الطلاق آية ۱
يٰۤاَيُّهَا النَّبِىُّ اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاۤءَ فَطَلِّقُوْهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ وَاَحْصُوا الْعِدَّةَ ۚ وَاتَّقُوا اللّٰهَ رَبَّكُمْ ۚ لَا تُخْرِجُوْهُنَّ مِنْۢ بُيُوْتِهِنَّ وَلَا يَخْرُجْنَ اِلَّاۤ اَنْ يَّأْتِيْنَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ ۗ وَتِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ ۗ وَمَنْ يَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰهِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهٗ ۗ لَا تَدْرِىْ لَعَلَّ اللّٰهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذٰلِكَ اَمْرًا
طاہر القادری:
اے نبی! (مسلمانوں سے فرما دیں:) جب تم عورتوں کو طلاق دینا چاہو تو اُن کے طُہر کے زمانہ میں انہیں طلاق دو اور عِدّت کو شمار کرو، اور اللہ سے ڈرتے رہو جو تمہارا رب ہے، اور انہیں اُن کے گھروں سے باہر مت نکالو اور نہ وہ خود باہر نکلیں سوائے اس کے کہ وہ کھلی بے حیائی کر بیٹھیں، اور یہ اللہ کی (مقررّہ) حدیں ہیں، اور جو شخص اللہ کی حدود سے تجاوز کرے تو بیشک اُس نے اپنی جان پر ظلم کیا ہے، (اے شخص!) تو نہیں جانتا شاید اللہ اِس کے (طلاق دینے کے) بعد (رجوع کی) کوئی نئی صورت پیدا فرما دے،
English Sahih:
O Prophet, when you [Muslims] divorce women, divorce them for [the commencement of] their waiting period and keep count of the waiting period, and fear Allah, your Lord. Do not turn them out of their [husbands'] houses, nor should they [themselves] leave [during that period] unless they are committing a clear immorality. And those are the limits [set by] Allah. And whoever transgresses the limits of Allah has certainly wronged himself. You know not; perhaps Allah will bring about after that a [different] matter.
1 Abul A'ala Maududi
اے نبیؐ، جب تم لوگ عورتوں کو طلاق دو تو اُنہیں اُن کی عدت کے لیے طلاق دیا کرو اور عدت کے زمانے کا ٹھیک ٹھیک شمار کرو، اور اللہ سے ڈرو جو تمہارا رب ہے (زمانہ عدت میں) نہ تم اُنہیں اُن کے گھروں سے نکالو اور نہ وہ خود نکلیں، الا یہ کہ وہ کسی صریح برائی کی مرتکب ہوں یہ اللہ کی مقرر کردہ حدیں ہیں، اور جو کوئی اللہ کی حدوں سے تجاوز کرے گا وہ اپنے اوپر خود ظلم کرے گا تم نہیں جانتے، شاید اس کے بعد اللہ (موافقت کی) کوئی صورت پیدا کر دے
2 Ahmed Raza Khan
اے نبی جب تم لوگ عورتوں کو طلاق دو تو ان کی عدت کے وقت پر انہیں طلاق دو اور عدت کا شمار رکھو اور اپنے رب اللہ سے ڈرو، عدت میں انہیں ان کے گھروں سے نہ نکالو اور نہ وہ آپ نکلیں مگر یہ کہ کوئی صریح بے حیائی کی بات لائیں اور یہ اللہ کی حدیں ہیں، اور جو اللہ کی حدوں سے آگے بڑھا بیشک اس نے اپنی جان پر ظلم کیا، تمہیں نہیں معلوم شاید اللہ اس کے بعد کوئی نیا حکم بھیجے
3 Ahmed Ali
اے نبی جب تم عورتوں کو طلاق دو تو ان کی عدت کے موقع پر طلاق دو اور عدت گنتے رہو اور الله سے ڈرتے رہو جو تمہارا رب ہے نہ تم ہی ان کو ان کے گھروں سے نکالو اور نہ وہ خود ہی نکلیں مگر جب کھلم کھلا کوئی بے حیائی کا کام کریں اور یہ الله کی حدیں ہیں اور جو الله کی حدوں سے بڑھاا تو اس نے اپنے نفس پر ظلم کیا آپ کو کیا معلوم کہ شاید الله اس کے بعد اور کوئی نئی بات پیدا کر دے
4 Ahsanul Bayan
اے نبی! (اپنی امت سے کہو کہ) جب تم اپنی بیویوں کو طلاق دینا چاہو (١) تو ان کی عدت (کے دنوں کے آغاز) میں انہیں طلاق دو (٢) اور عدت کا حساب رکھو (٣) اور اللہ سے جو تمہارا پروردگار ہے ڈرتے رہو، نہ تم انہیں ان کے گھر سے نکالو (٤) اور نہ وہ (خود) نکلیں (٥) ہاں یہ اور بات ہے کہ وہ کھلی برائی کر بیٹھیں (٦) یہ اللہ کی مقرر کردہ حدیں ہیں جو شخص اللہ کی حدوں سے آگے بڑھ جائے اس نے یقیناً اپنے اوپر ظلم کیا (۷) تم نہیں جانتے شاید اس کے بعد اللہ تعالٰی کوئی نئی بات پیدا کردے
١۔١ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے خطاب آپ کے شرف و مرتب کی وجہ سے ہے، ورنہ حکم تو امت کو دیا جا رہا ہے۔ یا آپ ہی کو بطور خاص خطاب ہے۔ اور جمع کا صیغہ بطور تعظیم کے ہے اور امت کے لیے آپ کا اسوہ ہی کافی ہے۔ طَلَّقْتُمْ کا مطلب ہے جب طلاق دینے کا پختہ ارادہ کر لو۔
١۔٢ اس میں طلاق دینے کا طریقہ اور وقت بتلایا ہے لعدتھن میں لام توقیت کے لیے ہے۔ یعنی لاول یا لاستقبال عدتھن (عدت کے آغاز میں طلاق دو۔ یعنی جب عورت حیض سے پاک ہو جائے تو اس سے ہم بستری کے بغیر طلاق دوحالت طہر میں اسکی عدت کا آغاز ہے۔ اسکا مطلب یہ ہے حیض کی حالت میں یا طہر میں ہم بستری کرنے کے بعد طلاق دینا غلط طریقہ ہے اسکو فقہا طلاق بدعی سے اور پہلے صحیح طریقے کو طلاق سنت سے تعبیر کرتے ہیں۔ اسکی تایید اس حدیث سے ہوتی ہے جس میں آتا ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے حیض کی حالت میں اپنی بیوی کو طلاق دے دی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غضبناک ہوئے اور انہیں اس سے رجوع کرنے کے ساتھ حکم دیا کہ حالت طہر میں طلاق دینا اور اسکے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی آیت سے استدلال فرمایا۔ (صحیح بخاری) تاہم حیض میں دی گئی طلاق بھی باوجود بدعی ہونے کے واقع ہوجائے گی۔ محدثین اور جمہور علماء اسی بات کے قائل ہیں البتہ امام ابن قیم اور امام ابن تیمیہ طلاق بدعی کے وقوع کے قائل نہیں ہیں ۔
۔ ١۔٣ یعنی اس کی ابتدا اور انتہا کا خیال رکھو، تاکہ عورت اس کے بعد نکاح ثانی کر سکے، یا اگر تم ہی رجوع کرنا چاہو، (پہلی اور دوسری طلاق کی صورت میں) تو عدت کے اندر رجوع کر سکو
١۔٤ یعنی طلاق دیتے ہی عورت کو اپنے گھر سے مت نکالو، بلکہ عدت تک اسے گھر ہی میں رہنے دو اور اس وقت تک رہائش اور نان و نفقہ تمہاری ذمہ داری ہے۔
١۔٥ یعنی عدت کے دوران خود عورت بھی گھر سے باہر نکلنے سے احتراز کرے الا یہ کہ کوئی بہت ہی ضروری معاملہ ہو۔
١۔٦ یعنی بدکاری کا ارتکاب کر بیٹھے یا بد زبانی اور بد اخلاقی کا مظاہرہ کرے جس سے گھر والوں کو تکلیف ہو۔ دونوں صورتوں میں اس کا اخراج جائز ہوگا۔
١۔٧ یعنی مرد کے دل میں مطلقہ عورت کی رغبت پیدا کردے اور وہ رجوع کرنے پر آمادہ ہو جائے جیسا کہ پہلی دوسری طلاق کے بعد خاوند کو عدت کے اندر رجوع کرنے کا حق حاصل ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اے پیغمبر (مسلمانوں سے کہہ دو کہ) جب تم عورتوں کو طلاق دینے لگو تو عدت کے شروع میں طلاق دو اور عدت کا شمار رکھو۔ اور خدا سے جو تمہارا پروردگار ہے ڈرو۔ (نہ تو تم ہی) ان کو (ایام عدت میں) ان کے گھروں سے نکالو اور نہ وہ (خود ہی) نکلیں۔ ہاں اگر وہ صریح بےحیائی کریں (تو نکال دینا چاہیئے) اور یہ خدا کی حدیں ہیں۔ جو خدا کی حدوں سے تجاوز کرے گا وہ اپنے آپ پر ظلم کرے گا۔ (اے طلاق دینے والے) تجھے کیا معلوم شاید خدا اس کے بعد کوئی (رجعت کی) سبیل پیدا کردے
6 Muhammad Junagarhi
اے نبی! (اپنی امت سے کہو کہ) جب تم اپنی بیویوں کو طلاق دینا چاہو تو ان کی عدت (کے دنوں کے آغاز) میں انہیں طلاق دو اور عدت کا حساب رکھو، اور اللہ سے جو تمہارا پروردگار ہے ڈرتے رہو، نہ تم انہیں ان کے گھروں سے نکالو اور نہ وه (خود) نکلیں ہاں یہ اور بات ہے کہ وه کھلی برائی کر بیٹھیں، یہ اللہ کی مقرر کرده حدیں ہیں، جو شخص اللہ کی حدوں سے آگے بڑھ جائے اس نے یقیناً اپنے اوپر ﻇلم کیا، تم نہیں جانتے شاید اس کے بعد اللہ تعالیٰ کوئی نئی بات پیدا کر دے
7 Muhammad Hussain Najafi
اے نبی(ص)! جب تم لوگ (اپنی) عورتوں کو طلاق دینے لگو تو انہیں عدت کے حساب سے طلاق دو اور پھر عدت کا شمار کرو اور اللہ (کی نافرمانی) سے ڈرو جو تمہارا پروردگار ہے۔ انہیں ان کے گھروں سے نہ نکالو اور نہ ہی وہ خود نکلیں مگر یہ کہ وہ کسی کھلی ہوئی بےحیائی کا ارتکاب کریں اور یہ اللہ کی (مقرر کی ہوئی) حدیں ہیں اور جو اللہ کے حدود سے تجاوز کرے گا تو وہ خود اپنے اوپر ظلم کرے گا تم نہیں جانتے شاید اللہ اس کے بعد کوئی نئی بات پیدا کر دے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اے پیغمبر ! جب تم لوگ عورتوں کو طلاق دو تو انہیں عدت کے حساب سے طلاق دو اور پھر عدت کا حساب رکھو اور اللہ سے ڈرتے رہو کہ وہ تمہارا پروردگار ہے اور خبردار انہیں ان کے گھروں سے مت نکالنا اور نہ وہ خود نکلیں جب تک کوئی کِھلا ہوا گناہ نہ کریں - یہ خدائی حدود ہیں اور جو خدائی حدود سے تجاوز کرے گا اس نے اپنے ہی نفس پر ظلم کیا ہے تمہیں نہیں معلوم کہ شاید خدا اس کے بعد کوئی نئی بات ایجاد کردے
9 Tafsir Jalalayn
اے پیغمبر (مسلمانوں سے کہہ دو کہ) جب تم عورتوں کو طلاق دینے لگو تو ان کی عدت کے شروع میں طلاق دو اور عدت کا شمار رکھو اور خدا سے جو تمہارا پروردگار ہے ڈرو۔ (نہ تو تم ہی) انکو (ایام عدت میں) انکے گھروں سے نکالو اور نہ وہ (خود ہی) نکلیں ہاں اگر وہ صریح بےحیائی کریں (تو نکال دینا چاہیے) اور یہ خدا کی حدیں ہیں۔ جو خدا کی حدوں سے تجاوز کریگا وہ اپنے آپ پر ظلم کرے گا۔ (اے طلاق دینے والے) تجھے کیا معلوم شاید خدا اس کے بعد کوئی (رجعت کی) سبیل پیدا کردے
ترجمہ : شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے، اے نبی ! ما بعد کے قرینہ سے مراد آپ کی امت ہے، یا اس کے بعد قل لھم محذف ہے (اے نبی ! آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسلمانوں سے کہئے) جب تم اپنی بیویوں کو طلاق دینے لگو یعنی طلاق دینا چاہو تو تم ان کو طلاق عدت کے شروع وقت میں دو اس طریقہ سے کہ طلاق ایسے طہر میں ہو کہ جس میں قربت (وطی) نہ کی ہو، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے یہ تفسیر کرنے کی وجہ سے، (رواہ الشیخان) اور تم عدت کو یاد رکھو تاکہ عدت پوری ہونے سے پہلے تم رجوع کرسکو، اور اللہ سے ڈرتے رہو جو تمہارا رب ہے اس کے امر و نہی میں اس کی اطاعت کرو ان عورتوں کو ان کے مسکن سے نہ نکالو اور نہ وہ خود اس سے نکلیں یہاں تک کہ ان کی عدت پوری ہوجائے، الایہ کہ وہ کوئی کھلی بےحیائی کریں (زنا وغیرہ) یاء کے فتح اور کسرہ کے ساتھ یعنی ظاہر یا ظاہر کرنے والی ہوں تو ان پر حدود قائم کرنے کے لئے ان کو نکالا جائے، یہ مذکورہ سب اللہ کے مقرر کردہ احکام ہیں، جو شخص احکام خداوندی سے تجاوز کرے گا اس نے خود اپنے اوپر ظلم کیا تجھے کیا معلوم کہ شاید اللہ تعالیٰ اس طلاق کے بعد مراجعت کی صورت نکال دے اس صورت میں جب کہ طلاق ایک یا دو ہوں پھر جب وہ (مطلقہ) عورتیں اپنی عدت گزارنے کے قریب پہنچ جائیں یعنی ان کی عدت گزرنے کے قریب ہوجائے تو ان کو قاعدہ کے مطابق بغیر ضرر پہنچائے (رجعت کر کے) نکاح میں رہنے دو یا قاعدہ کے مطابق ان کو رہائی دو یعنی ان کو چھوڑ دو کہ ان کی عدت پوری ہوجائے، اور (بار بار) رجعت کر کے ان کو ضرر نہ پہنچائو، رجعت یا فرقت پر آپس میں سے دو معتبر شخصوں کو گواہ بنا لو اور تم ٹھیک ٹھیک بلارورعایت کے اللہ کے لئے گواہی دو اور تمہارا ارادہ کسی کو نہ فائدہ پہنچانے کا ہو اور نہ نقصان پہنچانے کا، اس مضمون سے اس شخص کو نصیحت کی جاتی ہے جو اللہ پر اور روز قیامت پر یقین رکھتا ہو اور جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے اللہ اس کے نجات کی شکل نکال دیتا ہے یعنی دنیا و آخرت کی تکلیف سے، اور اس کو ایسی جگہ سے رزق پہنچا دیتا ہے جہاں سے اس کا گمان بھی نہیں ہوگا یعنی اس کے دل میں خیال بھی نہیں آتا، جو شخص اپنے کاموں میں اللہ پر بھروسہ کرے گا تو وہ اس کے لئے کافی ہے اللہ تعالیٰ اپنا کام یعنی مراد پوری کر کے رہتا ہے اور ایک قرأت میں اضافت کے ساتھ ہے اللہ تعالیٰ نے ہر شئے مثلاً فراخی اور شدت (تنگی) کا ایک وقت مقرر کر رکھا ہے اور تمہاری وہ بیویاں جو حیض سے ناامید ہوگئی ہیں (واللآئی) میں ہمزہ اور یاء اور بلایاء کے دونوں جگہ، اگر تم کو ان کی عدت کے بارے میں شک ہو تو ان کی عدت تین مہینے ہے (اور اسی طرح) وہ عورتیں کہ جن کو صغر سنی کی وجہ سے حیض نہیں آیا تو ان کی عدت بھی تین ماہ ہے مذکورہ دونوں مسئلے ان عورتوں کے ہیں کہ جن عورتوں کے شوہروں کی وفات نہ ہوئی ہو، اب رہی وہ عورتیں کہ جن کے شوہروں کی وفات ہوئی ہے تو ان عورتوں کی عدت وہ ہے جس کا ذکر ” یتربصن بانفسھن اربعۃ اشھر وعشرا “ میں ہے اور حاملہ عورتوں کی عدت خواہ مطلقات ہوں یا ” متوفی عنھن ازواجھن “ ہوں ان کے اس حمل کا پیدا ہوجانا ہے اور جو شخص اللہ سے ڈرے گا اللہ تعالیٰ اس کے ہر کام میں دنیا و آخرت میں آسانی فرما دے گا عدت کے بارے میں جو مذکور ہوا یہ اللہ کا حکم ہے جو تمہاریپ اس بھیجا ہے جو شخص اللہ سے ڈرے گا اللہ تعالیٰ اس کے گناہوں کو دور فرما دے گا اور اس کو اجر عظیم عطا فرمائے گا تم ان مطلقہ عورتوں کو اپنی وسعت کے مطابق رہنے کا مکان دو جہاں تم رہتے ہو یعنی اپنی گنجائش کے مطابق نہ کہ اس سے کم اور گھر میں ان پر تنگی کر کے ان کو تکلیف مت پہنچائو کہ وہ نکلنے یا نفقہ پر مجبور ہوجائیں کہ وہ تمہارے پاس سے چلی جائیں اور اگر وہ (مطلقہ) عورتیں حاملہ ہوں تو بچہ کی ولادت ہونے تک ان کو خرچ دو پھر وہ عورتیں (مدت کے بعد) ان سے تمہاری اولاد کو دودھ پلائیں تو تم ان کو دودھ پلائی کی اجرت دو اور آپس میں اولاد کے حق میں مناسب طور پر مشورہ کرلیا کرو دودھ پلائی کی اجرت معروفہ پر اتفاق کر کے اور اگر تم دودھ پلانے کے معاملہ میں باہم کشمکش (تنگی) کرو گے تو باپ اجرت دینے سے اور ماں دودھ پلانے سے رک جائیں گے تو باپ کے لئے کوئی دوسری عورت دودھ پلائے گی اور مطلقات اور مرضعات پر وسعت والے کو اپنی وسعت کے موافق خرچ کرنا چاہیے، اور جس کو (اللہ نے) تنگ روزی بنایا ہو تو اس کو چاہیے کہ اللہ نے جتنا اس کو عطا کیا ہے اس میں سے خرچ کرے، اللہ تعالیٰ کسی کو اس سے زیادہ مکلف نہیں بناتا جتنا اس کو دیا ہے خدا تعالیٰ جلدی ہی تنگی کے بعد فراغت عطا فرمائے گا، اور بلاشبہ فتوحات کے بعد اس نے ایسا کردیا۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : بقرینۃ ما بعدہ۔ ما بعد سے مراد اذا طلقتم النساء ہے اس لئے کہ اس میں صیغہ جمع استعمال ہوا ہے جس سے مراد امت ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ خطاب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی کو ہو اور طلقتم جمع کا صیغہ بطور تعظیم لایا گیا ہو، اوقل لھم سے احتمال ثانی کا بیان ہے۔
قولہ : اردتم الطلاق اس عبارت کے اضافہ کا مقصد ایک شبہ کا ازالہ ہے، شبہ ہوتا ہے کہ اذا طلقتم النساء فطلقوھن میں ترتب شیء علی نفسہ لازم آرہا ہے اور یہ تحصیل حاصل ہے جو محال ہے اس لئے کہ شیء کا حمل خود اپنے اوپر درست نہیں ہوتا، اس شبہ کو دفع کرنے کے لئے مفسر علام نے اردتم الطلاق کا اضافہ فرمایا، تاکہ ترتب شیء علی نفسہ کا شبہ ختم ہوجائے۔
قولہ : لاولھا، ای فی اول العدۃ یعنی عدت کے اول وقت میں اور عدت کا وقت امام شافعی (رح) تعالیٰ اور امام مالک (رح) تعالیٰ کے نزدیک طہر کا وقت ہے مطلب یہ ہے کہ اول طہر میں جس میں قربت نہ کی ہو طلاق دو ، یہ تفسیر امام شافعی (رح) تعالیٰ کے مسلک کے مطابق ہے۔
قولہ : بینت او بینۃ یہ مبینہ بفتح الیاء اور بکسر الیاء کی قرأت کی تشریح ہے بینت فتحہ کی صورت میں اور بینۃ کسرہ کی صورت میں۔
قولہ : احفظوھا، ای احفظوا وقت عدتھا یعنی اس وقت کو یاد رکھو جس میں طلاق واقع ہوئی ہے۔
قولہ : ذلکم یوعظ بہ، ای المذکور من اول السورۃ الی ھنا۔
قولہ : ومن یتق اللہ یجعل لہ مخرجا یہ احکام نساء کے درمیان جملہ معترضہ ہے۔
قولہ : وفی قراء ۃ بالاضافۃ، ای بالغ امرہ۔
قولہ : واللائی مبتداء ہے اور فعدتھن اس کی خبر ہے۔
قولہ : ان ارتبتم شرط ہے اور اس کا جواب محذوف ہے ای فاعلموا انھا ثلثۃ اشھر شرط اور جواب شرط جملہ معترضہ ہیں، اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ فعدتھن جواب شرط ہو۔
قولہ : اولات الاحمال مبتداء ہے اجلھن مبتداء ثانی ہے۔
قولہ : ان یضعن ثانی مبتداء کی خبر ہے اور مبتداء ثانی اپنی خبر سے مل کر مبتداء اول کی خبر ہے۔
تفسیر و تشریح
نام
اس سورت کا نام الطلاق ہے، بلکہ یہ اس سورت کے مضمون کا عنوان بھی ہے حضرت عبد اللہ بن مسعود (رض) سے اس کا دوسرا نام، سورة النساء القصریٰ ، چھوٹی سورة نساء بھی منقول ہے، مضمون سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سورت کا نزول سورة بقرہ کی ان آیات کے بعد ہوا ہے جن میں طلاق کے احکام پہلی مرتبہ دیئے گئے تھے۔
اس سورت کے احکام کو سمجھنے سے پہلے ضروری ہے کہ ان ہدایات کو ذہن نشین کرلیا جائے جو طلاق اور عدت سے متعلق اس سے پہلے قرآن میں بیان ہوچکی ہیں۔
(١) طلاق دو بار ہے، پھر یا تو سیدھی طرح عورت کو روک لیا جائے یا پھر بھلے طریقے سے رخصت کردیا جائے۔ (البقرہ، ٢٢٩)
(٢) اور مطلقہ عورتیں (طلاق کے بعد) اپنے آپ کو تین حیض تک روکے رکھیں اور ان کے شوہر اس مدت میں ان کو (اپنی زوجیت میں) واپس لے لینے کے حقدار ہیں اگر وہ اصلاح پر آمادہ ہوں۔ (البقرہ، ٢٢٨)
پھر اگر وہ (تیسری بار) ان کو طلاق دیدیں تو اس کے بعد وہ اس کے لئے حلال نہ ہوں گی جب تک کہ اس عورت کا نکاح کسی اور سے نہ ہوجائے۔ (البقرہ : ٢٣)
(٣) جب تم مومن عورتوں سے نکاح کرو پھر انہیں ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دیدو تو تمہارے لئے ان پر کوئی عدت لازم نہیں ہے جس کے پورا کرنے کا تم مطالبہ کرو۔ (الاحزاب، ٤٩)
(٤) اور تم میں سے جو لوگ مرجائیں اور پیچھے بیویاں چھوڑ جائیں تو وہ عورتیں چار ماہ دس دن اپنے آپ کو روکے رکھیں۔ (البقرہ، ٢٣٤)
ان آیات میں جو قواعد مقرر کئے گئے تھے وہ مندرجہ ذیل ہیں۔
(١) مرد اپنی بیوی کو زیادہ سے زیادہ تین طلاق دے سکتا ہے۔
(٢) ایک یا دو طلاق کی صورت میں مرد کو عدت کے اندر رجوع کرنے کا حق رہتا ہے، اور عدت گزر جانے کے بعد اگر وہی شوہر اس عورت سے نکاح کرنا چاہے تو کرسکتا ہے اس کے لئے تحلیل کی کوئی شرط نہیں ہے۔
(٣) مدخولہ عورت جس کو حیض آتا ہو اس کی عدت یہ ہے کہ اسے طلاق کے بعد تین حیض آجانے تک چھوڑے رکھے، ایک یا دو صریح طلاق کی صورت میں شوہر کو مدت کے اندر رجوع کا حق حاصل ہوگا، تین طلاق کی بعد رجعت کا حق باقی نہیں رہتا۔
(٤) غیر مدخولہ عورت جسے ہاتھ لگانے سے پہلے ہی طلاق دیدی جائے اس کے لئے کوئی عدت نہیں وہ چاہے تو طلاق کے فوراً بعد نکاح کرسکتی ہے۔
(٥) جس عورت کا شوہر مرجائے تو اس کی عدت چار ماہ دس دن ہے۔
سورة طلاق کے نزول کا مقصد :
سورة طلاق کے نزول کے دو مقاصد ہیں :
(١) ایک یہ کہ مرد کو جو طلاق کا اختیار دیا گیا ہے اس کو استعمال کرنے کے حکیمانہ طریقے بتائے جائیں، جن سے حتی الامکان جدائی کی نوبت ہی نہ آنے پائے اور اگر جدائی ناگزیر ہو تو ایسی صورت میں ہو کہ باہمی موافقت کے سارے امکانات ختم ہوچکے ہوں، کیونکہ خدائی شریعت میں طلاق ایک ناگزیر ضرورت کے طور پر رکھی گئی ہے، ورنہ اللہ تعالیٰ اس بات کو سخت ناپسند فرماتا ہے، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے ” ما احل اللہ شیئا ابغض الیہ من الطلاق “ تمام حلال چیزوں میں اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ ناپسندیدہ چیز طلاق ہے۔ (ابودائود)
(٢) دوسرا مقصد یہ ہے کہ سورة بقرہ کے بعد جو مزید مسائل جواب طلب باقی رہ گئے تھے ان کا جواب دیکر اسلام کے عائلی قانون کے اس شعبہ کی تکمیل کردی جائے، اس سلسلہ میں یہ بتایا گیا ہے کہ جن مدخولہ عورتوں کو حیض آنا بند ہوگیا ہو یا جنہیں ابھی حیض آنا شروع ہی نہ ہوا ہو، طلاق کی صورت میں ان کی عدت کیا ہوگی، اور جو عورت حامل ہو اسے اگر طلاق دیدی جائے یا اس کا شوہر مرجائے تو اس کی عدت کیا ہے ؟ اور مختلف قسم کی مطلقہ عورتوں کی نفقہ اور سکونت کا انتظام کس طرح ہوگا، اور جس بچے کے والدین طلاق کے ذریعہ الگ ہوگئے ہوں ان کی رضاعت کا انتظام کس طرح کیا جائے ؟
یایھا النبی اذا طلقتم النساء فطلقوھن لعدتھن یہاں خطاب اگرچہ بظاہر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی کو معلوم ہوتا ہے مگر مراد امت ہے، اس کی تائید طلقتم کے جمع کے صیغہ سے بھی ہوتی ہے اگرچہ یہ بھی درست ہے کہ طلقتم جمع کا صیغہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی کے لئے تعظیم کے طور پر بولا گیا ہو، امت کے مراد ہونے کا ایک قرینہ یہ بھی ہے کہ جہاں خاص طور پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی کو خطاب مقصود ہوتا ہے تو وہاں اکثر یایھا الرسول فرمایا جاتا ہے اور جہاں امت کو خطاب مقصود ہوتا ہے وہاں یا ایھا النبی فرمایا جاتا ہے۔
اسلامی عائلی قانون کی روح :
اسلامی عائلی قانون کی روح یہ ہے کہ جن مردوں اور عورتوں میں ازدواجی تعلق قائم ہو وہ پائیدار اور عمر بھر کا رشتہ ہو جس سے ان دونوں کی دنیا اور آخرت دونوں درست ہوں، اور ان سے پیدا ہونے والی اولاد کے اعمال و اخلاق بھی درست ہوں، اسی لئے نکاح کے معاملہ میں شروع سے آخر تک اسلام کی ہدایات یہ ہیں کہ اس تعلق کو تلخیوں اور رنجشوں سے پاک و صاف رکھنے کی اور اگر کبھی پیدا ہوجائے تو ان کے ازالہ کی پوری کوشش کی گئی ہے، لیکن ان تمام کوششوں کے باوجود بعض اوقات طرفین کی زندگی کی فلاح اسی میں منحصر ہوجاتی ہے کہ یہ تعلق ختم کردیا جائے، جن مذاہب میں طلاق کا اصول نہیں ہے ان میں ایسے واقعات میں سخت مشکلات کا سامنا ہوتا ہے اور بعض اوقات انتہائی برے نتائج سامنے آتے ہیں، اس لئے اسلام نے نکاح کی طرح طلاق کے بھی قواعد و ضوابط مقرر فرما دیئے مگر ساتھ ہی یہ ہدایت بھی دیدی کہ طلاق اللہ تعالیٰ کے نزدیک نہایت مبغوض و مکروہ کام ہے جہاں تک ممکن ہو اس سے پرہیز کرنا چاہیے، حضرت عبد اللہ بن عمر (رض) سے منقول ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ : ” حلال چیزوں میں سب سے زیادہ مبغوض اللہ کے نزدیک طلاق ہے “ (ابودائود) اور حضرت علی کرم اللہ وجہہٗ سے روایت ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ” تزوجوا ولا تطلقوا فان الطلاق یھتز منہ عرش الرحمٰن “ یعنی نکاح کرو طلاق نہ دو کیونکہ طلاق سے عرش رحمٰن ہل جاتا ہے، حضرت معاذ بن جبل (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ” اللہ نے زمین پر جو کچھ پیدا فرمایا ہے ان میں سب سے زیادہ محبوب اللہ تعالیٰ کے نزدیک غلاموں کا آزاد کرنا ہے اور سب سے زیادہ مبغوض و مکروہ طلاق ہے “۔ (معارف، قرطبی)
بہرحال اسلام نے اگرچہ طلاق کی حوصلہ افزائی نہیں کی بلکہ حتی الامکان اس کو روکنے کی کوشش کی ہے لیکن بعض ناگزیر موقعوں پر شرائط کے ساتھ اجازت دی تو اس کے لئے کچھ اصول اور قواعد بنا کر اجازت دی جن کا حاصل یہ ہے کہ اگر اس رشتہ ازدواج کو ختم کرنا ہی ضروری ہوجائے تو وہ بھی خوبصورتی اور حسن معاملہ کے ساتھ انجام پائے، محض غصہ اتارنے اور انتقام لینے کی صورت نہ بنے۔
پہلا حکم :
فطلقوھن لعدتھن ” عدت “ کے لغوی معنی شمار کرنے کے ہیں اور شرعی اصطلاح میں اس عدت کو کہا جاتا ہے جس میں عورت ایک شوہر کے نکاح سے نکلنے کے بعد دوسرے سے ممنوع ہوجاتی ہے، اس مدت انتظار کو عدت کہتے ہیں، اور نکاح سے نکلنے کی دو صورتیں ہیں، (١) ایک یہ کہ شوہر کا انتقال ہوجائے اس عدت کو عدت وفات کہا جاتا ہے جو غیر حاملہ کے لئے چار ماہ دس دن مقرر ہے۔ (٢) دوسری صورت طلاق ہے، عدت طلاق غیر حاملہ کے لئے امام ابوحنیفہ (رح) تعالیٰ اور بعض دیگر ائمہ رحمھم اللہ تعالیٰ کے نزدیک تین حیض مکمل ہیں اور امام شافعی (رح) تعالیٰ اور دوسرے بعض ائمہ رحمھم اللہ تعالیٰ کے نزدیک طہر عدت طلاق ہے یعنی کچھ ایام یا مہینے مقرر نہیں، جتنے مہینوں میں تین حیض اور تین طہر پورے ہوجائیں وہی عدت طلاق ہوگی، اور جن عورتوں کو ابھی کم عمری کی وجہ سے حیض نہ آیا ہو یا عمر زیادہ ہوجانے کی وجہ سے حیض منقطع ہوچکا ہے ان کا حکم آئندہ مستقلا آرہا ہے، اور اسی طرح حمل والی عورتوں کا حکم بھی آگے آرہا ہے اس میں عدت وفات اور عدت طلاق دونوں یکساں ہیں، فطلقوھن لعدتھن اور صحیح مسلم کی حدیث ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فطلقوا لقبل عدتھن تلاوت فرمایا : آیت مذکورہ کی دونوں قرأتوں اور ایک روایت سے آیت مذکورہ کا یہ مفہوم متعین ہوگیا کہ جب کسی عورت کو طلاق دینا ہو تو عدت شروع ہونے سے قبل طلاق دی جائے اور امام شافعی (رح) تعالیٰ وغیرہ کے نزدیک چونکہ عدت طہر سے شروع ہوتی ہے اس لئے لقبل عدتھن کا مفہوم یہ قرار دیا کہ بالکل شروع طہر میں طلاق دے دی جائے۔
طلقوھن لعدتھن حضرت ابن عباس (رض) اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ طلاق حیض کی حالت میں نہ دے اور نہ اس طہر میں دے جس میں شوہر مباشرت کرچکا ہو، جب عورت حیض سے فارغ ہوجائے تو اس کو ایک طلاق دیدے، اس صورت میں اگر شوہر رجوع نہ کرے اور عدت گزر جائے تو وہ صرف ایک ہی طلاق سے جدا ہوجائے گی۔ (ابن جریر)
حضرت عبد اللہ بن مسعود (رض) فرماتے ہیں عدت کے لئے طلاق یہ ہے کہ طہر کی حالت میں مباشرت کئے بغیر طلاق دی جائے، یہی تفسیر عبد اللہ بن عمر، عطاء، مجاہد، میمون بن مہران، مقاتل وغیرہم سے مروی ہے۔ (ابن کثیر)
اس آیت کے منشا کو بہترین طریقہ سے خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس موقع پر واضح فرمایا تھا جب حضرت عد اللہ بن عمر (رض) نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دیدی تھی، اس واقعہ کی تفصیلات قریب قریب حدیث کی ہر کتاب میں نقل ہوئی ہیں۔
قصہ اس کا یہ ہے کہ جب حضرت عبد اللہ بن عمر (رض) نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دیدی تو حضرت عمر (رض) نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس واقعہ کا ذکر کیا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سن کر سخت ناراض ہوئے، اور فرمایا کہ اس سے کہو کہ بیوی سے رجوع کرے یہاں تک کہ وہ طاہر ہوجائے پھر اسے حیض آئے اور اس سے فارغ ہو کر وہ طاہر ہوجائے اس کے بعد اگر وہ طلاق دینا چاہے تو طہر کی حالت میں مباشرت کئے بغیر طلاق دے۔
اس حدیث سے چند باتیں ثابت ہوئیں، اول یہ کہ حالت حیض میں طلاق دینا حرام ہے، دوسری یہ کہ اگر کسی نے ایسا کرلیا تو اس طلاق سے رجعت کرلینا واجب ہے (بشرطیکہ طلاق قابل رجعت ہو جیسا کہ ابن عمر (رض) کے واقعہ میں تھی) تیسری یہ کہ جس طہر میں طلاق دینی ہو اس میں مباشرت نہ ہو، چوتھی یہ کہ یہ آیت فطلقوھن لعدتھن کی یہی تفسیر ہے۔
دوسرا حکم :
واحصوا العدۃ ہے مطلق یہ کہ عدت کے ایام کو اہتمام سے یاد رکھنا چاہیے، یاد رکھنے کی ذمہ داری اگرچہ دونوں کی ہے مگر چونکہ ایسے معاملات میں جن کی ذمہ داری مرد اور عورت دونوں کی ہوتی ہے اکثر خطاب مرد کو ہوتا ہے۔
تیسرا حکم :
لاتخرجوھن من بیوتھن ولا یخرجن اس آیت میں لفظ بیوتھن سے اشارہ کردیا کہ گھر میں عورت کا بھی حق سکونت ہے اور جب تک اس کی عدت ختم نہیں ہوجاتی عورت کا حق سکونت باقی رہتا ہے محض طلاق دینے سے سکنیٰ کا حق ساقط نہیں ہوجاتا، اور نہ وہ خود نکل سکتی ہے اگرچہ شوہر اس کی اجازت بھی دیدے، اس لئے کہ سکنیٰ محض حقوق العباد میں سے نہیں بلکہ حق اللہ بھی ہے۔
چوتھا حکم :
الا ان یاتین بفاحشۃ مبینۃ یہ ماقبل کی آیت کے مضمون سے مستثنیٰ ہے مطلب یہ ہے کہ بیت سکنی سے نہ تو مرد کا معتدہ کو نکالنا جائز ہے اور نہ اس کا خود نکلنا جائز ہے مگر یہ کہ عورت کوئی کھلی بےحیائی کا ارتکاب کرے، بےحیائی سے مراد مثلاً خود ہی گھر سے نکل بھاگے یا زنا کا ارتکاب کرے یا زبان درازی سے سب کو تنگ کر دے۔
وتلک حدود اللہ (الآیۃ) اس آیت سے احکام مذکورہ کی پابندی کی تاکید ہے کہ یہ شریعت کے مقرر کردہ حدود و قواعد ہیں جو شخص ان مقررہ حدود سے تجاوز کرے گا، تو اس نے گویا خود اپنے اوپر ظلم کیا۔
مطلقہ مدخولہ کی عدت تین حیض ہے، اگر رجوع کرنا ہو تو عدت ختم ہونے سے پہلے پہلے رجوع کرو، بصورت دیگر انہیں معروف طریقہ کے مطابق اپنے سے جدا کردو۔
اس رجعت یا طلاق پر گواہ بنا لو یہ امر استحباب کے لئے ہے، بعض حضرات کے نزدیک وجوب کے لئے ہے، نیز گواہوں کو تاکید کی گئی ہے کہ کسی کی رو رعایت کے بغیر گواہی دیں نہ کسی کو فائدہ پہنچانا مقصد ہو اور نہ نقصان پہنچانا۔
جن عورتوں کا حیض کبر سنی یا کسی اور وجہ سے منقطع ہوگیا ہو یا صغر سنی کی وجہ سے ابھی شروع نہ ہوا ہو تو ایسی عورتوں کی عدت تین ماہ ہے۔
مطلقہ اگر حاملہ ہو تو اس کی عدت وضع حمل ہے خواہ دوسرے ہی دن وضع حمل ہوجائے، حاملہ متوفی عنھازوجھا کی عدت وضع حمل ہے اور غیر حاملہ کی چار ماہ دس دن، نیز مطلقہ رجعیہ اور بائنہ کے لئے سکنی ہے۔
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور اہل ایمان سے مخاطب ہو کر فرماتا ہے: ﴿یٰٓاَیُّہَا النَّبِیُّ اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ﴾ ”اے نبی! جب تم اپنی بیویوں کو طلاق دینا چاہو۔“ یعنی طلاق دینے کا ارادہ کرو۔﴿فَ﴾ ”پس“ تم ان کو طلاق دینے کے لیے مشروع وجہ طلاق تلاش کرو، جب طلاق کا سبب مل جائے تو اللہ تعالیٰ کے حکم کی رعایت رکھے بغیر طلاق دینے میں جلدی نہ کرو بلکہ ﴿ طَلِّقُوْہُنَّ لِعِدَّتِہِنَّ﴾ ”انہیں ان کی عدت کے (آغاز )کے وقت میں طلاق دو۔“ یعنی ان کو ان کی عدت کے لیے طلاق دو ،وہ اس طرح کہ شوہر اپنی بیوی کو اس کے طاہر ہونے کی حالت میں، نیز اس طہر میں اس سے مجامعت کیے بغیر طلاق دے، پس یہی وہ طلاق ہے جس میں عدت واضح ہوتی ہے ۔اس کے برعکس اگر اس نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دی تو وہ اس حیض کو شمار نہیں کرے گی جس کے دوران طلاق واقع ہوئی ہے ،تو اس سبب سے اس پر عدت کا عرصہ طویل ہوجائے گا۔ اس طرح اگر اس نے ایسے طہر میں طلاق دی ہو جس میں مجامعت کی گئی ہو تو اس طرح وہ حمل سے مامون نہ ہوگی ،لہٰذا واضح نہ ہوگا کہ وہ کون سی عدت شمار کرے جبکہ اللہ تعالیٰ نے عدت شمار کرنے کا حکم دیا ہے ﴿وَاَحْصُوا الْعِدَّۃَ ﴾ یعنی ایسے حیض کے ذریعے سے شمار کیا جائے اگر بیوی کو حیض آتا ہے تو عدت کو حیض سے ضبط کرنا ہے اور اگر اس کو حیض نہ آتا ہو اور وہ حاملہ بھی نہ ہو تو اس کی عدت مہینوں کے ساتھ شمار کی جائے گی۔ عدت کے شمار کرنے میں اللہ تعالیٰ کے حقوق، طلاق دینے والے شوہر اور بعد میں نکاح کرنے والے شوہر کے حقوق کی ادائیگی بھی ہے، نیز اس میں مطلقہ کے نان ونفقہ وغیرہ کے حق کی ادائیگی ہے۔ پس جب عدت کو ضبط میں لایا جائے گا تو اس (کے حمل یا حیض وغیرہ) کا حال واضح طور پر معلوم ہوگا اور اس عدت پر مرتب ہونے والے حقوق معلوم ہوں گے۔ عدت شمار کرنے کے اس حکم کا رخ شوہر اور بیوی کی طرف ہے اگر بیوی مکلف ہے ورنہ اس کے سرپرست کی طرف ہے۔﴿ وَاتَّقُوا اللّٰہَ رَبَّکُمْ ﴾ یعنی اپنے تمام امور میں تقوٰی اختیار کرو اور مطلقہ بیویوں کے حق کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو ﴿لَا تُخْرِجُوْہُنَّ مِنْ بُیُوْتِہِنَّ﴾ عدت کی مدت کے دوران ان کو ان کے گھروں سے نہ نکالو بلکہ مطلقہ اس گھر میں رہے جس گھر میں شوہر نے اس کو طلاق دی ہے ﴿وَلَا یَخْرُجْنَ﴾ ”اور نہ وہ خود نکلیں۔ “یعنی مطلقہ بیویوں کے لیے ان گھروں سے نکلنا جائز نہیں ہے۔
مطلقہ کو گھر سے نکالنے کی ممانعت کا سبب یہ ہے کہ بیوی کو گھر فراہم کرنا شوہر پر واجب ہے تاکہ وہ اس گھر میں رہ کر عدت پوری کرسکے جو شوہر کے حقوق میں سے ایک حق ہے۔ اور مطلقہ بیوی کے خود گھر سے نکلنے کی ممانعت اس لیے ہے کہ اس کا گھر سے نکلنا شوہر کے حق کو ضائع کرنا اور اس کی عدم حفاظت ہے ۔طلاق یافتہ عورتوں کا خود گھر سے نکلنے یا ان کو نکالے جانے کا حکم عدت کے پورا ہونے تک باقی رہے گا۔ ﴿ اِلَّآ اَنْ یَّاْتِیْنَ بِفَاحِشَۃٍ مُّبَیِّنَۃٍ ﴾ ”مگر یہ کہ وہ صریح بے حیائی کریں ۔“یعنی ان سے کوئی واضح طور پر قبیح فعل سرزد ہو جو ان کو گھر سے نکالنے کاموجب ہوا اور مطلقہ کو گھر سے نہ نکالنے سے گھروالوں کو ضرر پہنچتا ہو، مثلا :فحش اقوال وافعال کے ذریعے سے اذیت وغیرہ۔ اس صورت حال میں مطلقہ کو گھر سے نکال دینا گھروالوں کے لیے جائز ہے کیونکہ وہ خود اپنے آپ کو گھر سے نکالنے کا سبب بنی ہے، حالانکہ گھر میں سکونت کی اجازت دینا مطلقہ کی دل جوئی اور اس کے ساتھ نرمی ہے اور اپنے آپ پر اس ضرر کا سبب وہ خود ہی بنی ہے۔ یہ حکم اس مطلقہ کے لیے ہے جو رجعی طلاق کی عدت گزار رہی ہو۔ رہی وہ مطلقہ جس کی طلاق بائنہ ہو، اس کو سکونت فراہم کرنا واجب نہیں کیونکہ سکونت نان ونفقہ کے تابع ہے اور نان ونفقہ صرف اس مطلقہ کے لیے ہے جسے رجعی طلاق دی گئی ہو اور جس کو طلاق بائنہ دی گئی ہو اس کے لیے نان ونفقہ نہیں ہے۔ ﴿تِلْکَ حُدُوْدُ اللّٰہِ﴾ ”یہ اللہ کی حدیں ہیں۔ “جن کو اللہ تعالیٰ نےاپنے بندوں کے لیے مقرر کرکے مشروع کیا ہے اور ان حدود کا التزام کرنے اور ان پر ٹھہرنے کا ان کو حکم دیا ہے۔ ﴿ وَمَنْ یَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰہِ﴾ ”اور جو اللہ کی حدود سے تجاوز کرے۔“ وہ اس طرح کہ وہ ان مقرر کردہ حدود پر نہ ٹھہرے بلکہ ان حدود سے تجاوز یا کوتاہی کرے﴿فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَہٗ ﴾ ”تو یقینا اس نے اپنے آپ پر ظلم کیا۔“ یعنی اس نے اپنا حق کم کیا اور اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حدود کی اتباع میں سے ، جن میں دنیا وآخرت کی اصلاح ہے ،اپنے حصے کو ضائع کیا۔ ﴿لَا تَدْرِیْ لَعَلَّ اللّٰہَ یُحْدِثُ بَعْدَ ذٰلِکَ اَمْرًا﴾ ”تجھے کیا معلوم شاید اللہ اس کے بعد کوئی سبیل پیدا کردے۔ “یعنی اللہ تعالیٰ نے عظیم حکمتوں کی بنا پر طلاق کو مشروع کرکے اس کو عدت کے ذریعے سے محدود کیا ہے ۔ان حکمتوں میں سے چند درج ذیل ہیں:
١۔ عدت کی حکمتوں میں سے ایک حکمت یہ ہے کہ ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ طلاق دینے والے کے دل میں رحمت اور مودت پیدا کردے اور طلاق دینے والا اس سے رجوع کرلے اور نئے سرے سے اس کے ساتھ رہنا سہنا شروع کردے۔ یہ چیز( مطلقہ سے رجوع کرنا)عدت کی مدت کی معرفت ہی سے ممکن ہے۔
٢۔ ہوسکتا ہے شوہر نے بیوی کی طرف سے کسی سبب کی بنا پر اس کو طلاق دی ہو اور عدت کی مدت میں وہ سبب دور ہوجائے تو وہ اپنی مطلقہ بیوی سے رجوع کرلے کیونکہ طلاق کا سبب ختم ہوگیا ہے۔
٣۔ ان حکمتوں میں سے ایک حکمت یہ ہے کہ عدت کی مدت کے دوران میں اس خاوند کے حمل سے مطلقہ کے رحم کی برات معلوم ہوجائے گی۔
11 Mufti Taqi Usmani
aey nabi ! jab tum log aurton ko talaq denay lago to unhen unn ki iddat kay waqt talaq do , aur iddat ko achi tarah shumar kero , aur Allah say daro jo tumhara perwerdigar hai . unn aurton ko unn kay gharon say naa nikalo , aur naa woh khud niklen , illa yeh kay woh kissi khuli bey hayai ka irtikab keren . aur yeh Allah ki ( muqarrar ki hoi ) hudood hain , aur jo koi Allah ki ( muqarrar ki hoi ) hudood say aagay niklay , uss ney khud apni jaan per zulm kiya . tum nahi jantay , shayad Allah uss kay baad koi naee baat peda kerday .
12 Tafsir Ibn Kathir
اولاً تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شرافت و کرامت کے طور پر خطاب کیا گیا پھر تبعاً آپ کی امت سے خطاب کیا گیا اور طلاق کے مسئلہ کو سمجھایا گیا، ابن ابی حاتم میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت حفضہ کو طلاق دی وہ اپنے میکے آگئیں اس پر یہ آیت اتری اور آپ سے فرمایا گیا کہ ان سے رجوع کرلو وہ بہت زیادہ روزہ رکھنے والی اور بہت زیادہ نماز پڑھنے والی ہیں اور وہ یہاں بھی آپ کی بیوی ہیں اور جنت میں بھی آپ کی ازواج میں داخل ہیں، یہی روایت مرسلاً ابن جریر میں بھی ہے اور سندوں سے بھی آئی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت حفضہ (رض) کو طلاق دی پھر رجوع کرلیا، صحیح بخاری شریف میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر (رض) نے اپنی بیوی صاحبہ کو حیض کی حالت میں طلاق دے دی، بخاری شریف میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر (رض) نہما نے اپنی بیوی صاحبہ کو حیض کی حالت میں طلاق دے دی، حضرت عمر نے یہ واقعہ آنحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کیا آپ ناراض ہوئے اور فرمایا سے چاہئے کہ رجوع کرلے پھر حیض سے پاک ہونے تک روکے رکھے پھر دوسرا حیض آئے اور اس سے نہا لیں پھر اگر جی چاہے طلاق دیں یعنی اس پاکیزگی کی حالت میں بات چیت کرنے سے پہلے یہی وہ عدت ہے جس کا حکم اللہ تعالیٰ نے دیا ہے یہ حدیث اور بھی بہت سی کتابوں میں بہت سی سندوں کے ساتھ مذکور ہے، حضرت عبدالرحمٰن بن ایمن نے جو عزہ کے مولیٰ ہیں حضرت ابو الزبیر کے سنتے ہوئے حضرت ابن عمر (رض) سے سوال کیا کہ اس شخص کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں جس نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دی تو آپ نے فرمایا سنو ابن عمر نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی میں طلاق دی تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم دیا کہ اسے لوٹا لے چناچہ ابن عمر نے رجوع کرلیا اور یہی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تھا اس سے پاک ہوجانے کے بعد اسے اختیار ہے خواہ طلاق دے خواہ بسا لے اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس آیت کی تلاوت کی (ترجمہ) (مسلم) دوسری روایت میں (ترجمہ) یعنی طہر کی حالت میں جماع سے پہلے، بہت سے بزرگوں نے یہی فرمایا ہے، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں یعنی حیض میں طلاق نہ دو ، نہ اس طہر میں طلاق دو جس میں جماع ہوچکا ہو بلکہ اس وقت تک چھوڑ دے جب حیض آجائے پھر اس سے نہا لے تب ایک طلاق دے، حضرت عکرمہ فرماتے ہیں عدت سے مراد طہر ہے، قرء سے مراد حیض ہے یا حمل کی حالت میں، جب حمل ظاہر ہو، جس طہر میں مجامعت کرچکا ہے اس میں طلاق نہ دے نہ معلوم حاملہ ہے یا نہیں، یہیں سے با سمجھ علماء نے احکام طلاق لئے ہیں اور طلاق کی دو قسمیں کی ہیں طلاق سنت اور طلاق بدعت، طلاق سنت تو یہ ہے کہ طہر کی یعنی پاکیزگی کی حالت میں جماع کرنے سے پہلے طلاق دے دے یا حالت حمل میں طلاق دے اور بدعی طلاق یہ ہے کہ حالت حیض میں طلاق دے یا طہر میں دے لیکن مجامعت کرچکا ہو اور معلوم نہ ہو کہ حمل ہے یا نہیں ؟ طلاق کی تیسری قسم بھی ہے جو نہ طلاق سنت ہے نہ طلاق بدعت اور وہ نابالغہ کی طلاق ہے اور اس عورت کی جسے حیض کے آنے سے نامیدی ہوچکی ہو اور اس عورت کی جس سے دخول نہ ہوا۔ ان سب کے احکام اور تفصیلی بحث کی جگہ کتب فروغ ہیں نہ کہ تفسیر۔ واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم، پھر فرمان ہے عدت کی حفاظت کرو اس کی ابتداء انتہا کی دیکھ بھال رکھو ایسا نہ ہو کہ عدت کی لمبائی عورت کو دوسرا خاوند کرنے سے روک دے، اور اس بارے میں اپنے ابتداء انتہا کی دیکھ بھال رکھو ایسا نہ ہو کہ عدت کی لمبائی عورت کو دوسا خاوند کرنے سے روک دے اور اس بارے میں اپنے معبود حقیقی پروردگار عالم سے ڈرتے رہو، عدت کے زمانہ میں مطلقہ عورت کی رہائش کا مکان خاوند کے ذمہ ہے وہ اسے نکال نہ دے اور نہ خود اسے نکلنا جائز ہے کیونکہ وہ اپنے خاوند کے حق میں رکی ہوئی ہے (ترجمہ) زنا کو بھی شامل ہے اور اسے بھی کہ عورت اپنے خاوند کو تنگ کرے اس کا خلاف کرے اور ایذاء پہنچائے، یا بدزبانی و کج خلقی شروع کر دے اور اپنے کاموں سے اور اپنی زبان سے سسرال والوں کو تکلیف پہنچائے تو ان صورتوں میں بیشک خاوند کو جائز ہے کہ اسے اپنے گھر سے نکال باہر کرے، یہ اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حدیں ہیں اس کی شریعت اور اس کے بتائے ہوئے احکام ہیں۔ جو شخص ان پر عمل نہ کرے انہیں بےحرمتی کے ساتھ توڑ دے ان سے آگے بڑھ جائے وہ اپنا ہی برا کرنے والا اور اپنی جان پر ظلم ڈھانے والا ہے شاید کہ اللہ کو نئی بات پیدا کر دے اللہ کے ارادوں کو اور ہونے والی باتوں کو کوئی نہیں جاسکتا، عدت کا زمانہ مطلقہ عورت کو خاوند کے گھر گذارنے کا حکم دینا اس مصلحت سے ہے کہ ممکن ہے اس مدت میں اس کے خاوند کے خیالات بدل جائیں، طلاق دینے پر نادم ہو دل میں لوٹا لینے کا خیال پیدا ہوجائے اور پھر رجوع کر کے دونوں میاں بیوی امن وامان سے گذارا کرنے لگیں، نیا کام پیدا کنے سے مراد بھی رجعت ہے، اسی بنا پر بعض سلف اور ان کے تابعین مثلاً حضرت امام احمد بن حنبل وغیرہ کا مذہب ہے کہ متبوتہ یعنی وہ عورت جس کی طلاق کے بعد خاوند کو رجعت کا حق باقی نہ رہا ہو اس کے لئے عدت گذارنے کے زمانے تک مکان کا دینا خاوند کے ذمہ نہیں، اسی طرح جس عورت کا خاوند فوت ہوجائے اسے بھی رہائشی مکان عدت تک کے لئے دینا اس کے وارثوں پر نہیں ان کی اعتمادی دلیل حضرت فاطمہ بنت قیس فہریہ والی حدیث ہے کہ جب ان کے خاوند حضرت ابو عمر بن حفص نے ان کو تیسری آخری طلاق دی اور وہ اس وقت یہاں موجود نہ تھے بلکہ یمن میں تھے اور ویں سے طلاق دی تھی تو ان کے وکیل نے ان کے پاس تھوڑے سے جو بھیج دیئے تھے کہ یہ تمہاری خوراک ہے یہ بہت ناراض ہوئیں اس نے کہا بگڑتی کیوں ہو ؟ تمہارا نفقہ کھانا پینا ہمارے ذمہ نہیں، یہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئیں آپ نے فرمایا ٹھیک ہے تیرا نفقہ اس پر نہیں۔ مسلم میں ہے نہ تیرے رہنے سہنے کا گھر اور ان سے فرمایا کہ تم ام شریک کے گھر اپنی عدت گذارو، پھر فرمایا وہاں تو میرے اکثر صحابہ جایا آیا کرتے ہیں تم عبداللہ بن ام مکتوم کے ہاں اپنی عدت کا زمانہ گذارو وہ ایک نابینا آدمی ہیں تم وہاں آرام سے اپنے کپڑے بھی رکھ سکتی ہو، مسند احمد میں ہے کہ ان کے خاوند کو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کسی جہاد پر بھیجا تھا انہوں نے وہیں سے انہیں طلاق بھیج دی ان کے بھائی نے ان سے کہا کہ ہمارے گھر سے چلی جاؤ انہوں نے کہا نہیں جب تک عدت ختم نہ ہوجائے میرا کھانا پینا اور رہنا سہنا میرے خاوند کے ذمہ ہے اس نے انکار کیا آخر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس یہ معاملہ پہنچا جب آپ کو معلوم ہوا کہ یہ آخری تیسری طلاق ہے تب آپ نے حضرت فاطمہ سے فرمایا نان نفقہ گھر بار خاوند کے ذمہ اس صورت میں ہے کہ اسے حق رجعت حاصل ہو جب یہ نہیں تو وہ بھی نہیں تم یہاں سے چلی جاؤ اور فلاں عورت کے گھر اپنی عدت گذارو پھر فرمایا وہاں تو صحابہ کی آمد و رفت ہے تم ابن ام مکتوم کے گھر عدت کا زمانہ گذارو وہ نابینا ہیں تمہیں دیکھ نہیں سکتے۔ طبرانی میں ہے یہ حضرت فاطمہ بنت قیس ضحاک بن قیس قرشی کی بہن تھیں ان کے خاوند مخزومی قبیلہ کے تھے، طلاق کی خبر کے بعد ان کے نفقطہ طلب کرنے پر ان کے خاوند کے اولیاء نے کہا تھا نہ تو تمہارے میاں نے کچھ بھیجا ہے نہ ہمیں دینے کو کہا ہے اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرمان میں یہ بھی مروی ہے کہ جب عورت کو وہ طلاق مل جائے جس کے بعد وہ اپنے اگلے خاوند پر حرام ہو جتای ہے جب تک دوسرے سے نکاح اور پھر طلاق نہ ہوجائے تو اس صورت میں عدت کا نان نفقہ اور رہنے کا مکان اس کے خاوند کے ذمہ نہیں۔