(اے سپاہیانِ لشکرِ اسلام!) ان کافروں کو تم نے قتل نہیں کیا بلکہ اللہ نے انہیں قتل کر دیا، اور (اے حبیبِ محتشم!) جب آپ نے (ان پر سنگ ریزے) مارے تھے (وہ) آپ نے نہیں مارے تھے بلکہ (وہ تو) اللہ نے مارے تھے، اور یہ (اس لئے) کہ وہ اہلِ ایمان کو اپنی طرف سے اچھے انعامات سے نوازے، بیشک اللہ خوب سننے والا جاننے والا ہے،
English Sahih:
And you did not kill them, but it was Allah who killed them. And you threw not, [O Muhammad], when you threw, but it was Allah who threw that He might test the believers with a good test. Indeed, Allah is Hearing and Knowing.
1 Abul A'ala Maududi
پس حقیقت یہ ہے کہ تم نے انہیں قتل نہیں کیا بلکہ اللہ نے ان کو قتل کیا اور تو نے نہیں پھینکا بلکہ اللہ نے پھینکا (اور مومنوں کے ہاتھ جو اِس کام میں استعمال کیے گئے) تو یہ اس لیے تھا کہ اللہ مومنوں کو ایک بہترین آزمائش سے کامیابی کے ساتھ گزار دے، یقیناً اللہ سُننے والا اور جاننے والا ہے
2 Ahmed Raza Khan
تو تم نے انہیں قتل نہ کیا بلکہ اللہ نے انہیں قتل کیا، اور اے محبوب! وہ خاک جو تم نے پھینکی تھی بلکہ اللہ نے پھینکی اور اس لیے کہ مسلمانوں کو اس سے اچھا انعام عطا فرمائے، بیشک اللہ سنتا جانتا ہے،
3 Ahmed Ali
سو تم نے انہیں قتل نہیں کیا بلکہ الله نے انہیں قتل کیا اور تو نے مٹھی نہیں پھینکی جب کہ پھینکی تھی بلکہ الله نے پھینکی تھی اور تاکہ ایمان والوں پر اپنی طرف سے خوب احسان کرے بے شک الله سننے والا جاننے والا ہے
4 Ahsanul Bayan
سو تم نے انہیں قتل نہیں کیا لیکن اللہ تعالٰی نے ان کو قتل کیا۔ (١) اور آپ نے خاک کی مٹھی نہیں پھینکی بلکہ اللہ تعالٰی نے پھینکی (٢) تاکہ مسلمانوں کو اپنی طرف سے ان کی محنت کا خوب عوض دے (٣) بلاشبہ اللہ تعالٰی خوب سننے والا خوب جاننے والا ہے۔
١٧۔ ١ یعنی جنگ بدر کی ساری صورت حال تمہارے سامنے رکھ دی گئی ہے اور جس جس طرح اللہ نے تمہاری وہاں مدد فرمائی، اس کی وضاحت کے بعد تم یہ نہ سمجھ لینا کہ کافروں کا قتل، یہ تمہارا کارنامہ ہے۔ نہیں، بلکہ یہ اللہ کی اس مدد کا نتیجہ ہے جس کی وجہ سے تمہیں یہ فتح حاصل ہوئی اس لئے دراصل انہیں قتل کرنے والا اللہ تعالٰی ہے۔ ١٧۔٢ جنگ بدر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کنکریوں کی ایک مٹھی بھر کر کافروں کی طرف پھینکی تھی، جسے ایک تو اللہ تعالٰی نے کافروں کے مونہوں اور آنکھوں تک پہنچادیا اور دوسرے، اس میں یہ تاثیر پیدا فرمادی کہ اس سے ان کی آنکھیں چندھیا گئیں اور انہیں کچھ سجھائی نہیں دیتا تھا، یہ معجزہ بھی، جو اس وقت اللہ کی مدد سے ظاہر ہوا، مسلمانوں کی کامیابی میں بہت مددگار ثابت ہوا۔ اللہ تعالٰی فرما رہا ہے کہ اے پیغمبر! کنکریاں بیشک آپ نے پھینکی تھیں، لیکن اس میں تاثیر ہم نے پیدا کی تھی، اگر ہم اس میں یہ تاثیر پیدا نہ کرتے تو یہ کنکریاں کیا کر سکتی تھیں؟ اس لئے یہ بھی دراصل ہمارا ہی کام تھا نہ کہ آپ کا۔ ١٧۔٣ بلاء یہاں نعمت کے معنی میں ہے۔ یعنی اللہ کی یہ تائید و نصرت، اللہ کا انعام ہے جو مومنوں پر ہوا۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
تم لوگوں نے ان (کفار) کو قتل نہیں کیا بلکہ خدا نے انہیں قتل کیا۔ اور (اے محمدﷺ) جس وقت تم نے کنکریاں پھینکی تھیں تو وہ تم نے نہیں پھینکی تھیں بلکہ الله نے پھینکی تھیں۔ اس سے یہ غرض تھی کہ مومنوں کو اپنے (احسانوں) سے اچھی طرح آزمالے۔ بےشک خدا سنتا جانتا ہے
6 Muhammad Junagarhi
سو تم نے انہیں قتل نہیں کیا لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کو قتل کیا۔ اور آپ نے خاک کی مٹھی نہیں پھینکی بلکہ اللہ تعالیٰ نے وه پھینکی اور تاکہ مسلمانوں کو اپنی طرف سے ان کی محنت کا خوب عوض دے بلاشبہ اللہ تعالیٰ خوب سننے واﻻ خوب جاننے واﻻ ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
(اے مسلمانو) تم نے ان (کفار) کو قتل نہیں کیا بلکہ اللہ نے قتل کیا اور (اے رسول(ص)) وہ سنگریزے تو نے نہیں پھینکے جبکہ تو نے پھینکے بلکہ خدا نے پھینکے (یہ سب کچھ اس لئے ہوا کہ) خدا اہلِ ایمان پر خوب احسان فرمائے (یا اللہ اس کے ذریعہ سے ایمان والوں کو بہترین آزمائش میں ڈال کر آزمائے) یقینا اللہ بڑا سننے والا، بڑا جاننے والا ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
پس تم لوگوں نے ان کفاّر کو قتل نہیں کیا بلکہ خدا نے قتل کیا ہے اور پیغمبرآپ نے سنگریزے نہیں پھینکے ہیں بلکہ خدا نے پھینکے ہیں تاکہ صاحبان هایمان پر خوب اچھی طرح احسان کردے کہ وہ سب کی سننے والا اور سب کا حال جاننے والا ہے
9 Tafsir Jalalayn
تم لوگوں نے ان (کفار) کو قتل نہیں کیا بلکہ خدا نے انہیں قتل کیا۔ اور (اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جس وقت تم نے (کنکریاں) پھینکی تھیں تو وہ تم نے نہیں پھینکی تھیں بلکہ اللہ نے پھینکی تھیں۔ اس سے یہ غرض تھی کہ مومنوں کو اپنے (احسانوں) سے اچھی طرح آزما لے۔ بیشک خدا سنتا جانتا ہے۔
10 Tafsir as-Saadi
جب غزوہ بدر میں مشرکین کو شکست ہوئی اور مسلمانوں نے ان کو قتل کیا، تو اس ضمن میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : ﴿فَلَمْ تَقْتُلُوهُمْ﴾ ” تم نے ان کو قتل نہیں کیا۔“ یعنی تم نے اپنی قوت سے ان کو قتل نہیں کیا﴿وَلَـٰكِنَّ اللَّـهَ قَتَلَهُمْ ۚ﴾ ” لیکن اللہ نے ان کو قتل کیا“ کیونکہ ان کے قتل پر اللہ تعالیٰ نے تمہاری مدد فرمائی تھی، جیسا کہ گزشتہ سطور میں گزرا۔ ﴿ وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَـٰكِنَّ اللَّـهَ رَمَىٰ ۚ﴾ ” اور آپ نے نہیں پھینکی مٹھی خاک کی جس وقت کہ پھینکی تھی، لیکن اللہ نے پھینکی۔“ اس کی تفصیل یہ ہے کہ جب معرکہ شروع ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک خیمہ میں چلے گئے اور اللہ تعالیٰ سے قسمیں دے دے کر فتح و نصرت کے لئے دعائیں کرنے لگے، پھر خیمے سے باہر تشریف لائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاک کی ایک مٹھی اٹھا کر کفار کے چہروں کی طرف پھینکی اور اللہ تعالیٰ نے یہ خاک ان کے چہروں تک پہنچا دی، ان میں سے کوئی ایسا نہ تھا جس کے چہرے، منہ اور آنکھوں میں یہ خاک نہ پڑی ہو۔ پس اس وقت ان کی طاقت ٹوٹ گئی، ان کے ہاتھ شل ہوگئے، ان کے اندر کمزوری اور بزدلی ظاہر ہوئی پس وہ شکست کھا گئے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا ’’جب آپ نے کفار کی طرف خاک کی مٹھی پھینکی تو آپ نے اپنی قوت سے یہ خاک ان کے چہروں تک نہیں پہنچائی تھی، بلکہ ہم نے اپنی قوت اور قدرت سے یہ خاک ان کے چہروں تک پہنچائی۔ “ ﴿ وَلِيُبْلِيَ الْمُؤْمِنِينَ مِنْهُ بَلَاءً حَسَنًا ﴾ ” اور تاکہ اللہ آزمائے مومنوں کو اپنی طرف سے خوب آزمانا‘‘ یعنی براہ راست لڑائی کے بغیر اللہ تعالیٰ کفار کے مقابلے میں اہل ایمان کی مدد کرنے پر قادر ہے مگر اللہ تعالیٰ مومنوں کا امتحان لینا اور جہاد کے ذریعے سے انہیں بلند ترین درجات اور اعلیٰ ترین مقامات پر فائز کرنا، نیز انہیں اجر حسن اور ثواب جزیل عطا کرنا چاہتا ہے۔ ﴿إِنَّ اللَّـهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ﴾ ” بے شک اللہ سنتا جانتا ہے۔“ بندہ جو بات چھپا کر کرتا ہے یا اعلانیہ کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے خوب سنتا ہے۔ بندے کے دل میں جو اچھی یا بری نیت ہوتی ہے اللہ تعالیٰ اسے جانتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے علم و حکمت اور بندوں کے مصالح کے مطابق ان کی تقدیر پر مقرر کرتا ہے اور ہر شخص کو اس کی نیت کے مطابق جزا دیتا ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
chunacheh ( musalmano ! haqeeqat mein ) tum ney unn ( kafiron ko ) qatal nahi kiya tha , balkay unhen Allah ney qatal kiya tha , aur ( aey payghumber ! ) jab tum ney unn per ( mitti ) phenki thi to woh tum ney nahi , balkay Allah ney phenki thi , aur ( tumharay haathon yeh kaam iss liye keraya tha ) takay uss kay zariye Allah mominon ko behtareen ajar ata keray . beyshak Allah her baat ko sunney wala , her cheez ko janney wala hai .
12 Tafsir Ibn Kathir
اللہ کی مدد ہی وجہ کامرانی ہے اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ بندوں کے کل کاموں کا خالق وہی ہے ان سے جو بھی اچھائیاں سرزد ہوں اس پر قابل تعریف وہی ہے اس لئے کہ توفیق اسی کی طرف سے ہے اور اعانت و مدد بھی اسی کی جانب سے ہے اسی لئے فرماتا ہے کہ اے مسلمانوں تم نے آپ اپنی طاقت و قوت سے اپنے دشمنوں کو قتل نہیں کیا تم تو مٹی بھر تھے اور دشمن بہت زیادہ تھے تم بےکس اور کمزور تھے دشمن کس بل والے قوت طاقت والے تھے۔ یہ اللہ ہی کی مدد تھی کہ اس نے تمہیں ان پر غالب کردیا، جیسے فرمان ہے آیت ( وَلَقَدْ نَصَرَكُمُ اللّٰهُ بِبَدْرٍ وَّاَنْتُمْ اَذِلَّةٌ ۚ فَاتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ\012\03 ) 3 ۔ آل عمران :123) اللہ نے بدر کے دن تمہاری مدد کی اور آیت میں ہے آیت ( لَقَدْ نَصَرَكُمُ اللّٰهُ فِيْ مَوَاطِنَ كَثِيْرَةٍ ۙ وَّيَوْمَ حُنَيْنٍ ۙ اِذْ اَعْجَبَتْكُمْ كَثْرَتُكُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنْكُمْ شَيْــــًٔـا وَّضَاقَتْ عَلَيْكُمُ الْاَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ ثُمَّ وَلَّيْتُمْ مُّدْبِرِيْنَ 25ۚ ) 9 ۔ التوبہ :25) ، بہت سی جگہ اللہ جل شانہ نے تمہاری امداد فرمائی ہے، حنین کے دن بھی جبکہ تمہیں اپنی زیادتی پر گھمنڈ ہوا لیکن وہ بےکارثابت ہوئی اور یہ وسیع زمین تم پر تنگ ہوگئی اور آخر منہ موڑ کر تم بھاگ کھڑے ہوئے۔ پس ثابت ہے کہ گنتی کی زیادتی، ہتھیاروں کی عمدگی اور سازو سامان کی فروانی پر غلبہ موقوف نہیں وہ تو اللہ کی مدد پر موقوف ہے۔ جیسے ارشاد الٰہی ہے آیت (کم من فئۃ قلیلۃ غلبت فئۃ کثیرۃ باذن اللہ واللہ مع الصابرین) یعنی بسا اوقات چھوٹی چھوٹی جماعتوں نے بڑے بڑے لشکروں کے منہ پھیر دیئے ہیں اور ان پر غلبہ حاصل کرلیا ہے یہ سب اللہ کے حکم اور اس کی مدد سے ہے اور یقینا اللہ تعالیٰ کی مدد صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ پھر مٹی کی اس مٹھی کا ذکر ہو رہا ہے جو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بدر کی لڑائی میں کافروں کی طرف پھینکی تھی پہلے تو آپ نے اپنی جھونپڑی میں اللہ تعالیٰ سے دعا کی۔ روئے، گڑگڑائے اور منجات کر کے باہر نکلے اور کنکریوں کی ایک مٹھی اٹھا کر کافروں کی طرف پھینکی اور فرمایا ان کے چہرے بگڑ جائیں، ان کے منہ پھرجائیں ساتھ ہی صحابہ کو حکم دیا کہ فوراً عام حملہ کردو۔ ادھر حملہ ہوا ادھر سے وہ کنکریاں اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کا ملہ سے کافروں کی آنکھوں میں ڈال دیں۔ وہ سب اپنی آنکھیں مل ہی رہ تھے جو لشکر اسلام ان کے کلے پر پہنچ گیا۔ پس فرماتا ہے کہ وہ مٹھی تو نے نہیں بلکہ ہم نے پھینکی تھی یعنی پھینکی تو حضور نے لیکن ان کی آنکھوں تک پہنچا کر انہیں شکست دینے والا اللہ تعالیٰ ہی تھا نہ کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ۔ ابن عباس بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے ہاتھ اٹھا کر دعا کی جس میں یہ بھی کہا کہ اے میرے پروردگار اگر تو نے اس جماعت کو ہلاک کردیا تو پھر کبھی بھی تیری عبادت زمین پر نہ کی جائے گی اسی وقت حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے فرمایا یارسول اللہ آپ ایک مٹھی زمین سے مٹی کی بھرلیں اور ان کے منہ کی طرف پھینک دیں آپ نے یہی کیا پس مشرکین کے سارے لشکر کے منہ اور آنکھ اور نتھنوں میں وہ مٹی گھس گئی اور انہیں پیٹھ پھیرتے ہی بنی۔ سدی فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جنگ بدر میں حضرت علی سے فرمایا کنکریوں کی ایک مٹھی زمین سے بھر کر مجھے دو حضرت علی نے مٹھی بھردی جس میں کنکریاں تھیں اور مٹی بھی۔ آپ نے مشرکوں کی طرف وہ مٹھی پھینکی جس سے ان کی آنکھیں بھر گئیں۔ ادھر سے مسلمانوں نے ان پر حملہ کردیا اور قتل کرنا اور قیمہ کرنا شروع کردیا اسی کا بیان اس آیت میں ہے کہ یہ تیرے بس کی بات نہ تھی بلکہ یہ اللہ کے بس کی چیز تھی۔ ایک روایت میں ہے کہ تین کنکر لے کر آپ نے پھینکے تھے ایک دائیں ایک بائیں ایک بیچ میں۔ گو حنین والے دن بھی آپ نے کنکریاں مشرکوں کی طرف پھینکی تھیں لیکن یہاں ذکر جنگ بدر کے دن کا ہے۔ حکیم بن حزام کا بیان ہے کہ جنگ بدر کے دن ہم نے ایک آواز سنی کہ گویا آسمان سے کوئی کنکر کسی طشت میں گرا اسی وقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پھینکی ہوئی کنکریاں ہم میں پہنچیں اور ہمیں شکست ہوئی۔ یہ روایت اس سند سے بہت غریب ہے۔ یہاں دو قول اور بھی ہیں لیکن بالکل غریب ہیں۔ ایک تو یہ کہ خیبر کی جنگ کے موقع پر یوم ابن ابی حقیق میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک کمان منگائی لوگوں نے بہت لمبی کمان لا کر آپ کو دی آپ نے اس سے قلعے کی طرف تیر پھینکا وہ گھومتا ہوا چلا اور سردار قلعہ الوالحقیق کو اس کے گھر میں اس کے بسترے پر جا کر لگا اور اسی سے وہ مرا اس کا ذکر اس آیت میں ہے کہ وہ تیر تو نے نہیں بلکہ ہم نے پھینکا تھا۔ یہ روایت غریب ہے ممکن ہے راوی کو شبہ ہوگیا ہو یا مراد ان کی یہ ہو کہ یہ آیت عام ہے یہ واقعہ بھی اسی میں شامل ہے۔ ورنہ یہ تو ظاہر ہے کہ سورة انفال کی اس آیت میں جنگ بدر کے بیان کا ذکر ہے۔ تو یہ واقعہ اسی جنگ بدر کا ہے اور یہ بات بالکل ظاہر ہے واللہ اعلم۔ پھر فرماتا ہے تاکہ مومنوں کو اپنی نعمت کا اقرار کرا دے کہ باوجود ان کی کثرت ان کی قلت، ان کے سازو سامان ان کی بےسرو سامانی کے رب العالمین نے انہیں ان پر غالب کردیا۔ حدیث میں ہے ہر ایک امتحان ہمارا امتحان ہے اور ہم پر اللہ کا احسان ہے۔ اللہ دعاؤں کا سننے والا ہے۔ وہ خوب جانتا ہے کہ مدد اور غلبے کا مستحق کون ہے ؟ پھر فرماتا ہے اس فتح کے ساتھ ہی یہ خوش خبری بھی سن لو کہ اللہ تعالیٰ کافروں کے حیلے حوالے کمزور کر دے گا ان کی شان گھٹا دے گا ان کا انجام تباہی کے سوا اور کچھ نہ ہوگا اور یہی ہوا بھی۔