الاعراف آية ۱
الٓـمّٓـصٓ ۚ
طاہر القادری:
الف، لام، میم، صاد (حقیقی معنی اﷲ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں)،
English Sahih:
Alif, Lam, Meem, Sad.
1 Abul A'ala Maududi
ا، ل، م، ص
2 Ahmed Raza Khan
المص
3 Ahmed Ali
المصۤ
4 Ahsanul Bayan
المص
5 Fateh Muhammad Jalandhry
المص
6 Muhammad Junagarhi
المص
7 Muhammad Hussain Najafi
الف، لام، میم، ص۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
الۤمۤصۤ
9 Tafsir Jalalayn
المص
آیت نمبر ١ تا ١٠
ترجمہ : شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے (المص) اس سے اپنی مراد کو اللہ ہی بہتر جانتا ہے، یہ ایک کتاب ہے جو آپ پر نازل کی گئی ہے، اس میں آپ کو خطاب ہے تاکہ آپ اس کے ذریعہ لوگوں کو ڈرائیں (لتُنذِرَ ) اُنْزِلَ کے متعلق ہے، ای اُنزِل لِلْانذار، لہٰذا اس کی تبلیغ سے اس خوف سے کہ آپ کی تکذیب کی جائے گی آپ کو کوئی جھجک نہ ہونی چاہیے، اور (تاکہ) اس کے ذریعہ مومنوں کو نصیحت ہو، ان سے کہو، جو قرآن تمہارے رب کی طرف سے تمہارے لئے اتارا گیا ہے اس کی اتباع کرو، اور اللہ کو چھوڑ کر غیر اللہ کو سرپرست نہ بناؤ کہ اللہ کی معصیت میں ان کی اطاعت کرو، تم بہت کم نصیحت حاصل کرتے ہو (یذکرون) تاء اور یاء کے ساتھ بمعنی یَتّعِظوْنَ ، اور اس میں اصل میں تاء کا ذال میں ادغام ہے اور ایک قراءت میں ذال کے سکون کے ساتھ ہے اور مَا قلّت کی تاکید کیلئے زائدہ ہے، اور بہت سی بستیوں کو کم خبر یہ مفعول ہے، اور بستی سے مراد اہل بستی ہیں ہم نے تباہ کردیا، (یعنی) جن بستیوں کو ہم نے برباد کرنے کا ارادہ کیا ان کو برباد کردیا، اور ان پر ہمارا عذاب رات کے وقت آپہنچا، یا ایسی حالت میں کہ وہ دوپہر کے وقت آرام کر رہے تھے، قیلولہ، دوپہر کے وقت آرام کرنے کو کہتے ہیں، اگرچہ اس میں سونا نہ ہو، مطلب یہ کہ (عذاب) کبھی دن میں اور کبھی رات میں آیا، جب ان پر ہمارا عزان آیا تو ان کے منہ سے بجز اس بات کے کوئی بات نہ نکلی کہ واقعی ہم ظالم تھے، پھر ہم ان لوگوں سے ضرور باز پرس کریں گے جن کے پاس رسول بھیجے گئے تھے یعنی ہم امتیوں سے (ان کے) رسولوں کی دعوت قبول کرنے اور جو انہوں نے ان کو تبلیغ کی، اس پر عمل کرنے کے بارے میں (ضرور باز پرس کریں گے) اور پیغام پہنچانے کے بارے میں رسولوں سے (بھی) ضرور سوال کریں گے پھر ہم پورے علم کے ساتھ ان کی عملی سرگرمیوں کی ان کو خبر دیں گے، (ہمارے) ان کے اعمال سے باخبر ہونے کی وجہ سے ان کو پوری تفصیل بتادیں گے، (آخر) ہم کہیں رسولوں کی تبلیغ اور گذشتہ امتوں کے کارناموں سے بیخبر تو نہیں تھے، اور اعمال کا یا اعمال ناموں کا ایسی ترازو سے کہ جس کا (ایک) کانٹا اور دو پلڑے ہوں گے، جیسا کہ حدیث میں وارد ہوا ہے، ایسے دن میں یعنی سوال مذکور کے دن میں کہ وہ قیامت کا دن ہوگا عدل کے ساتھ (اعمال) کا وزن ہوگا، العدل، الوزن کی صفت ہے، سو جن لوگوں کی نیکیوں کا پلڑا بھاری ہوگا ایسے ہی لوگ کامیاب ہوں گے اور جن لوگوں کی نیکیوں کا پلڑا برائیوں کی وجہ سے ہلکا ہوگا یہی ہیں وہ لوگ جو خود کو جہنم رسید کرنے کی وجہ سے اپنا نقصان کرنے والے ہوں گے، اس وجہ سے کہ وہ ہماری آیتوں کی تکذیب کرکے ظالمانہ برتاؤ کرتے رہے، اے بنی آدم ہم نے تم کو زمین میں بااختیار سکونت دی اور ہم نے تمہارے لئے اس میں اسباب معیشت پیدا کئے جن کے ذریعہ تم زندگی گذارتے ہو، مَعَائش مَعِیْشَۃ کی جمع ہے، تم لوگ بہت ہی کم شکر گزار ہو، مَا، تاکید قلت کیلئے ہے۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : للانذار، اس میں اشارہ ہے کہ لِتُنْزِرَ میں لام کے بعد اَن مصدریہ مقدر ہے لہٰذا یہ شبہ بھی ختم ہوگیا کہ لِتُنْذِرَ میں فعل پر حرف جرد اخل ہے، فلا یکن فی صَدْرک حرج مِنہ، علت اور معلول کے درمیان یہ جملہ معترضہ ہے۔
قولہ : وذِکریٰ یہ کتابٌ پر معطوف ہونے کی وجہ سے تقدیراً مرفوع، یہ اسم مصدر ہے، تقدیر عبارت یہ ہے، ھذا کتابٌ وتذکرۃ للمؤمنین
قولہ : قُلْ لھم، یہ ایک سوال کا جواب کی طرف اشارہ ہے کہ ما سبق میں خطاب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہے پھر اچانک روئے خطاب دیگر مخاطبین کی طرف ہوگیا اس کی بظاہر نہ کوئی وجہ ہے اور نہ قرینہ، اسی کے جواب کیلئے قل لَھم، محذوف مان کر التفات کو صحیح قرار دیا ہے
قولہ : خَبَرِیّۃٌ مفعولٌ، یعنی کم خبر یہ فعل محذوف کا مفعول واقع ہے اور علی شریطۃ التفسیر کے قبیل سے ہے تقدیر عبارت یہ ہے، اَوْ اَھْلَکنا کَم من قریۃٍ اَھْلکناھا۔
قولہ : اَرَدْنَا۔ سوال : اَھْلکنا سے پہلے اَرَدْنا محذوف ماننے سے کیا فائدہ ہے ؟
جواب : مفسر علام نے اَرَدْنا محذوف مان کر ایک سوال کا جواب دیا ہے، سوال کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے قول کم من قریۃ اَھْکناھا سے معلوم ہوتا ہے کہ اہلاک مقدم ہے اور فجاء ھنا باسنا مؤخر ہے، یعنی اہلاک جو کہ مسبب ہے وہ مقدم ہے اور مجیئ بأس جو کہ سبب ہے وہ مؤخر ہے حالانکہ سبب مسبب سے مقدم ہوتا ہے یعنی عذاب کی آمد مقدم ہوتی ہے اور ہلاکت بعد میں ہوتی ہے، آیت سے اسکا عکس مفہوم ہوتا ہے، علماء مفسرین نے اس کے مختلف جواب دئیے ہیں، ان ہی میں سے ایک جواب مفسر علام نے اردنا محذوف مان کردیا ہے یعنی ہم نے ان کے ہلاک کرنے کا ارادہ کیا تو ہمارا ان پر عذاب آیا، تقدیر عبارت یہ ہے اَرَدْنا اھلاکھا فجائھا باسُنا، مگر یہاں اب بھی یہ سوال باقی ہے کہ فجاء ھنا میں فاء تعقیبیہ ہے جو عذاب کے ہلاکت سے بعد آنے پر دلالت کرتی ہے لہذٰا سابق سوال علی حالہٖ باقی ہے
جواب : فاء کبھی تفسیر کیلئے بھی آتی ہے اسلئے کہ ہلاکت کے مختلف اسباب ہوسکتے ہیں مثلاً کبھی موت طبعی اسباب سے ہوتی ہے کبھی آگ میں جل کر ہوتی ہے تو کبھی پانی غرق ہو کر ہوتی ہے وغیرہ وغیرہ، فَجَاءھا باسنا کہہ کر سبب موت کی تفسیر کردی کہ موت ہمارے عذاب کی وجہ سے ہوئی۔
قولہ : مَرّۃً جَاءَھَا لَیْلاً وَمَرَّۃً نھارًا، اس میں اشارہ ہے کہ اَوْ تنویع کیلئے ہے نہ کہ شک کیلئے اسلئے کہ اللہ کی ذات شک و تردد سے پاک ہے
سوال : ایک حال کا جب دوسرے حال پر عطف کیا جاتا ہے تو واؤ عاطفہ لانا ضروری ہوتا ہے یہاں اوھم قائلون کا بیَاناً پر عطف ہے لہٰذا درمیان میں واؤ عاطفہ کا ہونا ضروری ہے۔
جواب : اَوْ تنویع کے لئے ہے جو کہ درحقیقت حرف عطف ہی ہے اگر واؤ عاطفہ بھی لایا جاتا تو تقدیر عبارت یہ ہوتی اَوْھم قائلون، واؤ کو حذف کردیا اسلئے کہ دو حروف عطف کا اجتماع ثقیل ہوتا ہے۔
قولہ : اَوْ لِصحائفِھَا، اعمال کے بعد صحائف امال کا اضافہ اس سوال کا جواب ہے کہ اعمال چونکہ اعراض ہیں لہٰذا ان کا وزن ممکن نہیں ہے جواب کا حاصل یہ ہے کہ یہاں مضاف محذوف ہے تقدیر عبارت صحائف اعمال ہے، اور صحائف اعمال کے وزن میں کوئی اعتراض نہیں ہے۔
قولہ : لِسَانُ المِیْزَانِ ، لسان المیزان سے غالبًا وہ سوئی یا کانٹا مراد ہے جو دونوں پلڑوں کی برابری کو بتاتا ہے جب دونوں پلڑے بالکل مساوی ہوجاتے ہوں تو وہ لسان (کانٹا) بالکل ٹھیک وسط میں آجاتا ہے۔ (واللہ اعلم بالصواب)
قولہ : کائن، اس کی تقدیر میں اشارہ ہے کہ الوزن مبتداء ہے اور یومَئذٍ ، کائنٌ کے متعلق ہو کر مبتداء کی خبر ہے۔
قولہ : صِفَۃُ الْوَزْنِ اس میں ان لوگوں پر رد ہے جو، الحقُ ، کو اَلْوَزْنُ مبتداء کی خبر قرار دیتے ہیں اسلئے کہ اس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ وزن اسی دن حق ہے نہ کہ اس کے علاوہ میں اور یہ غلط ہے۔
تفسیر و تشریح
سورت کا نام اور وجہ تسمیہ : اس سورت کا نام سورة اعراف ہے اور یہ نام اس لئے رکھا گیا ہے کہ اس کی آیات نمبر ٤٦۔ ٤٧ میں اعراف اور اصحاب اعراف کا ذکر آیا ہے۔
مرکزی مضمون : پوری سورت پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے مضامین معاد یعنی آخرت اور نبوت و رسالت سے متعلق ہیں اور یہی اس سورت کا مرکزی مضمون ہے اس کے علاوہ بعض انبیاء سابقین کے حالات اور ان کی امتوں کے واقعات اور ان کی جزاء و سزا کا بھی قدرے تفصیل سے ذکر ہے۔
المص، کی مراد کے بارے میں اگرچہ مختلف اقوال منقول ہیں مگر مفسر علام نے اللہ اعلم بمرادہ بذلک کہہ کر حروف مقطعات کے بارے میں احوط اور اسلم طریقہ کی طرف خود اشارہ کردیا ہے لہٰذا اس کی حقیقی مراد کو اللہ کے علم کے حوالہ کرنا ہی محتاط اور اسلاف کا طریقہ ہے۔
10 Tafsir as-Saadi
...
11 Mufti Taqi Usmani
Alif-Laam-Meem-Suad
12 Tafsir Ibn Kathir
اس سورت کی ابتداء میں جو حروف ہیں، ان کے متعلق جو کچھ بیان ہمیں کرنا تھا، اسے تفصیل کے ساتھ سورة بقرہ کی تفسیر کے شروع میں مع اختلاف علماء کے ہم لکھ آئے ہیں۔ ابن عباس سے اس کے معنی میں مروی ہے کہ اس سے مراد حدیث ( انا اللہ افضل) ہے یعنی میں اللہ ہوں میں تفصیل وار بیان فرما رہا ہوں، سعید بن جبیر سے بھی یہ مروی ہے، یہ کتاب قرآن کریم تیری جانب تیرے رب کی طرف سے نازل کی گئی ہے، اسمیں کوئی شک نہ کرنا، دل تنگ نہ ہونا، اس کے پہنچانے میں کسی سے نہ ڈرنا، نہ کسی کا لحاظ کرنا، بلکہ سابقہ اولوالعزم پیغمبروں کی طرح صبرو استقامت کے ساتھ کلام اللہ کی تبلیغ مخلوق الٰہی میں کرنا، اس کا نزول اس لئے ہوا ہے کہ تو کافروں کو ڈرا کر ہوشیار اور چوکنا کر دے، یہ قرآن مومنوں کیلئے نصیحت و عبرت وعظ و پند ہے۔ اس کے بعد تمام دنیا کو حکم ہوتا ہے کہ اس نبی امی کی پوری پیروی کرو، اس کے قدم بہ قدم چلو، یہ تمہارے رب کا بھیجا ہوا ہے، کلام اللہ تمہارے پاس لایا ہے وہ اللہ تم سب کا خالق مالک ہے اور تمام جان داروں کا رب ہے، خبردار ہرگز ہرگز نبی سے ہٹ کر دوسرے کی تابعداری نہ کرانا ورنہ حکم عدولی پر سزا ملے گی، افسوس تم بہت ہی کم نصیحت حاصل کرتے ہو۔ جیسے فرمان ہے کہ گو تم چاہو لیکن اکثر لوگ اپنی بےایمانی پر اڑے ہی رہیں گے۔ اور آیت میں ہے (وَاِنْ تُطِعْ اَكْثَرَ مَنْ فِي الْاَرْضِ يُضِلُّوْكَ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ۭ اِنْ يَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَاِنْ هُمْ اِلَّا يَخْرُصُوْنَ 116) 6 ۔ الانعام) یعنی " اگر تو انسانوں کی کثرت کی طرف جھک جائے گا تو وہ تجھے بہکا کر ہی چین لیں گے "۔ سورة یوسف میں فرمان ہے " اکثر لوگ اللہ کو مانتے ہوئے بھی شرک سے باز نہیں رہتے۔ "