التوبہ آية ۸۱
فَرِحَ الْمُخَلَّفُوْنَ بِمَقْعَدِهِمْ خِلٰفَ رَسُوْلِ اللّٰهِ وَكَرِهُوْۤا اَنْ يُّجَاهِدُوْا بِاَمْوَالِهِمْ وَاَنْفُسِهِمْ فِىْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَقَالُوْا لَا تَنْفِرُوْا فِى الْحَـرِّۗ قُلْ نَارُ جَهَـنَّمَ اَشَدُّ حَرًّاۗ لَوْ كَانُوْا يَفْقَهُوْنَ
طاہر القادری:
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت کے باعث (جہاد سے) پیچھے رہ جانے والے (یہ منافق) اپنے بیٹھ رہنے پر خوش ہو رہے ہیں وہ اس بات کو ناپسند کرتے تھے کہ اپنے مالوں اور اپنی جانوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کریں اور کہتے تھے کہ اس گرمی میں نہ نکلو، فرما دیجئے: دوزخ کی آگ سب سے زیادہ گرم ہے، اگر وہ سمجھتے ہوتے (تو کیا ہی اچھا ہوتا،
English Sahih:
Those who remained behind rejoiced in their staying [at home] after [the departure of] the Messenger of Allah and disliked to strive with their wealth and their lives in the cause of Allah and said, "Do not go forth in the heat." Say, "The fire of Hell is more intense in heat" – if they would but understand.
1 Abul A'ala Maududi
جن لوگوں کو پیچھے رہ جانے کی اجازت دے دی گئی تھی وہ اللہ کے رسول کا ساتھ نہ دینے اور گھر بیٹھے رہنے پر خوش ہوئے اور انہیں گوارا نہ ہوا کہ اللہ کی راہ میں جان و مال سے جہاد کریں انہوں نے لوگوں سے کہا کہ "اس سخت گرمی میں نہ نکلو" ان سے کہو کہ جہنم کی آگ اس سے زیادہ گرم ہے، کاش انہیں اس کا شعور ہوتا
2 Ahmed Raza Khan
پیچھے رہ جانے والے اس پر خوش ہوئے کہ وہ رسول کے پیچھے بیٹھ رہے اور انہیں گوارا نہ ہوا کہ اپنے مال اور جان سے اللہ کی راہ میں لڑیں اور بولے اس گرمی میں نہ نکلو، تم فرماؤ جہنم کی آگ سب سے سخت گرم ہے، کسی طرح انہیں سمجھ ہو تی
3 Ahmed Ali
جو لوگ پیچھے رہ گئے وہ رسول الله کی مرضی کے خلاف بیٹھ رہنے سے خوش ہوتے ہیں اوراس بات کو ناپسند کیا کہ اپنے مالوں اور جانوں سے الله کی راہ میں جہاد کریں اور کہا گرمی میں مت نکلو کہہ دو کہ دوزخ کی آگ کہیں زیادہ گرم ہے کاش یہ سمجھ سکتے
4 Ahsanul Bayan
پیچھے رہ جانے والے لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جانے کے بعد اپنے بیٹھے رہنے پر خوش ہیں (١) انہوں نے اللہ کی راہ میں اپنے مال اور اپنی جانوں سے جہاد کرنا پسند رکھا اور انہوں نے کہہ دیا اس گرمی میں مت نکلو۔ کہہ دیجئے کہ دوزخ کی آگ بہت ہی سخت گرم ہے کاش کہ وہ سمجھتے ہوتے (٢)۔
٨١۔١ یہ منافقین کا ذکر ہے جو تبوک میں نہیں گئے اور جھو ٹے عذر پیش کر کے اجازت حاصل کرلی۔ خلاف کے معنی ہیں پیچھے یا مخالفت۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جانے کے بعد آپ کے پیچھے یا آپ کی مخالفت میں مدینہ میں بیٹھے رہے۔
٨١۔٢ یعنی اگر ان کو یہ علم ہوتا کہ جہنم کی آگ کی گرمی کے مقابلے میں، دنیا کی گرمی کوئی حیثیت نہیں رکھتی، تو وہ کبھی پیچھے نہ رہتے۔ حدیث میں آتا ہے کہ دنیا کی یہ آگ جہنم کی آگ کا ٧٠ واں حصہ ہے۔ یعنی جہنم کی آگ کی شدت دنیا کی آگ سے ٦٩ حصے زیادہ ہے (صحیح بخاری)
5 Fateh Muhammad Jalandhry
جو لوگ (غزوہٴ تبوک میں) پیچھے رہ گئے وہ پیغمبر خدا (کی مرضی) کے خلاف بیٹھے رہنے سے خوش ہوئے اور اس بات کو ناپسند کیا کہ خدا کی راہ میں اپنے مال اور جان سے جہاد کریں۔ اور (اوروں سے بھی) کہنے لگے کہ گرمی میں مت نکلنا۔ (ان سے) کہہ دو کہ دوزخ کی آگ اس سے کہیں زیادہ گرم ہے۔ کاش یہ (اس بات) کو سمجھتے
6 Muhammad Junagarhi
پیچھے ره جانے والے لوگ رسول اللہ ﴿صلی اللہ علیہ وسلم﴾ کے جانے کے بعد اپنے بیٹھے رہنے پر خوش ہیں انہوں نے اللہ کی راه میں اپنے مال اور اپنی جانوں سے جہاد کرنا ناپسند رکھا اور انہوں نے کہہ دیا کہ اس گرمی میں مت نکلو۔ کہہ دیجئے کہ دوزخ کی آگ بہت ہی سخت گرم ہے، کاش کہ وه سمجھتے ہوتے
7 Muhammad Hussain Najafi
جو (منافق جنگ تبوک میں) پیچھے چھوڑ دیے گئے وہ رسولِ خدا(ص) کے پیچھے (ان کی خواہش کے خلاف) اپنے گھروں میں بیٹھے رہنے پر خوش ہوئے اور خدا کی راہ میں اپنے مال و جان سے جہاد کرنے کو ناپسند کیا۔ اور (دوسروں سے بھی) کہا کہ گرمی میں سفر نہ کرو۔ کہہ دیجیے! کہ دوزخ کی آگ (اس سے) زیادہ گرم ہے کاش وہ یہ بات سمجھتے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
جو لوگ جنگ تبوک میں نہیں گئے وہ رسول اللہ کے پیچھے بیٹھے رہ جانے پر خوش ہیں اور انہیں اپنے جان و مال سے راسِ خدامیں جہاد ناگوار معلوم ہوتا ہے اور یہ کہتے ہیں کہ تم لوگ گرمی میں نہ نکلو ...._ تو پیغمبر آپ کہہ دیجئے کہ آتش جہنّم اس سے زیادہ گرم ہے اگر یہ لوگ کچھ سمجھنے والے ہیں
9 Tafsir Jalalayn
جو لوگ (غزوہ تبوک میں) پیچھے رہ گئے وہ پیغمبر خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (کی مرضی) کے خلاف بیٹھ رہنے سے خوش ہوئے اور اس بات کو ناپسند کیا کہ (خدا کی راہ میں) اپنے مال اور جان سے جہاد کریں۔ اور (اوروں سے بھی) کہنے لگے کہ گرمی میں مت نکلنا (ان سے) کہہ دو کہ دوزخ کی آگ اس سے کہیں زیادہ گرم ہے۔ کاش یہ (اس بات کو) سمجھتے۔
آیت نمبر ٨١ تا ٨٩
ترجمہ : غزوہ تبوک سے پیچھے چھوڑے گئے لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے (نکلنے) کے بعد اپنے (گھروں) میں بیٹھ رہنے پر خوش ہوئے، اور انہیں یہ بات ناگوار گذری کہ وہ اپنی جان ومال سے اللہ کے راستہ میں جہاد کریں، اور انہوں نے آپس میں ایک دوسرے سے کہا گرمی میں جہاد کے لئے نہ نکلو آپ ان سے کہہ دیجئے کہ جہنم کی آگ تبوک کی گرمی سے زیادہ سخت ہے لہٰذا بہتر ہے کہ تم ترک تخلف کر کے اس آگ سے بچو، اگر وہ اس حقیقت کو سمجھتے (تو غزوہ میں شرکت سے) پیچھے نہ رہتے، تھوڑے دنوں دنیا میں ہنس لیں آخرت میں بہت روئیں گے اور یہ رونا ان کے اعمال کی بدولت ہوگا یہ (خبر) بصیغہ امران کی حالت کی خبر ہے پس اگر اللہ آپ کو تبوک سے ان منافقوں کے درمیان جو مدینہ میں پیچھے رہ گئے تھے (بخیر) واپس لائے اور ان میں سے کوئی کسی دوسرے غزوہ میں آپ کے ساتھ شرکت کی اجازت طلب کرے تو آپ ان سے کہہ دیجئے کہ تم میرے ساتھ ہرگز کبھی بھی نہیں نکل سکتے اور نہ میری معیت میں کسی دشمن سے کبھی ہرگز لڑ سکے ہو تم نے پہلی مرتبہ بیٹھ رہنے کو پسند کیا تو اب پیچھے رہنے والی عورتوں بچوں وغیرہ ہی کے ساتھ بیٹھ رہو اور جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے (عبد اللہ) بن ابی پر نماز جنازہ پڑھی چاہی تو یہ آیت نازل ہوئی، اور آئندہ ان میں سے کوئی مرے تو اس کی نماز جنازہ تم ہرگز نہ پڑھنا اور دفن یا زیارت کے لئے اس کی قبر پر بھی مت کھڑے ہونا ان لوگوں نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کیا ہے اور حال کفر ہی میں مرے ہیں، اور ان کے مال اور اولاد (کی کثرت) آپ کو تعجب میں نہ ڈالے اللہ ارادہ کرچکا ہے کہ ان کو (اس مال والاد) کے ذریعہ ہی دنیا میں عذاب دے اور ان کی جانیں اس حال میں نکلیں کہ وہ کافر ہوں، اور جب کبھی قرآن کا کوئی حصہ اس مضمون کا نازل ہوا کہ اللہ پر ایمان لائو اور اس کے رسول کے ساتھ جہاد کرو تو آپ نے دیکھا کہ ان میں سے جو مقدرت والے تھے وہی آپ سے (غزوہ) میں شریک نہ ہونے کی اجازت طلب کرنے لگے کہ انہیں جہاد کی شرکت سے معاف رکھا جائے ان لوگوں نے گھر بیٹھنے والیوں میں شامل رہنا پسند کی، خوالف، خالفة کی جمع ہے یعنی وہ عورتیں جو گھروں میں بیٹھ رہیں، اور ان کے قلوب پر ٹھپہ لگا دیا گیا ہے جس کی وجہ سے وہ خیر کی بات کو نہیں سمجھتے اس کے برخلاف رسول نے اور ان لوگوں نے جو آپ کے ساتھ ایمان لائے اور اپنی جان ومال سے جہاد کیا دنیا اور آخرت میں ساری بھلائیاں ان ہی کیلئے ہیں اور وہی فلاح پانے والے ہیں اللہ نے ان کیلئے ایسے باغ تیار کر رکھے ہیں جن میں نہریں بہہ رہی ہیں ان میں وہ ہمیشہ رہیں گے یہ عظیم الشان کامیابی۔
تحقیق و ترکیب وتسہیل وتفسیری فوائد
قولہ : اَلْمُخَلَّفُوْنَ (تفعیل) اسم مفعول جمع مذکر غائب، پیچھے چھوڑے ہوئے لوگ، تخلیف کسی کو پیچھے کردینا، پیچھے چھوڑ دینا، یہاں وہ بارہ آدمی مراد ہیں جو غزوہ تبوک میں اپنی کسلمندی اور نفاق کی وجہ سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہمراہ نہیں گئے تھے۔
قولہ : خِلٰفَ رسولِ اللہ ای خلْفَہ، خلٰفَ یا تو مفعول لہ ہونے کی وجہ سے منصوب ہے ای قَعَدُوا لمخالفتہ یا حال ہونے کی وجہ سے منصوب ہے ای مخالفین لہ، اور فعل مقدر کی وجہ سے بھی منصوب ہوسکتا ہے ای تخلَّفوا خلافَ رسول اللہ اور یہ بھی جائز ہے کہ ظرفیت کی وجہ سے منصوب ہو ای بعد رسول اللہ علامہ سیوطی (رح) تعالیٰ نے اسی ترکیب کو اختیار کیا ہے۔
قولہ : بقعودھم اس سے اشارہ کردیا کہ مقعد مصدر میمی ہے نہ کہ ظرف۔
قولہ : وکَرِھوا ان یجاھِدُوا کا عطف فَرِحَ اِلمخلفونَ پر ہے اور اَنْ یُجاھدوا، کرِھوا کا مفعول ہے۔
قولہ : ما تخلَّفوا یہ لَوْ کا جواب ہے جو کہ محذوف ہے۔
قولہ : خبر عن حالھم، یہ اس سوال کا جواب ہے کہ اللہ تعالیٰ ضحک (ہنسنے) کا حکم نہیں فرماتے حالانکہ یہاں فلیضحکوا امر کا صیغہ استعمال ہوا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ضحک (ہنسنے) کا حکم فرمایا۔
جواب : جواب یہ ہے کہ امر بمعنی خبر ہے، یعنی ان کی حالت کی خبر دینا مقصود ہے نہ کہ ضحک کا حکم کرنا۔
قولہ : طائفة من القران یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہاں سورت سے پوری سورت مراد نہیں ہے بلکہ قرآن کا ایک حصہ
مراد ہے اس میں پوری اور اس سے کم دونوں داخل ہیں۔
تفسیر وتشریح
ربط آیات : فَرِحَ الْمخلَّفُوْنَ ، اوپر سے منافقوں کے حالات کے بیان کا سلسلہ چل رہا ہے، یہاں بھی ان منافقوں کی مذمت بیان کی جاری ہے جو غزوہ تبوک میں نفیر عام ہونے کے باوجود اپنے نفاق اور کسل مندی کی وجہ سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہمراہ شریک غزوہ نہیں ہوئے تھے اور جھوٹے اعذار بیان کر کے شریک غزوہ نہ ہونے کی اجازت چاہی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو اجازت بھی دے دی، یہاں ان کو یہ وعید بھی سنائی جا رہی ہے کہ ان کا نام مجاہدین کی فہرست سے کاٹ دیا گیا ہے اب آئندہ بھی کسی غزوہ میں شریک نہ ہو سکیں گے۔
خِلاَفَ رَسولِ اللہ، لفظ \&\& خلاف \&\& کے معنی یہاں پیچھے اور بعد کے بھی ہوسکتے ہیں، علامہ سیوطی (رح) تعالیٰ نے یہی معنی لئے ہیں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جہاد پر چلے جانے کے بعد آپ سے پیچھے رہ جانے پر خوش ہو رہے ہیں یہ در حقیقت خوشی کی بات نہیں۔
دوسرے معنی یہاں خلاف کے مخالفت کے بھی ہوسکتے ہیں کہ یہ لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت کر کے گھر میں بیٹھے رہے اور صرف خود ہی نہیں بیٹھے بلکہ دوسروں کو بھی \&\& لا تنفروا فی الحر \&\& کہہ کر پست ہمت کر کے روکنے کی کوشش کی، غزوہ تبوک نہایت شدید گرمی کے زمانہ میں ہوا تھا، حق تعالیٰ نے ان کی بات کا جواب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی معرفت یہ دیا کہ \&\& قُلْ نار جھنم اشَدُّ حرًّا \&\& یعنی یہ بدنصیب اس وقت کی گرمی کو تو دیکھ رہے ہیں اور اس سے بچنے کی فکر کر رہے ہیں مگر آخرت میں نار جہنم کی ابدالآباد کی گرمی کو اپنے اوپر لازم کر رہے ہیں اعذار باردہ بیان کر کے مدینہ میں بیٹھ رہنے پر یہ خوشیاں منا رہے ہیں حالانکہ یہ موقع خوشی منانے اور ہنسنے کا نہیں ہے بلکہ خون کا آنسو رونے کا ہے اپنے مصنوعی اور جھوٹے اعذار کے ذریعہ چند روز کی گرمی سے اگر بچ بھی گئے تو ہمیشہ ہمیش کی گرمی اپنے اوپر لازم کرلی، دنیا کی گرمی کی نار جہنم کی گرمی کے مقابلہ میں کوئی حقیقت نہیں ہے دنیا کی آگ بھی دوزخ کی آگ سے پناہ مانگتی ہے۔
غزوہ تبوک میں جو لوگ شریک نہیں ہوئے تھے ان میں سب ہی منافق نہیں تھے بعض حقیقی عذر کی وجہ سے اور بعض آجکل امروز وفردا کرتے کرتے شریک نہیں ہو سکے، اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے واپس آنے کے بعد ان کے اعذار کو قبول بھی فرما لیا تھا اور بعضوں کو کچھ دنوں کی مہلت بھی ملی تھی اور اللہ تعالیٰ نے بھی ان کی توبہ قبول فرما لی تھی جس کا ذکر آئندہ آئے گا۔
فاِن رَّجَعَک اللہ الی طائفة منھم سے معلوم ہوتا ہے کہ منافقوں کی ایک چھوٹی سی جماعت تھی تفسیر ابن ابی حاتم میں قتادہ (رض) کا قول ہے کہ ان منافقوں کی تعداد صرف بارہ تھی جن کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی ہے صحیح بخاری میں انس بن مالک اور صحیح مسلم میں جابر بن عبد اللہ سے جو روایتیں ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ تبوک کے سفر سے واپسی کے وقت آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ فرمایا کہ بعضے لوگوں نے گھر بیٹھے وہی ثواب حاصل کیا جو اور لوگوں نے سفر کر کے پایا، صحابہ نے عرض کیا کہ حضرت یہ کیونکر ؟ آپ نے فرمایا کہ وہ لوگ مجبوری کے سبب سے مدینہ میں رہ گئے تھے ورنہ وہ اس سفر میں ضرور شریک ہوتے ان حدیثوں سے اس بات کی پوری تائید ہوتی ہے کہ جو لوگ تبوک میں شریک نہیں ہوئے وہ سب منافق نہیں تھے۔
وَلا تصلّ علی احدٍ منھم مات الخ احادیث صحیحہ سے یہ بات ثابت ہے کہ یہ آیت عبد اللہ بن ابی سلول کی موت اور اس پر نماز جنازہ پڑھنے کے متعلق نازل ہوئی، اور صحیحین کی روایت سے یہ بات بھی ثابت ہے کہ آپ نے عبد اللہ بن ابی کی نماز جنازہ پڑھی، پڑھنے کے بعد یہ آیت نازل ہوئی، اس کے بعد آپ نے کسی منافق کی نماز جنازہ نہیں پڑھی، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عبد اللہ بن ابی ابن سلول کے جنازہ کی نماز پڑھنے اور اپنا پیراہن مبارک اس کے کفن میں شامل کرنے نیز حضرت عمر (رض) کے بہ اصرار منع کرنے کی تفصیل سابق میں گذر چکی ہے۔
واقعہ مذکورہ سے متعلق چند سوالات اور ان کے جوابات :
پہلا سوال : عبد اللہ بن ابی ایک ایسا منافق تھا کہ جس کا نفاق جگ ظاہر تھا صرف یہی نہیں بلکہ منافقوں کا سردار مانا جاتا تھا، اس کے ساتھ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ امتیازی سلوک کس بنا پر ہوا ؟ کہ اس کے کفن کے لئے اپنا قمیص مبارک بھی عطا فرما دیا !
جواب : اس کے دو سبب ہوسکتے ہیں اول اس کے صاحبزادے جو کہ مخلص صحابی اور بدریین میں سے تھے محض ان کی دلجوئی کے لئے ایسا کیا، دوسرا سبب ایک اور بھی ہوسکتا ہے جو بخاری شریف میں بروایت حضرت جابر منقول ہے کہ غزوہ بدر کے موقع پر جب کچھ قریشی سردار گرفتار ہو کر آئے تھے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چچا عباس بھی ان میں تھے آپ نے دیکھا کہ ان کے بدن پر کرتہ نہیں ہے تو صحابہ سے ارشاد فرمایا کہ انہیں قمیص پہنا دیا جائے حضرت چونکہ دراز قد تھے عبد اللہ بن ابی کے سوا کسی کا کرتہ ان کے بدن پر درست نہ آیا تو عبد اللہ بن ابی کا کرتہ لے کر آپ نے اپنے چچا کو پہنا دیا، اس کے اسی احسان کا بدلہ ادا کرنے کے لئے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنا کرتہ اس کو عطا فرما دیا۔
دوسرا سوال : یہ کہ جب حضرت عمر (رض) نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو منافق کی نماز جنازہ پڑھنے سے منع فرمایا ہے یہ کس بنا پر کہا ؟ کیونکہ اس سے پہلے صراحت کے ساتھ آپ کو منافق کی نماز پڑھنے سے منع نہیں کیا گیا، بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ عمر بن خطاب (رض) نے اسی سورت کی سابقہ آیت استغفرلھم اولا تستغفرلھم سے ممانعت کا مضمون سمجھا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے کیوں نہ ممانعت قرار دی، بلکہ آپ نے یہ فرمایا کہ اس آیت میں مجھے اختیار دیا گیا ہے۔
جواب : یہ ہے کہ درحقیقت الفاظ آیت کا ظاہری مفہوم اختیار ہی دینا ہے اور یہ بھی ظاہر ہے کہ ستر کا ذکر تحدید کے لئے نہیں ہے بلکہ کثرت بیان کرنے کے لئے ہے، تو اس کا ظاہری مفہوم یہ ہوگا کہ منافق کی مغفرت تو نہ ہوگی خواہ آپ کتنی ہی مرتبہ استغفار کرلیں لیکن اس میں صراحت کے ساتھ آپ کو استغفار سے روکا نہیں گیا۔
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک و تعالیٰ منافقین کا ان کے پیچھے رہ جانے پر تکبر اور فرحت کا اظہار کرنے اور اس پر ان کی لاپروائی کو بیان کرتا ہے، جو ان کے عدم ایمان اور اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ وہ ایمان پر کفر کو ترجیح دیتے ہیں۔ چنانچہ فرمایا : ﴿فَرِحَ الْمُخَلَّفُونَ بِمَقْعَدِهِمْ خِلَافَ رَسُولِ اللَّـهِ ﴾ ” خوش ہوگئے پیچھے رہنے والے اپنے بیٹھ رہنے سے، رسول اللہ سے جدا ہو کر“ یہ خوش ہونا، پیچھے رہ جانے پر ایک قدر زائد ہے،کیونکہ جہاد سے جی چرا کر پیچھے بیٹھ رہنا حرام ہے اور اس پر مستزادیہ ہے کہ وہ معصیت کے اس فعل پر خوشی اور فخر محسوس کرتے ہیں۔ ﴿وَكَرِهُوا أَن يُجَاهِدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ ﴾ ” اور وہ گھبرائے اس بات سے کہ لڑیں اپنے مالوں اور جانوں سے، اللہ کی راہ میں“ اور اہل ایمان کا معاملہ اس کے برعکس ہے، وہ اگر پیچھے رہ جائیں۔۔۔ خواہ اس کا سبب کوئی عذر ہی کیوں نہ ہو۔۔۔ تو اپنے پیچھے رہ جانے پر سخت غمگین ہوتے ہیں، وہ اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ وہ اپنی جان اور مال کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کریں، کیونکہ ان کے دلوں میں ایمان موجزن ہے، وہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور اس کے احسان کی امید رکھتے ہیں۔
﴿وَقَالُوا ﴾ یعنی منافقین کہتے ہیں : ﴿لَا تَنفِرُوا فِي الْحَرِّ ﴾ ” نہ کوچ کرو گرمی میں“ یعنی وہ کہتے ہیں گرمی کے موسم میں جہاد کے لئے باہر نکلنا ہمارے لئے مشقت کا باعث ہے۔ پس انہوں نے مختصر سی عارضی راحت کو ہمیشہ رہنے والی کامل راحت پر ترجیح دی۔ وہ اس گرمی سے گھبرا گئے جس سے سایہ میں بیٹھ کر بچا سکتا ہے جس کی شدت صبح و شام کے اوقات میں کم ہوجاتی ہے اور اس شدید ترین گرمی کو اختیار کرلیا جس کی شدت کو کوئی شخص برداشت کرنے کی قدرت نہیں رکھتا اور وہ ہے جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ قُلْ نَارُ جَهَنَّمَ أَشَدُّ حَرًّا ۚ لَّوْ كَانُوا يَفْقَهُونَ ﴾ ” کہہ دیجیے ! جہنم کی آگ، کہیں زیادہ سخت گرم ہے، اگر وہ سمجھتے“ کیونکہ انہوں نے فانی چیز کو ہمیشہ باقی رہنے والی چیز پر ترجیح دی اور انہوں نے نہایت ہی خفیف اور ختم ہوجانے والی مشقت سے فرار ہو کر دائمی مشقت کو اختیار کرلیا۔
11 Mufti Taqi Usmani
jinn logon ko ( ghazwa tabook say ) peechay rehney diya gaya tha , woh Rasool Allah kay janey kay baad apney ( gharon mein ) bethay rehney say baray khush huye , aur unn ko yeh baat nagawar thi kay woh Allah kay raastay mein apney maal o jaan say jihad keren , aur unhon ney kaha tha kay : iss garmi mein naa niklo ! kaho kay : jahannum ki aag garmi mein kahen ziyada sakht hai ! kaash ! inn ko samajh hoti !
12 Tafsir Ibn Kathir
جہنم کی آگ کالی ہے
جو لوگ غزوہ تبوک میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ نہیں گئے تھے اور گھروں میں ہی بیٹھنے پر اکڑ رہے تھے۔ جنہیں راہ اللہ میں مال و جان سے جہاد کرنا مشکل معلوم ہوتا تھا جنہوں نے ایک دوسرے کے کان بھرے تھے کہ اس گرمی میں کہاں نکلو گے ؟ ایک طرف پھر پکے ہوئے ہیں سائے بڑھے ہوئے ہیں دوسری جانب لو کے تھپیڑے چل رہے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ ان سے فرماتا ہے کہ جہنم کی آگ جس کی طرف تم اپنی اس بد کرداری سے جا رہے ہو وہ اس گرمی سے زیادہ بڑھی ہوئی حرارت اپنے اندر رکھتی ہے۔ یہ آگ تو اس آگ کا سترواں حصہ ہے جیسے کہ بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے اور روایت میں ہے کہ تمہاری یہ آگ آتش دوزخ کے ستر اجزاء میں سے ایک جز ہے پھر بھی یہ سمندر کے پانی میں دو دفعہ بجھائی ہوئی ہے ورنہ تم اس سے کوئی فائدہ حاصل نہ کرسکتے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں ایک ہزار سال تک آتش دوزخ دھونکی گئی تو سرخ ہوگئی پھر ایک ہزار سال تک جلائی گئی تو سفید ہوگئی پھر ایک ہزار سال تک دھونکی گئی تو سیاہ ہوگئی پس وہ اندھیری رات جیسی سخت سیاہ ہے۔ ایک بار آپ نے ( يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا قُوْٓا اَنْفُسَكُمْ وَاَهْلِيْكُمْ نَارًا وَّقُوْدُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ عَلَيْهَا مَلٰۗىِٕكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا يَعْصُوْنَ اللّٰهَ مَآ اَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُوْنَ مَا يُؤْمَرُوْنَ ) 66 ۔ التحریم :6) کی تلاوت کی اور فرمایا ایک ہزار سال تک جلائے جانے سے وہ سفید پڑگئی پھر ایک ہزار سال تک بھڑکانے سے سرخ ہوگئی پھر ایک ہزار سال تک دھونکے جانے سے سیاہ ہوگئی پس وہ سیاہ رات جیسی ہے اس کے شعلوں میں بھی چمک نہیں۔ ایک حدیث میں ہے کہ اگر دوزخ کی آگ کی ایک چنگاری مشرق میں تو اس کی حرارت مغرب تک پہنچ جائے۔ ابو یعلی کی ایک غریب روایت میں ہے کہ اگر اس مسجد میں ایک لاکھ بلکہ اس سے بھی زیادہ آدمی ہوں اور کوئی جہنمی یہاں آ کر سانس لے تو اس کی گرمی سے مسجد اور مسجد والے سب جل جائیں۔ اور حدیث میں ہے کہ سب سے ہلکے عذاب والا دوزخ میں وہ ہوگا جس کے دونوں پاؤں میں دو جوتیاں آگ کی تسمے سمیت ہوں گی جس کی گرمی سے اس کی کھوپڑی ابل رہی ہوگی اور وہ سمجھ رہا ہوگا کہ سب سے زیادہ سخت عذاب اسی کو ہو رہا ہے حالانکہ دراصل سب سے ہلکا عذاب اسی کا ہے۔ قرآن فرماتا ہے کہ وہ آگ ایسی شعلہ زن ہے جو کھال اتار دیتی ہے۔ اور کئی آیتوں میں ہے ان کے سروں پر کھولتا ہوا گرم پانی بہایا جائے گا۔ جس سے ان کے پیٹ کی تمام چیزیں اور ان کے کھالیں جھلس جائیں گی پھر لوہے کے ہتھوڑوں سے ان کے سر کچلے جائیں گے۔ وہ جب وہاں سے نکلنا چاہیں گے اسی میں لوٹا دیئے جائیں گے اور کہا جائے گا کہ جلنے کا عذاب چکھو۔ ایک اور آیت میں ہے کہ جن لوگوں نے ہماری آیتوں سے انکار کیا انہیں ہم بھڑکتی ہوئی آگ میں ڈال دیں گے ان کی کھالیں جھلستی جائیں گی اور ہم ان کھالوں کے بدلے اور کھالیں بدلتے جائیں گے کہ وہ خوب عذاب چکھیں۔ اس آیت میں بھی فرمایا ہے کہ اگر انہیں سمجھ ہوتی تو وہ جان لیتے کہ جہنم کی آگ کی گرمی اور تیزی بہت زیادہ ہے۔ تو یقینا یہ باوجود موسمی گرمی کے رسول اللہ کے ساتھ جہاد میں خوشی خوشی نکلتے اور اپنے جان و مال کو راہ اللہ میں فدا کرنے پر تل جاتے۔ عرب کا شاعر کہتا ہے کہ تو نے اپنی عمر سردی گرمی سے بچنے کی کوشش میں گذار دی حالانکہ تجھے لائق تھا کہ اللہ کی نافرمانیوں سے بچتا کہ جہنم کی آگ سے بچ جائے۔ اب اللہ تبارک و تعالیٰ ان بدباطن منافقوں کو ڈرا رہا ہے کہ تھوڑی سی زندگی میں یہاں تو جتنا چاہیں ہنس لیں۔ لیکن اس آنے والی زندگی میں ان کے لئے رونا ہے جو کبھی ختم نہ ہوگا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے کہ لوگو روؤ اور رونا نہ آئے تو زبردستی روؤ جہنمی روئیں گے یہاں تک کہ ان کے رخساروں پر نہر جیسے گڑھے پڑجائیں گے آخر آنسو ختم ہوجائیں گے اب آنکھیں خون برسانے لگیں گی ان کی آنکھوں سے اس قدر آنسو اور خون بہا ہوگا کہ اگر کوئی اس میں کشتی چلانی چاہے تو چلا سکتا ہے۔ اور حدیث میں ہے کہ جہنمی جہنم میں روئیں گے اور خوب روتے ہیں رہیں گے، آنسو ختم ہونے کے بعد پیپ نکلنا شروع ہوگا۔ اس وقت دوزخ کے داروغے ان سے کہیں گے اے بدبخت رحم کی جگہ تو تم کبھی ہو نہ روئے اب یہاں کا رونا دھونا لاحاصل ہے۔ اب یہ اونچی آوازوں سے چلا چلا کر جنتیوں سے فریاد کریں گے کہ تم لوگ ہمارے ہو رشتے کنبے کے ہو سنو ہم قبروں سے پیاسے اٹھے تھے پھر میدان حشر میں بھی پیاسے ہی رہے اور آج تک یہاں بھی پیاسے ہی ہیں، ہم پر رحم کرو کچھ پانی ہمارے حلق میں چھو دو یا جو روزی اللہ نے تمہیں دی ہے اس میں سے ہی تھوڑا بہت ہمیں دے دو ۔ چالیس سال تک کتوں کی طرح چیختے رہیں گے چالیس سال کے بعد انہیں جواب ملے گا کہ تم یونہی دھتکارے ہوئے بھوکے پیاسے ہی ان سڑیل اور اٹل سخت عذابوں میں پڑے رہو اب یہ تمام بھلائیوں سے مایوس ہوجائیں گے۔