاَ یُؤمنون خبر۔ سوال : خبر پر فاء کس وجہ سے داخل ہے ؟
جواب : اس لئے کہ موصول میں شائبہ شرط ہے جس کی وجہ سے خبر میں شائبہ جزاء ہے، اسی وجہ سے فاء داخل ہے۔
قولہ : حَلَّ ، سَکَنَ کی تفسیر حَلَّ بمعنی استقرَّ سے کرکے اشارہ کردیا کہ سکون اگرچہ حرکت کی ضد کو کہتے ہیں مگر یہاں مطلقا استقرار مراد ہے، یہ عرب کے قول تقیکم الحر کے قبیل سے ہے ای تقیکم الحر والبردَ ۔
قولہ : العِائدُ مَحْذُوْفٌ، یہ یَصْرِف کو معروف پڑھنے کی صورت میں ہوگا، ظاہر یہ ہے کہ العذابَ محذوف ہوگا اس لئے کہ نحوی قاعدہ ہے غیر موصول کی طرف عائد کا حذف جائز نہیں ہے۔
قولہ : النَجَاۃُ الظَّاھِرَۃُ ، اس لئے کہ یہ کامیابی بالکل ظاہر اور دائمی ہوگی بخلاف دنیوی کامیابی کے۔
قولہ : مُستَعْلِیًا، اس میں اشارہ ہے کہ فوقَ عبادہٖ ، القاھِرُ کی ضمیر سے حال ہے، اور استعلاءً سے علو فی القدر الشان ہے۔
قولہ : قل اللہ، ای قل اللہ اکبر، لفظ اکبر محذوف ہے اس لئے کہ مقولہ مفرد نہیں ہوا کرتا۔
قولہ : ھو شھیدٌ اس میں اشارہ ہے کہ شھیدٌ، ھو مبتداء محذوف کی خبر ہے۔
سوال : اللہ کو مبتداء اور شھید کو خبر ماننے میں کیا قباحت ہے ؟ جبکہ اس صورت میں ھُوَ مبتداء محذوف ماننے کی ضرورت بھی نہ ہوگی
جواب : اللہ کو مبتداء اور شھیدٌ کو خبر اس لئے قرار دینا درست نہیں ہے کہ اللہ شھیدٌ کا ایُّ شئ اکبر شھادۃً کا جواب واقع ہونا درست نہ ہوگا، اسلئے کہ تقدیر عبارت یہ ہوگی، اَیُّ شئ اکبر شھادۃ اللہ شھید بینی وبینکم، اس میں جواب سوال کے مطابق نہیں ہے۔
قولہ : عَطْفٌ عَلیٰ ضَمِیْرِ اُنْذِرَکُمْ ، یعنی مَنْ بَلَغَ کا عطف انذرکم کی ضمیر مفعول کُمْ پر ہے نہ کہ انذر کی ضمیر مستتر فاعل پر۔
قولہ : ای بَلَغَہٗ القرآنُ اس میں بَلَغَ کی ضمیر فاعل کی تعین کی طرف اشارہ ہے۔
تفسیر و تشریح
ربط آیات : مذکورہ آیات میں قریش کو تنبیہ کی جا رہی ہے کہ اگر تم بھی سابقہ امتوں کی طرح آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے استہزاء کرتے رہو گے تو تمہارا بھی وہی حشر ہوگا جو اس جرم میں سابقہ امتوں کا ہوا، عبرت حاصل کرنے کیلئے ملک شام و یمن وغیرہ کا سفر کرو اور سابقہ امتوں کی اجڑی ہوئی معذب بستیوں کو دیکھ کر عبرت حاصل کرو۔
قُلُ لَھُمْ سیروا فی الارض، امام بغوی نے کہا ہے کہ سیر سے مراد سیر بالعقول والافکار، بھی ہوسکتی ہے یعنی کائنات اور قدیم آثار و خرابات میں غور کرو اور اس سے عبرت حاصل کرو، اور سیر بالاقدام بھی مراد ہوسکتی ہے، یعنی دنیا جہان کی سیر کرو اور خدا کی کائنات اور عبرتناک مقامات سے عبرت حاصل کرو۔
نکتہ : ثُمَّ انظروا۔ امام رازی کی نکتہ سنجی نے یہاں ایک عجیب نکتہ پیدا کیا ہے فرماتے ہیں کہ اگر یہاں فانظروا ہوتا تو اس کے معنی یہ ہوتے کہ اسی عبرت پذیری کی غرض سے سفر کرو یعنی مقصد سفر عبرت پذیری ہونی چاہیے، لیکن ثم انظروا نے سفر کا دارومدار عبرت پذیری پر نہیں رکھا، بلکہ مزید وسعت پیدا کرتے ہوئے فرمایا سفر کرو اور پھر عبرت آمیز واقعات و حادثات نیز آثار و خرابات سے عبرت بھی حاصل کرو، یعنی سفر پر جائز غرض کے لئے مباح ہے مگر دوران سفر عبرت پذیری واجب ہے، اَمّا قولہ سیروا فی الارض ثم انظروا فمعناہ اباحۃ السیر فی الارض للتجارۃ وغیرھا من المنافع وایجاب النظر فی آثار الھالکین۔ (کبیر)
10 Tafsir as-Saadi
﴿ قُلْ سِيرُوا فِي الْأَرْضِ ثُمَّ انظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِينَ ﴾” کہو کہ ملک میں چلو پھر و اور دیکھو کہ جھٹلانے والوں کا کیا انجام ہوا۔“ یعنی اگر تمہیں اس بارے میں کوئی شک و شبہ ہے تو زمین میں چل پھر کر دیکھو کہ جھٹلانے والوں کا کیا انجام ہوا۔ تم دیکھو گے کہ ایسی قوم ہلاک کردی گئی اور ایسی امتیں عذاب میں مبتلا کردی گئیں۔ ان کے گھر ویران ہوگئے اور ان عیش کدوں میں رہ کر مسرتوں کے مزے لوٹنے والے نیست و نابود ہوگئے۔ اللہ جبار نے ان کو ہلاک کردیا اور اہل بصیرت کے لئے ان کو نشان عبرت بنا دیا۔ یہ (سَيْر) جس کا حکم دیا گیا ہے بدنی اور قلبی سیر کو شامل ہے جس سے عبرت جنم لیتی ہے۔ رہا عبرت حاصل کئے بغیر چل پھر کر دیکھنا تو اس کا کوئی فائدہ نہیں۔
11 Mufti Taqi Usmani
. ( inn kafiron say ) kaho kay : zara zameen mein chalo phiro , phir dekho kay ( payghumberon ko ) jhutlaney walon ka kaisa anjam huwa-?