اور ان ہی میں سے بعض ایسے ہیں جو صدقات (کی تقسیم) میں آپ پر طعنہ زنی کرتے ہیں، پھر اگر انہیں ان (صدقات) میں سے کچھ دے دیا جائے تو وہ راضی ہو جائیں اور اگر انہیں اس میں سے کچھ نہ دیا جائے تو وہ فوراً خفا ہو جاتے ہیں،
English Sahih:
And among them are some who criticize you concerning the [distribution of] charities. If they are given from them, they approve; but if they are not given from them, at once they become angry.
1 Abul A'ala Maududi
اے نبیؐ، ان میں سے بعض لوگ صدقات کی تقسیم میں تم پر اعتراضات کرتے ہیں اگر اس مال میں سے انہیں کچھ دے دیا جائے تو خو ش ہو جائیں، اور نہ دیا جائے تو بگڑنے لگتے ہیں
2 Ahmed Raza Khan
اور ان میں کوئی وہ ہے کہ صدقے بانٹنے میں تم پر طعن کرتا ہے تو اگر ان میں سے کچھ ملے تو راضی ہوجائیں اور نہ ملے تو جبھی وہ ناراض ہیں،
3 Ahmed Ali
اور بعضے ان میں سے وہ ہیں جو خیرات مانگتے ہیں تجھے طعن دیتے ہیں سو اگر انہیں اس میں سے مل جائے تو راضی ہوتے ہیں اور اگر نہ ملے تو فوراً ناراض ہو جاتے ہیں
4 Ahsanul Bayan
ان میں وہ بھی ہیں جو خیراتی مال کی تقسیم کے بارے میں آپ پر عیب رکھتے ہیں (١) اگر انہیں اس میں مل جائے تو خوش ہیں اور اگر اس میں سے نہ ملا تو فوراً ہی بگڑ کھڑے ہوئے (٢)۔
٥٨۔١ یہ ان کی ایک اور بہت بڑی کوتاہی کا بیان ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اچھی صفات کو صلی اللہ علیہ وسلم کو (نعوذ باللہ) صدقات و غنائم کی تقسیم میں غیر منصف باور کراتے، جس طرح ابن ذی الخویصرہ کے بارے میں آتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ تقسیم فرما رہے تھے کہ اس نے کہا ' انصاف سے کام لیجئے ' آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، افسوس ہے تجھ پر، اگر میں ہی انصاف نہیں کروں گا تو پھر کون کرے گا؟ (صحیح بخاری)۔ ٥٨۔٢ گویا اس الزام تراشی کا مقصد محض مالی مفادات کا حصول تھا کہ اس طرح ان سے ڈرتے ہوئے انہیں زیادہ حصہ دیا جائے، یا وہ مستحق ہوں یا نہ ہوں، انہیں حصہ ضرور دیا جائے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور ان میں سے بعض اسے بھی ہیں کہ (تقسیم) صدقات میں تم پر طعنہ زنی کرتے ہیں۔ اگر ان کو اس میں سے (خاطر خواہ) مل جائے تو خوش رہیں اور اگر (اس قدر) نہ ملے تو جھٹ خفا ہو جائیں
6 Muhammad Junagarhi
ان میں وه بھی ہیں جو خیراتی مال کی تقسیم کے بارے میں آپ پر عیب رکھتے ہیں، اگر انہیں اس میں سے مل جائے تو خوش ہیں اور اگر اس میں سے نہ ملا تو فوراً بگڑ کھڑے ہوئے
7 Muhammad Hussain Najafi
اور (اے نبی) ان میں کچھ ایسے بھی ہیں جو صدقات (کی تقسیم) کے بارے میں آپ(ص) پر عیب لگاتے ہیں۔ پھر اگر اس سے کچھ (معقول مقدار) انہیں دے دی جائے تو راضی ہو جاتے ہیں اور اگر کچھ نہ دیا جائے تو وہ ایک دم ناراض ہو جاتے ہیں۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور ان ہی میں سے وہ بھی ہیں جو خیرات کے بارے میں الزام لگاتے ہیں کہ انہیں کچھ مل جائے تو راضی ہوجائیں گے اور نہ دیا جائے تو ناراض ہوجائیں گے
9 Tafsir Jalalayn
اور ان میں بعض ایسے بھی ہیں کہ (تقسیم) صدقات میں تم پر طعنہ زنی کرتے ہیں۔ اگر انکو اس میں سے (خاطر خواہ) مل جائے تو خوش رہیں اور اگر (اس قدر) نہ ملے تو جھٹ خفا ہوجائیں۔ ومنھم مَنْ یَلمِزُکَ فی الصدقات، اس آیت کے شان نزول کا واقعہ صحیح بخاری میں حضرت ابو سعید خدری کی روایت سے اس طرح بیان ہوا ہے کہ ایک مرتبہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کچھ مال لوگوں میں تقسیم فرما رہے تھے کہ بنی تمیم کا ایک شخص جس کا نام حرقوص تھا اور ذوالخویصرہ کے لقب سے مشہور تھا آپ کی خدمت میں آیا اور کہا تقسیم میں ذرا عدل و انصاف سے کام لیجئے، آپ نے فرمایا اگر میں ہی ناانصافی کروں گا تو انصاف کون کرے گا ؟ حضرت عمر (رض) نے عرض کیا اگر ارشاد ہو تو میں ابھی اس شخص کی گردن ماردوں آپ نے فرمایا جانے دو اس کی نسل سے واجب القتل لوگ پیدا ہوں گے چناچہ اسی شخص کی نسل سے خارجی لوگ پیدا ہوئے، اگرچہ بعض مفسرین نے اس آیت کے دیگر شان نزول بھی بیان کئے ہیں مگر اس کا مطلب یہ ہے کہ اس آیت کا مضمون دوسری آیتوں پر بھی صادق آتا ہے ورنہ صحیح شان نزول کا یہی واقعہ ہے جو صحیحین کی روایت میں موجود ہے۔ خارجی فرقہ کا تعارف اور اس کے عقائد : اس فرقہ کے وجود میں آنے کا واقعہ یہ ہے کہ حضرت عثمان (رض) کی شہادت کے دوسرے روز جب لوگوں نے حضرت علی (رض) کے ہاتھ پر بیعت کرلی تو اس زمانہ میں حضرت عائشہ صدیقہ حج کے ارادہ سے مکہ گئی ہوئی تھیں، مکہ سے واپسی کے وقت کچھ لوگوں نے حضرت عائشہ (رض) کو اس بات پر آمادہ کیا کہ حضرت علی کو قاتلان عثمان کا پتہ لگانے پر مجبور کریں اگر حضرت علی اس سے انکار کریں تو ان سے جنگ کی جائے، یہ حضرات حضرت عائشہ کو بصرہ لے گئے بصرہ میں حضرت عائشہ (رض) اللہ تعالیٰ عنہا کے ساتھ بہت سے لوگ جمع ہوگئے حضرت علی (رض) نے جب یہ خبر سنی تو وہ بھی فوج لے کر بصرہ کے ارادہ سے نکلے ٣٦ ھ میں حضرت علی اور حضرت عائشہ (رض) کی بڑی لڑائی ہوئی جو جنگ جمل کے نام سے مشہور ہے، اس لڑائی میں حضرت عائشہ چونکہ اونٹ پر سوار تھیں اور اونٹ کو عربی میں جمل کہتے ہیں اس لئے یہ جنگ، جنگ جمل کے نام سے مشہور ہوئی، یہ جنگ ایک اجتہادی غلطی کی وجہ سے برپا ہوئی تھی، اس میں حضرت علی کو فتح حاصل ہوئی، حضرت عائشہ کی شکست کا حال سن کر حضرت عثمان کے قاتلوں کا پتہ لگانے کا معاملہ حضرت امیر معاویہ نے دوبارہ شروع کیا حضرت امیر معاویہ جو کہ حضرت عثمان (رض) کے چچا زاد بھائی ہوتے تھے اس لئے انہوں نے اس مسئلہ کو اٹھانا اپنا حق سمجھا۔ جنگ صفین : ٣٧ ھ میں اسی مسئلہ پر حضرت امیر معاویہ اور حضرت علی (رض) کے درمیان ایک بڑی جنگ ہوئی جو جنگ صفین کے نام سے مشہور ہے صفین ملک عراق اور شام کے درمیان ایک مقام کا نام ہے یہ لڑائی تقریباً ایک ماہ چلی اگرچہ اس لڑائی میں پلڑا حضرت علی (رض) کا بھاری رہا لیکن حضرت عمرو بن العاص کے مشورہ سے صلح کے لئے پنچ مقرر ہوئے اس پنچایت کی صلح سے ناراض ہو کر ان الحکم الا اللہ کہتے ہوئے آٹھ ہزار آدمیوں کا ایک گروہ حضرت علی سے منحرف ہو کر ان کے لشکر سے جدا ہوگیا اسی فرقہ کو \&\& خارجی \&\& کہتے ہیں یہ لوگ حضرت علی (رض) اور ان کے متبعین کو اسلام سے خارج مانتے ہیں، اسی فرقہ کو \&\& حروریہ \&\& بھی کہتے ہیں، یہ مقام حرور کی جانب منسوب ہے، عبد الرحمن بن ملجم اسی فرقے سے تعلق رکھتا تھا جس نے موقع پا کر حضرت علی (رض) کو شہید کردیا تھا۔
10 Tafsir as-Saadi
یعنی ان منافقین میں ایسے لوگ بھی ہیں جو صدقات کی تقسیم میں آپ کی عیب جوئی اور اس بارے میں آپ پر تنقید کرتے ہیں اور ان کی تنقید اور نکتہ چینی کسی صحیح مقصد کی خاطر اور کسی راجح رائے کی بنا پر نہیں ہے بلکہ ان کا مقصد تو صرف یہ ہے کہ انہیں بھی کچھ عطا کیا جائے۔ ﴿ فَإِنْ أُعْطُوا مِنْهَا رَضُوا وَإِن لَّمْ يُعْطَوْا مِنْهَا إِذَا هُمْ يَسْخَطُونَ﴾ ” پس اگر اس میں سے ان کو دیا جائے تو راضی ہوجاتے ہیں اور اگر نہ دیا جائے ان کو تو جب ہی وہ ناخوش ہوجاتے ہیں۔“ حالانکہ بندے کے لئے مناسب نہیں کہ اس کی رضا اور ناراضی، دنیاوی خواہش نفس اور کسی فاسد غرض کے تابع ہو، بلکہ مناسب یہ ہے کہ اس کی خواہشات اپنے رب کی رضا کے تابع ہوں جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ((لا يؤمنُ أحدُكم حتّى يَكونَ هواهُ تبعًا لمّا جئتُ بِهِ)) ” تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کی خواہشات اس چیز کے تابع نہ ہوں جو میں لے کر آیا ہوں۔“ [شرح السنة، حديث: 104]
11 Mufti Taqi Usmani
aur inhi ( munafiqeen ) mein woh bhi hain jo sadqaat ( ki taqseem ) kay baaray mein aap ko taana detay hain . chunacheh agar unhen sadqaat mein say ( unn ki marzi kay mutabiq ) dey diya jaye to razi hojatay hain , aur agar unn mein say unhen naa diya jaye to zara si dair mein naraz hojatay hain .
12 Tafsir Ibn Kathir
مال ودولت کے حریص منافق بعض منافق آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر تہمت لگاتے کہ آپ مال زکوٰۃ صحیح تقسیم نہیں کرتے وغیرہ۔ اور اس سے ان کا ارادہ سوائے اپنے نفع کے حصول کے اور کچھ نہ تھا انہیں کچھ مل جائے تو راضی راضی ہیں۔ اگر اتفاق سے یہ رہ جائیں تو بس ان کے نتھنے پھولے جاتے ہیں۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مال زکوٰۃ جب ادھر ادھر تقسیم کردیا تو انصار میں سے کسی نے ہانک لگائی کہ یہ عدل نہیں اس پر یہ آیت اتری اور روایت میں ہے کہ ایک نو مسلم صحرائی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سونا چاندی بانٹتے ہوئے دیکھ کر کہنے لگا کہ گر اللہ نے تجھے عدل کا حکم دیا ہے تو تو عدل نہیں کرتا۔ آپ نے فرمایا تو تباہ ہو اگر میں بھی عادل نہیں تو زمین پر اور کون عادل ہوگا ؟ پھر آپ نے فرمایا اس سے اور اس جیسوں سے بچو میری امت میں ان جیسے لوگ ہوں گے قرآن پڑھیں گے لیکن حلق سے نیچے نہیں اترے گا، وہ جب نکلیں انہیں قتل کر ڈالو۔ پھر نکلیں تو مار ڈالو پھر جب ظاہر ہوں پھر گردنیں مارو۔ آپ فرماتے ہیں اللہ کی قسم نہ میں تمہیں دوں نہ تم سے روکوں میں تو ایک خازن ہوں۔ جنگ حنین کے مال غنیمت کی تقسیم کے وقت ذوالخویصرہ ہر قوص نامی ایک شخص نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اعتراض کیا تھا اور کہا تھا تو عدل نہیں کرتا انصاف سے کام کر آپ نے فرمایا اگر میں بھی عدل نہ کروں تو تو پھر تیری بربادی کہیں نہیں جاسکتی۔ جب اس نے پیٹھ پھیری تو آپ نے فرمایا اس کی نسل سے ایک قوم نکلے گی جن کی نمازوں کے مقابلے میں تمہاری نمازیں تمہیں حقیر معلوم ہونگی اور ان کے روزوں کے مقابلے میں تم میں سے ایک اور کو اپنے روزے حقیر معلوم ہوں گے لیکن وہ دین سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیر کمان سے تمہیں جہاں بھی مل جائیں ان کے قتل میں کمی نہ کرو آسمان تلے ان مقتولوں سے بدتر مقتول اور کوئی نہیں۔ پھر ارشاد ہے کہ انہیں رسول کے ہاتھوں جو کچھ بھی اللہ نے دلوادیا تھا اگر یہ اس پر قناعت کرتے صبر و شکر کرتے اور کہتے کہ اللہ ہمیں کافی ہے وہ اپنے فضل سے اپنے رسول کے ہاتھوں ہمیں اور بھی دلوائے گا۔ ہماری امیدیں ذات الہٰی سے ہی وابستہ ہیں تو یہ ان کے حق میں بہتر تھا۔ پس ان میں اللہ کی تعلیم ہے کہ اللہ تعالیٰ جو دے اس پر انسان کو صبر و شکر کرنا چاہئے۔ توکل ذات واحد پر رکھے، اسی کو کافی وافی سمجھے، رغبت اور توجہ، لالچ اور امید اور توقع اس کی ذات پاک سے رکھے۔ رسول کریم علیہ افضل الصلوۃ والتسلیم کی اطاعت میں سرمو فرق نہ کرے اور اللہ تعالیٰ سے توفیق طلب کرے کہ جو احکام ہوں انہیں بجالانے اور جو منع کام ہوں انہیں چھوڑ دینے اور جو خبریں ہوں انہیں مان لینے اور صحیح اطاعت کرنے میں وہ رہبری فرمائے۔