التحریم آية ۱
يٰۤاَيُّهَا النَّبِىُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَاۤ اَحَلَّ اللّٰهُ لَـكَۚ تَبْتَغِىْ مَرْضَاتَ اَزْوَاجِكَۗ وَاللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ
طاہر القادری:
اے نبئ (مکرّم!) آپ خود کو اس چیز (یعنی شہد کے نوش کرنے) سے کیوں منع فرماتے ہیں جسے اللہ نے آپ کے لئے حلال فرما رکھا ہے۔ آپ اپنی ازواج کی (اس قدر) دل جوئی فرماتے ہیں، اور اللہ بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے،
English Sahih:
O Prophet, why do you prohibit [yourself from] what Allah has made lawful for you, seeking the approval of your wives? And Allah is Forgiving and Merciful.
1 Abul A'ala Maududi
اے نبیؐ، تم کیوں اُس چیز کو حرام کرتے ہو جو اللہ نے تمہارے لیے حلال کی ہے؟ (کیا اس لیے کہ) تم اپنی بیویوں کی خوشی چاہتے ہو؟ اللہ معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے
2 Ahmed Raza Khan
اے غیب بتا نے والے (نبی) تم اپنے اوپر کیوں حرام کئے لیتے ہو وه چیز جو اللہ نے تمھارے لئے حلال کی اپنی بیبیوں کی مرضی چاہتے ہو اور اللہ بخشنے والا ٴ مہربان ہے،
3 Ahmed Ali
اے نبی آپ کیوں حرام کرتے ہیں جو الله نے آپ کے لیے حلال کیا ہے آپ اپنی بیویوں کی خوشنودی چاہتے ہیں اور الله بخشنے والا نہایت رحم والا ہے
4 Ahsanul Bayan
اے نبی! جس چیز کو اللہ نے آپ کے لئے حلال کر دیا ہے اسے آپ کیوں حرام کرتے ہیں؟ (۱) (کیا) آپ اپنی بیویوں کی رضامندی حاصل کرنا چاہتے ہیں اور اللہ بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے ۔
١۔١ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جس چیز کو اپنے لئے حرام کرلیا تھا، وہ کیا تھی؟ جس پر اللہ نے ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا۔ اس سلسلے میں ایک تو وہ مشہور واقعہ ہے جو صحیح بخاری و مسلم وغیرہ میں نقل ہوا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہ کے پاس کچھ دیر ٹھہرتے اور وہاں شہد پیتے، حضرت حفصہ اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما دونوں نے وہاں معمول سے زیادہ دیر تک آپ کو ٹھہرنے سے روکنے کے لئے یہ سکیم تیار کی کہ ان میں سے جس کے پاس بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائیں تو وہ ان سے کہے کہ اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے مغافیر (ایک قسم کا پھول جس میں گوشت مچھلی کی سی بو ہوتی ہے) کی بو آرہی ہے۔ چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، میں نے تو زینب رضی اللہ کے گھر صرف شہد پیا ہے۔ اب میں قسم کھاتا ہوں کہ یہ نہیں پیوں گا، لیکن یہ بات تم کسی کو مت بتلانا۔ صحیح بخاری۔ سنن نسائی میں بیان کیا گیا ہے کہ وہ ایک لونڈی تھی جس کو آپ نے اپنے اوپر حرام کرلیا تھا (سنن نسائی) جب کہ کچھ دوسرے علماء اسے ضعیف قرار دیتے ہیں اس کی تفصیل دوسری کتابوں میں اس طرح بیان کی گئی ہے کہ یہ حضرت ماریہ قبطیہ تھیں جن سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے ابراہیم تولد ہوئے تھے یہ ایک مرتبہ حضرت حفصہ کے گھر آگئی تھیں جب کہ حضرت حفصہ رضی اللہ موجود نہیں تھیں اتفاق سے انہی کی موجودگی میں حضرت حفصہ رضی اللہ آگئیں انہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے گھر میں خلوت میں دیکھنا ناگوار گزرا جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی محسوس فرمایا جس پر آپ نے حضرت حفصہ کو راضی کرنے کے لیے قسم کھا کر ماریہ رضی اللہ کو اپنے اوپر حرام کرلیا اور حفصہ رضی اللہ کو تاکید کی کہ وہ یہ بات کسی کو نہ بتلائے امام ابن حجر ایک تو یہ فرماتے ہیں کہ یہ واقعہ مختلف طرق سے نقل ہوا ہے جو ایک دوسرے کو تقویت پہنچاتے ہیں دوسری بات وہ یہ فرماتے ہیں کہ ممکن ہے بیک وقت دونوں ہی واقعات اس آیت کے نزول کا سبب بنے ہوں ۔ فتح الباری۔ امام شوکانی نے بھی اسی رائے کا اظہار کیا ہے اور دونوں کو صحیح قرار دیا ہے اس سے یہ بات واضح ہوئی کہ اللہ کی حلال کردہ چیز کو حرام کرنے کا اختیار کسی کے پاس بھی نہیں ہے حتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی یہ اختیار نہیں رکھتے ۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اے پیغمبر جو چیز خدا نے تمہارے لئے جائز کی ہے تم اس سے کنارہ کشی کیوں کرتے ہو؟ (کیا اس سے) اپنی بیویوں کی خوشنودی چاہتے ہو؟ اور خدا بخشنے والا مہربان ہے
6 Muhammad Junagarhi
اے نبی! جس چیز کو اللہ نے آپ کے لیے حلال کر دیا ہے اسے آپ کیوں حرام کرتے ہیں؟ (کیا) آپ اپنی بیویوں کی رضامندی حاصل کرنا چاہتے ہیں اور اللہ بخشنے واﻻ رحم کرنے واﻻ ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
اے نبی(ص)! جو چیز اللہ نے آپ کیلئے حلال قرار دی ہے آپ اسے اپنی بیویوں کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے (اپنے اوپر) کیوں حرام ٹھہراتے ہیں اور اللہ بڑا بخشنے والا، بڑا رحم کرنے والا ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
پیغمبر آپ اس شے کو کیوں ترک کررہے ہیں جس کو خدا نے آپ کے لئے حلال کیا ہے کیا آپ ازواج کی مرضی کے خواہشمند ہیں اور اللہ بہت بخشنے والا اور مہربان ہے
9 Tafsir Jalalayn
اے پیغمبر جو چیز خدا نے تمہارے لئے جائز کی ہے تم اس سے کنارہ کشی کیوں کرتے ہو ؟ کیا اس سے اپنی بیبیوں کی خوشنودی چاہتے ہو اور خدا بخشنے والا مہربان ہے
ترجمہ : شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے، اے نبی ! آپ کیوں حرام کرتے ہیں اس کو جس کو اللہ نے آپ کے لئے حلال کیا ہے ؟ یعنی اپنی باندی ماریہ قبطیہ (رض) کو جب کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے حفصہ (رض) کے گھر میں ہمبستری فرمائی، اور حفصہ (رض) موجود نہیں تھیں، اچانک آگئیں اور یہ بات ان کے گھر میں ان کے بستر پر ان کو گراں گزری، اس وقت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ھی حرام علی وہ میرے اوپر حرام ہے فرما دیا، اس کو حرام کر کے اپنی بیویوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے، اللہ بخشنے والا مہربان ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس حرام کرنے کو معاف فرما دیا، تحقیق کہ اللہ تعالیٰ نے تمہاری قسموں کو کفارہ دے کر جس کا سورة مائدہ میں ذکر ہے کھول ڈالنا فرض مشروع کیا ہے اور باندی کو حرام کرلینا بھی قسم میں داخل ہے ! کیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کفارہ ادا فرمایا (یا ادا نہیں فرمایا) مقاتل نے کہا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ماریہ (رض) کی تحریم کے سلسلہ میں ایک غلام آزاد فرمایا، اور حسن نے کہا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کفارہ ادا نہیں فرمایا، اس لئے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو بخشے بخشائے ہیں، اللہ تمہارا کارساز ہے اور وہی حکمت والا ہے اور یاد کرو اس وقت کو جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی بعض ازواج سے اور وہ حفصہ (رض) ہیں راز دارانہ طور پر ایک بات کہی اور وہ ماریہ قبطیہ (رض) کی تحریم کی بات تھی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے (حفصہ (رض) سے یہ بھی فرمایا کہ اس راز کو ظاہر نہ کرنا مگر اس نے اس بات کی عائشہرضی اللہ تعالیٰ عنھا کو خبر کردی یہ سمجھتے ہوئے کہ اس میں کوئی حرج نہیں ہے اور اللہ نے اپنے نبی کو اس بات سے آگاہ کردیا تھا تو نبی نے حفصہ کو تھوڑی سی بات تو بتادی اور تھوڑی ٹال گئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کرم (حسن خلق کی وجہ سے) سو پیغمبر نے اس بیوی کو وہ بات جتلا دی تو کہنے لگی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس کی خبر کس نے دی ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مجھے جاننے والے بڑے خبر رکھنے والے (اللہ) نے خبر دی اے حفصہ اور عائشہ ! اگر تم دونوں اللہ سے توبہ کرلو تو بہتر ہے، یقینا تم دونوں کے دل ماریہ (رض) کی تحریم کی طرف مائل ہوگئے ہیں یعنی ان کو (اس تحریم) نے خوش کیا حالانکہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ بات ناگوار گزری، اور یہ بات گناہ ہے اور جواب شرط محذوف ہے (ای تقبلا) اور قلبین پر قلوب کا اطلاق کیا، دونوں کو تثنیہ سے تعبیر نہیں کیا، دو تثنیوں کے کلمہ واحد کے مانند میں جمع ہونے کے ثقیل ہونے کی وجہ سے، اور اگر تم دونوں نبی کے خلاف اس چیز میں جس کو نبی ناپسند کرتا ہے مدد کرو گی تو اللہ اس کا مددگار ہے ھو ضمیر فصل ہے اور جبرائیل اور نیک اعمال والے ابوبکر (رض) و عمر (رض) و جبرئیل و صالح المؤمنون کا ان کے اسم کے محل پر عطف ہے تو یہ سب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مددگار ہیں اور اللہ اور مذکورین کی مدد کے علاوہ فرشتے اس کے مددگار ہیں یعنی تمہارے مقابلہ میں اس کی نصرت کے معاون (و مددگار ہیں) اگر نبی تم کو طلاق دیدے یعنی نبی اپنی ازواج کو طلاق دیدے، تو بہت جلد انہیں ان کا رب تمہارے عوض میں تم سے بہتر بیویاں عنایت فرمائے گا، (یبدلہ) دال کی تشدید و تخفیف کے ساتھ ہے (ازواجا) عسی کی خبر اور جملہ جواب شرط ہے اور شرط کے واقع نہ ہونے کی وجہ سے تبدیلی واقع نہیں ہوئی، جو اسلام لانے والیاں ہوں گی توبہ کرنے والیاں عبادت کرنے والیاں روزے رکھنے والیاں، ہجرت کرنے والیاں ہوں گی بیوہ اور کنواریاں ہوں گی اے ایمان والو ! اپنے آپ کو اور اپنے اہل کو اللہ کی اطاعت پر آمادہ کر کے نار جہنم سے بچائو جس کا ایندھن کافر انسان ہیں اور پتھر ہیں جیسا کہ پتھر کے بت عنی جہنم شدید حرارت والی ہے جس کو مذکورہ چیزوں سے جلایا گیا ہے نہ کہ دنیا کی آگ کے مانند جس کو لکڑی وغیرہ سے جلایا جاتا ہے جس کے نگراں سخت دل فرشتے ہیں جن کی تعداد انیس ہے جیسا کہ سورة مدثر میں آئے گا غلاظ، غلظ القلب سے ماخوذ ہے اور پکڑ کرنے کے اعتبار سے شدید ہیں جن کو جو حکم اللہ تعالیٰ دیتے ہیں اس کی نافرمانی نہیں کرتے (ما امر اللہ) لفظ اللہ سے بدل ہے مطلب یہ کہ وہ اللہ کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتے (بلکہ) جس بات کا حکم دیا جاتا ہے وہی کرتے ہیں یہ تاکید ہے اور آیت میں مومنین کے لئے ارتداد سے اور زبان سے نہ کہ دل سے ایمان لانے والے منافقین کے لئے ڈراوا ہے، اے کافرو ! تم آج عذر بہا نہ مت کرو ان سے یہ بات دوزخ میں داخلے کے وقت کہی جائے گی، یہ اس لئے کہ عذر و معذرت ان کو کوئی نفع نہ دے گی، تمہیں صرف تمہارے کرتوتوں کا بدلہ دیا جا رہا ہے۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
سورة تحریم کا دوسرا نام سورة النبی بھی ہے۔ (قرطبی)
قولہ : ماریۃ القبطیۃ یہ وہ باندی تھیں جنہیں مصر کے بادشاہ مقوقس نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں بطور ہدیہ پیش کیا تھا، یہ واقعہ ٧ ھ میں پیش آیا اور ان کے بطن سے ذی الحجہ ٨ ھ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرزند حضرت ابراہیم (رض) پیدا ہوئے تھے۔
قولہ : تحلۃ کھولنا، حلال کرنا حلل کا مصدر ہے۔
قولہ : جواب الشرط معذوف، ان تتوبا شرط ہے اور فقد صغت قلوبکما علت شرط ہے یعنی تم توبہ اس لئے کرو کہ تمہارے قلوب حق سے غیر حق کی طرف مائل ہوگئے ہیں، جواب شرط تقبلا محذوف ہے یعنی اگر تم توبہ کرو گی تو قبول کرلی جائے گی کما صرح بہ المفسر العلام، اور بعض حضرات نے یکن خیرا لکم جزاء محذوف مانی ہے۔
قولہ : اطلق قلوب علی قلبین الخ۔
سوال : قلوبکما میں تثنیہ کی جگہ قلوب جمع لایا گیا ہے حالانکہ قیاس کا تقاضہ قلباکما تھا اس لئے کہ دو آدمیوں کے دو ہی قلب ہوتے ہیں۔
جواب : مثل کلمہ واحدہ میں دو تثنیوں کا اجتماع ثقیل ہونے کی وجہ سے قلوب جمع لایا گیا ہے۔
سوال : مثل کلمہ واحدہ کیوں فرمایا نہ کہ کلمہ واحدہ ؟
جواب : مضاف اور مضاف الیہ حقیقت میں دو کلمے ہوتے ہیں مگر شدت اتصال کی وجہ سے مثل کلمہ واحدہ کے شمار ہوتے ہیں۔
قولہ : فان اللہ ھو مولاہ یہ شرط کی جزاء محذوف کی علت ہے وہ ناصر سے محروم اس لئے نہیں ہوگا کہ اللہ اس کا مولا اور ناصر ہے۔
قولہ : صالح اسم جنس ہے جس کا اطلاق واحد، تثنیہ، جمع سب پر ہوتا ہے اسی لئے اس کی صفت المومنون لانا صحیح ہے، کتاب میں مذکور ترکیب کے علاوہ ایک صورت یہ بھی جائز ہے کہ جبرئیل اور اس کے معطوفات مبتداء ہوں اور ظھیر بمعنی ظھراء مبتداء کی خبر۔
سوال : ظھیر خبر مفرد ہے اور مبتداء جمع ہے یہ جائز نہیں ہے۔
جواب : ظھیر فعیل کے وزن پر ہے اس وزن میں واحد، تثنیہ، جمع سب برابر ہوتے ہیں۔
قولہ : خبر عسی، ان یبدلہ ازواجا خیرا منکن، عسی کی خبر ہے اور ربہ، عسی کا اسم ہے عسی اپنے اسم و خبر سے مل کر جواب شرط ہے اور ان طلقکن شرط ہے، مگر اس صورت میں یہ اعتراض ہوگا کہ اس جملہ کا فعل جامد ہے اور جب جملہ اس قسم کا ہو تو اس پر فاء لازم ہوتی ہے حالانکہ یہاں فاء نہیں ہے، لہٰذا بہتر یہ ہے کہ جزاء محذوف مانی جائے اور اس جملہ کو دلیل جزاء قرار دیا جائے۔ (صاوی)
قولہ : قوا بروزن عوا امر جمع مذکر حاضر یہ اصل میں اوقیوا تھا۔
تفسیر و تشریح
شان نزول :
یایھا النبی لم تحرم ما احل اللہ لک (الآیۃ) اس آیت کے سبب نزول کے سلسلے میں چند اقوال ہیں، واحدی نے کہا ہے کہ اکثر مفسرین کا قول یہ ہے حضرت حفصہ (رض) کے گھر میں ماریہ قبطیہ (رض) کا واقعہ سبب نزول ہے، وقال القرطبی اکثر المفسرین علی ان الایت نزلت فی حفصۃ اور بعض مفسرین نے حضرت زینب بنت حجش (رض) کے گھر شہد پینے کے واقعہ کو سبب نزول قرار دیا ہے، اور بعض مفسرین نے اس عورت کے واقعہ کو شان نزول قرار دیا ہے جس نے خود کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہبہ کردیا تھا۔ (فتح القدیر، شوکانی)
فائدہ : ٦ ھ میں صلح حدیبیہ سے فارغ ہونے کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو خطوط اطراف و نواح میں بادشاہوں کو بھیجے تھے ان میں سے ایک اسکندریہ کے رومی بطریق کے نام بھی تھا جسے عرب میں مقوقس کہتے تھے، حضرت حاطب بن ابی بلتعہ (رض) یہ نامہ مبارک لیکر گئے تھے، حضرت حاطب (رض) جب اس کے پاس پہنچے تو اس نے اسلام تو قبول نہ کیا مگر حاطب (رض) کے ساتھ خوش اخلاقی اور حسن سلوک کے ساتھ پیش آیا اور جواب میں لکھا کہ مجھے یہ معلوم ہے کہ ابھی ایک نبی آنا باقی ہے لیکن میرا خیال یہ ہے کہ وہ شام میں نکلے گا تاہم میں آپ کے قاصد کے ساتھ احترام سے پیش آیا ہوں اور آپ کی خدمت میں دو لڑکیاں (باندیاں) بھیج رہا ہوں جو قبطیوں میں بڑا رتبہ رکھتی ہیں (ابن سعد) ان لڑکیوں میں سے ایک سیرین تھیں اور دوسری ماریہ (عیسائی حضرت مریم کو ماریہ کہتے ہیں) مصر سے واپسی پر حضرت حاطب (رض) نے دونوں کے سامنے اسلام پیش کیا، دونوں مشرف با اسلام ہوگئیں، جب دونوں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں پیش ہوئیں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سیرین حضرت حسان بن ثابت (رض) کو عطا فرما دیں اور حضرت ماریہ کو اپنے پاس رکھ لیا، ان ہی کے بطن سے ٨ ھ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صاحبزادے ابراہیم (رض) پیدا ہوئے۔ (الاستیعاب، الاصابہ) یہ خاتون نہایت خوبصورت تھیں، حافظ ابن حجر نے الاصابہ میں ان کے متعلق حضرت عائشہ (رض) کا یہ قول نقل کیا ہے کہ مجھے کسی عورت کا آنا اس قدر ناپسندنہ ہوا جتنا ماریہ (رض) کا آنا ہوا تھا، کیونکہ وہ حسین و جمیل تھیں اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بہت پسند آئی تھیں ان کے بارے میں متعدد طریقوں سے جو قصہ احادیث میں نقل ہوا ہے وہ مختصراً یہ ہے۔
حضرت ماریہ (رض) کا واقعہ :
آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی ازواج مطہرات کے لئے باری مقرر فرمائی تھی، حضرت حفصہ بنت عمر (رض) نے اپنی باری میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اپنے والدین کے گھر جانے کی اجازت چاہی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اجازت دیدی، اس کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ماریہ (رض) کو طلب فرمایا اور حضرت حفصہ (رض) ہی کے گھر ہم بستر ہوئے، حضرت حفصہ (رض) واپس آئیں تو دروازہ بند پایا دروازہ پر بیٹھ گئیں اور رونے لگیں جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) باہر تشریف لائے تو رونے کا سبب دریافت فرمایا، تو حضرت حفصہ (رض) نے عرض کیا، میری باری، میرا حجرہ، میرا بستر، میرے حق کی کچھ رعایت نہ کی گئی، کیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے اس لئے اجازت دی تھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حفصہ (رض) کو نرمی سے سمجھا کر خوش کیا اور فرمایا میں نے اسے حرام کرلیا، اور میرے بعد ابوبکر (رض) ان کے بعد عمر (رض) خلیفہ ہوں گے مگر یہ راز مخفی رہے (بخاری، بحوالہ خلاصۃ التفاسیر) یہی واقعہ مذکورہ آیت کے نزول کا سبب ہوا۔
حضرت زینب (رض) کا واقعہ :
صحیح بخاری وغیرہ میں حضرت عائشہ (رض) وغیرہ سے منقول ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا معمول تھا کہ عصر کے بعد کھڑے کھڑے سب بیویوں کے پاس (خبر گیری کے لئے) تشریف لے جایا کرتے تھے، ایک روز حضرت زینب (رض) کے پاس معمول سے زیادہ ٹھہرے اور شہد نوش فرمایا، تو مجھے رشک آیا اور میں نے حضرت حفصہ (رض) سے مشورہ کیا کہ ہم میں سے جس کے پاس بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائیں تو وہ یوں کہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مغافیر نوش فرمایا ہے (مغافیر ایک خاص قسم کا گوند ہوتا ہے جس میں کچھ بدبو ہوتی ہے) چناچہ ایسا ہی ہوا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جس بیوی کے پاس تشریف لے جاتے یہی بات سننے کو ملتی، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میں نے تو شہد پیا ہے، ان بیوی نے کہا شاید کوئی مکھی مغافیر کے درخت پر بیٹھی ہو اور اس کا رس چوسا ہو، اسی وجہ سے شہد میں بدبو آنے لگی ہو ؟ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بدبو کی چیزوں سے بہت زیادہ پرہیز فرماتے تھے اس لئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قسم کھالی کہ آئندہ میں شہد نہ پیوں گا اور اس خیال سے کہ زینب (رض) کو یہ بات ناگوار ہو اس بات کے اخفاء کی تاکید فرمائی مگر ان صاحبہ نے دوسری بیوی سے کہہ دیا، بعض روایات میں ہے کہ حضرت حفصہ (رض) شہد پلانے والی ہیں اور حضرت عائشہ (رض) اور سودہ (رض) وصفیہ (رض) صلاح و مشورہ کرنے والی ہیں اور بعض روایات میں یہ قصہ دوسری طرح بھی آیا ہے۔ ممکن ہے کہ کئی واقعات ہوں اور ان کے بعد یہ آیت نازل ہوئی ہو۔ (معارف)
اکابر اہل علم نے ان دونوں قصوں میں سے اسی دوسرے قصے کو صحیح قرار دیا ہے، امام نسائی فرماتے ہیں کہ شہد کے معاملہ میں حضرت عائشہ کی حدیث نہایت صحیح ہے، اور حضرت ماریہ (رض) کو حرام کرلینے کا قصہ کسی عمدہ طریق سے نقل نہیں ہوا، قاضی عیاض فرماتے ہیں یہ آیت حضرت ماریہ کے معاملہ میں نہیں بلکہ شہد کے معاملہ میں نازل ہوئی ہے، قاضی ابوبکر ابن عربی شہد ہی کے قصے کو صحیح قرار دیتے ہیں، اور یہی رائے امام نووی اور حافظ بدر الدین عینی کی ہے، ابن کثیر فرماتے ہیں کہ صحیح بات یہ ہے کہ یہ آیت شہد کو اپنے اوپر حرام کرلینے کے بارے میں نازل ہوئی، ابن ہمام صاحب فتح القدیر نے بھی اسی کو راجح قرار دیا ہے۔
یایھا النبی لم تحرم ما احل اللہ لک (الآیۃ) اس آیت میں بھی قرآن کے عام اسلوب کے مطابق آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نام لیکر خطاب فرمانے کے بجائے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اعزازی لقب یایھا النبی سے خطاب فرمایا ہے، فرمایا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی ازواج کی خوشنودی اور رضا جوئی کے لئے اپنے اوپر حلال چیز کو حرام فرما کر کیوں تنگی کرتے ہیں یایھا النبی لم تحرم میں اگرچہ صورت استفہام کی ہے مگر مقصد ناپسندیدگی کا اظہار ہے یہ کلام اگرچہ ازروئے شفقت ہوا مگر صورت جواب طلبی کی تھی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس بات پر تنبیہ کہ اللہ کی حلال کی ہوئی چیز کو اپنے اوپر حرام کرلینے کا جو فعل آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے صادر ہوا ہے وہ اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہے، اس سے یہ بات خود بخود ظاہر ہوتی ہے کہ اللہ نے جس چیز کو حلال کیا ہے اسے حرام کرنے کا اختیار کسی کو بھی نہیں ہے حتیٰ کہ خود نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی نہیں ہے، اگرچہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس چیز کو نہ عقیدۃ حرام سمجھا تھا اور نہ اسے شرعاً حرام قرار دیا تھا، بلکہ صرف اپنی ذات پر اس کے استعمال کو ممنوع کرلیا تھا، لیکن چونکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حیثیت ایک عام آدمی کی نہیں بلکہ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تھی، اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کسی چیز کو اپنے اوپر حرام کرلینے سے یہ خطرہ پیدا ہوسکتا تھا کہ امت بھی اس شئے کو حرام یا کم از کم مکروہ سمجھنے لگے، یا امت کے افراد یہ خیال کرنے لگیں کہ اللہ کی حلال کی ہوئی چیز کو اپنے اوپر حرام کرلینے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، اس لئے اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس فعل پر مشفقانہ گرفت فرمائی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس تحریم سے باز رہنے کا حکم دیا۔
کسی حلال چیز کو اپنے اوپر حرام کرنے کی تین صورتیں ہیں، (١) اگر کوئی شخص کسی حلال قطعی کو عقیدۃً حرام قرار دے تو یہ کفر اور گناہ عظیم ہے (٢) اور اگر عقیدۃً حرام نہ سمجھے مگر بلاکسی ضرورت و مصلحت کے قسم کھا کر اپنے اوپر حرام کرلے تو یہ گناہ ہے، اس قسم کو توڑنا اور کفارہ ادا کرنا واجب ہے اور اگر کسی ضرورت و مصلحت سے ہو تو جائز ہے مگر خلاف اولیٰ ہے (٣) تیسری صورت یہ کہ نہ عقیدۃً حرام سمجھے نہ قسم کھا کر اپنے اوپر حرام کرے مگر عملاً اس کو ترک کرنے کا دل میں عزم کرلے، یہ عزم اگر اس نیت سے کرے کہ اس کا دائمی ترک باعث ثواب ہے تب تو یہ بدعت اور رہبانیت ہے جو شرعاً گناہ اور مذموم ہے اور ترک دائمی کو ثواب سمجھ کر نہیں بلکہ اپنے کسی جسمانی یا روحانی مرض کے علاج کے طور پر کرتا ہے تو بلاکراہت جائز ہے جیسا کہ کوئی شوگر (شکر) کا مریض (شکر) کا استعمال ترک کر دے۔ (معارف)
واقعہ مذکورہ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قسم کھالی تھی نزول آیت کے بعد اس قسم کو توڑا اور کفارہ ادا کیا، جیسا کہ درمنثور کی روایت میں ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک غلام کفارہ قسم میں آزاد کیا۔ (ازبیان القرآن)
قد فرض اللہ لکم تحلۃ ایمانکم یعنی ایسی صورت میں جہاں قسم کا توڑنا ضروری یا مستحسن ہو تمہاری قسموں سے حلال ہونے یعنی قسم توڑ کر کفارہ ادا کردینے کا راستہ نکال دیا ہے، قسم کا یہ کفارہ سورة مائدہ آیت ٨٩ میں بیان کیا گیا ہے چناچہ آنحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی کفارہ ادا کیا۔ (کمامرانفا)
10 Tafsir as-Saadi
یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر عتاب ہے ،(یہ عتاب اس وقت فرمایا ہے) جب آپ نے اپنے آپ پر اپنی لونڈی ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا یا شہد کو، ایک معروف واقعے کے مطابق، اپنی بعض ازواج مطہرات کی دل جوئی کے لیے حرام ٹھہرا لیا جس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں :﴿یٰٓاَیُّہَا النَّبِیُّ﴾ اے وہ ہستی جس کو اللہ تعالیٰ نے نبوت، رسالت اور وحی کی نعمت سے سرفراز فرمایا !﴿ لِمَ تُحَرِّمُ مَآ اَحَلَّ اللّٰہُ لَکَ ﴾ آپ ان پاک چیزوں کو کیوں حرام ٹھہراتے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو اور آپ کی امت کو نوازا ہے؟﴿ تَبْتَغِي ﴾ ”آپ چاہتے ہیں۔“ اس تحریم کے ذریعے سے ﴿مَرْضَاتَ اَزْوَاجِکَ وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ﴾ ”اپنی بیویوں کی رضامندی اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔“
11 Mufti Taqi Usmani
aey nabi ! jo cheez Allah ney tumharay liye halal ki hai , tum apni biwiyon ki khushnoodi hasil kernay kay liye ussay kiyon haram kertay ho-? aur Allah boht bakhshney wala , boht meharban hai .
12 Tafsir Ibn Kathir
اس سورت کی ابتدائی آیتوں کے شان نزول میں مفسرین کے اقوال یہ ہیں (ا) بعض تو کہتے ہیں یہ حضرت ماریہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے انہیں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے اوپر حرام کرلیا تھا جس پر یہ آیتیں نازل ہوئیں، نسائی میں یہ روایت موجود ہے کہ حضرت عائشہ اور حضرت حفصہ کے کہنے سننے سے ایسا ہوا تھا کہ ایک لونڈی کی نسبت آپ نے یہ فرمایا تھا اس پر یہ آیتیں نازل ہوئیں، ابن جریر میں ہے کہ ام ابراہیم کے ساتھ آپ نے اپنی کسی بیوی صاحبہ کے گھر میں بات چیت کی جس پر انہوں نے کہا یا رسول اللہ میرے گھر میں اور میرے بستر پر ؟ چناچہ آپ نے اسے اپنے اوپر حرام کرلیا تو انہوں نے کہا یا رسول اللہ کہ حلال آپ پر حرام کیسے ہوجائے گا ؟ تو آپ نے قسم کھائی کہ اب ان سے اس قسم کی بات چیت نہ کروں گا۔ اس پر یہ آیت اتری، حضرت زید فرماتے ہیں اس سے معلوم ہوا کہ کسی کا یہ کہہ دینا کہ تو مجھ پر حرام ہے لغو اور فضول ہے، حضرت زید بن اسلم فرماتے ہیں آپ نے یہ فرمایا تھا کہ تو مجھ پر حرام ہے اللہ کی قسم میں تجھ سے صحبت داری نہ کروں گا۔ حضرت مسروق فرماتے ہیں پس حرام کرنے کے باپ میں تو آپ پر عتاب کیا گیا اور قسم کے کفارے کا حکم ہوا، ابن جریر میں ہے کہ حضرت ابن عباس نے حضرت عمر سے دریافت کیا کہ یہ دونوں عورتیں کون تھیں ؟ فرمایا عائشہ اور حفصہ اور ابتدا قصہ ام ابراہیم قطبیہ کے بارے میں ہوئی۔ حضرت حفضہ کے گھر میں ان کی باری والے دن حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے ملے تھے۔ جس پر حضرت حفضہ کو رنج ہوا کہ میری باری کے دن میرے گھر اور میرے بستر پر ؟ حضور نے انہیں رضامند کرنے اور منانے کے لئے کہہ دیا کہ میں اسے اپنے اوپر حرام کرتا ہوں، اب تم اس واقعہ کا ذکر کسی سے نہ کرنا لیکن حضرت حفضہ نے حضرت عائشہ سے واقعہ کہہ دیا کہ میں اسے اپنے اوپر حرام کرتا ہوں، اب تم اس واقعہ کا ذکر کسی سے نہ کرنا لیکن حضرت حفضہ نے حضرت عائشہ سے واقعہ کہہ دیا اللہ نے اس کی اطلاعق اپنے نبی کو دے دی اور یہ کل آیتیں نازل فرمائیں، آپ نے کفارہ دے کر اپنی قسم توڑ دی اور اس لونڈی سے ملے جلے، اسی واقعہ کو دلیل بنا کر حضرت عبداللہ بن عباس کا فتویٰ ہے کہ جو کہے فلاں چیز مجھ پر حرام ہے اسے قسم کا کفارہ دینا چاہئے، ایک شخص نے آپ سے یہی مسئلہ پوچھا کہ میں اپنی عورت کو اپنے اوپر حرام کرچکا ہوں تو آپ نے فرمایا وہ تجھ پر حرام نہیں، سب سے زیادہ سخت کفارہ اس کا تو راہ اللہ غلام آزاد کرنا ہے۔ امام احمد اور بہت سے فقہاء کا فتویٰ ہے کہ جو شخص اپنی بیوی، لونڈی یا کسی کھانے پینے پہننے اوڑھنے کی چیز کو اپنے اوپر حرام کرلے تو اس پر کفارہ واجب ہوجاتا ہے۔ امام شافعی وغیرہ فرماتے ہیں صرف بیوی اور لونڈی کے حرام کرنے پر کفارہ ہے کسی اور پر نہیں، اور اگر حرام کہنے سے نیت طلاق کی رکھی تو بیشک طلاق ہوجائے گی، اسی طرح لونڈی کے بارے میں اگر آزادگی کی نیت حرام کا لفظ کہنے سے رکھی ہے تو وہ آزاد ہوجائے گی۔ (2) ابن عباس سے مروی ہے کہ یہ آیت اس عورت کے باب میں نازل ہوئی ہے جس نے اپنا نفس آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہبہ کیا تھا، لیکن یہ غریب ہے، بالکل صحیح بات یہ ہے کہ ان آیتوں کا اترنا آپ کے شہد حرام کرلینے پر تھا۔ (3) صحیح بخاری میں اس آیت کے موقعہ پر کہ حضرت زینب بنت بخش (رض) کے گھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شہد پیتے تھے اور اس کی خاطر ذرا سی دیر وہاں ٹھہرتے بھی تھے اس پر حضرت عائشہ حضرت عائشہ اور حضرت حفضہ نے آپس میں مشورہ کیا کہ ہم میں سے جس کے ہاں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آئیں وہ کہے کہ یا رسول اللہ کہ آج تو آپ کے منہ سے گوند کی سی بدبو آتی ہے شاید آپ نے مغافیر کھایا ہوگا چناچہ ہم نے یہی کیا آپ نے فرمایا نہیں میں نے تو زینب کے گھر شہد پیا ہے اب قسم کھاتا ہو کہ نہ پیوں گا یہ کسی سے کہنا مت، امام بخاری اس حدیث کو کتاب الایمان والندوہ میں بھی کچھ زیادتی کے ساتھ لائے ہیں جس میں ہے کہ دونوں عورتوں سے یہاں مراد عائشہ اور حفصہ ہیں (رض) اور چپکے سے بات کہنا یہی تھا کہ میں نے شہد پیا ہے، کتاب الطلاق میں امام صاحب (رح) اس حدیث کو لائے ہیں۔ پھر فرمایا ہے مغافیر گوندے کے مشابہ ایک چیز ہے جو شور گھاس میں پیدا ہوتی ہے اس میں قدرے مٹھاس ہوتی ہے۔ صحیح خباری شریف کی کتاب الطلاق میں یہ حدیث حضرت عائشہ سے ان الفاظ میں مروی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مٹھاس اور شہد بہت پسند تھا عصر کی نماز کے بعد اپنی بیویوں کے گھر آتے اور کسی سے نزدیکی کرتے ایک مرتبہ آپ حضرت حفضہ کے گئے اور جتنا وہاں رکتے تھے اس سے زیادہ رکے مجھے غیرت سوار ہوئی تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ ان کی قوم کی ایک عورت نے ایک کپی شہد کے انہیں بطور ہدیہ کے بھیجی ہے، انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو شہد کا شربت پلایا اور اتنی دیر روک رکھا میں نے کہا خیر اس کسی حیلے سے ٹال دوں گی چناچہ میں نے حضرت سودہ بنت زمعہ سے کہا کہ تمہارے پاس جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آئیں اور قریب ہوں تو تم کہنا کہ آج کیا آپ نے مغافیر کھایا ہے آپ فرمائیں گے نہیں تم کہنا پھر یہ بدبو کیسی آتی ہے ؟ آپ فرمائیں گے مجھے حفضہ نے شہد پلایا تھا تو تم کہنا کہ شاید شہد کی مکھی نے عرفط نامی خار دار درخت چوسا ہوگا، میرے پاس آئیں گے میں بھی یہی کہوں گی، پھر اے صفیہ تمہارے پاس جب آئیں تو تم بھی یہی کنا، حضرت سودہ فرماتی ہیں جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے گھر آئے ابھی تو دروازے ہی پر تھے جو میں نے ارادہ کیا کہ تم نے جو مجھ سے کہا میں آپ سے کہہ دوں کیونکہ میں تم سے بہت ڈرتی تھی لیکن خیر اس وقت تو خاموش رہی جب آپ میرے پاس آئے میں نے تمہارا تمام کہنا پورا کردیا، پھر حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے پاس آئے میں نے بھی یہی کہا پھر حضرت صفیہ کے پاس گئے انہوں نے بھی یہی کہا پھر جب حضرت حفضہ کے پاس گئے تو حضرت حفضہ نے شہد کا شربت پلانا چاہا آپ نے فرمایا مجھے اس کی حاجت نہیں، حضرت سودہ فرمانے لگیں افسوس ہم نے اسے حرام کرا دیا میں نے کہا خاموش رہو، صحیح مسلم کی اس حدیث میں اتنی زیادتی اور ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بدبو سے سخت نفرت تھی اسی لئے ان بیویوں نے کہا تھا کہ آپ نے مغافیر کھایا ہے اس میں بھی قدرے بدبو ہوتی ہے، جب آپ نے جواب دیا کہ نہیں میں نے تو شہد پیا ہے تو انہوں نے کہہ دیا کہ پھر اس شہد کی مکھی نے عرفط درخت کو چوسا ہوگا جس کے گوند کا نام مغافیر ہے اور اس کے اثر سے اس شہد میں اس کی بو رہ گئی ہوگی، اس روایت میں لفظ جرست ہے جس کے معنی جوہری نے کئے ہیں کھایا اور شہد کی مکھیوں کو بھی جو راس کہتے ہیں اور جرس مد ہم ہلکی آواز کو کہتے ہیں، عرب کہتے ہیں جبکہ پرنددانہ چگ رہا ہو اور اس کی چونچ کی آواز سنائی دیتی ہو، ایک حدیث میں ہے پھر وہ جنتی پرندوں کی ہلکی اور میٹھی سہانی آوازیں سنیں گے، یہاں بھی عربی میں لفظ جرس ہے، اصمعی کہتے ہیں میں حضرت شعبہ کی مجلس میں تھا وہاں انہوں نے اس لفظ جرس کو جرش بڑی شین کے ساتھ پڑھا میں نے کہا چھوٹے سین سے ہے حضرت شعبہ نے میری طرف دیکھا اور فرمایا یہ ہم سے زیادہ اسے جانتے ہیں یہی ٹھیک ہے تم اصلاح کرلو، الغرض شہد نوشی کے واقعہ میں شہد پلانے والیوں میں دو نام مروی ہیں ایک حضرت حفضہ کا دوسرا حضرت زینب کا بلکہ اس امر پر اتفاق کرنے والیوں میں حضرت عائشہ کے ساتھ حضرت حفضہ کا نام ہے پس ممکن ہے یہ وہ واقعہ ہوں، یہاں تک تو ٹھیک ہے لیکن ان دونوں کے بارے میں اس آیت کا نازل ہونا ذرا غور طلب ہے واللہ اعلم، آپس میں اس قسم کا مشورہ کرنے والی حضرت عائشہ اور حضرت حفضہ تھیں یہ اس حدیث سے بھی معلوم ہوتا ہے جو مسند امام احمد میں حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے فرماتے ہیں مجھے مدتوں سے آرزو تھی کہ حضرت عمر سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ان دونوں بیوی صاحبان کا نام معلوم کروں جن کا ذکر آیت ان تتوبا الخ، میں ہے پس حج کے سفر میں جب خلیفتہ الرسول چلے تو میں بھی ہم رکاب ہو لیا ایک راستے میں حضرت عمر راستہ چھوڑ جنگل کی طرف چلے میں ڈولچی لئے ہوئے پیچھے پیچھے گیا آپ حاجت ضروری سے فارغی ہو کر آئے میں نے پانی ڈلوایا اور وضو کرایا، اب موقعہ پا کر سوال کیا کہ اے امیر المومنین جن کے بارے میں یہ آیت ہے وہ دونوں کون ہیں ؟ آپ نے فرمایا ابن عباس افسوس، حضرت زہری فرماتے ہیں حضرت عمر کو ان کا یہ دریافت کرنا برا معلوم ہوا لیکن چھپانا جائز نہ تھا اس لئے جواب دیا اس سے مراد حضرت عائشہ اور حضرت حفصہ ہیں (رض) پھر حضرت عمر نے واقعہ بیان کرنا شروع کیا کہ ہم قریش تو اپنی عورتوں کو اپنے زیر فرمان رکھتے تھے لیکن مدینہ آئے تو ہماری عورتوں نے بھی ان کی دیکھا دیکھی ہم پر غلبہ حاصل کرنا چاہا۔ میں مدینہ شریف کے بالائی حصہ میں حضرت امیہ بن زید کے گھر میں ٹھہرا ہوا تھا ایک مرتبہ میں اپنی بیوی پر کچھ ناراض ہوا اور کچھ کہنے سننے لگا تو پلٹ کر اس نے مجھے جواب دینے شروع کئے مجھے نہایت برا معلوم ہوا کہ یہ کیا حرکت ہے ؟ یہ نئی بات کیسی ؟ اس نے میرا تعجب دیکھ کر کہا کہ آپ کس خیال میں ہیں ؟ اللہ کی قسم آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیواں بھی آپ کو جواب دیتی ہیں اور بعض مرتبہ تو دن دن بھر بول چال چھوڑ دیتی ہیں اب میں تو ایک دوسری الجھن میں پڑگیا سیدھا اپنی بیٹی حفصہ کے گھر گیا اور دریافت کیا کہ کیا یہ سچ ہے کہ تم حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جواب دیتی ہو اور کبھی کبھی سارا سارا دن روٹھی رہتی ہو ؟ جواب ملا کہ سچ ہے۔ میں نے کہا کہ برباد ہوئی اور نقصان میں پڑی جس نے ایسا کیا۔ کیا تم اس سے غافل ہوگئیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے غصہ کی وجہ سے ایسی عورت پر اللہ ناراض ہوجائے اور وہ کہیں کی نہ رہے ؟ خبردار آئندہ سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کوئی جواب نہ دینا نہ آپ سے کچھ طلب کرنا جو مانگنا ہو مجھ سے مانگ لیا کرو، حضرت عائشہ کو دیکھ کر تم ان کی حرص نہ کرنا وہ تم سے اچھی اور تم سے بہت زیادہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی منظور نظر ہیں۔ اب اور سنو میرا پڑوسی ایک انصاری تھا اس نے اور میں نے باریاں مقرر کرلی تھیں ایک دن میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں گذارتا اور ایک دن وہ، میں اپنی باری والے دن کی تمام حدیثیں آیتیں وغیرہ انہیں آ کر سنا دیتا اور یہ بات ہم میں اس وقت مشہور ہو رہی تھی کہ غسانی بادشاہ اپنے فوجی گھوڑوں کے نعل لگوا رہا ہے اور اس کا ارادہ ہم پر چڑھائی کرنے کا ہے، ایک مرتبہ میرے ساتھی اپنی باری والے دن گئے ہوئے تھے عشاء کے وقت آگئے اور میرا دروازہ کھڑ کھڑا کر مجھے آوازیں دینے لگے میں گھبرا کر باہر نکلا دریافت کیا خریت تو ہے ؟ اس نے کہا آج تو بڑا بھاری کام ہوگیا میں نے کہا کیا غسانی بادشاہ آپہنچا ؟ اس نے کہا اس سے بھی بڑھ کر میں نے پوچھا وہ کیا ؟ کہا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی میں نے کہا افسوس حفصہ برباد ہوگئی اور اس نے نقصان اٹھایا مجھے پہلے ہی سے اس امر کا کھٹکا تھا صبح کی نماز پڑھتے ہی کپڑے پہن کر میں چلا سیدھا حفضہ کے پاس گیا دیکھا کہ وہ رو رہی ہیں میں نے کہا کیا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تمہیں طلاق دے دی ؟ جواب دیا یہ تو کچھ معلوم نہیں، آپ ہم سے الگ ہو کر اپنے اس بالا خانہ میں تشریف فرما ہیں میں وہاں گیا دیکھا کہ ایک حبشی غلام پہرے پر ہے میں نے کہا جاؤ میرے لئے اجازت طلب کرو وہ گیا پھر آ کر کہنے لگا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کچھ جواب نہیں دیا میں وہاں سے واپس چلا آیا مسجد میں گیا دیکھا کہ منبر کے پاس ایک گروہ صحابہ کا بیٹھا ہوا ہے اور بعض بعض کے تو آنسو نکل رہے ہیں، میں تھوڑی سی دیر بیٹھا لیکن چین کہاں پھر اٹھ کھڑا ہوا اور وہاں جا کر غلام سے کہا کہ میرے لئے اجازت طلبب کرو اس نے پھر آ کر یہی کہا کہ کچھ جواب نہیں ملا، میں دوبارہ مسجد چلا گیا پھر وہاں سے گھبرا کر نکلا یہاں آیا پھر غلام سے کہا غلام گیا آیا اور وہی جواب دیا میں واپس مڑا ہی تھا کہ غلام نے مجھے آواز دی کہ آیئے آپ کو اجازت مل گئی میں گیا دیکھا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک بورے پر ٹیک لگائے بیٹھے ہوئے ہیں جس کے نشان آپ کے جسم مبارک پر ظاہر ہیں میں نے کہا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا آپ نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے ؟ آپ نے سر اٹھا کر میری طرف دیکھا اور فرمایا نہیں، میں نے کہا اللہ اکبر ! یا رسول اللہ کہ بات یہ ہے کہ ہم قوم قریش تو اپنی بیویوں کو اپنے دباؤ میں رکھا کرتے تھے لیکن مدینے والوں پر ان کی بیویاں غالب ہیں یہاں آ کر ہماری عورتوں نے بھی ان کی دیکھا دیکھی یہی حرکت شروع کردی، پھر میں نے اپنی بیوی کا واقعہ اور میرا یہ خبر پا کر کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیوایں بھی ایسا کرتی ہیں یہ کہنا کہ کیا انہیں ڈر نہیں کہ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے غصہ کی وجہ سے اللہ بھی ان سے ناراض ہوجائے اور وہ ہلاک ہوجائیں بیان کیا اس پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسکرا دیئے۔ میں نے پھر اپنا حفصہ کے پاس جانا اور انہیں حضرت عائشہ کی ریس کرنے سے روکنا بیان کیا اس پر دوبارہ مسکرائے میں نے کہا اگر اجازت ہو تو ذرا سی دیر اور رک جاؤں ؟ آپ نے اجازت دی میں بیٹھ گیا اب جو سر اٹھا کر چاروں طرف نظریں دوڑائیں تو آپ کی بیٹھک (دربار خاص) میں سوائے تین خشک کھالوں کے اور کوئی چیز نہ دیکھی، آزردہ دل ہو کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دعا کیجئے کہ اللہ تعالیٰ آپ کی امت پر کشادگی کرے دیکھئے تو فارسی اور رومی جو اللہ کی عبادت ہی نہیں کرتے انہیں کس قدر دنیا کی نعمتوں میں وسعت دی گئی ہے ؟ یہ سنتے ہی آپ سنبھل بیٹھے اور فرمانے لگے اے ابن خطاب کیا تو شک میں ہے ؟ اس قوم کی اچھائیاں انہیں بہ عجلت دنیا میں ہی دے دی گئیں میں نے کہا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے لئے اللہ سے طلب بخشش کیجئے، بات یہ تھی کہ آپ نے سخت ناراضگی کی وجہ سے قسم کھالی تھی کہ مہینہ بھر تک اپنی بیویوں کے پاس نہ جاؤں گا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو تنبیہہ کی، یہ حدیث بخاری مسلم ترمذی اور نسائی میں بھی ہے، بخاری مسلم کی حدیث میں ہے ابن عباس فرماتے ہیں سال بھر اسی امید میں گذر گیا کہ موقعہ ملے تو حضرت عمر سے ان دونوں کے نام دریافت کروں لیکن ہیبت فاروقی سے ہمت نہیں پڑتی تھی یہاں تک کہ حج کی واپسی میں پوچھا پھر پوری حدیث بیان کی جو اوپر گذر چکی، صحیح مسلم میں ہے کہ طلاق کی شہرت کا واقعہ پردہ کی آیتوں کے نازل ہونے سے پہلے کا ہے، اس میں یہ بھی ہے حضرت عمر جس طرح حضرت حفضہ کے پاس جا کر انہیں سمجھا آئے تھے اسی طرح حضرت عائشہ کے پاس بھی ہو آئے تھے، اور یہ بھی ہے کہ اس غلام کا نام جو ڈیوڑھی پر پہرہ دے رہے تھے حضرت رباح تھا (رض) یہ بھی ہے کہ حضرت عمر نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا آپ عورتوں کے بارے میں اس مشقت میں کیوں پڑتے ہیں ؟ اگر آپ انہیں طلاق بھی دے دیں دیں تو آپ کے ساتھ اللہ تعالیٰ ، اس کے فرشتے، جبرائیل، میکائیل اور میں اور ابوبکر اور جملہ مومن ہیں، حضرت عمر فرماتے ہیں الحمد اللہ میں اس قسم کی جو بات کہتا مجھے امید لگی رہتی کہ اللہ تعالیٰ میری بات کی تصدیق نازل فرمائے گا، پس اس موقعہ پر بھی آیت تخبیر یعنی ( عَسٰى رَبُّهٗٓ اِنْ طَلَّقَكُنَّ اَنْ يُّبْدِلَهٗٓ اَزْوَاجًا خَيْرًا مِّنْكُنَّ مُسْلِمٰتٍ مُّؤْمِنٰتٍ قٰنِتٰتٍ تٰۗىِٕبٰتٍ عٰبِدٰتٍ سٰۗىِٕحٰتٍ ثَيِّبٰتٍ وَّاَبْكَارًا ) 66 ۔ التحریم :5) اور (وَاِنْ تَظٰهَرَا عَلَيْهِ فَاِنَّ اللّٰهَ هُوَ مَوْلٰىهُ وَجِبْرِيْلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِيْنَ ۚ وَالْمَلٰۗىِٕكَةُ بَعْدَ ذٰلِكَ ظَهِيْرٌ ) 66 ۔ التحریم :4) ، آپ پر نازل ہوئیں، مجھے جب آپ سے معلوم ہوا کہا آپ نے اپنی ازواج مطہرات کو طلاق نہیں دی تو میں نے مسجد میں آ کر دروازے پر کھڑا ہو کر اونچی آواز سے سب کو اطلاع دے دی کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ازواج مطہرات کو طلاق نہیں دی، اسی کے بارے میں آیت الخ آخر تک اتری یعنی جہاں انہیں کوئی امن کی یا خوف کی خبر پہنچی کہ یہ اسے شہرت دینے لگتے ہیں اگر یہ اس خبر کو رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یا ذی عقل و علم مسلمانوں تک پہنچا دیتے تو بیشک ان میں سے جو لوگ محقق ہیں وہ اسے سمجھ لیتے۔ حضرت عمر یہاں تک اس آیت کو پڑھ کر فرماتے پس اس امر کا استنباط کرنے والوں میں سے میں ہی ہوں اور بھی بہت سے بزرگ مفسرین سے مروی ہے کہ صالح المومنین سے مراد حضرت ابوبکر حضرت عمر ہیں، بعض نے حضرت عثمان کا نام بھی لیا ہے بعض نے حضرت علی کا۔ ایک ضعیف حدیث میں مرفوعاً صرف حضرت علی کا نام ہے لیکن سند ضعیف ہے اور بالکل منکر ہے، صحیح بخاری شریف میں ہے کہ آپ کی بیویاں غیرت میں آگئیں جس پر میں نے ان سے کہا کہ اگر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہیں طلاق دے دیں گے تو اللہ تعالیٰ تم سے بہتر بیویاں آپ کو دے گا پس میرے لفظوں ہی میں قرآن کی یہ آیت اتری، پہلے یہ بیان ہوچکا ہے کہ حضرت عمر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بہت سی باتوں میں قرآن کی موافقت کی جیسے پردے کے بارے میں بدری قیدیوں کے بارے میں مقام ابراہیم کو قبلہ ٹھہرانے کے بارے میں، ابن ابی حاتم کی روایت میں ہے کہ مجھے جب امہات المومنین کی اس رنجش کی خبر پہنچی تو ان کی خدم تمہیں میں گیا اور انہیں بھی کہنا شروع کیا یہاں تک کہ آخری ام المومنین کے پاس ہپنچا تو مجھے جواب ملا کہ کیا ہمیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خود نصیحت کرنے کے لئے کم ہیں جو تم آگئے ؟ اس پر میں خاموش ہوگیا لیکن قرآن میں آیت عسی ربہ الخ، نازل ہوئی، صحیح بخاری میں ہے کہ جواب دینے والی ام المومنین حضرت ام سلمہ تھیں۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں جو بات حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چپکے سے اپنی بیوی صاحبہ سے کہی تھی اس کا واقعہ یہ ہے کہ آپ حضرت حفضہ کی گھر میں تھے وہ تشریف لائیں اور حضرت ماریہ سے آپ کو مشغول پایا تو آپ نے انہیں فرمایا تم (حضرت) عائشہ کو خبر نہ کرنا میں تمہیں ایک بشارت سناتا ہوں میرے انتقال کے بعد میری خلافت (حضرت) ابوبکر کے بعد تمہارے والد آئیں گے۔ حضرت حفضہ نے حضرت عائشہ کو خبر کردی پس حضرت عائشہ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا اس کی خبر آپ کو کس نے پہنچائی ؟ آپ نے فرمایا مجھے علیم وخبیر اللہ نے خبر پہنچائی، صدیقہ نے کہا میں آپ کی طرف نہ دیکھوں گی جب تک کہا آپ ماریہ کو اپنے اوپر حرام نہ کرلیں آپ نے حرام کرلی اس پر آیت ( يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَآ اَحَلَّ اللّٰهُ لَكَ ۚ تَبْتَغِيْ مَرْضَاتَ اَزْوَاجِكَ ۭ وَاللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ ) 66 ۔ التحریم :1) ، نازل ہوئی (طبرانی) لیکن اس کی سند مخدوش ہے، مقصد یہ ہے کہ ان تمام روایات سے ان پاک آیتوں کی تفسی ظاہر ہوگئی۔ ترجمہ کی تفسیر تو ظاہر ہی ہے سائحات کی تفسیر ایک تو یہ ہے کہ روزے رکھنے والیاں ایک مرفوع حدیث میں بھی یہی تفسیر اس لفظ کی آئی ہے جو حدیث سورة برات کے اس لفظ کی تفسیر میں گذر چکی ہے کہ اس امت کی سیاحت روزے رکھنا ہے، دوسری تفسیر یہ ہے کہ مراد اس ہجرت کرنے والیاں، لیکن اول قول ہی اولیٰ ہے واللہ اعلم، پھر فرمایا ان میں سے بعض بیوہ ہوں گی اور بعض کنواریاں اس لئے جی خوش رہے، قسموں کی تبدیلی نفس کو بھلی معلوم ہوتی ہے، معجم طبرانی میں ابن یزید اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس آیت میں جو وعدہ فرمایا ہے اس سے مراد بیوہ سے تو حضرت آسیہ ہیں جو فرعون کی بیوی تھیں اور کنواری سے مراد حضرت مریم ہیں جو حضرت عمران کی بیٹی تھیں، ابن عساکر میں ہے کہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے اس وقت حضرت خدیجہ (رض) آپ کے پاس آئیں تو حضرت جبرائیل نے فرمایا اللہ تعالیٰ حضرت خدیجہ کو سلام کہتا ہے اور فرماتا ہے کہ انہیں خوشی ہو جنت کے ایک چاندی کے گھر کی جہاں نہ گرمی ہے نہ تکلیف ہے نہ شورو غل جو چھدے ہوئی موتی کا بنا ہوا ہے جس کے دائیں بائیں مریم بنت عمران اور آسیہ بنت مزاحم کے مکانات ہیں اور روایت میں ہے کہ حضرت خدیجہ کے انتقال کے وقت آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اے خدیجہ اپنی سوکنوں سے میرا سلام کہنا حضرت خدیجہ نے کہا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا مجھ سے پہلے بھی کسی سے نکاح کیا تھا ؟ آپ نے فرمایا نہیں مگر اللہ تعالیٰ نے مریم بنت عمران اور آسیہ زوجہ فرعون اور کلثوم بہن موسیٰ کی ان تینوں کو میرے نکاح میں دے رکھا ہے، یہ حدیث بھی ضعیف ہے، عمران اور آسیہ زوجہ فرعون اور کلثوم بہن موسیٰ کی ان تینوں کو میرے نکاح میں دے رکھا ہے، یہ حدیث بھی ضعیف ہے، حضرت ابو امامہ سے ابو یعلی میں مروی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کیا جانتے ہو اللہ تعالیٰ نے جنت میں میرا نکاح مریم بنت عمران کلثوم اخت موسیٰ اور آسیہ زوجہ فرعون سے کردیا ہے، میں نے کہا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کو مبارک ہو، یہ حدیث بھی ضعیف ہے اور ساتھ ہی مرسل بھی ہے۔