بیشک تمہارے لئے ابراہیم (علیہ السلام) میں اور اُن کے ساتھیوں میں بہترین نمونۂ (اقتداء) ہے، جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا: ہم تم سے اور اُن بتوں سے جن کی تم اللہ کے سوا پوجا کرتے ہو کلیتہً بیزار (اور لاتعلق) ہیں، ہم نے تم سب کا کھلا انکار کیا ہمارے اور تمہارے درمیان دشمنی اور نفرت و عناد ہمیشہ کے لئے ظاہر ہوچکا، یہاں تک کہ تم ایک اللہ پر ایمان لے آؤ، مگر ابراہیم (علیہ السلام) کا اپنے (پرورش کرنے والے) باپ سے یہ کہنا کہ میں تمہارے لئے ضرور بخشش طلب کروں گا، (فقط پہلے کا کیا ہوا ایک وعدہ تھا جو انہوں نے پورا کر دیا اور ساتھ یوں جتا بھی دیا) اور یہ کہ میں تمہارے لئے (تمہارے کفر و شرک کے باعث) اللہ کے حضور کسی چیز کا مالک نہیں ہوں۔ (پھر وہ یہ دعا کر کے قوم سے الگ ہوگئے:) اے ہمارے رب! ہم نے تجھ پر ہی بھروسہ کیا اور ہم نے تیری طرف ہی رجوع کیا اور (سب کو) تیری ہی طرف لوٹنا ہے،
English Sahih:
There has already been for you an excellent pattern in Abraham and those with him, when they said to their people, "Indeed, we are disassociated from you and from whatever you worship other than Allah. We have denied you, and there has appeared between us and you animosity and hatred forever until you believe in Allah alone" – except for the saying of Abraham to his father, "I will surely ask forgiveness for you, but I have not [power to do] for you anything against Allah. Our Lord, upon You we have relied, and to You we have returned, and to You is the destination.
1 Abul A'ala Maududi
تم لوگوں کے لیے ابراہیمؑ اور اُس کے ساتھیوں میں ایک اچھا نمونہ ہے کہ اُنہوں نے اپنی قوم سے صاف کہہ دیا "ہم تم سے اور تمہارے اِن معبودوں سے جن کو تم خدا کو چھوڑ کر پوجتے ہو قطعی بیزار ہیں، ہم نے تم سے کفر کیا اور ہمارے اور تمہارے درمیان ہمیشہ کے لیے عداوت ہو گئی اور بیر پڑ گیا جب تک تم اللہ واحد پر ایمان نہ لاؤ" مگر ابراہیمؑ کا اپنے باپ سے یہ کہنا (اِس سے مستثنیٰ ہے) کہ "میں آپ کے لیے مغفرت کی درخواست ضرور کروں گا، اور اللہ سے آپ کے لیے کچھ حاصل کر لینا میرے بس میں نہیں ہے" (اور ابراہیمؑ و اصحاب ابراہیمؑ کی دعا یہ تھی کہ) "اے ہمارے رب، تیرے ہی اوپر ہم نے بھروسا کیا اور تیری ہی طرف ہم نے رجوع کر لیا اور تیرے ہی حضور ہمیں پلٹنا ہے
2 Ahmed Raza Khan
بیشک تمہارے لیے اچھی پیروی تھی ابراہیم اور اس کے ساتھ والوں میں جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا بیشک ہم بیزار ہیں تم سے اور ان سے جنہیں اللہ کے سوا پوجتے ہو، ہم تمہارے منکر ہوئے اور ہم میں اور تم میں دشمنی اور عداوت ظاہر ہوگئی ہمیشہ کے لیے جب تک تم ایک اللہ پر ایمان نہ لاؤ مگر ابراہیم کا اپنے باپ سے کہنا کہ میں ضرور تیری مغفرت چاہوں گا اور میں اللہ کے سامنے تیر ے کسی نفع کا مالک نہیں اے ہمارے رب ہم نے تجھی پر بھروسہ کیا اور تیری ہی طرف رجوع لائے اور تیری ہی طرف پھرنا ہے
3 Ahmed Ali
بے شک تمہارے لیے ابراہیم میں اچھا نمونہ ہے اوران لوگوں میں جو اس کے ہمراہ تھے جب کہ انہوں نے اپنی قوم سے کہا تھا بے شک ہم تم سے بیزار ہیں اور ان سے جنہیں تم الله کے سوا پوجتے ہو ہم نے تمہارا انکار کر دیا اور ہمارے او رتمہارے درمیان دشمنی اور بیَر ہمیشہ کے لیے ظاہر ہو گیا یہاں تک کہ تم ایک الله پر ایمان لاؤ مگر ابراھیم کا اپنے باپ سے کہنا کہ میں تمہارے لیے معافی مانگوں گا اور میں الله کی طرف سے تمہارے لیے کسی بات کا مالک بھی نہیں ہوں اے ہمارے رب ہم نے تجھ ہی پر بھروسہ کیا اور تیری ہی طرف ہم رجوع ہوئے اور تیری ہی طرف لوٹنا ہے
4 Ahsanul Bayan
مسلمانو! تمہارے لئے حضرت ابراہیم میں اور ان کے ساتھیوں میں بہترین نمونہ ہے (١) جب کہ ان سب نے اپنی قوم سے برملا کہہ دیا کہ ہم تم سے اور جن جن کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو ان سب سے بالکل بیزار ہیں (٢) ہم تمہارے (عقائد کے) منکر ہیں جب تک تم اللہ کی وحدانیت پر ایمان نہ لاؤ ہم میں تم میں ہمیشہ کے لئے بغض و عداوت ظاہر ہوگئی (٣) لیکن ابراہیم کی اتنی بات تو اپنے باپ سے ہوئی تھی (٤) کہ میں تمہارے لئے استغفار ضرور کروں گا اور تمہارے لئے مجھے اللہ کے سامنے کسی چیز کا اختیار کچھ بھی نہیں۔ اے ہمارے پروردگار تجھی پر ہم نے بھروسہ کیا ہے (۵) اور تیری ہی طرف رجوع کرتے ہیں اور تیری ہی طرف لوٹنا ہے،
٤۔١کفار سے عدم اتحاد کے مسئلے کی وضاحت کے لئے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی مثال دی جا رہی ہے کہ ایسا نمونہ جس کی پیروی کی جائے ٤۔٢ یعنی شرک کی وجہ سے ہمارا اور تمہارا کوئی تعلق نہیں، اللہ کے پرستاروں کا بھلا غیر اللہ کے پجاریوں سے کیا تعلق۔ ٤۔٣ یعنی علیحدگی اور بیزاری اس وقت تک رہے گی جب تک کفر و شرک چھوڑ کر توحید کو نہیں اپنالو گے۔ ٤۔٤ مطلب یہ حضرت ابراہیم کی پوری زندگی ایک قابل تقلید نمونہ ہے، البتہ ان کے باپ کے لئے مغفرت کی دعا کرنا ایک ایسا عمل ہے جس میں ان کی پیروی نہیں کرنی چاہیئے، کیونکہ ان کا یہ فعل اس وقت ہے جب ان کو اپنے باپ کی بابت علم نہیں تھا، چنانچہ جب ان پر واضح ہوگیا کہ ان کا باپ اللہ کا دشمن ہے تو انہوں نے اپنے باپ سے بھی اظہار نجات کر دیا، جیسا کہ (وَمَا كَانَ اسْتِغْفَارُ اِبْرٰهِيْمَ لِاَبِيْهِ اِلَّا عَنْ مَّوْعِدَةٍ وَّعَدَھَآ اِيَّاهُ ۚ فَلَمَّا تَـبَيَّنَ لَهٗٓ اَنَّهٗ عَدُوٌّ لِّلّٰهِ تَبَرَّاَ مِنْهُ ۭ اِنَّ اِبْرٰهِيْمَ لَاَوَّاهٌ حَلِيْمٌ ١١٤) 9۔ التوبہ;114) میں ہے۔ ٤۔۵ توکل کا مطلب ہے امکانی حد تک ظاہری اسباب ووسائل اختیار کرنے کے بعد معاملہ اللہ کے سپرد کردیا جائے یہ ہے اس لیے توکل کا یہ مفہوم بھی غلط ہوگا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوا اور اونٹ کو باہر کھڑا کرکے اندر آگیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا تو کہا میں اونٹ اللہ کے سپرد کر آیا ہوں آپ نے فرمایا یہ توکل نہیں ہے۔ اعقل وتوکل۔ پہلے اسے کسی چیز سے باندھ پھر اللہ پر بھروسہ کر۔ ترمذی۔ انابت کا مطلب ہے اللہ کی طرف رجوغ کرنا
5 Fateh Muhammad Jalandhry
تمہیں ابراہیم اور ان کے رفقاء کی نیک چال چلنی (ضرور) ہے۔ جب انہوں نے اپنی قوم کے لوگوں سے کہا کہ ہم تم سے اور ان (بتوں) سے جن کو تم خدا کے سوا پوجتے ہو بےتعلق ہیں (اور) تمہارے (معبودوں کے کبھی) قائل نہیں (ہوسکتے) اور جب تک تم خدائے واحد اور ایمان نہ لاؤ ہم میں تم میں ہمیشہ کھلم کھلا عداوت اور دشمنی رہے گی۔ ہاں ابراہیمؑ نے اپنے باپ سے یہ (ضرور) کہا کہ میں آپ کے لئے مغفرت مانگوں گا اور خدا کے سامنے آپ کے بارے میں کسی چیز کا کچھ اختیار نہیں رکھتا۔ اے ہمارے پروردگار تجھ ہی پر ہمارا بھروسہ ہے اور تیری ہی طرف ہم رجوع کرتے ہیں اور تیرے ہی حضور میں (ہمیں) لوٹ کر آنا ہے
6 Muhammad Junagarhi
(مسلمانو!) تمہارے لیے حضرت ابراہیم میں اور ان کے ساتھیوں میں بہترین نمونہ ہے، جبکہ ان سب نے اپنی قوم سے برملا کہہ دیا کہ ہم تم سے اور جن جن کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو ان سب سے بالکل بیزار ہیں۔ ہم تمہارے (عقائد کے) منکر ہیں جب تک تم اللہ کی وحدانیت پر ایمان نہ ﻻؤ ہم میں تم میں ہمیشہ کے لیے بغض وعداوت ﻇاہر ہوگئی لیکن ابراہیم کی اتنی بات تو اپنے باپ سے ہوئی تھی کہ میں تمہارے لیے استغفار ضرور کروں گا اور تمہارے لیے مجھے اللہ کے سامنے کسی چیز کا اختیار کچھ بھی نہیں۔ اے ہمارے پروردگار تجھی پر ہم نے بھروسہ کیا ہے اور تیری ہی طرف رجوع کرتے ہیں اور تیری ہی طرف لوٹنا ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
یقیناً تم لوگوں کیلئے (جنابِ) ابراہیم(ع) اوران کے ساتھیوں میں ایک عمدہ نمونہ ہے جبکہ انہوں نے اپنی قوم سے کہا کہ ہم تم سے بیزار ہیں اور ان سے بھی جن کی تم اللہ کے سوا پرستش کرتے ہو ہم تمہارے (اور تمہارے دین کے) منکر ہیں اور ہمارے اور تمہارے درمیان ہمیشہ کیلئے عداوت اور بغض پیدا ہوگیا یہاں تک کہ تم اللہ واحد (لا شریک لہٗ) پر ایمان لاؤ۔ ہاں البتہ ابراہیم (ع) نے اپنے (منہ بولے) باپ (اور اصل چچا) سے صرف یہ کہا تھا کہ میں تمہارے لئے مغفرت طلب کروں گا مگر میں اللہ کے سامنے تمہارے لئے کسی نفع کا مالک و مختار نہیں ہوں اے ہمارے پروردگار! ہم نے تجھ پر بھروسہ کیا ہے اور تیری ہی طرف رجوع کیا ہے اور تیری ہی طرف لَوٹنا ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
تمہارے لئے بہترین نمونہ عمل ابراہیم علیھ السّلام اور ان کے ساتھیوں میں ہے جب انہوں نے اپنی قوم سے کہہ دیا کہ ہم تم سے اور تمہارے معبودوں سے بیزار ہیں - ہم نے تمہارا انکار کردیا ہے اور ہمارے تمہارے درمیان بغض اور عداوت بالکل واضح ہے یہاں تک کہ تم خدائے وحدہ لاشریک پر ایمان لے آؤ علاوہ ابراہیم علیھ السّلام کے اس قول کے جو انہوں نے اپنے مربّی باپ سے کہہ دیا تھا کہ میں تمہارے لئے استغفار ضرور کروں گا لیکن میں پروردگار کی طرف سے کوئی اختیار نہیں رکھتا ہوں. خدایا میں نے تیرے اوپر بھروسہ کیا ہے اور تیری ہی طرف رجوع کیا ہے اور تیری ہی طرف بازگشت بھی ہے
9 Tafsir Jalalayn
تمہیں ابراہیم اور ان کے رفقاء کی نیک چال چلنی (ضرور) ہے جب انہوں نے اپنی قوم کے لوگوں سے کہا کہ ہم تم سے اور ان (بتوں) سے جن کو تم خدا کے سوا پوجتے ہو بےتعلق ہیں (اور) تمہارے (معبودوں کے کبھی) قائل نہیں (ہو سکتے) اور جب تک تم خدائے واحد پر ایمان نہ لاؤ ہم میں تم میں ہمیشہ کھلم کھلی دشمنی رہے گی ہاں ابراہیم نے اپنے باپ سے یہ (ضرور) کہا کہ میں آپ کے لئے مغفرت مانگوں گا اور میں خدا کے سامنے آپ کے بارے میں کسی چیز کا کچھ اختیار نہیں رکھتا۔ اے ہمارے پروردگار تجھ ہی پر ہمارا بھروسا ہے اور تیری ہی طرف رجوع کرتے ہیں اور تیرے ہی حضور میں (ہمیں) لوٹ جانا ہے۔
10 Tafsir as-Saadi
اے مومنوں کے گروہ! تمہارے لیے ﴿ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ﴾ اچھا نمونہ اور ایسی راہ نمائی ہے جو تمہیں فائدہ دے گی ﴿ فِیْٓ اِبْرٰہِیْمَ وَالَّذِیْنَ مَعَہٗ ﴾ ”ابراہیم علیہ السلام میں اور ان کے (مومن) رفقاء میں ہے۔“ تمہیں حکم دیا گیا ہے کہ تم یکسو ہو کر ملت ابراہیم کا اتباع کرو۔ ﴿اِذْ قَالُوْا لِقَوْمِہِمْ اِنَّا بُرَءٰؤُا مِنْکُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ﴾ یعنی جب حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے اہل ایمان ساتھیوں نے اپنی مشرک قوم اور ان کے معبودوں سے برات کا اعلان کیا ،جنہیں وہ( مشرک) اللہ کے سوا پوجتے تھے۔ پھر پوری صراحت سے ان کے ساتھ اپنی عداوت کی تصریح کی، چنانچہ انہوں نے کہا: ﴿ کَفَرْنَا بِکُمْ وَبَدَا﴾ ”ہم تمہارا انکار کرتے ہیں اور ظاہر ہوگیا“۔ یعنی پوری طرح ظاہر اور واضح ہوگیا کہ ﴿بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمُ الْعَدَاوَۃُ وَالْبَغْضَاءُ﴾ ہمارے اور تمہارے درمیان دلوں کا بغض اور ابدان کی عداوت، دلوں میں سے مودت زائل ہوگئی اور اس بغض اور عداوت کے لیے کوئی وقت اور حد مقرر نہیں بلکہ یہ عداوت ﴿ أَبَدًا ﴾ اس وقت تک برقرار رہے گی جب تک کہ تم اپنے کفر پر قائم ہو ﴿حَتّٰی تُؤْمِنُوْا بِاللّٰہِ وَحْدَہٗٓ﴾ یعنی جب تم اکیلے اللہ تعالیٰ پر ایمان لے آؤ گے تو عداوت اور بغض زائل ہوجائے گا ،عداوت مودت اور دوستی میں بدل جائے گی، چنانچہ اے مومنو! ایمان ، توحید اور اس کے لوازم ومقتضیات کو قائم کرنے میں ابراہیم علیہ السلام اور ان کے اصحاب میں تمہارے لیے نمونہ ہے ۔ہر چیز میں اسی کو نمونہ بنا کر اکیلے اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو﴿ إِلَّا ﴾ سوائے ایک خصلت کے اور وہ ہے ﴿ قَوْلَ اِبْرٰہِیْمَ لِاَبِیْہِ﴾ حضرت ابراہیم کا اپنے مشرک، کافر اور معاند حق باپ آزر کے بارے میں قول، جب آپ نے اپنے باپ کو ایمان اور توحید کی دعوت دی اور اس نے قبول کرنے سے انکار کردیا تو آپ نے اس سے کہا تھا ﴿ لَاَسْتَغْفِرَنَّ لَکَ وَ﴾ میں تیرے لیے مغفرت طلب کروں گا اور حال یہ ہے کہ ﴿مَآ اَمْلِکُ لَکَ مِنَ اللّٰہِ مِنْ شَیْءٍ﴾ ”میں اللہ کے سامنے تمہارے بارے میں کسی چیز کا کچھ اختیار نہیں رکھتا۔“ مگر میں اپنے رب سے دعا کرتا رہوں گا ، ہوسکتا ہے کہ میں اپنے رب سے دعا کرکے محروم نہ رہوں۔ اس حالت میں تم حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اقتدا نہ کرو جس میں انہوں نے اپنے مشرک (باپ )کے لیے دعا کی تھی۔ تمہارے لیے جائز نہیں کہ تم مشرکین کے لیے دعا کرو اور پھر کہو کہ ہم تو ملت ابراہیمی کی پیروی کرنے والے ہیں ۔اللہ تعالیٰ نے اس بارے میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا عذر ان الفاظ میں بیان فرما دیا ہے: ﴿ وَمَا كَانَ اسْتِغْفَارُ إِبْرَاهِيمَ لِأَبِيهِ إِلَّا عَن مَّوْعِدَةٍ وَعَدَهَا إِيَّاهُ فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُ أَنَّهُ عَدُوٌّ لِّلَّـهِ تَبَرَّأَ مِنْهُ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ لَأَوَّاهٌ حَلِيمٌ ﴾(التوبۃ :9؍114) ”اور ابراہیم کا اپنے باپ کے لیے بخشش مانگنا، صرف ایک وعدے کے سبب سے تھا جو وہ اپنے باپ سے کرچکے تھے، پھر جب ان پر واضح ہوگیا کہ وہ تو اللہ کا دشمن ہے تو انہوں نے اس سے برات کا اظہارکر دیا۔ بلاشبہ ابراہیم بہت نرم دل اور بردبار تھے۔ “ تمہارے لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے اصحاب میں نمونہ اس وقت (کے طرز عمل میں )ہے جب انہوں نے اللہ تعالیٰ کو پکارا، اس پر بھروسا کیا ،اس کی طرف رجوع کیا اور اپنے عجز و تقصیر کا اعتراف کیا اور کہا: ﴿ رَّبَّنَا عَلَيْكَ تَوَكَّلْنَا ﴾ ایسے امور کے حصول میں جو ہمیں فائدہ دیتے ہیں اور ایسے امور کو دور کرنے میں جو ہمیں نقصان پہنچاتے ہیں ، اے ہمارے رب! ہم تجھ ہی پر بھروسا کرتے ہیں۔ ﴿ وَإِلَيْكَ أَنَبْنَا ﴾ یعنی ہم تیری اطاعت، اور تیری رضا اور ان تمام امور کی طرف لوٹتے ہیں جو تیرا قرب عطا کرتے ہیں اور نیک اعمال کے ذریعے سے اس قرب کے حصول میں کوشاں ہیں کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ ہم نے تیری طرف لوٹنا ہے ،ہم تیری خدمت میں حاضر ہونے کے لیے تیاری کررہے ہیں اور وہ اعمال سرانجام دے رہے ہیں جو تیرے قریب کرتے ہیں۔
11 Mufti Taqi Usmani
tumharay liye Ibrahim aur unn kay sathiyon mein behtareen namoona hai , jab unhon ney apni qoam say kaha tha kay : humara tum say aur Allah kay siwa tum jinn jinn ki ibadat kertay ho , unn say koi talluq nahi hai . hum tumharay ( aqaeed kay ) munkir hain , aur humaray aur tumharay darmiyan hamesha kay liye dushmani aur bughz peda hogaya hai jab tak tum sirf aik Allah per emaan naa lao . albatta Ibrahim ney apney baap say yeh zaroor kaha tha kay : mein aap kay liye Allah say maghfirat ki dua zaroor maangun ga , agar-cheh Allah kay samney mein aap ko koi faeeda phonchaney ka koi ikhtiyar nahi rakhta . aey humaray perwerdigar ! aap hi per hum ney bharosa kiya hai , aur aap hi ki taraf hum rujoo huye hain , aur aap hi ki taraf sabb ko loat ker jana hai .
12 Tafsir Ibn Kathir
عصبیت دین ایمان کا جزو لاینفک ہے اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو کفار سے موالات اور دوستی نہ کرنے کی ہدایت فرما کر ان کے سامنے اپنے خلیل اور ان کے اصحاب کا نمونہ پیش کر رہا ہے کہ انہوں نے صاف طور پر اپنے رشتہ کنبے اور قوم کے لوگوں سے برملا فرما دیا کہ ہم تم سے اور جنہیں تم پوجتے ہو ان سے بیزار بری الذمہ اور الگ تھلگ ہیں، ہم تمہارے دین اور طریقے سے متنفر ہیں، جب تک تم اسی طریقے اور اسی مذہب پر ہو تم ہمیں اپنا دشمن سمجھوناممکن ہے کہ برادری کی وجہ سے ہم تمہارے اس کفر کے باوجود تم سے بھائی چارہ اور دوستانہ تعلقات رکھیں، ہاں یہ اور بات ہے کہ اللہ تمہیں ہدایت دے اور تم اللہ وحدہ لاشریک لہ پر ایمان لے آؤ اس کی توحید کو مان لو اور اسی ایک عی ابدت شروع کردو اور جن جن کو تم نے اللہ کا شریک اور ساجھی ٹھہرا رکھا ہے اور جن جن کی پوجا پاٹ میں مشغول ہو ان سب کو ترک کردو اپنی اس روش کفر اور طریق شرک سے ہٹ جاؤ تم پھر بیشک ہمارے بھائی ہو ہمارے عزیز ہو ورنہ ہم میں تم میں کوئی اتحاد و اتفاق نہیں ہم تم سے اور تم ہم سے علیحدہ ہو، ہاں یہ یاد رہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے والد سے جو استغفار کا وعدہ کیا تھا اور پھر اسے پورا کیا اس میں ان کی اقتداء نہیں، اس لئے کہ یہ استغفار اس وقت تک رہا جس وقت تک کہ اپنے والد کا دشمن اللہ ہونا ان پر وضاحت کے ساتھ ظاہر نہ ہوا تھا جب انہیں یقینی طور پر اس کی اللہ سے دشمنی کھل گئی تو اس سے صاف بیزاری ظاہر کردی، بعض مومن اپنے مشرک ماں باپ کے لئے دعاء و استغفار کرتے تھے اور سند میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا اپنے والد کے لئے دعا مانگنا پیش کرتے تھے اس پر اللہ تعالیٰ نے اپنا فرمان (ترجمہ) پوری دو آیتوں تک نازل فرمایا اور یہاں بھی اسوہ ابراہیمی میں سے اس کا استثناء کرلیا کہ اس بات میں ان کی پیروی تمہارے لئے ممنوع ہے اور حضرت ابراہیم کے اس استغفار کی تفصیل بھی کردی اور اس کا خاص سبب اور خاص وقت بھی بیان فرما دیا، حضرت ابن عباس مجاہد قتادہ مقاتل بن حیان صحاک وغیرہ نے بھی یہی مطلب بیان کیا ہے۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ قوم سے برات کر کے اب اللہ کی بار گاہ میں آتے ہیں اور جناب باری میں عاجزی اور انکساری سے عرض کرتے ہیں کہ باری تعالیٰ تمام کاموں میں ہمارا بھروسہ اور اعتماد تیری ہی پاک ذات پر ہے ہم اپنے تمام کام تجھے سونپتے ہیں تیری طرف رجوع ورغبت کرتے ہیں، دار آخرت میں بھی ہمیں تیری ہی جانب لوٹنا ہے۔ پھر کہتے ہیں الٰہی تو ہمیں کافروں کے لئے فتنہ نہ بنا، یعنی ایسا نہ ہو کہ یہ ہم پر غالب آ کر ہمیں مصیبت میں مبتلا کردیں، اسیط رح یہ بھی نہ ہو کہ تیری طرف سے ہم پر کوئی عتاب و عذاب نازل ہو اور وہ ان کے اور بہکنے کا سبب بنے کہ اگر یہ حق پر ہوتے تو اللہ انہیں عذاب کیوں کرتا ؟ اگر یہ کسی میدان میں جیت گئے تو بھی ان کے لئے یہ فتنہ کا سبب ہوگا وہ سمجھیں گے کہ ہمیں اس لئے غالب آئے کہ ہم ہی حق پر ہیں، اسیطرح اگر یہ ہم پر غالب آگئے تو ایسا نہ ہو کہ ہمیں تکلیفیں پہنچا پہنچا کر تیرے دین سے برگشتہ کردیں۔ پھر دعا مانگتے ہیں کہ الٰہی ہمارے گناہوں کو بھی بخش دے، ہماری پردہ پوشی کر اور ہمیں معاف فرما، تو عزیز ہے تیری جناب میں پناہ لینے والا نامراد نہیں پھرتا تیرے در پر دستک دینے والا خالی ہاتھ نہیں جاتا، تو اپنی شریعت کے تقرر میں اپنے اقوال و افعال میں اور قضا و قدر کے مقدر کرنے میں حکمتوں والا ہے، تیرا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں۔ پھر بہ طور تاکید کے وہی پہلی بات دوہرائی جاتی ہے کہ ان میں تمہارے لئے نیک نمونہ ہے جو بھی اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے آنے کی حقانیت پر ایمان رکھتا ہو اسے ان کی اقتداء میں آگے بڑھ کر قدم رکھنا چاہئے اور جو احکام اللہ سے روگردانی کرے وہ جان لے کہ اللہ اس سے بےپرواہ ہے وہ لائق حمد وثناء ہے مخلوق اس خالق کی تعریف میں مشغول ہے، جیسے اور جگہ ہے (ترجمہ) " اگر تم اور تمام روئے زمین کے لوگ کفر پر اور اللہ کے نہ ماننے پر اتر آئیں تو اللہ تعالیٰ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے اللہ تعالیٰ سب سے غنی سب سے بےنیاز اور سب سے بےپرواہ ہے اور وہ تعریف کیا گیا ہے " حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں غنی اسے کہا جاتا ہے جو اپنی غنا میں کامل ہو۔ اللہ تعالیٰ ہی کی یہ صفت ہے کہ وہ ہر طرح سے بےنیاز اور بالکل بےپرواہ ہے کسی اور کی ذات ایسی نہیں، اس کا کوئی ہمسر نہیں اس کے مثل کوئی اور نہیں وہ پاک ہے اکیلا ہے سب پر حاکم سب پر غالب سب کا بادشاہ ہے، حمید ہے یعنی مخلوق اسے سراہ رہی ہے، اپنے جمیع اقوال میں تمام افعال میں وہ ستائشوں اور تعریفوں والا ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں اس کے سوا کوئی پالنے والا نہیں، رب وہی ہے معبود وہی ہے۔