المزمل آية ۱۰
وَاصْبِرْ عَلٰى مَا يَقُوْلُوْنَ وَاهْجُرْهُمْ هَجْرًا جَمِيْلًا
طاہر القادری:
اور آپ ان (باتوں) پر صبر کریں جو کچھ وہ (کفار) کہتے ہیں، اور نہایت خوبصورتی کے ساتھ ان سے کنارہ کش ہو جائیں،
English Sahih:
And be patient over what they say and avoid them with gracious avoidance.
1 Abul A'ala Maududi
اور جو باتیں لوگ بنا رہے ہیں ان پر صبر کرو اور شرافت کے ساتھ اُن سے الگ ہو جاؤ
2 Ahmed Raza Khan
اور کافروں کی باتوں پر صبر فرماؤ اور انہیں اچھی طرح چھوڑ دو
3 Ahmed Ali
اور کافروں کی باتوں پر صبر کرو اور انہیں عمدگی سے چھوڑ دو
4 Ahsanul Bayan
اور جو کچھ وہ کہیں تو سہتا رہ اور وضعداری کے ساتھ ان سے الگ تھلگ رہ۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور جو جو (دل آزار) باتیں یہ لوگ کہتے ہیں ان کو سہتے رہو اور اچھے طریق سے ان سے کنارہ کش رہو
6 Muhammad Junagarhi
اور جو کچھ وه کہیں تو سہتا ره اور وضعداری کے ساتھ ان سے الگ تھلگ ره
7 Muhammad Hussain Najafi
اور ان (کفار) کی باتوں پر صبر کیجئے! اور بڑی خوبصورتی کے ساتھ ان سے الگ ہو جائیے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور یہ لوگ جو کچھ بھی کہہ رہے ہیں اس پر صبر کریں اور انہیں خوبصورتی کے ساتھ اپنے سے الگ کردیں
9 Tafsir Jalalayn
اور جو جو (دل آزار) باتیں یہ لوگ کہتے ہیں انکو سہتے رہو اور اچھے طریق سے ان سے کنارہ کش رہو
واھجرھم ھجرا جمیلا، الگ ہوجائو، اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان سے مقاطعہ کر کے اپنی تبلیغ بند کردو بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے منہ نہ لگو، ان کی بےہودگیوں کو بالکل نظر انداز کردو اور ان کی کسی بدتمیزی کا جواب نہ دو پھر یہ احتراز بھی کسی غم اور غصے اور جھنجھلاہٹ کے ساتھ نہ ہو بلکہ اس طرح ہو جس طرح کہ ایک شریف انسان کسی بازاری آدمی کی گالی سن کر اسے نظر انداز کردیتا ہے اور دل پر میل تک نہیں آنے دیتا اور سمجھ لیتا ہے کہ وہ گالی مجھے نہیں کسی اور کو دے رہا ہے، اگرچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مذکورہ تمام باتوں پر پہلے سے عمل پیرا تھے پھر بھی حکم دینے کا مطلب یہ ہے کہ آئندہ بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسی طرز عمل پر قائم رہیں اور ادھر مشرکوں کو یہ پیغام دینا مقصود ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نظر انداز کرنا کچھ مجبوری یا بزدلی کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ شرافت کی وجہ سے ہے، تم اس شرافت کو بزدلی نہ سمجھو۔
10 Tafsir as-Saadi
جب اللہ تعالیٰ نے خصوصی طور پر نماز اور عمومی طور پر ذکر الہٰی کا حکم دیا۔۔۔ جس سے بندہ مومن میں بھاری بوجھ اٹھانے اور مشقت اعمال بجالانے کاملکہ پیدا ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو ان باتوں پر صبر کرنے کا حکم دیا جو آپ کے معاندین آپ کو کہتے ہیں اور آپ کو اور جو کچھ آپ لے کر آئے ہیں اسے سب وشتم کرتے ہیں ، نیز یہ کہ آپ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق چلتے رہیں کوئی روکنے والا آپ کی راہ کھوٹی کرسکے نہ کوئی آپ کو لوٹا سکے اور یہ کہ آپ بھلے طریقے سے ان سے کنارہ کش ہوجائیں اور یہ کنارہ کشی وہاں ہے جہاں مصلحت کنارہ کشی کا تقاضا کرتی ہے جس میں کوئی اذیت نہ ہو بلکہ ان کی تکلیف دہ باتوں سے اعراض کرتے ہوئے، ان سے کنارہ کشی کا معاملہ کریں، اللہ تعالیٰ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا کہ آپ ان سے اس طریقے سے بحث کریں جو احسن ہو۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur jo baaten yeh ( kafir log ) kehtay hain , unn per sabar say kaam lo , aur khoobsurti kay sath unn say kinara kerlo .
12 Tafsir Ibn Kathir
نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حوصلہ افزائی
اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے نبی کو کفار کی طعن آمیز باتوں پر صبر کرنے کی ہدایت کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ ان کے حال پر بغیر ڈانٹ ڈپٹ کے ہی چھوڑ دے، میں خد ان سے نمٹ لوں گا۔ میرے غضب اور غصے کے وقت دیکھ لوں گا کہ کیسے یہ لوگ نجات پاتے ہیں۔ ہاں ان کے مالدار خوش حال لوگوں کو جو بےفکر ہیں اور تجھے ستانے کے لئے باتیں بنا رہے ہیں جن پر دوہرے حقوق ہیں مال کے اور جان کے اور یہ ان میں سے ایک بھی ادا نہیں کرتے تو ان سے بےتعلق ہوجا پھر دیکھ کہ میں ان کے ساتھ کیا کرتا ہوں تھوڑی دیر دنیا میں تو چاہے یہ فائدہ اٹھا لیں گے مگر انجام کار عذابوں میں پھنسیں گے اور عذاب بھی کونسے ؟ سخت قید و بند کے، بدترین بھڑکتی ہوئی نہ بجھنے والی اور نہ کم ہونے والی آگ کے اور ایسا کھانا جو حلق میں جا کر اٹک جائے نہ نگل سکیں نہ اگل سکیں اور بھی طرح طرح کے المناک عذاب ہوں گے، پھر وہ وقت بھی ہوگا جب زمینوں میں اور پہاڑوں پر زلزلہ طاری ہوگا سخت اور بڑی چٹانوں والے پہاڑ آپس میں ٹکرا ٹکرا کر چور چور ہوگئے ہوں گے جیسے بھربھری ریت کے بکھرے ہوئے ذرے ہوں جنہیں ہوا ادھر سے ادھر لے جائے گی اور نام و نشان تک مٹا دے گی اور زمین ایک چٹیل صاف میدان کی طرح رہ جائے گی جس میں کہیں اونچ نیچ نظر نہ آئے گی، پھر فرماتا ہے اے لوگو اور خصوصاً اے کافرو ہم نے تم پر گواہی دینے والا اپنا سچا رسول تم میں بھیج دیا ہے جیسے کہ فرعون کے پاس بھی ہم نے اپنے احکام کے پہنچا دینے کے لئے اپنے ایک رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھیجا تھا، اس نے جب اس رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نہ مانی تو تم جانتے ہو کہ ہم نے اسے بری طرح برباد کیا اور سختی سے پکڑ لیا، اسی طرح یاد رکھو اگر اس نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تم نے بھی نہ مانی تو تمہاری خیر نہیں اللہ کے عذاب تم پر بھی اتر آئیں گے اور نیست و نابود کردیئے جاؤ گے کیونکہ یہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رسولوں کے سردار ہیں ان کے جھٹلانے کا وبال بھی اور و بالوں سے بڑا ہے۔ اس کے بعد کی آیت کے دو معنی ہیں ایک تو یہ کہ اگر تم نے کفر کیا تو بتاؤ تو سہی کہ اس دن کے عذابوں سے کیسے نجات حاصل کرو گے ؟ جس دن کی ہیبت خوف اور ڈربچوں کو بوڑھا کر دے گا اور دوسرے معنی یہ کہ اگر تم نے اتنے بڑے ہولناک دن کا بھی کفر کیا اور اس کے بھی منکر رہے تو تمہیں تقویٰ اور اللہ کا ڈر کیسے حاصل ہوگا ؟ گو یہ دونوں معنی یہ کہ اگر تم نے اتنے بڑے ہولناک دن کا بھی کفر کیا اور اس کے بھی منکر رہے تو تمہیں تقویٰ اور اللہ کا ڈر کیسے حاصل ہوگا ؟ گو یہ دونوں معنی نہایت عمدہ ہیں لیکن اول اولیٰ ہیں واللہ اعلم۔ طبرانی میں ہے رسول مقبول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس آیت کی تلاوت کی اور فرمایا یہ قیامت کا دن ہے جس دن اللہ تعالیٰ حضرت آدم (علیہ السلام) سے فرمائے گا اٹھو اور اپنی اولاد میں سے دوزخیوں کو الگ الگ کردہ پوچھیں گے اے اللہ کتنی تعداد میں سے کتنے ؟ حکم ہوگا ہر ہزار میں سے نو سو ننانوے یہ سنتے ہی مسلمانوں کے تو ہوش اڑ گئے اور گھبرا گئے، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی ان کے چہرے دیکھ کر سمجھ گئے اور بطور تشفی کے فرمایا سنو بنو آدم بہت سے ہیں یاجوج ماجوج بھی اولاد آدم میں سے ہیں جن میں سے ہر ایک نسلی تسلسل میں خاص اپنی صلبی اولاد ایک ایک ہزار چھوڑ کرجاتا ہے پس ان میں اور ان حبشیوں میں مل کر دوزخمیوں کی یہ تعداد ہوجائے گی اور جنت تمہارے لئے اور تم جنت کے لئے ہوجاؤ گے، یہ حدیث غریب ہے اور سورة حج کی تفسیر کے شروع میں اس جیسی احادیث کا تذکرہ گذر چکا ہے اس دن کی ہیبت اور دہشت کے مارے آسمان بھی پھٹ جائے گا، بعض نے ضمیر کا مرجع اللہ کی طرف کیا ہے لیکن یہ قوی نہیں اس لئے کہ یہاں ذکر ہی نہیں، اس دن کا وعدہ یقینا سچ ہے اور ہو کر ہی رہے گا اس دن کے آنے میں کوئی شک نہیں۔