الانفطار آية ۱
اِذَا السَّمَاۤءُ انْفَطَرَتْۙ
طاہر القادری:
جب (سب) آسمانی کرّے پھٹ جائیں گے،
English Sahih:
When the sky breaks apart
1 Abul A'ala Maududi
جب آسمان پھٹ جائے گا
2 Ahmed Raza Khan
جب آسمان پھٹ پڑے،
3 Ahmed Ali
جب آسمان پھٹ جائے
4 Ahsanul Bayan
جب آسمان پھٹ جائے گا (١)
١۔١ یعنی اللہ کے حکم اور اس کی ہیبت سے پھٹ جائے گا اور فرشتے نیچے اتر آئیں گے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
جب آسمان پھٹ جائے گا
6 Muhammad Junagarhi
جب آسمان پھٹ جائے گا
7 Muhammad Hussain Najafi
اور جب آسمان پھٹ جائے گا۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
جب آسمان شگافتہ ہوجائے گا
9 Tafsir Jalalayn
جب آسمان پھٹ جائے گا
ترجمہ،۔ شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے، جب آسمان پھٹ جائے گا اور جب ستارے جھڑ جائیں گے اور گرجائیں گے اور جب سب دریا بہہ پڑیں گے بعدازاں آپس میں مل جائیں گے تو سب مل کر ایک سمندر ہوجائیں گے اور شرییں شور کے ساتھ مخلوط ہوجائیں گے اور جب قبریں اکھاڑ دی جائیں گی ان کی مٹی پلٹ دی جائے گی اور ان میں مدفون مردوں کو زندہ کردیا جائے گا، اذا اور اس پر معطوف کا جواب علمت نفس ہے، ہر شخص اپنے اگلے اعمال کو اور پچھلے اعمال جن کو نہیں کیا یعنی ہر نفس ان مذکورہ اوقات میں جو کہ قیامت کا دن ہے جان لے گا، اے کافر انسانچ کس چیز نے تجھے اپنے اس رب کریم کے بارے میں دھوکے میں ڈال دیا حتیٰ کہ تو نے اس کی نافرمانی کی جس نے تجھ کو بعد اس کے کہ تو نہیں تھا پیدا کیا، پھر تجھ کو درست کیا تجھ کو اعضاء کی سلامتی کے ساتھ مناسب اعتدال بخشا، اور تجھ کو متناسب (الاعضاء) بنایا (فعدلک) (دال) کی تحخفیف اور تشدید کے ساتھ یعنی تجھ کو معتدل الخلق اور متناسب الاعضاء بنایا کہ ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ سے اور ایک پیر دوسرے پیر سے طویل نہیں ہے، جس صورت میں تجھ کو چاہا ترکیب دیا، ما زائدہ ہے، ہرگز نہیں ! کلا خدا کے بارے میں دھوکے میں پڑنے سے روکنے کے لئے، حرف تو بیخ ہے، بلکہ (اصل بات یہ ہے) اے مکہ کے کافرو ! تم جزاء اعمال کو جھٹلاتے ہو، حالانکہ تمہارے اوپر ملائکہ میں سے تمہارے اعمال کے نگران مقرر ہیں ایسے عند اللہ معزز اعمال کے کاتب جو کچھ تم کرتے ہو سب کو جانتے ہیں، بیشک اپنے ایمان میں مخلص نعمتوں والی جنت میں ہوں گے اور بیشک کفار فجار جلا دنیے والی آگ میں ہوں گے اس میں جزاء کے دن داخل ہوں گے اور اس کی گرمی کو برداشت کریں گے اس سے باہر نہ ہوں گے (یعنی) نکلیں گے نہیں اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کچھ خبر ہے کہ یوم جزاء کیا ہے ؟ پھر (مکرر) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کچھ خبر ہے کہ وہ روز جزاء کیا ہے ؟ (یہ تکرار) یوم جزاء کی تعظیم کے لئے ہے، یوم رفع کے ساتھ ہے ای ھو یوم، وہ ایسا دن ہے جس میں کسی شخص کا کسی شخص کے نفع کے لئے کچھ بس نہ چلے گا اور تمام تر حکومت اس روز اللہ ہی کی ہوگی اس دن میں کسی غیر کی حکومت نہ ہوگی یعنی اس (دن) میں کسی کا واسطہ ممکن نہ ہوگا بخلاف دنیا کے۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : وقت ھذہ المذکورات، ای المذکورات الاربعۃ (١) اذا السماء انفطرت (٢) اذا الکواکب انتثرت (٣) اذا البحار فجرت (٤) اذا القبور بعثرت
قولہ : ماقدمت یعنی نفس نے جو اچھے برے اعمال کئے، ان کو اپنے اعمال ناموں میں دیکھ لے گا، ما اخرت سے وہ رسوم نیک و بد مراد ہیں جو اس نے دنیا میں جاری کیں، ان کا عذاب یا ثواب اس کو ہمیشہ ملتا رہے گا اور بعض حضرات نے کہا ہے ما قدمت سے مراد وہ فرائض ہیں جو اس نے ادا کئے اور ما اخرت سے وہ فرائض مراد ہیں جو اس نے نہیں کئے۔
قولہ : فی ای صورۃ یہ رکبک کے متعلق ہے اور شاء صورۃ کی صفت ہے۔
قولہ : وما ادرک ما استفہامیہ، مبتداء ادرا فعل، کاف مفعول اول، ما یوم الدین مبتداء خبر سے مل کر ادرا کا مفعول ثانی۔
قولہ : یوم الدین، ھو مبتداء محذوف کی خبر ہونے کی وجہ سے مرفوع اور اغنی فعل محذوف کا مفعول ہونے کی وجہ سے منصوب۔
تفسیر و تشریح
علمت نفس ما قدمت و اخرت یعنی جب قیامت کے وہ حالات پیش آچکے ہوں گے جن کا ذکر شروع سورت میں کیا گیا ہے مثلاً آسمان کا پھٹنا وغیرہ تو اس وقت ہر انسان کو اپنے کرے دھرے کا سب تفصیلی پتہ چل جائے گا، یعنی کیا اس نے جنگلوں میں یا کسی اور حالت میں اس کا ارتکاب کرو جہاں تمہیں پورا اطمینان ہو کہ کچھ تم نے کیا ہے وہ ناہ خلق سے مخفی رہ گیا ہے، ان نگران فرشتوں کے لئے اللہ نے کراماً کاتبین کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں یعنی ایسے کاتب جو نہایت کریم اور بزرگ ہیں اور معززین ہیں کسی سے نہ ذاتی محبت رکھتے ہیں اور نہ عداوت کہ ایک کی بےجا رعایت اور دوسرے کی ناروا مخالفت کر کے لاف واقعہ ریکارڈ تیار کریں، خائن بھی نہیں ہیں کہ اپنی ڈیوٹی پر حاضر ہوئے بغیر بطور خود، غلط سلط اندراجات کرلیں، رشوت خور بھی نہیں کہ کچھ لے دے کر کسی کے حق میں یا کسی کے خلاف جھوٹی رپورٹیں کردیں، ان کا مقام ان ساری اخلاقی کمزوریوں سے بلند ہے اس لئے نیک و بد دونوں قسم کے انسانوں کو مطمئن رہنا چاہیے کہ ہر ایک کی نیکی اور بدی بےکم وکاست ریکارڈ ہوگی۔
کسی کی وہاں یہ طاقت نہ ہوگی کہ وہ کسی شخص کو اس کے اعمال کے نتائج بھگتنے سے بچا سکے، کوئی وہاں ایسا با اثر یا زور آور یا اللہ کا چہیتا نہ ہوگا کہ عدالت خدا وندی میں اڑ کر بیٹھ جائے اور یہ کہہ سکے کہ فلاں شخص میرا عزیز یا متوسل ہے، اسے تو بخشنا ہی ہوگا، خواہ یہ دنیا میں کیسے ہی برے اعمال کر کے آیا ہو۔
10 Tafsir as-Saadi
یعنی جب آسمان پھٹ کر پراگندہ ہوجائے گا، ستارے بکھر جائیں گے اور ان کا حسن وجمال زائل ہوجائے گا، جب سمندر بہ کر ایک دوسرے سے مل جائیں گے اور ایک ہی سمندر بن جائیں گے ، قبریں شق کرکے اکھاڑ دی جائیں گی اور ان میں سے مردے باہر نکال لیے جائیں گے اور ان کواعمال کی جزا وسزا کی خاطر اللہ تعالیٰ کے حضور کھڑا کرنے کے لیے جمع کیا جائے گا ۔ پس اس وقت پردہ ہٹ جائے گا اور وہ سب کچھ زائل ہوجائے گا جو چھپا ہوا تھا اور ہر نفس جان لے گا کہ اس کے پاس کیا نفع اور خسران ہے ۔ اس وقت جب ظالم دیکھے گا کہ اس کے ہاتھوں نے کیا کمائی آگے بھیجی ہے اور شقاوت ابدی اور عذاب سرمدی کا یقین ہوجائے گا تو وہ ( حسرت اور پشیمانی ) سے اپنے ہاتھوں پر کاٹے گا ۔ اس وقت متقین جنہوں نے صالح اعمال آگے بھیجے ہوں گے عظیم کامیابی، دائمی نعمتوں اور جہنم کے عذاب سے سلامتی سے بہرہ مند ہوں گے۔
11 Mufti Taqi Usmani
jab aasman chir jaye ga ,
12 Tafsir Ibn Kathir
اور قبریں پھوٹ پریں
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ قیامت کے دن آسمان ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیں گے جیسے فرمایا آیت ( السَّمَاۗءُ مُنْفَطِرٌۢ بِهٖ ۭ كَانَ وَعْدُهٗ مَفْعُوْلًا 18) 73 ۔ المزمل :18) اور ستارے سب کے سب گرپڑیں گے اور کھاری اور میٹھے سمندر آپس میں خلط ملط ہوجائیں گے۔ اور پانی سوکھ جائے گا قبریں پھٹ جائیں گی ان کے شق ہونے کے بعد مردے جی اٹھیں گے پھر ہر شخص اپنے اگلے پچھلے اعمال کو بخوبی جان لے گا، پھر اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو دھمکاتا ہے کہ تم کیوں مغرور ہوگئے ہو ؟ یہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس کا جواب طلب کرتا ہو یا سکھاتا ہو، بعض نے یہ بھی کہا ہے بلکہ انہوں نے جواب دیا ہے کہ اللہ کے کرم نے غافل کر رکھا ہے، یہ معنی بیان کرنے غلط ہیں صحیح مطلب یہی ہے کہ اے ابن آدم اپنے باعظمت اللہ سے تو نے کیوں بےپرواہی برت رکھی ہے کس چیز نے تجھے اس کی نافرمانی پر اکسا رکھا ہے ؟ اور کیوں تو اس کے مقابلے پر آمادہ ہوگیا ہے ؟ حدیث شریف میں ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ فرمائے گا، اے ابن آدم تجھے میری جانب سے کسی چیز نے مغرور کر رکھا تھا ؟ ابن آدم بنا تو نے میرے نبیوں کو کیا جواب دیا ؟ حضرت عمر نے ایک شخص کو اس آیت کی تلاوت کرتے ہوئے سنا تو فرمایا کہ انسانی جہالت نے اسے غافل بنا رکھا ہے، ابن عمر ابن عباس وغیرہ سے بھی یہی مروی ہے، قتادہ فرماتے ہیں اسے بہکانے والا شیطان ہے، حضرت فضیل ابن عیاض (رح) فرماتے ہیں کہ اگر مجھ سے یہ سوال ہو تو میں جواب دوں گا کہ تیرے لٹکائے ہوئے پروں نے۔ حضرت ابوبکر صدیق فرماتے ہیں میں تو کہوں گا کہ کریم کے کرم نے بےفکر کردیا، بعض سخن شناس فرماتے ہیں کہ یہاں پر کریم کا لفظ لاناگویا جواب کی طرف اشارہ سکھانا ہے۔ لیکن یہ قول کچھ فائدے مند نہیں بلکہ صحیح مطلب یہ ہے کہ کرم والوں کو اللہ کے کرم کے مقابلہ میں بد افعال اور برے اعمال نہ کرنے چاہئیں۔ کلبی اور مقاتل فرماتے ہیں کہ اسود بن شریق کے بارے میں یہ نازل ہوئی ہے۔ اس خبیث نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مارا تھا اور اسی وقت چونکہ اس پر کچھ عذاب نہ آیا تو وہ پھول گیا اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ پھر فرماتا ہے وہ اللہ جس نے تجھے پیدا کیا، پھر درست بنایا پھر درمیانہ قد و قامت بخشا خوش شکل اور خوبصورت بنایا، مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی ہتھیلی میں تھوکا پھر اس پر اپنی انگلی رکھ کر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے ابن آدم کیا تو مجھے عاجز کرسکتا ہے ؟ حالانکہ میں نے تجھے اس جیسی چیز سے پیدا کیا ہے پھر ٹھیک ٹھاک کیا پھر صحیح قامت بنایا پھر تجھے پہنا اڑھا کر چلنا پھرنا سکھایا آخر کار تیرا ٹھکانہ زمین کے اندر ہے تو نے خوب دولت جمع کی اور میری راہ میں دینے سے باز رہا یہاں تک کہ جب دم حلق میں آگیا تو کہنے لگا میں صدقہ کرتا ہوں، بھلا اب صدقے کا وقت کہاں ؟ جس صورت میں چاہا ترکیب دی یعنی باپ کی ماں کی ماموں کی چچا کی صورت میں پیدا کیا۔ ایک شخص سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تیرے ہاں بچہ کیا ہوگا ؟ اس نے کہا یا لڑکا یا لڑکی۔ فرمایا کس کے مشابہ ہوگا ؟ کہا یا میرے یا اس کی ماں کے۔ فرمایا خاموش ایسا نہ کہہ نطفہ جب رحم میں ٹھہرتا ہے تو حضرت آدم تک کا نسب اس کے سامنے ہوتا ہے۔ پھر آپ نے آیت (فی ای صورۃٍ ما شاء رکبک) پڑھی اور فرمایا جس صورت میں اسنے چاہا تجھے چلایا۔ یہ حدیث اگر صحیح ہوتی تو آیت کے معنی کرنے کے لیے کافی تھی لیکن اس کی اسناد ثابت نہیں ہے۔ مظہرین ہثیم جو اس کے راوی ہیں یہ متروک الحدیث ہیں۔ ان پر اور جرح بھی ہے۔ بخاری و مسلم کی ایک اور حدیث میں ہے کہ ایک شخص نے حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آ کر کہا میری بیوی کو جو بچہ ہوا ہے وہ سیاہ فام ہے۔ آپ نے فرمایا تیرے پاس اونٹ بھی ہیں ؟ کہا ہاں۔ فرمایا کس رنگ کے ہیں ؟ کہا سرخ رنگ کے۔ فرمایا کہ ان میں کوئی چت کبرا بھی ہے ؟ کہا ہاں۔ فرمایا اس کا رنگ کا بچہ سرخ نر و مادہ کے درمیان کیسے پیدا ہوگیا ؟ کہنے لگا شاید اوپر کی نسل کی طرف کوئی رگ کھینچ لے گئی ہو۔ آپ نے فرمایا اسی طرح تیرے بچے کے سیاہ رنگ کے ہونے کی وجہ بھی شاید یہی ہو۔ حضرت عکرمہ فرماتے ہیں اگر چاہے بندر کی صورت بنا دے اگر چاہے سور کی۔ ابو صالح فرماتے ہیں اگر چاہے کتے کی صورت میں بنا دے اگر چاہے گدھے کی اگر چاہے سور کی قتادہ فرماتے ہیں یہ سب سچ ہے اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے لیکن وہ مالک ہمیں بہترین، عمدہ، خوش شکل اور دل لبھانے والی پاکیزہ پاکیزہ شکلیں صورتیں عطا فرماتا ہے پھر فرماتا ہے کہ اس کریم اللہ کی نافرمانیوں پر تمہیں آمادہ کرنے والی چیز صرف یہی ہے کہ تمہارے دلوں میں قیامت کی تکذیب ہے تم اس کا آنا ہی برحق نہیں جانتے اس لیے اس سے بےپرواہی برت رہے ہو، تم یقین مانو کہ تم پر بزرگ محافظ اور کاتب فرشتے مقرر ہیں۔ تمہیں چاہیئے کہ انکا لحاظ رکھو وہ تمہارے اعمال لکھ رہے ہیں تمہیں برائی کرتے ہوئے شرم آنی چاہیے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں کہ اللہ کے یہ بزرگ فرشتے تم سے جنابت اور پاخانہ کی حالت کے سوا کسی وقت الگ نہیں ہوتے۔ تم انکا احترام کرو، غسل کے وقت بھی پردہ کرلیا کرو دیوار سے یا اوٹ سے ہی سہی یہ بھی نہ تو اپنے کسی ساتھی کو کھڑا کرلیا کرو تاکہ وہی پردہ ہوجائے (ابن ابی حاتم) بزار کی اس حدیث کے الفاظ میں کچھ تغیر و تبدل ہے اور اس میں یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں ننگا ہونے سے منع کرتا ہے۔ اللہ کے ان فرشتوں سے شرماؤ۔ اس میں یہ بھی ہے کہ غسل کے وقت بھی یہ فرشتے دور ہوجاتے ہیں ایک حدیث میں ہے کہ جب یہ کراماکاتبین بندے کے روزانہ اعمال اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش کرتے ہیں تو اگر شروع اور آخر میں استغفار ہو تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس کے درمیان کی سب خطائیں میں نے اپنے غلام کی بخش دیں (بزار) بزار کی ایک اور ضعیف حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بعض فرشتے انسانوں کو اور ان کے اعمال کو جانتے پہنچانتے ہیں جب کسی بندے کو نیکی میں مشغول پاتے ہیں تو آپس میں کہتے ہیں کہ آج کی رات فلاں شخص نجات پا گیا فلاح حاصل کر گیا اور اس کے خلاف دیکھتے ہیں تو آپس میں ذکر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آج کی رات فلاں ہلاک ہوا۔