سو آپ کو نہ (تو) ان کے اموال تعجب میں ڈالیں اور نہ ہی ان کی اولاد۔ بس اللہ تو یہ چاہتا ہے کہ انہیں انہی (چیزوں) کی وجہ سے دنیوی زندگی میں عذاب دے اور ان کی جانیں اس حال میں نکلیں کہ وہ کافر ہوں،
English Sahih:
So let not their wealth or their children impress you. Allah only intends to punish them through them in worldly life and that their souls should depart [at death] while they are disbelievers.
1 Abul A'ala Maududi
اِن کے مال و دولت اور ان کی کثرت اولاد کو دیکھ کر دھوکہ نہ کھاؤ، اللہ تو یہ چاہتا ہے کہ اِنہی چیزوں کے ذریعہ سے ان کو دنیا کی زندگی میں بھی مبتلائے عذاب کرے اور یہ جان بھی دیں تو انکار حق ہی کی حالت میں دیں
2 Ahmed Raza Khan
تو تمہیں ان کے مال اور ان کی اولاد کا تعجب نہ آئے، اللہ ہی چاہتا ہے کہ دنیا کی زندگی میں ان چیزوں سے ان پر وبال ڈالے اور اگر کفر ہی پر ان کا دم نکل جائے
3 Ahmed Ali
سو تو ان کے مال اور اولاد سے تعجب نہ کر الله یہی چاہتا ہے کہ ان چیزوں کی وجہ سے دنیا کی زندگی میں انہیں عذاب دے اور کفر کی حالت میں ان کی جانیں نکلیں
4 Ahsanul Bayan
پس آپ کو ان کے مال و اولاد تعجب میں نہ ڈال دیں (١) اللہ کی چاہت یہی ہے کہ اس سے انہیں دنیا کی زندگی میں ہی سزا دے (٢) اور ان کے کفر ہی کی حالت میں ان کی جانیں نکل جائیں (٣)۔
٥٥۔١ اس لئے یہ بطور آزمائش ہے، جس طرح فرمایا ' اور کئی طرح کے لوگوں کو جو ہم نے دنیا زندگی میں آرائش کی چیزوں سے بہرہ مند کیا ہے، تاکہ ان کی آزمائش کریں کہ ہم دنیا میں ان کو مال اور بیٹوں سے مدد دیتے ہیں (تو اس سے) ان کی بھلائی میں ہم جلدی کر رہے ہیں؟ (نہیں) بلکہ یہ سمجھتے نہیں ' ٥٥۔٢ امام ابن کثیر اور امام ابن جریر طبری نے اس سے زکٰو ۃ اور نفاق فی سبیل اللہ مراد لیا ہے۔ یعنی ان منافقین سے زکٰوۃ و صدقات تو (جو وہ مسلمان ظاہر کرنے کے لئے دیتے ہیں) دنیا میں قبول کر لئے جائیں تاکہ اسی طریقے سے ان کو مالی مار بھی دنیا میں دی جائے۔ ٥٥۔٣ تاہم ان کی موت کفر ہی کی حالت میں آئے گی۔ اس لئے کہ وہ اللہ کے پیغمبر کو صدق دل سے ماننے کے لئے تیار نہیں اور اپنے کفر و نفاق پر ہی بدستور قائم و مصر ہیں۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
تم ان کے مال اور اولاد سے تعجب نہ کرنا۔ خدا چاہتا ہے کہ ان چیزوں سے دنیا کی زندگی میں ان کو عذاب دے اور (جب) ان کی جان نکلے تو (اس وقت بھی) وہ کافر ہی ہوں
6 Muhammad Junagarhi
پس آپ کو ان کے مال واوﻻد تعجب میں نہ ڈال دیں۔ اللہ کی چاہت یہی ہے کہ اس سے انہیں دنیا کی زندگی میں ہی سزا دے اور ان کے کفر ہی کی حالت میں ان کی جانیں نکل جائیں
7 Muhammad Hussain Najafi
سو ان کے مال و اولاد تمہیں حیرت و تعجب میں نہ ڈالیں۔ (اللہ تو یہ چاہتا ہے کہ) ان کو یہ انہی چیزوں کے ذریعہ سے دنیاوی زندگی میں سزا دے۔ اور ان کی جانیں ایسی حالت میں نکلیں کہ وہ کافر ہوں۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
تمہیں ان کے اموال اور اولاد حیرت میں نہ ڈال دیں بس اللہ کاارادہ یہی ہے کہ ان ہی کے ذریعہ ان پر زندگانی دنیا میں عذاب کرے اور حالت هکفر ہی میں ان کی جان نکل جائے
9 Tafsir Jalalayn
تم ان کے مال اور اولاد سے تعجب نہ کرنا۔ خدا چاہتا ہے کہ ان چیزوں سے دنیا کی زندگی میں انکو عذاب دے۔ اور (جب) ان کی جان نکلے تو ( اس وقت بھی) وہ کافر ہی ہوں۔ فلا تعجبک اموالھم ولا اولادھم الخ اس مال و دولت کی محبت کی میں گرفتار ہو کر جو منافقانہ رویہ انہوں نے اپنایا ہے جیسا کہ جد بن قیس نے کہا تھا کہ جنگی خدمات سے مجھے معذور رکھئے اگر آپ چاہیں تو میں کچھ مالی مدد کے لئے حاضر ہوں، اس لئے ان آیتوں میں فرمایا کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں کی مال و دولت اور کثرت اولاد کو دیکھ کر تعجب میں نہ پڑیں، یہ مال و دولت خدا کی طرف سے ایک ڈھیل ہے کہ اللہ تعالیٰ ان ہی چیزوں کے ذریعہ جن کی کمائی کے لئے انہوں نے بڑی بڑی مشقتیں اور مصیبتیں اٹھائی ہیں ان پر دنیوی اور اخروی عذاب مسلط کرے گا، اس مال کی بدولت یہ لوگ ہمیشہ عذاب اور تکلیف ہی میں مبتلا رہیں گے کہ حاصل کرنے میں بھی تکلیف اٹھائی اور جب کوئی مالی نقصان ہوتا ہے تو وہ مالی نقصان کی مصیبت بھی ان کے لئے ناقابل برداشت ہوتی ہے۔ اس کیفیت کا ایک دلچسپ واقعہ : دلچسپ واقعہ یہ ہے جو حضرت عمر (رض) کی مجلس میں پیش آیا، قریش کے چند بڑے شیوخ جن میں سہیل بن عمرو اور حارث بن ہشام جیسے لوگ بھی تھے، حضرت عمر (رض) سے ملنے گئے وہاں یہ صورت پیش آئی کہ انصار اور مہاجرین میں کوئی معمولی آدمی بھی آتا تو حضرت عمر رضی تعالیٰ عنہ اسے اپنے پاس بٹھاتے اور ان شیوخ سے کہتے کہ اس کے لئے جگہ خالی کرو تھوڑی دیر میں نوبت یہاں تک پہنچی کہ یہ حضرات سرکتے سرکتے مجلس کے بالکل آخر میں پہنچ گئے، باہر نکل کر حارث بن ہشام نے کہا تم لوگوں نے دیکھا آج ہمارے ساتھ کیا سلوک ہوا ہے ؟ سہیل بن عمرو نے کہا اس میں عمر (رض) کا کچھ قصور نہیں قصور ہمارا ہے، جب ہمیں اس دین کی دعوت دی گئی تو ہم نے منہ موڑا اور یہ لوگ اس کی طرف دوڑ کر آئے پھر یہ دونوں صاحب حضرت عمر کے پاس گئے اور عرض کیا آج ہم نے آپ کا سلوک دیکھا اور ہم جانتے ہیں کہ یہ ہماری اپنی کوتاہیوں کا نتیجہ ہے مگر کیا اب اس کی تلافی کی کوئی صورت ہے، حضرت عمر نے زبان سے کچھ جواب نہ دیا اور صرف سرحد روم کی طرف اشارہ کردیا، مطلب یہ تھا کہ اب میدان جہاد میں جان ومال کھپائو تو شاید اس کی تلافی ہوجائے۔
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان منافقین کا مال اور اولاد آپ کو تعجب میں نہ ڈالے، کیونکہ یہ کوئی قابل رشک بات نہیں۔ مال اور اولاد کی ایک ” برکت“ ان پر یہ ہوئی کہ انہوں نے اس مال اور اولاد کو اپنے رب کی رضا پر ترجیح دی اور اس کی خاطر انہوں نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کا ارتکاب کیا، فرمایا : ﴿إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّـهُ لِيُعَذِّبَهُم بِهَا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا﴾ ” اللہ چاہتا ہے کہ ان چیزوں سے دنیا کی زندگی میں ان کو عذاب دے۔“ یہاں عذاب سے مراد وہ مشقت اور کوشش ہے جو اسے حاصل کرنے میں انہیں برداشت کرنی پڑتی ہے اور اس میں دل کی تنگی اور بدن کی مشقت ہے۔ اگر آپ اس مال کے اندر موجود ان کی لذات کا مقابلہ اس کی مشقتوں سے کریں تو ان لذتوں کی ان مشقتوں کے ساتھ کوئی نسبت ہی نہیں اور ان لذات نے چونکہ ان کو اللہ تعالیٰ کے ذکر سے غافل کردیا ہے اس لئے یہ ان کے لئے اس دنیا میں بھی وبال ہیں۔ ان کا سب سے بڑا وبال یہ ہے کہ ان کا دل انہی لذات میں مگن رہتا ہے اور ان کے ارادے ان لذات سے آگے نہیں بڑھتے، یہ لذات ان کی منتہائے مطلوب اور ان کی مرغوبات ہیں’ ان کے قلب میں آخرت کے لئے کوئی جگہ نہیں اور یہ چیز اس بات کی موجب ہے کہ یہ لوگ دنیا سے اس حالت میں جائیں ﴿وَتَزْهَقَ أَنفُسُهُمْ وَهُمْ كَافِرُونَ﴾ ” اور جب ان کی جان نکلے تو وہ کافر ہی ہوں۔ “ یعنی اس حالت میں ان کی جان نکلے کہ ان کا رویہ انکار حق ہو۔ تب اس عذاب سے بڑھ کر کون سا عذاب ہے جو دائمی بدبختی اور کبھی دور نہ ہونے والی حسرت کا موجب ہے؟
11 Mufti Taqi Usmani
tumhen inn kay maal aur aulad ( ki kasrat ) say taajjub nahi hona chahiye . Allah to yeh chahta hai kay inhi cheezon say inn ko dunyawi zindagi mein azab dey , aur inn ki jaan bhi kufr hi ki halat mein niklay .
12 Tafsir Ibn Kathir
کثرت مال و دولت عذاب بھی ہے ان کے مال و اولاد کو للچائی ہوئی نگاہوں سے نہ دیکھ۔ ان کی دنیا کی اس ہیرا پھیری کی کوئی حقیقت نہ گن یہ ان کے حق میں کوئی بھلی چیز نہیں یہ تو ان کے لئے دنیوی سزا بھی ہے کہ نہ اس میں سے زکوٰۃ نکلے نہ اللہ کے نام خیرات ہو۔ قتادہ کہتے ہیں یہاں مطلب مقدم موخر ہے یعنی تجھے ان کے مال و اولاد اچھے نہ لگنے چاہئیں اللہ کا ارادہ اس سے انہیں اس حیات دنیا میں ہی سزا دینے کا ہے پہلا قول حضرت حسن بصری کا ہے وہی اچھا اور قوی ہے امام ابن جریر بھی اسی کو پسند فرماتے ہیں۔ اس میں یہ ایسے پھنسے رہیں گے کہ مرتے دم تک راہ ہدایت نصیب نہیں ہوگی۔ یوں ہی بتدریج پکڑ لئے جائیں گے اور انہیں پتہ بھی نہ چلے گا یہی حشمت وجاہت مال و دولت جہنم کی آگ بن جائے گا۔