التوبہ آية ۲۵
لَـقَدْ نَصَرَكُمُ اللّٰهُ فِىْ مَوَاطِنَ كَثِيْرَةٍ ۙ وَّيَوْمَ حُنَيْنٍ ۙ اِذْ اَعْجَبَـتْكُمْ كَثْرَتُكُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنْكُمْ شَيْـًٔـا وَّضَاقَتْ عَلَيْكُمُ الْاَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ ثُمَّ وَلَّـيْتُمْ مُّدْبِرِيْنَۚ
طاہر القادری:
بیشک اللہ نے بہت سے مقامات میں تمہاری مدد فرمائی اور (خصوصاً) حنین کے دن جب تمہاری (افرادی قوت کی) کثرت نے تمہیں نازاں بنا دیا تھا پھر وہ (کثرت) تمہیں کچھ بھی نفع نہ دے سکی اور زمین باوجود اس کے کہ وہ فراخی رکھتی تھی، تم پر تنگ ہو گئی چنانچہ تم پیٹھ دکھاتے ہوئے پھر گئے،
English Sahih:
Allah has already given you victory in many regions and [even] on the day of Hunayn, when your great number pleased you, but it did not avail you at all, and the earth was confining for you with [i.e., in spite of] its vastness; then you turned back, fleeing.
1 Abul A'ala Maududi
اللہ اس سے پہلے بہت سے مواقع پر تمہاری مدد کر چکا ہے ابھی غزوہ حنین کے روز (اُس کی دستگیری کی شان تم دیکھ چکے ہو) اس روز تمہیں اپنی کثرت تعداد کا غرہ تھا مگر وہ تمہارے کچھ کام نہ آئی اور زمین اپنی وسعت کے باوجود تم پر تنگ ہو گئی اور تم پیٹھ پھیر کر بھاگ نکلے
2 Ahmed Raza Khan
بیشک اللہ نے بہت جگہ تمہاری مدد کی اور حنین کے دن جب تم اپنی کثرت پر اترا گئے تھے تو وہ تمہارے کچھ کام نہ ا ٓئی اور زمین اتنی وسیع ہوکر تم پر تنگ ہوگئی پھر تم پیٹھ دے کر پھرگئے،
3 Ahmed Ali
الله بہت سے میدانوں میں تمہاری مدد کر چکا ہے اور حنین کے دن جب تم اپنی کثرت پر خوش ہوئے پھر وہ تمہارے کچھ کام نہ آئی اور تم پر زمین باوجود اپنی فراخی کے تنگ ہو گئی پھر تم پیٹھ پھیر کر ہٹ گئے
4 Ahsanul Bayan
یقیناً اللہ تعالٰی نے بہت سے میدانوں میں تمہیں فتح دی ہے اور حنین کی لڑائی والے دن بھی جب کہ تمہیں کوئی فائدہ نہ دیا بلکہ زمین باوجود اپنی کشادگی کے تم پر تنگ ہوگئی پھر تم پیٹھ پھیر کر مڑ گئے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
خدا نے بہت سے موقعوں پر تم کو مدد دی ہے اور (جنگ) حنین کے دن۔ جب تم کو اپنی (جماعت کی) کثرت پر غرّہ تھا تو وہ تمہارے کچھ بھی کام نہ آئی۔ اور زمین باوجود (اتنی بڑی) فراخی کے تم پر تنگ ہوگئی پھر تم پیٹھ پھیر کر پھر گئے
6 Muhammad Junagarhi
یقیناً اللہ تعالیٰ نے بہت سے میدانوں میں تمہیں فتح دی ہے اور حنین کی لڑائی والے دن بھی جب کہ تمہیں اپنی کثرت پر ناز ہوگیا تھا، لیکن اس نے تمہیں کوئی فائده نہ دیا بلکہ زمین باوجود اپنی کشادگی کے تم پر تنگ ہوگئی پھر تم پیٹھ پھیر کر مڑ گئے
7 Muhammad Hussain Najafi
بے شک اللہ نے بہت سے مقامات پر تمہاری مدد فرمائی ہے۔ اور حنین کے موقع پر بھی جب تمہاری کثرت تعداد نے تمہیں مغرور کر دیا تھا مگر اس (کثرت) نے تمہیں کوئی فائدہ نہ پہنچایا اور زمین اپنی ساری وسعت کے باوجود تم پر تنگ ہوگئی پھر تم پیٹھ دکھا کر بھاگ کھڑے ہوئے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
بیشک اللہ نے کثیر مقامات پر تمہاری مدد کی ہے اور حنین کے دن بھی جب تمہیں اپنی کثرت پر ناز تھا لیکن اس نے تمہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچایا اور تمہارے لئے زمین اپنی وسعتوں سمیت تنگ ہوگئی اور اس کے بعد تم پیٹھ پھیر کر بھاگ نکلے
9 Tafsir Jalalayn
خدا نے بہت سے موقعوں پر تم کو مدد دی ہے۔ اور (جنگ) حنین کے دن جبکہ تم کو اپنی (جماعت کی) کثرت پر غرہّ تھا تو وہ تمہارے کچھ بھی کام نہ آئی۔ اور زمین باوجود (اتنی بڑی) فراخی کے تم پر تنگ ہوگئی۔ پھر تم پیٹھ پھیر کر پھرگئے۔
آیت نمبر ٢٥ تا ٢٩
ترجمہ : بیشک اللہ تعالیٰ نے لڑائی کے بہت سے موقعوں پر تمہاری مدد کی ہے مثلاً بدرو (بنو) قریظہ اور (بنو) نضیر (کے مقابلہ میں) اور حنین کے دن کو یاد کرو، یہ مکہ اور طائف کے درمیان وادی ہے، یعنی اس دن میں ہوازن کے ساتھ جنگ کو یاد کرو، اور یہ شوال ٨ ھ میں پیش آئی جبکہ تم کو تمہاری کثرت پر نازہو گیا تھا سو تم نے کہا تھا کہ آج ہم قلت کی وجہ سے مغلوب نہ ہوں گے، اور (مسلمانوں کی تعداد) بارہ ہزار تھی اور کفار چار ہزار تھے، اِذْ یَوْمَ سے بدل ہے، لیکن اس (کثرت نے تمہیں کوئی فائدہ نہ دیا، اور زمین اپنی کشادگی کے باوجود تم پر تنگ ہوگئی، ما، مصدریہ ہے یعنی اپنی وسعت کے باوجود، تم کو کوئی ایسی جگہ نہ ملی کہ تم اس میں اس شدید خوف کی وجہ سے جو تم کو لاحق ہوگیا تھا پناہ لے سکو، پھر تم شکست خوردہ ہو کر پیٹھ پھیر کر بھاگ کھڑے ہوئے، اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے سفید خچر پر اپنی جگہ جمے رہے حالانکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ سوائے عباس (رض) کے اور ابو سفیان (رض) کے جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خچر کی رکاب تھامے ہوئے تھے کوئی باقی نہیں رہا تھا اس کے بعد اللہ نے اپنے رسول پر اور مومنین پر سکینت (تسلی) نازل فرمائی چناچہ جب حضرت عباس (رض) نے آپ کے کہنے سے تم لوگوں کو آواز دی تو تم نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف لوٹ آئے اور (مشرکین سے) قتال کیا اور فرشتوں کا وہ لشکر نازل فرمایا جو تم کو نظر نہیں آرہا تھا اور (اللہ نے) کافروں کو قتل و قید کی سزا دی اور یہی کافروں کی سزا ہے، پھر اس کے بعد ان میں سے اللہ جس کو چاہے اسلام کی توفیق دے کر توبہ نصیب کر دے اللہ بڑا مغفرت والا رحم والا ہے، اے ایمان والوں مشرکین اپنی خبث باطن کی وجہ سے سراپا نجس ہیں لہٰذا اس سال کے بعد مسجد حرام کے قریب بھی نہ پھٹکیں یعنی مسجد حرام میں داخل نہ ہوں اور ٩ ھ میں یہ حکم نازل ہوا، اور اگر تم کو ان کے ساتھ تجارت منقطع ہوجانے کی وجہ سے فقر کا اندیشہ ہو سو اگر اللہ چاہے گا تو اپنے فضل سے تم کو ان سے عنقریب بےنیاز کر دے گا، چناچہ (اللہ نے) مسلمانوں کو فتح اور جزیہ کے ذریعہ بےنیاز کردیا، اللہ خوب جاننے والا بڑا حکمت والا ہے، ان لوگوں سے قتال کرو جو اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان نہیں رکھتے اگر وہ (اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے) تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لے آتے اور نہ اس چیز کو حرام سمجھتے ہیں جس کو اللہ اور اس کے رسول نے حرام کیا ہے مثلاً شراب (نوشی) اور نہ سچے دین کو قبول کرتے ہیں جو کہ دائمی اور دیگر ادیان کے لئے ناسخ ہے اور وہ اسلام ہے اور وہ اہل کتاب یہودونصاریٰ ہیں مِنْ ، بیانیہ ہے، اَلّذین کا بیان ہے، تا آں کہ وہ عائد کردہ سالانہ ٹیکس (جزیہ) تابع ہو کر بدست خود بغیر کسی کو سپرد کئے ادا کریں حال یہ کہ وہ ذلیل ہوں (یعنی) اسلام کے حکم کے تابع ہوں۔
تحقیق و ترکیب وتسہیل وتفسیری فوائد
قولہ : مَوَاطِنَ ، مَوْطِن کی جمع ہے بمعنی موقع، مقامات، مفسر علام نے للحرب کا اضافہ کر کے اشارہ کردیا کہ موطن سے مراد جائے سکونت نہیں ہے بلکہ میدان حرب ہے،
قولہ : اذکر، مفسر علام نے اذکر فعل محذوف مان کر اشارہ کردیا کہ یَوْمَ فعل محذوف کا مفعول ہے نہ کہ مواطن پر عطف جیسا کہ کہا گیا ہے اس لئے کہ یَوْمَ حُنَیْن ظرف زمان ہے اور مَوَاطِنَ ظرف مکان ہے اور زمان کا عطف مکان پر درست نہیں ہے دوسری وجہ یہ کہ اِذْ اعجبتکم، یَوْمَ حنین سے بدل ہے اگر یَوْمَ حُنَیْنٍ کا عطف مواطن پر کیا جائے تو اِذْ اَعْجَبَتْکم کو بھی مواطن سے بدل ماننا ہوگا اور یہ باطل ہے اس لئے کہ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ تمام مواقع پر عجب ہوا تھا۔
قولہ : ھوازن، تیر اندازی میں مشہور ایک قبیلہ کا نام ہے جو کہ حلیمہ سعدیہ کا قبیلہ ہے۔
قولہ : حُنَیْن مکہ اور طائف کے درمیان۔ مکہ سے اٹھارہ میل کے فاصلہ پر ایک وادی کا نام ہے۔
قولہ : بما رَحُبَتْ ، رُحبة بضم الراء، بمعنی کشادگی وسعت، اور رَحبة بالفتح کشادہ مکان، اور باء بمعنی مع \&\& مَا \&\& مصدریہ ہے لہٰذا عدم عائد کا اعتراض نہیں ہوگا۔
قولہ : فَلَمْ تَجِدُوا مکاناً اس عبارت کے اضافہ کا مقصد ایک سوال کا جواب ہے۔
سوال : یہ ہے کہ ضَاقَتْ عَلَیْکُمُ الْاَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ سے معلوم ہوتا ہے کہ زمین اپنی کشادگی کے باوجود تنگ ہوگئی حالانکہ زمین اپنی حالت پر باقی تھی۔
جواب : یہ ہے کہ زمین کی تنگی سے مراد عجازاً عدم وجود المکان المطمئن ہے۔
قولہ : لخُبث باطِنِھم یہ ایک سوال کا مقدر کا جواب ہے۔ سوال : یہ ہے کہ نَجَس مصدر ہے اور مصدر کا حمل ذات پر درست نہیں ہے۔
جواب : کا حاصل یہ ہے کہ نَجَس سے مراد ذونجس ہے یا بطور مبالغہ حمل ہے بیان نجاست میں مبالغہ کرنے کے لئے، گویا کہ مشرک عین نجاست ہیں۔
دوسرا سوال : یہ ہے کہ المشرکون جمع ہے اور نجس مفرد ہے جس کی وجہ سے مبتداء خبر میں مطابقت نہیں ہے۔
جواب : جواب کا حاصل یہ ہے کہ نجس مصدر ہونے کی وجہ سے واحد تثنیہ اور جمع سب پر بولا جاتا ہے یقال رَجُل نجس رجلان نجس، رجال نجس، بعض ظاہر یہ اور زید یہ مشرک کو نجس العین مانتے ہیں۔
قولہ : عَیْلَة، الفقر، یہ عَالَ یَعیلُ (ض) کا مصدر ہے محتاج ہونا۔
قولہ : واِلاّ لامنوا بالنبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ ایک سوال مقدر کا جواب ہے۔
سوال : یہ ہے کہ قَاتِلُوا الَّذِیْنَ لاَ یُؤمِنُوْنَ بِا اللہ وَلاَ بِا لْیَوْمِ الاٰخِرِ اس سے اہل کتاب سے ایمان باللہ اور ایمان بالآخرة کی نفی کی گئی ہے حالانکہ یہ دونوں فرقے اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہیں۔
جواب : کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر یہ لوگ صحیح معنی میں اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے تو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ضرور ایمان لاتے جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان نہیں لائے تو ان کا ایمان اللہ اور یوم آخرت پر بھی نہیں ہے۔
قولہ : دین الحق ای الدین الحق اس میں اضافت الموصوف الی الصفت ہے۔
قولہ : عَنْ یَّدٍ حال، یُعْطُوْا کی ضمیر سے حال ہے، یَد کی تفسیر منقادین سے تفسیر باللاَّ زم ہے کہا جاتا ہے اعطی فلان بیدہ ای اَسْلَمَ وانقاد۔
قولہ : بایدیکم، اس میں اشارہ ہے کہ عن ید میں عن بمعنی باء ہے اور یہ عن ید کی دوسری تفسیر ہے۔
قولہ : یُوکَّلُونَ یہ توکیل سے مضارع جمع مذکر غائب ہے بمعنی سپرد کرنا وکیل بنانا۔
قولہ : وَھم صاغرون اس حال میں کہ وہ اپنی زیر دستی کا احساس رکھتے ہوں، الصاغر الراضی بالمنزلة الدنیة (راغب) امام شافعی (رح) تعالیٰ نے فرمایا ہے صغار قانون اسلام کی بالا دستی قبول کرنا ہے۔
تفسیر وتشریح
لَقَدْ نَصَرَ کُمُ اللہ فِیْ مَوَاطِنَ کَثِیْرَةٍ اس سے پہلے سورت انفال میں فتح مکہ اور اسکے متعلقات کا ذکر تھا، اس سورت میں غزوہ حنین کے واقعات، شکست وفتح کا اور ان کے ضمن میں بہت سے اصولی اور فروعی مسائل اور فوائد کا بیان ہے اس رکوع کی پہلی آیت میں حق تعالیٰ نے اپنے انعام و احسان کا ذکر فرمایا ہے عمومی احسان کا ذکر فرمانے کے بعد خصوصی انعام و احسان کے طور پر غزوہ حنین میں اپنی نصرت کا ذکر فرمایا، مسلمان اس سے پہلے بار بار نصرت غیبی اور تائید ایزدی کا مشاہدہ کا مشاہدہ کرچکے تھے جن کی تعداد علماء تاریخ و سیرت اسّی تک گناتے ہیں۔
غزوہ حنین کو خاص طور پر ذکر کرنے کی وجہ : غزوہ حنین کو خصوصیت کے ساتھ اس وجہ سے ذکر فرمایا کہ اس میں بہت سے واقعات اور حالات خلاف توقع عجیب انداز سے ظاہر ہوئے جن میں غور کرنے سے انسان کے ایمان میں قوت اور عمل میں ہمت پیدا ہوتی ہے۔
غزوہ حنین کا تفصیلی ذکر : حنین مکہ مکرمہ اور طائق کے درمیان مکہ سے اٹھارہ میل سے زیادہ فاصلہ پر واقع ہے لیکن ڈاکٹر محمد حمید اللہ نے حال ہی میں موقع پر جا کر جو تحقیق کی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حنین اوطاس کی ایک وادی کا نام ہے اور اوطاس طائف کے شمال مشرق میں تقریباً ٣٠، ٤٠ میل کے فاصلہ پر ہے بہرحال اس کا محل وقوع جو بھی ہو، رمضان ٨ ھ میں مکہ فتح ہوجانے اور قریش مکہ کے ہتھیار ڈالدینے کے دو ہفتہ کے بعد قدیم جاہلی نظام نے آخری حرکت مذبوحی حنین کے میدان میں کی اس کی صورت یہ پیش آئی کہ عرب کا ایک بہادر اور تیر اندازی میں مشہور، جنگجو اور مالدار قبیلہ ہوازن جس کی ایک شاخ طائف کے رہنے والے بنو ثقیف بھی تھے ان میں ہل چل مچ گئی انہوں نے یہ کہنا شروع کردیا کہ مکہ فتح ہوجانے کے بعد مسلمانوں کو کافی قوت حاصل ہوگئی ہے اس سے فارغ ہونے کے بعد لازمی ہے کہ ان کا رخ ہماری طرف ہوگا اس لئے دانشمندی کی بات یہ ہے کہ ان کے حملہ آور ہونے سے پہلے پہلے ہم خود ان پر حملہ کردیں، اس کام کے لئے قبیلہ ہوازن نے اپنی سب شاخوں کو جو مکہ سے طائف تک پھیلی ہوئی تھیں جمع کرلیا، قبیلہ ہوازن کی تمام شاخیں جن کی تعداد سو کے قریب تھی سوائے بنو کعب اور بنو کلاب کے جو قبیلہ ہوازن کے خیال سے متفق نہیں تھے جمع ہوگئے، بنو کعب اور بنو کلاب کو اللہ تعالیٰ نے کچھ بصیرت عطا فرمادی تھی انہوں نے کہا اگر مشرق سے مغرب تک ساری دنیا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف جمع ہوجائے گی تو وہ ان سب پر غالب آجائیں گے ہم خدائی طاقت کے ساتھ جنگ نہیں کرسکتے، حنین کے معرکہ میں قبیلہ ہوازن اور اس کے حلیفوں نے اپنی پوری قوت جھونک دی تاکہ اس اصلاحی انقلاب کو روک دیں جو فتح مکہ کے بعد تکلمیل کے مرحلہ میں پہنچ چکا تھا لیکن یہ حرکت بھی ناکام ہوئی اور حنین کی شکست کے ساتھ عرب کی قسمت کا قطعی فیصلہ ہوگیا کہ اب اسے دارالاسلام بن کر رہنا ہے۔
مشرکین کی فوج کی کمان مالک بن عوف کے ہاتھ میں تھی جو بعد میں مسلمان ہوگئے، مالک بن عوف نے ان سب کو پوری قوت سے جنگ پر قائم رکھنے کی یہ تدبیر کی کہ ہر شخص کے تمام اہل و عیال بھی ساتھ چلیں اور اپنا تمام مال بھی ساتھ لے کر نکلیں جس کا مقصد یہ تھا کہ اگر وہ میدان جنگ سے راہ فرار اختیار کرنے لگیں تو بیوی بچے ان کے پیروں کی زنجیر بن جائیں مشرکین کی فوج کی تعداد کے بارے میں مختلف اقوال ہیں علامہ ابن حجر نے ٢٤ یا ٢٨ ہزار کی تعداد کو راجح قرار دیا ہے بعض حضرات نے ٤ ہزار تعداد بتائی ہے ممکن ہے کہ باقاعدہ فوجی چار ہزار ہوں اور ان کے اہل وغیرہ سب مل کر ان کی تعداد ٢٤ یا ٢٨ ہزار تک پہنچ گئی ہو۔
آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان کے خطرناک عزائم کی اطلاع : جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قبیلہ ہوازن اور اس کے حلیفوں کے خطرناک عزائم کی اطلاع ملی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے مقابلہ پر جانے کا عزم فرما لیا، مکہ مکرمہ پر حضرت عتاب بن اسید (رض) کو امیر بنایا اور حضرت معاذ بن جبل (رض) کو ان کے ساتھ اسلامی تعلیمات سکھانے کے لئے چھوڑا اور قریش مکہ سے کچھ اسلحہ اور سامان جنگ عاریت پر لیا، امام زہری کی روایت کے مطابق آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چودہ ہزار صحابہ کا لشکر لے کر حنین کی طرف متوجہ ہوئے جن میں بارہ ہزار انصار مدینہ تھے جو فتح مکہ کے لئے آپ کے ساتھ مدینہ سے آئے تھے، اور دو ہزار وہ نو مسلم تھے جو فتح مکہ کے وقت مسلمان ہوگئے تھے جن کو طلقاء کہا جاتا ہے ٦ شوال بروز ہفتہ ٨ ھ مطابق یکم فروری آپ اس غزوہ کے لئے روانہ ہوئے اور آپ نے فرمایا کل انشاء اللہ ہمارا قیام خیف بنی کنانہ کے اس مقام پر ہوگا جہاں جمع ہو کر قریش مکہ نے مسلمانوں کے خلاف مقاطعہ کے لئے عہد نامہ لکھا تھا، بہت سے نو مسلم اور منافقین بھی تماشائی کے طور پر اسلامی لشکر کے ساتھ ہو لئے ان کا مقصد صورت حال کے مطابق حالات سے فائدہ اٹھانا تھا۔
حنین کے مقام پر اسلامی لشکر کا ورود : مقام حنین پر پہنچ کر اسلامی لشکر نے پڑائو ڈالا تو حضرت سہیل بن حنظلہ (رض) نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ خبر دی کہ ایک گھوڑسوار شخص ابھی دشمن کی طرف سے آیا ہے، وہ بتلا رہا ہے کہ قبیلہ ہوازن مسلح ہو کر مع اپنے سازو سامان کے مقابلہ پر آگیا ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسکراتے ہوئے فرمایا \&\& پرواہ نہ کرو یہ پورا سازو سامان مسلمانوں کے لئے ہے جو مال غنیمت ہو کر تقسیم ہوگا \&\&۔
عبد اللہ بن ابی حدرد (رض) کی بطور جاسوس روانگی : اس مقام پر ٹھہر کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عبد اللہ بن ابی حدرد (رض) کو بطور جاسوس دشمن کے حالات معلوم کرنے کے لئے بھیجا عبد اللہ بن ابی حدرد (رض) نے اس قوم میں جا کردو روز رہ کر حالات کا جائزہ لیا ان کے لیڈر مالک بن عوف کو دیکھا کہ وہ اپنے لوگوں سے کہہ رہا ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اب تک کسی بہادر تجربہ کار قوم سے سابقہ نہیں پڑا مکہ کے بھولے بھالے قریشیوں کا مقابلہ کر کے ان کو اپنی طاقت کا زعم ہوگیا ہے اب ان کو پتہ چلے گا، تم صبح ہوتے ہی اس طرح سف بندی کرو کہ ہر ایک کے پیچھے اسکے بیوی بچے اور مال ہو اور اپنی تلواروں کی میانوں کو توڑ ڈالو اور سب مل کر یکبارگی ہلہ بول دو یہ لوگ چونکہ جنگی معاملات کے بڑے تجربہ کار تھے اسلئے اپنی فوج کے چند دستوں کو مختلف گھاٹیوں میں چھپا دیا تھا۔
مسلمانوں کے لشکر کی صورت حال : یہ تو لشکر کفار کی تیاریوں کا ذکر تھا، اسلامی لشکر کی صورت حال یہ تھی کہ یہ پہلا موقع تھا کہ چودہ ہزار مجاہد مقابلہ کے لئے نکلے تھے، اور سامان جنگ بھی ہمیشہ کی بہ نسبت زیادہ تھا مسلمان یہ دیکھ چکے تھے کہ بدر میں صرف تین سو تیرہ لوگوں نے ایک ہزار کے لشکر جرار پر فتح پائی تو آج اپنی کثرت اور تیاری پر نظر کرتے ہوئے بعض لوگوں کی زبان سے یہ نکل گیا کہ \&\& آج تو ممکن نہیں کہ ہم کسی سے مغلوب ہوجائیں \&\& چناچہ اول اول مسلمانوں کو فتح حاصل ہوئی تو مشرکوں میں بھگ دڑ مچ گئی اور مسلمان مال غنیمت حاصل کرنے میں لگ گئے معاً نصرت الٰہی نے مسلمانوں کا ساتھ چھوڑ دیا مشرکین موقع دیکھ کر پلٹ پڑے۔
خداوند قدوس کو مسلمانوں کی یہ بات ناپسند آئی کہ مسلمان خدا کی ذات پر بھروسہ کرنے کی بجائے اپنی
کثرت تعداد اور تیاری پر بھروسہ کریں چناچہ مسلمانوں کو اس کی سزا اس طرح ملی کہ جب قبیلہ ہوازن نے طے شدہ پروگرام کے مطابق یکبارگی ہلہ بولا اور گھا ٹیوں میں چھپے ہوئے دستوں نے چاروں طرف سے گھیرا ڈال دیا اور گرد و غبار نے دن کو رات بنادیا تو صحابہ کرام کے عام طور پر پیر اکھڑ گئے اور بھاگنے پر مجبور ہوگئے صرف نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی سواری پر سوار پیچھے ہٹنے کے بجائے آگے بڑھ رہے تھے، اور صرف چند صحابہ جمے رہے، وہ بھی یہ چاہتے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آگے نہ بڑھیں، حضرت عباس (رض) آپ کی سواری کی رکاب تھامے ہوئے تھے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ رہنے والوں میں حضرت ابوبکر حضرت عمر وعباس اور ابوسفیان بن حارث (رض) اجمعین، آپ کے چچا زاد بھائی حضرت علی، عبد اللہ بن مسعود مغیرہ (رض) میدان جنگ میں رہ گئے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تھے کہ اپنی صداقت پر مطمئن دشمن کی طرف بڑھے چلے جا رہے تھے اور بار بار پکار کر فرما رہے تھے، اَنا النَبِیَ لا کَذِب اَنا ابْن عَبد المطلب، میں عبد المطلب کا بیٹا ہوں اس میں ذرہ برابر جھوٹ نہیں الیَّ عباد اللہ انی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عباس (رض) کو حکم دیا کہ بآواز بلند صحابہ کو پکاریں آپ نے مہاجرین وانصار کو پکارا اور راہ فرار پر غیرت دلائی آخر کار مسلمانوں کو غیرت آئی دوبارہ سب نے جمع ہو کر بےجگری کے ساتھ مقابلہ شروع کیا، آسمان سے فرشتوں کی مدد نازل ہوئی مشرکوں کی فوج کے سپہ سالار نے اپنے اہل و عیال کو چھوڑ کر راہ فرار اختیار کی اور طائف کے قلعہ میں رو پوش ہوگیا، یہ صورت حال دیکھ کر دشمن کی فوج میں بھگڈر مچ گئی اس معرکہ میں دشمن کے ستر آدمی مارے گئے، بعض مسلمانوں کے ہاتھ سے کچھ بچے زخمی ہوگئے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سختی سے منع فرمایا، غرضیکہ دشمن کو بڑی ذلت آمیز شکست ہوئی جس میں چھ ہزار قیدی بنائے گئے ٢٤ ہزار اونٹ ٤٠ ہزار بکریاں اور چار ہزار اوقیہ چاندی ہاتھ آئی، اس معرکہ میں ١٢ مسلمان شہید ہوئے۔
وَاَنْزَلَ جُنُوْدًا لَّمْ تَرَوْھَا اس سے مراد عمومی رویت کی نفی ہے احادوافراد کی رویت اس کے منافی نہیں ہے اوپر کافروں کی دنیوی سزا کا ذکر تھا آئندہ آیت میں اخروی سزا کا بیان ہے۔
ہوازن اور ثقیف کے سرداروں کا مسلمان ہو کر حاضر ہونا اور قیدیوں کی رہائی : جیسا کہ سابق میں بیان کیا گیا ہے کہ قبیلہ ہوازن کے کچھ سردار تو مارے گئے تھے اور کچھ بھاگ کھڑے ہوئے تھے، ان کے جو اہل و عیال اور اموال تھے وہ مسلمانوں کے قیدی اور مال غنیمت کے طور پر مسلمانوں کے ہاتھ آئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابو سفیان بن حرب (رض) کو مال غنیمت کا نگران مقرر فرمایا۔
شکست خوردہ ہواز اور ثقیف نے مختلف مقامات پر مسلمانوں کے خلاف اجتماع کیا مگر ہر مقام پر شکست ہوئی، بےحد خوف زدہ اور مرعوب ہو کر طائف کے ایک مضبوط قلعہ میں بند ہوگئے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پندرہ بیس روز اس قلعہ کا محاصرہ کیا محصور دشمن قلعہ کے اندر ہی سے تیر برساتے تھے مگر سامنے آنے کی کسی کی ہمت نہیں ہوئی، صحابہ کرام (رض) نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ آپ ان کے لئے بدعاء فرما دیں مگر آپ نے بد دعا کے بجائے ان کے لئے ہدایت کی دعا فرمائی، صحابہ سے مشورہ کے بعد آپ نے واپسی کا قصد فرمایا، مسلمانوں کی فتح و کامرانی دیکھ کر وہ لوگ بھی جو تماشائی بن کر آئے تھے اور موقع سے فائدہ اٹھانے کے چکر میں تھے مسلمان ہوگئے۔
جعرانہ کے مقام پر مال غنیمت کی تقسیم کا انتظام کیا گیا، ابھی مال غنیمت تقسیم ہو ہی رہا تھا کہ اچانک قبیلہ ہوازن کے چودہ سرداروں کا ایک وفد زہیر بن صرد کی قیادت میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا ان میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رضاعی چچا ابو یرقان بھی تھے انہوں نے حاضر ہو کر عرض کیا کہ ہم مسلمان ہوچکے ہیں، اور یہ درخواست بھی کی ہمارے اہل و عیال اور اموال ہمیں واپس کر دئیے جائیں۔
آپ کے لئے دوہری مشکل : رحمة للعالمین کے لئے یہ موقع دوہری مشکل کا تھا، ایک طرف ان لوگوں پر رحم و کرم کا تقاضہ یہ تھا کہ ان کے سب قیدی رہا اور تمام اموال انہیں واپس کر دئیے جائیں، اور دوسری طرف یہ کہ اموال غنیمت میں مجاہدین کا حق ہوتا ہے ان سب کو ان کے حق سے محروم کردینا ازروئے انصاف درست نہیں اس لئے صحیح بخاری کی روایت کے مطابق آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے جواب میں فرمایا میرے ساتھ کس قدر مسلمانوں کا لشکر ہے جو ان اموال کا حقدار ہے، میں سچی اور صاف بات پسند کرتا ہوں اس لئے آپ لوگوں کو اختیار دے رہا ہوں کہ یا تو اپنے قیدی واپس لے لو یا مال غنیمت، ان دونوں میں سے جس کو تم اختیار کرو گے وہ تمہیں دے دیا جائے گا۔ سب نے قیدیوں کی واپسی کو پسند کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تمام صحابع کو جمع کر کے ایک خطبہ دیا جس میں حمد وثناء کے بعد فرمایا۔
یہ تمہارے بھائی تائب ہو کر آئے ہیں میں چاہ رہا ہوں کہ ان کے قیدی ان کو واپس دے دئیے جائیں تم میں سے جو لوگ خوش دلی کے ساتھ اپنا حصہ واپس دینے کے لئے تیار ہوں وہ احسان کریں اور جو اس کے لئے تیار نہ ہوں تو ہم ان کو آئندہ اموال فئی میں سے اس کا بدلہ دے دیں گے ہر طرف سے آواز آئی کہ ہم خوش دلی سے تیار ہیں۔ حقوق العباد کے معاملہ میں رائے عامہ معلوم کرنے کے لئے عوامی جلسوں کی آوازیں کافی نہیں ہر ایک سے علیحدہ علیحدہ رائے معلوم کرنا چاہیے، جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں کو قیدی آزاد کرنے کی ترغیب کی تو ہر طرف سے آواز آئی کہ ہم سب قیدی آزاد کرنے کے لئے تیار ہیں مگر عدل و انصاف اور حقوق کے معاملہ میں احتیاط کے پیش نظر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس طرح کی مختلف آوازوں کو کافی نہ سمجھا اور فرمایا کہ میں نہیں جانتا کہ کون لوگ اپنا حق چھوڑنے کے لئے خوش دلی سے تیار ہیں اور کون ایسے ہیں کہ شرما شرمی خاموش رہے، معاملہ حقوق العباد کا ہے اس لئے ایسا کیا جائے کہ ہر جماعت اور خاندان کے سردار اپنی اپنی جماعت کے لوگوں سے الگ الگ صحیح بات معلوم کر کے مجھے بتائیں، اس کے مطابق سرداروں نے ہر ایک سے الگ الگ اجازت حاصل کرنے کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بتلایا کہ سب لوگ خوش دلی سے اپنا حق چھوڑنے کے لئے تیار ہیں تب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ سب قیدی ان کو واپس کر دئیے۔
یہی لوگ ہیں جن کی توبہ کی طرف \&\& ثُمَّ یَتوب اللہ من بعد ذلک \&\& میں اشارہ فرمایا گیا ہے۔
احکام و مسائل : آیات مذکورہ میں سب سے بڑی ہدایت تو یہ دی گئی ہے کہ مسلمانوں کو کسی وقت بھی اپنے طاقت پر نازو غرور نہیں ہونا چاہیے نظر ہرحال میں اللہ کی نصرت پر رہنی چاہیے۔
غزوہ حنین میں مسلمانوں کی عددی کثرت اور سازو سامان حرب کے کافی ہونے کی وجہ سے بعض صحابہ کرام کی زبان پر جو بڑا بول آگیا تھا کہ آج تو کسی کی مجال نہیں کہ جو ہم سے بازی لے جاسکے اللہ کو اپنی اس محبوب جماعت کی زبان سے ایسے کلمات پسند نہ آئے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ابتدائی ہلہ کے وقت مسلمانوں کے پائوں اکھڑ گئے اور پشت پھیر کر بھاگنے لگے، پھر اللہ ہی کی غیبی مدد سے یہ میدان فتح ہوا۔
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے مومن بندوں پر اپنے احسان کا ذکر فرماتا ہے کہ اس نے بہت سی لڑائیوں اور جنگی معرکوں میں انہیں اپنی نصرت سے نوازا حتیٰ کہ ” حنین‘‘ کی جنگ میں جب کہ وہ انتہائی شدید صورت حال سے دوچار تھے، وہ دیکھ رہے تھے کہ لوگ ان کو چھوڑ کر فرار ہورہے ہیں اور زمین اپنی کشادگی اور وسعت کے باوجود ان پر تنگ ہورہی ہے۔ اس کی تفصیل یوں ہے کہ فتح مکہ کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خبر پہنچی کہ بنو ہوازن آپ پر حملہ کرنے کے لیے اکٹھے ہو رہے ہیں۔ چنانچہ آپ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور فتح مکہ کے بعد مسلمان ہونے والے قریش کو ساتھ لے کر مقابلے کے لیے نکلے اس وقت ان کی تعداد بارہ ہزار اور مشرکین کی تعداد چارہزار تھی۔ کچھ مسلمانوں نے اس کثرت تعداد پر اتراتے ہوئے کہا ” آج ہم پر کوئی غالب نہیں آسکے گا۔‘‘
جب بنو ہوازن اور مسلمانوں کی مڈبھیڑ ہوئی ہو انہوں نے مسلمانوں پر یک بارگی حملہ کیا جس سے مسلمانوں کے پاؤں اکھڑگئے اور شکست کھا کر بھا گ اٹھے اور انہوں نے پلٹ کر ایک دوسرے کی طرف نہ دیکھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ سو کے لگ بھگ آدمی رہ گئے تھے جو نہایت ثابت قدمی کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ڈٹے مشرکین سے لڑ رہے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے خچر کو ایڑ لگا کر مشرکین کی طرف پیش قدمی کررہے تھے اور فرما رہے تھے ((اَنَاالنَّبِيُّ لَاكَذِبَ اَنَاابْنُ عَبْدِالْمُطَّلِبِ)) ”میں نبی ہوں اس میں کوئی جھوٹ نہیں، میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں۔‘‘ جب آپ نے مسلمانوں کی یہ ہزیمت دیکھی تو آپ نے حضرت عباس بن عبدالمطلب کو، جو کہ بلند آواز شخص تھے حکم دیا کہ وہ انصار اور باقی مسلمانوں کو آواز دیں۔ چنانچہ انہوں نے پکار کر کہا :” اے اصحاب بیعت رضوان ! اے اصحاب سورۃ بقرہ“
جب بھاگنے والوں نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی آواز سنی تو وہ یک بارگی واپس پلٹے اور مشرکین پر ٹوٹ پڑے۔ اللہ تعالیٰ نے مشرکین کو زبردست شکست سے دوچار کیا۔ میدان جنگ مسلمانوں کے ہاتھ رہا۔ ان کے اموال اور عورتیں مسلمانوں کے قبضے میں آگئیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا“ ﴿ لَقَدْ نَصَرَكُمُ اللَّـهُ فِي مَوَاطِنَ كَثِيرَةٍ ۙ وَيَوْمَ حُنَيْنٍ﴾” یقیناً اللہ نے تمہاری مدد فرمائی بہت سی جگہوں میں اور حنین کے دن“ حنین، مکہ مکرمہ اور طائف کے درمیان وہ مقام ہے جہاں حنین کا معرکہ ہوا تھا ﴿إِذْ أَعْجَبَتْكُمْ كَثْرَتُكُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنكُمْ شَيْئًا﴾” جب تمہیں تمہاری کثرت نے گھمنڈ میں مبتلا کردیا پس اس نے تمہیں کچھ فائدہ نہیں دیا“ تمہاری کثرت نے تمہیں تھوڑا یا زیادہ کچھ بھی فائدہ نہ دیا۔ ﴿وَضَاقَتْ عَلَيْكُمُ الْأَرْضُ﴾ ” اور زمین تم پر تنگ ہوگئی۔“ یعنی جب تمہیں شکست ہوئی اور تم پر غم و ہموم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا اور تم پر زمین تنگ ہوگئی۔ ﴿بِمَا رَحُبَتْ﴾ ” اپنی کشادگی اور وسعت کے باوجود“ ﴿ثُمَّ وَلَّيْتُم مُّدْبِرِينَ﴾ ” پھر تم پیٹھ پھیر کر بھاگ نکلے۔ “
11 Mufti Taqi Usmani
haqeeqat yeh hai kay Allah taalaa ney tumhari boht say maqamaat per madad ki hai , aur ( khaas tor per ) hunain kay din jab tumhari tadaad ki kasrat ney tumhen magan kerdiya tha , magar woh kasrat-e-tadaad tumharay kuch kaam naa aai , aur zameen apni sari wasaton kay bawajood tum per tang hogaee , phir tum ney peeth dikha ker meydan say rukh morr liya .
12 Tafsir Ibn Kathir
نصرت الٰہی کا ذکر
مجاہد کہتے ہیں براۃ کی یہ پہلی آیت ہے جس میں اللہ تعالیٰ اپنے بہت بڑا احسان مومنوں پر ذکر فرما رہا ہے کہ اس نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھیوں کی آپ امداد فرمائی انہیں دشمنوں پر غالب کردیا اور ایک جگہ نہیں ہر جگہ اس کی مدد شامل حال رہی اسی وجہ سے فتح و ظفر نے کبھی ہم رکابی نہ چھوڑی۔ یہ صرف تائید ربانی تھی نہ کہ مال اسباب اور ہتھیار کی فراوانی اور نہ تعداد کی زیادتی۔ یاد کرلو حنین والے دن تمہیں ذرا اپنی تعداد کی کثرت پر ناز ہوگیا تو کیا حال ہوا ؟ پیٹھ دکھا کر بھاگ نکلے تھے۔ معدودے چند ہی اللہ کے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ٹھہرے اسی وقت اللہ کی مدد نازل ہوئی اس نے دلوں میں تسکین ڈال دی یہ اس لیے کہ تمہیں معلوم ہوجائے کہ مدد اسی اللہ کی طرف سے ہے اس کی مدد سے چھوٹی چھوٹی جماعتوں نے بڑے بڑے گروہوں کے منہ پھیر دیئے ہیں۔ اللہ کی امداد صبر کرنے والوں کے ساتھ ہوتی ہے۔ یہ واقعہ ہم عنقریب تفصیل وار بیان کریں، انشاء اللہ تعالیٰ ۔ مسند کی حدیث میں ہے بہترین ساتھی چار ہیں اور بہترین چھوٹا لشکر چار سو کا ہے اور بہترین بڑا لشکر چار ہزار کا ہے اور بارہ ہزار کی تعداد تو اپنی کمی کے باعث کبھی مغلوب نہیں ہوسکتی۔ یہ حدیث ابو داؤد اور ترمذی میں بھی ہے امام ترمذی (رح) اسے حسن غریب بتلاتے ہیں۔ یہ روایت سوائے ایک راوی کے باقی سب راویوں نے مرسل بیان کی ہے۔ ابن ماجہ اور بہیقی میں بھی یہ روایت اسی طرح مروی ہے۔ واللہ اعلم۔ سنہ\0\08ہجری میں فتح مکہ کے بعد ماہ شوال میں جنگ حقین ہوئی تھی۔ جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فتح مکہ سے فارغ ہوئے اور ابتدائی امور سب انجام دے چکے اور عموما مکی حضرات مسلمان ہوچکے اور انہیں آپ آزاد بھی کرچکے تو آپ کو خبر ملی کہ قبیلہ ہوازن جمع ہوا ہے اور آپ سے جنگ کرنے پر آمادہ ہے۔ ان کا سردار مالک بن عوف نصری ہے۔ ثقیف کا سارا قبیلہ ان کے ساتھ ہے اسی طرح بنو جشم بنو سعد بن بکر بھی ہیں اور بنو ہلال کے کچھ لوگ بھی ہیں اور کچھ لوگ بنو عمرو بن عامر کے اور عون بھی عامر کے بھی ہیں یہ سب لوگ مع اپنی عورتوں اور بچوں اور گھریلو مال کے میدان میں نکل کھڑے ہوئے ہیں۔ یہاں تک کے اپنی بکریوں اور اونٹوں کو بھی انہوں نے ساتھ ہی رکھا ہے تو آپ نے اس لشکر کو لے کر جو اب آپ کے ساتھ مہاجرین اور انصار وغیرہ کا تھا ان کے مقابلے کے لیے چلے تقریباً دو ہزار نو مسلم مکی بھی آپ کے ساتھ ہو لیے۔ مکہ اور طائف کے درمیان کی وادی میں دونوں لشکر مل گئے اس جگہ کا نام حنین تھا صبح سویرے منہ اندھیرے قبیلہ ہوازن جو کمین گاہ میں چپھے ہوئے تھے انہوں نے بیخبر ی میں مسلمانوں پر اچانک حملہ کردیا بےپنا تیر باری کرتے ہوئے آگے بڑھے اور تلواریں چلانی شروع کردیں یہاں مسلمانوں میں دفعتاً ابتری پھیل گی اور یہ منہ پھر کر بھاگ کھڑے ہوئے۔ لیکن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کی طرف بڑھے آپ اس وقت سفید خچر پر سوار تھے حضرت عباس (رض) آپ کے جانور کی دائیں جانب سے نکیل تھامے ہوئے تھے اور حضرت ابو سفیان بن حارث بن عبدالمطلب بائیں طرف سے نکیل پکڑے ہوئے تھے جانور کی تیزی کو یہ لوگ روک رہے تھے آپ با آواز بلند اپنے تئیں پہنچوا رہے تھے مسلمانوں کو واپسی کا حکم فرما رہے تھے اور ندا کرتے جاتے تھے کہ اللہ کے بندو کہاں چلے، میری طرف آؤ۔ میں اللہ کا سچا رسول ہوں میں نبی ہوں، جھوٹا نہیں ہوں۔ میں اولاد عبد المطلب میں سے ہوں۔ آپ کے ساتھ اس وقت صرف اسی یا سو کے قریب صحابہ (رض) رہ گئے تھے۔ حضرت ابو بکرصدیق (رض) حضرت عمر (رض) ، حضرت عباس (رض) ، حضرت علی (رض) ، حضرت فضل بن عباس (رض) ، حضرت ابو سفیان بن حارث (رض) حضرت ایمن بن ام ایمن، حضرت اسامہ بن زید وغیرہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ہی تھے پھر آپ نے اپنے چچا حضرت عباس کو بہت بلند آواز والے تھے حکم دیا کہ درخت کے نیچے بیعت کرنے والے میرے صحابیوں کو آواز دو کہ وہ نہ بھاگیں پس آپ نے یہ کہہ کر اے ببول کے درخت تلے بیعت کرنے والو اے سورة بقرہ کے حاملو پس یہ آواز ان کے کانوں میں پہنچنی تھی کہ انہوں نے ہر طرف سے لبیک لبیک کہنا شروع کیا اور آواز کی جانب لپک پڑے اور اسی وقت لوٹ کر آپ کے آس پاس آکر کھڑے ہوگئے یہاں تک کہ اگر کسی کا اونٹ اڑ گیا تو اس نے اپنی زرہ پہن لی اونٹ پر سے کود گیا اور پیدل سرکار نبوت میں حاضر ہوگیا جب کچھ جماعت آپ کے ارد گرد جمع ہوگئی آپ نے اللہ سے دعا مانگنی شروع کی کہ باری الٰہی جو وعدہ تیرا میرے ساتھ ہے اسے پورا فرما پھر آپ نے زمین سے مٹی کی ایک مٹھی بھرلی اور اسے کافروں کی طرف پھینکا جس سے ان کی آنکھوں اور ان کا منہ بھر گیا وہ لڑائی کے قابل نہ رہے۔ ادھر مسلمانوں نے ان پر دھاوا بول دیا ان کے قدم اکھڑ گئے بھاگ نکلے۔ مسلمانوں نے ان کا پیچھا کیا اور مسلمانوں کی باقی فوج حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس پہنچی اتنی دیر میں تو انہوں نے کفار کو قید کر کے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے ڈھیر کردیا مسند احمد میں ہے حضرت عبد الرحمن فہری جن کا نام یزید بن اسید ہے یا یزید بن انیس ہے اور کرز بھی کہا گیا ہے فرماتے ہیں کہ میں اس معرکے میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تھا دن سخت گرمی والا تھا دوپہر کو ہم درختوں کے سائے تلے ٹھہر گئے سورج ڈھلنے کے بعد میں نے اپنے ہتھیار لگا لیے اور اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خیمے پہنچا سلام کے بعد میں نے کہا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہوائیں ٹھنڈی ہوگئی ہیں آپ نے فرمایا ہاں ٹھیک ہے بلال اس وقت بلال ایک درخ کے سائے میں تھے حضور کی آواز سنتے ہی پرندے کی طرح گویا اڑ کر لبیک و سعد یک و انا فداوک کہتے ہوئے حاضر ہوئے۔ آپ نے فرمایا میری سواری تیار کرو اسی وقت انہوں نے زین نکالی جس کے دونوں پلے کھجور کی رسی کے تھے جس میں کوئی فخر و غرور کی چیز نہ تھی جب کس چکے تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سوار ہوئے ہم نے صف بندی کرلی شام اور رات اسی طرح گذری پھر دونوں لشکروں کی مڈ بھیڑ ہوگئی تو مسلمان بھاگ کھڑے ہوئے جیسے قرآن نے فرمایا ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آواز دی کہ اے اللہ کے بندو میں اللہ کا بندہ اور رسول ہوں اے مہاجرین میں اللہ کا بندہ اور رسول ہوں پھر اپنے گھوڑے سے اتر پڑے مٹی کی ایک مٹھی بھرلی اور یہ فرما کر ان کے چہرے بگڑ جائیں کافروں کی طرف پھینک دی اسی سے اللہ نے انہیں شکست دے دی۔ ان مشرکوں کا بیان ہے کہ ہم میں سے ایک بھی ایسا نہ تھا جس کی آنکھوں اور منہ میں یہ مٹی نہ آئی ہو اسی وقت ہمیں ایسا معلوم ہونے لگا کہ گویا زمین و آسمان کے درمیان لوہا کسی لوہے کی کے طشت پر بج رہا ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ بھاگے ہوئے مسلمان جب ایک سو آپ کے پاس واپس پہنچ گئے آپ نے اسی وقت حملہ کا حکم دیدیا اول تو منادی انصار کی تھی پھر خزرج ہی پر رہ گئی یہ قبیلہ لڑائی کے وقت بڑا ہی صابر تھا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی سواری پر سے میدان جنگ کا نظارہ دیکھا اور فرمایا اب لڑائی گرما گرمی سے ہو رہی ہے۔ اس میں ہے کہ اللہ نے جس کافر کو چاہا قتل کرا دیا جسے چاہا قید کرا دیا۔ اور ان کے مال اور اولادیں اپنے نبی کو فے میں دلا دیں۔ حضرت براء بن عازب (رض) سے کسی نے کہا اے ابو عمارہ کیا تم لوگ رسول اللہ علیہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس سے حنین والے دن بھاگ نکلے تھے ؟ آپ نے فرمایا لیکن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا قدم پیچھے نہ ہٹا تھا بات یہ ہے کہ قبیلہ ہوازن کے لوگ تیر اندازی کے فن کے استاد تھے اللہ کے فضل سے ہم نے انہیں پہلے ہی حملے میں شکست دے دی لیکن جب لوگ مال غنیمت پر جھک پڑے انہوں نے موقع دیکھ کر پھر جو پوری مہارت کے ساتھ تیروں کی بار برسائی تو یہاں بھگڈر مچ گئی۔ سبحان اللہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی کامل شجاعت اور پوری بہادری کا یہ موقع تھا۔ لشکر بھاگ نکلا ہے اس وقت آپ کسی تیز سواری پر نہیں جو بھاگنے دوڑنے میں کام آئے بلکہ خچر پر سوار ہیں اور مشرکوں کی طرف بڑھ رہے ہیں اور اپنے تئیں چھپاتے نہیں بلکہ اپنا نام اپنی زبان سے پکار پکار کر بتا رہے ہیں کہ نہ پہنچاننے والے بھی پہنچا لیں۔ خیال فرمائیے کہ کس قدر ذات واحد پر آپ کا توکل ہے اور کتنا کامل یقین ہے آپ کو اللہ کی مدد پر۔ جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ امر رسالت کو پورا کر کے ہی رہے گا اور آپ کے دین کو دنیا کے اور دینوں پر غالب کر کے ہی رہے گا فصلوات اللہ وسلامہ علیہ ابد ابدا۔ اب اللہ تعالیٰ اپنے نبی پر اور مسلمانوں کے اوپر سکینت نازل فرماتا ہے اور اپنے فرشتوں کا لشکر بھیجتا ہے جنہیں کوئی نہ دیکھتا تھا۔ ایک مشرک کا بیان ہے کہ حنین والے دن جب ہم مسلمانوں سے لڑنے لگے ایک بکری کا دودھ نکالا جائے اتنی دیر بھی ہم نے انہیں اپنے سامنے جمنے نہیں دیا فورا بھاگ کھڑے ہوئے اور ہم نے ان کا تعاقب شروع کیا یہاں تک کہ ہمیں ایک صاحب سفید خچر پر سوار نظر پڑے ہم نے دیکھا یہ کہ خوبصورت نورانی چہرے والے کچھ لوگ ان کے ارد گرد ہیں ان کی زبان سے نکلا کہ تمہارے چہرے بگڑ جائیں واپس لوٹ جاؤ بس یہ کہنا تھا کہ ہمیں شکست ہوگئی یہاں تک کہ مسلمان ہمارے کندھوں پر سوار ہوگئے حضرت ابن مسعود (رض) فرماتے ہیں میں بھی اس لشکر میں تھا آپ کے ساتھ صرف اسی مہاجر و انصار رہ گئے تھے ہم نے پیٹھ نہیں دکھائی تھی ہم پر اللہ نے اطمینان و سکون نازل فرما دیا تھا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے سفید خچر پر سوار دشمنوں کی طرف بڑھ رہے تھے جانور نے ٹھوکر کھائی آپ زین پر سے نیچے کی طرف جھک گئے میں نے آواز دی کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اونچے ہوجائیے اللہ آپ کو اونچا ہی رکھے آپ نے فرمایا ایک مٹھی مٹی کی تو بھر دو میں نے بھر دی آپ نے کافروں کی طرف پھینکی جس سے ان کی آنکھیں بھر گئیں پھر فرمایا مہاجر و انصار کہاں ہیں میں نے کہا یہیں ہیں فرمایا نہیں آواز دو میرا آواز دینا تھا کہ وہ تلواریں سونتے ہوئے لپک لپک کر آگئے اب تو مشرکین کی کچھ نہ چلی اور وہ بھاگ کھڑے ہوئے۔ بیہیقی کی ایک روایت میں ہے شیبہ بن عثمان کہتے ہیں کہ حنین کے دن جبکہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس حالت میں دیکھا کہ لشکر شکست کھا کر بھاگ کھڑا ہوا ہے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تنہا رہ گئے ہیں تو مجھے بدر والے دن اپنے باپ اور چچا کا مارا جانا یاد آیا کہ وہ حضرت علی (رض) اور حمزہ (رض) کے ہاتھوں مارے گئے ہیں، میں نے اپنے جی میں کہا کہ ان کے انتقام لینے کا اس سے اچھا موقعہ اور کون سا ملے گا ؟ آؤ پیغمبر کو قتل کر دوں اس ارادے سے میں آپ کی دائیں جانب سے بڑھا لیکن وہاں میں نے عباس بن عبدالمطلب کو پایا سفید چاندی جیسی زرہ پہنے مستعد کھڑے ہیں میں نے سوچا کہ یہ چچا ہیں اپنے بھتیجے کی پوری حمایت کریں گے چلو بائیں جانب سے جا کر اپنا کام کروں اور ادھر سے آیا تو دیکھا ابو سفیان بن حارث بن عبدالمطلب کھڑے ہیں میں نے کہا ان کے بھی چچا کے لڑکے بھائی ہیں اپنے بھائی کی ضرور حمایت کریں گے پھر میں رکاوٹ کاٹ کر پیھے کی طرف آیا آپ کے قریب پہنچ گیا اب یہی باقی رہ گیا تھا کہ تلوار سونت کر وار کر دوں کہ میں نے دیکھا ایک آگ کا کوڑا بجلی کی طرف چمک کر مجھ پر پڑا چاہتا ہے میں نے آنکھیں بند کرلیں اور پچھلے پاؤں پیچھے کی طرف ہٹا اسی وقت حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میری جانب التفات کیا اور فرمایا شیبہ میرے پاس آیا، اللہ اس کے شیطان کو دور کر دے۔ اب میں نے آنکھ کھول کر جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف دیکھا تو واللہ آپ مجھے میرے کانوں اور آنکھوں سے بھی زیادہ محبوب تھے آپ نے فرمایا شیبہ جا کافروں سے لڑ شیبہ کا بیان ہے کہ اس جنگ میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھیوں میں میں بھی تھا لیکن میں اسلام کی وجہ سے یا اسلام کی معرفت کی بناء پر نہیں نکلا تھا بلکہ میں نے کہا واہ یہ کیسے ہوسکتا ہے ؟ کہ ہوازن قریش پر غالب آجائیں ؟ میں آپ کے پاس ہی کھڑا ہوا تھا تو میں نے ابلق رنگ کے گھوڑے دیکھ کر کہا یا رسول اللہ میں تو ابلق رنگ کے گھوڑے دیکھ رہا ہوں آپ نے فرمایا شیبہ وہ تو سوا کافروں کے کسی کو نظر نہیں آتے۔ پھر آپ نے میرے سینے پر ہاتھ مار کر دعا کی یا اللہ شیبہ کو ہدایت کر پھر دوبارہ سہ بارہ یہی کیا اور یہی کہا واللہ آپ کا ہاتھ ہٹنے سے پہلے ہی ساری دنیا سے زیادہ آپ کی محبت میں اپنے دل میں پانے لگا۔ حضرت جبیر بن مطعم (رض) فرماتے ہیں میں اس غزوے میں آپ کے ہم رکاب تھا میں نے دیکھا کہ کوئی چیز آسمان سے اتری رہی ہے چیونٹیوں کی طرح اس نے میدان گھیر لیا اور اسی وقت مشرکوں کے قدم اکھڑ گئے واللہ ہمیں کوئی شک نہیں کہ وہ آسمانی مدد تھی۔ یزید بن عامر سوابی اپنے کفر کے زمانے میں جنگ حنین میں کافروں کے ساتھ تھا بعد میں یہ مسلمان ہوگئے تھے ان سے جب دریافت کیا جاتا کہ اس موقعہ پر تمہارے دلوں کا رعب و خوف سے کیا حال تھا ؟ تو وہ طشت میں کنکریاں رکھ کر بجا کر کہتے بس یہی آواز ہمیں ہمارے دل سے آرہی تھی بےطرح کلیجہ اچھل رہا تھا اور دل دہل رہا تھا۔ صحیح مسلم میں ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں مجھے رعب سے مدد دی گئی ہے۔ مجھے جامع کلمات دیئے گئے ہیں الغرض کفار کو اللہ نے یہ سزا دی اور یہ ان کے کفر کا بدلہ تھا۔ باقی ہوازن پر اللہ نے مہربانی فرمائی انہیں توبہ نصیب ہوئی مسلمان ہو کر خدمت مخدوم میں حاضر ہوئے اس وقت آپ فتح مندی کے ساتھ لوٹتے ہوئے مکہ شریف جعرانہ کے قریب پہنچ چکے تھے۔ جنگ کو بیس دن کے قریب گذر چکے تھے اس لئے آپ نے فرمایا کہ اب تم دو چیزوں میں سے ایک پسند کرلو یا تو قیدی یا مال ؟ انہوں نے قیدیوں کا واپس لینا پسند کیا ان قیدیوں کی چھوٹوں بڑوں کی مرد عورت کی بالغ نابالغ کی تعداد چھ ہزار تھی۔ آپ نے یہ سب انہیں لوٹا دیئے ان کا مال بطور غنیمت کے مسلمانوں میں تقسیم ہوا اور نو مسلم جو مکہ کے آزاد کردہ تھے انہیں بھی آپ نے اس مال میں سے دیا کہ ان کے دل اسلام کی طرف پورے مائل ہوجائیں ان میں سے ایک ایک کو سو سو اونٹ عطا فرمائے۔ مالک بن عوف نصری کو بھی آپ نے سو اونٹ دیئے اور اسی کو اس کی قوم کا سردار بنادیا جیسے کہ وہ تھا اسی کی تعریف میں اسی نے اپنے مشہور قصیدے میں کہا ہے کہ میں نے تو حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جیسا نہ کسی اور کو دیکھا نہ سنا۔ دینے میں اور بخشش و عطا کرنے میں اور قصوروں سے درگزر کرنے میں دنیا میں آپ کا ثانی نہیں آپ کل قیامت کے دن ہونے والے تمام امور سے مطلع فرماتے رہتے ہیں یہی نہیں شجاعت اور بہادری میں بھی آپ بےمثل ہیں میدان جنگ میں گرجتے ہوئے شیر کی طرح آپ دشمنوں کی طرف بڑھتے ہیں۔