المدثر آية ۳۲
كَلَّا وَالْقَمَرِۙ
طاہر القادری:
ہاں، چاند کی قَسم (جس کا گھٹنا، بڑھنا اور غائب ہو جانا گواہی ہے)،
English Sahih:
No! By the moon.
1 Abul A'ala Maududi
ہرگز نہیں، قسم ہے چاند کی
2 Ahmed Raza Khan
ہاں ہاں چاند کی قسم،
3 Ahmed Ali
نہیں نہیں قسم ہے چاند کی
4 Ahsanul Bayan
قسم ہے چاند کی
5 Fateh Muhammad Jalandhry
ہاں ہاں (ہمیں) چاند کی قسم
6 Muhammad Junagarhi
سچ کہتا ہوں قسم ہے چاند کی
7 Muhammad Hussain Najafi
ہرگز نہیں! قَسم ہے چاند کی۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
ہوشیار ہمیں چاند کی قسم
9 Tafsir Jalalayn
ہاں ہاں (ہمیں) چاند کی قسم
ترجمہ : ہرگز نہیں ! قسم ہے چاند کی اور رات کی جب وہ جانے لگے (کلا) استفتاح کیلئے بمعنی الا ہے (اذا) ذال کے فتح کے ساتھ (دبر) بمعنی جاء بعد النھار اور ایک قرأت میں اذا دبر ذال کے سکون کے ساتھ، اس کے بعد ہمزہ بمعنی مضی یعنی گیا، اور قسم ہے صبح کی جب کہ روشن ہوجائے کہ یقینا جہنم بڑی بھاری چیزوں میں سے ایک ہے یعنی بڑی مصیبتوں میں سے ایک ہے، بنی آدم کو ڈرانے والی ہے (نذیرا) احدی سے حال ہے (نذیرا) کو مذکر لایا گیا ہے اس لئے کہ (سقر) عذاب کے معنی میں ہے، ہر اس شخص کے لئے جو تم میں سے ایمان کے ذریعہ خیر یا جنت کی طرف آگے بڑھے یا (لمن شاء) البشر سے بدل ہے، (اس شخص کے لئے بھی) کہ وہ نار کی طرف کفر کے ذریعہ پیچھے ہٹے ہر شخص اپنے اعمال (کفریہ) کی وجہ سے دوزخ میں مرہون و ماخوذ ہے، مگر دائیں ہاتھ والے اور وہ مومنین ہیں کہ وہ جہنم سے نجات پانے والے ہیں کہ وہ جنتوں میں ہوں گے اور آپس میں مجرموں کے اور ان کے حال کے بارے میں پوچھتے ہوں گے اور موحدین، دوزخ سے نکلنے کے بعدمجرمین سے سوال کریں گے کہ تم کو دوزخ میں کس چیز نے داخل کردیا ؟ وہ جواب دیں گے، نہ تو ہم نماز پڑھا کرتے تھے اور نہ مسکینوں کو کھانا کھلایا کرتے تھے اور ہم بھی (باطل) کے مشغلوں میں رہنے والوں کے ساتھ باطل کے مشغلہ میں رہا کرتے تھے، اور ہم یم بعث اور روز جزاء کو جھٹلایا کرتے تھے، یہاں تک کہ ہمیں موت آگئی حتیٰ کہ ان کو شفاعت کرنے والوں یعنی فرشتوں اور نبیوں اور صالحین کی شفاعت کچھ نفع نہ دے گی مطلب یہ ہے کہ ان کے لئے شفاعت نہ ہوگی، تو انہیں کیا ہوا ؟ ما مبتداء ہے اور لھم اس کی خبر ہے، محذوف (حصل) کے متعلق ہے، جس کی طرف خبر کی ضمیر راجع ہے کہ نصیحت سے منہ موڑتے ہیں، معرضین (لھم) کی ضمیر حال ہے، مطلب یہ ہے کہ نصیحت سے اعراض کرنے سے ان کو کیا حاصل ہوا ؟ گویا کہ وہ وحشی گدھے ہیں جو شیر سے تیزی کے ساتھ بھاگے جا رہے ہیں بلکہ ان میں سے ہر شخص چاہتا ہے کہ اسے اتباع نبی کے سلسلہ میں اللہ کی طرف سے کھلی ہوئی کتابیں دی جائیں جیسا کہ وہ کہا کرتے تھے کہ ہم ہرگز آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان نہ لائیں گے، تا آں کہ ہم پر کتاب نازل نہ کی جائے جس کو ہم پڑھیں ایسا ہرگز نہیں، کلا حرف ردع ہے اس چیز کا انکار کرنے کے لئے جس کا انہوں نے ارادہ کیا ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ آخرت یعنی اس کے عذاب سے نہیں ڈرتے، ہرگز نہیں ! کلا برائے استفتاح ہے، یہ قرآن ہی نصیحت ہے اب جو چاہے اس سے نصیحت حاصل کرے کہ اس کو پڑھے اور اس سے نصیحت حاصل کرے اور یہ لوگ خدا کی مشیت کے بغیر نصیحت حاصل نہیں کرسکتے وہ اسی لائق ہے کہ اس سے ڈریں اور وہ اس لائق ہے کہ بخشے یعنی جو اس سے ڈرے اسے معاف کرے۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : کلا استفتاح بمعنی الا، کلا حرف ردع ہے یہ اس شخص کیلئے زجر و توبیخ ہے جو سقر (دوزخ) کو بڑی مصیبتوں میں سے تسلیم نہ کرے، وائو قسمیہ جارہ ہے اور القمر مجرور ہے دونوں اقسم محذوف کے متعلق ہیں انھا لاحدی الکبر مقسم علیہ ہے اور کبر، کبری کی جمع ہے، (اعراب القرآن للدرویش) درویش نے کہا ہے کہ علامہ جلال الدین محلی (رح) تعالیٰ نے جو یہ فرمایا ہے کہ کلا استفتاح بمعنی الا ہے، اس کا کوئی معنی نہیں ہے۔
قولہ : اذا دبر اس میں دو قرأتیں ہیں (١) اذا دبر، ذال کے فتحہ کے ساتھ (٢) اذ ادبر، ذال کے سکون کے ساتھ بعض نے کہا ہے کہ دونوں کے معنی ایک ہی ہیں، بعض نے کہا ہے دبر بمعنی جاء اور ادبر بمعنی مضی، مفسر علام اسی طرف گئے ہیں۔
قولہ : ذکر لانھا بمعنی العذاب یہ ایک سوال مقدر کا جواب ہے۔
سوال : سوال یہ ہے کہ احدی الکبر، ذوالحال مؤنث ہے اور نذیراً حال مذکر ہے حالانکہ حال ذوالحال میں مطابقت ضروری ہے ؟
جواب : جواب کا حاصل یہ ہے کہ احدی الکبر سے مراد عذاب ہے جو کہ مذکر ہے، لہٰذا اب کوئی اعتراض نہیں۔
قولہ : کائنون، کائنون محذوف مان کر مفسر علام نے اشارہ کردیا کہ فی جنت یتساء لون، محذوف کے متعلق ہے اور وہ جملہ ہو کر ھم مبتداء محذوف کی خبر ہے اور مبتداء خبر سے مل کر جملہ مستانفہ ہے جو کہ سوال مقدر کا جواب ہے ماشانھم و حالھم سوال ہے اور ھم فی جنت جواب ہے۔
قولہ : عن المجرمین ای عن حال المجرمین مضاف محذوف ہے۔
قولہ : والمعنی لا شفاعۃ لھم یہ بھی دراصل ایک سوال کا جواب ہے۔
سوال : سوال یہ ہے ” فما تنعھم شفاعۃ الشافعین “ سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے لئے شفاعت کرنے والے تو ہوں گے مگر شفاعت ان کو کوئی فائدہ نہیں پہنچائے گی حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ان کے لئے شفاعت ہی نہ ہوگی ؟
جواب : جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ نفی قید اور مقید دونوں پر داخل ہے یعنی نہ شفاعت ہوگی اور نہ شفاعت کا نفع۔
قولہ : معرضین یہ لھم کی ضمیر سے حال ہے، اور مالھم عن التذکرۃ معرضین کا مطلب ہے ای شیء حصل لھم فی اعراضھم عن الاتعاظ ؟ ان کو نصیحت سے اعراض کر کے کیا حاصل ہوا ؟ ما بمعنی مبتداء ہے لھم، حصل محذوف کے متعلق ہو کر مبتداء کی خبر، اور حصل محذوف کی ضمیر مستتر، خبر یعنی جار مجرور لھم کی جانب راجع ہے۔
قولہ : وحشیۃ یہ مستنفرۃ کی تفسیر نہیں ہے بلکہ ” حمار وحشی “ ایک خاص قسم کے حمار کا نام ہے لہٰذا مناسب ہوتا اگر اسے حمر کے بعد متصلاً ، لاتے اور حمروحشیۃ مسنفرۃ فرماتے۔
تفسیر و تشریح
انھا لاحدی الکبر، ھا ضمیر سقر کی طرف راجع ہے جس کا ذکر اوپر کی آیت میں آیا ہے، کبر، کبری کی جمع ہے اور مصیبۃ یا داھیۃ کی صفت ہے۔
لمن شاء منکم ان یتقدم او یتاخر، یہاں تقدم سے مراد تقدم الی الایمان والطاعۃ ہے اور تاخر سے مراد ایمان اور طاعۃ سے پیچھے ہٹنا ہے۔
رھینۃ، بمعنی مرھونۃ ہے یعنی ہر شخص اپنے اعمال کا گروی ہے، یعنی وہ عمل اگر نیک ہے تو اس کو عذاب سے چھڑا لے گا اور اگر برے ہیں تو ہلاک کرا دے گا۔ (بقیہ آیات کی تفسیر واضح ہے) ۔
10 Tafsir as-Saadi
﴿کَلَّا﴾ یہاں بمعنی )حقَاً( یا بمعنی (ألاَ) استفتاحیہ کے ہے۔ اللہ تعالیٰ نے چاند اور رات کی قسم کھائی جس وقت وہ پیچھے ہٹے اور دن کی قسم کھائی جس وقت وہ خوب روشن ہو کیونکہ یہ مذکورہ چیزیں اللہ تعالیٰ کی عظیم نشانیوں پر مشتمل ہیں جو اللہ تعالیٰ کی کامل قدرت وحکمت، لامحدود قوت، بے پایاں رحمت ور اس کے احاطہ علم پر دلالت کرتی ہیں۔ جس پر قسم کھائی وہ اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے : ﴿ إِنَّهَا لَإِحْدَى الْكُبَرِ ﴾ ” کہ وہ (آگ )ایک بہت بڑی (آفت )ہے۔“ یعنی بے شک جہنم کی آگ بہت بڑی مصیبت اور غم میں مبتلا کردینے والا معاملہ ہے۔ پس جب ہم نے تمہیں اس کے بارے میں خبردار کردیا اور تم اس کے بارے میں پوری بصیرت رکھتے ہو، تب تم میں سے جو چاہے آگے بڑھے اور ایسے عمل کرے جو اسے اللہ تعالیٰ اور اس کی رضا کے قریب کرتے ہیں اور اس کے اکرام وتکریم کے گھر تک پہنچاتے ہیں یا وہ اس مقصد سے پیچھے ہٹ جائے جس کے لیے اس کو تخلیق کیا گیا ہے ، جس کو اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے اور اس سے راضی ہے اور نافرمانی کے کام کرے جو جہنم کے قریب کرتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : ﴿ وَقُلِ الْحَقُّ مِن رَّبِّكُمْ فَمَن شَاءَ فَلْيُؤْمِن وَمَن شَاءَ فَلْيَكْفُرْ ﴾ (الکھف :18؍29) ”اور کہہ دیجئے کہ یہ برحق قرآن تمہارے رب کی طرف سے ہے پس جو چاہیے ،ایمان لائے اور جو چاہے انکار کرے۔“
11 Mufti Taqi Usmani
khabrdar ! qasam hai chaand ki ,