الانعام آية ۱۴۵
قُلْ لَّاۤ اَجِدُ فِىْ مَاۤ اُوْحِىَ اِلَىَّ مُحَرَّمًا عَلٰى طَاعِمٍ يَّطْعَمُهٗۤ اِلَّاۤ اَنْ يَّكُوْنَ مَيْتَةً اَوْ دَمًا مَّسْفُوْحًا اَوْ لَحْمَ خِنْزِيْرٍ فَاِنَّهٗ رِجْسٌ اَوْ فِسْقًا اُهِلَّ لِغَيْرِ اللّٰهِ بِهٖ ۚ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَّلَا عَادٍ فَاِنَّ رَبَّكَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ
طاہر القادری:
آپ فرما دیں کہ میری طرف جو وحی بھیجی گئی ہے اس میں تو میں کسی (بھی) کھانے والے پر (ایسی چیز کو) جسے وہ کھاتا ہو حرام نہیں پاتا سوائے اس کے کہ وہ مُردار ہو یا بہتا ہوا خون ہو یا سؤر کا گوشت ہو کیو نکہ یہ ناپاک ہے یا نافرمانی کا جانور جس پر ذبح کے وقت غیر اﷲ کا نام بلند کیا گیا ہو۔ پھر جو شخص (بھوک کے باعث) سخت لاچار ہو جائے نہ تو نافرمانی کر رہا ہو اور نہ حد سے تجاوز کر رہا ہو تو بیشک آپ کا رب بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے،
English Sahih:
Say, "I do not find within that which was revealed to me [anything] forbidden to one who would eat it unless it be a dead animal or blood spilled out or the flesh of swine – for indeed, it is impure – or it be [that slaughtered in] disobedience, dedicated to other than Allah. But whoever is forced [by necessity], neither desiring [it] nor transgressing [its limit], then indeed, your Lord is Forgiving and Merciful."
1 Abul A'ala Maududi
اے محمدؐ! ان سے کہو کہ جو وحی تمہارے پاس آئی ہے اس میں تو میں کوئی چیز ایسی نہیں پاتا جو کسی کھانے والے پر حرام ہو، الا یہ کہ وہ مُردار ہو، یا بہایا ہوا خون ہو، یاسور کا گوشت ہو کہ وہ ناپاک ہے، یا فسق ہو کہ اللہ کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کیا گیا ہو پھر جو شخص مجبوری کی حالت میں (کوئی چیز اِن میں سے کھا لے) بغیر اس کے کہ وہ نافرمانی کا ارادہ رکھتا ہو اور بغیر اس کے کہ وہ حد ضرورت سے تجاوز کرے، تو یقیناً تمہارا رب در گزر سے کام لینے والا اور رحم فرمانے والا ہے
2 Ahmed Raza Khan
تم فرماؤ میں نہیں پاتا اس میں جو میری طرف وحی ہوئی کسی کھانے والے پر کوئی کھانا حرام مگر یہ کہ مردار ہو یا رگوں کا بہتا خون یا بد جانور کا گوشت وہ نجاست ہے یا وہ بے حکمی کا جانور جس کے ذبح میں غیر خدا کا نام پکارا گیا تو جو ناچار ہوا نہ یوں کہ آپ خواہش کرے اور نہ یوں کہ ضرورت سے بڑھے تو بے شیک اللہ بخشنے والا مہربان ہے
3 Ahmed Ali
کہہ دو کہ میں اس وحی میں جو مجھے پہنچی ہے کسی چیز کو کھانے والے پر حرام نہیں پاتا جو اسے کھائے مگر یہ کہ وہ مردار ہو یا بہتا ہوا خون یا سور کا گوشت کہ وہ ناپاک ہے یا وہ ناجائز ذبیحہ جس پر الله کے سوا کسی اور کا نام پکارا جائے پھر جو تمہیں بھوک سے بے اختیار ہوجائے ایسی حال میں کہ نہ بغاوت کرنے والا اور نہ حد سے گزرنے والا ہو تیرا رب بخشنے والا مہربان ہے
4 Ahsanul Bayan
آپ کہہ دیجئے جو کچھ احکام بذریعہ وحی میرے پاس آئے ان میں تو میں کوئی حرام نہیں پاتا کسی کھانے والے کے لئے جو اس کو کھائے، مگر یہ کہ وہ مردار ہو یا کہ بہتا ہوا خون ہو یا خنزیر کا گوشت ہو، کیونکہ وہ بالکل ناپاک ہے یا جو شرک کا ذریعہ ہو کر غیر اللہ کے لئے نامزد کر دیا گیا ہو (١) پھر جو شخص مجبور ہو جائے بشرطیکہ نہ تو طالب لذت ہو اور نہ تجاوز کرنے والا ہو تو واقع ہی آپ کا رب غفور و رحیم ہے۔
١٤٥۔١ اس آیت میں جن چار محرمات کا ذکر ہے، اس کی ضروری تفصیل سورۃ بقرہ ١٧٣ کے حاشیہ میں گزر چکی ہے یہاں یہ نکتہ مزید قابل وضاحت ہے کہ ان چار محرمات کا ذکر کلمہ حصر سے کیا گیا ہے جس سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان چار قسموں کے علاوہ اور جانور بھی شریعت میں حرام ہیں، پھر یہاں حصر کیوں کیا گیا؟ بات دراصل یہ ہے کہ اس سے قبل مشرکین جاہلانہ طریقوں اور ان کے بیان چلا رہا ہے۔ ان ہی میں بعض جانوروں کا بھی ذکر آیا ہے جو انہوں نے اپنے طور پر حرام کر رکھے تھے۔ امام شوکانی نے اس کی توجیہ اس طرح کی ہے اگر یہ آیت مکی نہ ہوتی تو پھر یقینا محرمات کا حصر قابل تسلیم تھا لیکن چونکہ اس کے بعد خود قرآن نے المائدہ میں بعض محرمات کا ذکر کیا ہے اور نبی نے بھی کچھ محرمات بیان فرمائیں ہیں، تو اب وہ بھی ان میں شامل ہونگے۔ اس کے علاوہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پرندوں اور درندوں کے حلت وحرمت معلوم کرنے کے لیے دو اصول بیان فرمادئیے ہیں جن کی وضاحت بھی مذکورہ محولہ حاشیہ میں موجود ہے۔ او فسقا کا عطف لحم خنزیر پر ہے۔ اس لیے منصوب ہے، معنی ہی ای ذبح علی الاصنام، وہ جانور جو بتوں کے نام پر یا ان کے تھانوں پر ان کا تقرب حاصل کرنے کے لیے ذبح کیے جائیں۔ یعنی ایسے جانوروں پر گو عند الذبح اللہ کا نام لیا جئے تب بھی حرام ہوں گے کیونکہ ان سے اللہ کا تقرب نہیں۔ غیر اللہ کا تقرب حاصل کرنا مقصود ہے۔ فسق رب کی اطاعت سے خروج کا نام ہے۔ رب نے حکم دیا ہے کہ اللہ تعالٰی کے نام پر جانور ذبح کیا جائے اور سارا اسی کے تقرب ونیاز کے لیے کیا جائے اگر ایسا نہیں کیا جائے گا تو یہی فسق اور شرک ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
کہو کہ جو احکام مجھ پر نازل ہوئے ہیں ان میں کوئی چیز جسے کھانے والا کھائے حرام نہیں پاتا بجز اس کے کہ وہ مرا ہوا جانور یا بہتا لہو یا سور کا گوشت کہ یہ سب ناپاک ہیں یا کوئی گناہ کی چیز ہو کہ اس پر خدا کے سوا کسی اور کا نام لیا گیا ہو اور اگر کوئی مجبور ہو جائے لیکن نہ تو نافرمانی کرے اور نہ حد سے باہر نکل جائے تو تمہارا پروردگار بخشنے والا مہربان ہے
6 Muhammad Junagarhi
آپ کہہ دیجئے کہ جو کچھ احکام بذریعہ وحی میرے پاس آئے ان میں تو میں کوئی حرام نہیں پاتا کسی کھانے والے کے لئے جو اس کو کھائے، مگر یہ کہ وه مردار ہو یا کہ بہتا ہوا خون ہو یا خنزیر کا گوشت ہو، کیونکہ وه بالکل ناپاک ہے یا جو شرک کا ذریعہ ہو کہ غیراللہ کے لئے نامزد کردیا گیا ہو۔ پھر جو شخص مجبور ہوجائے بشرطیکہ نہ تو طالب لذت ہو اور نہ تجاوز کرنے واﻻ ہو تو واقعی آپ کا رب غفور و رحیم ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
کہہ دیجئے جو وحی میرے پاس آئی ہے میں اس میں کوئی چیز ایسی نہیں پاتا جو کھانے والے پر حرام ہو سوا اس کے کہ مردار ہو یا بہایا ہوا خون ہو یا سور کا گوشت ہو یہ سب رجس اور گندگی ہے یا پھر فسق ہو (نافرمانی کا ذریعہ ہو یعنی) جو اللہ کے سوا کسی اور نام پر ذبح کیا گیا ہو (یا غیر اللہ کے لیے نامزد کیا گیا ہو) ہاں البتہ اگر کوئی مجبور ہو جائے جبکہ وہ نہ باغی و سرکش ہو اور نہ ہی حد سے تجاوز کرنے والا ہو تو یقینا تمہارا پروردگار بڑا بخشنے والا بڑا رحم کرنے والا ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
آپ کہہ دیجئے کہ میں اپنی طرف آنے والی وحی میں کسی بھی کھانے والے کے لئے کوئی حرام نہیں پاتا مگر یہ کہ مفِدار ہو یا بہایا ہوا خون یا سور کا گوشت ہوکہ یہ سب نجس اور گندگی ہے یا وہ نافرمانی ہو جسے غیر خد اکے نام پر ذبح کیا گیا ہو .... اس کے بعد بھی کوئی مجبور ہوجائے اور نہ سرکش ہو نہ حد سے تجاوز کرنے والا تو پروردگار بڑا بخشنے والا مہربان ہے
9 Tafsir Jalalayn
کہو کہ جو احکام مجھ پر نازل ہوئے ہیں میں ان میں کوئی چیز جسے کھانے والا کھائے حرام نہیں پاتا۔ بجز اس کے کہ وہ مرا ہوا جانور ہو یا بہتا لہو یا سور کا گوشت کہ یہ سب ناپاک ہیں یا گناہ کی کوئی چیز ہو کہ اس پر خدا کے سوا کسی اور کا نام لیا گیا ہے۔ (اور) اگر کوئی مجبور ہوجائے لیکن نہ تو نافرمانی کرے اور نہ حد سے باہر نکل جائے تو تمہارا پروردگار بخشنے والا مہربان ہے۔
آیت نمبر ١٤٥ تا ١٥٠
ترجمہ : (اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے کہو کہ جو وحی میرے پاس لائی گئی ہے اس میں تو میں کوئی چیز ایسی نہیں پاتا کہ کسی کھانے والے پر حرام ہو اِلاَّ یہ کہ وہ مردار ہو (یکون) یاء اور تاء کے ساتھ (میتۃً ) نصب کے ساتھ ہے اور ایک قراء میں یاء تحتانیہ کے ساتھ ہے، یا بہایا ہوا خون ہو یعنی دم سائل بخلاف غیر سائل کے مثلاً جگر، اور تلّی، یا خنزیر کا گوشت اسلئے کہ وہ تو ناپاک حرام ہے یا فسق ہو جو غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا گیا ہے، یعنی غیر اللہ کا نام لے کر ذبح کیا گیا ہو، سو جو شخص مذکورہ چیزوں میں سے کسی چیز کی طرف مجبور ہوا اور اس نے ان میں سے کھالیا بغیر اس کے کہ وہ نافرمانی کرنے کا ارادہ رکھتا ہو اور بغیر اس کے کہ حد ضرورت سے تجاوز کرے، تو یقیناً اس کھائے ہوئے کے بارے میں تمہارا رب درگذر سے کام لینے والا رحم فرمانے والا ہے اور مذکورہ چیزوں کے ساتھ حدیث کی وجہ سے کچلی والے درندوں اور پنجے والے پرندوں کو شامل کرلیا گیا ہے، اور یہود پر ہم نے ناخن والے تمام جانور حرام کر دئیے اور وہ ایسے جانور ہیں کہ ان کی انگلیاں الگ نہ ہوں جیسا کہ اونٹ اور شتر مرغ، اور گائے اور بکری کہ اوجھ اور گردے کی چربی ہم نے ان پر حرام کردی مگر وہ چربی جو ان کی پیٹھ میں لگی ہو، یا آنتوں میں لگی ہو، حوایا بمعنی انتڑی حوویا یا حاویہ کی جمع ہے یا وہ چربی جو ہڈی سے لگی ہو اور سرین کی چربی ہے وہ ان کے لئے حلال تھی، تحریم کی یہ سزا ہم نے ان کی سرکشی کی وجہ سے دی جس کا ذکر سورة نساء میں گذر چکا ہے اور ہم اپنی خبروں میں اور وعدوں میں سچے ہیں اور جو کچھ آپ لے کر آئے ہیں اگر یہ اس میں آپ کی تکذیب کریں تو ان سے کہہ دو کہ تمہارا رب بڑی وسیع رحمت والا ہے اسلئے کہ اس کی سزا میں اس نے تمہارے اوپر جلدی نہیں کی، اور (ربکم) کہنے میں ان کو ایمان کی دعوت دینے میں نرمی ہے اور اس کا عذاب جب آجائیگا تو مجرموں سے نہ ٹلے گا، یہ مشرکین یوں کہیں گے کہ اگر اللہ چاہتا تو نہ ہم شرک کرتے اور نہ ہمارے آباء اور نہ ہم کسی چیز کو حرام ٹھہراتے، (معلوم ہوا) ہمارا شرک کرنا اور ہمارا حرم ٹھہرانا اللہ کی مشیئت سے ہے اور وہ اس سے راضی ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا اسی طرح جس طرح ان لوگوں نے تکذیب کی ان سے پہلے لوگوں نے بھی اپنے رسولوں کی تکذیب کی تھی یہاں تک کہ انہوں نے ہمارے عذاب کا مزا چکھ لیا آپ ان سے پوچھئے کیا ان کے پاس اس بات پر کہ اللہ اس سے راضی ہے کوئی دلیل ہے (اگر ہے) تو اسے ہمارے روبرو ظاہر کرو یعنی تمہارے پاس کوئی نہیں ہے، تم اس معاملہ میں محض خیالی باتوں کی اتباع کرتے ہو اور اس معاملہ میں محض اٹکل سے باتیں کرتے ہو یعنی اس میں دروغ گوئی سے کام لیتے ہو، آپ کہئے اگر تمہارے پاس دلیل نہیں تو اللہ کے پاس حجت تامہ موجود ہے اگر اسے تمہاری ہدایت منظور ہوتی تو وہ تم سب کو ہدایت دیدیتا آپ کہئے کہ اپنے گواہ پیش کرو جو اس بات پر گواہی دیں کہ جس چیز کو تم نے حرام کرلیا ہے اللہ نے اس کو حرام کیا ہے پھر وہ تصدیق کریں تو تم ان کی تصدیق نہ کرنا اور ایسے لوگوں کے باطل خیالات کا اتباع نہ کیجئے جو ہماری آیتوں کی تکذیب کرتے ہیں اور وہ جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے اور جو (دوسروں کو) اپنے رب کا ہمسر ٹھہراتے ہیں (یعنی) شرک کرتے ہیں۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : ما اُوحِیَ اِلَیّ ، شیئًا، مَا موصولہ اُحِیَ اس کا صلہ عائد محذوف ہے، تقدیر عبارت یہ ہے اَلّذی اَوْحَاہُ اللہ اِلیّ ۔
قولہ : شیئًا، اس میں اشارہ ہے کہ محرماً موصوف محذوف کی صفت ہے ای شیئًا محرماً ۔
قولہ : مَیتَۃْ بالنصب، کان اگر ناقصہ مانا جائے تو اس کا اسم ضمیر مستتر ہوگی، اور اس ضمیر کا مرجع شئ محرم ہوگی، اور مَیْتَۃً کانَ کی خبر ہونے کی وجہ سے منصوب ہوگا، اور یکون اپنے اسم کے مرجع جو کہ محرّم ہے کہ رعایت کی وجہ سے مذکر کا صیغہ ہوگا اس صورت میں خبر، یعنی میتۃ کی رعایت نہ ہوگی، اور تکون مؤنث کا صیغہ خبر کی رعایت کی وجہ سے ہوگا، یہ دونوں صورتیں میتۃً کے نصب کی صورت میں ہوں گی، میتۃٌ کے رفع کی صورت میں تکون میں صرف ایک ہی قراء ہوگی، یعنی تاء گو قانیہ، اور تکون اس صورت میں تامہ ہوگا، اور میتۃٌ اس کا فاعل ہوگا جب مذکورہ بات سمجھ لی گئی تو مفسر علام کا وفی قراء ۃٍ بالرفع مع التحتانیۃ سبقت قلم ہوگی، صحیح الفوقانیہ ہے فقط۔
قولہ : اِلاَّ اَنْ تکونَ ، اگر عموم احوال سے مستثنیٰ مانا جائے تو مستثنیٰ متصل ہوگا اور اگر یہ کہا جائے کہ مستثنیٰ منہ محرماً ہے جو کہ ذات ہے اور مستثنیٰ میتۃً صفت ہے لہٰذا مستثنیٰ مستثنیٰ منہ کی جنس سے نہ ہونے کی وجہ سے مستثنیٰ منقطع ہوگا، والاول اقرب۔
قولہ : حرام، بہتر ہوتا کہ مفسر علاّم رجسٌ کی تفسیر حرام کے بجائے نجس سے کرتے اسلئے کہ حرمت تو اِلاّ ان یکون میتۃ الخ استثناء سے مفہوم ہے۔
قولہ : اوفسقا، اس کا عطف میتۃً پر ہے، اس کا مضاف محذوف ہے ایا فسقٍ یا مبالغہ کے طور پر حمل ہوگا اس صورت میں زید عدلٌ کے قبیل سے ہوگا، لحم خنزیر پر بھی قرب کی وجہ سے عطف درست ہے، اور فاِنّہٗ رجس جملہ معترضہ ہے۔
قولہ : اُھِلَّ لغیر اللہ یہ فسقاً کی صفت ہے۔ قولہ : ویُلحَقُ بِمَا ذُکِرَ بالسُّتَّۃِ اس اضافہ میں ایک سوال مقدر کے جواب کی طرف اشارہ ہے۔
سوال : آیت سے مذکورہ چار چیزوں میں حرمت کا حصر مفہوم ہوتا ہے حالانکہ ان کے علاوہ اور بھی بہت سی چیزیں حرام ہیں۔
جواب : حصر حقیقی مراد نہیں ہے بلکہ حدیث کی رو سے اور بہت سی چیزیں بھی حرام ہیں۔
قولہ : الثروب، جمع ثربٍ ، چربی کی اس باریک جھلی کو کہتے ہیں جو معدہ اور آنتوں وغیرہ پر لپٹی ہوئی ہوتی ہے۔
قولہ : کُلی، یہ کُلْبَۃ کی جمع ہے گردہ کو کہتے ہیں۔ قولہ : شَحْمُ الاِلْیَۃِ پُٹھ کی چربی جو دم کی ہڈی سے لگی ہوتی ہے۔
قولہ : نحنُ ، یہ اشرکنا کے اندر ضمیر مستتر کی تاکید ہے تاکہ مرفوع متصل پر عطف درست ہوسکے، اسلئے کہ ضمیر مرفوع متصل پر عطف کیلئے فصل یا تاکید ضروری ہوتی ہے۔
قولہ : اِن لَمْ یَکُنْ لَکُمْ حُجَّۃٌ، اس میں اشارہ ہے کہ فلِلّٰہ الحجۃ البالغۃ شرط محذوف کی جزاء ہے جس کو مفسر علام نے ظاہر کردیا ہے لہٰذا اب عطف الخبر علی الانشاء کا اعتراض بھی ختم ہوگیا۔
قولہ : اُحْضُرُوا۔ سوال : ھَلُمَّ کی تفسیر احضروا بصیغہ جمع کرنے میں کیا مصلحت ہے ؟
جواب : ھَلُمَّ اسماء افعال میں سے ہے اور یہاں لغت حجاز کے مطابق استعمال ہوا ہے اسلئے کہ حجاز یین کے نزدیک یہ غیر منصرف ہے بخلاف بنو تمیم کے، لہٰذا یہ اعتراض ختم ہوگیا کہ یہاں مناسب ھلمّوا بصیغہ جمع تھا اسلئے کہ اس کے مخاطب کثیر لوگ ہیں۔
تفسیر و تشریح
قُلْ لاَ اَجِدُ ۔۔۔۔ محرّمًا (الآیۃ) سابق میں ان چار محرمات کا ذکر تھا جن کو اغوائے شیطانی کی وجہ سے مشرکوں نے انے اوپر حرام کرلیا تھا، اس کی پوری تفصیل سورة بقرہ آیت (١٧٣) میں گذر چکی ہے، اس آیت میں مشرکوں کو قائل کرنے کیلئے کہا جا رہا ہے، کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم ان لوگوں سے کہہ دو کہ جن جانوروں کو تم نے اپنی طرف سے حرام ٹھہرا دکھا ہے ان کا ذکر میں، میرے اوپر نازل کردہ وحی میں کہیں نہیں پاتا سوائے ان چار چیزوں کے جن کو تم نے حلال ٹھہرا رکھا ہے، (١) مردار جانور، (٢) بہتا ہوا خون (٣) خنزیر کا گوشت (٤) غیر اللہ کے تقرب کیلئے ذبح کیا ہوا جانور، ان مذکورہ حرام چیزوں کو تم نے حلال ٹھہرا رکھا ہے حالانکہ یہ حرام ہیں۔
نکتہ : یہاں یہ نکتہ قابل توجہ ہے کہ مذکورہ چاروں محرمات کا ذکر کلمہ حصر کے ساتھ کیا گیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ چار جانوروں کے علاوہ تمام جانور حلال ہیں جبکہ واقعہ یہ ہے کہ ان چار کے علاوہ اور بہت سے جانور بھی شریعت میں حرام ہیں، پھر یہاں حصر کیوں کیا گیا ؟ بات دراصل یہ ہے کہ ماقبل سے مشرکوں کے جاہلانہ طریقوں اور عقیدوں کا ذکر چلا آرہا ہے اسی سلسلہ میں بعض جانوروں کا بھی ذکر آیا جن کو مشرکوں نے بطور خود حرام کر رکھا تھا اسی سیاق وسباق کے ضمن میں یہ کہا جا رہا یہ کہ مجھ پر جو وحی کی گئی ہے اس میں تو ان محرمات کا ذکر نہیں ہے اگر یہ مذکورہ چاروں چیزیں حرام ہوتیں تو اللہ تعالیٰ ان کا ذکر ضرور فرماتا، مذکورہ حصر سے معلوم ہوتا ہے کہ مکی زندگی میں یہی جانور حرام تھے جن کا ذکر اس آیت میں ہے، پھر ہجرت کے بعد سورة مائدہ میں وہ جانور حرام ہوئے جن کی تفصیل اسی جگہ گذر چکی ہے۔
جانروں کی حلت و حرمت کے اختلافی مسائل : فقہاء اسلام میں ایک جماعت اس بات کی قابل ہے کہ حیوانی غذاؤں میں جن چار چیزوں کی حرمت کا یہاں ذکر ہے بس یہی چار چیزیں حرام ہیں یہی مسلک حضرت عبد اللہ بن عباس اور حضرت عائشہ صدیقہ (رض) اور امام مالک کا ہے لیکن جمہور سلف نے اس کو تسلیم نہیں کیا، معتبر سند سے حضرت عبد اللہ بن عمر کی حدیث سورة بقرہ میں گذر چکی ہے جس کی رہ سے مردار میں سے دو مردار مچھلی اور ٹڈی اور خون میں سے دو خون کلیجی اور تلیّ حلال ہیں، سوّر تمام علماء کے نزدیک حرام ہے اور اس کا جسم ناپاک ہے۔
خنزیر اور کتے کی کھال کا حکم : سور اور کتے کے کھال کی دباغت کے بعد پاک ہونے یا نہ ہونے کا اختلاف سورة مائدہ میں گذر چکا ہے ما اُھِلَّ بہ کی تفسیر بھی سورة بقرہ اور سورة مائدہ میں گذر چکی ہے فمن اضطر غیر باغ ولا عادٍ ، کی تفسیر بھی سورة بقرہ میں گذر چکی ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ جو شخص بھوک کے سبب ایسا عاجز اور مجبور ہو کہ اس کو اپنی جان کے تلف ہوجانے کا خوف لاحق ہوجائے تو وہ بقدر اپنی جان بچانے کے ان حرام چیزوں کو استعمال کرسکتا ہے، ایسی اضطراری کیفیت میں چونکہ احتیاط باقی نہیں رہتی اسلئے اللہ تعالیٰ نے آگے فرمایا ” فانَّ ربک غفور رحیم “۔
10 Tafsir as-Saadi
جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس امر پر مشرکین کی مذمت کی کہ انہوں نے حلال کو حرام ٹھہرایا اور اسے اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کردیا اور ان کے اس قول کا ابطال کیا تو اس نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کے سامنے واضح کردیں کہ اللہ تعالیٰ نے کیا چیز ان پر حرام ٹھہرائی ہے تاکہ انہیں معلوم ہوجائے کہ اس کے علاوہ جو کچھ ہے وہ حلال ہے اور جو کوئی اس کی تحریم کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرتا ہے وہ جھوٹا اور باطل پرست ہے، کیونکہ تحریم صرف اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے رسول کے توسط سے ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا : ﴿قُل لَّا أَجِدُ فِي مَا أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّمًا عَلَىٰ طَاعِمٍ يَطْعَمُهُ ﴾” آپ کہہ دیجیے کہ میں نہیں پاتا اس وحی میں کہ مجھ کو پہنچی ہے کسی چیز کو حرام، کھانے والے پر جو اس کو کھائے“ یعنی اس کو کھانے کے علاوہ اس سے دیگر فوائد حاصل کرنے یا نہ کرنے سے قطع نظر، میں کوئی چیز نہیں پاتا جس کا کھانا حرام ہو۔ ﴿ إِلَّا أَن يَكُونَ مَيْتَةً ﴾ ” مگر یہ کہ وہ چیز مردار ہو“ مردار وہ جانور ہے جو شرعی طریقے سے ذبح کئے بغیر مر گیا ہو۔ یہ مرا ہوا جانور حلال نہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ﴿حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنزِيرِ ﴾ (المائدہ :5؍3) ” حرام کردیا گیا تم پر مردار، خون او خنزیر کا گوشت۔ “
﴿أَوْ دَمًا مَّسْفُوحًا ﴾” یا بہتا ہوا خون“ یہ وہ خون ہے جو ذبیحہ کو ذبح کرتے وقت اس میں خارج ہوتا ہے کیونکہ اس خون کا ذبیحہ کے بدن میں رہنا ضرر رساں ہے۔ جب یہ خون بدن سے نکل جاتا ہے تو گوشت کا ضرر زائل ہوجاتا ہے۔ لفظ کے مفہوم مخالف سے مستفاد ہوتا ہے کہ جانور کو ذبح کرنے کے بعد جو خون گوشت اور رگوں میں بچ جاتا ہے وہ حلال اور پاک ہے۔ ﴿أَوْ لَحْمَ خِنزِيرٍ فَإِنَّهُ رِجْسٌ ﴾ ” یا سور کا گوشت کہ وہ ناپاک ہے“ یعنی مذکورہ تینوں اشیا گندی ہیں یعنی ناپاک اور مضر ہیں اور اللہ تعالیٰ نے تم پر لطف و کرم کرتے ہوئے اور تمہیں خبائث کے قریب جانے سے بچانے کے لئے ان گندی اشیا کو حرام قرار دے دیا ہے۔ ﴿أَوْ فِسْقًا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّـهِ بِهِ ﴾ یا ذبیحہ کو اللہ کے سوا بتوں اور ان معبودوں کے لئے ذبح کیا گیا ہو جن کی مشرکین عبادت کرتے ہیں۔ یہ فسق ہے اور فسق سے مراد ہے اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے نکل کر اس کی معصیت میں داخل ہوجانا۔ ﴿فَمَنِ اضْطُرَّ ﴾” پس اگر کوئی مجبور ہوجائے۔“ یعنی بایں ہمہ اگر کوئی ان حرام اشیا کو استعمال کرنے پر مجبور ہے حاجت اور ضرورت نے اسے ان اشیاء کو کھانے پر مجبور کردیا ہے۔ وہ اس طرح کہ اس کے پاس کھانے کے لئے کچھ نہیں اور بھوک کے باعث اس کو اپنی جان کا خوف ہے ﴿غَيْرَ بَاغٍ ﴾ ” نافرمانی کرنے والا نہ ہو۔“ یعنی بغیر کسی اضطراری حالت کے اس کو کھانے کا ارادہ نہ رکھتا ہو۔ ﴿وَلَا عَادٍ﴾’ ’اور نہ زیادتی کرنے والا ہو“ (عَادٍ) سے مراد ہے ” ضرورت سے زائد کھا کر حد سے تجاوز کرنے والا“ ﴿فَإِنَّ رَبَّكَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴾” تو بلاشبہ تمہارا رب بخشنے والا مہربان ہے۔“ یعنی جو شخص اس حالت کو پہنچ جائے اللہ تعالیٰ نے اس کے ساتھ نرمی کی ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
. ( aey payghumber ! inn say ) kaho kay : jo wahi mujh per nazil ki gaee hai uss mein to mein koi aesi cheez nahi pata jiss ka khana kissi khaney walay kay liye haram ho , illa yeh kay woh murdar ho , ya behta huwa khoon ho , ya soowar ka gosht ho , kiyonkay woh napak hai , ya jo aisa gunah ka janwer ho jiss per Allah kay siwa kissi aur ka naam pukara gaya ho . haan jo shaks ( inn cheezon mein say kissi kay khaney per ) intehai majboor hojaye , jabkay woh naa lazzat hasil kernay ki gharz say aisa ker raha ho , aur naa zaroorat ki hadd say aagay barhay , to beyshak Allah boht bakhshney wala , bara meharban hai .
12 Tafsir Ibn Kathir
اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ حلال و حرام
اللہ تعالیٰ عزوجل اپنے بندے اور نبی حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیتا ہے کہ آپ ان کافروں سے جو اللہ کے حلال کو اپنی طرف سے حرام کرتے ہیں فرما دیں کہ جو وحی الٰہی میرے پاس آئی ہے اس میں تو حرام صرف ان چیزوں کو کیا گیا ہے، جو میں تمہیں سناتا ہوں، اس میں وہ چیزیں حرمت والی نہیں، جن کی حرمت کو تم رائج کر رہے ہو، کسی کھانے والے پر حیوانوں میں سے سوا ان جانوروں کے جو بیان ہوئے ہیں کوئی بھی حرام نہیں۔ اس آیت کے مفہوم کا رفع کرنے والی سورة مائدہ کی آئیندہ آیتیں اور دوسری حدیثیں ہیں جن میں حرمت کا بیان ہے وہ بیان کی جائیں گی، بعض لوگ اسے نسخ کہتے ہیں اور اکثر متأخرین اسے نسخ نہیں کہتے کیونکہ اس میں تو اصلی مباح کو اٹھا دینا ہے۔ واللہ اعلم۔ خون وہ حرام ہے جو بوقت ذبح بہ جاتا ہے، رگوں میں اور گوشت میں جو خون مخلوط ہو وہ حرام نہیں۔ حضرت عائشہ (رض) گدھوں اور درندوں کا گوشت اور ہنڈیا کے اوپر جو خون کی سرخی آجائے، اس میں کوئی حرج نہیں جانتی تھیں۔ عمرو بن دینار نے حضرت جابر بن عبداللہ سے سوال کیا کہ لوگ کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جنگ خیبر کے موقعہ پر پالتو گدھوں کا کھانا حرام کردیا ہے، آپ نے فرمایا، ہاں حکم بن عمر تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہی روایت کرتے ہیں لیکن حضرت ابن عباس اس کا انکار کرتے ہیں اور آیت (قل لا اجد) تلاوت کرتے ہیں، ابن عباس کا فرمان ہے کہ اہل جاہلیت بعض چیزیں کھاتے تھے بعض کو بوجہ طبعی کراہیت کے چھوڑ دیتے تھے۔ اللہ نے اپنے نبی کو بھیجا، اپنی کتاب اتاری، حلال حرام کی تفصیل کردی، پس جسے حلال کردیا وہ حلال ہے اور جسے ہر ام کردیا وہ حرام ہے اور جس سے خاموش رہے وہ معاف ہے۔ پھر آپ نے اسی آیت (قل لا اجد) کی تلاوت کی۔ حضرت سودہ بنت زمعہ کی بکری مرگئی، جب حضور سے ذکر ہوا تو آپ نے فرمایا تم نے اس کی کھال کیوں نہ اتار لی ؟ جواب دیا کہ کیا مردہ بکری کی کھال اتار لینی جائز ہے ؟ آپ نے یہی آیت تلاوت فرما کر فرمایا کہ " اس کا صرف کھانا حرام ہے، لیکن تم اسے دباغت دے کر نفع حاصل کرسکتے ہوں "۔ چناچہ انہوں نے آدمی بھیج کر کھال اتروالی اور اس کی مشک بنوائی جو ان کے پاس مدتوں رہی اور کام آئی۔ (بخاری وغیرہ) حضرت ابن عمر سے قنفد (یعنی خار پشت جسے اردو میں ساہی بھی کہتے ہیں) کے کھانے کی نسبت سوال ہوا تو آپ نے یہی آیت پڑھی اس پر ایک بزرگ نے فرمایا میں نے حضرت ابوہریرہ سے سنا ہے کہ ایک مرتبہ اس کا ذکر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے آیا تھا تو آپ نے فرمایا وہ خبیثوں میں سے ایک خبیث ہے اسے سن کر حضرت ابن عمر نے فرمایا اگر حضور نے یہ فرمایا ہے تو وہ یقینا ویسی ہی ہے جیسے آپ نے ارشاد فرما دیا (ابو داؤد وغیرہ) پھر فرمایا جو شخص ان حرام چیزوں کو کھانے پر مجبور ہوجائے لیکن وہ باغی اور ہد سے تجاوز کرنے والا نہ ہو تو اسے اس کا کھا لینا جائز ہے اللہ اسے بخش دے گا کیونکہ وہ غفور و رحیم ہے اس کی کامل تفسیر سورة بقرہ میں گذر چکی ہے یہاں تو مشرکوں کے اس فعل کی تردید منظور ہے جو انہوں نے اللہ کے حلال کو حرام کردیا تھا اب بتادیا گیا کہ یہ چیزیں تم پر حرام ہیں اس کے علاوہ کوئی چیز حرام نہیں۔ اگر اللہ کی طرف سے وہ بھی حرام ہوتیں تو ان کا ذکر بھی آجاتا۔ پھر تم اپنی طرف سے حلال کیوں مقرر کرتے ہو ؟ اس بنا پر پھر اور چیزوں کی حرمت باقی رہتی جیسے کہ گھروں کے پالتو گدھوں کی ممانعت اور درندوں کے گوشت کی اور جنگل والے پرندوں کی جیسے کہ علماء کا مشہور مذہب ہے ( یہ یاد رہے کہ ان کی حرمت قطعی ہے کیونکہ صحیح احادیث سے ثابت ہے اور قرآن نے حدیث کا ماننا بھی فرض کیا ہے۔ مترجم)