المرسلات آية ۱
وَالْمُرْسَلٰتِ عُرْفًا ۙ
طاہر القادری:
نرم و خوش گوار ہواؤں کی قَسم جو پے در پے چلتی ہیں،
English Sahih:
By those [winds] sent forth in gusts
1 Abul A'ala Maududi
قسم ہے اُن (ہواؤں) کی جو پے در پے بھیجی جاتی ہیں
2 Ahmed Raza Khan
قسم ان کی جو بھیجی جاتی ہیں لگاتار
3 Ahmed Ali
ان ہواؤں کی قسم ہے جو نفع پہنچانے کے لیے بھیجی جاتی ہیں
4 Ahsanul Bayan
دل خوش کن چلتی ہوئی ہواؤں کی قسم (١)
١۔١ اس مفہوم کے اعتبار سے عرفاً کے معنی پے درپے ہوں گے، بعض نے مُرسلات سے فرشتے یا انبیا مراد لئے ہیں اس صورت میں عرفاً کے معنی وحی الٰہی، یا احکام شریعت ہوں گے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
ہواؤں کی قسم جو نرم نرم چلتی ہیں
6 Muhammad Junagarhi
دل خوش کن چلتی ہواؤں کی قسم
7 Muhammad Hussain Najafi
قَسم ہے ان کی جو مسلسل چھوڑ دی جاتی ہیں۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
ان کی قسم جنہیں تسلسل کے ساتھ بھیجا گیا ہے
9 Tafsir Jalalayn
ہواؤں کی قسم جو نرم نرم چلتی ہیں
ترجمہ : شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے، قسم ہے مسلسل چلنے والی ہوائوں کی یعنی ان ہوائوں کی جو تسلسل میں گھوڑے کے (گردن) کے بالوں کی مانند ہیں، عرفاً حال ہونے کی وجہ سے منصوب ہے، پھر زور سے چلنے والی ہوائوں کی قسم یعنی زور دار ہوائوں کی اور پھیلانے والی ہوائوں کی قسم، یعنی ان ہوائوں کی جو بادلوں کو پھیلاتی ہیں، پھر فرق کرنے والی آیات کی قسم یعنی قرآنی آیات کی جو حق و باطل اور حلال و حرام کے درمیان فرق کرتی ہیں، پھر وحی کا القاء کرنے والوں کی قسم یعنی ان فرشتوں کی قسم جو انبیاء (علیہم السلام) پر وحی لے کر نازل ہوتے ہیں یا ان رسولوں کی قسم جو اس وحی کو امت کو پہنچا دیتے ہیں، اللہ تعالیٰ کی طرف سے توبہ کا یا ڈرانے کا القاء کرتے ہیں اور ایک قرأت میں نذرا کے ذال کے ضمہ کے ساتھ نذرا آیا ہے، اور عذرا بھی ضمہ ذال کے ساتھ پڑھا گیا ہے، اے مکہ کے کافرو ! جس بعث و عذاب کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے وہ یقینا ہونے والا ہے یعنی لامحالہ واقع ہونے والا ہے جب ستارے بےنور کردیئے جائیں گے یعنی ان کا نور سلب کرلیا جائے گا، اور جب آسمان پھاڑ دیا جائے گا اور پہاڑ توڑ پھوڑ کر اڑا دیئے جائیں گے اور جب رسولوں کو وقت مقررہ پر جمع کیا جائے گا (وقتت) وائو کے ساتھ اور وائو کے عوض ہمزہ کے ساتھ، کس دن کے لئے (ان سب کو) مؤخر کیا جائے گا ؟ بڑے دن میں امتوں پر تبلیغ (رسالت) کی شہادت کے لئے (مؤخر) کیا جائے گا، مخلوق کے درمیان فیصلے کے دن کے لئے (مؤخر کیا جائے گا) اور اس سے اذا کا جواب اخذ کیا جاتا ہے اور وہ جواب ” وقع لفصل بین الخلائق “ ہے، اور تجھے کیا معلوم کہ فیصلے کا دن کیا ہے ؟ (ابھام) اس دن کی ہولناکی کو بیان کرنے کے لئے ہے، اس دن جھٹلانے والوں کی خرابی ہے یہ ان کے لئے وعید ہے کیا ہم نے اگلوں کو ان کی تکذیب کی وجہ سے ہلاک نہیں کردیا ؟ یعنی ان کو ہلاک کردیا، پھر ہم ان کے بعد تکذیب کرنے والوں میں پچھلوں کو لائیں گے جیسا کہ کفار مکہ کہ ان کو ہم نے ہلاک کردیا، اور ہم ایسا ہی ہمارے تکذیب کرنے والوں کے ساتھ کرنے کے مانند ہر مجرم کے ساتھ کریں گے یعنی ہر اس شخص کے ساتھ کریں گے جو مستقبل میں جرم کرے گا، ان کو بھی ہلاک کردیں گے، اس دن جھٹلانے والوں کی بڑی خرابی ہے یہ تاکید ہے، کیا ہم نے تم کو ایک حقیر پانی سے کہ وہ نطفہ ٔ منی ہے نہیں پیدا کیا ؟ کہ ہم نے اس (پانی) کو ایک وقت مقررہ تک کے لئے ایک محفوظ جگہ میں کہ وہ رحم ماد رہے رکھ دیا اور وہ وقت ولادت ہے غرض ہم نے اس کی منصوبہ بندی کی (پلاننگ) کی ہم کیسے اچھے منصوبہ بندی کرنے والے ہیں ؟ جھٹلانے والوں کے لئے اس دن بڑی خرابی ہے، کیا ہم نے زمین کو زندوں کو اپنی پیٹھ پر اور مردوں کو اپنے پیٹ میں سمیٹنے والی نہیں بنایا ؟ (کفاتا) کفت کا مصدر ہے (کفت) بمعنی ضم یعنی سمیٹنے والی، اور ہم نے ان میں بلند وبالا پہاڑ بنا دیئے اور ہم نے تم کو شیریں پانی پلایا، اس دن جھٹلانے والوں کے لئے بڑی خرابی ہے، قیامت کے دن جھٹلانے والوں سے کہا جائے گا کہ تم اس عذاب کی طرف چلوجس کو تم جھٹلایا کرتے تھے، ایک سائبان کی طرف چلو جس کی تین شاخیں ہوں گی اور وہ جہنم کا دھواں ہے، جب وہ بلند ہوگا تو اس کے عظیم ہونے کی وجہ سے اس کی تین شاخیں ہوجائیں گی جس میں نہ ٹھنڈا سایہ ہے کہ اس دن کی گرمی سے ان پر سایہ فگن ہو اور وہ نہ ان کو آگ کے شعلوں سے ذرا بھی بچا سکے گا وہ آگ کے انگارے برسائے گی شرر اس چنگاری کو کہتے ہیں جو آگ سے اڑتی ہے محل کے مانند یعنی وہ (انگارے) عظیم ہونے میں اور بلند ہونے میں عمارت کی مانند ہوں گے گویا کہ وہ کالے کالے اونٹ ہیں ہیئت میں اور رنگ میں، جمالات، جمالۃ کی جمع ہے اور جمالۃ، جمل کی جمع ہے اور ایک قرأت میں جمالۃ ہے، اور حدیث میں ہے کہ آگ کے شعلے تار ول کے مانند سیاہ ہوں گے، اور عرب کالے اونٹ کو صفر کہتے ہیں اس کی سیاہی میں زردی کے ملنے کی وجہ سے لہٰذا کہا گیا ہے کہ آیت میں صفر بمعنی سود ہے، مذکورہ قول کی وجہ سے اور کہا گیا ہے کہ صفر بمعنی سود نہیں ہے، اور شرر شررۃ کی جمع ہے اور شرار، شرارۃ کی جمع ہے اور قیر کے معنی قار (تارکول) کے ہیں، اس دن جھٹلانے والوں کیلئے بڑی خرابی ہے، یہ قیامت کا دن ایسا ہے کہ وہ اس دن میں کچھ بھی نہ بول سکیں گے اور نہ ان کو عذر خواہی کی اجازت ہوگی کہ اس میں وہ معذرت کرسکیں، یہ یوذن پر عطف ہے، معطوف علیہ سے تسبب کے بغیر، لہٰذا وہ نفی کے تحت داخل ہے ای لا اذن فلا اعتذار، یعنی جب اجازت نہیں تو معذرت بھی نہیں، اس دن جھٹلانے والوں کے لئے بڑی خرابی ہے، یہ فیصلے کا دن ہے اے اس امت میں سے تکذیب کرنے والو ! ہم نے تم کو اور تم سے پہلے تکذیب کرنے والوں کو جمع کرلیا لہٰذا تم سب کا حساب لیا جائے گا اور عذاب دیا جائے گا، اگر تمہارے پاس تم سے عذاب کو دفع کرنے کی کوئی تدبیرہو تو کرلو، اس دن جھٹلانے والوں کے لئے بڑی خرابی ہے۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : والمرسلات عرفا، اللہ تبارک و تعالیٰ نے پانچ صفات کی قسم کھائی ہے جن کے موصوف محذوف ہیں، بعض حضرات تمام موصوفات الریاح (ہوائوں) کو محذف مانتے ہیں اور بعض کل میں ملائکۃ موصوفات محذوف مانتے ہیں اور بعض نے مختلف یعنی بعض کے ملائکہ اور بعض کے الریاح۔
قولہ : عرفا، عرف گھوڑے کی گردن کے بالوں کو کہتے ہیں، پھر حقیقت عرفیہ کے طور پر تسلسل و تتابع کے معنی میں استعمال ہونے لگا۔
قولہ : انما توعدون جواب قسم ہے اور ما بمعنی الذی ہے اور عائد محذوف ہے، ای توعدونہ۔
قولہ : ویوخذ منہ جواب اذا، منہ ای من یوم الفصل یعنی اذا کی شرط محذوف ہے جو لیوم الفصل سے مفہوم ہے ای وقع الفصل بین الخلائق۔
قولہ : ویل یومئذ للمکذبین، ویل دراصل مصدر ہے جو اپنے فعل کے قائم مقام ہے مگر ثبات و دوام پر دلالت کرنے کے لئے نصب سے رفع کی طرف عدول کرلیا گیا ہے، جیسا کہ سلام علیکم میں ہے، کہ اصل میں سلمت سلاما تھا۔
قولہ : لاظلیل، لانافیہ ہے یہ ظل کی صفت ہے اور بطور تہکم مشرکین کے وہم کا رد ہے، اس لئے کہ ظل تو ظلیل ہوتا ہی ہے اس کے اس وہم کو لطلیل کہہ کر رد کردیا کہ ظل ہی نہیں ہوگا۔
قولہ : من غیر تسبب عنہ یہ ایک سوال مقدر کا جواب ہے۔
سوال : یہ ہے کہ فاء کے ذریعہ منفی پر عطف معطوف پر نصب کا تقاضہ کرتا ہے کیونکہ معطوف بھی منفی کے حکم میں ہوتا ہے حالانکہ یہاں فیعتذرون کو حالت رفع میں لایا گیا ہے ؟
جواب : جواب کا حاصل یہ ہے کہ مابعد فاء پر نصب اس وقت ہوتا ہے جب معطوف علیہ معطوف کا سبب ہو اور یہاں ایسا نہیں ہے یعنی ایسی بات نہیں ہے کہ ان کی طرف سے معذرت اس لئے نہیں ہوئی کہ ان کو معذرت کی اجازت نہیں ملی، ای لا اذن فلا اعتذار، اور معطوف علیہ معطوف کے لئے سبب ہو تو مطلب یہ ہوگا کہ وہ معذرت اس لئے نہ کرسکے کہ ان کو عذر خواہی کی اجازت نہیں ملی، اس سے یہ وہم ہوتا ہے کہ درحقیقت وہ معذور تھے مگر عذر خواہی کی اجازت نہیں ملی، اور یہ خلاف واقعہ ہے : اگر معطوف علیہ کو معطوف کا سبب قرار دیا جائے تو معطوف پر حذف نون کے طور پر نصب آئے گا جیسے ” لایقضی علیھم فیموتوا “ یہاں چونکہ معطوف علیہ معطوف کا سبب ہے اس لئے معطوف حذف نون کے ساتھ منصوب ہے یعنی نہ مرنے کا سبب ان کی موت کے فیصلہ کا نہ ہے، ابن عطیہ نے کہا ہے کہ فیعتذرون کے حذف نون کے ساتھ منصوب نہ ہونے کی وجہ فواصل کی رعایت ہے، مطلب یہ کہ فواصل کی رعایت کی وجہ سے فیعتذرون میں نون کو حذف نہیں کیا گیا ہے۔
تفسیر و تشریح
صحیح بخاری میں حضرت عبد اللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہمراہ منیٰ کی ایک غار میں تھے کہ اچانک سورة مرسلات نازل ہوئی، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کو پڑھتے جاتے تھے اور میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دہن مبارک سے اس کو سنتا اور یاد کرتا جاتا تھا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا دہن مبارک اس سورت کی حلاوت سے رطب تھا کہ اچانک ایک سانپ نے ہم پر حملہ کردیا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو قتل کرنے کا حکم فرمایا، ہم اس کی طرف جھپٹے مگر وہ نکل بھاگا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جس طرح تم اس کے شر سے محفوظ رہے وہ بھی تمہارے شر سے محفوظ ہوگیا، (معارف) اس سورت میں حق تعالیٰ نے پانچ چیزوں کی قسم کھا کر یہ بتایا ہے کہ قیامت یقینا واقع ہوگی، مگر ان پانچ چیزوں کا ذکر نہیں فرمایا بلکہ ان کی صفات کا ذکر فرمایا ہے اب وہ موصوف کیا ہیں اس میں مفسرین کا اختلاف ہے، بعض نے سب کا موصوف ہوائوں کو قرار دیا ہے اور بعض نے ملائکہ اور بعض نے پہلی تین صفات کا موصوف ہوائوں کو اور بقیہ دو ملائکہ کو، اس کے علاوہ بھی اقوال ہیں۔
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک وتعالیٰ نے قیامت کے روز اور اعمال کی جزا وسزا پر فرشتوں کی قسم کھائی ہے ، وہ فرشتے جن کو اللہ تعالیٰ کونی وقدری معاملات، تدبیر کائنات، شرعی معاملات اور اپنے رسولوں پر وحی کے لیے بھیجتا ہے ﴿ عُرْفًا ﴾ (المرسلات )سے حال ہے ، یعنی ان کو محض ناشائستہ اور بے فائدہ کام کے لیے نہیں بھیجا گیا بلکہ ان کو عرف، حکمت اور مصلحت کے ساتھ بھیجا گیا ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
qasam hai unn ( hawaon ) ki jo aik kay baad aik bheji jati hain ,
12 Tafsir Ibn Kathir
فرشتوں اور ہواؤں کی اقسام
بعض بزرگ صحابہ تابعین وغیرہ سے تو مروی ہے کہ مذکورہ بالا قسمیں ان اوصاف والے فرشتوں کی کھائی ہیں، بعض کہتے ہیں پہلے کی چار قسمیں تو ہواؤں کی ہیں اور پانچویں قسم فرشتوں کی ہے، بعض نے توقف کیا ہے کہ والمرسلات سے مراد یا تو فرشتے ہیں یا ہوائیں ہیں، ہاں (والعاصفات) میں کہا ہے کہ اس سے مراد تو ہوائیں ہی ہیں، بعض عاصفات میں یہ فرماتے ہیں اور (ناشرات) میں کوئی فیصلہ نہیں کرتے، یہ بھی مروی ہے کہ ناشرات سے مراد بارش ہے، بہ ظاہر تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ مرسلات سے مراد ہوائیں ہے، جیسے اور جگہ فرمان باری ( وَاَرْسَلْنَا الرِّيٰحَ لَوَاقِحَ فَاَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً فَاَسْقَيْنٰكُمُوْهُ ۚ وَمَآ اَنْتُمْ لَهٗ بِخٰزِنِيْنَ 22) 15 ۔ الحجر :22) ، یعنی ہم نے ہوائیں چلائیں جو ابر کو بوجھل کرنے والی ہیں اور جگہ ہے (وَمِنْ اٰيٰتِهٖٓ اَنْ يُّرْسِلَ الرِّيَاحَ مُبَشِّرٰتٍ وَّلِيُذِيْقَكُمْ مِّنْ رَّحْمَتِهٖ وَلِتَجْرِيَ الْفُلْكُ بِاَمْرِهٖ وَلِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِهٖ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ 46) 30 ۔ الروم :46) الخ، اپنی رحمت سے پیشتر اس کی خوشخبری دنیے والی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں وہ چلاتا ہے، (عاصفات) سے بھی مراد ہوائیں ہیں، وہ نرم ہلکی اور بھینی بھینی ہوائیں تھیں یہ ذرا تیز جھونکوں والی اور آواز والی ہوائیں ہیں ناشرات سے مراد بھی ہوائیں ہیں جو بادلوں کو آسمان میں ہر چار سو پھیلا دیتی ہیں اور جدھر اللہ کا حکم ہوتا ہے انہیں لے جاتی ہیں (فارقات) اور (ملقیت) سے مراد البتہ فرشتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے حکم سے رسولوں پر وحی لے کر آتے ہیں جس سے حق و باطل حلال و حرام میں ضالت و ہدایت میں امتیاز اور فرق ہوجاتا ہے تاکہ ہے جس دن تم سب کے سب اول آخر والے اپنی اپنی قبروں سے دوبارہ زندہ کئے جاؤ گے اور اپنے کرتوت کا پھل پاؤ گے نیکی کی جزا اور بدی کی سزا پاؤ گے، صور پھونک دیا جائے گا اور ایک چٹیل میدان میں تم سب جمع کر دئے جاؤ گے یہ وعدہ یقیناً حق ہے اور ہو کر رہنے والا اور لازمی طور پر آنے والا ہے، اس دن ستارے بےنور ہو کر گرجائیں گے اور آسمان پھٹ جائے گا ٹکڑے ٹکڑے ہوجائے گا اور یہاڑ ریزہ ریزہ ہو کر اڑ جائیں گے یہاں تک کہ نام نشان بھی باقی نہ رہے گا جیسے اور جگہ ہے آیت ( وَيَسْــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الْجِبَالِ فَقُلْ يَنْسِفُهَا رَبِّيْ نَسْفًا\010\05ۙ ) 20 ۔ طه :105) ، اور فرمایا آیت ( وَيَوْمَ نُسَيِّرُ الْجِبَالَ وَتَرَى الْاَرْضَ بَارِزَةً ۙ وَّحَشَرْنٰهُمْ فَلَمْ نُغَادِرْ مِنْهُمْ اَحَدًا 47ۚ ) 18 ۔ الكهف :47) ، یعنی پہاڑ ریزہ ریزہ ہو کر اڑ جائیں گے اور اس دن وہ چلنے لگیں گے بالکل نام و نشان مٹ جائے گا اور زمین ہموار بغیر اونچ نیچے کی رہ جائے گی اور رسولوں کو جمع کیا جائے گا اس وقت مقررہ پر انہیں لایا جائے گا، جیسے اور جگہ ہے آیت ( يَوْمَ يَجْمَعُ اللّٰهُ الرُّسُلَ فَيَقُوْلُ مَاذَآ اُجِبْتُمْ\010\09 ) 5 ۔ المآئدہ :109) ، اس دن اللہ تعالیٰ رسولوں کو جمع کرے گا اور ان سے شہادتیں لے گا جیسے اور جگہ ہے آیت ( وَاَشْرَقَتِ الْاَرْضُ بِنُوْرِ رَبِّهَا وَوُضِعَ الْكِتٰبُ وَجِايْۗءَ بالنَّـبِيّٖنَ وَالشُّهَدَاۗءِ وَقُضِيَ بَيْنَهُمْ بالْحَــقِّ وَهُمْ لَا يُظْلَمُوْنَ 69) 39 ۔ الزمر :69) ، زمین اپنے رب کے نور سے چمک اٹھے گی نامہ اعمال دے دیئے جائیں گے نبیوں کو اور گواہوں کو لایا جائے گا اور حق و انصاف کے ساتھ فیصلے کئے جائیں گے اور کسی پر ظلم نہ ہوگا، پھر فرماتا ہے کہ ان رسولوں کو ٹھہرایا گیا تھا اس لئے کہ قیامت کے دن فیصلے ہوں گے، جیسے فرمایا آیت ( فَلَا تَحْسَبَنَّ اللّٰهَ مُخْلِفَ وَعْدِهٖ رُسُلَهٗ ۭاِنَّ اللّٰهَ عَزِيْزٌ ذو انْتِقَامٍ 47ۭ ) 14 ۔ ابراھیم :47) ، یہ خیال نہ کر کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں سے وعدہ خلافی کرے گا نہیں نہیں اللہ تعالیٰ بڑے غلبہ والا اور انتقام والا ہے، جس دن یہ زمین بدل دی جائے گی اور آسمان بھی اور سب کے سب اللہ واحد وقہار کے سامنے پیش ہوجائیں گے، اسی کو یہاں فیصلے کا دن کہا گیا، پھر اس دن کی عظمت ظاہر کرنے کے لئے فرمایا میرے معلوم کرائے بغیر اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم بھی اس دن کی حقیقت سے باخبر نہیں ہوسکتے، اس دن ان جھٹلانے والوں کے لئے سخت خرابی ہے، ایک غیر صحیح حدیث میں یہ بھی گذر چکا ہے کہ ویل جہنم کی ایک وادی کا نام ہے۔