مومنو تمہارا مال اور تمہاری اولاد تم کو خدا کی یاد سے غافل نہ کردے۔ اور جو ایسا کرے گا تو وہ لوگ خسارہ اٹھانے والے ہیں۔
ترجمہ : اے مسلمانو ! تمہارے مال اور تمہاری اولاد تم کو اللہ کے ذکر پنج و قتہ نماز سے غافل نہ کردیں اور جو ایسا کریں وہ بڑے زیاں کاروں میں ہیں اور جو کچھ ہم نے تم کو دے رکھا ہے اس میں سے زکوٰۃ میں خرچ کرو اس سے پہلے کہ تم میں سے کسی کو موت آجائے تو کہنے لگے اے میرے پروردگار ! تو کس لئے مجھے تھوڑی دیر کی مہلت نہیں دیتا ؟ (لو لا) بمعنی ھلا یا لا زائدہ ہے، اور لو تمنی کے لئے ہے کہ میں صدقہ کروں اور نیک لوگوں میں سے ہوجائوں، کہ حج کروں، (فا صدق) تاء کو اصل میں صاد میں ادغام کر کے، یعنی زکوٰۃ ادا کروں، ابن عباس (رض) نے فرمایا، کسی نے حج و زکوٰۃ میں کوتاہی نہیں کی مگر یہ کہ اس نے موت کے وقت (دنیا میں) واپسی کا سوال نہ کیا ہو، اور جب کسی کا وقت مقرر آجاتا ہے پھر اس کو اللہ تعالیٰ ہرگز مہلت نہیں دیتا اور جو کچھ کرتے ہو اللہ تعالیٰ اس سے بخوبی واقف ہے یاء اور تاء کے ساتھ۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : ان یاتی احد کم الموت، ای اماراتہ، و مقدماتہ مضاف محذوف ہے اس کی موت کے بعد کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا۔
قولہ : لو لا، بمعنی ھلا یعنی لولا تحضیضیہ ہے جو کہ ماضی کے ساتھ خاص ہے مگر معنی میں مضارع کے ہے جیسا کہ یہاں مناسب یہ ہے کہ لو لا التماس، دعاء عرض، گزارش کے معنی میں ہو، اس لئے کہ لو لاء تحضیضیہ کا یہاں کوئی موقع نہیں ہے دوسری صورت یہ کہ لو لا میں لا زائدہ ہو اور لو بمعنی تمنا ہو، ای لیتک اخرتنی۔
قولہ : اجل قریب، ای زمان قلیل۔
قولہ : واکن (ن) سے، اصل میں اکون تھا مصحف عثمانی کے رسم الخط کے مطابق بغیروائو کے لکھا گیا ہے ورنہ اکون ہو چاہیے، تلفظ میں دونوں صورتیں جائز ہیں وائو اور حذف وائو کے ساتھ اور اس کو فاصدق پر عطف کرتے ہوئے نصب ہوگا اور محل فاصدق پر عطف ہونے کی وجہ سے حذف وائو اور جزم ہوگا، فاصدق اصل میں فاتصدق تھا جمہور نے تاء کو صاد میں ادغام کر کے پڑھا ہے اور یہ جواب تمنی ہونے کی وجہ سے منصوب ہے۔
قولہ : ولن یوخر اللہ نفسا یہ جملہ مستانفہ ہے جو کہ سوال مقدر کا جواب ہے تقدیر عبارت یہ ہے ھل یوخر ھذللتمنی، فقال، ولن یوخر اللہ نفسا الخ۔
تفسیر و تشریح
یایھا الذین امنوا یہاں تمام ان لوگوں سے خطاب ہے جو دائرہ اسلام میں داخل ہوں قطع نظر اس سے کہ سچے مومن ہوں یا محض زبانی اقرار کرنے والے، اس عام خطاب کے ذریعہ ایک کلمہ نصیحت ارشاد فرمایا جا رہا ہے یہ بات تو آپ کو معلوم ہی ہے کہ قرآن مجید میں الذین امنوا کے ذریعہ کبھی تو سچے اہل ایمان کو خطاب کیا جاتا ہے اور کبھی اس کے مخاطب منافقین ہوتے ہیں، کیونکہ وہ زبانی اقرار کرنے والے ہوتے ہیں اور کبھی بالعموم ہر طرح کے مسلمان اس سے مراد ہوتے ہیں، کلام کا موقع و محل بتادیتا ہے کہ کہاں کونسا گروہ مراد ہے ؟
اس سورت کے پہلے رکوع میں منافقین کی جھوٹی قسموں اور ان کی سازشوں کا ذکر تھا اور ان سب کا مقصد دنیا کی محبت سے مغلوب ہونا تھا، اسی وجہ سے ظاہر میں اسلام کا دعویٰ کرتے تھے کہ مسلمانوں کی زد سے بچے رہیں اور مال غنیمت سے حصہ بھی ملے، اس دوسرے رکوع میں خطاب مخلص مومنین کو ہے جس میں ان کو ڈرایا گیا ہے کہ دنیا کی محبت میں ایسے مدہوش اور غافل نہ ہوجائیں جیسے منافقین ہوگئے، دنیا کی سب سے بڑی دو چیزیں ہیں جو انسان کو اللہ سے غافل کرتی ہیں، مال اور اولاد، اس لئے خاص طور پر ان کا نام لیا گیا ہے ورنہ مراد اس سے پوری متاع دنیا ہے۔
خلاصہ یہ کہ مال و اولاد کی محبت تم پر اتنی غالب نہ آجائے کہ تم اللہ کے بتلائے ہوئے احکام و فرائض سے غافل ہوجائو اور اللہ کی قائم کردہ حدود کی پروا نہ کرو، منافقین کے ذکر کے فوراً بعد اس تنبیہ کا مقصد یہ ہے کہ یہ منافقین کا شیوہ اور کردار ہے جو انسان کو خسارہ میں ڈال دیتا ہے، اہل ایمان کا کردار اس کے برعکس ہوتا ہے، وہ یہ کہ وہ ہر وقت اللہ کو یاد رکھتے ہیں یعنی اس کے احکام کی پابندی اور حلال و حرام کے درمیان تمیز کرتے ہیں۔