Skip to main content

يٰۤاَيُّهَا النَّبِىُّ جَاهِدِ الْكُفَّارَ وَالْمُنٰفِقِيْنَ وَاغْلُظْ عَلَيْهِمْۗ وَمَأْوٰٮهُمْ جَهَنَّمُۗ وَبِئْسَ الْمَصِيْرُ

O!
يَٰٓأَيُّهَا
اے
Prophet!
ٱلنَّبِىُّ
نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)
Strive
جَٰهِدِ
جہاد کیجئے
(against) the disbelievers
ٱلْكُفَّارَ
کافروں سے
and the hypocrites
وَٱلْمُنَٰفِقِينَ
اور منافقوں سے
and be stern
وَٱغْلُظْ
اور سختی کیجئے
with them
عَلَيْهِمْۚ
ان پر
And their abode
وَمَأْوَىٰهُمْ
اور ان کا ٹھکانہ
(is) Hell
جَهَنَّمُۖ
جہنم ہے
and wretched is
وَبِئْسَ
اور بدترین
the destination
ٱلْمَصِيرُ
ٹھکانہ ہے

تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:

اے نبیؐ، کفار اور منافقین سے جہاد کرو اور ان کے ساتھ سختی سے پیش آؤ ان کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ بہت برا ٹھکانا ہے

English Sahih:

O Prophet, strive against the disbelievers and the hypocrites and be harsh upon them. And their refuge is Hell, and wretched is the destination.

ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi

اے نبیؐ، کفار اور منافقین سے جہاد کرو اور ان کے ساتھ سختی سے پیش آؤ ان کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ بہت برا ٹھکانا ہے

احمد رضا خان Ahmed Raza Khan

اے غیب بتانے والے! (نبی) کافروں پر اور منافقوں پر جہاد کرو اور ان پر سختی فرماؤ، اور ان کا ٹھکانا جہنم ہے، اور کیا ہی برا انجام،

احمد علی Ahmed Ali

اے نبی کافروں اور منافقوں سے جہاد کر اور ان پر سختی کر اور انکا ٹھکانا دوزخ ہے اور وہ بہت ہی بری جگہ ہے

أحسن البيان Ahsanul Bayan

اے نبی! کافروں اور منافقوں سے جہاد کرو (٢) اور ان پر سختی کرو (۲) ان کا ٹھکانا جہنم ہے (۳) اور وہ بہت بری جگہ ہے۔

٩۔١ کفار کے ساتھ جہاد، و قتال کے ساتھ اور منافقین سے، ان پر حدود الٰہی قائم کرکے، جب وہ ایسے کام کریں جو موجب حد ہوں۔
۹۔۲ یعنی دعوت وتبلیغ میں سختی اور احکام شریعت میں درشتی اختیار کریں کیونکہ یہ لاتوں کے بھوت ہیں جو باتوں سے ماننے والے نہیں ہیں اس کا مطلب ہے کہ حکمت تبلیغ کبھی نرمی کی متقاضی ہوتی ہے اور کبھی سختی کی ہر جگہ نرمی بھی مناسب نہیں اور ہر جگہ سختی بھی مفید نہیں رہتی تبلیغ ودعوت میں حالات وظروف اور اشخاص وافراد کے اعتبار سے نرمی یا سختی کرنے کی ضرورت ہے ۔
۹۔۳ یعنی کافروں اور منافقوں دونوں کا ٹھکانا جہنم ہے ۔

جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry

اے پیغمبر! کافروں اور منافقوں سے لڑو اور ان پر سختی کرو۔ ان کا ٹھکانا دوزخ ہے۔ اور وہ بہت بری جگہ ہے

محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi

اے نبی! کافروں اور منافقوں سے جہاد کرو اور ان پر سختی کرو ان کا ٹھکانا جہنم ہے اور وه بہت بری جگہ ہے

محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi

اے نبی(ص)! کافروں اور منافقوں سے جہاد کیجئے اور ان پر سختی کیجئے اور ان کا ٹھکانہ جہنم ہے اور وہ بہت بری جائے بازگشت ہے۔

علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi

پیغمبر آپ کفر اور منافقین سے جہاد کریں اور ان پر سختی کریں اور ان کا ٹھکانا جہنّم ہے اور وہی بدترین انجام ہے

طاہر القادری Tahir ul Qadri

اے نبئ (مکرّم!) آپ کافروں اور منافقوں سے جہاد کیجئے اور اُن پر سختی فرمائیے، اور ان کا ٹھکانا جہنم ہے، اور وہ کیا ہی برا ٹھکانا ہے،

تفسير ابن كثير Ibn Kathir

تحفظ قانون کے لئے حکم جہاد
اللہ تعالیٰ اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیتا ہے کہ کافروں سے جہاد کر ہتھیاروں کے ساتھ اور منافقوں سے جہاد کر حدود اللہ جاری کرنے کے ساتھ، ان پر دنیا میں سختی کرو، آخرت میں بھی ان کا ٹھکانا جہنم ہے جو بدترین باز گشت ہے، پھر مثال دے کر سمجھایا کہ کافروں کا مسلمانوں سے ملنا جلنا خلط ملط رہنا انہیں ان کے کفر کے باوجود اللہ کے ہاں کچھ نفع نہیں دے سکتا، دیکھو دو پیغمبروں کی عورتیں حضرت نوح (علیہ السلام) کی اور حضرت لوط (علیہ السلام) کی جو ہر وقت ان نبیوں کی صحبت میں رہنے والی اور دن رات ساتھ اٹھنے بیٹھنے والی اور ساتھ ہی کھانے پینے بلکہ سونے جاگنے والی تھیں، لیکن چونکہ ایمان میں ان کی ساتھی نہ تھیں اور اپنے کفر پر قائم تھیں، پس پیغمبروں کی آٹھ پہر کی صحبت انہیں کچھ کام نہ آئی، انبیاء اللہ انہیں آخروی نفع نہ پہنچا سکے اور نہ آخروی نقصان سے بچا سکے، بلکہ ان عورتوں کو بھی دوزخیوں کے ساتھ جہنم میں جانے کو کہہ دیا گیا۔ یہ یاد رہے کہ خیانت کرنے سے مراد بدکاری نہیں، انبیاء (علیہم السلام) کی حرمت و عصمت اس سے بہت اعلیٰ اور بالا ہے کہ ان کی گھر والیاں فاحشہ ہوں، ہم اس کا پورا بیان سورة نور کی تفسیر میں کرچکے ہیں، بلکہ یہاں داد خیانت فی الدین یعنی دین میں اپنے خاوندوں کی خیانت کی ان کا ساتھ نہ دیا، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں ان کی خیانت زنا کاری نہتھی بلک ہیہ تھی کہ حضرت نوح (علیہ السلام) کی بیوی تو لوگوں سے کہا کرتی تھی کہ یہ مجنوں ہیں اور لوط (علیہ السلام) کی بیوی جو مہمان حضرت لوط کے ہاں آتے تو کافروں کو خبر کردیتی تھیں، یہ دونوں بد دین تھیں نوح (علیہ السلام) کی راز داری اور پوشیدہ طور پر ایمان لانے والوں کے نام کافروں پر ظاہر کردیا کرتی تھیں، اسی طرح حضرت لوط (علیہ السلام) کی بیوی بھی اپنے خاوند اللہ کے رسول (علیہ السلام) کی مخالف تھیں اور جو لوگ آپ کے ہاں مہمان بن کر ٹھہرتے یہ جا کر اپنی کافر قوم کو خبر کردیتی جنہیں بد عمل کی عادت تھی، بلکہ حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے مروی ہے کہ کسی پیغمبر کی کسی عورت نے کبھی بدکاری نہیں کی، اسی طرح حضرت عکرمہ حضرت سعید بن جیر حضرت ضحاک وغیرہ سے بھی مروی ہے، اس سے استدلال کر کے بعض علماء نے کہا ہے کہ وہ جو عام لوگوں میں مشہور ہے کہ حدیث میں ہے جو شخص کسی ایسے کے ساتھ کھائے جو بخشا ہوا ہو اسے بھی بخش دیا جاتا ہے، یہ حدیث بالکل ضعیف ہے اور حقیقت بھی یہی ہے کہ یہ حدیث محض بےاصل ہے، ہاں ایک بزرگ سے مروی ہے کہ انہوں نے خواب میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زیارت کی اور پوچھا کہ کیا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ حدیث ارشاد فرمائی ہے ؟ آپ نے فرمایا نہیں لیکن اب میں کہتا ہوں۔