Skip to main content

وَاصْبِرْ عَلٰى مَا يَقُوْلُوْنَ وَاهْجُرْهُمْ هَجْرًا جَمِيْلًا

And be patient
وَٱصْبِرْ
اور صبر کرو
over
عَلَىٰ
اس پر
what
مَا
جو
they say
يَقُولُونَ
وہ کہتے ہیں
and avoid them
وَٱهْجُرْهُمْ
اور چھوڑ دو ان کو
an avoidance
هَجْرًا
چھوڑنا
gracious
جَمِيلًا
اچھی طرح۔ خوبصورت طریقے سے

تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:

اور جو باتیں لوگ بنا رہے ہیں ان پر صبر کرو اور شرافت کے ساتھ اُن سے الگ ہو جاؤ

English Sahih:

And be patient over what they say and avoid them with gracious avoidance.

ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi

اور جو باتیں لوگ بنا رہے ہیں ان پر صبر کرو اور شرافت کے ساتھ اُن سے الگ ہو جاؤ

احمد رضا خان Ahmed Raza Khan

اور کافروں کی باتوں پر صبر فرماؤ اور انہیں اچھی طرح چھوڑ دو

احمد علی Ahmed Ali

اور کافروں کی باتوں پر صبر کرو اور انہیں عمدگی سے چھوڑ دو

أحسن البيان Ahsanul Bayan

اور جو کچھ وہ کہیں تو سہتا رہ اور وضعداری کے ساتھ ان سے الگ تھلگ رہ۔

جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry

اور جو جو (دل آزار) باتیں یہ لوگ کہتے ہیں ان کو سہتے رہو اور اچھے طریق سے ان سے کنارہ کش رہو

محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi

اور جو کچھ وه کہیں تو سہتا ره اور وضعداری کے ساتھ ان سے الگ تھلگ ره

محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi

اور ان (کفار) کی باتوں پر صبر کیجئے! اور بڑی خوبصورتی کے ساتھ ان سے الگ ہو جائیے۔

علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi

اور یہ لوگ جو کچھ بھی کہہ رہے ہیں اس پر صبر کریں اور انہیں خوبصورتی کے ساتھ اپنے سے الگ کردیں

طاہر القادری Tahir ul Qadri

اور آپ ان (باتوں) پر صبر کریں جو کچھ وہ (کفار) کہتے ہیں، اور نہایت خوبصورتی کے ساتھ ان سے کنارہ کش ہو جائیں،

تفسير ابن كثير Ibn Kathir

نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حوصلہ افزائی
اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے نبی کو کفار کی طعن آمیز باتوں پر صبر کرنے کی ہدایت کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ ان کے حال پر بغیر ڈانٹ ڈپٹ کے ہی چھوڑ دے، میں خد ان سے نمٹ لوں گا۔ میرے غضب اور غصے کے وقت دیکھ لوں گا کہ کیسے یہ لوگ نجات پاتے ہیں۔ ہاں ان کے مالدار خوش حال لوگوں کو جو بےفکر ہیں اور تجھے ستانے کے لئے باتیں بنا رہے ہیں جن پر دوہرے حقوق ہیں مال کے اور جان کے اور یہ ان میں سے ایک بھی ادا نہیں کرتے تو ان سے بےتعلق ہوجا پھر دیکھ کہ میں ان کے ساتھ کیا کرتا ہوں تھوڑی دیر دنیا میں تو چاہے یہ فائدہ اٹھا لیں گے مگر انجام کار عذابوں میں پھنسیں گے اور عذاب بھی کونسے ؟ سخت قید و بند کے، بدترین بھڑکتی ہوئی نہ بجھنے والی اور نہ کم ہونے والی آگ کے اور ایسا کھانا جو حلق میں جا کر اٹک جائے نہ نگل سکیں نہ اگل سکیں اور بھی طرح طرح کے المناک عذاب ہوں گے، پھر وہ وقت بھی ہوگا جب زمینوں میں اور پہاڑوں پر زلزلہ طاری ہوگا سخت اور بڑی چٹانوں والے پہاڑ آپس میں ٹکرا ٹکرا کر چور چور ہوگئے ہوں گے جیسے بھربھری ریت کے بکھرے ہوئے ذرے ہوں جنہیں ہوا ادھر سے ادھر لے جائے گی اور نام و نشان تک مٹا دے گی اور زمین ایک چٹیل صاف میدان کی طرح رہ جائے گی جس میں کہیں اونچ نیچ نظر نہ آئے گی، پھر فرماتا ہے اے لوگو اور خصوصاً اے کافرو ہم نے تم پر گواہی دینے والا اپنا سچا رسول تم میں بھیج دیا ہے جیسے کہ فرعون کے پاس بھی ہم نے اپنے احکام کے پہنچا دینے کے لئے اپنے ایک رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھیجا تھا، اس نے جب اس رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نہ مانی تو تم جانتے ہو کہ ہم نے اسے بری طرح برباد کیا اور سختی سے پکڑ لیا، اسی طرح یاد رکھو اگر اس نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تم نے بھی نہ مانی تو تمہاری خیر نہیں اللہ کے عذاب تم پر بھی اتر آئیں گے اور نیست و نابود کردیئے جاؤ گے کیونکہ یہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رسولوں کے سردار ہیں ان کے جھٹلانے کا وبال بھی اور و بالوں سے بڑا ہے۔ اس کے بعد کی آیت کے دو معنی ہیں ایک تو یہ کہ اگر تم نے کفر کیا تو بتاؤ تو سہی کہ اس دن کے عذابوں سے کیسے نجات حاصل کرو گے ؟ جس دن کی ہیبت خوف اور ڈربچوں کو بوڑھا کر دے گا اور دوسرے معنی یہ کہ اگر تم نے اتنے بڑے ہولناک دن کا بھی کفر کیا اور اس کے بھی منکر رہے تو تمہیں تقویٰ اور اللہ کا ڈر کیسے حاصل ہوگا ؟ گو یہ دونوں معنی یہ کہ اگر تم نے اتنے بڑے ہولناک دن کا بھی کفر کیا اور اس کے بھی منکر رہے تو تمہیں تقویٰ اور اللہ کا ڈر کیسے حاصل ہوگا ؟ گو یہ دونوں معنی نہایت عمدہ ہیں لیکن اول اولیٰ ہیں واللہ اعلم۔ طبرانی میں ہے رسول مقبول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس آیت کی تلاوت کی اور فرمایا یہ قیامت کا دن ہے جس دن اللہ تعالیٰ حضرت آدم (علیہ السلام) سے فرمائے گا اٹھو اور اپنی اولاد میں سے دوزخیوں کو الگ الگ کردہ پوچھیں گے اے اللہ کتنی تعداد میں سے کتنے ؟ حکم ہوگا ہر ہزار میں سے نو سو ننانوے یہ سنتے ہی مسلمانوں کے تو ہوش اڑ گئے اور گھبرا گئے، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی ان کے چہرے دیکھ کر سمجھ گئے اور بطور تشفی کے فرمایا سنو بنو آدم بہت سے ہیں یاجوج ماجوج بھی اولاد آدم میں سے ہیں جن میں سے ہر ایک نسلی تسلسل میں خاص اپنی صلبی اولاد ایک ایک ہزار چھوڑ کرجاتا ہے پس ان میں اور ان حبشیوں میں مل کر دوزخمیوں کی یہ تعداد ہوجائے گی اور جنت تمہارے لئے اور تم جنت کے لئے ہوجاؤ گے، یہ حدیث غریب ہے اور سورة حج کی تفسیر کے شروع میں اس جیسی احادیث کا تذکرہ گذر چکا ہے اس دن کی ہیبت اور دہشت کے مارے آسمان بھی پھٹ جائے گا، بعض نے ضمیر کا مرجع اللہ کی طرف کیا ہے لیکن یہ قوی نہیں اس لئے کہ یہاں ذکر ہی نہیں، اس دن کا وعدہ یقینا سچ ہے اور ہو کر ہی رہے گا اس دن کے آنے میں کوئی شک نہیں۔