التکویر آية ۸
وَاِذَا الْمَوْءٗدَةُ سُٮِٕلَتْۖ
طاہر القادری:
اور جب زندہ دفن کی ہوئی لڑکی سے پوچھا جائے گا،
English Sahih:
And when the girl [who was] buried alive is asked .
1 Abul A'ala Maududi
اور جب زندہ گاڑی ہوئی لڑکی سے پوچھا جائے گا
2 Ahmed Raza Khan
اور جب زندہ دبائی ہوئی سے پوچھا جائے
3 Ahmed Ali
اور جب زندہ درگور لڑکی سے پوچھا جائے
4 Ahsanul Bayan
جب زندہ گاڑی ہوئی لڑکی سے سوال کیا جائے گا۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور جب لڑکی سے جو زندہ دفنا دی گئی ہو پوچھا جائے گا
6 Muhammad Junagarhi
اور جب زنده گاڑی ہوئی لڑکی سے سوال کیا جائے گا
7 Muhammad Hussain Najafi
اور جب زندہ درگور کی ہوئی (لڑکی) سے پوچھا جائے گا۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور جب زندہ درگور لڑکیوں کے بارے میں سوال کیا جائے گا
9 Tafsir Jalalayn
اور جب اس لڑکی سے جو زندہ دفنا دی گئی ہو
واذا لموئو ودۃ سئلت، اس آیت کے انداز بیان میں ایسی شدید غضب ناکی پائی جاتی ہے، جس سیز یادہ غضب ناکی کا تصور نہیں کیا جاسکتا، بیٹی کو زندہ درگور کرنے والے والدین اللہ کی نظر میں ایسے قابل نفرت ہوں گے کہ ان کو مخاطب کر کے ان سے یہ نہ پوچھا جائے گا کہ تم نے اس معصوم کو کیوں قتل کیا ؟ بلکہ اس سے نگاہ پھیر کر معصوم بچی سے پوچھا جائے گا کہ تو بےچاری آخر کس قصور میں مار دی گئی ؟ اور وہ اپنی داستان مظلومیت سنائے گی، اس آیت کے مضمون سے ایک اہم بات خود بخود یہ سمجھ میں آتی ہے کہ اس میں آخرت کے ضروری ہونے کی ایک صریح دلیل پیش کی گئی ہے، جس لڑکی کو زندہ دفن کردیا گیا، آخر اس کی کہیں تو داد رسی ہونی چاہیے، اور جن ظالموں نے یہ ظلم کیا، آخر کبھی تو وہ وقت آنا چاہیے جب ان سے اس بےدردانہ ظلم کی باز پرس کی جائے، دفن ہونے والی لڑکی کی فریاد دنیا میں تو کوئی سننے والا نہ تھا، بچوں کا ناز و نخرہ والدین پر ہوا کرتا ہے، والدین نے خود ہی اپنے ہاتھوں سے اس معصوم اور مظلوم بچی کو زندہ دفن کردیا، اب معاشرہ ہی تھا کہ جس سے کچھ داد رسی کی توقع کی جاسکتی تھی، مگر معاشرہ نے بھی تو اس فعل کو پہلے ہی جائز قرار دے رکھا تھا، اس فعل پر نہ ماں باپ کو کوئی ندامت اور نہ اہل خاندان کو کوئی شرم، اور نہ معاشرہ میں اس پر کوئی گرفت کرنے والا، تو اب اس مظلوم کی فریاد کون سنے ؟ تو کیا خدا کی خدائی میں یہ ظلم عظیم بالکل ہی بےداد رہ جانا چاہیے ؟ اگر ایسا ہی ہو تو یہ ” اندھیر نگری چوپٹ راجہ “ کا مصداق ہوگا، جو خدا کی خدائی میں ممکن نہیں ہے۔
لڑکیوں کو زندہ دفن کرنے کی وجہ
عرب میں لڑکیوں کو زندہ دفن کرنے کا یہ بےرحمانہ طریقہ، قدیم زمانہ میں مختلف وجوہ سے رائج ہوگیا تھا، ایک تو معاشی بدحالی جس کی وجہ سے لوگ چاہتے تھے کہ کھانے والے افراد کم ہوں اور اولاد کو پالنے پوسنے کا بار ان پر نہ پڑے، بیٹوں کو تو اس امید پر پال لیا جاتا تھا کہ وہ حصول معاش میں معاون ہوں گے، مگر بیٹیوں سے یہ توقع نہیں ہوتی تھی، علاوہ ازیں بیٹیوں کو پال پوس کر جوان ہونے کے بعد دوسروں کے حوالہ کردینا ہوگا جس میں سراسر زیان ہی زیان ہے، اس کے علاوہ ایک وجہ یہ بھی تھی کہ قبائلی لڑائیوں میں دفاع میں وہ کچھ کام نہ آتی تھیں بلکہ الٹی ان کی حفاظت کرنی پڑتی تھی اور اگر دشمن ان کو گرفتار کر کے لے جاتا تو ان کو باندی بنا لیتا تھا یا بازار میں فرخت کردیتا تھا جس کی وجہ سے روسائی ہوتی تھی، انہی وجوہ سے عرب میں یہ طریقہ چل پڑا تھا کہ کبھی تو زچگی کے وقت ہی عورت کے آگے ایک گڑھا کھود کر رکھا جاتا تھا، تاکہ اگر لڑکی پیدا ہو تو اسی وقت اسے گڑھے میں ڈال کر مٹی ڈال دی جائے اور اگر کبھی ماں اس پر راضی نہ ہوتی یا اور کوئی وقتی مصلحت مانع ہوتی، تو بادل ناخواستہ اسے کچھ مدت تک برداشت کرلیا جاتا اور پھر کسی وقت صحرا میں لے جا کر زندہ دفن کردیا جاتا، اس معاملہ میں جو شقاوت برتی جاتی تھی اس کا قصہ ایک شخص نے خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کیا۔
بیٹی کے ساتھ بےرحمی کا واقعہ :
سنن دارمی کے پہلے ہی باب میں یہ حدیث منقول ہے کہ ایک شخص نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اپنے عہد جاہلیت کا یہ واقعہ بیان کیا کہ میری ایک یٹی تھی جو مجھ سے بہت مانوس تھی، جب میں اس کو پکارتا تھا تو وہ دوڑی دوڑی میرے پاس آتی تھی، ایک روز میں نے اس کو بلایا اور اپنے ساتھ لے کر چل پڑا، راستہ میں ایک کنواں آیا میں نے اس کا ہاتھ پکڑ کر کنویں میں دھکا دے دیا، آخری آواز جو اس کی میرے کانوں میں آئی وہ یہ تھی، ہائے ابا، یہ سن کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رو دیئے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آنسو بہنے لگے، حاضرین میں سے ایک شخص نے کہا اے شخص ! تو نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو غمگین کردیا، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اسے مت روکو، جس چیز کا اسے سخت احساس ہے اس کے بارے میں اسے سوال کرنے دو ، پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے فرمایا تو اپنا قصہ پھر بیان کر، اس نے دوبارہ بیان کیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (رض) سن کر اس قدر روئے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ڈاڑھی آنسوئوں سے تر ہوگئی، اس کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جاہلیت میں جو کچھ ہوگیا اللہ نے اسے معاف کردیا اب نئے سرے سے اپنی زندگی کا آغاز کر
یہ خیال صحیح نہیں کہ اہل عرب اس انتہائی غیر انسانی فعل کی قباحت ہی نہ رکھتے تھے، ظاہر بات ہے کہ کوئی معاشرہ خواہ کتنا ہی بگڑ چکا ہو، ایسے ظالمانہ افعال کی برائی کے احساس سے بالکل خالی نہیں ہوسکتا عرب کی تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ بہت سے لوگوں کو زمانہ جاہلیت میں اس رسم کی قباحت کا احساس تھا، طبرانی میں ایک روایت ہے کہ فرزدق شاعر کے دادا صعصعہ بن ناجیہ (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں نے جاہلیت کے زمانہ میں کچھ اچھے اعمال بھی کئے ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ میں نے 360 لڑکیوں کو زندہ دفن ہونے سے بچایا اور ہر ایک کی جان کے لئے دو دو اونٹ فدیے میں دیئے ہیں تو کیا مجھے اس پر اجر ملے گا ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہاں تیرے لئے اجر ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ نے تجھے اسلام کی نعمت عطا فرمائی۔
اسلام کا عورت پر احسان :
دراصل یہ اسلام کی برکتوں میں سے ایک بڑی برکت ہے کہ اس نے نہ صرف یہ کہ عرب سے اس انتہائی سنگدلانہ رسم کا خاتمہ کیا، بلکہ اس تخیل کو مٹایا کہ بیٹی کی پیدائش کوئی حادثہ اور مصیبت ہے، جسے بادل ناخواستہ برداشت کیا جائے، اس کے برعکس اسلام نے یہ تعلیم دی کہ بیٹیوں کی پر وشر کرنا ان کی عمدہ تعلیم و تربیت کرنا اور انہیں اس قابل بنانا کہ وہ ایک اچھی گھر والی بن سکے بہت بڑا نیکی کا کام ہے، اس کا اندازہ ان احادیث سے ہوسکتا ہے جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے منقول ہیں، مثال کے طور پر ذیل میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چند ارشادات نقل کئے جاتے ہیں۔
-1 من ابتلی من ھذہ البنات بشی فاحسن الیھن کن لہ سترا من النار (بخاری، مسلم)
ترجمہ :۔ جو شخص ان لڑکوں کی پیدائش سے آزمائش میں ڈالا جائے اور پھر وہ ان سے نیک سلوک کرے تو یہ اس کے لئے جہنم کی آگ سے بچائو کا ذریعہ بنیں گی۔
٢۔ من عال جاریتین حتی تبلغا جاء یوم القیامۃ انا وھو ھکذا وضم اصعابعہ (مسلم شریف)
ترجمہ،۔ جس نے دو لڑکیوں کی پرورش کی یہاں تک کہ وہ بالغ ہوگئیں تو قیامت کے روز میرے ساتھ وہ اس طرح آئے گا، یہ فرما کر حضور نے اپنی انگلیوں کو ملا کر بتایا۔
٣ من کان لہ انثی فلم یئدھا ولم یھنھا ولم یوثر ولدہ علیھا ادخلہ اللہ الجنۃ (ابودائود)
ترجمہ :۔ جس کے یہاں لڑکی ہو اور وہ اسے زندہ دفن نہ کرے، نہ ذلیل کر کے رکھے، نہ بیٹے کو اس پر ترجیح دے تو اللہ اسے جنت میں داخل کرے گا۔
٤ من کان لہ ثلث بنات وصبر علیھن وکساھن من جدتہ کن لہ حجاباً من النار (بخاری، ابن ماجہ)
ترجمہ :۔ جس کے یہاں تین بیٹیاں ہوں اور وہ ان پر صبر کرے اور اپنی وسعت کے مطابق ان کو اچھے کپڑے پہنائے تو وہ اس کے لئے جہنم کی آگ سے بچائو کا ذریعہ ہوں گی۔
٥ مامن مسلم تدرکہ ابنتان فیحسن صحبتھما الا ادخلتاہ الجنتۃ (بخاری ادب المفرد)
ترجمہ :۔ جس مسلمان کے یہاں دو بٹیاں ہوں اور وہ ان کو اچھی طرح رکھے تو ہو ہی نہیں سکتا کہ وہ اسے جنت میں پہنچائیں۔
٦۔ ان النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قال لسراقۃ بن جعشم الا ادلک علی اعظم الصدقۃ قال بلی یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قال ابنتک المردودۃ الیک لیس لھا کا سبٌ غیرک (بخاری، ابن ماجہ)
ترجمہ :۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سراقہ بن جعشم سے فرمایا میں تمہیں بتائوں کہ سب سے بڑا صدقہ (یا فرمایا بڑے صدقوں میں سے ایک) کیا ہے ؟ انہوں نے عرض کیا ضرور بتائیے یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! فرمایا تیری وہ بیٹی جو (طلاق پا کر یا بیوہ ہو کر) تیری طرف پلٹ آئے اور تیرے سوا اس کے لئے کمانے والا کوئی نہ ہو۔
یہی وہ تعلیم ہے جس نے لڑکیوں کے متعلق لوگوں کا نقطہ نظر صرف عرب ہی میں نہیں بلکہ دنیا کی ان تمام قوموں میں بدل دیا جو اسلام کی نعمت سے فیض یاب ہوتی چلی گئیں۔
مسئلہ :۔ کوئی ایسی صورت اختیار کرنا جس سے حمل قرار نہ پائے، جیسے آج کل ضبط تولید کے نام سے دنیا میں ہزاروں صورتیں رائج ہوگئی ہیں، اس کو بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے واد خفی یعنی خفیہ طور پر بچہ کو زندہ درگور کرنا، فرمایا ہے۔ (مسلم) اور بعض دوسری روایات میں جو عزل یعنی ایسی تدبیر کرنا کہ نطفہ رحم میں نہ جائے، اس پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سکوت یا عدم ممانعت منقول ہے وہ ضرورت کے مواقع کے ساتھ مخصوص ہے، وہ بھی اس طرح کہ ہمیشہ کے لئے قطع نسل کی صورت نہ بنے۔ (مظھری، معارف)
10 Tafsir as-Saadi
﴿وَإِذَا الْمَوْءُودَةُ سُئِلَتْ ﴾ زمانہ جاہلیت کے جہلاء بیٹیوں کو فقیری کے ڈر سے کسی سبب کے بغیر زندہ دفن کردیا کرتے تھے۔ پس اس زندہ دفن کی گئی لڑکی سے پوچھا جائے گا: ﴿بِاَیِّ ذَنْبٍ قُتِلَتْ﴾ ” کہ وہ کس گناہ کی وجہ سے قتل کی گئی؟ “اور یہ بات معلوم ہے کہ ان بیٹیوں کا کوئی گناہ نہیں تھا مگر اس (کے ذکر ) میں بیٹیوں کے قاتلین کے لیے زجر وتوبیخ اور جھڑکی ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur jiss bachi ko zinda qabar mein gaarr diya gaya tha , jab uss say poocha jaye ga