اے نبئ (مکرّم!) آپ ایمان والوں کو جہاد کی ترغیب دیں (یعنی حق کی خاطر لڑنے پر آمادہ کریں)، اگر تم میں سے (جنگ میں) بیس (٢٠) ثابت قدم رہنے والے ہوں تو وہ دو سو (٢٠٠) (کفار) پر غالب آئیں گے اور اگر تم میں سے (ایک) سو (ثابت قدم) ہوں گے تو کافروں میں سے (ایک) ہزار پر غالب آئیں گے اس وجہ سے کہ وہ (آخرت اور اس کے اجرِ عظیم کی) سمجھ نہیں رکھتے (سو وہ اس قدر جذبہ و شوق سے نہیں لڑ سکتے جس قدر وہ مومن جو اپنی جانوں کا جنت اور اللہ کی رضا کے عوض سودا کر چکے ہیں)،
English Sahih:
O Prophet, urge the believers to battle. If there are among you twenty [who are] steadfast, they will overcome two hundred. And if there are among you one hundred [who are steadfast], they will overcome a thousand of those who have disbelieved because they are a people who do not understand.
1 Abul A'ala Maududi
اے نبیؐ، مومنوں کو جنگ پر اُبھارو اگر تم میں سے بیس آدمی صابر ہوں تو وہ دو سو پر غالب آئیں گے اور اگر سو آدمی ایسے ہوں تو منکرین حق میں سے ہزار آدمیوں پر بھاری رہیں گے کیونکہ وہ ایسے لوگ ہیں جو سمجھ نہیں رکھتے
2 Ahmed Raza Khan
اے غیب کی خبریں بتانے والے! مسلمانوں کو جہاد کی ترغیب دو اگر تم میں کے بیس صبر والے ہوں گے دو سو پر غالب ہوں گے اور اگر تم میں کے سو ہوں تو کافروں کے ہزا ر پر غالب آئیں گے اس لیے کہ وہ سمجھ نہیں رکھتے،
3 Ahmed Ali
اے نبی! مسلمانوں کو جہاد کی ترغیب دو اگر تم میں بیس آدمی ثابت قدم رہنے والے ہوں گے تو وہ سو پر غالب آئیں گے اور اگر تم میں سو ہوں گے تو ہزار کافروں پر غالب آئیں گے اس لیے کہ وہ لوگ کچھ نہیں سمجھتے
4 Ahsanul Bayan
اے نبی! ایمان والوں کو جہاد کا شوق دلاؤ (١) اگر تم میں بیس بھی صبر والے ہونگے، تو وہ سو پر غالب رہیں گے۔ اور اگر تم ایک سو ہونگے تو ایک ہزار کافروں پر غالب رہیں گے (٢) اس واسطے کہ وہ بےسمجھ لوگ ہیں۔
٦٥۔١ تحریض کے معنی ہیں ترغیب میں مبالغہ کرنا یعنی خوب رغبت دلانا اور شوق پیدا کرنا۔ چنانچہ اس کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم جنگ سے قبل صحابہ کو جہاد کی ترغیب دیتے اور اس کی فضیلت بیان فرماتے۔ جیسا کہ بدر کے موقع پر، جب مشرکین اپنی بھاری تعداد اور بھرپور وسائل کے ساتھ میدان میں آموجود ہوئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ' ایسی جنت میں داخل ہونے کے لئے کھڑے ہو جاؤ، جس کی چوڑائی آسمانوں اور زمین کے برابر ہے ' ایک صحابی عمیر بن حمام نے کہا ' اس کی چوڑائی آسمانوں اور زمین کے برابر؟ ' رسول اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ' ہاں ' اس پر بخ بخ کہا یعنی خوشی کا اظہار کیا اور یہ امید ظاہر کی کہ میں جنت میں جانے والوں میں سے ہونگا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ' تم اس میں جانے والوں میں سے ہوگے، چنانچہ انہوں نے اپنی تلوار کی میان توڑ ڈالی اور کھجوریں نکال کر کھانے لگے، پھر جو بچیں ہاتھ سے پھینک دیں اور کہا ان کے کھانے تک میں زندہ رہا تو یہ طویل زندگی ہوگی، پھر آگے بڑھے اور داد شجاعت دینے لگے، حتٰی کہ عروس شہادت سے ہمکنار ہوگئے۔ رضی اللہ عنہ (صحیح مسلم) ٦٥۔٢ یہ مسلمانوں کے لئے بشارت ہے کہ تمہارے ثابت قدمی سے لڑنے والے بیس مجاہد دو سو اور ایک ہزار پر غالب رہیں گے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اے نبی! مسلمانوں کو جہاد کی ترغیب دو۔ اور اگر تم بیس آدمی ثابت قدم رہنے والے ہوں گے تو دو سو کافروں پر غالب رہیں گے۔ اور اگر سو (ایسے) ہوں گے تو ہزار پر غالب رہیں گے۔ اس لیے کہ کافر ایسے لوگ ہیں کہ کچھ بھی سمجھ نہیں رکھتے
6 Muhammad Junagarhi
اے نبی! ایمان والوں کو جہاد کا شوق دلاؤ اگر تم میں بیس بھی صبر کرنے والے ہوں گے، تو دو سو پر غالب رہیں گے۔ اور اگر تم میں ایک سو ہوں گے تو ایک ہزار کافروں پر غالب رہیں گے اس واسطے کہ وه بے سمجھ لوگ ہیں
7 Muhammad Hussain Najafi
اے نبی(ص)! اہلِ ایمان کو جنگ پر آمادہ کرو۔ اگر تم میں سے بیس صابر (ثابت قدم) آدمی ہوئے تو وہ دو سو (کافروں) پر غالب آئیں گے اور اگر تم میں سے ایک سو ہوئے تو کافروں کے ایک ہزار پر غالب آجائیں گے کیونکہ یہ وہ لوگ ہیں جو سمجھ بوجھ نہیں رکھتے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اے پیغمبر آپ لوگوں کو جہاد پر آمادہ کریں اگر ان میں بیس بھی صبر کرنے والے ہوں گے تو دو سو پر غالب آجائیں گے اور اگر سو ہوں گے تو ہزاروں کافروں پر غالب آجائیں گے اس لئے کہ کفاّر سمجھدار قوم نہیں ہیں
9 Tafsir Jalalayn
اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! مسلمانوں کو جہاد کی ترغیب دو اگر تم میں بیس آدمی ثابت قدم رہنے والے ہوں گے تو دو سو کافروں پر غالب رہیں گے۔ اور اگر سو (ایسے) ہوں گے تو ہزار پر غالب رہیں گے اس لئے کہ کافر ایسے لوگ ہیں کہ کچھ بھی سمجھ نہیں رکھتے۔ آیت نمبر ٦٥ تا ٦٩ ترجمہ : اے نبی ! مومنین کو کفار سے جہاد کرنے کا شوق دلاؤ، اگر تم میں بیس بیس صبر کرنے والے ہوں گے تو ان میں سے دو سو پر غالب رہیں گے، اور اگر تم میں سو صبر کرنے والے ہوں گے تو ایک ہزار کافروں پر غالب رہیں گے اس سبب سے کہ وہ ناسمجھ لوگ ہیں (یکن) یاء اور تاء کے ساتھ ہے، اور یہ خبر بمعنی انشاء ہے یعنی تم میں سے بیس کو دو سو کے ساتھ قتال کرنا چاہیے، اور سو کو ہزار کے ساتھ، اور ان کے مقابلہ میں ثابت قدم رہو، پھر جب (مسلمانوں) کی تعداد زیادہ ہوگئی تو اللہ کے قول (اَلْئٰن) سے منسوخ کردیا گیا، (اچھا) اب اللہ تمہارا بوجھ ہلکا کرتا ہے، وہ خوب جانتا ہے کہ تم میں نا توانی ہے اپنے سے دس گنا سے مقابلہ کرنے میں، (ضعفاً ) ضاد کے ضمہ اور فتحہ کے ساتھ ہے، پس اگر تم میں سے صابر سو ہوں گے تو ان کے دو سو پر اللہ کے حکم سے غالب رہیں گے یہ خبر بمعنی امر ہے، یعنی اپنے سے دو گنا کا مقانلہ کرو، اور ان کے مقابلہ میں ثابت قدم رہو، اللہ مدد کے ذریعہ صابرین کے ساتھ ہے (آئندہ آیت) اس وقت نازل ہوئی کہ جب بدر کے قیدیوں کا فدیہ لے لیا، کسی نبی کے لئے یہ زیبا نہیں کہ اس کے ہاتھ میں قیدی ہوں (یکون) یاء اور تاء کے ساتھ، جب تک کہ وہ زمین میں دشمنوں کو اچھی طرح کچل نہ دے یعنی کافروں کے قتل میں مبالغہ نہ کرلے، اے مومنو تم فدیہ لے کر دنیا کا حقیر مال چایتے ہو اور اللہ تمہارے لئے آخرت یعنی اس کا ثواب چاہتا ہے اور اللہ زور آور، طاقتور ہے اور یہ اِمّا منّا بعد وامّا فدائّ سے منسوخ ہے، اور اگر اللہ کا نوشتہ غنائم کے حلال ہونے اور قیدیوں کے (فدیہ) کے تمہارے لئے حلال ہونے کا پہلے سے نہ لکھا گیا ہوتا تو جو فدیہ تم نے لیا اس کی پاداش میں تم کو بڑی سزا دیجاتی، لہٰذا کو مال تم نے غنیمت کے طور پر لیا ہے اسے کھاؤ کہ وہ حلال اور پاک ہے اور اللہ سے ڈرتے رہو یقینا اللہ درگذر کرنے والا ہے۔ تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد قولہ : خَبَر بِمَعْنَی الاَمْرِ یہ ایک اعتراض کا جواب ہے۔ اعتراض : یہ ہے کہ مِائةً یَغْلبون الفاً من الّذین کفروا میں خبر دی گئی ہے کہ ایک سو صابر مسلمان ایک ہزار کافروں پر غالب ہوجاتے ہیں، اور اللہ تعالیٰ کی خبر میں کذب یعنی خلاف واقعہ ہونیکا امکان و احتمال نہیں ہے حالانکہ بعض اوقات مساوی ہونے کی صورت میں کافر بھی غالب آتے ہیں۔ جواب : جواب بمعنی امر ہے اور امر میں کذب کا احتمال نہیں ہوتا۔ قولہ : اَلْئٰنَ خَفَّفَ اللہ وعَلِمَ أنّ فیکم ضُعْفَا، یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ علم بالضعف کو الآن کے ساتھ مقیّد کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو علم بالحادث نہیں ہے۔ جواب : اللہ تعالیٰ کا علم حادث کے ساتھ بیشک متعلق ہے لیکن قبل الوقوع اس اعتبار سے کہ سَیَقَعُ ، اور واقع ہونے کے بعد اس اعتبار سے ہے کہ بانہ یقع . قولہ : الحُطام بالضم، حقیر شئی، قلیل مال، ریزہ و شکستہ۔ قولہ : ای ثوابھا، حذف مضاف میں اس سوال کا جواب ہے کہ نفس آخرة تو ہر ایک کے لئے ثابت ہے پھر یرید لکم الآخرة کی کیا تخصیص ہے۔ جواب : آخرت تو سب کے لئے ہے مگر اجر آخرت صرف مومنین ہی کے لئے ہے۔ تفسیر وتشریح یایّھا النبی حَرِّ ضِ المؤمنین علی القتالِ (الآیة) تحریض کے معنی ترغیب اور شوق دلانے کے ہیں چناچہ اسی کے مطابق نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جنگ سے پہلے صحابہ کو جنگ کی ترغیب دیتے اور اس کی فضیلت بیان فرماتے تھے، جیسا کہ بدر کے موقع پر جب مشرکین اپنی بھاری تعداد اور بھر پور وسائل کے ساتھ میدان میں آموجود ہوئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ جہاد کی فضیلت : ایسی جنت میں جانے کیلئے کھڑے ہوجاؤ جس کی وسعت آسمانوں اور زمین کے برابر ہے، ایک صحابی عمیر بن حمام (رض) نے عرض کیا اس کی وسعت آسمانوں اور زمین کے برابر ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہاں، اس پر بخ بخ کہا یعنی خوشی کا اظہار کیا اور یہ امید ظاہر کی کہ میں بھی جنت میں جانیوالوں میں سے ہوں گا ؟ آپ نے فرمایا تم جنت میں جانے والوں میں سے ہوگے، چناچہ انہوں نے اپنی تلوار کی میان توڑ ڈالی اور کھجوریں نکال کر کھانے لگے پھر جو بچیں وہ ہاتھ سے پھینک دیں، اور کہا ان کے کھانے تک زندہ رہا تو یہ تو طویل زندگی ہوگی، پھر آگے بڑھے اور داد شجاعت دینے لگے حتی کہ عروس شہادت سے ہمکنار ہوگئے (رض) ۔ (صحیح مسلم کتاب الامارہ) اِن یکن منکم عشرون صابرون یغلبوا مِائتین آیت نمبر ٦٥ اور ٦٦ میں مسلمانوں کے لئے ایک جنگی قانون کا ذکر ہے کہ مسلمان کو کس حد تک مقابلہ میں جمنا فرض اور اس سے ہٹنا گناہ ہے، اگر تم میں بیس آدمی ثابت قدم رہنے والے ہوں گے تو دو سو پر غالب آجائیں گے اور اگر سو ہوں گے تو ایک ہزار کافروں پر غالب آجاؤ گے یہ عنوان اگرچہ خبر کا ہے مگر مقصد حکم ہے کہ سو مسلمانوں کو ایک ہزار کے مقابلہ میں بھاگنا جائز نہیں، خبر کا عنوان رکھنے میں مصلحت یہ ہے کہ مسلمانوں کے دل اس خوشخبری سے مضبوط ہوجائیں۔ اس کے بعد کی آیت میں اس حکم کو آئندہ کے لئے منسوخ کرکے دوسرا حکم یہ دیا گیا کہ اب اللہ تعالیٰ نے تخفیف کردی اور معلوم کرلیا کہ تم میں ہمت کی کمی ہے تو اگر تم میں سے سو آدمی ثابت قدم رہنے والے ہوں گے تو وہ دو سو پر غالب آجائیں گے، اس کا مقصد بھی یہ ہے کہ مسلمانوں کو دو سو کے مقابلہ سے بھاگنا جائز نہیں ہے، پہلی آیت میں ایک مسلمان کو دس کے مقابلہ سے گریزناجائز تھا، اس آیت میں ایک کو دو کے مقابلہ میں گریز ممنوع قرار دیا گیا ہے اور یہی آخری حکم ہے جو ہمیشہ کے لئے جاری اور باقی ہے۔ یہاں بھی امر کو بعنوان خبر اور خوشخبری بیان فرمایا ہے جس میں اشارہ ہے کہ ایک مسلمان کو دو کافروں کے مقابلہ میں جمنے کا حکم معاذ اللہ کوئی ظلم یا تشدد نہیں بلکہ مسلمانوں میں ان کے ایمان کی وجہ سے وہ قوت رکھدی ہے کہ ان میں ایک کم از کم دو کے برابر تو ہوتا ہے۔ مگر دونوں جگہ اس فتح و نصرت کی خوشخبری کو ثابت قدمی کی شرط کے ساتھ مشروط کیا گیا ہے۔
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فرماتا ہے : ﴿يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ حَرِّضِ الْمُؤْمِنِينَ عَلَى الْقِتَالِ ﴾ ” اے نبی ! مومنوں کو جہاد کی ترغیب دو۔‘‘ یعنی آپ انہیں ہر اس طریقے کے ذریعے سے قتال پر آمادہ کریں جس سے ان کے عزائم مضبوط ہوں اور ان کے ارادوں میں نشاط پیدا ہو۔ یعنی جہاد اور دشمن سے مقابلے کی ترغیب دی جائے اور جہاد سے باز رہنے کے انجام سے ڈرایا جائے۔ شجاعت اور صبر کے فضائل اور ان پر مرتب ہونے والی دین و دنیا کی بھلائی کا ذکر کیا جائے۔ بزدلی کے نقصانات بیان کئے جائیں اور یہ واضح کیا جائے کہ بزدلی ایک انتہائی رذیل اور ناقص خصلت ہے اور شجاعت کا اہل ایمان کی صفت ہونا دوسروں کی نسبت زیادہ اولیٰ ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿إِن تَكُونُوا تَأْلَمُونَ فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَمَا تَأْلَمُونَ ۖ وَتَرْجُونَ مِنَ اللَّـهِ مَا لَا يَرْجُونَ ﴾ (النساء:4؍ 104) ” اگر تمہیں تکلیف پہنچتی ہے تو انہیں بھی تکلیف پہنچتی ہے جیسے تمہیں پہنچتی ہے جبکہ تم اللہ سے ایسی امیدیں رکھتے ہو جو وہ نہیں رکھتے۔‘‘ ﴿إِن يَكُن مِّنكُم ﴾ ” اے مومنو! اگر ہوں تم میں سے“ ﴿عِشْرُونَ صَابِرُونَ يَغْلِبُوا مِائَتَيْنِ ۚ وَإِن يَكُن مِّنكُم مِّائَةٌ يَغْلِبُوا أَلْفًا مِّنَ الَّذِينَ كَفَرُوا ﴾ ” بیس شخص ثابت قدم رہنے والے، تو غالب ہوں گے وہ دو سو پر اور اگر ہوں تم میں سے سو شخص، غالب ہوں گے ہزار کافروں پر۔‘‘ یعنی ایک مومن دس کافروں کا مقابلہ کرے گا اور اس کا سبب یہ ہے ﴿بِأَنَّهُمْ ﴾ ” کہ وہ“ یعنی کفار ﴿قَوْمٌ لَّا يَفْقَهُونَ ﴾ ” ایسے لوگ ہیں جو سمجھ نہیں رکھتے۔‘‘ یعنی انہیں کوئی علم نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے راستے میں جہاد کرنے والے مجاہدین کے لئے کیا ثواب تیار کر رکھا ہے۔ پس یہ کفار زمین میں اقتدار، تغلب اور اس میں فساد پھیلانے کے لئے لڑتے ہیں اور تم (اے مسلمانو !) اس جنگ کا مقصد سمجھتے ہو کہ یہ جنگ اعلائے کلمتہ اللہ، دین کے غلبہ، کتاب اللہ کی حفاظت اور اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے بڑی کامیابی کے حصول کے لئے ہے اور یہ تمام امور شجاعت، صبر و ثبات اور اقدام علی القتال کے اسباب ہیں۔ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لئے اس حکم میں تخفیف کردی۔
11 Mufti Taqi Usmani
aey nabi ! mominon ko jang per ubharo . agar tumharay bees aadmi aesay hon gay jo sabit qadam rehney walay hon to woh do so per ghalib aajayen gay . aur agar tumharay so aadmi hon gay to woh kafiron kay aik hazar per ghalib aajayen gay , kiyonkay woh aesay log hain jo samajh nahi rakhtay .