الاعراف آية ۱۵۸
قُلْ يٰۤاَيُّهَا النَّاسُ اِنِّىْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَيْكُمْ جَمِيْعًا لَّذِىْ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۚ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ يُحْىٖ وَيُمِيْتُ ۖ فَاٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَرَسُوْلِهِ النَّبِىِّ الْاُمِّىِّ الَّذِىْ يُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَكَلِمٰتِهٖ وَاتَّبِعُوْهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ
طاہر القادری:
آپ فرما دیں: اے لوگو! میں تم سب کی طرف اس اللہ کا رسول (بن کر آیا) ہوں جس کے لئے تمام آسمانوں اور زمین کی بادشاہت ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہی جلاتا اور مارتا ہے، سو تم اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لاؤ جو (شانِ اُمیّت کا حامل) نبی ہے (یعنی اس نے اللہ کے سوا کسی سے کچھ نہیں پڑھا مگر جمیع خلق سے زیادہ جانتا ہے اور کفر و شرک کے معاشرے میں جوان ہوا مگر بطنِ مادر سے نکلے ہوئے بچے کی طرح معصوم اور پاکیزہ ہے) جو اللہ پر اور اس کے (سارے نازل کردہ) کلاموں پر ایمان رکھتا ہے اور تم انہی کی پیروی کرو تاکہ تم ہدایت پا سکو،
English Sahih:
Say, [O Muhammad], "O mankind, indeed I am the Messenger of Allah to you all, [from Him] to whom belongs the dominion of the heavens and the earth. There is no deity except Him; He gives life and causes death." So believe in Allah and His Messenger, the unlettered prophet, who believes in Allah and His words, and follow him that you may be guided.
1 Abul A'ala Maududi
اے محمدؐ، کہو کہ "اے انسانو، میں تم سب کی طرف اُس خدا کا پیغمبر ہوں جو زمین اور آسمانوں کی بادشاہی کا مالک ہے، اُس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے، وہی زندگی بخشتا ہے اور وہی موت دیتا ہے، پس ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے بھیجے ہوئے نبی اُمی پر جو اللہ اور اس کے ارشادات کو مانتا ہے، اور پیروی اختیار کرو اُس کی، امید ہے کہ تم راہ راست پا لو گے"
2 Ahmed Raza Khan
تم فرماؤ اے لوگو! میں تم سب کی طرف اس اللہ کا رسول ہوں کہ آسمانوں اور زمین کی بادشاہی اسی کو ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں جلائے اور مارے تو ایمان لاؤ اللہ اور اس کے رسول بے پڑھے غیب بتانے والے پر کہ اللہ اور اس کی باتوں پر ایمان لاتے ہیں اور ان کی غلامی کرو کہ تم راہ پاؤ،
3 Ahmed Ali
کہہ دو اے لوگو تم سب کی طرف الله کا رسول ہوں جس کی حکومت آسمانوں اور زمین میں ہے اس کے سوا اور کوئی معبود نہیں وہی زندہ کرتا اور مارتا ہے پس الله پر ایمان لاؤ اوراس کے رسول نبی امی پر جو کہ الله پر اور اس کے سب کلاموں پر یقین رکھتا ہے اور اس کی پیروی کرو تاکہ تم راہ پاؤ
4 Ahsanul Bayan
آپ کہہ دیجئے کہ اے لوگو! میں تم سب کی طرف سے اس اللہ کا بھیجا ہوا ہوں، جس کی بادشاہی تمام آسمانوں پر اور زمین میں ہے اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں وہی زندگی دیتا ہے اور وہی موت دیتا ہے سو اللہ تعالٰی پر ایمان لاؤ اور اس کے نبی امی پر جو کہ اللہ تعالٰی پر اور اس کے احکام پر ایمان رکھتے ہیں اور ان کی پیروی کرو تاکہ تم راہ پر آجاؤ (١)۔
١٥٨۔١ یہ آیت بھی رسالت محمدیہ کی عالمگیر رسالت کے اثبات میں بالکل واضح ہے۔ اس میں اللہ تعالٰی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہہ دیجئے کہ اے کائنات کے انسانو! میں سب کی طرف اللہ کا رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں۔ یوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پوری بنی نوع انسانی کے نجات دہندہ اور رسول ہیں۔ اب نجات اور ہدایت نہ عیسائت میں ہے نہ یہودیت میں، نہ کسی اور مذ ہب میں، نجات اور ہدایت اگر ہے تو صرف اسلام کے اپنانے اور اسے ہی اختیار کرنے میں ہے اس آیت میں بھی اور اس سے پہلی آیت میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو النبی الأمی کہا گیا ہے۔ یہ آپ کی ایک خاص صفت ہے۔ امی کے معنی ہیں ان پڑھ۔ یعنی آپ نے کسی استاد کے سامنے زانو بطور شاگرد نہیں کئے کسی سے کسی قسم کی تعلیم حاصل نہیں کی۔ لیکن اس کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کریم پیش کیا، اس کے اعجاز و بلاغت کے سامنے دنیا بھر کے خوش بیان عالم فاضل عاجز آگئے اور آپ نے جو تعلیمات پیش کیں، ان کی صداقت و حقانیت کی ایک دنیا اعتراف کرتی ہے، جو اس بات کی دلیل ہے کہ آپ واقع اللہ کے سچے رسول ہیں ورنہ ایک ان پڑھ نہ ایسا قرآن پیش کرسکتا ہے اور نہ ہی ایسی تعلیمات بیان کرسکتا ہے جو عدل و انصاف کا بہترین نمونہ اور انسانیت کی فلاح و کامرانی کے لئے ناگزیر ہیں، انہیں اپنائے بغیر دنیا حقیقی امن سکون اور راحت و عافیت سے ہمکنار نہیں ہوسکتی۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
(اے محمدﷺ) کہہ دو کہ لوگو میں تم سب کی طرف خدا کا بھیجا ہوا (یعنی اس کا رسول) ہوں۔ (وہ) جو آسمانوں اور زمین کا بادشاہ ہے۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں وہی زندگانی بخشتا ہے اور وہی موت دیتا ہے۔ تو خدا پر اور اس کے رسول پیغمبر اُمی پر جو خدا پر اور اس کے تمام کلام پر ایمان رکھتے ہیں ایمان لاؤ اور ان کی پیروی کرو تاکہ ہدایت پاؤ
6 Muhammad Junagarhi
آپ کہہ دیجئے کہ اے لوگو! میں تم سب کی طرف اس اللہ تعالیٰ کا بھیجا ہوا ہوں، جس کی بادشاہی تمام آسمانوں اور زمین میں ہے اس کے سوا کوئی عبادت کے ﻻئق نہیں وہی زندگی دیتا ہے اور وہی موت دیتا ہے سو اللہ تعالیٰ پر ایمان لاؤ اور اس کے نبی امی پر جو کہ اللہ تعالیٰ پر اور اس کے احکام پر ایمان رکھتے ہیں اور ان کا اتباع کرو تاکہ تم راه پر آجاؤ
7 Muhammad Hussain Najafi
اے پیغمبر! (لوگوں سے) کہو اے انسانو! میں تم سب کی طرف اس اللہ کا بھیجا ہوا رسول ہوں۔ جس کے لیے سارے آسمانوں اور زمین کی بادشاہی ہے اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے وہی زندہ کرتا ہے وہی مارتا ہے پس اللہ پر ایمان لاؤ۔ اور اس کے نبیِ امی رسول پر۔ جو خود بھی اللہ اور اس کے کلمات (کتابوں) پر ایمان رکھتا ہے اور اس کی پیروی کرو تاکہ تم ہدایت پاؤ۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
پیغمبر ----- کہہ دو کہ میں تم سب کی طرف اس اللہ کا رسول اور نمائندہ ہوں جس کے لئے زمین وآسمان کی مملکت ہے-اس کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے -وہی حیات دیتا ہے اور وہی موت دیتاہے لہٰذا اللہ اور اس کے پیغمبرامی ّپر ایمان لے آؤ جو اللہ اور اس کے کلمات پر ایمان رکھتا ہے اور اسی کا اتباع کرو کہ شاید اسی طرح ہدایت یافتہ ہوجاؤ
9 Tafsir Jalalayn
(اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہہ دو کہ لوگوں ! میں تم سب کی طرف خدا کا بھیجا ہوا ہوں (یعنی اس کا رسول) (وہ) جو آسمانوں اور زمین کا بادشاہ ہے۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ وہی زندگانی بخشتا ہے اور وہی موت دیتا ہے تو خدا پر اور اسے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پیغمبر امی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جو خدا پر اور اسکے (تمام) کلام پر ایمان رکھتے ہیں ایمان لاؤ اور ان کی پیروی کرو تاکہ ہدایت پاؤ۔
آیت نمبر ١٥٨ تا ١٦٢
ترجمہ : آپ کہہ دیجئے یہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب ہے اے لوگو ! میں تم سب کی طرف اس اللہ کا بھیجا ہوا ہوں جس کی بادشاہی تمام آسمانوں اور زمین میں ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں وہی موت دیتا ہے سو اللہ تعالیٰ پر ایمان لاؤ اور اس کے رسول نبی امی پر، جو اللہ پر اور اس کے کلمات قرآن پر ایمان رکھتا ہے، اور اس کا اتباع کرو تاکہ تم ہدایت پر آجاؤ، اور موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم میں ایک جماعت ایسی بھی ہے جو حق کے مطابق لوگوں کی رہنمائی کرتی اور اسی کے مطابق فیصلہ میں انصاف کرتی ہے اور ہم نے بنی اسرائیل کو بارہ حصوں میں تقسیم کرکے بارہ قبیلے بنا دئے (اثنتی عشرۃ) حال ہے اور (اسباطا) (اثنتی) سے بدل ہے، اسباط بمعنی قبائل ہے (اُمَمًا) ماقبل سے بدل ہے، (یعنی بدل سے بدل ہے) اور جب موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم نے میدان تیہ میں موسیٰ (علیہ السلام) پانی طلب کیا تو ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ اپنے عصا کو پتھر پر مارو چناچہ انہوں نے عصا پتھر پر مارا تو فوراً اس سے بارہ چشمے قبیلوں کی تعداد کے مطابق پھوٹ نکلے ہر قبیلے نے اپنے پانی پینے کی جگہ متعین کرلی مقام تیہ میں دھوپ کی تپش سے بچانے کیلئے ہم نے ان پر بادل کا سایہ کیا اور ہم نے ان کیلئے من وسلویٰ اتارا اور وہ ترنجبین اور بیڑیں تھیں، اور ہم نے ان سے کہا پاکیزہ چیزیں کھاؤ جو ہم نے تمہیں بخشی ہیں لیکن انہوں نے ہمارا کوئی نقصان نہیں کیا بلکہ خود اپنا ہی نقصان کرتے رہے، اور اس وقت کو یاد کرو جب ان سے کہا گیا اس بستی بیت المقدس میں جا کر رہو اور وہاں حسب منشا جو چاہو کھاؤ اور یہ کہتے جانا ہماری توبہ ہے اور بستی کے دروازے میں جھکے جھکے داخل ہونا ہم تمہاری خطاؤں کو معاف کردیں گے (نغفر) نون کے ساتھ ہے اور مجہول کی صورت میں تاء کے ساتھ ہے اور ثواب کیلئے اطاعت کے ذریعہ نیک رویہ رکھنے والوں کو ہم مزید دیں گے، لیکن ان میں سے ظالموں نے اس بات کو جو ان کو بتائی گئی تھی دوسری بات سے بدل دیا چناچہ حَبّۃ فی شعیرۃ کہنے لگے (اور سرنگوں داخل ہونے کے بجائے) سرینوں کے بل گھسٹتے ہوئے داخل ہوئے تو ہم نے ان پر ان کے ظلم کی پاداش میں آسمانی عذاب بھیج دیا۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : اِلیکم جمیعا، جمیعًا، الیکم کی ضمیر سے حال ہے۔
قولہ : لا اِلہٰ اِلاّ ھو یحییٰ ویُمیت یہ لہٗ ملکُ السمٰواتِ والارض سے بدل ہے۔
قولہ : اَسْباطًا بَدَلٌ، اَسْباطًا، اثنتی عشرۃ سے بدل ہے نہ کہ تمیز جیسا کہ بعض نے کہا ہے اسلئے کہ دس سے اوپر کی تمیز مفرد آتی ہے۔
قولہ : فضربَہٗ ، اس میں اشارہ ہے کہ کلام میں اختصار ہے، مطلب یہ ہے کہ اللہ نے جیسے ہی پتھر پر عصا مار نے کا حکم دیا تو فوراً ہی موسیٰ (علیہ السلام) نے عصا پتھر پر مارا۔
قولہ : سَبْطٍ منھم، اس اضافہ کا مقصد اس شبہ کو دفع کرنا ہے کہ قَد عَلِم کلُّ اناسٍ ، سے معلوم ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل کے ہر فرد کیلئے چشمہ پھوٹ پڑا تھا اور ہر فرد نے اپنا چشمہ متعین کرلیا تھا، حالانکہ یہ صورت نہیں تھی، جواب یہ ہے کہ اناس سے بنی اسرائیل کے بارہ قبیلے مراد ہیں ہر قبیلہ نے اپنا چشمہ متعین کرلیا۔
قولہ : وقلنا لھم، اگر اس جملہ کو محذوف نہ مانا جائے تو بلاوجہ التفات من التکلم الی الغیبت لازم آئیگا حالانکہ اس کی کوئی ضرورت نہیں اس التفار سے بچنے کیلئے قلنالھم محذوف مانا ہے۔ قولہ : اَمْرُنا، اَمْرنا کا اضافہ، ایک سوال مقدر کا جواب ہے۔
سوال : یہ ہے قال کا مقولہ جملہ ہوا کرتا ہے مگر یہاں حطۃ مفرد ہے اس کی کیا تاویل ہوسکتی ہے۔
جواب : حِطّۃ، مبتداء محذوف کی خبر ہے، مبتداء خبر سے مل کر جملہ ہو کر مقولہ ہے لہٰذا اب کوئی اعتراض نہیں، مگر یہاں اس بات کا خیال رہے، کہ اَمْرنا مقدر ماننے کے بجائے مسئلتنا مقدر ہونا چاہیے، اسلئے کہ امرنا مقدر ماننے کی صورت میں تقدیر عبارت یہ ہوگی، امرنا ان نحط فی ھذہ القریۃ اس کا ترجمہ ہوگا ہمارا کام اس قریہ میں داخل ہونا ہے، آگے مغفرت کا ذکر ہے حالانکہ دخول قریہ اور مغفرت کا کوئی جوڑ معلوم نہیں ہوتا، بہتر ہوتا کہ اَمْرنا، مقدر ماننے کے بجائے مسئلتنا مقدر مانتے تو اس صورت میں تقدیر عبارت مسئلتنا حِطۃٌ ہوگی، اس کا مطلب ہوگا ہماری درخواست معافی ہے، قولوا کا قائل چونکہ اللہ ہے لہٰذا حطۃ اس کا مقولہ ہوگا، اب معنی یہ ہوں گے اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو حکم دیا کہ تم ملک شام میں معافی کی درخواست کرتے ہوئے عاجزی اور سرنگوں ہو کر داخل ہونا تو ہم تمہاری لغزشوں کو معاف کردیں گے، مگر بنی اسرائیل نے اس ہدایت کو نہ مانا اور اللہ کی بتائی ہوئی باتوں کو بدل دیا، حطۃ کے بجائے حَبَّۃ فی شعیرۃ کرلیا اور سرنگوں داخل ہونے کے بجائے سرینوں کے بل گھسٹتے ہوئے داخل ہوئے۔
قولہ : بالتّاءِ مَبْنِیَّا للمَفْعُوْلِ ، یعی تغفر میں ایک قراءت تغفر مجہول کے صیغہ کے ساتھ بھی ہے مگر اس صورت میں خطیئٰتُکم، نائب فاعل ہونے کی وجہ سے مرفوع ہوگا۔
قولہ : یَزْحَفُوْنَ ، (ف) آہستہ آہستہ سرین کے بل سرکنا۔ قولہ : اَسْتَاھِم، اَسْتاہٌ، ستہٌ کی جمع ہے سرین کو کہتے ہیں۔
قولہ ؛ فبدَّلَ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْھُم تبدیل کا مطلب ہوتا ہے ایک کی جگہ دوسرے کو رکھنا تبدیلی کیلئے دو کا ہونا ضروری ہے ان میں سے ایک متروک ہوگا اور دوسرا ماخوذ جو متروک ہوتا ہے اس پر باء داخل ہوتی ہے اور ماخوذ پر باء داخل نہیں ہوتی، یا یوں کہہ لیجئے کہ لفظ بَدَلٌ، دو کی طرف متعدی ہوتا ہے ایک کی طرف باء کے ذریعے اور دوسرے کی طرف بغیر باء کے، جس پر باء داخل ہوتی ہے وہ متروک ہوتا ہے اور وسرا ماخوذ، اس سے معلوم ہوا کہ کلام میں حذف ہے، تقدیر عبارت یہ ہے۔ فَبَدَّلَ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا۔۔۔۔ غیر الذی۔
تفسیر و تشریح
قل یایھا۔۔۔۔ جمیعا، یہ آیت بھی رسالت محمدیہ کی عالم گیر رسالت کے اثبات میں بالکل واضح ہے، اس میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہہ دیجئے کہ میں کائنات کے انسانوں میں سب کی طرف اللہ کا رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں، اس سے معلوم ہوا کہ آپ پپوری نوع انسانی کے نجات دہندہ اور رسول ہیں، اب نجات اور ہدایت نہ عیسائیت میں ہے نہ یہودیت میں نہ کسی اور مذہب میں۔
ومن قوم۔۔۔۔ یعدلون، اس سے مراد یا تو وہ چند لوگ ہیں جو یہودیت سے نکل کر اسلام میں داخل ہوگئے تھے مثلاً عبد اللہ بن سلام اور ان کے رفقاء، یا پھر وہ لوگ مراد ہیں جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے زمانہ میں گوسالہ پرستی سے محفوظ رہے تھے ان کی تعداد گؤسالہ پرستی کرنے والوں کے مقابلہ میں بہت کم تھی۔
آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت عامہ کے برخلاف ہر نبی کی رسالت علاقائی یا قومی رہی ہے، یہاں یہ سوال ہوسکتا ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بنی اسرائیل کے فرد تھے حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے ایک صاجبر ادے لاوی کی نسل سے تھے، لہذا آپ کی رسالت بنی اسرائیل کے لئے مخصوص تھی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو فرعون اور اس کی قوم کی طرف جو کہ قبطی تھی کیوں بھیجا ؟ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی رسالت قومی یا علاقائی نہیں تھی۔
جواب : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اصالۃً صرف دو باتوں کیلئے بھیجا گی اتھا ایک تو یہ کہ توحید کے قائل ہوجائیں اور صرف خدائے واحد کی عبادت کریں، دوسرا مقصد بنی اسرائیل کو فرعون کی قید غلامی سے چھڑانا تھا، چناچہ یہی دو باتیں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون اور اس کی قوم کے سامنے پیش کیں، اب رہا تورات پر عمل کا مسئلہ تو یہ خالص بنی اسرائیل کیلئے تھا اسلئے کہ تورات مقام تیہ میں عطا کی گئی اور فرعون اس سے پہلے ہی غرق دریا ہوچکا تھا۔ (جمل)
10 Tafsir as-Saadi
چونکہ آیت مذکورہ میں اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل میں سے اہل تورات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کی دعوت دی ہے اور بسا اوقات کوئی شخص اس وہم میں مبتلا ہوسکتا ہے کہ یہ حکم صرف بنی اسرائیل تک محدود ہے۔۔۔ اس لئے وہ اسلوب اختیار کیا جو عمومیت پر دلالت کرتا ہے۔ چنانچہ فرمایا :﴿ قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّـهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا ﴾” کہہ دیجیے اے لوگو ! میں تم سب کی طرف اللہ کا بھیجا ہوا ہوں۔“ یعنی اہل عرب، اہل عجم، اہل کتاب اور دیگر تمام قوموں کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں۔ ﴿الَّذِي لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ﴾ ” جس کی حکومت ہے آسمانوں اور زمین میں“ وہ اپنے احکام تکوینی، تدابیر سلطانی اور احکام دینی کے ذریعے سے کائنات میں تصرف کرتا ہے۔ اس کے احکام دینی و شرعی میں سے ایک حکم یہ ہے کہ اس نے تمہاری طرف ایک عظیم رسول مبعوث کیا۔ جو تمہیں اللہ تعالیٰ اور اس کے عزت و اکرام کے گھر کی طرف دعوت دیتا ہے اور تمہیں ہر اس چیز سے بچنے کی تلقین کرتا ہے جو تمہیں اس گھر سے دور کرتی ہے۔ ﴿ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ ﴾ ” اس (اللہ تعالیٰ) کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں“ وہ ایک ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں۔ اس کی عبادت کی معرفت صرف اس کے انبیاء و مرسلین کے توسط ہی سے حاصل ہوسکتی ہے۔ ﴿ يُحْيِي وَيُمِيتُ﴾ ” وہی زندہ کرتا ہے اور وہی مارتا ہے۔“ اس کی جملہ تدابیر و تصرفات میں سے زندہ کرنا اور مارنا ہے، جس میں کوئی ہستی شریک نہیں ہوسکتی۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے موت کو ایک ایسا پل بنایا ہے جسے عبور کر کے انسان دار فانی سے دار البقا میں داخل ہوتا ہے۔ جو کوئی اس دار البقا پر ایمان لاتا ہے تو وہ اللہ کے رسول محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی یقیناً تصدیق کرتا ہے۔
﴿ فَآمِنُوا بِاللَّـهِ وَرَسُولِهِ النَّبِيِّ الْأُمِّيِّ﴾” پس اللہ پر اور اس کے رسول پیغمبر امی پر ایمان لاؤ۔“ یعنی اس نبی امی پر ایسا کامل ایمان لاؤ جو اعمال قلوب اور اعمال جوارح کو متضمن ہو۔ ﴿الَّذِي يُؤْمِنُ بِاللَّـهِ وَكَلِمَاتِهِ﴾” جو یقین رکھتا ہے اللہ پر اور اس کی باتوں پر“ یعنی اس رسول پر ایمان لاؤ جو اپنے عقائد و اعمال میں راست رو ہے ﴿وَاتَّبِعُوهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ﴾” اور اس کی پیروی کرو تاکہ تم راہ پاؤ“ یعنی اگر تم اس کی اتباع کرو گے تو اپنے دینی اور دنیاوی مصالح میں ہدایت پاؤ گے، کیونکہ جب تم اس نبی کی اتباع نہیں کرو گے تو بہت دور کی گمراہی میں جا پڑو گے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا :
11 Mufti Taqi Usmani
. ( aey Rasool ! inn say ) kaho kay : aey logo ! mein tum sabb ki taraf uss Allah ka bheja huwa Rasool hun jiss kay qabazay mein tamam aasmano aur zameen ki saltanat hai . uss kay siwa koi mabood nahi hai . wohi zindagi aur moat deta hai . abb tum Allah per aur uss kay Rasool per emaan ley aao jo nabi ummi hai , aur jo Allah per aur uss kay kalmaat per emaan rakhta hai , aur uss ki perwi kero , takay tumhen hidayat hasil ho .
12 Tafsir Ibn Kathir
النبی العالم اور النبی الخاتم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)
اللہ تعالیٰ اپنے نبی و رسول حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم فرماتا ہے کہ تمام عرب عجم گوروں کالوں سے کہہ دو کہ میں تم سب کی طرف اللہ کا بھیجا ہوا ہوں۔ آپ کی شرافت و عظمت ہے کہ آپ خاتم الانبیاء ہیں اور تمام دنیا کے لئے صرف آپ ہی نبی ہیں۔ جیسے فرمان قرآن ہے آیت (قل اللہ شھید بینی وبینکم واو حی الی ھذا القران لا نذر کم بہ ومن بلغ) یعنی اعلان کر دے کہ مجھ میں تم میں اللہ گواہ ہے اس پاک قرآن کی وحی میری جانب اس لئے اتاری گئی ہے کہ میں اس سے تمہیں اور جن لوگوں تک یہ پہنچے سب کو ہوشیار کر دوں اور آیت میں ہے (ومن یکفر بہ من الاحزاب فالنار موعدہ) یعنی مخلوق کے مختلف گروہ میں سے جو بھی آپ سے انکار کرے اس کی وعدہ گاہ جہنم ہے اور آیت میں ہے (وقل للذین اوتوا الکتاب ولا مبین ا اسلمتم فان اسلموافقد اھتدواوان تولوافانما علیک البلاغ) یعنی اہل کتاب اور غیر اہل کتاب سے کہہ دو کہ کیا تم مانتے ہو ؟ اگر تسلیم کرلیں مسلمان ہوجائیں تو راہ پر ہیں ورنہ تیرے ذمے تو صرف پہنچا دینا ہی ہے۔ اس مضمون کی اور بھی قرآنی آیتیں بکثرت ہیں اور حدیثیں تو اس بارے میں بیشمار ہیں۔ دین اسلام کی ذرا سی بھی سمجھ جسے ہے وہ بالیقین جانتا اور مانتا ہے کہ آپ تمام جہان کے لوگوں کی طرف رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ۔ اس آیت کی تفسیر میں صحیح بخاری شریف میں ہے کہ اتفاق سے حضرت ابوبکر اور حضرت عمر میں کچھ چشمک ہوگئی۔ حضرت صدیق نے حضرت فاروق کو ناراض کردیا حضرت فاروق اسی حالت میں چلے گئے حضرت صدیق نے درخواست کی کہ آپ معاف فرمائیں اور اللہ سے میرے لئے بخشش چاہیں لیکن حضرت عمر راضی نہ ہوئے بلکہ کواڑ بند کر لئے۔ آپ لوٹ کر دربار محمدی میں آئے اس وقت اور صحابہ بھی حضور کی مجلس میں موجود تھے آپ نے فرمایا تمہارے اس ساتھی نے انہیں ناراض اور غضبناک کردیا۔ حضرت عمر حضرت صدیق کی واپسی کے بعد بہت ہی نادم ہوئے اور اسی وقت دربار رسالت مآب میں حاضر ہو کر تمام بات کہہ سنائی۔ حضور ناراض ہوئے۔ ابوبکر صدیق بار بار کہتے جاتے تھے کہ یارسول اللہ زیادہ ظلم تو مجھ سے سر زد ہوا ہے۔ حضور نے فرمایا کیا تم میرے ساتھی کو میری وجہ سے چھوڑتے نہیں ؟ سنو جب میں نے اس آواز حق کو اٹھایا کہ لوگو میں تم سب کی طرف اللہ کا پیغمبر بنا کر بھیجا گیا ہوں تو تم نے کہا تو جھوٹا ہے لیکن اس ابوبکر نے کہا آپ سچے ہیں۔ ابن عباس سے مرفوعاً مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مجھے پانچ چیزیں ایسی دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دی گئیں۔ یاد رہے کہ میں اسے فخراً نہیں کہتا میں تمام سرخ و سیاہ لوگوں کی جانب بھیجا گیا ہوں اور میری مدد مہینے بھر کے فاصلے سے صرف رعب کے ساتھ کی گئی ہے اور میرے لئے غنیمتوں کے مال حلال کئے گئے ہیں حالانکہ مجھ سے پہلے وہ کسی کیلئے حلال نہیں کئے گئے تھے اور میرے لئے ساری زمین مسجد اور وضو کے لئے حلال کردی گئی ہے اور مجھے اپنی امت کی شفاعت عطا فرمائی گئی ہے جسے میں نے ان لوگوں کے لئے مخصوص کر رکھا ہے جو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں۔ (مسند امام احمد) روایت ہے کہ غزوہ تبوک والے سال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رات کو تہجد کی نماز کے لئے کھڑے ہوئے پس بہت سے صحابہ آپ کے پیچھے جمع ہوگئے کہ آپ کی چوکیداری کریں نماز کے بعد آپ ان کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا اس رات مجھے پانچ چیزیں دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے اور کسی کو نہیں دی گئیں میں تمام لوگوں کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں مجھ سے پہلے کے تمام رسول صرف اپنی اپنی قوم کی طرف ہی نبی بنا کر بھیجے جاتے رہے مجھے اپنے دشمنوں پر رعب کے ساتھ مدد دی گئی ہے گو وہ مجھ سے مہینے بھر کے فاصلے پر ہوں وہیں وہ مرعوب ہوجاتے ہیں۔ میرے لئے مال غنیمت حلال کئے گئے ہیں حالانکہ مجھ سے پہلے کے لوگ ان کی بہت عظمت کرتے تھے وہ اس مال کو جلا دیا کرتے تھے اور میرے لئے ساری زمین مسجد اور وضو کی پاک چیز بنادی گئی ہے جہاں کہیں میرے امتی کو نماز کا وقت آجائے وہ تیمم کرلے اور نماز ادا کرلے مجھ سے پہلے کے لوگ اس کی عظمت کرتے تھے سوائے ان جگہوں کے جو نماز کے لئے مخصوص تھیں اور جگہ نماز نہیں پڑھ سکتے تھے اور پانچویں خصوصیت یہ ہے کہ مجھ سے فرمایا گیا آپ دعا کیجئے مانگئے کیا مانگتے ہیں ؟ ہر نبی مانگ چکا ہے تو میں نے اپنے اس سوال کو قیامت پر اٹھا رکھا ہے پس وہ تم سب کے لئے ہے اور ہر اس شخص کیلئے جو لا الہ الا اللہ کی گواہی دے۔ اس کی اسناد بہت پختہ ہے اور مسند احمد میں یہ حدیث موجود ہے۔ مسند کی اور حدیث میں ہے کہ میری اس امت میں سے جس یہودی یا نصرانی کے کان میں میرا ذکر پڑے اور وہ مجھ پر ایمان نہ لائے وہ جنت میں نہیں جاسکتا یہ حدیث اور سند سے صحیح مسلم شریف میں بھی ہے۔ مسند احمد میں ہے کہ اس اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میرا ذکر اس امت کے جس یہودی نصرانی کے پاس پہنچے اور وہ مجھ پر اور میری وحی پر ایمان نہ لائے اور مرجائے وہ جہنمی ہے۔ مسند کی ایک اور حدیث میں آپ نے ان پانچوں چیزوں کا ذکر فرمایا جو صرف آپ کو ہی ملی ہیں پھر فرمایا ہر نبی نے شفاعت کا سوال کرلیا ہے اور میں نے اپنے سوال کو چھپا رکھا ہے اور ان کے لئے اٹھا رکھا ہے جو میری امت میں سے توحید پر مرے۔ یہ حدیث جابر بن عبداللہ کی روایت سے بخاری و مسلم میں بھی موجود ہے کہ مجھے پانچ چیزیں دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کے انبیاء کو نہیں دی گئیں مہی نے بھر کی مسافت تک رعب سے امداد و نصرت، ساری زمین کا مسجد و طہور ہونا کہ میری امت کو جہاں وقت نماز آجائے ادا کرلے، غنیمتوں کا حلال کیا جانا جو پہلے کسی کے لئے حلال نہ تھیں۔ شفاعت کا دیا جانا، تمام لوگوں کی طرف مبعوث کیا جانا حالانکہ پہلے کے انبیاء صرف اپنی قوم کی طرف ہی بھیجے جاتے تھے۔ پھر فرماتا ہے کہ کہو مجھے اس اللہ نے بھیجا ہے جو زمین و آسمان کا بادشاہ ہے سب چیزوں کا خالق مالک ہے جس کے ہاتھ میں ملک ہے جو مارنے جلانے پر قادر ہے جس کا حکم چلتا ہے۔ پس اے لوگو تم اللہ پر اور اس کے رسول و نبی پر ایمان لاؤ جو ان پڑھ ہونے کے باوجود دنیا کو پڑھا رہے ہیں انہی کا تم سے وعدہ تھا اور ان ہی کی بشارت تمہاری کتابوں میں بھی ہے۔ انہی کی صفتیں اگلی کتابوں میں ہیں۔ یہ خود اللہ کی ذات پر اور اس کے کلمات پر ایمان رکھتے ہیں۔ قول و فعل سب میں اللہ کے کلام کے مطیع ہیں۔ تم سب ان کے ماتحت اور فرمانبردار ہوجاؤ۔ انہی کے طریقے پر چلو انہی کی فرمانبرداری کرو، تم راہ راست پر آجاؤ گے۔