اور جو شخص اس دن ان سے پیٹھ پھیرے گا، سوائے اس کے جو جنگ (ہی) کے لئے کوئی داؤ چل رہا ہو یا اپنے (ہی) کسی لشکر سے (تعاون کے لئے) ملنا چاہتا ہو، تو واقعتاً وہ اللہ کے غضب کے ساتھ پلٹا اور اس کا ٹھکانا دوزخ ہے، اور وہ (بہت ہی) برا ٹھکانا ہے،
English Sahih:
And whoever turns his back to them on such a day, unless swerving [as a strategy] for war or joining [another] company, has certainly returned with anger [upon him] from Allah, and his refuge is Hell – and wretched is the destination.
1 Abul A'ala Maududi
جس نے ایسے موقع پر پیٹھ پھیری، الا یہ کہ جنگی چال کے طور پر ایسا کرے یا کسی دُوسری فوج سے جا ملنے کے لیے، تو وہ اللہ کے غضب میں گھِر جائے گا، اُس کا ٹھکانہ جہنم ہوگا، اور وہ بہت بُری جائے بازگشت ہے
2 Ahmed Raza Khan
اور جو اس دن انہیں پیٹھ دے گا مگر لڑائی کا ہنرَ کرنے یا اپنی جماعت میں جاملنے کو، تو وہ اللہ کے غضب میں پلٹا اور اس کا ٹھکانا دوزخ ہے، اور کیا بری جگہ ہے پلٹنے کی،
3 Ahmed Ali
اور جو کوئی اس دن ان سے پیٹھ پھیرے گا مگر یہ کہ لڑائی کا ہنر کرتا ہو یا فوج میں جا ملتا ہو سو وہ الله کا غضب لے کر پھرا اور اس کا ٹھکانا دوزخ ہے اور بہت برا ٹھکانا ہے
4 Ahsanul Bayan
اور جو شخص ان سے اس موقع پر پشت پھیرے گا مگر ہاں جو لڑائی کے لئے پینترا بدلتا ہو یا جو (اپنی) جماعت کی طرف پناہ لینے آتا ہو وہ مستشنٰی ہے (١) باقی اور جو ایسا کرے گا وہ اللہ کے غضب میں آجائے گا اور اس کا ٹھکانہ دوزخ ہوگا اور وہ بہت ہی بری جگہ ہے (٢)۔
١٦۔ ۱ گزشتہ آیت میں پیٹھ پھیرنے سے جو منع کیا گیا ہے، دو صورتیں اس سے مستشنٰی ہیں۔ ایک تحرف کی دوسری تحیز کی تَحَرُّفْ کے معنی ہیں ایک طرف پھر جانا، یعنی لڑائی میں جنگی چال کے طور پر یا دشمن کو دھوکے میں ڈالنے کی غرض سے لڑتا لڑتا ایک طرف پھر جائے، دشمن یہ سمجھے کہ شاید یہ شکت خوردہ ہو کر بھاگ رہا ہے لیکن وہ پھر ایک دم پینترا بدل کر اچانک دشمن پر حملہ کردے۔ یہ پیٹھ پھیرنا نہیں ہے بلکہ یہ جنگی چال ہے جو بعض دفعہ ضروری ہوتی ہے۔ تَحَیُّزُ کے معنی ملنے اور پناہ لینے کے ہیں، کوئی مجاہد لڑتا لڑتا تنہا رہ جائے تو یہ لطائف الحیل میدان جنگ سے ایک طرف ہوجائے، تاکہ وہ اپنی جماعت کی طرف پناہ حاصل کر سکے اور اس کی مدد سے دوبارہ حملہ کرے۔ یہ دونوں صورتیں جائز ہیں۔ ١٦۔٢ یعنی مذکورہ دو صورتوں کے علاوہ کوئی شخص میدان جنگ سے پیٹھ پھیرے گا، اس کے لئے سخت وعید ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور جو شخص جنگ کے روز اس صورت کے سوا کہ لڑائی کے لیے کنارے کنارے چلے (یعنی حکمت عملی سے دشمن کو مارے) یا اپنی فوج میں جا ملنا چاہے۔ ان سے پیٹھ پھیرے گا تو (سمجھو کہ) وہ خدا کے غضب میں گرفتار ہوگیا اور اس کا ٹھکانا دوزخ ہے۔ اور وہ بہت ہی بری جگہ ہے
6 Muhammad Junagarhi
اور جو شخص ان سے اس موقع پر پشت پھیرے گا مگر ہاں جو لڑائی کے لیے پینترا بدلتا ہو یا جو (اپنی) جماعت کی طرف پناه لینے آتا ہو وه مستثنیٰ ہے۔ باقی اور جو ایسا کرے گا وه اللہ کے غضب میں آجائے گا اور اس کا ٹھکانہ دوزخ ہوگا وه بہت ہی بری جگہ ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
اور جو ایسے (جنگ والے) موقع پر ان کو پیٹھ دکھائے گا۔ سوا اس کے جو جنگی چال کے طور پر ہٹ جائے۔ یا کسی (اپنے) فوجی دستہ کے پاس جگہ لینے کے لیے ایسا کرے (کہ اس میں کوئی حرج نہیں ہے) تو وہ خدا کے قہر و غضب میں آجائے گا۔ اور اس کا ٹھکانا دوزخ ہوگا۔ اور وہ بہت بری جائے بازگشت ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور جو آج کے دن پیٹھ دکھائے گا وہ غضب الٰہی کا حق دار ہوگا اور اس کا ٹھکانا جہّنم ّہوگا جو بدترین انجام ہے علاوہ ان لوگوں کے جو جنگی حکمت علمی کی بنا پر پیچھے ہٹ جائیں یا کسی دوسرے گروہ کی پناہ لینے کے لئے اپنی جگہ چھوڑ دیں
9 Tafsir Jalalayn
اور جو شخص جنگ کے روز اس صورت کے سوا کہ لڑائی کے لئے کنارے کنارے چلے (یعنی حکمت عملی سے دشمن کو مارے) یا اپنی فوج میں جا ملنا چاہے۔ ان سے پیٹھ پھیرے گا تو (سمجھو کہ) وہ خدا کے غضب میں گرفتار ہوگیا اور اسکا ٹھکانا دوزخ ہے اور وہ بہت ہی بری جگہ ہے۔ میدان سے راہ فرار : وَمَنْ یولِّھِمْ یومَئذٍ دُبَرَہ \& اِلاِّ متحر فا لقتالِ (الآیة) دشمن کے شدید دباؤ پر پسپائی ناجائز نہیں ہے جبکہ اس کا مقصد اپنے عَقْبِیْ مرکز کی طرف پلٹنا یا اپنی ہی فوج کے کسی دوسرے حصے سے جاملنا ہو، البتہ جو چیز حرام ہے وہ فرار ہے جو کسی جنگی مقصد سے نہیں بلکہ جان بچانے کی غرض سے ہو، اس فرار کو بڑے گناہوں میں شمار کیا گیا ہے چناچہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا \&\& تین گناہ ایسے ہیں جن کے ساتھ کوئی نیکی فائدہ نہیں دیتی \&\& ایک شرک دوسرے والدین کے حقوق کی حق تلفی تیسرے میدان جہاد فی سبیل اللہ سے فرار، اسی طرح ایک اور حدیث میں سات بڑے گناہ شمار کرائے ہیں ان میں ایک قتال فی سبیل اللہ سے فرار بھی ہے میدان جہاد سے فرار کے گناہ ہونے کی صرف یہ وجہ نہیں کہ یہ ایک بزدلانہ فعل ہے بلکہ اس وجہ سے ایک شخص کا فرار بساوقات پوری بٹالین کو اور ایک بٹالین کا فرار پوری پلٹن کو اور ایک پلٹن کا فرار پوری فوج کو بدحواس کرکے راہ فرار اختیار کرنے پر مجبور کرسکتا ہے اور جب ایک مرتبہ فوج میں بھگدڑ مچ جاتی ہے تو کہا نہیں جاسکتا کہ تباہی کس حد پر جاکرر کے گی۔
10 Tafsir as-Saadi
﴿ وَمَن يُوَلِّهِمْ يَوْمَئِذٍ دُبُرَهُ إِلَّا مُتَحَرِّفًا لِّقِتَالٍ أَوْ مُتَحَيِّزًا إِلَىٰ فِئَةٍ فَقَدْ بَاءَ ﴾اور جو کوئی پیٹھ پھیرے ان سے اس دن، مگر یہ کہ ہنر کرتا ہو لڑائی کا یا جا ملتا ہو فوج میں، تو پھر اوہ“ یعنی وہ لوٹا ﴿ بِغَضَبٍ مِّنَ اللَّـهِ وَمَأْوَاهُ﴾” اللہ کا غضب لے کر اور اس کا ٹھکانا“ ﴿جَهَنَّمُ ۖ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ﴾” جہنم ہے اور وہ کیا برا ٹھکانا ہے“ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ کسی عذر کے بغیر، میدان جنگ سے فرار ہونا سب سے بڑا گناہ ہے۔ جیسا کہ صحیح احادیث میں وار دہوا ہے اور جیسا کہ یہاں اللہ تعالیٰ نے فرار ہونے والے کے لئے سخت وعید سنائی ہے۔ اس آیت کریمہ کا مفہوم یہ ہے کہ جنگی چال کے طور پر میدان جنگ سے ہٹنے میں، یعنی میدان جنگ میں ایک جگہ چھوڑ کر دوسری جگہ جا کر لڑنا تاکہ اس جنگی چال میں دشمن کو زک پہنچا سکے، کوئی حرج نہیں، کیونکہ وہ میدان جنگ سے منہ موڑ کر نہیں بھاگا بلکہ اس نے دشمن پر غالب آنے کے لئے ایسا کیا ہے، یا اس نے کسی پہلو سے دشمن پر حملہ کرنے کے لئے، یا دشمن کو ھوکہ دینے کے لئے یہ چال چلی ہے، یا دیگر جنگی مقاصد کے لئے ایسا کیا ہے۔ اسی طرح کفار کے خلاف کمک کے طور پر ایک جماعت سے علیحدہ ہو کر دوسری جماعت میں جا کر ملنا بھی جائز ہے۔ اگر لشکر کا وہ گروہ جس کے ساتھ یہ گروہ جا کر ملا ہے، میدان جنگ میں موجود ہے تو ایسا کرنے کا جواز بالکل واضح ہے اور اگر وہ گروہ مقام معرکہ کی بجائے کسی اور مقام پر ہے، مثلاً مسلمانوں کا کفار کے مقابلے سے کسی ایک شہر سے پسپا ہو کر مسلمانوں کے کسی دوسرے شہر میں پناہ لینا یا ایک میدان جنگ کو چھوڑ کر کسی دوسری جگہ دشمن پر حملہ آور ہونا، تو اس بارے میں صحابہ کرام سے جو آراء منقول ہوئی ہیں وہ اس کے جواز پر دلالت کرتی ہیں۔ شاید پسپائی اس شرط سے مشروط ہے کہ مسلمان سمجھتے ہوں کہ پسپائی انجام کار ان کے لئے بہتر اور دشمن کے مقابلے میں زیادہ مفید ہو اور اگر وہ یہ سمجھتے ہوں کہ میدان جنگ میں جمع رہنے سے کفار پر ان کو غلبہ حاصل ہوجائے گا تو اس صورت حال میں یہ بعید ہے کہ پسپائی کا جواز ہو، کیونکہ تب میدان جنگ سے فرار ہونے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ہے جس سے روکا گیا ہے۔ یہ آیت کریمہ مطلق ہے۔ (یعنی فرار کی ہر صورت ممنوع ہے) البتہ سورت کے آخر میں اس کو تعداد کے ساتھ مشروط کرنے کا بیان ہے۔ (دیکھئے آیت نمبر 66 کی تفسیر)
11 Mufti Taqi Usmani
aur agar koi shaks kissi jangi chaal ki wajeh say aisa ker raha ho , ya apni kissi jamat say jaa milna chahta ho , uss ki baat to aur hai , magar uss kay siwa jo shaks aesay din apni peeth pheray ga to woh Allah ki taraf say ghazab ley ker lotay ga , aur uss ka thikana jahannum hoga , aur woh boht bura thikana hai .