اے ایمان والو! تمہارے مال اور تمہاری اولاد (کہیں) تمہیں اللہ کی یاد سے ہی غافل نہ کر دیں، اور جو شخص ایسا کرے گا تو وہی لوگ نقصان اٹھانے والے ہیں،
English Sahih:
O you who have believed, let not your wealth and your children divert you from the remembrance of Allah. And whoever does that – then those are the losers.
1 Abul A'ala Maududi
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تمہارے مال اور تمہاری اولادیں تم کو اللہ کی یاد سے غافل نہ کر دیں جو لوگ ایسا کریں وہی خسارے میں رہنے والے ہیں
2 Ahmed Raza Khan
اے ایمان والو تمہارے مال نہ تمہاری اولاد کوئی چیز تمہیں اللہ کے ذکر سے غافل نہ کرے اور جو ایسا کرے تو وہی لوگ نقصان میں ہیں
3 Ahmed Ali
اے ایمان والو تمہیں تمہارے مال اور تمہاری اولاد الله کے ذکر سے غافل نہ کر دیں اور جو کوئی ایسا کرے گا سووہی نقصان اٹھانے والے ہیں
4 Ahsanul Bayan
اے مسلمانو! تمہارے مال اور تمہاری اولاد تمہیں اللہ کے ذکر سے غافل نہ کردیں (١) اور جو ایسا کریں وہ بڑے ہی زیاں کار لوگ ہیں۔
٩۔١ یعنی مال اور اولاد کی محبت تم پر غالب آجائے کہ تم اللہ کے بتلائے ہوئے احکام و فرائض سے غافل ہو جاؤ اور اللہ کی قائم کردہ حلال وحرام کی حدوں کی پروا نہ کرو۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
مومنو! تمہارا مال اور اولاد تم کو خدا کی یاد سے غافل نہ کردے۔ اور جو ایسا کرے گا تو وہ لوگ خسارہ اٹھانے والے ہیں
6 Muhammad Junagarhi
اے مسلمانو! تمہارے مال اور تمہاری اوﻻد تمہیں اللہ کے ذکر سے غافل نہ کر دیں۔ اور جو ایسا کریں وه بڑے ہی زیاں کار لوگ ہیں
7 Muhammad Hussain Najafi
اے ایمان والو! تمہارا مال اور تمہاری اولاد تمہیں خدا کی یاد سے غافل نہ کردے اور جو ایسا کرے گا وہی لوگ گھاٹا اٹھانے والے ہیں۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
ایمان والو خبردار تمہارے اموال اور تمہاری اولاد تمہیں یاد خدا سے غافل نہ کردے کہ جو ایسا کرے گا وہ یقینا خسارہ والوں میں شمار ہوگا
9 Tafsir Jalalayn
مومنو تمہارا مال اور تمہاری اولاد تم کو خدا کی یاد سے غافل نہ کردے۔ اور جو ایسا کرے گا تو وہ لوگ خسارہ اٹھانے والے ہیں۔ ترجمہ : اے مسلمانو ! تمہارے مال اور تمہاری اولاد تم کو اللہ کے ذکر پنج و قتہ نماز سے غافل نہ کردیں اور جو ایسا کریں وہ بڑے زیاں کاروں میں ہیں اور جو کچھ ہم نے تم کو دے رکھا ہے اس میں سے زکوٰۃ میں خرچ کرو اس سے پہلے کہ تم میں سے کسی کو موت آجائے تو کہنے لگے اے میرے پروردگار ! تو کس لئے مجھے تھوڑی دیر کی مہلت نہیں دیتا ؟ (لو لا) بمعنی ھلا یا لا زائدہ ہے، اور لو تمنی کے لئے ہے کہ میں صدقہ کروں اور نیک لوگوں میں سے ہوجائوں، کہ حج کروں، (فا صدق) تاء کو اصل میں صاد میں ادغام کر کے، یعنی زکوٰۃ ادا کروں، ابن عباس (رض) نے فرمایا، کسی نے حج و زکوٰۃ میں کوتاہی نہیں کی مگر یہ کہ اس نے موت کے وقت (دنیا میں) واپسی کا سوال نہ کیا ہو، اور جب کسی کا وقت مقرر آجاتا ہے پھر اس کو اللہ تعالیٰ ہرگز مہلت نہیں دیتا اور جو کچھ کرتے ہو اللہ تعالیٰ اس سے بخوبی واقف ہے یاء اور تاء کے ساتھ۔ تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد قولہ : ان یاتی احد کم الموت، ای اماراتہ، و مقدماتہ مضاف محذوف ہے اس کی موت کے بعد کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا۔ قولہ : لو لا، بمعنی ھلا یعنی لولا تحضیضیہ ہے جو کہ ماضی کے ساتھ خاص ہے مگر معنی میں مضارع کے ہے جیسا کہ یہاں مناسب یہ ہے کہ لو لا التماس، دعاء عرض، گزارش کے معنی میں ہو، اس لئے کہ لو لاء تحضیضیہ کا یہاں کوئی موقع نہیں ہے دوسری صورت یہ کہ لو لا میں لا زائدہ ہو اور لو بمعنی تمنا ہو، ای لیتک اخرتنی۔ قولہ : اجل قریب، ای زمان قلیل۔ قولہ : واکن (ن) سے، اصل میں اکون تھا مصحف عثمانی کے رسم الخط کے مطابق بغیروائو کے لکھا گیا ہے ورنہ اکون ہو چاہیے، تلفظ میں دونوں صورتیں جائز ہیں وائو اور حذف وائو کے ساتھ اور اس کو فاصدق پر عطف کرتے ہوئے نصب ہوگا اور محل فاصدق پر عطف ہونے کی وجہ سے حذف وائو اور جزم ہوگا، فاصدق اصل میں فاتصدق تھا جمہور نے تاء کو صاد میں ادغام کر کے پڑھا ہے اور یہ جواب تمنی ہونے کی وجہ سے منصوب ہے۔ قولہ : ولن یوخر اللہ نفسا یہ جملہ مستانفہ ہے جو کہ سوال مقدر کا جواب ہے تقدیر عبارت یہ ہے ھل یوخر ھذللتمنی، فقال، ولن یوخر اللہ نفسا الخ۔ تفسیر و تشریح یایھا الذین امنوا یہاں تمام ان لوگوں سے خطاب ہے جو دائرہ اسلام میں داخل ہوں قطع نظر اس سے کہ سچے مومن ہوں یا محض زبانی اقرار کرنے والے، اس عام خطاب کے ذریعہ ایک کلمہ نصیحت ارشاد فرمایا جا رہا ہے یہ بات تو آپ کو معلوم ہی ہے کہ قرآن مجید میں الذین امنوا کے ذریعہ کبھی تو سچے اہل ایمان کو خطاب کیا جاتا ہے اور کبھی اس کے مخاطب منافقین ہوتے ہیں، کیونکہ وہ زبانی اقرار کرنے والے ہوتے ہیں اور کبھی بالعموم ہر طرح کے مسلمان اس سے مراد ہوتے ہیں، کلام کا موقع و محل بتادیتا ہے کہ کہاں کونسا گروہ مراد ہے ؟ اس سورت کے پہلے رکوع میں منافقین کی جھوٹی قسموں اور ان کی سازشوں کا ذکر تھا اور ان سب کا مقصد دنیا کی محبت سے مغلوب ہونا تھا، اسی وجہ سے ظاہر میں اسلام کا دعویٰ کرتے تھے کہ مسلمانوں کی زد سے بچے رہیں اور مال غنیمت سے حصہ بھی ملے، اس دوسرے رکوع میں خطاب مخلص مومنین کو ہے جس میں ان کو ڈرایا گیا ہے کہ دنیا کی محبت میں ایسے مدہوش اور غافل نہ ہوجائیں جیسے منافقین ہوگئے، دنیا کی سب سے بڑی دو چیزیں ہیں جو انسان کو اللہ سے غافل کرتی ہیں، مال اور اولاد، اس لئے خاص طور پر ان کا نام لیا گیا ہے ورنہ مراد اس سے پوری متاع دنیا ہے۔ خلاصہ یہ کہ مال و اولاد کی محبت تم پر اتنی غالب نہ آجائے کہ تم اللہ کے بتلائے ہوئے احکام و فرائض سے غافل ہوجائو اور اللہ کی قائم کردہ حدود کی پروا نہ کرو، منافقین کے ذکر کے فوراً بعد اس تنبیہ کا مقصد یہ ہے کہ یہ منافقین کا شیوہ اور کردار ہے جو انسان کو خسارہ میں ڈال دیتا ہے، اہل ایمان کا کردار اس کے برعکس ہوتا ہے، وہ یہ کہ وہ ہر وقت اللہ کو یاد رکھتے ہیں یعنی اس کے احکام کی پابندی اور حلال و حرام کے درمیان تمیز کرتے ہیں۔
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے مومن بندوں کو کثرت کے ساتھ ذکر کرنے کا حکم دیتا ہے کیونکہ اس میں نفع ،فوز وفلاح اور بے شمار بھلائیاں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں مال اور اولاد کی محبت میں مشغول ہو کر اللہ تعالیٰ کے ذکر سے غافل ہونے سے روکا ہے کیونکہ مال اور اولاد کی محبت اکثرت نفوس کی جبلت ہے، اسی لیے وہ مال اور اولاد کی محبت کو اللہ تعالیٰ کی محبت پر ترجیح دیتے ہیں اور اس میں بہت بڑا خسارہ ہے ،اس لیے فرمایا :﴿وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ﴾ جسے اس کے مال اور اولاد اللہ تعالیٰ کے ذکر سے غافل کردیتے ہیں ﴿فَاُولٰیِٕکَ ہُمُ الْخٰسِرُوْنَ﴾ ”تو وہی لوگ خسارہ اٹھانے والے ہیں۔“ ابدی سعادت اور ہمیشہ رہنے والی نعمت کے بارے میں خسارے میں رہنے والے ہیں کیونکہ انہوں نے ہمیشہ رہنے والی چیز پر فانی چیز کو ترجیح دی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :﴿ إِنَّمَا أَمْوَالُكُمْ وَأَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ ۚ وَاللّٰـهُ عِندَهُ أَجْرٌ عَظِيمٌ ﴾(التغابن :64؍15) ”بے شک تمہارے مال اور تمہاری اولاد آزمائش ہیں اور اللہ کے پاس بہت بڑا اجر ہے۔“
11 Mufti Taqi Usmani
aey emaan walo ! tumhari dolat aur tumhari aulad tumhen Allah ki yaad say ghafil naa kernay payen . aur jo log aisa keren gay , woh baray ghatay ka soda kernay walay hon gay .
12 Tafsir Ibn Kathir
مال و دولت کی خود سپردگی خرابی کی جڑ ہے اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ بکثرت ذکر اللہ کیا کریں اور تنبیہہ کرتا ہے کہ ایسا نہ ہو کہ مال و اولاد کی محبت میں پھنس کر ذکر اللہ سے غافل ہوجاؤ، پھر فرماتا ہے کہ جو ذکر اللہ سے غافل ہوجائے اور دنیا کی زنت ہی کو سب کچھ سمجھ بیٹھے اپنے رب کی اطاعت میں سست پڑجائے، وہ اپنا نقصان آپ کرنے والا ہے۔ پھر اپنی اطاعت میں مال خرچ کرنے کا حکم دے رہا ہے کہا پنی موت سے پہلے خرچ کرلو، موت کے وقت کی بےبسی دیکھ کر نادم ہونا اور امیدیں باندھنا کچھ نفع نہ دے گا، اس وقت انسان چاہے گا کہ تھوڑی سی دیر کے لئے بھی اگر چھوڑ دیا جائے تو جو کچھ نیک عمل ہو سکے کرلے اور اپنا مال بھی دل کھول کر راہ اللہ دے لے، لیکن آہ اب وقت کہاں آنے والی مصیبت آن پڑی اور نہ ٹلنے والی آفت سر پر کھڑی ہوگئی اور جگہ فرمان ہے (ترجمہ) الخ، یعنی لوگوں کو ہوشیار کر دے جس دن ان کے پاس عذاب آئے گا تو یہ ظالم کہنے لگیں گے اے ہمارے رب ہمیں تھوڑی سی مہلت مل جائے تاکہ ہم تیری دعوت قبول کرلیں اور تیرے رسولوں کی اتباع کریں۔ اس آیت میں تو کافروں کی مذمت کا ذکر ہے، دوسری آیت میں نیک عمل میں کمی کرنے والوں کے افسوس کا بیان اس طرح ہوا ہے۔ (ترجمہ) یعنی جب ان میں سے کسی کو موت آنے لگتی ہے تو کہتا ہے " میرے رب مجھے لوٹا دے تو میں نیک اعمال کرلوں۔ " یہاں فرماتا ہے " موت کا وقت آ گے پیچھے نہیں ہوتا، اللہ خود خبر رکھنے والا ہے کہ کون اپنے قول میں صادق ہے اور اپنے سوال میں حق بجانب ہے یہ لوگ تو اگر لوٹائے جائیں تو پھر ان باتوں کو بھول جائیں گے اور وہی کچھ کرنے لگ جائیں گے جو اس سے پہلے کرتے رہے، ترمذی میں حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ ہر وہ شخص جو مالدار ہو اور اس نے حج نہ کیا ہو یا زکوٰۃ نہ دی ہو وہ موت کے وقت دنیا میں واپس لوٹنے کی آرزو کرتا ہے ایک شخص نے کہا حضرت اللہ کا خوف کیجئے واپسی کی آرزو تو کافر کرتے ہیں آپ نے فرمایا جلدی کیوں کرتے ہو ؟ سنو قرآن فرماتا ہے پھر آپ نے یہ پورا رکوع تلاوت کر سنایا اس نے پوچھا زکوٰۃ کتنے میں واجب ہے فرمایا دو سو اور اس سے زیادہ میں پوچھا حج کب فرض ہوجاتا ہے فرمایا جب راہ خرچ اور سواری خرچ کی طاقت ہو، ایک مرفوع روایت بھی اسی طرح مروی ہے لیکن موقوف ہی زیادہ صحیح ہے، ضحاک کی روایت ابن عباس والی بھی منقطع ہے، دسری سند میں ایک راوی ابو جناب کلبی ہے وہ بھی ضعیف ہے، واللہ اعلم، ابن ابی حاتم میں ہے کہ ایک مرتبہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے صحابہ نے زیادتی عمر کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا جب اجل آجائے پھر موخر نہیں ہوتی زیادتی عمر صرف اس طرح ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی بندے کو نیک صالح اولاد دے جو اسکے لئے اس کے مرنے کے بعد دعا کرتی رہے اور دعا اسے اس کی قبر میں پہنچتی رہے۔ اللہ کے فضل و کرم اور لطف و رحم سے سورة منافقون کی تفسیر ختم ہوئی۔ فالحمد اللہ